• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی حضرات کا اس آیت سے فاتحہ نہ پڑھنے کا استدلال غلط ہے

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس متفق علیہ حدیث میں حکم عام ہے۔کہ جو بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا ،اس کی نماز نہیں ۔اس عموم کی تخصیص کیلئے بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی حدیث چاہئے ،
اس قسم کی شرائط لگانا یہود کا شیوہ تھا
کل کو ”اہل قرآن“ کی طرح کہنے لگو گےکہ قرآن ہی سے دلیل دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان نعوذ باللہ ادنی درجہ کا بھی ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

سیدنا ابوہریرہ کی یہ حدیث شریف (ما عدا الفاتحہ )یعنی امام کی فاتحہ کے بعد کی قراءت کیلئے ہے ؛
اس کی دلیل خود جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم میں نقل کردہ حدیث میں بصراحت موجود ہے :
« عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثا غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك»
ترجمہ « جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ،اس کی نماز ناقص ،اور غیر مکمل ہے ۔تو سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا ،جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟
فرمایا :تم سورہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو ۔‘‘
فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر غور بھی فرمایا کریں مگر صد افسوس کہ بزرگوں کی توہین کے سبب اللہ تعالیٰ نے غیر مقلدین (حقیقتاً اندھوں کے اندھے مقلدین) کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہؤا؛
إنا نكون وراء الإمام؟ جب امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تب؟

سوال کرنے والا تابعی بھی ہوسکتا ہے اور صحابی بھی خواہ ان میں سے کوئی بھی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے امام کی اقتدا کے مسئلہ کو منفرد سے الگ کیوں سمجھا؟؟؟
دوسری بات یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ نے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد؛
لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
ذکر فرمانے کی بجائے فرمایا؛
اقرأ بها في نفسك
نہ تو انہےں نے فرمایا کہ؛
اقرأ بها
اور نہ ہی یہ فرمایا کہ؛
اقرأ بها سِرًّا
بلکہ فرماتے ہیں؛
اقرأ بها في نفسك
اس کو دل ہی دل میں پڑھ لو


امام كى اقتدا میں ممانعت قراءت

کچھ دلائل تو اسی تھریڈ میں گزرے اور کچھ یہ ہیں؛

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآَنَهُ (17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ (18) سورہ قیامۃ۔
اے پیغمبر نزول قرآن کے وقت قراءت نہ کر اس کو جلدی سے یاد کر لینے کے لئے۔ بے شک ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور پڑھوادینا۔ سو جب ہم اس کو پڑھیں سو آپ اس کے پڑھنے میں تابع ہوجایا کریں۔

آنحضرت جبرئیل کے ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ یاد کرلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حکمِ باری تعالیٰ ہؤا کہ جب ہم پڑھیں یعنی ہمارا فرستادہ فرشتہ جبرئیل پڑھے تو خاموشی سے اس کی قرأت کی پیروی کیا کرو یعنی دل لگا کر اسے سنتے رہا کرو (ماخوذ ازتفسیر ثنائی از ثناء اللہ امرتسری)۔

یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں (پڑھیں نہیں)، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے، پس پہلی حالت یاد کرانا، دوسری تلاوت کرانا، تیسری تفسیر، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی، جیسے اور جگہ ہے وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآَنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ ــــــ الآیۃ(طه :114) یعنی جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے کی جلدی نہ کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے، پھر فرماتا ہے اسے تیرے سینے میں جمع کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو سن جب وہ پڑھ چکے تب پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہوگا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے۔

مسند میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے (ابن عباس راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے) اس پر یہ آیت اتری کہ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے۔

بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے، بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ پھر جب وحی اترتی آپ نظریں نیچی کرلیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ پڑھتے (تفسیر ابن کثیر)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’
إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا
(مسلم)‘‘ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب قراءت کرے تو خاموش رہو۔

