• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حیات النبی کا عقیدہ علماء دیوبند کے عقائد میں داخل ہے ۔ ۔ اہل سنت کا منہج تعامل

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
میرا سوال:
”دیوبندی عوام الناس“ (علما اور ان کے شاگرد نہیں) غالباً کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان میں سے کتنے فیصد عوام ”حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مسئلہ سے ”واقف“ ہیں اور شعوری طور پر وہی ایمان رکھتے ہیں، جو دیوبندی علماء کا عقیدہ ہے۔


 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
میرا سوال:
”دیوبندی عوام الناس“ (علما اور ان کے شاگرد نہیں) غالباً کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان میں سے کتنے فیصد عوام ”حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مسئلہ سے ”واقف“ ہیں اور شعوری طور پر وہی ایمان رکھتے ہیں، جو دیوبندی علماء کا عقیدہ ہے۔


 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
''المہند علیٰ المفند'' علمائے دیوبند کے عقائد کی ایسی مستند کتاب ہے جس پر بہت سے علماء دیوبند کی تصدیقات موجود ہیں، اس میں یہ عقیدہ لکھا ہوا ہے آپ ﷺاپنی قبر میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا جیسی ہے برزخی نہیں ہے۔''( المہند فی عقائد علماء دیوبند صفحہ ۷۰۔)

معروف دیوبندی عالم اخلاق حسین قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

''حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب جو ہمارے اکابر میں ہیں حضرت محمد قاسم نانوتوی کے علوم ومعارف کے بہترین شارح ہیں اس مسئلہ پر تحریر فرماتے ہیں: ''حضور کی حیات برزخی ہے مگر اس قدر قوی ہے کہ بلحاظ آثار وہ دنیوی بھی ہے... یہی وجہ ہے کہ بعد وفات حضور کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی، جنازہ میں کلام فرمایا اور قبر میں کلام فرمایا جس کو بعض صحابہ نے سنا، یہ تو وفات کے فوری بعد ہے کہ روح نے جسم کو کلیتہ نہیں چھوڑا، لیکن بعد میں تا حشر بھی روح کا وہی تعلق بدن سے قائم رہے گا جیسا کہ بنص حدیث اجساد انبیاء کا مٹی پر حرام ہونا ثابت ہے۔ اگر ان ابدان میں کوئی روح نہیں ہے تو انہیں گل جانا چاہیے، پھر حیات کا یہ اثر عالم برزخ میں ہے، عالم دنیا میں یہ ہے کہ ان کے اموال میں میراث جاری نہیں ہوتی، ان کی ازواج پر بیوگی نہیں آتی، ان کے نکاح حرام ہوتے ہیں نہ صرف عظمت انبیاء کی وجہ سے بلکہ حقیقتاً حیات کی وجہ سے کہ وہ بیوہ ہی نہیں ہیں، پس انبیاء کی یہ برزخی حیات جسمانی واز قبیل دنیوی بھی ہے کہ اجساد میں حس وحرکت بھی ہے، قبروں میں عبادت بھی ہے، کلام بھی ہے، امت کی طرف توجہ بھی ہے، پھر یہی حیات از قبیل حیات برزخی بھی ہے کہ نگاہوں سے اوجھل ہے، ان کی آواز ان کانوں میں نہیں آتی اور کلام ان حسی کانوں میں نہیں پڑتا، نیز امت کے حال کی طرف توجہ اور رخ کا پھیرنا ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا، سو اس میں ہماری کمزوری کو یعنی ضعف قوی کو دخل ہے نہ کہ ان آثار کے موجود نہ ہونے یا قابل وجود نہ ہونے کا، بالفاظ مختصر دونوں حیاتیں اس طرح جمع ہیں کہ حیات برزخی اصل ہے اور حیات دنیوی اس کے تابع، یعنی وہ عیناً موجود ہے اور یہ آثارًا موجود ہے۔ اسی طرح دونوں حیات جمع ہو جاتی ہیں نہ استعارۃً بلکہ حقیقتاً۔''(حیاۃ النبی از اخلاق حسین قاسمی ص ۱۳)

