حکمرانوں پر تنقید اور ہمارے اسلاف کا فہم
..
کچن سے ایک دم سیٹی کی آواز آتی ہے اور خاتون خانہ خراماں خراماں کچن کو چل دیتی ہیں ، جا کر ناب ہٹاتی ہیں اور بھاپ نکل جاتی ہے -
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دال پک رہی ہوتی ہے اور کوئی دانہ بھاپ کے اخراج والے سوراخ میں جا پھنستا ہے - اب وہ " سیفٹی والو " بند ہو جاتا ہے ، اور پریشر ککر پھٹ جاتا ہے - کبھی حادثہ خاصا نقصان دہ اور کبھی جان لیوا بھی ہو سکتا ہے -
قصہ مختصر فالتو بھاپ کا اخراج ضروری ہی نہیں , بلکہ زندگی کا لازمہ بھی ہے -اسلام دین فطرت ہے اور کیسے ممکن ہے کہ دین فطرت ، جبر کا دین بن کے رہ جائے ؟ -
یہی معاملہ نظام زندگی اور نظام ملکی کا ہے - یاد رکھئے ایک انتہا ہمیشہ دوسری انتہا کو جنم دیتی ہے ، اگر آپ حکمرانوں پر جائز تنقید کے دروازے بھی بند کر دیں گے تو آپ دراصل ایک بغاوت کا راستہ کھول دیں گے - ہمارے علماء میں ایک سوچ در آئ اور اب ان کے کچھ ماننے والے بھی پیدا ہو چلے ہیں ، وہ یہ کہ حکمرانوں کی کسی غلط بات پر احتجاج کرنا بھی گناہ ہے ، خارجیت ہے ، اور لطیفہ سنیے ان احباب کا موقف ہے کہ اگر حکمران کو نصیحت کرنی ہے تو اکیلے میں ، تنہائی میں - چناچہ پاکستان میں تو یہ مبینہ نصیحت ممکن نہیں رہی کیونکہ حکمران تو اپنے ممبران اسمبلی کو بھی نہیں ملتے "مولانا " صاحب کو کہاں ملیں گے کہ جو نصیحت کی جا سکے - اور پاکستان کہ جہاں پھر بھی آپ حکومت پر تنقید کر سکتے ہیں وہاں یہ حل ہے تو ایسے ممالک کا کیا عالم ہو گا جہاں "بادشاہ سلامت " پائے جاتے ہیں اور عوام ان کا دیدار صرف سکرین پر کر سکتے ہیں - یہ نظریہ مکمل غیر حقیقی اور تخیلاتی دنیا کی پیدوار ہے - اس نصحت کے امکان پر ہم تو یہی تبصرہ کر سکتے ہیں :
. درد سر کے واسطے از بسکہ صندل ہے مفید
اس کا گھسنا اور لگانا، درد سر یہ بھی تو ہے
نہ حکمران کی تنہائی تک آپ کی رسائی ہو ،نہ اس تک نصیحت پہنچے ،اور وہ جو جی چاہے کرے -نہ کوئی احتجاج نہ کوئی روکنے والا نہ کوئی ٹوکنے والا -
بذات خود مداہنت اور خوشامد والا یہ رویہ خارجیت کا سبب ہے ..کیسے اس کی وضاحت ہم آج صبح کی تحریر میں کر چکے -اب ہم اسلاف میں سے کچھ مثالیں دیں گے کہ حکمرانوں کو نصیحت کرنے کے لیے وہ کیا انداز اختیار کرتے تھے ؟-
جناب سلمان فارسی کا سیدنا عمر سے سردربار چادر کا سوال احتساب کی شاندار مثال ہے - اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ :
* حکمران کی امانت و دیانت تک کے معاملات بیچ مجمے میں قابل بحث اور مواخذہ ہیں
*سیدنا عمر کی دیانت پر کیا جناب سلمان فارسی کو شک ہو گا ؟ - یقینا نہیں ، بلکہ ان کا مقصد یہی رہا ہو گا کہ احتساب حکمران کی مثال قائم کی جائے -
* جواب میں سیدنا عمر نے یہ کہا کہ یہ بات اکیلے میں کرنے کی تھی ؟ - جی نہیں انہوں نے وہیں اسی مجلس میں اپنے بیٹے کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حکم دیا
