• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی مقلد جواب دیں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یہ بتائیے کیا اس مسئلہ میں ابوحنیفہ رح کے پاس کوئی دلیل ہے یا انہوں نے بلا کسی دلیل یہ بات کہ دی ہے؟
بھائی! یہ میں کیسے بتا سکتا ہوں، آپ کے امام ہیں آپ بتائیے کہ انہوں نے یہ بات دلیل کے ساتھ کی یا بغیر دلیل کے؟
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ بغیر دلیل کے تو مان لیں کہ ابوحنیفہ صاحب بغیر دلیل کے بات کیا کرتے تھے ، اسی لیے محدثین نے انہیں اہل الرائے میں شمار کیا ہے۔
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات دلیل سے کی ہے، تو صاف ظاہر ہے کہ دلیل یا تو قرآن میں سے ہونی چاہیے یا حدیث میں سے، کیونکہ ہمارے نزدیک تو صرف قرآن و حدیث ہی معتبر ہیں ، اب آپ وہ دلیل ہمارے سامنے ذکر کریں۔
اگر شوال کے چھ روزوں پر کسی کا بھی عمل تھا اور کوئی ایک شخص بھی ان کے بارے میں روایت کرتا تھا تو کیا ابو حنیفہ رح بلا دلیل اس کا انکار کر سکتے ہیں۔ جب آپ اپنے بیان کیے ہوئے مسئلہ پر اس تناظر میں تحقیق کریں گے تو آپ کے سامنے بآسانی واضح ہو جائے گا۔
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس چھ روزوں کی حدیث کو روایت کرنے والا یک شخص بھی وہاں موجود تھا تو ابوحنیفہ صاحب اس کا بلا دلیل رد نہیں کر سکتے بلکہ انہوں نے دلیل کے ساتھ ہی رد کیا ہو گا ، یا کوئی دلیل دی ہو گی تو یہاں بھی وہی بات آئے گی جو اوپر میں نے دو پوائنٹس میں کہی۔
صرف ابو حنیفہ نہیں تمام تابعین۔ آپ خود سوچیں کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بغداد اور اس کے قریب کوفہ میں جب کہ یہ اسلامی سلطنت کے دار الحکومت بھی رہے ہیں کوئی ایک ایسا صحابی یا تابعی بھی نہ تھا جو ایک حدیث نہیں جانتا تھا اور نہ اس پر کسی کا عمل تھا؟
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر ایسی بات ہے جو آپ نے بیان کی ہے کہ تابعین کے دور میں اسلام کی طرف زیادہ لوگوں کا میلان تھا اور یہ نہیں ہو سکتا کہ ابوحنیفہ صاحب کے سامنے شوال کے 6 روزے رکھنے والی حدیث نہ گزری ہو تو پھر ہمارا سوال ہے کہ انہوں نے شوال کے 6 روزوں کو مکروہ کیوں کہا، یہاں بھی پھر وہی بات آئے گی کہ:
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ہو گی تو مان لیں کہ فقہ حنفی میں اکثر مسائل اسی طرح ابوحنیفہ صاحب تک احادیث نا پہنچنے کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں۔
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ ان کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے،انہوں نے ایسا نہیں کہا، تو آپ مان لیں کہ فقہ حنفی میں ابوحنیفہ صاحب کی طرف کئی باتیں غلط منسوب کی گئی ہیں۔
  • اور تیسرا پوائنٹ ، اگر آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کسی "دلیل" سے کی ہو گی تو گزارش ہے کہ وہ دلیل یہاں ذکر کی جائے، دلیل قرآن کی آیات یا احادیث میں سے ہونا ضروری ہے۔
حیرت ہے اکثر مسائل کیسے ناقابل عمل ہو گئے۔ خیر ہم اسے بالفرض ممکن مان لیتے ہیں۔
