عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 294
- پوائنٹ
- 165
اس قسم کی شرائط لگانا یہود کا شیوہ تھااس متفق علیہ حدیث میں حکم عام ہے۔کہ جو بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا ،اس کی نماز نہیں ۔اس عموم کی تخصیص کیلئے بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی حدیث چاہئے ،
کل کو ”اہل قرآن“ کی طرح کہنے لگو گےکہ قرآن ہی سے دلیل دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان نعوذ باللہ ادنی درجہ کا بھی ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِسیدنا ابوہریرہ کی یہ حدیث شریف (ما عدا الفاتحہ )یعنی امام کی فاتحہ کے بعد کی قراءت کیلئے ہے ؛
اس کی دلیل خود جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم میں نقل کردہ حدیث میں بصراحت موجود ہے :
« عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثا غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك»
ترجمہ « جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ،اس کی نماز ناقص ،اور غیر مکمل ہے ۔تو سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا ،جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟
فرمایا :تم سورہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر غور بھی فرمایا کریں مگر صد افسوس کہ بزرگوں کی توہین کے سبب اللہ تعالیٰ نے غیر مقلدین (حقیقتاً اندھوں کے اندھے مقلدین) کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہؤا؛
إنا نكون وراء الإمام؟ جب امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تب؟
سوال کرنے والا تابعی بھی ہوسکتا ہے اور صحابی بھی خواہ ان میں سے کوئی بھی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے امام کی اقتدا کے مسئلہ کو منفرد سے الگ کیوں سمجھا؟؟؟
دوسری بات یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ نے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد؛
لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
ذکر فرمانے کی بجائے فرمایا؛اقرأ بها في نفسك
نہ تو انہےں نے فرمایا کہ؛اقرأ بها
اور نہ ہی یہ فرمایا کہ؛
اقرأ بها سِرًّا
بلکہ فرماتے ہیں؛
اقرأ بها في نفسك
اس کو دل ہی دل میں پڑھ لو
امام كى اقتدا میں ممانعت قراءت
کچھ دلائل تو اسی تھریڈ میں گزرے اور کچھ یہ ہیں؛
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآَنَهُ (17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ (18) سورہ قیامۃ۔
اے پیغمبر نزول قرآن کے وقت قراءت نہ کر اس کو جلدی سے یاد کر لینے کے لئے۔ بے شک ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور پڑھوادینا۔ سو جب ہم اس کو پڑھیں سو آپ اس کے پڑھنے میں تابع ہوجایا کریں۔
آنحضرت جبرئیل کے ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ یاد کرلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حکمِ باری تعالیٰ ہؤا کہ جب ہم پڑھیں یعنی ہمارا فرستادہ فرشتہ جبرئیل پڑھے تو خاموشی سے اس کی قرأت کی پیروی کیا کرو یعنی دل لگا کر اسے سنتے رہا کرو (ماخوذ ازتفسیر ثنائی از ثناء اللہ امرتسری)۔
یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں (پڑھیں نہیں)، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے، پس پہلی حالت یاد کرانا، دوسری تلاوت کرانا، تیسری تفسیر، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی، جیسے اور جگہ ہے وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآَنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ ــــــ الآیۃ(طه :114) یعنی جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے کی جلدی نہ کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے، پھر فرماتا ہے اسے تیرے سینے میں جمع کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو سن جب وہ پڑھ چکے تب پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہوگا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے۔
مسند میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے (ابن عباس راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے) اس پر یہ آیت اتری کہ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے۔
بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے، بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ پھر جب وحی اترتی آپ نظریں نیچی کرلیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ پڑھتے (تفسیر ابن کثیر)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’
إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا
(مسلم)‘‘ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب قراءت کرے تو خاموش رہو۔
غیر مقلدین اس حدیث کے حکم سے انکار کے لئے کہتے ہیں کہ چونکہ سورہ فاتحہ قراءت نہیں لہٰذا اس کا اطلاق اس پر نہیں بلکہ بقیہ قرآن پر ہوگا۔ قرآن پاک کی 114 سورتیں ہیں اور سورہ فاتحہ ان میں سے ایک بلکہ قرآنِ عظیم ہے لہٰذا اس حکم میں یہ بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (نسائی)‘‘بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو۔
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن
قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم (ابوداؤد)
(ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک نماز کے بعد جس میں جہری قراءت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی؟ ایک شخص نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فرمایا میں بھی کہوں کہ میرے ساتھ قرآن میں کیوں جھگڑا ہو رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت سے رک گئے جن نمازوں میں نبی صلى الله عليہ وسلم جہری قراءت کرتے تھے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔
نام نہاد غیر مقلدین کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ ان کا یہ خیال باطل ہے کہ اصل سورہ فاتحہ ہی کی ممانعت اس میں ہے کہ یہ ہر کسی کو یاد ہوتی ہے اور اسے کے پڑھے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور یہی ورآن العطیم ہے۔
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ (مسلم)
زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔
یہ جلیل القدر صحابی ہیں ان کے مقابلہ میں کسی اور کی چوں چرا کی کوئی اہمیت نہیں۔
علي قال : من قرأ خلف الامام فقد أخطأ الفطرة (ابن ابی شیبہ)۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت (سنت) سے دور ہؤا۔
أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا ، وسيكفيك ذلك الامام (مصنف عبد الرزاق)۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قراءتِ قرآن کے وقت خاموشی اختیار کرو اور امام تمارے لئے قراءتِ قرآن کے لئے کافی ہے۔
وما علینا الا البلاغ