• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکم استفاضہ از قبور (قبروں سے فیض اٹھانے کا حکم؟)

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
بعض صحابہ نے کسی قبرپراپنا خیمہ نصب کیا اوراس معلوم نہیں تھا کہ یہ قبرہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، جب حضور صلى الله عليه وسلم.کے پاس تشریف لائے تو عرض کیا يا رسول الله میں نے اپنا خیمہ ایک قبرپرنصب کیا اورمجھے معلوم نہیں تها کہ وه قبر ہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورة عذاب قبرکوروکتی ہے عذاب قبرسے نجات دیتی ہے اس. (.صاحب قبر.). کو عذاب قبرسے نجات دیتی ہے ۔

وقال الإمام الترمذي بسنده عن ابن عباس قال:

ضرب رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر وهو لا يحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، ضربت خبائي على قبر وأنا لا أحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " هي المانعة ، هي المنجية تنجيه من عذاب القبر " . قال : حديث حسن غريب .

.(.ورواه الطبراني في الكبير، وأبونعيم في الحلية ، والبيهقي في إثبات عذاب القبر .).
حدیث ضعیف ہے ۔
حدثنا محمد بن عبد الملك بن أبي الشوارب حدثنا يحيى بن عمرو بن مالك النكري عن أبيه عن أبي الجوزاء عن ابن عباس قال ضرب بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر وهو لا يحسب أنه قبر فإذا فيه إنسان يقرأ سورة تبارك الذي بيده الملك حتى ختمها فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني ضربت خبائي على قبر وأنا لا أحسب أنه قبر فإذا فيه إنسان يقرأ سورة تبارك الملك حتى ختمها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هي المانعة هي المنجية تنجيه من عذاب القبر قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه وفي الباب عن أبي هريرة ( سنن ترمذی، باب ما جاء في فضل سورة الملك
)
شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ لکھتے ہیں:

أخرجه الترمذي(2 / 146) وابن نصر (66) وأبو نعيم في " الحلية " (3 / 81) من طريق
يحيى بن عمرو بن مالك النكري عن أبيه عن أبي الجوزاء عنه. وقال الترمذي:
" حديث حسن غريب ". وقال أبو نعيم: " لم نكتبه مرفوعا مجودا إلا من حديث
يحيى بن عمرو عن أبيه ".
قلت: أبوه عمرو بن مالك صدوق له أوهام. وابنه يحيى ضعيف ويقال: إن حماد بن
زيد كذبه كما في " التقريب "، وساق له في " الميزان " من مناكيره أحاديث هذا
أحدها.
(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3/ 132) حدیث نمبر:1139 )
يحيى بن عمرو بن مالك النكري کے بارے میں مزید اقوال ملاحظہ فرمائیں:

ويحيى بن عمرو النكري ضعيف
تاريخ ابن معين - رواية الدوري: (4/ 123)

نا عبد الرحمن قال قرئ على العياس بن محمد الدوري عن يحيى بن معين انه قال يحيى بن عمرو بن مالك النكري ضعيف.
نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن يحيى بن عمرو بن مالك فقال: ضعيف الحديث
الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: (9/ 177)

قال الدُّوري: سَمِعتُ يَحيَى بن مَعين، يقول: يَحيَى بن عَمرو النُّكري، ضَعيفٌ.
موسوعة أقوال يحيى بن معين في الجرح والتعديل وعلل الحديث (5/ 91)

يَحْيَى بْنُ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ لَا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ
الضعفاء الكبير للعقيلي: (4/ 420)

