حضرت امیر محمد اکرم عوان مدظلہ العالی سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ تنظیم الاخوان کے امیر ہیں،آپ صیح معنوں میں ہمہ جہت شخصیت ہیں۔آپ نے قران کی تفاسیر اسرار اتنزیل کے نام سے لکھی، آپ کی ایک اور اکرام تراجم کے نام سے بھی تفاسیر زیر طبع ہے۔آپ نے قران پاک کا ترجمعہ اکرام اتراجم کے نام سے کیا ،جس کو بہت زیادہ سرایا گیا ہے،آپ ایک بلند پایا خطیب اور،شاعر بھی ہیں ،تصوف کے آپ کے ارشادات جاننے کے لیئے ماہانامہ المرشد کا مطالعہ کرنا بے حد ضروری ہے،سکے علاوہ آپ کی ایک کتابوں کے مصنف ہیں
قبور سے فیض حاصل کرنا اہلسنت ولجماعت کا اجتماعی عقیدہ ہے۔یاد رکھیں اس سے مراد جہلا کیطرح پکارنا یا مدد مانگنا ہر گز مراد نہیں آپ اس بک کا مطالعہ فرما لیں گس سے آپ کو اس مسلئے کی سمجھ آ جائے گی،یاد رہے کہ علمائے اہلحدیث میں ایسے لوگ گزرے جو نہ صرف صوفی تھے بلکہ تصوف کے داعی تھے ،یہ اس عہد کے سلفی ہیں جو اسلاف کو چھوڑ کر سلفی ہیں
http://naqshbandiaowaisiah.com/library/ilm_o_irfan/Ilm-O-Irfan.zip
Shaikh e Tariqat
رہا مسلئہ دیو بند کا توآپ انکی زبانی سن لیں
علماء دیوبند قبور سے فیض حاصل کرنے کا عقیده رکهتےہیں جوکہ ایک شرکیہ عقیده ہے
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين وخاتم النبیین والمرسلین سيدنا
محمد وعلى آله وصحبہ اجمعین
از
مولانا حافظ محمد خاں صاحب دامت برکاتہم
فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب
وسوسہ 33
علماء دیوبند قبور سے فیض حاصل کرنے کا عقیده رکهتےہیں جوکہ ایک شرکیہ عقیده ہے
جواب
فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں فی زمانہ کچھ نام نہاد شیوخ عوام الناس کوگمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ استعمال کرتے ہیں ، ان کا دجل وفریب اس طرح ہوتا ہے کہ حکایات وسوانح اور وعظ ونصیحت وتصوف وغیره کسی کتاب ورسالہ سے کوئی بات لیتے ہیں اورکوئی مُحتمل ومُشتبہ عبارت پیش کرتے ہیں اورپھرعوام سے کہتے ہیں کہ یہ علماء دیوبند کا عقیده ہے ، اوراس طرح کرکے جاہل عوام کوورغلاتے هیں ،خوب یاد رکھیں ہمارے اکابرومشائخ حضرات علماء دیوبند . ( .کثرهم الله سوادهم . ) . کا مسلک ومنهج تمام امورمیں افراط وتفریط سے پاک اورمبنی براعتدال ہے اوراعتدال کی یہ شان ان اکابراعلام کا ایک خصوصی وصف وامتیاز ہے ، لیکن اعتدال کا یہ طریق اختیارکرنے کی وجہ سے کچھ جہلاء نے بوجہ جہالت وتعصب وحسد کےان اکابراعلام کو افراط وتفریط میں مبتلا قراردیا ،چند جہلاء مذکوره بالا وسوسہ پیش کرکے عوام کویہ باورکراتے ہیں کہ قبورسے فیض کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ قبرپرست هیں ، قبورکا طواف کرتے هیں ،اہل قبورسے استمداد کرتے ہیں ، ان کومشکل کشا حاجت روا سمجھتے ہیں وغیره . ( . معاذالله . ) . ۔
خوب یادرکھیں ہمارے اکابرومشائخ حضرات علماء دیوبند میں سے کسی نے بھی یہ تعلیم نہیں دی بلکہ قبور واہل قبورسے متعلق بھی ان کا مسلک اعتدال والا ہے نہ تواتنی تفریط ہے کہ اہل قبورکی زیارت ودعا وایصال ثواب کوبھی منع کردیں ، اورنہ اتنا افراط ہے کہ قبور سے متعلق تمام مُروجہ بدعات وخرافات کوجائزقراردیں ، لہذا احادیث مبارکہ سے قبور کی زیارت ودعاء مسنون وایصال ثواب برائے اہل قبورثابت ہے ، تویہی تعلیم وطریق علماء دیوبند کا بھی ہے ، باقی اس سے زیاده اگرکوئی شخص وساوس پیش کرے تواس کی طرف توجه نہیں کرنی چائیے کیونکہ وساوس کا اصل علاج عدم التفات ہے ۔