اب سوال یہ ہے کیا اس احتساب سے خروج کے دروازے کھل گیے ؟ - کوتاہ نظری تو یہی کہے گی ، لیکن سیدنا سلمان اس سوال نے بہت سے اذہان میں اٹھنے والے سوالات کا گلہ گھونٹ دیا جو ممکن ہے خلیفہ وقت کے دبدبے کے سبب نوک زبان تک نہ پہنچتے ..اب انصاف سے فیصلہ کیجئے یہ سوال جواب ، حاکم وقت کے حق میں نعمت ہووے یا خروج کا دروازہ ؟-
سیدنا ابو در غفاری عمر بھر حکام پر برسرعام تنقید کرتے رہے ، اور ان کا لہجہ بھی تلخ ہو جاتا تھا ..لیکن کسی نی ان کی اس روش پر اعتراض نہ کیا - ان کے لیے خلیفہ وقت سے تنہائی میں ملنا کیا مشکل تھا ؟ - لیکن ان کا رویہ حکمرانوں کے لیے کیا تھا ؟
جب ان کا وقت آخر آیا ، ربذہ کے ویرانے میں عبد اللہ بن مسعود ساتھیوں سمیت اچانک جا نکلے ، دیکھا صحابی رسول ابو ذر کا آخری وقت ہے ..سیدنا ابو ذر نے وصیت کی کہ مجھے کفن وہ نہ دے جو کسی حاکم یا عامل کا معاون رہ چکا ہو ..کیا خیال ہے ایسی وصیت کے بارے میں .. اور ویرانہ کہ جب کوئی اور بھی پاس نہ تھا کہ کوئی اور آگے بڑھ کے یہ کام کر دے اور تب کے حاکم کیا آج کل جیسے تھے ؟ کہ جن کے بارے میں آئین اور قانون کے دائرے میں لب کشائی بھی بعض احباب کے ہاں "خارجیت " ٹھری -
اس کے علاوہ بے شمار واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں ہمارے اسلاف نے حکمرانوں ی غلطیوں پر گرفت کی ، کبھی برسردربار کی اور کبھی ان کی غیر موجودگی میں کی گئی -
حجاج کے دربار کے قصے کس معلوم نہیں .. کیا سعید ابن جبیر ، ابن مسیب کی حق گوئی کو محض خارجیت کا دروازہ قرار دے دیا جائے گا ؟-
اور سفاح کے دربار میں امام اوزاعی کی حق گوئی اور تنقید کو کیا کہا جائے گا ؟-
امام احمد بن حنبل تین خلفاء کے زیر عتاب رہے ، کوڑے کھاتے رہے لیکن ان کی غلط بات کو درست نہ کہا ، اور نہ ہی اپنے موقف کو مخفی رکھا ... ان کو یہ سمجھ ہی نہ آئ کہ کسی روز خاموشی سے جاتے ، حاکم سے تخلیے کی فرمائش کرتے ، اسے نصیحت کرتے ، سمجھاتے ....
امام مالکؒ نے اپنی چھیاسی سال کی عمر میں ولید بن عبدالملک سے لے کر ہارون رشید تک ، بنوامیہ اور بنو عباس کے متعدد حکمرانوں کو دیکھا ۔ آپؒ ان سے ملتے بھی رہے ، بعض اوقات ان کے تحفے بھی آپ نے قبول فرمائے ۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس مردِ جری نے کبھی کسی حکمران کے سامنے حق بات کہنے سے گریز نہ کیا ،
امام ابن تیمیہ کا جیل میں انتقال ہو گیا ، لیکن حاکم وقت کے سامنے جھکنے سے ، سیاہ کو سفید کہنے سے انکار ہی کرتے رہے ...کیا خیال ہے امام پر حق گوئی کے علاوہ بھی کوئی " مقدمہ " درج تھا ؟- اب تو یہی صاحبان بتا سکتے ہیں کہ کیا امام صاحب کا حاکم وقت کے ساتھ کوئی جائیداد کا جھگڑا تو نہیں تھا ؟
...
ابو بکر قدوسی