غیر مقلدین اس حدیث کے حکم سے انکار کے لئے کہتے ہیں کہ چونکہ سورہ فاتحہ قراءت نہیں لہٰذا اس کا اطلاق اس پر نہیں بلکہ بقیہ قرآن پر ہوگا۔ قرآن پاک کی 114 سورتیں ہیں اور سورہ فاتحہ ان میں سے ایک بلکہ قرآنِ عظیم ہے لہٰذا اس حکم میں یہ بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (نسائی)‘‘بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو۔


أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن
قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم (ابوداؤد)


(ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک نماز کے بعد جس میں جہری قراءت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی؟ ایک شخص نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فرمایا میں بھی کہوں کہ میرے ساتھ قرآن میں کیوں جھگڑا ہو رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت سے رک گئے جن نمازوں میں نبی صلى الله عليہ وسلم جہری قراءت کرتے تھے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔
نام نہاد غیر مقلدین کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ ان کا یہ خیال باطل ہے کہ اصل سورہ فاتحہ ہی کی ممانعت اس میں ہے کہ یہ ہر کسی کو یاد ہوتی ہے اور اسے کے پڑھے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور یہی ورآن العطیم ہے۔

سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ (مسلم)
زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔

یہ جلیل القدر صحابی ہیں ان کے مقابلہ میں کسی اور کی چوں چرا کی کوئی اہمیت نہیں۔

علي قال : من قرأ خلف الامام فقد أخطأ الفطرة (ابن ابی شیبہ)۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت (سنت) سے دور ہؤا۔

أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا ، وسيكفيك ذلك الامام (مصنف عبد الرزاق)۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قراءتِ قرآن کے وقت خاموشی اختیار کرو اور امام تمارے لئے قراءتِ قرآن کے لئے کافی ہے۔
وما علینا الا البلاغ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس متفق علیہ حدیث میں حکم عام ہے۔کہ جو بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا ،اس کی نماز نہیں ۔اس عموم کی تخصیص کیلئے بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی حدیث چاہئے ،
اس قسم کی شرائط لگانا یہود کا شیوہ تھا
کل کو ”اہل قرآن“ کی طرح کہنے لگو گےکہ قرآن ہی سے دلیل دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان نعوذ باللہ ادنی درجہ کا بھی ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

سیدنا ابوہریرہ کی یہ حدیث شریف (ما عدا الفاتحہ )یعنی امام کی فاتحہ کے بعد کی قراءت کیلئے ہے ؛
اس کی دلیل خود جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم میں نقل کردہ حدیث میں بصراحت موجود ہے :
« عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثا غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك»
ترجمہ « جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ،اس کی نماز ناقص ،اور غیر مکمل ہے ۔تو سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا ،جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟
فرمایا :تم سورہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو ۔‘‘
فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر غور بھی فرمایا کریں مگر صد افسوس کہ بزرگوں کی توہین کے سبب اللہ تعالیٰ نے غیر مقلدین (حقیقتاً اندھوں کے اندھے مقلدین) کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہؤا؛
إنا نكون وراء الإمام؟ جب امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تب؟

سوال کرنے والا تابعی بھی ہوسکتا ہے اور صحابی بھی خواہ ان میں سے کوئی بھی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے امام کی اقتدا کے مسئلہ کو منفرد سے الگ کیوں سمجھا؟؟؟
دوسری بات یہ کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ نے اس سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد؛
لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
ذکر فرمانے کی بجائے فرمایا؛
اقرأ بها في نفسك
نہ تو انہےں نے فرمایا کہ؛
اقرأ بها
اور نہ ہی یہ فرمایا کہ؛
اقرأ بها سِرًّا
بلکہ فرماتے ہیں؛
اقرأ بها في نفسك
اس کو دل ہی دل میں پڑھ لو


امام كى اقتدا میں ممانعت قراءت

کچھ دلائل تو اسی تھریڈ میں گزرے اور کچھ یہ ہیں؛

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآَنَهُ (17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ (18) سورہ قیامۃ۔
اے پیغمبر نزول قرآن کے وقت قراءت نہ کر اس کو جلدی سے یاد کر لینے کے لئے۔ بے شک ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور پڑھوادینا۔ سو جب ہم اس کو پڑھیں سو آپ اس کے پڑھنے میں تابع ہوجایا کریں۔

