حامد کمال الدین
یہاں کے کچھ نیک طبقوں کے یہاں ایک نہایت سرسری اور سطحی قسم کااندازِ استدلال دیکھ کر بے حد حیرانی ہوتی ہے۔ اپنی سلامتیِ فطرت اور اپنی غیرتِ توحیدی کی بدولت یہ غیر اللہ کی شریعت پر قائم اِس نظام کو ”باطل“ اور ”طاغوت“ یا ”طاغوتی“ کہنے میں تو ہرگز کوئی تردد نہیں رکھتے اور جوکہ ایک قابل ستائش امر ہے، لیکن یہاں پائے جانے والے ارجائی رجحانات سے دب کر وہ یہ کہنا البتہ ’انتہا پسندی‘ گردانتے ہیں کہ حکم بغیر ما اَنزل اللہ ایک کافرانہ فعل ہے....!!!
یہاں تک کہ ان میں سے کئی ایک طبقے نادانستہ عین اُسی مرجئہ والی دلیل ہی کو دہرانے لگتے ہیں جوکہ دراصل اِن کے اپنے پہلے مقدمے کو بھی باطل کر دیتی ہے؛ یعنی اِن کا یہ سوال اٹھانا کہ یہاں کا ایک عام فرد جو اپنی خواہش نفس سے مجبور ہو کر خدا کی معصیت کر بیٹھتا ہے اُس میں اور غیر اللہ کا قانون چلانے میں آخر کیا فرق ہے؟
فرماتے ہیں: دونوں کا حکم ایک رکھیں، کفر کہیں تو دونوں کے فعل کو کہیں، اور کفر کی فردِ جرم سے معاف رکھیں تو دونوں کو معاف رکھیں!
اب ظاہر ہے ایک عام شخص کے، خواہش نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خدا کی معصیت کرنے کو، کفر تو ہم نہیں کہیں گے؛ کیونکہ یہ خوارج کا مذہب ہے نہ کہ اہل سنت کا۔ لیکن۔۔۔۔ محض ’گناہ‘ کر لینے کو جب ہم ’کفر‘ نہیں کہیں گے تو کیا اُس کو ’طاغوتی‘ کہیں گے؟
ظاہر ہے نہ ’کفر‘ کہیں گے اور نہ ’طاغوتی‘۔
شرعی اصطلاح میں مذہب اہل سنت کی رو سے یہ محض ایک ’خطا‘ یا ایک ’معصیت‘ ہے جوکہ اہل ایمان سے بھی سرزد ہو جاتی ہے۔
تو پھر اگر عین یہی حکم یہاں پر قائم نظام کا بھی ہے، جیسا کہ ہمارے اِن اصحاب کا کہنا ہے، تو پھر اِس نظام کا حکم بھی محض ایک ’خطا‘ یا ایک ’معصیت‘ کا ہے جوکہ اہل ایمان سے بھی سرزد ہو جاتی ہے، اِس نظام کیلئے بھی پھر آپ ’طاغوت‘ یا ’طاغوتی‘ کا لفظ ہی سرے سے کیسے بول سکتے ہیں؟؟؟
اور یہی تو وہ بات ہے جس پر یہاں کے کچھ گھاگ قسم کے افکار ہمارے اِن نیک طبقوں کو لے کر آنا چاہ رہے ہیں؛ کہ یہ غیر اللہ کی شریعت کو قانون ٹھہرانے اور ایک عام قسم کی معصیت کا ارتکاب کر لینے،۔۔۔ ہر دو کو شرعی حکم کے لحاظ سے ایک کر دیں! پھر نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری! یہ نظام ہی جب عام خطاؤں جیسی محض ایک خطا ہے، جس پر ’شرک‘ یا ’کفر‘ یا ’طاغوت‘ ایسے الفاظ ہی نہیں بولے جا سکتے تو پھر ’وہ جدوجہد جو انبیاءکی طرز پر ایک طاغوت کے خلاف لڑی جاتی ہے‘ آپ سے آپ بے معنیٰ ٹھہرے گی!