يحيى بن عَمْرو بن مَالك ضَعِيف بَصرِي
الضعفاء والمتروكون للنسائي: (ص: 108)
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوال ہی مجمل اورغیرواضح ہے ۔ پہلے یہ توبتایاجائے کہ قبر سے استفاضہ اوراستفادہ سے سائل کی کیامراد ہے؟اس کے بعد ہی اس پر مزید گفتگو ہوسکتی ہے ورنہ سوال کچھ اورہوگا اورجواب کچھ اورہوگا۔
یہ بہت اہم بات ہے کہ علماء دیوبند کے عقیدہ کوثابت کرنے کیلئے کسی قصہ وکہانی کوبنیاد نہ بنایاجائے ۔ امت کا ایک بڑاطبقہ جس میں علماء دیوبند بھی شامل ہیں۔ خبرواحد سے بھی عقیدہ کو اخذ کرنادرست نہیں سمجھتا پھر قصے کہانیوں سے علماء دیوبند کے عقائد کشید کرنا"طالب الرحمن"جیسی شخصیت"یاپھران کے مقلدین کاہی کارنامہ ہوسکتاہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوال ہی مجمل اورغیرواضح ہے ۔ پہلے یہ توبتایاجائے کہ قبر سے استفاضہ اوراستفادہ سے سائل کی کیامراد ہے؟اس کے بعد ہی اس پر مزید گفتگو ہوسکتی ہے ورنہ سوال کچھ اورہوگا اورجواب کچھ اورہوگا۔
جواب ہوچکا۔ کرم فرمائی کا شکریہ
یہ بہت اہم بات ہے کہ علماء دیوبند کے عقیدہ کوثابت کرنے کیلئے کسی قصہ وکہانی کوبنیاد نہ بنایاجائے ۔ امت کا ایک بڑاطبقہ جس میں علماء دیوبند بھی شامل ہیں۔ خبرواحد سے بھی عقیدہ کو اخذ کرنادرست نہیں سمجھتا پھر قصے کہانیوں سے علماء دیوبند کے عقائد کشید کرنا"طالب الرحمن"جیسی شخصیت"یاپھران کے مقلدین کاہی کارنامہ ہوسکتاہے۔
ہاں اور آپ لوگوں کو اجازت دے دی جائے کہ قصے کہانیوں کے حوالوں سے جتنا چاہیں شرک اگلتے رہیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
اگرایسے ہی واقعات شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے حوالہ سے ابن تیم بیان کریں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے خواب میں آکر لوگوں کو مسائل اوربیماریوں کی دوائیں بتائیں تواس کو شرک وبدعت کہتے ہوئے قلم کیوں "تھرتھرانے "لگتاہے ۔ یاپھر سلف اورآزادنہ تحقیقی بحث پر "جانبداری اورپاسداری "کا جذبہ غالب آجاتاہے
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اگرایسے ہی واقعات شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے حوالہ سے ابن تیم بیان کریں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے خواب میں آکر لوگوں کو مسائل اوربیماریوں کی دوائیں بتائیں تواس کو شرک وبدعت کہتے ہوئے قلم کیوں "تھرتھرانے "لگتاہے ۔ یاپھر سلف اورآزادنہ تحقیقی بحث پر "جانبداری اورپاسداری "کا جذبہ غالب آجاتاہے
ایسے ہی؟
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
http://naqshbandiaowaisiah.com/libra...lm-O-Irfan.zip
آپ اس پمفلٹ کو غور سے پڑھ لے ۔تو قبر سے فیض لینے سے کیا مراد ہے،اچھی طرح سمجھ جائے گے،غیر مقلدین کو سمجھانا بہت مشکل کام ہے،ورنہ اتنی دلیلیلں ہی کافی ہیں جو کہ اوپر
گزر چکی ہیں،
چلو آپ اتنا ہی بتا دے کہ موسی علیہ اسلام نے معراج کہ موقع پر جو نمازیں کم کروائی تھی کیا موسی علیہ اسلام برزخ میں نہ تھے؟اور دیگر جو انبیاء سے ملاقات ہوئی ہیں کیا وہ انبیاء اس دنیا میں تھے؟بات یہ ہےجس موضعوع کو جانتے نہیں ہو اس پر بات کیوں کرتے ہو؟تصوف ایک علم ہے ،جس کے اندر بے شمار عجائبات ہیں،جیسے موسی علہیہ اسلام کو قبر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا،پھرآسمانوں پر بھی دیکھا، انبیاء کے وارث علماء ربانی ہیں ،پس جو آپ سے جتنی عقیدت ،محبت،اطاعت رکھے گا ،اتنا زیادہ علومِ نبوت سے فیض یاب ہو گا،امت میں اج تک کسی نے بھی کشفِ قبور سے انکا ر نہیں کیا ہے،خود اہلحدیث کے اکابرین کے واقعات کشف قبور پر دلیل ہیں،آپ نےجو امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کے حوالے دیے ہیں آپ کو سمجھنے میں غلطی لگ رہی ہے، ابن قیم نے تو پوری ایک کتاب ارواح کے موضعوع پر لکھی ہے ،اس پر بھی شرک کا فتوی لگاؤ،اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائیں
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
اولیاء کے کرامات و مکاشفات