موجودہ فقہ حنفی میں نہ صرف اکثر مسائل بلکہ پورافقہ حنفی قرآن و سنت کے خلاف نظر آتا ہے، جس کی ایک مثال ہم نے اوپر دی کہ حدیث میں شوال کے 6روزے رکھنے کا حکم دیا اور ابوحنیفہ صاحب نے ان روزوں کو مکروہ قرار دیا، آپ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بات تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے کہ اسی طرح موجودہ فقہ حنفی میں اور بھی بہت سارے ایسے مسائل ہیں جو ابوحنیفہ صاحب کی طرف منسوب ہیں جو قرآن و حدیث کی نصوص سے واضح ٹکراتے نظر آتے ہیں، تو آپ لوگ تقلید چھوڑ کر تحقیق کے مزاج کو کیوں نہیں اپناتے؟
ایسا کیوں ہوا؟ صرف تحقیق کی وجہ سے۔
یہ نقطہ نظر تو ہمارا ہے کہ ہر معاملے کی تحقیق ہونی چاہیے، لیکن اسی تحقیقی مزاج کی وجہ سے احناف مقلدین کی طرف سے ہمیں طعن و تشنیع بلکہ بسا اوقات گالیوں تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ جو بات آپ نے اوپر بیان کی ہے یہی بات ہم کہتے ہیں جو ائمہ اربعہ کا اپنا موقف بھی ہے کہ ہماری بات کتاب و سنت سے ٹکرائے تو چھوڑ دی جائے اور کتاب و سنت پر عمل پیرا ہویا جائے۔لیکن موجودہ فقہ حنفی پر عمل پیرا لوگ اس بات سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں۔
تو جب معاملہ یوں ہو تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی جگہ فقہ حنفی کا مسئلہ حدیث سے ٹکرائے گا اور بلا دلیل ہم فقہ حنفی کو ہی مانتے رہیں گے؟
آپ نہ مانیں، لیکن دیگر حنفی حضرات کو ملاحظہ فرمائیں تو وہ فقہ حنفی کو مانتے ہی نظر آئیں گے۔اگر ایسا ہو جائے کہ فقہ حنفی کے تمام تر وہ مسائل جو قرآن و حدیث سے ٹکراتے ہیں وہاں فقہ حنفی کو چھوڑ دیا جائے اور قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو جایا جائے تو یہ تقلید کی عمارت زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ان شاءاللہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ بتائیے کیا اس مسئلہ میں ابوحنیفہ رح کے پاس کوئی دلیل ہے یا انہوں نے بلا کسی دلیل یہ بات کہ دی ہے؟
اگر شوال کے چھ روزوں پر کسی کا بھی عمل تھا اور کوئی ایک شخص بھی ان کے بارے میں روایت کرتا تھا تو کیا ابو حنیفہ رح بلا دلیل اس کا انکار کر سکتے ہیں۔
جب آپ اپنے بیان کیے ہوئے مسئلہ پر اس تناظر میں تحقیق کریں گے تو آپ کے سامنے بآسانی واضح ہو جائے گا۔
اشماریہ بھائی آپ دوسروں سے دلیل کیوں مانگتے ہین ؟ کراہت کا دعوی آپ کا ہے اس لیے دلیل بھی آپ ہی کو دینی چاہیے ورنہ چھ روزوں کے بارے واضح دلیل موجود ہے جس سے آپ بھی واقف ہوں گے اللہ اآپ کا حامی و ناصر ہو
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بھائی! یہ میں کیسے بتا سکتا ہوں، آپ کے امام ہیں آپ بتائیے کہ انہوں نے یہ بات دلیل کے ساتھ کی یا بغیر دلیل کے؟
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ بغیر دلیل کے تو مان لیں کہ ابوحنیفہ صاحب بغیر دلیل کے بات کیا کرتے تھے ، اسی لیے محدثین نے انہیں اہل الرائے میں شمار کیا ہے۔
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات دلیل سے کی ہے، تو صاف ظاہر ہے کہ دلیل یا تو قرآن میں سے ہونی چاہیے یا حدیث میں سے، کیونکہ ہمارے نزدیک تو صرف قرآن و حدیث ہی معتبر ہیں ، اب آپ وہ دلیل ہمارے سامنے ذکر کریں۔
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس چھ روزوں کی حدیث کو روایت کرنے والا یک شخص بھی وہاں موجود تھا تو ابوحنیفہ صاحب اس کا بلا دلیل رد نہیں کر سکتے بلکہ انہوں نے دلیل کے ساتھ ہی رد کیا ہو گا ، یا کوئی دلیل دی ہو گی تو یہاں بھی وہی بات آئے گی جو اوپر میں نے دو پوائنٹس میں کہی۔

میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر ایسی بات ہے جو آپ نے بیان کی ہے کہ تابعین کے دور میں اسلام کی طرف زیادہ لوگوں کا میلان تھا اور یہ نہیں ہو سکتا کہ ابوحنیفہ صاحب کے سامنے شوال کے 6 روزے رکھنے والی حدیث نہ گزری ہو تو پھر ہمارا سوال ہے کہ انہوں نے شوال کے 6 روزوں کو مکروہ کیوں کہا، یہاں بھی پھر وہی بات آئے گی کہ:
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ہو گی تو مان لیں کہ فقہ حنفی میں اکثر مسائل اسی طرح ابوحنیفہ صاحب تک احادیث نا پہنچنے کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں۔
  • اگر آپ کہتے ہیں کہ ان کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے،انہوں نے ایسا نہیں کہا، تو آپ مان لیں کہ فقہ حنفی میں ابوحنیفہ صاحب کی طرف کئی باتیں غلط منسوب کی گئی ہیں۔
  • اور تیسرا پوائنٹ ، اگر آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کسی "دلیل" سے کی ہو گی تو گزارش ہے کہ وہ دلیل یہاں ذکر کی جائے، دلیل قرآن کی آیات یا احادیث میں سے ہونا ضروری ہے۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ کسی بھی موقف کے دلائل ڈھونڈنے میں کافی وقت لگتا ہے جو کہ میرے پاس کم ہے۔
اس کے باوجود آپ دو مسائل میں دیکھ سکتے ہیں جن میں میں نے تحقیق کی ہے۔ مجھے بھی اس سے پہلے ان دلائل پر تحقیق نہیں تھی۔
اگر آپ کو کسی مسئلہ میں حق ڈھونڈنا ہو تو آپ خود تحقیق کیوں نہیں کرتے حالانکہ اہل حدیث تو تحقیق کا نام بہت لیتے ہیں۔

تو آپ لوگ تقلید چھوڑ کر تحقیق کے مزاج کو کیوں نہیں اپناتے؟
تو اور اتنی تفصیلی بات میں نے کس موضوع پر کی تھی۔ یہ تحقیق ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ اس وقت بھی مجلس الفقہ الاسلامی سعودی عرب میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پوری دنیا سے ہر مسلک کے لوگ موجود ہیں اور دنیا بھر کے مسائل پر تحقیق جاری رہتی ہے اور ان کا شرعی حل سامنے آتا رہتا ہے۔

یہ نقطہ نظر تو ہمارا ہے کہ ہر معاملے کی تحقیق ہونی چاہیے، لیکن اسی تحقیقی مزاج کی وجہ سے احناف مقلدین کی طرف سے ہمیں طعن و تشنیع بلکہ بسا اوقات گالیوں تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ جو بات آپ نے اوپر بیان کی ہے یہی بات ہم کہتے ہیں جو ائمہ اربعہ کا اپنا موقف بھی ہے کہ ہماری بات کتاب و سنت سے ٹکرائے تو چھوڑ دی جائے اور کتاب و سنت پر عمل پیرا ہویا جائے۔لیکن موجودہ فقہ حنفی پر عمل پیرا لوگ اس بات سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں۔
یہاں مجھے اس قسم کے اپنے لوگوں سے اختلاف ہے۔ وہ کیوں خود کو ایک خول میں بند ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں؟
اور عرض یہ ہے کہ آپ لوگ بھی تحقیق کریں تو مکمل تو کریں نا۔ اتنا علم بھی ہو۔ اس کے بغیر ہی کرنے لگیں تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے۔

حافظ عمران الٰہی بھائی پوچھتے ہیں کہ میں ہر مسئلہ میں آپ سے دلیل کیوں مانگتا ہوں؟ میرے بھائی اس لیے کہ میرے ہاں مسالک کی اتنی تخصیص نہیں ہے کہ جو ابو حنیفہ نے کہا وہ ہمارا ہے اور جو زبیر علی زئی نے کہا وہ اہل حدیث کا ہے۔
