[/quote] quote="اشماریہ, post: 155567, member: 3713"]
ضد کا کوئی علاج نہیں ہے بھائی جان۔
حلالہ شرط کے ساتھ درست نہیں۔ یعنی جائز نہیں۔ البتہ چوں کہ قرآن نے حلال کرنے کا یہی طریقہ بتایا ہے اس لیے گناہ کے باوجود حلال ہو جائے گی۔
دل میں رکھ کر بھی درست نہیں۔
اس فتوی میں یہ صورت ذکر ہے کہ اگر صرف مرد کے دل میں ہو کہ یار اس سے شادی کر کے پھر طلاق دے دوں گا تو یہ پہلے شوہر کے پاس واپس جا سکے گی۔ ظاہر ہے اس کے بارے میں کہیں بھی منع نہیں آیا۔ عربی آپ حضرات کو پڑھنی نہیں آتی۔ آگے جو عبارت لکھی ہے شامی کی وہ کسی سے ترجمہ کروالیں اس میں صرف مرد کا ذکر ہے اور واحد مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔
اب اگر کوئی علمی اشکال ہے کسی دلیل کی بنا پر تو ارشاد فرمائیے ورنہ معتزلہ کی طرح عقل کے گھوڑے دوڑانے ہیں اور پسند و ناپسند پر فیصلہ کرنا ہے تو بندہ کو معذور سمجھیے۔
جواب اوپر عرض ہے۔ کوئی علمی اشکال ہے تو ارشاد فرمائیے۔
حرام کام کے ذریعے بیوی کو حلال قرآن نے کہا ہے۔ اور جلد بازی کے فیصلے پر حکم عمر رض کا لگایا ہوا ہے۔
ان صاحب کو فرمائیے کہ کسی صحیح اہل حدیث عالم سے مسئلہ پوچھ لیں تجدید ایمان کے لیے۔ اور اگر یہ لعنت کے الفاظ آپ کے ہیں تو خدا کے لیے مجھے اپنا دشمن اور حنفی سمجھ کر ہی مسئلہ معلوم کروا لیجیے
۔[/quote]
استغفراللہ -
کیا الله رب العزت ایک حرام کام کے ذریے ایک عورت کو اپنے پہلے خاوند کے لئے جائز کر رہا ہے - ذرا قران کو غور سے پڑھیے -
١- قرآن کا مطابق ایک عورت طلاق کے بعد اس وقت تک اپنے پہلے خاوند کے لئے جائز نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے اور ایک ایسی ازدواجی زندگی اس کے ساتھ گزارے جیسی اس نے اپنے پہلے خاوند کے ساتھ گزاری تھی -اور پھر وہ شخص اس کو یا تو اپنی مرضی سے طلاق دے یا وہ عورت بیوہ ہو جائے -
٢- حنفی فقہ کے مطابق عورت اس وقت اپنے پہلے خاوند کے لئے جائز ہو گی جب اس کا نکاح ایک "کراے کے سانڈ" (یہ میرے نہیں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ ہیں) کے ساتھ ہو گا اور وہ مخصوص وقت کے لئے اس سے نکاح کرے گا (دوسرے لفظوں میں زنا کرے گا) اور پھر طلاق دے گا تو وہ اپنے پہلے شوہر کے لئے جائز ہو جائے گی -
جہاں تک حضرت عمر رضی الله عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ان کا یہ فیصلہ تعزیری تھا نہ کہ شرعی - جب ہی بعد میں وہ اپنے اس فیصلے پر پشیمان ہوے تھے - اگر عین شرعی ہوتا تو پشیمان ہونے کی کیا ضرورت تھی انھیں- اور اگر آپ حضرت عمر رضی الله عنہ ہی کی بات کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا تھا کہ "اگر حلالہ کرنے والے اور کروانے والے کو مرے پاس لایا گیا تو میں اس کو رجم کی سزا دونگا" (ابو بکر ابن شیبہ)-
میں آپ کا نہیں بلکہ حنفیت کے باطل عقائد کا دشمن ہوں- الله سے دعا ہے کہ آپ کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے(آ مین)-