قال : ألا أخبرُك عني وعنْ فاطمةَ رضي الله عنها كانتِ ابنةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وكانتْ مِنْ أكرمِ أهلِه عليه وكانتْ زوجتي فَجَرَّتْ بالرَّحى حتى أثَّر الرَّحى بيدِها وأسقَتْ بالقِربةِ حتى أثَّرتِ القربةُ بنحرِها وقَمَّتِ البيتَ حتى اغبرَّتْ ثيابُها وأَوقدتْ تحتَ القِدرِ حتى دنِسَتْ ثيابُها فأصابها مِنْ ذلك ضررٌ فقُدم على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بسبْيٍ أو خدمٍ قال : فقلت لها : انطلقي إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فاسأليه خادمًا يقيك حرَّ ما أنتِ فيه فانطلقتْ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فوجدتْ عنده خَدَمًا أو خُدَّامًا فرجعتْ ولم تسألْه فذكر الحديثَ فقال : ألا أدلُّكِ على ما هو خيرٌ لكِ منْ خادمٍ إذا أويتِ إلى فراشِكِ سبحي ثلاثًا وثلاثين واحمَدي ثلاثًا وثلاثين وكبري أربعًا وثلاثينَ قال : فأخرجَتْ رأسَها فقالت : رضيتُ عنِ اللهِ ورسولِه مرتين ۔۔۔ مسند أحمد، قال أحمد شاكر: إسناده حسننان و نفقہ خاوند کے ذمہ ہے بلکل صحیح فرمایا آپ نے اگر اس نان و نفقہ کی تشریح کردی جائے تو اس کے بعد جو آپ نے لکھا وہ سب کچھ ہی باطل ہوجائے گا ۔ مثلا
نان و نفقہ میں کھانا کپڑے اوررہنے کے لئے گھر شامل ہے
؎کھانا ۔:
بیوی کا کھانا جو شوہر کے ذمہ ہے وہ یقینا پکا ہوا کھانا ہے یہ نہیں کہ شوہر نے آٹا دال چاول سبزیگوشت لا دیا اور کہا کہ یا تو چکا کھاؤ یا پکا کے کھاؤ تمہاری مرضی یعنی خاوند کے ذمہ ہے کہ اپنی بیوی کو پکا ہوا کھانا کھلائے یا تو ایسے خود پکائے یا پھر اس کے ملازم رکھے یا بازار سے لاکر پکا ہوا کھانا کھلائے ظاہر سی بات ہے کہ جب کھانا کھایا جائے گا تو کسی برتن میں ہی کھایا جائے گا اب اس برتن کی صفائی بھی شوہر کے ذمہ ہے کہ اس پر نان و نفقہ مہیا کرنے کا پابند ہے
کپڑے
خاوند کے ذمہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لئے کپڑے مہیا کرے یہ نہیں کہ شوہر نے دھاگہ لا کے بیوی کو دیا کہ اب اس سے خود ہی کپڑا بن اور اس کو سلائی کرکے پہن لے بلکہ شوہر کے ذمہ ہے کہ وہ بیوی کو سلے ہوئے کپڑے مہیا کرے اگر جب یہ کپڑے میلے یا گندے ہوجائیں تو ان کو دھلواکر استری کرواکر پھر بیوی کے لئے مہیا کرے تب وہ نان و نفقہ فراہم کرنے کی شرط پر پورا اترے گا
بیوی کےرہنے کے لئے گھر
شوہر کے ذمہ ہے کہ بیوی کو رہنے کے لئے گھر مہیا کرے اب شوہر یہ نہیں کرسکتا کہ پلاٹ لے کر اس میں سمینٹ بجری سریا اور دیگر تعمراتی اشیاء لیکر بیوی کو دے دے کہے کہ لو اپنے رہنے کے لئے گھر بنا لو بلکہ خاوند کو اس کے بنا ہوا گھر مہیا کرنا نان و نفقہ میں شامل ہے جب گھر نان و نفقہ میں شامل ہے تو اس کی صفائی ستھرائی اور اس مینٹنس بھی شوہر کے ذمہ ہے
یہ مختصر تشریح نان و نفقہ کی امید ہے اب آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی اب اگر بیوی گھر کے کام کاج کرتی ہے تو یہ اس کا احسان ہے نہ کہ ذمہ داری لیکن ہمارے معاشرے میں گھر کے کام کاج سودا سلف کی خرایداری بچوں کی دیکھ بھال کو عورت پر واجب سمجھا جاتا ہے جو کہ مناسب بات نہیں