فرماتےہیں کہ اہل سنت والجماعت کے اصول میں سے ہے اولیاء الله کی کراما ت کی تصدیق کرنا اور جو کچھ ان کے ہاتهو ں پر خوارق عادات صادر ہوتے ہیں مختلف علوم ومکا شفات میں اور مختلف قدرت و تا ثیرات میں ان کی تصدیق کرنا الخ .(. مجموع الفتاوى ج 3 ص 156. ).

اولیاء کی ایک کرامت مردوں کو زنده کرنا ہے

شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ کبهی مردوں کو زنده کرنا انبیاء کے متبعین یعنی اولیاء کے ہاتھ پر بهی ہوتا ہے ، جیسا کہ اِس امت کی ایک جماعت کی ہاتهوں پر یہ کرامت صادر ہوئی الخ ۔.(.كتا ب النبوات ص 298 .). ۔ اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ مردوں کو زنده کرنا تو اس میں بهت سارے انبیاء وصلحاء شریک ہیں۔. (.كتا ب النبوات ص .218.).

ایک آدمی کا گدها راستے میں مر گیا اُس کے ساتهیوں نے اُس کو کہا کہ آ جاؤ ہم اپنی سواریوں پر تیرا سامان رکهتے ہیں اُس آدمی نے اپنے ساتهیوں کو کہا تهوری دیر کیلئے مجهے مہلت دو، پهر اُس آدمی نے اچهے طریقہ سے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑهی ، اور الله تعالی سے دعا کی تو الله نے اس کے گدهے کو زنده کر دیا پس اس آدمی نے اپنا سامان اس پر رکھ دیا ۔ .(. مجموع الفتاوى ج 11 ص 281.).

شیخ الاسلام اور سماع موتی

سوال: کیا میت قبر میں کلام کرتاہے؟
جواب : جی ہاں میت قبر میں کلام کرتاہے ، اور جو اس سے با ت کرے تو سنتا بهی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے، انهم یسمعون قرع نعالهم ، اور صحیح حدیث میں ہے کہ میت سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے مَن ربُّک ؟ وما دینُک ؟ ومَن نبیُّکَ ؟ الخ۔ .(.مجموع الفتاوى ج 4 ص .273.).

کبهی میت کهڑا ہوتا ہے ، اور چلتا ہے ، اور کلام بهی کرتا ہے ،اور چیخ بهی مارتا ہے ، اور کبهی مرده قبر سے با ہر بهی دیکها جا تا ہے الخ ۔. (.مجموع الفتاوى ج 5 ص 526.).

شیخ الاسلام کے شا گرد ابن مُفلِح فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ یعنی ابن تیمیہ نے فرمایا کہ اس با رے میں بہت ساری احادیث آئی ہیں کہ میت کے جو اہل وعیال و اصحاب دنیا میں ہوتے ہیں اُن کے احوال میت پر پیش ہوتے ہیں اور میت اس کو جانتا ہے ،اور اس بارے میں بهی آثار آئی ہیں کہ میت دیکهتا ہے ، اور جو کچھ میت کے پاس ہوتا ہے اس کو وه جانتا ہے ، اگر اچها کام ہو تو اس پر میت خوش ہوتا ہے اور اگر برا کا م ہو تو میت کو اذیت ہو تی ہے ۔.(. كتا ب الفروع ج 2 ص 502 .).

