• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکم استفاضہ از قبور (قبروں سے فیض اٹھانے کا حکم؟)

شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
بہت اچھے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ کوئی مجھے بتا دے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ ہے یا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت؟
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
ابن جوزی صاحب اسکا جواب تو انس نضر صاحب ہی دے گے،بھلا علماء کے ہوتے ہوئے ہم لب کشائی کی جرات نہیں کر سکتے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بہت اچھے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ کوئی مجھے بتا دے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ ہے یا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت؟
اس کیلئے الگ موضوع شروع کریں! اس تھریڈ میں استفاضہ از قبور کے متعلق کچھ کہنا چاہیں تو کہیں!
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
بہت اچھے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ کوئی مجھے بتا دے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ ہے یا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت؟
ابن جوزی بھائی الگ تھریڈ بنائے جس کا موضعوں کشف،الہام اور کرامت وغیرہ ہو۔
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88

آپکی سابقہ بحث سے جو نتیجہ میں نے نکالا وہ یہ ہے ،آپ کشف و الہام و کرامات کے مطلق منکر نہیں ،جو اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ:۔
1۔حالاتِ برزخیہ کوئی جان نہیں سکتا ۔جو ایسا کہے آپ کے نزدیک بہت بڑا دجال و کذاب ہے۔
2۔کشف والہام کرامات میں داخل نہیں۔اس پر آپ نے کوئی ثبوت نہیں دیا
برزخ پرنہ جاننے کی جو دلیل پیش کی وہ یہ ہے کہوَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُ‌ونَ ١٥٤ ﴾ ۔۔۔ البقرة
اور اللہ تعالیٰ کی راه کے شہیدوں کو مرده مت کہو وه زنده ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے (154)
اس آیت پر آپ عرف عام میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہداء کے حوال سے کوئی باخبر نہیںلیکن اگر کوئی اللہ کی قدرت سے خواب میں یا کشفا' کسی شہداء کی یا اہل قبور کی زندگی منکشف ہو جائے تا اس ایت کے منافی ہر گز نہ ہو گاحوالِ برزخیہ کے منکشف ہونے پرانکار کوئی جاہل و ضدی ہی کر سکتا ہےکیونکہ شہدا ء اور اہل برزخ کے حوال آنحضرتﷺ نے خود بیان کیے،صحابہ اکرام اور امت میں سینکڑوں واقعات مروی ہیں جن میں شہداء کے برزخی حالات کے منکشف ہونے کا ذکر ہے۔
اقتضائے صراط مستقیم میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ واقعہ ایام حرہ کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی میں برابر تین دن اذان کی آواز کا آنا جو کہ نبی اکرمﷺ کی قبر انور سے آتی تھی اورسعید ملسیب رحم اللہ کا سن کر نماز ادا کرنا فرماتے ہین شرک وبدعت میں یہ چیز داخل نہیں جو روایت ہے رسول کریم ﷺ کی قبر سے سلام کا جواب سنا اور باقی اولیا ء کی قبروں سے ۔پھرفرماتے ایام قحط سالی میں ایک شخص قبر مبارک کے پاس آیا اورقحط سالی کی شکایت کی اسنے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا کہ عمر کہ پاس جاو اور کہو کہ نماز استسقاء پڑھائیں،فرماتے ہیں کہ یہ واقعات شرک وبدعت کے باب سے نہیں اس طرح کے کثیر واقعات آپ ﷺ کی امت کے بزرگان دین سے بھی ثابت ہیں ۔یہ قحط سالی کا واقعہ فتح الباری میں صیح رویت سے مذکور ہے
رہی آپ کی دلیل تو دیکھو قران کہتا ہے سورہ رعد تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَٰوَٰتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُۥ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًۭا﴿٤٤﴾
ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ بےشک وہ بردبار (اور) غفار ہے (44) یہ تو قران کہہ رہا ہے کہ تم سمجھ نہیں سکتے ،دوسری طرف صحابہ اکرام رضی اللہ عنھما کا کھانا کھاتے وقت کھانے کی تسبیح کا سنا ،مسجد کا خشک تنے کا رونا وغیر کے دہگر واقعات دلیل ہے اس بات کی کہ اسشنعاءکی صورت باقی رہتی ہے۔اسی طرح قران کا کہنہ کے اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی،مگرمعجزہ و کرامات فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں اس لئے یہا ں پر آپ کی یہ دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اور یہ بھی قران کہہ رہا ہے
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِى ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةًۭ مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍۢ مِّنْهُنَّ جُزْءًۭا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًۭا ۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴿(۰٦٢
اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتاہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑے پھر انہیں اپنے ساتھ ہلا لے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان لے کہ بے شک الله زبردست حکمت والا ہے
دیکھو ابراھیم علیہ اسلام یقین قلبی کے لیے کیا کہچھ کر رہے ہیں،اور آپ کے نزدیک امتی پر اگر حوال برزخ منکشف ہو تو دجال و کذاب ہو جائے گا کیسے؟افسوس ۔۔
یقین کے تین درجے ہیں علم الیقین ،صرف سنا جیسے بارش ہو رہی ہے۔عین الیقین،آنکھوں سے دیکھ لیا اور حق الیقین کہ خو د بارش میں کھڑا ہو جائے بارش اس پر پڑے،ابراھیم علیہ اسلام حق الیقین (یقین قلبی) مانگ رہے ہیں ،اور امتی مانگے یا عطا ہو تو دجال وکذاب۔ عجیب فلسفہ ہے۔
 