وفات کے بعدنبی کریم ﷺ کی زندگی کو دنیاوی قرار دینے کا عقیدہ بلا شک وشبہ باطل ہے ۔شیخ سلیمان بن سمحان  فرماتے ہیں :
''نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک میں زندگی دنیاوی نہیں ہے کہ جس میں انسان کو کھانے، پینے، لباس اور نکاح وغیرہ کی حاجت ہوتی ہے ۔بلکہ آپ کی زندگی برزخی ہے ۔آپ کی روح شریف رفیق اعلی کے پاس ہے ۔''(الصواعق المرسلۃ الشھابیۃ ۸۲)
محترم آپ نے لکھا ہے کہ
''المہند علیٰ المفند'' علمائے دیوبند کے عقائد کی ایسی مستند کتاب ہے جس پر بہت سے علماء دیوبند کی تصدیقات موجود ہیں، اس میں یہ عقیدہ لکھا ہوا ہے آپ ﷺاپنی قبر میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا جیسی ہے برزخی نہیں ہے۔''( المہند فی عقائد علماء دیوبند صفحہ ۷۰۔)
المھند کے اس صفحہ کا اصل سکین لگائیں جس میں دنیاوی کا اقرار اور برزخی کی نفی ہے۔
یہ کتاب عقائد کی کتاب نہیں ہے
 

ساکرو

مبتدی
شمولیت
جنوری 23، 2016
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
25
FB_IMG_1495729480742.jpg
بسم الله الرحیم الرحيم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسول الکریم، اما بعد، امت کی بد نصیبی ہے کہ وفات النبی صلی الله عليه وسلم کا مسئلہ جو قران و حدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ھے آج اختلافی مسئلہ بنا ھوا ھے اور اس کو اختلافی بنانے میں بنیادی کردار اس امت کے علماء و مشائخ کا ھی ھے ورنہ قران کا ارشاد بالکل واضح ھے کہ "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ"
(اے پیغمبر) تم بھی مر جاؤ گے اور یہ بھی مر جائیں گے
39-Az-Zumar : 30 ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس کے علاوہ خلیفہ اول ابوبکرؓ کا مشہور خطبہ جو انہوں نے نبی صلی الله عليه وسلم کی وفات کے موقع پر دیا تھا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ھے- اس میں بھی ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے آیت "إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ" سے ھی استدلال کرتے ہوئے " فإن محمدا قد مات" کے تاریخی الفاظ کے ساتھ نبی صلی الله عليه وسلم کی موت کی تصدیق فرمائی تھی- زندگی اور موت کی عام فہم تعریف (definition) یہ ھے کہ جسم اور روح کا اتصال (ملاپ) زندگی ھے جبکہ جسم اور روح کا انفصال (علیحدگی) موت ھے - لیکن ان تمام عقلی و نقلی دلائل و براھین کے باوجود مدرسہ دیوبند کے بانی مبانی مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اپنی مشہور کتاب "آب حیات" میں لکھتے ہیں:

[ رسول الله صلی الله عليه وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال اب تک برابر مستمر ھے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ھونا واقع نہیں ھوا ]
(آب حیات صفحہ 36)
یعنی نبی صلی الله عليه وسلم کی دنیاوی زندگی اب تک برابر قائم و دائم ھے اور آپ صلی الله عليه وسلم کی روح اور جسم کا تعلق کبھی منقطع نہیں ھوا یعنی ایسا نہیں ھوا آپ صلی الله عليه وسلم کی وفات ھوگئی اور آپ صلی الله عليه وسلم دنیاوی زندگی ختم ھونے کے بعد عالم برزخ میں پہنچ کر برزخی زندگی گزار رہے ھوں-
یوں تو مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی یہ بات ھی قران و حدیث اور اجماع صحابہؓ کے یکسر خلاف ھے لیکن اس پر ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ھے کہ کیا صحابہ نے نعوذ باالله ثم نعوذ باالله زندہ نبی کی ھی تدفین کردی؟؟؟