انبیاء واولیاء وصالحین کی قبورسے فیض حاصل کرنے کا عام فہم مطلب
حدیث میں آتا ہے کہ قبرجنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّار۔
.). ( .رواه الترمذي في سننه ، والبيهقى فى شعب الإيمان ، والطبراني .) .).
اب قبر کا یہ گھڑا جس میں انبیاء وصحابہ واولیاء الله وعلماء وصُلحاء مدفون ہیں ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ جنت کے باغات ہے ، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ، اب جنت الله تعالی کے انعامات ورحمتوں وتجلیات کا مقام ہے توصالحین کے قبورپرالله تعالی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ، لہذا زیارت کرنے والا شخص اس رحمت سے محروم نہیں رہتا اگرچہ اس کومحسوس ہو یا نہ ہو ، یہی سارا مفہوم ہے فیض وفائده کا ، ایک لحظہ کے لیئے اس حدیث کوسامنے رکھ کریہ دیکھیں کہ انبیاء وصحابہ وعلماء وصالحین کے قبور جنت کے باغ ہیں یقینا اس بات میں کوئی شک نہیں کرسکتا ، لہذا جنت کے ان باغات کی زیارت ونفع کا کون انکارکرسکتا ہے ؟؟ باقی قبور کا طواف اورسجدے کرنا ، وہاں چراغ جلانا ، قبرپراذان پڑهنا ، وہاں عرس میلے قوالی کرنا ، قبرکوبوس وکنار کرنا ،ان سے حاجات طلب کرنا ، ان کومتصرف سمجھنا وغیره سب بدعات وخرافات ہیں ۔
صحيح البخاري میں امام البخاري نے ایک باب قائم کیا هے ۔
‘‘باب ماجاء في قبر النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما’’
اس باب کے تحت امام البخاري نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی وه حدیث نقل کی ہے جس میں انهوں نے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ کے واسطہ سے حضرت عائشة رضي الله عنها سے حجرة النبوية میں دفن ہونے کی اجازت مانگی تھی انهوں نے کہا تھا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لیئے پسند کی تھی لیکن میں آج یہ جگہ ان کودیتی ہوں۔ الحدیث
حافظ ابن حجر رحمہ الله اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
وفيه الحرص على مجاورة الصالحين في القبور طمعا في إصابة الرحمة إذا نزلت عليهم وفي دعاء من يزورهم من أهل الخير "
یعنی اس حدیث میں ثبوت ہے اس بات كاکہ صالحین کے ساتھ قبورمیں پڑوسی ہونے كاحرص کرنا چائیے اس امید ونیت سے کہ صالحین پرنازل ہونے والی رحمت اس کوبھی پہنچے گی اورنیک صالح لوگ جب ان کی زیارت کریں گے اوردعا کریں گے تواس کوبھی حصہ ملے گا ۔
اسی طرح ایک حدیث حسن میں ہے کہ
بعض صحابہ نے کسی قبرپراپنا خیمہ نصب کیا اوراس معلوم نہیں تھا کہ یہ قبرہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، جب حضور صلى الله عليه وسلم.کے پاس تشریف لائے تو عرض کیا يا رسول الله میں نے اپنا خیمہ ایک قبرپرنصب کیا اورمجھے معلوم نہیں تها کہ وه قبر ہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورة عذاب قبرکوروکتی ہے عذاب قبرسے نجات دیتی ہے اس. (.صاحب قبر.). کو عذاب قبرسے نجات دیتی ہے ۔
وقال الإمام الترمذي بسنده عن ابن عباس قال:
ضرب رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر وهو لا يحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، ضربت خبائي على قبر وأنا لا أحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " هي المانعة ، هي المنجية تنجيه من عذاب القبر " . قال : حديث حسن غريب .