آنحضرت جبرئیل کے ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ یاد کرلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حکمِ باری تعالیٰ ہؤا کہ جب ہم پڑھیں یعنی ہمارا فرستادہ فرشتہ جبرئیل پڑھے تو خاموشی سے اس کی قرأت کی پیروی کیا کرو یعنی دل لگا کر اسے سنتے رہا کرو (ماخوذ ازتفسیر ثنائی از ثناء اللہ امرتسری)۔

یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ پڑھتے تھے، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں (پڑھیں نہیں)، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے، پس پہلی حالت یاد کرانا، دوسری تلاوت کرانا، تیسری تفسیر، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی، جیسے اور جگہ ہے وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآَنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ ــــــ الآیۃ(طه :114) یعنی جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے کی جلدی نہ کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے، پھر فرماتا ہے اسے تیرے سینے میں جمع کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو سن جب وہ پڑھ چکے تب پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہوگا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے۔

مسند میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے (ابن عباس راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے) اس پر یہ آیت اتری کہ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے۔

بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے، بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ پھر جب وحی اترتی آپ نظریں نیچی کرلیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ پڑھتے (تفسیر ابن کثیر)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’
إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا
(مسلم)‘‘ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب قراءت کرے تو خاموش رہو۔

غیر مقلدین اس حدیث کے حکم سے انکار کے لئے کہتے ہیں کہ چونکہ سورہ فاتحہ قراءت نہیں لہٰذا اس کا اطلاق اس پر نہیں بلکہ بقیہ قرآن پر ہوگا۔ قرآن پاک کی 114 سورتیں ہیں اور سورہ فاتحہ ان میں سے ایک بلکہ قرآنِ عظیم ہے لہٰذا اس حکم میں یہ بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (نسائی)‘‘بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو۔


أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال هل قرأ معي أحد منكم آنفا فقال رجل نعم يا رسول الله قال إني أقول مالي أنازع القرآن
قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم (ابوداؤد)


(ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک نماز کے بعد جس میں جہری قراءت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی؟ ایک شخص نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فرمایا میں بھی کہوں کہ میرے ساتھ قرآن میں کیوں جھگڑا ہو رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت سے رک گئے جن نمازوں میں نبی صلى الله عليہ وسلم جہری قراءت کرتے تھے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔
نام نہاد غیر مقلدین کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ ان کا یہ خیال باطل ہے کہ اصل سورہ فاتحہ ہی کی ممانعت اس میں ہے کہ یہ ہر کسی کو یاد ہوتی ہے اور اسے کے پڑھے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور یہی ورآن العطیم ہے۔

سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ (مسلم)
زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔

یہ جلیل القدر صحابی ہیں ان کے مقابلہ میں کسی اور کی چوں چرا کی کوئی اہمیت نہیں۔

علي قال : من قرأ خلف الامام فقد أخطأ الفطرة (ابن ابی شیبہ)۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی وہ فطرت (سنت) سے دور ہؤا۔

أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا ، وسيكفيك ذلك الامام (مصنف عبد الرزاق)۔
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قراءتِ قرآن کے وقت خاموشی اختیار کرو اور امام تمارے لئے قراءتِ قرآن کے لئے کافی ہے۔
وما علینا الا البلاغ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
نیٹ ورک کی خرابی کی وجہ سے فائل دو دفعہ اپلوڈ ہو فئی ہے جس کے لئے معذرت خواہ ہوں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر غور بھی فرمایا کریں مگر صد افسوس کہ بزرگوں کی توہین کے سبب اللہ تعالیٰ نے غیر مقلدین (حقیقتاً اندھوں کے اندھے مقلدین) کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیا ہے۔
تقلیدی جہالت کے سبب اپنے ہی خلاف آیت لکھ دی ،اور اس ترجمہ بھی جہالت کے سبب نہیں لکھا ۔
’’ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ ‘‘
ترجمہ : ۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔
اور مسلمہ حقیقت ہے کہ :۔ قرآن و سنت سے دوری کے سبب مقلدین دل کے اندھے ہوتے ہیں ،کیونکہ دلوں کا نور تو قرآن و سنت سے ہی حاصل ہوتا ہے ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآَنَهُ (17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ (18) سورہ قیامۃ۔
اے پیغمبر نزول قرآن کے وقت قراءت نہ کر اس کو جلدی سے یاد کر لینے کے لئے۔ بے شک ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور پڑھوادینا۔ سو جب ہم اس کو پڑھیں سو آپ اس کے پڑھنے میں تابع ہوجایا کریں۔