یہ اہل بیت اطہار کی شان ہے کہ وہ دنیاوی تکالیف و الام پر صبر کرتے ہیں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہیں باوجود قدرت ہونے کے دنیاوی تکالیف میں کوئی سہولت بہم نہیں کرتے اور انہیں آخرت پر نظر رکھنے کی تلقین فرماتے ہیں اوراہل بیت اطہار کے سبب بارگاہ رسالت سے پوری امت کو ایک عظیم تحفہ تسبیح فاطمہ کی صورت میں عطاء کیا جاتاقال : ألا أخبرُك عني وعنْ فاطمةَ رضي الله عنها كانتِ ابنةَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وكانتْ مِنْ أكرمِ أهلِه عليه وكانتْ زوجتي فَجَرَّتْ بالرَّحى حتى أثَّر الرَّحى بيدِها وأسقَتْ بالقِربةِ حتى أثَّرتِ القربةُ بنحرِها وقَمَّتِ البيتَ حتى اغبرَّتْ ثيابُها وأَوقدتْ تحتَ القِدرِ حتى دنِسَتْ ثيابُها فأصابها مِنْ ذلك ضررٌ فقُدم على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بسبْيٍ أو خدمٍ قال : فقلت لها : انطلقي إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فاسأليه خادمًا يقيك حرَّ ما أنتِ فيه فانطلقتْ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فوجدتْ عنده خَدَمًا أو خُدَّامًا فرجعتْ ولم تسألْه فذكر الحديثَ فقال : ألا أدلُّكِ على ما هو خيرٌ لكِ منْ خادمٍ إذا أويتِ إلى فراشِكِ سبحي ثلاثًا وثلاثين واحمَدي ثلاثًا وثلاثين وكبري أربعًا وثلاثينَ قال : فأخرجَتْ رأسَها فقالت : رضيتُ عنِ اللهِ ورسولِه مرتين ۔۔۔ مسند أحمد، قال أحمد شاكر: إسناده حسن
http://dorar.net/hadith?skeys=فوجدتْ عنده خَدَمًا أو خُدَّامًا فرجعتْ ولم تسألْه فذكر الحديثَ فقال : ألا أدلُّكِ على ما هو خيرٌ لكِ منْ خادمٍ&st=a&xclude=
ابن اعبُد کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتائوں؟ وہ میری بیوی تھیں۔ انہوں نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑگئے، اور پانی بھر بھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہوجاتے، اور ہانڈی کے نیچے آگ جلاتیں حتیٰ کہ ان کے کپڑے خراب ہوجاتے اور انہیں تکلیف پہنچتی۔ نبی اکرم ﷺ کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا: اچھا ہوتا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاتی، اور ان سے اپنے لئے ایک خادم مانگ لیتی اور تمہیں اس مشکل سے نجات مل جاتی، چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں اور وہاں آپ کے پاس خادم پائے۔ لیکن پھر آپ سے مانگے بغیر واپس لوٹ آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ (نبی کریمﷺ ان کے پاس تشریف لائے) اور فرمایا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو خادم سے بہتر ہے؟ جب تم بستر پر لیٹو تو (۳۳) بار سبحان اللہ، (۳۳) بار الحمد للہ، اور (۳۴) بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔ سیدہ فاطمہ سے فرمایا: میں اللہ اور ان کے رسول سے راضی ہوں۔
اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، آپ کے اصول پر، بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نان نفقہ نہیں دے پاتے تھے۔ اور اپنے واجب کو ادا نہیں کر پاتے تھے۔یہ اہل بیت اطہار کی شان ہے کہ وہ دنیاوی تکالیف و الام پر صبر کرتے ہیں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہیں باوجود قدرت ہونے کے دنیاوی تکالیف میں کوئی سہولت بہم نہیں کرتے اور انہیں آخرت پر نظر رکھنے کی تلقین فرماتے ہیں اوراہل بیت اطہار کے سبب بارگاہ رسالت سے پوری امت کو ایک عظیم تحفہ تسبیح فاطمہ کی صورت میں عطاء کیا جاتا
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ سیدۃ النساء اہل جنت گھر کے جو کام انجام دیا کرتی تھیں تو کیا یہ ان پر واجب تھے یہ اس روایت میں بیان نہیں ہوا
اور ہماری طرف سے:پیروڈی:
یہ شادی نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجئے
فینائل کی گولی ہے اور چوس کے کھانی ہے
(ابتسامہ)
یہ بھی وہیں لکھا ہے اسی فتویٰ میں۔ ۔ ۔پڑھ لینے سے افاقہ ہو گا!!!!
