محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
بھائی! یہ میں کیسے بتا سکتا ہوں، آپ کے امام ہیں آپ بتائیے کہ انہوں نے یہ بات دلیل کے ساتھ کی یا بغیر دلیل کے؟یہ بتائیے کیا اس مسئلہ میں ابوحنیفہ رح کے پاس کوئی دلیل ہے یا انہوں نے بلا کسی دلیل یہ بات کہ دی ہے؟
- اگر آپ کہتے ہیں کہ بغیر دلیل کے تو مان لیں کہ ابوحنیفہ صاحب بغیر دلیل کے بات کیا کرتے تھے ، اسی لیے محدثین نے انہیں اہل الرائے میں شمار کیا ہے۔
- اگر آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات دلیل سے کی ہے، تو صاف ظاہر ہے کہ دلیل یا تو قرآن میں سے ہونی چاہیے یا حدیث میں سے، کیونکہ ہمارے نزدیک تو صرف قرآن و حدیث ہی معتبر ہیں ، اب آپ وہ دلیل ہمارے سامنے ذکر کریں۔
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس چھ روزوں کی حدیث کو روایت کرنے والا یک شخص بھی وہاں موجود تھا تو ابوحنیفہ صاحب اس کا بلا دلیل رد نہیں کر سکتے بلکہ انہوں نے دلیل کے ساتھ ہی رد کیا ہو گا ، یا کوئی دلیل دی ہو گی تو یہاں بھی وہی بات آئے گی جو اوپر میں نے دو پوائنٹس میں کہی۔اگر شوال کے چھ روزوں پر کسی کا بھی عمل تھا اور کوئی ایک شخص بھی ان کے بارے میں روایت کرتا تھا تو کیا ابو حنیفہ رح بلا دلیل اس کا انکار کر سکتے ہیں۔ جب آپ اپنے بیان کیے ہوئے مسئلہ پر اس تناظر میں تحقیق کریں گے تو آپ کے سامنے بآسانی واضح ہو جائے گا۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر ایسی بات ہے جو آپ نے بیان کی ہے کہ تابعین کے دور میں اسلام کی طرف زیادہ لوگوں کا میلان تھا اور یہ نہیں ہو سکتا کہ ابوحنیفہ صاحب کے سامنے شوال کے 6 روزے رکھنے والی حدیث نہ گزری ہو تو پھر ہمارا سوال ہے کہ انہوں نے شوال کے 6 روزوں کو مکروہ کیوں کہا، یہاں بھی پھر وہی بات آئے گی کہ:صرف ابو حنیفہ نہیں تمام تابعین۔ آپ خود سوچیں کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بغداد اور اس کے قریب کوفہ میں جب کہ یہ اسلامی سلطنت کے دار الحکومت بھی رہے ہیں کوئی ایک ایسا صحابی یا تابعی بھی نہ تھا جو ایک حدیث نہیں جانتا تھا اور نہ اس پر کسی کا عمل تھا؟
- اگر آپ کہتے ہیں کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی ہو گی تو مان لیں کہ فقہ حنفی میں اکثر مسائل اسی طرح ابوحنیفہ صاحب تک احادیث نا پہنچنے کی وجہ سے ناقابل عمل ہیں۔
- اگر آپ کہتے ہیں کہ ان کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے،انہوں نے ایسا نہیں کہا، تو آپ مان لیں کہ فقہ حنفی میں ابوحنیفہ صاحب کی طرف کئی باتیں غلط منسوب کی گئی ہیں۔
- اور تیسرا پوائنٹ ، اگر آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کسی "دلیل" سے کی ہو گی تو گزارش ہے کہ وہ دلیل یہاں ذکر کی جائے، دلیل قرآن کی آیات یا احادیث میں سے ہونا ضروری ہے۔
موجودہ فقہ حنفی میں نہ صرف اکثر مسائل بلکہ پورافقہ حنفی قرآن و سنت کے خلاف نظر آتا ہے، جس کی ایک مثال ہم نے اوپر دی کہ حدیث میں شوال کے 6روزے رکھنے کا حکم دیا اور ابوحنیفہ صاحب نے ان روزوں کو مکروہ قرار دیا، آپ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بات تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے کہ اسی طرح موجودہ فقہ حنفی میں اور بھی بہت سارے ایسے مسائل ہیں جو ابوحنیفہ صاحب کی طرف منسوب ہیں جو قرآن و حدیث کی نصوص سے واضح ٹکراتے نظر آتے ہیں، تو آپ لوگ تقلید چھوڑ کر تحقیق کے مزاج کو کیوں نہیں اپناتے؟حیرت ہے اکثر مسائل کیسے ناقابل عمل ہو گئے۔ خیر ہم اسے بالفرض ممکن مان لیتے ہیں۔
یہ نقطہ نظر تو ہمارا ہے کہ ہر معاملے کی تحقیق ہونی چاہیے، لیکن اسی تحقیقی مزاج کی وجہ سے احناف مقلدین کی طرف سے ہمیں طعن و تشنیع بلکہ بسا اوقات گالیوں تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ جو بات آپ نے اوپر بیان کی ہے یہی بات ہم کہتے ہیں جو ائمہ اربعہ کا اپنا موقف بھی ہے کہ ہماری بات کتاب و سنت سے ٹکرائے تو چھوڑ دی جائے اور کتاب و سنت پر عمل پیرا ہویا جائے۔لیکن موجودہ فقہ حنفی پر عمل پیرا لوگ اس بات سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں۔ایسا کیوں ہوا؟ صرف تحقیق کی وجہ سے۔
آپ نہ مانیں، لیکن دیگر حنفی حضرات کو ملاحظہ فرمائیں تو وہ فقہ حنفی کو مانتے ہی نظر آئیں گے۔اگر ایسا ہو جائے کہ فقہ حنفی کے تمام تر وہ مسائل جو قرآن و حدیث سے ٹکراتے ہیں وہاں فقہ حنفی کو چھوڑ دیا جائے اور قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو جایا جائے تو یہ تقلید کی عمارت زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ان شاءاللہتو جب معاملہ یوں ہو تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی جگہ فقہ حنفی کا مسئلہ حدیث سے ٹکرائے گا اور بلا دلیل ہم فقہ حنفی کو ہی مانتے رہیں گے؟