.(.ورواه الطبراني في الكبير، وأبونعيم في الحلية ، والبيهقي في إثبات عذاب القبر .).
قبور اولیاء سے فیض کا مطلب استمداد واستغاثہ نہیں ہے
سوال : مُردوں سے بطریق دعا ، مد د چاهنا جائزهے یا نہیں ؟
جواب: مد د چاہنا تین قسم کا ہے ۔
1. ایک یہ کہ اہل قبور سے مد د چاہے اسی کوسب فقہاء نے ناجائزلکھاہے ۔
2.دوسرے یہ کہ کہے اے فلاں خدا تعالی سے دعا کرکہ فلاں کام میرا پورا ہوجائے یہ مبنی ہے اس بات پرکہ مردے سنتے ہیں کہ نہیں ، جوسماع موتی کے قائل ہیں ان کے نزدیک درست ، دوسروں کے نزدیک ناجائز،. (. سماع موتی کے مسئلہ میں صحابہ کے زمانہ سے اختلاف ہے دونوں طرف اکابر ودلائل ہیں لہذا ایسے اختلافی امرکا فیصلہ کون کرسکتا ہے ، لیکن بہتریہ ہے اس دوسری قسم پربھی عمل نہ کرے .).۔
3. تیسرے یہ کہ دعا مانگے الہی بحرمت فلاں میرا کام پورا کردے یہ بالاتفاق جائز ہے .(. فتاوی رشیدیه ص 57. ) .حضرت گنگوهی رحمہ الله کی یہ فتوی بالکل واضح ہے کہ مردوں سےمد د طلب کرنا تمام فقہاء کے نزدیک ناجائزہے ، اوریہی فیصلہ وفتوی تمام اکابرعلماء دیوبند کا بھی ہے ، لہذا جو لوگ فیض عن القبور کا مطلب استعانت واستمداد وغیره بیان کرکے اس کو اکابرعلماء دیوبند کا عقیده قرار دیتے ہیں ، یہ سب دجل وفریب ہے ، هداهم الله
قبور اور أہل قبور کے متعلق فرقہ جدید اہل حدیث کے اکابرکا مذہب
جیسا کہ میں گذشتہ سطورمیں عرض کرچکا کہ اس فرقہ جدید کے اکابراورآج کل کے اس فرقہ جدید کے هم نواوں میں بہت سخت اختلاف هے ، مثلا اسی مذکوره مسئلہ میں اس فرقہ جدید اهل حدیث کے بانی ومُوجد نواب صدیق حسن خان صاحب کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں اپنی کتاب). .ألتاجُ المُكلل. (. میں اپنے والد ابواحمد حسن بن علی الحُسینی البخاری القنوجی کے تذکره میں لکھا کہ
لایزال يرى النورعَلى قبره الشريف والناسُ يَتبَّرَكُون به ۔
آپ کی کی قبرشریف پرہمیشہ نور رہتا ہے اورلوگ آپ کی کی قبرسے بترُّک حاصل کرتے ہیں ۔
.(. ألتاجُ المُكلل صفحه 543 ، مكتبة دارالسلام. ).