آنحضرت جبرئیل کے ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ یاد کرلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حکمِ باری تعالیٰ ہؤا کہ جب ہم پڑھیں یعنی ہمارا فرستادہ فرشتہ جبرئیل پڑھے تو خاموشی سے اس کی قرأت کی پیروی کیا کرو یعنی دل لگا کر اسے سنتے رہا کرو (ماخوذ ازتفسیر ثنائی از ثناء اللہ امرتسری)۔
اس آیت کریمہ کا زیر بحث موضوع سے کیا تعلق؟
یہ آیت تو فرشتے سے سن کر یاد کرنے کی حالت کے متعلق ہے ۔۔جب وہ آپ ﷺ کے پاس نئی وحی لاتا ؛
کیا حنفی مقلد امام سے سورہ فاتحہ سن کر یاد کیا کرتے ہیں ۔۔اگر واقعی یاد کرنے کیلئے خود نہیں پڑھتے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــ
ویسے یاد رہے :
مقلدین ختم شریف میں شامل سبھی حضرات ایک ہی وقت میں قرآن پڑھتے ہیں ۔اور ختم کرنے کے بعد سب باری باری بتاتے ہیں کہ میں نے اتنا پڑھا ،
اور ساتھ بیٹھ کر پڑھنے والے کا بالکل بھی نہیں سنا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’
إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا
اور
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ (مسلم)
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ (مسلم)

سیدنا زید بن ثابت کا قول (ما عدا الفاتحہ )یعنی امام کی فاتحہ کے بعد کی قراءت کیلئے ہے ؛
اس کی دلیل جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم میں نقل کردہ حدیث میں بصراحت موجود ہے :
« عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثا غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك»
ترجمہ « جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ،اس کی نماز ناقص ،اور غیر مکمل ہے ۔تو سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا ،جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟
فرمایا :تم سورہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو ۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــ۔
اور یاد رہے :
«اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» سے مراد « دل ہی دل » میں نہیں ،بلکہ ’’ سراً ۔۔دون الجہر ‘‘ ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ « كتاب القراءة خلف الإمام » میں فرماتے ہیں :
’’ والمراد بقوله: «اقرأ بها في نفسك» أن يتلفظ بها سرا دون الجهر بها ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة »
یعنی «اقرأ بها في نفسك» کا معنی ہے :جہر کے بغیر سراً لفظ پڑھے جائیں ۔۔اور «اقرأ بها في نفسك»کو ’’ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر پر محمول کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اہل زبان کا اس پر اجماع ہے کہ الفاظ ادا کئے بغیر قلبی ذکر ‘‘ کو ۔۔قراءة۔۔نہیں کہا جاتا ۔
اسلئے دل ہی دل میں پڑھنے کا ترجمہ بالکل غلط ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــ
کیا حلوے شریف کیلئے ختم قرآن میں شرکاء ۔۔دل ہی دل قرآن ۔۔پڑھتے ہیں ۔
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اے عبد الرحمن! تو ان لوگوں کے سامنے قرآن اور حدیث پیش کر رہا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ؛
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آَذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
تو ان کے سامنے قرآن پیش کرتا ہے اور وہ نفی میں سر ہلا کر کہتا ہے کہ ہوں اس سے تو حنفی مسلک کی تائید ہوتی ہے یہ قرآن نہیں بلکہ کسی حنفی کتاب کا حوالہ ہے لہٰذا شور مچاؤ ۔۔۔ تقلید تقلید ۔۔۔ مشرک مشرک
اے عبد الرحمن! تو ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پیش کرتا ہے اور وہ نفی میں سر ہلا کر کہتا ہے ہوں اس سے حنفی مسلک کی تائید ہوتی ہےیہ حدیث نہیں بلکہ کسی حنفی کتاب کا حوالہ ہے لہٰذا شور مچاؤ ۔۔۔ مقلد مقلد ۔۔۔ مشرک مشرک
یہ ایسے بد نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ کیا ”جلی ہوئی روٹی“ کا کوئی علاج ہے؟
برصغیر میں مسلمانوں کو دوگروہوں میں بانٹنے والے انہی کے مسلک کے ”تقیہ باز“ تھے جنہوں نے ”محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ کا نام استعمال کرکے ہی دھوکہ دیا۔ ایک طبقہ ان کے دھوکہ میں نہ آیا تو انہوں نے ہی پینترا بدلا اور ”اہلِحدیث “ نام رکھ کر دھوکہ دیا۔
ان کے دھوکہ میں آنے والے بے چارے عوام کا قصور نہیں