بہرحال یہ تو تذکرہ تھا مدرسہ دیوبند کے بانی محمد قاسم نانوتوی صاحب کا لیکن اسی مدرسے کے پہلے فارغ التحصیل شاگرد مولانا محمود الحسن صاحب نے سورة فاتحہ کی آیت" إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کی تفسیر کے ذریعے جو مشرکانہ عقیدہ پھیلایا وہ بھی ملاحظہ ھو:

[ اس آیت شریفہ سے معلوم ھوا کہ اس ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بلکل ناجائز ھے، ہاں اگر کسی مقبول بندے کو واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر اس سے استعانت ظاہری کرے تو یہ جائز ھے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ھی سے استعانت ھے ] (تفسیر عثمانی حاشیہ سورة فاتحہ)

ظلم کی انتہا ھے کہ علمائے دیوبند نے صرف اس گمراہی کی لوگوں تعلیم ھی نہیں دی بلکہ ایسے واقعات بھی گھڑے جن کے ذریعے اپنی اس گمراہی کو سند جواز فراہم کر سکیں- مثلاً دیوبند کے مشہور عالم اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب "کرامات امدادیہ" کے صفحہ 18 پر اپنے پیر حاجی امداد الله کا ایک واقعہ نقل کیا ھے کہ ایک مرتبہ حاجی امداد الله کا ایک مرید حج کے لئے جارہا تھا سمندر کا سفر تھا کسی دور دراز مقام پر کشتی چٹان سے ٹکرا گئی اور ڈوبنے والی تھی تو حاجی امداد الله کے مرید نے میلوں دور سے اپنے پیر روشن ضمیر کو مدد کے لئے پکارا اور کہا " اس وقت سے زیادہ اور کونسا وقت امداد کا ھوگا " چناچہ حاجی امداد الله نے میلوں دور پہنچ کر کشتی کو کاندھا دیکر ڈوبنے سے بچالیا-
بہرحال قران تو اس طرح کی باتوں کو نا صرف شرک قرار دیتا ھے بلکہ یہ بھی واضح کر دیتا ھے کہ جن ہستیوں کو مشرک لوگ غائبانہ اور مافوق الاسباب پکارتے ہیں وہ عالم الغیب نہیں ہیں- عالم الغیب صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات ھے-

اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ حاجی امداد الله کے مرید نے مایوسی کی حالت میں بجائے الله تعالیٰ کو پکارنے کے اپنے پیر کو کیوں پکارا ؟؟ کیا مرید کو نہیں معلوم تھا کہ غائبانہ اور مافوق الاسباب سننا الله کی صفت ھے تو اس سوال کا جواب بھی اسی مدرسہ دیوبند سے شایع ھونے والے رسالے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں موجود ھے ملاحظہ ھو:

[ صوفیاء نے لکھا ھے کہ مردان حق ریاضت و مجاہدہ سے ایسی قوتیں اور ملکات بھی حاصل کرلیتے ہیں جو خداوند ذوالمنن کی خاص قدرتوں سے مشابہ ھوتی ھیں ]
(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند صفحہ 32 جنوری 1958 نگراں اعلیٰ قاری طیب)

پتہ چلا مرید نے جو کچھ کیا اپنے "بزرگوں" کی تعلیم کی وجہ سے ھی تھا کہ ان کے بزرگ مراقبہ اور ریاضت کے ذریعے ایسی طاقت حاصل کر لیتے ہیں جو نعوذ باالله الله تعالیٰ جیسی ھوتی ھے-