جو غلط ہو میں غلط کہتا ہوں اور جو صحیح ہو وہ صحیح۔ اور جب کسی ایک کا قول سامنے آتا ہے اور مجھے حل دیکھنا ہوتا ہے تو خود کتابوں کو کھنگالتا ہوں اور اگر بالفرض خود نہ کر سکوں تو اہل علم حضرات کے سامنے رکھتا ہوں کہ مجھے تفصیلا سمجھائیں۔
جب آپ لوگ اعتراض کرتے ہیں تو اسی لیے آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ اگر آپ ایک بات کو درست نہیں سمجھتے تو پہلے خود دیکھ لیں کہ صاحب قول نے وہ قول اختیار کیوں کیا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم اشماریہ بھائی ہم نے تحقیق کرکے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہین واللہ اعلم بالصواب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ بھائی ہم نے تحقیق کرکے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہین واللہ اعلم بالصواب
مجھے اس بارے میں علمائے دیوبند کا فتوی نہیں معلوم۔ غالبا وہ بھی استحباب کا ہی ہے۔
کیا آپ مجھے تفصیل سے آگاہ کر سکتے ہیں اپنی تحقیق کے بارے میں؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
مجھے اس بارے میں علمائے دیوبند کا فتوی نہیں معلوم۔ غالبا وہ بھی استحباب کا ہی ہے۔
کیا آپ مجھے تفصیل سے آگاہ کر سکتے ہیں اپنی تحقیق کے بارے میں؟

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ»
من شخص نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے ایک سال کے روزے رکھے۔
(صحيح مسلم:كتاب الصيام13، باب39،حديث1164)
ابو حنیفہ کے نزدیک

صوم ست من شوال مكروه عند أبي حنيفة رحمه الله متفرقاً كان أو متتابعاً
شوال کے چھ روزے رکھنا ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ ہیں خواہ علیحدہ علیحدہ رکھے جائیں یا اکٹھے۔
فتاوی عالمگیر:ص١٠١،المحيط البرهاني في الفقه النعماني:کتاب الصوم،ج٢ص٣٩٣
کراچی کے ایک دیوبندی شیخ الحدیث صاحب نےباقاعدہ رسالہ لکھا ہے کہ شوال کے روزے مکروہ ہیں اور امام صاحب کا موقف ہی درست ہے!!!
مذکورہ رسالے کا نام ہے:احسن المقال فی کراھیۃ سۃ شوال اسکے مصنف مولانا زرولی خان ہیں؛اس میں لکھا ہے کہفتوی امام کے مذہب ہی پر ہوگا اور مذہب حنفی امام ابو حنیفہ کے اقوال و اجتہاد کا نام ہے؛ان کے قول کے مقابلے میں صاحبین کا قول بھی قابل التفات نہیں؛امام کے قول پر فتوی دینا واجب ہے؛اس تحقیق و تجسس کی ضرورت نہیں کہ امام نے وہ قول کہاں سے لیا ہے!!!
اس سے واضح ہوتا ہے کہ تقلید امام کی بلا دلیل پیروی کا نام ہے اور تحقیق کی بھی ضرورت نہیں؛یہی وہ غلو ہے،جسےعلماے اہل حدیث لائق مذمت جانتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کتاب و سنت کی غیر مشروط اتباع و اطاعت پر زور دیتے ہیں۔
پوری کتاب یہاں سے ڈونلوڈ کر لیں
http://www.scribd.com/doc/27589741/Ahsan-Ul-Maqal-by-Sheikh-Mufti-Zar-Wali-Khan
زرولی خان صاحب نے کتنے جتن کیے امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے قول کو ثابت کرنے کے لیے
حتی کہ صحیح مسلم کی حدیث کو بھی ضعیف کر دیافیصلہ خود کر لیں یہ کتاب تعصب کی بہترین مثال ہے۔ امام کے قول کی خاطر صحیح مسلم کی حدیث کی تضعیف اور پھر طرہ یہ کہ ہم کتاب و سنت کے خلاف تقلید کو شرک کہتے ہیں۔ بہت خوب!