qureshi

رکن
شمولیت
جنوری 08، 2012
پیغامات
235
ری ایکشن اسکور
392
پوائنٹ
88
اسی طرح ان کی آیات کی تشریح میںغُلِبُوا۟ هُنَالِكَ وَٱنقَلَبُوا۟ صَٰغِرِين٩١١وَأُلْقِىَ ٱلسَّحَرَةُ سَٰجِدِينَ ﴿۰٢١میں ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کہ ساحرین فرعون جو موسی علیہ اسلام کے مقابلے میں تھے انہوں نے سجدے سے اس وقت تک سر اٹھایا ،جب جنت دوزخ اور عذاب وثواب دیکھ لیا۔
کیا ابن کثیر بھی دجال کذاب ہو گئے ہیں (الغیاذ باللہ ثم الغیاذ با للہ)یا ر آپ نے یہ بات دجال و کذاب والی بات کس منہ سے کہہ دی ہے

یہ کشف کا انقلابی اثر تھا ا کہ ساحرین فرعون نے درباری قرب چھوڑا، انعام سے دست بردار ہوئے موت کو بخوشی قبول کیا کیونکہ کشف سے حقیقت واضح ہو گئی اور زندگی کا رخ بدل گیا
ابن قیم رحمہا للہ نے اپنی کتاب الروح میں بہت سارے واقعات نقل کیے ہیںجو برزخ سے تعلق رکھتے ہیں
میاں آپ کے فتوی نے امت میں کس کو مسلمان چھوڑا ہے،میرے پاس اتنا وقت نہیں ورنہ دلائل کے انبار ہیں لیکن ایک مجبوری اور بھی ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیںاگر عہد نبوی سے لیکر آج تک کے واقعات لکھنا شروع کروں تو کہیں کتا بیں بن جائے۔میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنے فتوی سے رجوع کرے اور اللہ سے معافی مانگےان ہی با توں کی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ اہل حدیث گستاخ ہیں۔یار اپنا نہ سہی ایک مقدس جماعت کا تو خیال رکھو ان کو بدنام نہ کرو۔اللہ کا کہچھ تو خوف کرو
اسی طرح آپ کا فرمانا کہ کشف والہام داخل کرامت نہیں۔
سبحان اللہ، میرے بھائی حد ہو گئی ہے کیا آپ جانتے نہیں ا؟ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کشف ،ساریہ رضی اللہ عنہ کو کہنا پہاڑ کی اوٹ لینا ،اسی طرح حضرت مریم علیہ اسلام کا فر شتوںکو دیکھنا وغیرہ اسکو تمام مفسرین اور محدثین نے کرامت ہی لکھا ہے۔
میں ان چند دلائل پر اکتفا کرتا ہوںاس امید پرکہ عقل مند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
برزخ پرنہ جاننے کی جو دلیل پیش کی وہ یہ ہے کہوَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُ‌ونَ ١٥٤ ﴾ ۔۔۔ البقرة
اور اللہ تعالیٰ کی راه کے شہیدوں کو مرده مت کہو وه زنده ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے (154)
اس آیت پر آپ عرف عام میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہداء کے حوال سے کوئی باخبر نہیں لیکن اگر کوئی اللہ کی قدرت سے خواب میں یا کشفا' کسی شہداء کی یا اہل قبور کی زندگی منکشف ہو جائے تا اس ایت کے منافی ہر گز نہ ہو گاحوالِ برزخیہ کے منکشف ہونے پرانکار کوئی جاہل و ضدی ہی کر سکتا ہےکیونکہ شہدا ء اور اہل برزخ کے حوال آنحضرتﷺ نے خود بیان کیے، صحابہ اکرام اور امت میں سینکڑوں واقعات مروی ہیں جن میں شہداء کے برزخی حالات کے منکشف ہونے کا ذکر ہے۔
نبی کریمﷺ نے ایسی باتیں وحی کی بنیاد پر کیں۔ ﴿ وما ينطق عن الهوىٰ إن هو إلا وحي يوحى ﴾
ممکن ہے آپ کے نزدیک کوئی امتی بھی وحی کی بنیاد پر ایسا دعویٰ کر سکے۔ پھر آپ کو غلام احمد قادیانی کو بھی سچا مان لینا چاہئے۔