ان کا تعلق ”تقیہ“ کرنے والے گروہ سے ہے جس سے بچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں

مدینہ منورہ مین جو ”تقیہ“ کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر چرانے آئے تھے انہوں نے مدینہ کے تمام مسلمانوں کو کیسے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اس کی وجہ ان کا ”تقیہ“ تھا جس سے بڑے بڑے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
ان کے طریقہ واردات پر نظر رکھیں تو انشاء اللہ ان کے مکر سے بچ جاؤ گے وگرنہ نہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اے عبد الرحمن! تو ان لوگوں کے سامنے قرآن اور حدیث پیش کر رہا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ؛
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آَذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
تو ان کے سامنے قرآن پیش کرتا ہے اور وہ نفی میں سر ہلا کر کہتا ہے کہ ہوں اس سے تو حنفی مسلک کی تائید ہوتی ہے یہ قرآن نہیں بلکہ کسی حنفی کتاب کا حوالہ ہے لہٰذا شور مچاؤ ۔۔۔ تقلید تقلید ۔۔۔ مشرک مشرک
اے عبد الرحمن! تو ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پیش کرتا ہے اور وہ نفی میں سر ہلا کر کہتا ہے ہوں اس سے حنفی مسلک کی تائید ہوتی ہےیہ حدیث نہیں بلکہ کسی حنفی کتاب کا حوالہ ہے لہٰذا شور مچاؤ ۔۔۔ مقلد مقلد ۔۔۔ مشرک مشرک
یہ ایسے بد نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ کیا ”جلی ہوئی روٹی“ کا کوئی علاج ہے؟
برصغیر میں مسلمانوں کو دوگروہوں میں بانٹنے والے انہی کے مسلک کے ”تقیہ باز“ تھے جنہوں نے ”محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ کا نام استعمال کرکے ہی دھوکہ دیا۔ ایک طبقہ ان کے دھوکہ میں نہ آیا تو انہوں نے ہی پینترا بدلا اور ”اہلِحدیث “ نام رکھ کر دھوکہ دیا۔
ان کے دھوکہ میں آنے والے بے چارے عوام کا قصور نہیں

ان کا تعلق ”تقیہ“ کرنے والے گروہ سے ہے جس سے بچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں

مدینہ منورہ مین جو ”تقیہ“ کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر چرانے آئے تھے انہوں نے مدینہ کے تمام مسلمانوں کو کیسے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اس کی وجہ ان کا ”تقیہ“ تھا جس سے بڑے بڑے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
ان کے طریقہ واردات پر نظر رکھیں تو انشاء اللہ ان کے مکر سے بچ جاؤ گے وگرنہ نہیں۔
محترم -

