- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
یاد دہانی!اب آپ ازراہ کرم قرآن وسنت سے استفاضہ از قبور کی کوئی ایک صحیح وصریح دلیل پیش کریں!
یاد دہانی!اب آپ ازراہ کرم قرآن وسنت سے استفاضہ از قبور کی کوئی ایک صحیح وصریح دلیل پیش کریں!
اس کیلئے الگ موضوع شروع کریں! اس تھریڈ میں استفاضہ از قبور کے متعلق کچھ کہنا چاہیں تو کہیں!بہت اچھے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ کوئی مجھے بتا دے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ ہے یا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت؟
ابن جوزی بھائی الگ تھریڈ بنائے جس کا موضعوں کشف،الہام اور کرامت وغیرہ ہو۔بہت اچھے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ کوئی مجھے بتا دے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ ہے یا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت؟
نبی کریمﷺ نے ایسی باتیں وحی کی بنیاد پر کیں۔ ﴿ وما ينطق عن الهوىٰ إن هو إلا وحي يوحى ﴾برزخ پرنہ جاننے کی جو دلیل پیش کی وہ یہ ہے کہوَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ١٥٤ ﴾ ۔۔۔ البقرة
اور اللہ تعالیٰ کی راه کے شہیدوں کو مرده مت کہو وه زنده ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے (154)
اس آیت پر آپ عرف عام میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہداء کے حوال سے کوئی باخبر نہیں لیکن اگر کوئی اللہ کی قدرت سے خواب میں یا کشفا' کسی شہداء کی یا اہل قبور کی زندگی منکشف ہو جائے تا اس ایت کے منافی ہر گز نہ ہو گاحوالِ برزخیہ کے منکشف ہونے پرانکار کوئی جاہل و ضدی ہی کر سکتا ہےکیونکہ شہدا ء اور اہل برزخ کے حوال آنحضرتﷺ نے خود بیان کیے، صحابہ اکرام اور امت میں سینکڑوں واقعات مروی ہیں جن میں شہداء کے برزخی حالات کے منکشف ہونے کا ذکر ہے۔
صحیح سند سے فتح الباری موجود وہ روایت عربی متن کے ساتھ بیان کریں،اقتضائے صراط مستقیم میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ واقعہ ایام حرہ کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی میں برابر تین دن اذان کی آواز کا آنا جو کہ نبی اکرمﷺ کی قبر انور سے آتی تھی اورسعید ملسیب رحم اللہ کا سن کر نماز ادا کرنا فرماتے ہین شرک وبدعت میں یہ چیز داخل نہیں جو روایت ہے رسول کریم ﷺ کی قبر سے سلام کا جواب سنا اور باقی اولیا ء کی قبروں سے ۔پھرفرماتے ایام قحط سالی میں ایک شخص قبر مبارک کے پاس آیا اورقحط سالی کی شکایت کی اسنے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا کہ عمر کہ پاس جاو اور کہو کہ نماز استسقاء پڑھائیں،فرماتے ہیں کہ یہ واقعات شرک وبدعت کے باب سے نہیں اس طرح کے کثیر واقعات آپ ﷺ کی امت کے بزرگان دین سے بھی ثابت ہیں ۔یہ قحط سالی کا واقعہ فتح الباری میں صیح رویت سے مذکور ہے
صحابہ کرام کا کھانے کی تسبیح سننا، مسجد کے تنے کی رونے کی آواز سننا، سیدنا ابراہیم والا قصّہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ذبح شدہ پرندوں کو زندہ کیا۔رہی آپ کی دلیل تو دیکھو قران کہتا ہے سورہ رعد تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَٰوَٰتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُۥ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًۭا﴿٤٤﴾
ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ بےشک وہ بردبار (اور) غفار ہے (44) یہ تو قران کہہ رہا ہے کہ تم سمجھ نہیں سکتے ،دوسری طرف صحابہ اکرام رضی اللہ عنھما کا کھانا کھاتے وقت کھانے کی تسبیح کا سنا ،مسجد کا خشک تنے کا رونا وغیر کے دہگر واقعات دلیل ہے اس بات کی کہ اسشنعاءکی صورت باقی رہتی ہے۔اسی طرح قران کا کہنہ کے اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی،مگرمعجزہ و کرامات فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں اس لئے یہا ں پر آپ کی یہ دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اور یہ بھی قران کہہ رہا ہے
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِى ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةًۭ مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍۢ مِّنْهُنَّ جُزْءًۭا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًۭا ۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴿(۰٦٢
اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتاہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑے پھر انہیں اپنے ساتھ ہلا لے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان لے کہ بے شک الله زبردست حکمت والا ہے
آپ نے جو آیت کریمہ پیش کی ہے، اس ترجمہ یہ ہے ﴿ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ ١١٩ وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ١٢٠ ﴾ کہ پس وه لوگ (فرعون اور اس کے ساتھی) اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے (119) اور وه جو ساحر تھے سجده میں گر گئے (120)اسی طرح ان کی آیات کی تشریح میںغُلِبُوا۟ هُنَالِكَ وَٱنقَلَبُوا۟ صَٰغِرِين٩١١وَأُلْقِىَ ٱلسَّحَرَةُ سَٰجِدِينَ ﴿۰٢١میں ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کہ ساحرین فرعون جو موسی علیہ اسلام کے مقابلے میں تھے انہوں نے سجدے سے اس وقت تک سر اٹھایا ،جب جنت دوزخ اور عذاب وثواب دیکھ لیا۔
کیا ابن کثیر بھی دجال کذاب ہو گئے ہیں (الغیاذ باللہ ثم الغیاذ با للہ)یا ر آپ نے یہ بات دجال و کذاب والی بات کس منہ سے کہہ دی ہے
یہ کشف کا انقلابی اثر تھا ا کہ ساحرین فرعون نے درباری قرب چھوڑا، انعام سے دست بردار ہوئے موت کو بخوشی قبول کیا کیونکہ کشف سے حقیقت واضح ہو گئی اور زندگی کا رخ بدل گیا
اصل میں وقت تو صرف ایک بہانہ ہے، بہت سارے واقعات کا ہونا بھی ایک دعوائے باطل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الروح میں بہت سارے واقعات نقل کیے ہیں جو برزخ سے تعلق رکھتے ہیں
میاں آپ کے فتوی نے امت میں کس کو مسلمان چھوڑا ہے، میرے پاس اتنا وقت نہیں ورنہ دلائل کے انبار ہیں لیکن ایک مجبوری اور بھی ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں اگر عہد نبوی سے لیکر آج تک کے واقعات لکھنا شروع کروں تو کہیں کتا بیں بن جائے۔میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنے فتوی سے رجوع کرے اور اللہ سے معافی مانگےان ہی با توں کی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ اہل حدیث گستاخ ہیں۔یار اپنا نہ سہی ایک مقدس جماعت کا تو خیال رکھو ان کو بدنام نہ کرو۔اللہ کا کچھ تو خوف کرو
یاد دہانی!اب آپ ازراہ کرم قرآن وسنت سے استفاضہ از قبور کی کوئی ایک صحیح وصریح دلیل پیش کریں!