اسی طرح فرقہ جدید اہل حدیث کے بانی علامہ وحیدالزمان صاحب بھی یہی فرماتے ہیں کہ
ولازال السلف والخلف یتبَرَّكون بآثارالصلحاء ومشاهدهم ومقاماتهم وآبارهم وعيونهم۔
یعنی سلف وخلف سب صالحین کے آثار ، اور ان کی قبروں سے ، اوران کے مقامات ، اور ان کے کنووں سے ، اور ان کے چشموں سے تبرُّ کحاصل کرتے تھے ۔ آگے علامہ وحیدالزمان صاحب فرماتے ہیں کہ
ولم یقل احد ان التبرک بمثل هذه الاشیاء شرک
یعنی کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس قسم کی اشیاءسے تبرکحاصل کرنا شرک ہے ۔
آگے علامہ وحیدالزمان صاحب فرماتے هیں کہ
ترجى سرعة الإجابة عند قبرالنبي صلى الله عليه وسلم أوغيره من المواضع المتبركة قال الشافعي قبرموسى الكاظم ترياق مجرب وروى الشيخ ابن حجرالمكي في القلائد عن الشافعي قال إني أستبرك بقبرأبي حنيفة واذا عرضت لي حاجة أجيئ عند قبره وأصلي ركعتين وأدعوالله عنده فتقضي حاجتي ۔
آپ صلى الله عليه وسلم کے قبرمبارک اوراس کے علاوه مقامات متبركة میں دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے ، امام شافعی رحمہ الله نے فرمایا کہ موسی کاظم کی قبرتریاق مجرب ہے ، اورالشيخ ابن حجرالمكي نے اپنی کتاب " القلائد " میں امام شافعی رحمہ الله سے روایت کیا ہے، فرمایا کہ میں ابوحنیفہ کے قبرسے تبرک حاصل کرتا ہوں ، اورجب مجھے کوئی حاجت پیش آتی ہے تومیں ابوحنیفہ کے قبرکے پاس آتاہوں اوردورکعت نمازپڑهتا ہوں ، اورالله تعالی سے دعا کرتا ہوں پس میری حاجت پوری ہوجاتی ہے ۔
علامہ وحیدالزمان صاحب نے ایک فصل قائم کیا ہے " مَقرارواح " کے متعلق اورآٹھ مذاہب نقل کیئے ہیں، اسی فصل میں فرماتے ہیں کہ
وقال شـيخنا ابن القـيـم فثبت بهذا انه لامنافات بين كون الروح في عليين أوفي الجنة أوفي السماء وبين اتصاله بالبدن بحيث تدرك وتسمع وتصلي وتقرأ ۔
اورہمارے شیخ ابن القیمنے فرمایا کہ اس سے ثابت ہوا کہ اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ روح عليين میں ہو یا جنت میں ہو یا آسمان میں ہو اوراس کا تعلق بدن کے ساتھ ہو اس طورپرکہ وه ادراک بھی کرے اور سماع بھی کرے اورنمازبھی پڑھے اورقرآءت بھی کرے ۔
قلت بهذا يدفع الشـبـهـة التي أوردهـا القــاصرون انه كيف يمكن استحصال الفيوض
والبـركــات وبرد القلب والأنوارمن أرواح الصلحـاء بزيـارة قبـورهم ۔
میں .(. علامہ وحیدالزمان صاحب .). کہتا ہوں کہ اس سے وه شبہ بھی دور ہوجائے گا جو بعض کوتاه عقل لوگ پیش کرتے ہیں کہ صلحاء کی قبور کی زیارت کرکے ان کی ارواح سے فیوض وبركات وأنوارات کا حصول کیسے ممکن ہے ۔
.(.(. دیکهیئے ھدية المهدي ص 32 ، 33 ، 34 ، 62 ،23. ).).