موت کے بعد خواب میں شیخ الاسلام کا مشکل مسائل حل کر نا

ابن القیم ؒ فرماتے ہیں کہ مجهے ایک سے زیاده لوگوں نے بیان کیا جو کہ شیخ الاسلام کی طرف مائل بهی نہیں تهے ، انہوں نے شیخ الاسلام کو موت کے بعد خواب میں دیکها اور فرائض وغیره کے مشکل مسائل کے بارے میں سوال کیا تو شیخ الاسلام نے ان کو درست و صحیح جواب دیا ، اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ اِس کا انکار وُہی آدمی کرے گا جو کہ اَرواح کے احکام واعمال سے لوگوں سب سے بڑا جاہل ہو ۔.(. كتا ب الروح ص 69.).۔

تنبیه

کتاب الروح ، ابن القیمؒ کی کتا ب ہے اس کتا ب میں ارواح واموات کے جو حالات وواقعات بیان ہوئے ہیں کسی اور کتاب میں اتنی تفصیل آپ کو نہیں ملے گی ، اور اس کتاب وه سب کچھ هے جس کی وجہ سے نام نہاد اہل حدیث اور سلفی دیگر علماءکو مشرک وبدعتی کہتے ہیں ، اسی لیئے تو حید وسنت کے ان نام نہاد علمبرداروں نے جب اس کتاب کو دیکها تو اس کا انکار کر دیا اور کہا کہ یہ سلفیہ کے امام ابن القیم ؒ کی کتاب نہیں ہے بلکہ اُن کی طرف منسوب کی گئی ہے ، حقائق کا انکارکرکے جاہل آدمی کو تو منوایا جا سکتا ہے لیکن اہل علم کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، یہ کتاب درحقیقت ابن القیم ؒ ہی کی ہے ۔

1. جتنے بهی کبار علماء مثلا حافظ ابن حجر وغیره نے ابن القیم کا ترجمہ وسیرت ذکرکی ہے سب نے ان کی تا لیفات میں ،کتاب الروح، کابهی ذکرکیاہے اور کسی نے بهی اس اعتراض نہیں کیا۔

2. اورسب سے بڑھ کر یہ کہ خود ابن القیم ؒ نے اپنی دیگر کتابوں میں ، کتاب الروح ، کا حوالہ دیا ہے مثلا اپنی کتا ب ، جلاء الاَفهام ، باب نمبر چھ ۶ میں حضرت ابوہریرهؓ کی حدیث ، اذا خَرجت روحُ المومن الخ پر کلام کرتے ہوئے ابن القیمؒ نے کہا کہ میں نے اِس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث پر تفصیلی کلام اپنی ، کتاب الروح، میں کیاہے ،اب اس کا کیا جواب ہو گا ؟

3. حافظ ابن حجر ؒکے شاگرد علامہ بقاعی نے بهی یہ شہادت دی کہ یہ ابن القیم کی کتاب ہے اور انہوں نے اس کا خلاصہ بهی‘‘ سرُالروح’’کے نام سے لکها۔

4. ابن القیم ؒ کتاب الروح میں جا بجا اپنے شیخ ابن تیمیہ ؒ اقوال وتحقیقات بهی ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اپنی دیگر کتابوں میں ان کی یهی عادت مالوفہ ہے۔