بات یہ ہے کہ فاتحہ خلف الامام کا اثبات قران و حدیث میں تحقیق کے بعد ہی اہل حدیث کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے- نا کہ کسی کی جامد تقلید کے بعد یہ موقف اختیار کیا گیا ہے - اب اگر آپ کا یہ دعوی ہے کہ آپ کی تحقیق سو فیصد درست ہے آپ کے پیش کردہ روایات کے مطابق تو آپ کو کس حکیم نے یہ مشورہ دیا ہے کہ آپ دھڑلے سے اپنے آپ کو "حنفی" کہلوائیں ؟؟- محترم اصل بات نیت کی ہے نہ کہ اس بات کی کہ اہل حدیث آپ کو زور زبردستی سے غلط ثابت کرتے ہیں اور آپ کو مقلد مقلد کہتے ہیں- آپ کا سلوگن صرف یہی ہے کہ اپنے امام کی فقہ کو بچاؤ چاہے اس کے لئے قرآن و حدیث کے اجماعی موقف کے خلاف بھی جانا پڑے- تحقیق سے آپ کو کسی نے روکا ہے - لیکن حنفی کہلانے کا حکم نہ تو قرآن میں ہے اور نہ حدیث رسول میں ہے- کیا قرآن کی یہ آیت آپ کے لئے نہیں؟؟-

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنْتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُمْ مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ - فَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ سوره یونس ٢٨-٢٩
اور جس دن ہم ان سب کو جمع کرینگے پھر مشرکوں سے کہیں گے تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ کھڑے رہو تو ہم ان میں پھوٹ ڈال دینگے اور ان کے شریک کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے- سو اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے کہ ہمیں تمہاری عبادت کی خبر ہی نہ تھی-
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اور نماز فجر کی جماعت ہوتے ہوئے جو مقلدین سنتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں ،(جب امام جہری قراءت کر رہا ہوتا ہے ،اور اس دوران آنے والا مقلد قراءت سننے کی بجائے ،اپنی سنتیں پڑھنے لگتا ہے ) اس کی ’’ تخصیص ‘‘ تقلیدی مفتیوں نے قرآن کی کس آیت مبارکہ سے اخذ کی ہے ؟
جناب! ایک طرف تو نماز میں بھی مقتدی کو امام کے ساتھ ساتھ پڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف نماز سے باہر کے لئے نہ سننے کا اعتراض کر رہے ہو۔ جاہل ہو کہ نہیں؟؟؟؟ اور کیا جناب اندھی تقلید میں مبتلا نہیں ؟؟؟؟؟؟
یہ بات بارہا لکھی جاچکی ہے کہ مفرین کرام نے صحابہ کرام سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچائی ہے کہ ؛
وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا
یہ حکم نماز کے لئے ہے غیر نماز کے لئے نہیں۔
جناب اس آیت کو بغور پڑھیں (بشرطیکہ جناب میں یہ صلاحیت موجود ہو ) یہ خود وضاحت کر رہی ہے۔
وإذا قرئ یعنی جب قراءت کرنے والا اس پر مامور ہو کہ وہ دوسروں کو سنائے۔ نماز میں امام اس بات پر مامور ہوتا ہے کہ وہ مقتدیوں کو (نہ کہ محلے والوں کو) قرآن سنائے اور مقتدی اس پر مامور ہے کہ وہ سنے۔ اسی طرح اگر حسنِ قراءت کی محفل میں قاری قراءت بلند آواز میں کرنے کا پابند ہوتا ہے اور اس محفل میں جانے والا اس کو سننے کا۔
سنتیں پڑھنے والا امام کی اقتدا میں نہیں کہ اس پر قراءت امام سننا لازم آئے۔ بعین اس طرح کہ مسجد کے ہمسائے میں موجود خواتین اس کی مکلف نہیں ہیں۔

اس متفق علیہ حدیث میں حکم عام ہے۔کہ جو بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھے گا ،اس کی نماز نہیں ۔اس عموم کی تخصیص کیلئے بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی حدیث چاہئے ،
اس ”حکم عام“ کا حکم کس حدیث میں ہے بیان فرمائیے۔
یہ ”حکم عام“ جناب کی حدیث نفس کی اختراع ہے۔


« عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج» ثلاثا غير تمام. فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: «اقرأ بها في نفسك»
ترجمہ « جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ،اس کی نماز ناقص ،اور غیر مکمل ہے ۔تو سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا ،جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟
فرمایا :تم سورہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو ۔‘‘
جناب! قولِ صحابی کی غلط تاویل کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہو!!!!!!!!!!
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم؛
سنن ابن ماجه: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ جب امام قرأت کرےتو خاموش رہو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، چنانچہ جب وہ اللہ اکبر کہتے تو تم اللہ اکبر کہو، جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو، اور جب وہ ( غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ ) پڑھے تو آمین کہو، جب وہ رکوع کرے تو رکوع کرو، جب وہ ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہے تو کہو(اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لئے تعریفیں ہیں‘‘جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو‘‘۔
حکم : حسن صحیح
آپ کو شاید علم نہیں ، یاآپ بھول گئے کہ ۔۔تقلید شیوہ یہود ۔۔ہے ،جنہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو ۔۔رب کا درجہ دے رکھا تھا ۔۔
جناب! بھول کیسے سکتا ہوں کہ ابھی تک انہی سے واسطہ ہے جو لوگوں کی کم علمی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور انہیں اہل السنت والجماعت کی بجائے جاہلوں کا مقلد بنانا چاہتے ہیں اور یہ یہود کا شیوہ تھا اور ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
تقلیدی جہالت کے سبب اپنے ہی خلاف آیت لکھ دی ،اور اس ترجمہ بھی جہالت کے سبب نہیں لکھا ۔
جناب مجھے معلوم نہیں تھا کہ جناب اتنے جاہل ہیں !!!!!!!!!!!!!!!!!!وگرنہ ضرور لکھ دیتا۔

یہ آیت تو فرشتے سے سن کر یاد کرنے کی حالت کے متعلق ہے ۔۔جب وہ آپ ﷺ کے پاس نئی وحی لاتا ؛
جناب فرشتہ کی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا بھی حکم ہے لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ سے۔کما لا یخفیٰ

سیدنا زید بن ثابت کا قول (ما عدا الفاتحہ )یعنی امام کی فاتحہ کے بعد کی قراءت کیلئے ہے ؛
یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حدیث میں فرمائی ذرا بتائیں تو سہی!!!!!
ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان؛
سنن ابن ماجه: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ جب امام قرأت کرےتو خاموش رہو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، چنانچہ جب وہ اللہ اکبر کہتے تو تم اللہ اکبر کہو، جب وہ قراءت کرے تو خاموش رہو، اور جب وہ ( غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ ) پڑھے تو آمین کہو، جب وہ رکوع کرے تو رکوع کرو، جب وہ ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہے تو کہو(اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے ہی لئے تعریفیں ہیں‘‘جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز پڑھو‘‘۔
حکم : حسن صحیح
اور اللہ تعالیٰ کے فرمان؛
وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا الآیۃ
جب قرآن پڑھا جائے تو اسکو توجہ سے سنو اور خاموش رہو الخ
فرمانِ باری تعالیٰ جل شانہٗ اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کی تصدیق کر رہے ہیں اور حکم ہے کہ قراءتِ قرآن کے وقت اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو۔

جناب فرمائیں کہ کیا یہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال ہیں یا جن پر ایمان کے جناب دعویٰ رکھتے ہیں ان کے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ْ

ترجمہ « جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ،اس کی نماز ناقص ،اور غیر مکمل ہے ۔تو سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا ،جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟
فرمایا :تم سورہ فاتحہ آہستہ پڑھ لو ۔‘‘
قول صحابی سے قول رسول کو رد کرنے کی جرءت ”تقیہ“ کرنے والوں سے ہی ہوسکتی ہے۔


اپنے امام کی فقہ کو بچاؤ چاہے اس کے لئے قرآن و حدیث کے اجماعی موقف کے خلاف بھی جانا پڑے-
کون کیا کر رہا ہے یہ جناب کو تو روزِ روشن کی طرح معلوم ہی ہے قارئین بھی دیکھ لیں کو اپنی ”فقہ“ بچانے کی تگ و دو میں لگے ہیں اور کون ”اجماعی“ مؤقف کے خلاف ہیں۔

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعۃ
اللھم ارنا الباطل باطلا وارقنا اجتنابہ
 

اٹیچمنٹس

Top