اسی طرح علامہ وحیدالزمان صاحب نے قبروں کی مُجاوری کوبھی جائزقرار دیا هے ۔
.(.(. دیکهیئے هدیۃ المهدي ص 34 ، نزل الأبرار ج 1 ص 241 .).).
یہ چند حوالے اختصارکے ساتھ فرقہ جدید اہل حدیث کے اکابرکے حوالہ سے آپ نے ملاحظہ کیئے ، جب کہ آج کل فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل چند لوگ ان سب امورکوشرک وبدعت کہتے ہیں ، میرے علم میں نہیں ہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث کی آج کل کی ایڈیشن میں شامل توحید وسنت کے علمبرداروں نے فرقہ جدید اہل حدیث کے بانیان نواب صدیق حسن خان اورعلامہ وحیدالزمان صاحب کے ان نظریات کی تردید کی ہو ، کوئی کتاب ورسالہ لکھا ہو یا کوئی بیانات اس سلسلہ میں کیئے ہوں ؟؟ والله اعلم ۔
مزارات اولیاء سے فیض بطریق خاص صرف کاملین کے لیئے ہے
سوال : مزارات اولیاء رحمهم الله سے فیض حاصل ہوتا ہے یا نہیں ؟؟ اگر ہوتا ہے توکس صورت سے ؟؟
جواب : مزارات اولیاء سے کاملین کوفیض ہوتا ہے مگرعوام کواس کی اجازت دینی ہرگزجائزنہیں ہے ، اورتحصیل فیض کا طریقہ کوئی خاص نہیں ہے ، جب جانے والا اہل ہوتا ہے تواس طرف سے حسب استعداد فیضان ہوتا ہے ، مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنا ہے ۔
. (. فتاوی رشید یہ ص 104. ).
اب یہاں چند باتیں قابل غور ہیں
1. تقریبا اسی طرح کی بات .(. المهند علی المفند. ). اور دیگرکتب مشائخ میں بھی موجود ہے ، اور حضرت گنگوهی رحمہ الله اوردیگرتمام اکابرعلماء دیوبند کا اجماعی فتوی یہ ہے کہ اہل قبورسے استمداد واستعانت جائزنہیں ہے ، تومعلوم ہوا کہ اس فیض سے مراد اهل قبورسے استمداد واستعانت وغیره نہیں ہے۔
2. پھر قبور اولیاء سے فیض سے متعلق جو طرق وتفصیلات ہیں یہ صرف علماء کاملین کے لیئے ہیں نہ کہ عوام کے لیئے اورپھر عوام میں ہروه شخص داخل ہے جواس طریق سے نابلد ہو چاہے کسی اورفن میں معلومات رکھتا ہے ۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے. (. لکُل فنٍّ رِجال .). ہرفن کے اپنے ماہرلوگ ہوتے ہیں ، لہذا اس وجہ سے اس میدان کے کامل وماہرلوگوں کواجازت ہے ۔
3. کچھ لوگ اس قول پراعتراض کرتے ہیں کہ عوام کواس کی اجازت دینی کیوں جائزنہیں ہے ؟؟ اورعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنے کےمترادف کیوں ہے ؟؟
خوب یاد رکهیں الحمد لله حضرات اکابرعلماء دیوبند کا یہ قول بھی احادیث نبویہ وتعلیمات سلف کے بالکل موافق ہے ، کیونکہ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں بیان کرنا ممنوع ہے جہاں تک ان کے عقول ومعرفت نہ پہنچ سکیں ۔
ابن مسعود رضی الله عنہ کا قول ہے کہ
جب توکسی قوم کو کوئی حدیث بیان کرتا ہے جس تک ان کے عقول نہیں پہنچتے تو وه اس قوم میں سے بعض کے لیئے فتنہ کا باعث بن جاتا ہے ۔
قال ابن مسعود رضی الله عنہ :
" ما أنت بمحدث قوما حديثا لا تبلغه عقولهم ، إلا كان لبعضهم فتنة "
.[.(.(.أخرجه مسلم في " مقدمة صحيحه " .(. 1 / 108 – نووي .). ، وعبدالرزاق في " مصنفه " .( .11 / 286 .). – ومن طريقه الطبراني في " المعجم الكبير " .(. 9 / 151 / 8850 .). ، والخطيب في "الجامع لأخلاق الراوي ". (. 1321 / 108 / 2 .). ، والسمعاني في " أدب الإملاء والاستملاء " .(. ص 60 .) .– ، والرامهرمزي في " المحدث الفاصل ". (. ص 577. ). ، وابن عبدالبر في " جامع بيان العلم ". (. 1 / 539 و 541 / 888 و 892. ). ، والبيهقي في " المدخل " .(. 611.).) .].