ابن تیمیہؒ کا کشف اور لوح محفوظ پر اطلاع

ابن قیم ؒ شیخ الاسلام کی باطنی فراست کا تذکره کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام کی فراست میں عجیب عجیب امور دیکهے اور جو میں نے مشا ہده نہیں کیئے وه بہت بڑے ہیں اور ان کی فراست کے واقعات کو جمع کرنے کیلئے ایک بڑا دفتر چا ئیے ،فرمایا کہ ابن تیمیہؒ نے ،،699 ہجری ،، کے سال اپنے ساتهیوں کو خبر دی کہ ،ملک شام ، میں تاتاری داخل ہوں گے اور مسلمانوں کے لشکرکو فتح ملے گی اور ، دِمَشق ، میں قتل عام اور قید وبند نہیں ہو گا اور یہ خبر ابن تیمیہ ؒ نے تاتاریوں کی تحریک سے پہلے دی تهی۔پهر ابن تیمیہ ؒ نے لوگوں کو خبر دی ،،702 ہجری ،، میں جب تاتا ریوں کی تحریک شروع ہوئی اور انهوں نے ملکِ شام میں داخل ہونے کا اراده کیا تو شیخ الاسلام نے فرمایا کہ تاتاریوں کو شکست و هزیمت ہو گی اور مسلمانوں کو فتح ونصرت ملے گی اور شیخ الاسلام نے یہ بات قسم اٹها کر کہی ، کسی نے کہا ان شاء الله بهی بولیں تو فرما یا ان شاء الله یقیناََ ۔ ابن القیم ؒفرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام سے سنا فرمایا کہ ، جب انهوں نے مجھ پر بہت زیاده اصرار کیا تو میں نے کہا کہ مجھ پر زیاده اصرار نہ کرو الله تعالی نے ،،لوح محفوظ ،، پر لکھ دیا ہے کہ تاتاریوں کو اِس مرتبہ شکست ہو گی اور فتح مسلمان لشکروں کی ہو گی ، اور ایسا ہی ہوا الخ ۔ابن القیم ؒ فرماتے ہیں کہ مجهے کئی مرتبہ ابن تیمیہ ؒ نے ایسے باطنی امور کی خبر دی جو میرے سا تھ تهی میں نے صرف اراده کیا تها زبان سے نہیں بولا تها ، اور مجهے بعض ایسے بڑے واقعات کی بهی خبر دی جو مستقبل میں ہونے والے تهے ، ان میں سے بعض تو میں نے دیکھ لیئے ہیں باقی کا انتظار کرہا ہوں ، اور جو کچھ شیخ الا سلام کے بڑے اصحاب نے مشاہده کیا ہے وه اُس سے ،دوگنا ، ہے جو میں نے مشاہده کیا۔. (. مدارج السا لكين ج 2 ص 490-489 .).

فائده

مدارج السالکین ، ابن القیم ؒ کی کتاب ہے اور یہ کتاب شرح ہے کتا ب ، مَنا زِلُ السا ئرین ،کی اور اس کتا ب کے مصنف کا نا م ہے علامہ ابو اسما عیل عبدالله بن محمد الاَنصاری الهروی الحنبلی الصوفی اوران کی یہ کتاب علم تصوف اور مسائل تصوف پر مشتمل ہے ،ابن القیم ؒ نے اس کتا ب کی شرح ۳ جلدوں میں لکهی اور اس صوفی بزرگ کی بڑی تعریف کی اور اس صوفی عالم کو شیخ الاسلام کا لقب دیا اور جنت میں اُس کے ساتھ جمع ہو نے کی دعا کی اور اپنے آپ کو اس کا مُرید کہا الخ لہٰذا جو لوگ تصوف کو شرکت و بدعت اور صوفیہ کو مشرک کہتے ہیں اُن کے اِن بکواسا ت سے ابن تیمیہ ؒ اور ابن القیم ؒ کیسے محفوظ ہوں گے ؟ کیونکہ دونوں استاد شاگرد صوفی ہیں اور شاگرد استاد سے بهی بڑا صوفی ہے کما لا یخفی علی العلما ء۔

خواب میں الله تعالی کی زیا رت

شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ جس نے خواب میں الله تعالی کو دیکها تو دیکهنے والا اپنی حالت کے مطا بق الله تعالی کو کسی صورت میں دیکهے گا ، اگر وه آدمی نیک ہے تو الله تعالی کو اچهی صورت میں دیکهے گا ، اسی لیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے الله تعالی کو خو بصورت اور بہترین صورت میں دیکها۔ .(. مجموع الفتا وى ج 5 ص 251.).
 
Top