میرے نزدیک آج جو بھی وحی کی بنیاد پر ایسا دعویٰ کرے تو وہ مدعی النبوۃ اور دجال وکذّاب ہے۔

آپ نے صحابہ کرام﷢ اور امت سے ثابت ایسے سینکڑوں واقعات کا دعویٰ کیا ہے، دعووں سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا، آپ سے تقاضا کیا تھا کہ صحیح سند سے کوئی ایک واقعہ (صحابی سے) بیان کردیں، جہاں تک امت میں ایسے واقعات کا تعلق ہے، تو ہمارے نزدیک ایسے قصوں کہانیوں کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

اقتضائے صراط مستقیم میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ واقعہ ایام حرہ کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی میں برابر تین دن اذان کی آواز کا آنا جو کہ نبی اکرمﷺ کی قبر انور سے آتی تھی اورسعید ملسیب رحم اللہ کا سن کر نماز ادا کرنا فرماتے ہین شرک وبدعت میں یہ چیز داخل نہیں جو روایت ہے رسول کریم ﷺ کی قبر سے سلام کا جواب سنا اور باقی اولیا ء کی قبروں سے ۔پھرفرماتے ایام قحط سالی میں ایک شخص قبر مبارک کے پاس آیا اورقحط سالی کی شکایت کی اسنے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا کہ عمر کہ پاس جاو اور کہو کہ نماز استسقاء پڑھائیں،فرماتے ہیں کہ یہ واقعات شرک وبدعت کے باب سے نہیں اس طرح کے کثیر واقعات آپ ﷺ کی امت کے بزرگان دین سے بھی ثابت ہیں ۔یہ قحط سالی کا واقعہ فتح الباری میں صیح رویت سے مذکور ہے
صحیح سند سے فتح الباری موجود وہ روایت عربی متن کے ساتھ بیان کریں،
اس کا ترجمہ کریں
اور پھر اس سے استفاضہ از قبور ثابت کریں!

رہی آپ کی دلیل تو دیکھو قران کہتا ہے سورہ رعد تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَٰوَٰتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُۥ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًۭا﴿٤٤﴾
ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ بےشک وہ بردبار (اور) غفار ہے (44) یہ تو قران کہہ رہا ہے کہ تم سمجھ نہیں سکتے ،دوسری طرف صحابہ اکرام رضی اللہ عنھما کا کھانا کھاتے وقت کھانے کی تسبیح کا سنا ،مسجد کا خشک تنے کا رونا وغیر کے دہگر واقعات دلیل ہے اس بات کی کہ اسشنعاءکی صورت باقی رہتی ہے۔اسی طرح قران کا کہنہ کے اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی،مگرمعجزہ و کرامات فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں اس لئے یہا ں پر آپ کی یہ دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اور یہ بھی قران کہہ رہا ہے
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِى ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةًۭ مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍۢ مِّنْهُنَّ جُزْءًۭا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًۭا ۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴿(۰٦٢
اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتاہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑے پھر انہیں اپنے ساتھ ہلا لے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان لے کہ بے شک الله زبردست حکمت والا ہے
صحابہ کرام﷢ کا کھانے کی تسبیح سننا، مسجد کے تنے کی رونے کی آواز سننا، سیدنا ابراہیم﷤ والا قصّہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ذبح شدہ پرندوں کو زندہ کیا۔
یہ سب نبی کریمﷺ اور سیدنا ابراہیم﷤ کے معجزات ہیں، ان سے آپ نے استفاضہ از قبور کیسے ثابت کر دیا؟؟؟

محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے پاس استفاضہ از قبور کی سب ایسی ہی دلیلیں ہیں؟!! جن سے ان انبیاء کرام﷩ کا اللہ کا سچا نبی ہونا تو ثابت ہوتا ہے، امّتیوں کیلئے استفاضہ از قبور تو بالکل ثابت نہیں ہوتا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اسی طرح ان کی آیات کی تشریح میںغُلِبُوا۟ هُنَالِكَ وَٱنقَلَبُوا۟ صَٰغِرِين٩١١وَأُلْقِىَ ٱلسَّحَرَةُ سَٰجِدِينَ ﴿۰٢١میں ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کہ ساحرین فرعون جو موسی علیہ اسلام کے مقابلے میں تھے انہوں نے سجدے سے اس وقت تک سر اٹھایا ،جب جنت دوزخ اور عذاب وثواب دیکھ لیا۔
کیا ابن کثیر بھی دجال کذاب ہو گئے ہیں (الغیاذ باللہ ثم الغیاذ با للہ)یا ر آپ نے یہ بات دجال و کذاب والی بات کس منہ سے کہہ دی ہے