اگر اس میں کوئی سخت جملہ ہو تو میری طرف سے معذرت ہے اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرماے اآمین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ»
من شخص نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے ایک سال کے روزے رکھے۔
(صحيح مسلم:كتاب الصيام13، باب39،حديث1164)
ابو حنیفہ کے نزدیک

صوم ست من شوال مكروه عند أبي حنيفة رحمه الله متفرقاً كان أو متتابعاً
شوال کے چھ روزے رکھنا ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ ہیں خواہ علیحدہ علیحدہ رکھے جائیں یا اکٹھے۔
فتاوی عالمگیر:ص١٠١،المحيط البرهاني في الفقه النعماني:کتاب الصوم،ج٢ص٣٩٣
کراچی کے ایک دیوبندی شیخ الحدیث صاحب نےباقاعدہ رسالہ لکھا ہے کہ شوال کے روزے مکروہ ہیں اور امام صاحب کا موقف ہی درست ہے!!!
مذکورہ رسالے کا نام ہے:احسن المقال فی کراھیۃ سۃ شوال اسکے مصنف مولانا زرولی خان ہیں؛اس میں لکھا ہے کہفتوی امام کے مذہب ہی پر ہوگا اور مذہب حنفی امام ابو حنیفہ کے اقوال و اجتہاد کا نام ہے؛ان کے قول کے مقابلے میں صاحبین کا قول بھی قابل التفات نہیں؛امام کے قول پر فتوی دینا واجب ہے؛اس تحقیق و تجسس کی ضرورت نہیں کہ امام نے وہ قول کہاں سے لیا ہے!!!
اس سے واضح ہوتا ہے کہ تقلید امام کی بلا دلیل پیروی کا نام ہے اور تحقیق کی بھی ضرورت نہیں؛یہی وہ غلو ہے،جسےعلماے اہل حدیث لائق مذمت جانتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کتاب و سنت کی غیر مشروط اتباع و اطاعت پر زور دیتے ہیں۔
پوری کتاب یہاں سے ڈونلوڈ کر لیں
http://www.scribd.com/doc/27589741/Ahsan-Ul-Maqal-by-Sheikh-Mufti-Zar-Wali-Khan
زرولی خان صاحب نے کتنے جتن کیے امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے قول کو ثابت کرنے کے لیے
حتی کہ صحیح مسلم کی حدیث کو بھی ضعیف کر دیافیصلہ خود کر لیں یہ کتاب تعصب کی بہترین مثال ہے۔ امام کے قول کی خاطر صحیح مسلم کی حدیث کی تضعیف اور پھر طرہ یہ کہ ہم کتاب و سنت کے خلاف تقلید کو شرک کہتے ہیں۔ بہت خوب!
اگر اس میں کوئی سخت جملہ ہو تو میری طرف سے معذرت ہے اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرماے اآمین
حضرت مولانا زرولی خان صاحب صاحب علم شخص ہیں۔ لیکن بسا اوقات کچھ عجیب قسم کے موقف کا اظہار کرتے ہیں۔
مفتی تقی صاحب کے خلاف بینکنگ کے معاملے میں ان کا اختلاف مشہور ہے۔ اس کے علاوہ علماء کے ایم بی اے کرنے (یا دنیاوی تعلیم حاصل کرنا کہہ لیں) وغیرہ کے سخت مخالف ہیں۔
خیر اہل علم ہیں اس لئے احترام کی حد تک ٹھیک ہے۔ ورنہ اگر یہ بات کہی ہے کہ فتوی امام مذہب کے قول پر ہی دینا لازم ہے اور صاحبین کا قول بھی اس کے مقابلے میں قابل التفات نہیں تو یہ بات ظاہر البطلان ہے
واللہ اعلم
میں اس کتاب کو موقع ملنے پر پڑھوں گا انشاء اللہ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
حافظ عمران الٰہی بھائی کیا آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے؟ اس کے ابتدائی صفحات پر میں نے نظر ڈالی ہے اور ان میں مسلم کی اس حدیث پر جرح کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ امام مالک رح جن کی حدیث میں نظر کسی سے مخفی نہیں ہے اور عالم مدینہ ہیں ان کا اس حدیث کے بارے میں قول بھی ذکر کیا گیا ہے۔
کیا آپ نے خود اس کی سند کی تحقیق کی ہے؟
 
Top