دعا ھے الله تعالیٰ انسانیت کو علماء سوء کے مکر و فریب سے اپنی پناہ میں رکھے- آمین
Www.islamic-belief.net
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
المھند کے اس صفحہ کا اصل سکین لگائیں جس میں دنیاوی کا اقرار اور برزخی کی نفی ہے۔
میں متعدد اشاعت کے اسکین پیش کرتا ہوں! مع مکمل عبارت!
یہ کتاب عقائد کی کتاب نہیں ہے
کتاب کا نام اور اس کے مندرجات اور دیگر علمائے دیوبند کی تصریحات بھی دیکھ لیں! اسے عقائد کی کتاب اور مسلکی دستاویز تک قرار دیا ہے!

السوال الخامس:
ما قولكم في حيوة النبي عليه الصلوٰة والسلام في قبره الشريف هل ذلك امر مخصوص به ام مثل سائر المومنين رحمة الله عليهم حيوية برزخية.

کیا فرماتے ہو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں حیات کے متعلق کہ کوئی خاص حیات آپ کو حاصل ہے یا عام مسلمانوں کی طرح برزخی حیات ہے۔
الجواب:
عندنا وعند مشائخنا حضرة الرسالة صلی الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف وهي مختصة به صلی الله عليه وسلم وبجميع الانبياء صلوات الله عليهم والشهداء لا برزخية الله كما هي حاصلة لسائر المؤمنين بل لجميع الناس كما نص عليه العلامة السيوطي في رسالته ''انبياء الاذكياء بحيوة الانبياء'' حيث قال قال الشيخ تقي الدين السبكي حيوة الانبياء والشهداء في القبر كحيوتهم في الدنيا ويشهد له صلوة موسی عليه السلام في قبره فان الصلوة تستدعی جسدا حيا الی اخر ما قال فثبت بهذا ان حيوته دنيوية برزخية لكونها في عالم البرزخ ولشيخنا شمس الاسلام والدين محمد قاسم العلوم علی المستفدين قدس الله سره العزيز في هذه المبحث رسالة مستقلة دقيقة الماخذ بديعة المسلك لم ير مثلها قد طبعت وشاعت في الناس واسمها ''آب حيات'' اي ماء الحيوة.

جواب:
ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی بلا مکلّف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ، برزخی نہیں ہے، جو حاصل ہے تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو چنانچہ علامہ سیوطی نے اپنے رسالہ '' انباء الاذكيا بحيوة الانبياء'' میں بتصریح لکھا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا ہے کہ انبیاء وشہداء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسیٰ علیہ السلام کی اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے الخ۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی ہے اور اس معنے کے برزخی بھی ہے کہ عام برزخ میں حاصل ہے اور ہمارے شیخ مولانا محمد قاسم صاحب قدس سرہ کا اس مبحث میں ایک مستقل رسالہ بھی ہے نہایت دقیق اور انوکھے طرز کا بے مثل، جو طبع ہو کر لوگوں میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کا نام ''آب حیات'' ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 37 – 39 المهند علی المفند یعنے عقائد علماء اہل سنت دیوبند (عربی مع ترجمہ اردو) – خلیل احمد سہارنپوری –ادارہ اسلامیات، لاہور

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 33 – 35 المهند علی المفند یعنے عقائد علماء اہل سنت دیوبند – خلیل احمد سہارنپوری (عربی مع ترجمہ اردو) – نفیس منزل، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 30 – 31 المهند علی المفند یعنے عقائد علماء اہل سنت دیوبند – خلیل احمد سہارنپوری (عربی مع ترجمہ اردو) – الميزان، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 04 – 05 المهند علی المفند (صرف عربی) – خلیل احمد سہارنپوری
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 10 – 11 عقائد علماء اہل سنت دیوبند (صرف اردو) – خلیل احمد سہارنپوری – دار الکتاب، دیوبند





ایک اشاعت کے اسکین یہاں ڈائریکٹ مشاہدہ کے لئے بھی لگا دیاتا ہوں:




 
Last edited:
Top