ليكن اس ميں صحيح بات يہى ہے كہ اگر بيوى اپنے خاوند كے نكاح ميں ہے تو پھر اس كے ليے بچوں كى رضاعت كا مالى معاوضہ طلب كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ تو اس پر واجب ہے، اس صورت ميں صرف اسے نان و نفقہ حاصل ہوگا
خواتین روافضہ تو پھر بہت سکون میں ہوں گی:)نان و نفقہ خاوند کے ذمہ ہے بلکل صحیح فرمایا آپ نے اگر اس نان و نفقہ کی تشریح کردی جائے تو اس کے بعد جو آپ نے لکھا وہ سب کچھ ہی باطل ہوجائے گا ۔ مثلا
نان و نفقہ میں کھانا کپڑے اوررہنے کے لئے گھر شامل ہے
؎کھانا ۔:
بیوی کا کھانا جو شوہر کے ذمہ ہے وہ یقینا پکا ہوا کھانا ہے یہ نہیں کہ شوہر نے آٹا دال چاول سبزیگوشت لا دیا اور کہا کہ یا تو چکا کھاؤ یا پکا کے کھاؤ تمہاری مرضی یعنی خاوند کے ذمہ ہے کہ اپنی بیوی کو پکا ہوا کھانا کھلائے یا تو ایسے خود پکائے یا پھر اس کے ملازم رکھے یا بازار سے لاکر پکا ہوا کھانا کھلائے ظاہر سی بات ہے کہ جب کھانا کھایا جائے گا تو کسی برتن میں ہی کھایا جائے گا اب اس برتن کی صفائی بھی شوہر کے ذمہ ہے کہ اس پر نان و نفقہ مہیا کرنے کا پابند ہے
کپڑے
خاوند کے ذمہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لئے کپڑے مہیا کرے یہ نہیں کہ شوہر نے دھاگہ لا کے بیوی کو دیا کہ اب اس سے خود ہی کپڑا بن اور اس کو سلائی کرکے پہن لے بلکہ شوہر کے ذمہ ہے کہ وہ بیوی کو سلے ہوئے کپڑے مہیا کرے اگر جب یہ کپڑے میلے یا گندے ہوجائیں تو ان کو دھلواکر استری کرواکر پھر بیوی کے لئے مہیا کرے تب وہ نان و نفقہ فراہم کرنے کی شرط پر پورا اترے گا
بیوی کےرہنے کے لئے گھر
شوہر کے ذمہ ہے کہ بیوی کو رہنے کے لئے گھر مہیا کرے اب شوہر یہ نہیں کرسکتا کہ پلاٹ لے کر اس میں سمینٹ بجری سریا اور دیگر تعمراتی اشیاء لیکر بیوی کو دے دے کہے کہ لو اپنے رہنے کے لئے گھر بنا لو بلکہ خاوند کو اس کے بنا ہوا گھر مہیا کرنا نان و نفقہ میں شامل ہے جب گھر نان و نفقہ میں شامل ہے تو اس کی صفائی ستھرائی اور اس مینٹنس بھی شوہر کے ذمہ ہے
یہ مختصر تشریح نان و نفقہ کی امید ہے اب آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی اب اگر بیوی گھر کے کام کاج کرتی ہے تو یہ اس کا احسان ہے نہ کہ ذمہ داری لیکن ہمارے معاشرے میں گھر کے کام کاج سودا سلف کی خرایداری بچوں کی دیکھ بھال کو عورت پر واجب سمجھا جاتا ہے جو کہ مناسب بات نہیں
یہ اہل بیت اطہار کی شان ہے کہ وہ دنیاوی تکالیف و الام پر صبر کرتے ہیں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہیں باوجود قدرت ہونے کے دنیاوی تکالیف میں کوئی سہولت بہم نہیں کرتے اور انہیں آخرت پر نظر رکھنے کی تلقین فرماتے ہیں اوراہل بیت اطہار کے سبب بارگاہ رسالت سے پوری امت کو ایک عظیم تحفہ تسبیح فاطمہ کی صورت میں عطاء کیا جاتا
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ سیدۃ النساء اہل جنت گھر کے جو کام انجام دیا کرتی تھیں تو کیا یہ ان پر واجب تھے یہ اس روایت میں بیان نہیں ہوا