بسم الله الرحیم الرحيم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسول الکریم، اما بعد، امت کی بد نصیبی ہے کہ وفات النبی صلی الله عليه وسلم کا مسئلہ جو قران و حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ھے آج اختلافی مسئلہ بنا ھوا ھے اور اس کو اختلافی بنانے میں بنیادی کردار اس امت کے علماء و مشائخ کا ھی ھے ورنہ قران کا ارشاد بالکل واضح ھے کہ "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ"
(اے پیغمبر) تم بھی مر جاؤ گے اور یہ بھی مر جائیں گے
39-Az-Zumar : 30 ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس کے علاوہ خلیفہ اول ابوبکرؓ کا مشہور خطبہ جو انہوں نے نبی صلی الله عليه وسلم کی وفات کے موقع پر دیا تھا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ھے- اس میں بھی ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے آیت "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ" سے ھی استدلال کرتے ہوئے " فإن محمدا قد مات" کے تاریخی الفاظ کے ساتھ نبی صلی الله عليه وسلم کی موت کی تصدیق فرمائی تھی- زندگی اور موت کی عام فہم تعریف (definition) یہ ھے کہ جسم اور روح کا اتصال (ملاپ) زندگی ھے جبکہ جسم اور روح کا انفصال (علیحدگی) موت ھے - لیکن ان تمام عقلی و نقلی دلائل و براھین کے باوجود مدرسہ دیوبند کے بانی مبانی مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اپنی مشہور کتاب "آب حیات" میں لکھتے ہیں:
[ رسول الله صلی الله عليه وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال اب تک برابر مستمر ھے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ھونا واقع نہیں ھوا ]
(آب حیات صفحہ 36)
یعنی نبی صلی الله عليه وسلم کی دنیاوی زندگی اب تک برابر قائم و دائم ھے اور آپ صلی الله عليه وسلم کی روح اور جسم کا تعلق کبھی منقطع نہیں ھوا یعنی ایسا نہیں ھوا آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات ھوگئی اور آپ صلی الله عليه وسلم دنیاوی زندگی ختم ھونے کے بعد عالم برزخ میں پہنچ کر برزخی زندگی گزار رہے ھوں-
یوں تو مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی یہ بات ھی قران و حدیث اور اجماع صحابہؓ کے یکسر خلاف ھے لیکن اس پر ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ھے کہ کیا صحابہ نے نعوذ باالله ثم نعوذ باالله زندہ نبی کی ھی تدفین کردی؟؟؟
بہرحال یہ تو تذکرہ تھا مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی صاحب کا لیکن اسی مدرسے کے پہلے فارغ التحصیل شاگرد مولانا محمود الحسن صاحب نے سورة فاتحہ کی آیت" إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کی تفسیر کے ذریعے جو مشرکانہ عقیدہ پھیلایا وہ بھی ملاحظہ ھو:
[ اس آیت شریفہ سے معلوم ھوا کہ اس ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بلکل ناجائز ھے، ہاں اگر کسی مقبول بندے کو واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر اس سے استعانت ظاہری کرے تو یہ جائز ھے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ھی سے استعانت ھے ] (تفسیر عثمانی حاشیہ سورة فاتحہ)
ظلم کی انتہا ھے کہ علمائے دیوبند نے صرف اس گمراہی کی لوگوں تعلیم ھی نہیں دی بلکہ ایسے واقعات بھی گھڑے جن کے ذریعے اپنی اس گمراہی کو سند جواز فراہم کر سکیں- مثلاً دیوبند کے مشہور عالم اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب "کرامات امدادیہ" کے صفحہ 18 پر اپنے پیر حاجی امداد الله کا ایک واقعہ نقل کیا ھے کہ ایک مرتبہ حاجی امداد الله کا ایک مرید حج کے لئے جارہا تھا سمندر کا سفر تھا کسی دور دراز مقام پر کشتی چٹان سے ٹکرا گئی اور ڈوبنے والی تھی تو حاجی امداد الله کے مرید نے میلوں دور سے اپنے پیر روشن ضمیر کو مدد کے لئے پکارا اور کہا " اس وقت سے زیادہ اور کونسا وقت امداد کا ھوگا " چناچہ حاجی امداد الله نے میلوں دور پہنچ کر کشتی کو کاندھا دیکر ڈوبنے سے بچالیا-
بہرحال قران تو اس طرح کی باتوں کو نا صرف شرک قرار دیتا ھے بلکہ یہ بھی واضح کر دیتا ھے کہ جن ہستیوں کو مشرک لوگ غائبانہ اور مافوق الاسباب پکارتے ہیں وہ عالم الغیب نہیں ہیں- عالم الغیب صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات ھے-
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ حاجی امداد الله کے مرید نے مایوسی کی حالت میں بجائے الله تعالیٰ کو پکارنے کے اپنے پیر کو کیوں پکارا ؟؟ کیا مرید کو نہیں معلوم تھا کہ غائبانہ اور مافوق الاسباب سننا الله کی صفت ھے تو اس سوال کا جواب بھی اسی مدرسہ دیوبند سے شایع ھونے والے رسالے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں موجود ھے ملاحظہ ھو:
[ صوفیاء نے لکھا ھے کہ مردان حق ریاضت و مجاہدہ سے ایسی قوتیں اور ملکات بھی حاصل کرلیتے ہیں جو خداوند ذوالمنن کی خاص قدرتوں سے مشابہ ھوتی ھیں ]
(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند صفحہ 32 جنوری 1958 نگراں اعلیٰ قاری طیب)
پتہ چلا مرید نے جو کچھ کیا اپنے "بزرگوں" کی تعلیم کی وجہ سے ھی تھا کہ ان کے بزرگ مراقبہ اور ریاضت کے ذریعے ایسی طاقت حاصل کر لیتے ہیں جو نعوذ باالله الله تعالیٰ جیسی ھوتی ھے-
دعا ھے الله تعالیٰ انسانیت کو علماء سوء کے مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے- آمین
Www.islamic-belief.net