پس ہم چاہیں گے کہ ہمارے وہ گرامی قدر اصحاب جو پورے یقین اور وثوق کے ساتھ اِس نظام کو ’طاغوت‘ کہتے ہیں مگر حکم بغیر ما اَنزل اللہ کو ’کفر‘ کہنے میں بے اندازہ تامل اختیار کرتے ہیں، اِس پر غور فرمائیں کہ ایسا کر کے کیا وہ اپنی اس تحریکی اساس ہی کو تو فوت نہیں کر لیتے جس پر وہ قوم کو یک آواز کرنے جا رہے ہیں؟! اِس نظام کو طاغوت ٹھہرائے جانے کی بنیاد اِس کا حکم بغیر ما اَنزل اللہ کرنا ہی تو ہے! اِس نظام کا اور کونسا جرم ہے جس کی بنیاد پر اِس کو ’طاغوت‘ قرار دے دیا جائے؟ یہی اگر کفر نہیں تو پھر اِس کیلئے ’طاغوت‘ کا لفظ بولنے کا بھی آپ کے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے؟
یا تو آپ اِس انتظام کو جو ”اللہ مالک الملک کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے کردہ شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری مرجع ٹھہرا رکھنے“ سے عبارت ہے ’طاغوتی‘ ہی قرار نہ دیں۔۔ اور یا اِس عمل کو جو ”اللہ مالک الملک کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے کردہ شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری مرجع ٹھہرا رکھنے“ سے عبارت ہے ’عام گناہوں‘ سے مختلف ایک گناہ قرار دیں اور اِس کو وہ ’ظلمِ عظیم‘ مانیں جس کو قرآنی اصطلاح میں ’شرک‘ اور ’کفر‘ کہا جاتا ہے۔
مؤخر الذکر بات کیلئے ہی، یعنی اِس فعل کو عام کبائر سے مختلف کبیرہ قرار دینے کیلئے ہی، اور اِس کو اعمال کی اُس صنف میں شمار کروانے کیلئے ہی جس کو اسلامی عقیدہ کی اصطلاح میں ’ظلمِ عظیم‘ کہا گیا ہے، قرآن کے اندر کچھ ایسے مباحث آئے ہیں:
وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (1)
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ (2)
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ (3)
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا (4)
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ(5)
یہاں کے کچھ نیک طبقوں کے یہاں ایک نہایت سرسری اور سطحی قسم کااندازِ استدلال دیکھ کر بے حد حیرانی ہوتی ہے۔ اپنی سلامتیِ فطرت اور اپنی غیرتِ توحیدی کی بدولت یہ غیر اللہ کی شریعت پر قائم اِس نظام کو ”باطل“ اور ”طاغوت“ یا ”طاغوتی“ کہنے میں تو ہرگز کوئی تردد نہیں رکھتے اور جوکہ ایک قابل ستائش امر ہے، لیکن یہاں پائے جانے والے ارجائی رجحانات سے دب کر وہ یہ کہنا البتہ ’انتہا پسندی‘ گردانتے ہیں کہ حکم بغیر ما اَنزل اللہ ایک کافرانہ فعل ہے....!!!
یہاں تک کہ ان میں سے کئی ایک طبقے نادانستہ عین اُسی مرجئہ والی دلیل ہی کو دہرانے لگتے ہیں جوکہ دراصل اِن کے اپنے پہلے مقدمے کو بھی باطل کر دیتی ہے؛ یعنی اِن کا یہ سوال اٹھانا کہ یہاں کا ایک عام فرد جو اپنی خواہش نفس سے مجبور ہو کر خدا کی معصیت کر بیٹھتا ہے اُس میں اور غیر اللہ کا قانون چلانے میں آخر کیا فرق ہے؟
فرماتے ہیں: دونوں کا حکم ایک رکھیں، کفر کہیں تو دونوں کے فعل کو کہیں، اور کفر کی فردِ جرم سے معاف رکھیں تو دونوں کو معاف رکھیں!