یہ کشف کا انقلابی اثر تھا ا کہ ساحرین فرعون نے درباری قرب چھوڑا، انعام سے دست بردار ہوئے موت کو بخوشی قبول کیا کیونکہ کشف سے حقیقت واضح ہو گئی اور زندگی کا رخ بدل گیا
آپ نے جو آیت کریمہ پیش کی ہے، اس ترجمہ یہ ہے ﴿ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِ‌ينَ ١١٩ وَأُلْقِيَ السَّحَرَ‌ةُ سَاجِدِينَ ١٢٠ کہ پس وه لوگ (فرعون اور اس کے ساتھی) اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے (119) اور وه جو ساحر تھے سجده میں گر گئے (120)

ان آیات کریمہ میں جادو گروں کے صرف سجدے میں گرنے کا ذکر ہے، قبروں کے حالات سے واقف ہونے کا نہیں۔

جادوگروں کی حالت کی تبدیلی کشف کا انقلابی اثر ہر گز ہرگز نہیں تھا، بلکہ یہ سیدنا موسیٰ﷤ کے معجزے کو دیکھنے کی بنا پر تھا، اسی کو دیکھ کر وہ سجدے میں گرے تھے، چونکہ وہ جادو کی حقیقت سے واقف تھے، لہٰذا انہیں علم تھا کہ سیدنا موسیٰ﷤ کا یہ معجزہ اللہ کی طرف سے ہے، جادو ہر گز نہیں ہے۔
اگر بفرضِ محال یہ کشف کی وجہ سے تھا تو پھر یہ کشف تو سجدے میں گرنے سے پہلے ہونا چاہئے تھا نہ کہ سجدے میں گرنے کے بعد! کیا خیال ہے۔

لہٰذا یہ آیت کریمہ بھی استفاضہ از قبور کی دلیل نہیں ہو سکتی۔

ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الروح میں بہت سارے واقعات نقل کیے ہیں جو برزخ سے تعلق رکھتے ہیں
میاں آپ کے فتوی نے امت میں کس کو مسلمان چھوڑا ہے، میرے پاس اتنا وقت نہیں ورنہ دلائل کے انبار ہیں لیکن ایک مجبوری اور بھی ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں اگر عہد نبوی سے لیکر آج تک کے واقعات لکھنا شروع کروں تو کہیں کتا بیں بن جائے۔میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنے فتوی سے رجوع کرے اور اللہ سے معافی مانگےان ہی با توں کی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ اہل حدیث گستاخ ہیں۔یار اپنا نہ سہی ایک مقدس جماعت کا تو خیال رکھو ان کو بدنام نہ کرو۔اللہ کا کچھ تو خوف کرو
اصل میں وقت تو صرف ایک بہانہ ہے، بہت سارے واقعات کا ہونا بھی ایک دعوائے باطل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

ہمیں آپ کا اتنا لمبا چوڑا وقت چاہئے بھی نہیں۔ آپ ایسا کریں کہ آپ کے پاس دلائل کے جو انبار ہیں جن سے کئی کتابیں بن سکتی ہے، ان میں سے ازراہِ کرم استفاضہ از قبور (یعنی امت قبروں کے حالات سے واقف ہو سکتی اور قبر والوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے) کی صرف اور صرف ایک صحیح اور صریح (جس سے واقعی ہی استفاضہ از قبور ثابت ہوتا ہو۔) دلیل پیش کردیں، ابھی تک تو سوال گندم جواب چنا والی صورتحال ہی ہے۔
یہ بھی گزارش ہے کہ جو دلیل ذکر کریں، اس کا عربی متن، اردو ترجمہ اور پھر اس سے اپنا مقصود (استفاضہ از قبور) ثابت کریں! تاکہ اگر آپ نصوص کو توڑ موڑ کر گڑبڑ کرنا چاہیں تو ناظرین اس سے واقف ہو سکیں۔

جہاں تک فتویٰ کی بات ہے تو مجھے نہیں معلوم کہ آپ کس فتویٰ کی بات کر رہے ہیں اور میرے کن الفاظ کو اپنی مرضی کا مفہوم پہنارہے ہیں؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اب آپ ازراہ کرم قرآن وسنت سے استفاضہ از قبور کی کوئی ایک صحیح وصریح دلیل پیش کریں!
یاد دہانی!

محسوس ہوتا ہے کہ قریشی صاحب کے پاس اپنے موقف (استفاضہ از قبور) کی کوئ ئ ئ ئ دلیل موجود نہیں۔
اگر ہوتی ہوتی تو اب تک پٹاری سے کچھ باہر آچکا ہوتا۔
 
Top