الله تعالی کی بے شمار رحمتیں ہوں ان اکابراعلام کے قبور مبارکہ پر کہ دین میں کوئی بات بلادلیل وثبوت نہیں کہی ، مجھے ازخود اکابرکے اس قول پرکئی ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں کچھ کھٹک سی رہتی ہے کہ یہ کیوں کہا کہ کاملین کے لیئے جائز اور عوام کے لیئے ناجائز ؟ لہذا اس باب میں تھوڑی سی تحقیق وتفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ ان اکابراعلام کا یہ فرمان احادیث نبویہ واقوال وتعلیمات سلف کے بالکل مطابق وموافق ہے ، حتی کہ امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری .(.کتاب العلم. ). میں ایک باب قائم کیا ہے ، جس میں اتنی واضح طور پراکابراعلام کے اس قول کی تائید وتصدیق موجود ہے۔
باب من ترك بعض الاختيار مخافة أن يقصر فهم بعض الناس عنه فيقعوا في أشد منه
یعنی یہ باب ہے اس شخص کے بارے میں جس نے بعض جائز چیزوں کو اس ڈرسے چھوڑ دیا کہ بعض کم فہم لوگ اس سے سخت بات میں مبتلا نہ ہو جائیں ،اوراس باب وترجمہ کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے
حدثنا عبيد الله بن موسى عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن الأسود قال: قال لي ابن الزبير كانت عائشة تسر إليك كثيرا فما حدثتك في الكعبة قلت: قالت لي قال النبي يا عائشة لولا قومك حديث عهدهم قال ابن الزبير بكفر لنقضت الكعبة فجعلت لها بابين باب يدخل الناس وباب يخرجون ففعله بن الزبير ۰
امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری. (.کتاب العلم. ) .میں ایک اوراس طرح باب قائم کیا ہے
باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية أن لا يفهموا
یعنی جس نے بعض قوم کوعلم کے ساتھ خاص کیا اوربعض کواس ڈرسے نہیں پڑھایا کہ وه اس کو نہیں سمجھیں گے ۔
اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ الله نے فرمایا
وقال علي حدثوا الناس بما يعرفون أتحبون أن يكذب الله ورسوله
حضرت علی نے فرمایا کہ لوگوں کوبیان کرو جووه سمجھتے هوں ، کیاتم پسند کرتے هو کہ الله ورسول کی تکذیب کی جائے ؟
یعنی کوئی بھی غامض ودقیق وباریک بات جوعوام کے سمجھ وفہم سے باهرهوتوان کووه بیان نہ کی جائے۔
اوراسی کو حضرت الامام گنگوهی رحمہ الله نے فرمایا کہ
.(. مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنا هے ۔. ).
اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ الله نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کی یہ روایت نقل کی هے ،
حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کے ساتھ سواری پرسوار تھے تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا يا معاذ بن جبل۔ حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے عرض کی لبيك يا رسول الله وسعديك ۔پھر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا يا معاذ بن جبل۔ حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے عرض کی لبيك يا رسول الله وسعديك ، تین مرتبہ فرمایا یعنی یہ ندا اورجواب ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جوکوئی بھی صدق دل سے یہ گواهی دے کہ لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله توالله تعالی اس کوجهنم کی آگ پرحرام کردیں گے ، حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے فرمایا يا رسول الله کیا میں لوگوں کواس کی خبرنہ دوں پس وه بھی خوشخبری حاصل کرلیں ؟؟
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا .(. إذا يتكلوا. ). یعنی اگرتوان کوخبردے گا تووه اسی پراکتفاء کرلیں گے ، یعنی عمل نہیں کریں گے اسی حکم کے ظاهرپراعتماد کرلیں گے ، اور حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے اپنی موت کے وقت اس حدیث کی خبردی تاکہ. (. کتمان علم. ). کا گناه نہ ہو ۔
حدثنا إسحاق بن إبراهيم قال: حدثنا معاذ بن هشام قال: حدثني أبي عن قتادة قال: حدثنا أنس بن مالك أن النبي ومعاذ رديفه على الرحل قال: يا معاذ بن جبل قال لبيك يا رسول الله وسعديك قال: يا معاذ قال لبيك يا رسول الله وسعديك ثلاثا قال: ما من أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار قال: يا رسول الله أفلا أخبر به الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا وأخبر بها معاذ عند موته تأثما ۰
حدثنا مسد د قال: حدثنا معتمر قال: سمعت أبي قال: سمعت أنسا قال: ذكر لي أن النبي قال لمعاذ من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة قال ألا أبشر الناس قال لا إني أخاف أن يتكلوا ۰
اوراسی مضمون کوبیان کرنے والی بعض دیگر روایات ملاحظہ کریں
أُمِرْنا أن نُكلِّمَ الناسَ على قدْر عقولِهم.
.(.رواه الديلمي عن ابن عباس مرفوعا،. ).
وقال في المقاصد وعزاه الحافظ ابن حجر لمسند الحسن بن سفيان عن ابن عباس بلفظ
أمرت أن أخاطب الناس على قدر عقولهم ،
ورواه أبو الحسن التميمي من الحنابلة في العقل له عن ابن عباس من طريق أبي عبد الرحمن السُلَمي أيضا بلفظ
بُعْثِنا معاشر الأنبياء نخاطب الناس على قدر عقولهم، وله شاهد عن سعيد بن المسيب مرسلا بلفظ إنا معشر الأنبياء أمرنا وذكره،
ورواه في الغنية للشيخ عبد القادر قدس سره بلفظ أمرنا معاشر الأنبياء أن نحدث الناس على قدر عقولهم
وروى البيهقي في الشعبعن المقدام بن معدي كرب مرفوعا إذا حدثتم الناس عن ربهم فلا تحدثوهم بما يعزب عنهم ويشق عليهم،:
وصح عن أبي هريرة حفظت عن النبي صلي الله عليه وسلم وعاءَيْنِ:
فأما أحدهما فَبَثثْتُهُ، وأما الآخر فلو بثثتُه لقُطع هذا البلعوم،
وروى الديلمي عن ابن عباس مرفوعا عاقبوا أرقاءكم على قدر عقولهم، وأخرجه الدارقطني عن عائشة مثله، وروى الحاكم وقال صحيح على شرط الشيخين عن أبي ذر مرفوعا خالقوا الناس بأخلاقهم،
وأخرج الطبراني وأبو الشيخ عن ابن مسعود خالط الناس بما يشتهون، ودينك فلا تَكْلِمْهُ، ونحوه عن علي رفعه، خالق الفاجر مخالقة، وخالص المؤمن مخالصة، ودينك لا تسلمه لأحد، وفي حديث أوله خالطوا الناس علي قدر إيمانهم .). راجع كشف الخفاء للعجلوني. (.
اس باب میں دیگراقوال وروایات بھی ہیں ، لیکن حق وہدایت کے طالبین کے لیئے اس قدر میں کفایت ہے ۔