اب ظاہر ہے ایک عام شخص کے، خواہش نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خدا کی معصیت کرنے کو، کفر تو ہم نہیں کہیں گے؛ کیونکہ یہ خوارج کا مذہب ہے نہ کہ اہل سنت کا۔ لیکن۔۔۔۔ محض ’گناہ‘ کر لینے کو جب ہم ’کفر‘ نہیں کہیں گے تو کیا اُس کو ’طاغوتی‘ کہیں گے؟
ظاہر ہے نہ ’کفر‘ کہیں گے اور نہ ’طاغوتی‘۔
شرعی اصطلاح میں مذہب اہل سنت کی رو سے یہ محض ایک ’خطا‘ یا ایک ’معصیت‘ ہے جوکہ اہل ایمان سے بھی سرزد ہو جاتی ہے۔
تو پھر اگر عین یہی حکم یہاں پر قائم نظام کا بھی ہے، جیسا کہ ہمارے اِن اصحاب کا کہنا ہے، تو پھر اِس نظام کا حکم بھی محض ایک ’خطا‘ یا ایک ’معصیت‘ کا ہے جوکہ اہل ایمان سے بھی سرزد ہو جاتی ہے، اِس نظام کیلئے بھی پھر آپ ’طاغوت‘ یا ’طاغوتی‘ کا لفظ ہی سرے سے کیسے بول سکتے ہیں؟؟؟
اور یہی تو وہ بات ہے جس پر یہاں کے کچھ گھاگ قسم کے افکار ہمارے اِن نیک طبقوں کو لے کر آنا چاہ رہے ہیں؛ کہ یہ غیر اللہ کی شریعت کو قانون ٹھہرانے اور ایک عام قسم کی معصیت کا ارتکاب کر لینے،۔۔۔ ہر دو کو شرعی حکم کے لحاظ سے ایک کر دیں! پھر نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری! یہ نظام ہی جب عام خطاؤں جیسی محض ایک خطا ہے، جس پر ’شرک‘ یا ’کفر‘ یا ’طاغوت‘ ایسے الفاظ ہی نہیں بولے جا سکتے تو پھر ’وہ جدوجہد جو انبیاءکی طرز پر ایک طاغوت کے خلاف لڑی جاتی ہے‘ آپ سے آپ بے معنیٰ ٹھہرے گی!
پس ہم چاہیں گے کہ ہمارے وہ گرامی قدر اصحاب جو پورے یقین اور وثوق کے ساتھ اِس نظام کو ’طاغوت‘ کہتے ہیں مگر حکم بغیر ما اَنزل اللہ کو ’کفر‘ کہنے میں بے اندازہ تامل اختیار کرتے ہیں، اِس پر غور فرمائیں کہ ایسا کر کے کیا وہ اپنی اس تحریکی اساس ہی کو تو فوت نہیں کر لیتے جس پر وہ قوم کو یک آواز کرنے جا رہے ہیں؟! اِس نظام کو طاغوت ٹھہرائے جانے کی بنیاد اِس کا حکم بغیر ما اَنزل اللہ کرنا ہی تو ہے! اِس نظام کا اور کونسا جرم ہے جس کی بنیاد پر اِس کو ’طاغوت‘ قرار دے دیا جائے؟ یہی اگر کفر نہیں تو پھر اِس کیلئے ’طاغوت‘ کا لفظ بولنے کا بھی آپ کے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے؟
یا تو آپ اِس انتظام کو جو ”اللہ مالک الملک کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے کردہ شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری مرجع ٹھہرا رکھنے“ سے عبارت ہے ’طاغوتی‘ ہی قرار نہ دیں۔۔ اور یا اِس عمل کو جو ”اللہ مالک الملک کی شریعت کو ہٹا کر مخلوق کی طے کردہ شریعت ہی کو قانون اور انسانوں کے جملہ نزاعات میں فیصلہ کیلئے حتمی اور آخری مرجع ٹھہرا رکھنے“ سے عبارت ہے ’عام گناہوں‘ سے مختلف ایک گناہ قرار دیں اور اِس کو وہ ’ظلمِ عظیم‘ مانیں جس کو قرآنی اصطلاح میں ’شرک‘ اور ’کفر‘ کہا جاتا ہے۔
مؤخر الذکر بات کیلئے ہی، یعنی اِس فعل کو عام کبائر سے مختلف کبیرہ قرار دینے کیلئے ہی، اور اِس کو اعمال کی اُس صنف میں شمار کروانے کیلئے ہی جس کو اسلامی عقیدہ کی اصطلاح میں ’ظلمِ عظیم‘ کہا گیا ہے، قرآن کے اندر کچھ ایسے مباحث آئے ہیں:
وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (1)
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ (2)
إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ (3)
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا (4)
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ(5)