کائنات فاطمہ
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 21، 2012
- پیغامات
- 4
- ری ایکشن اسکور
- 21
- پوائنٹ
- 0
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گےاس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں۔
اس ارشاد سے اللہ اور اسکے رسول کی صحیح اور سچی اطاعت و فرمانبرداری یعنی ایمان صادق اور عمل صالح کی ان بعض خاص اور اہم برکات کا ذکر فرما دیا گیا جو مومنین صادقین کو آخرت سے پہلے اس دنیا میں نصیب ہوتی ہیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم میں سے جو لوگ صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان اور عمل صالح کی راہ کو اپنائیں گے ان سے اللہ تعالیٰ اس بات کا وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ ان کو اس سرزمین میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے کے لوگوں یعنی گذشتہ رسولوں اور ان کی امتوں کو اقتدار بخشا، اور وہ ان کے اس دین کو اس ملک میں استحکام بخشے گا جس کو اس نے ان کیلئے پسند فرمایا ہے، یعنی اسلام کو کہ یہی دین دین حق اور دین فطرت ہے، اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے پسند فرمایا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اسکی اس طرح تصریح فرمائی گئی (وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ:3) یعنی میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا، اور مزید یہ کہ وہ ان کو خوف کے بجائے امن و امان کی دولت سے نوازے گا، چنانچہ فتح مکہ کے بعد اور پھر حضرات خلفاء راشدین کی خلافت علی منہاج النبوۃ کے دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ وعدہ پورا ہوا اور اسکی ان خیرات و برکات کو دنیا نے خود اور بچشم سر دیکھا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں تمام فتنوں کا قلع قمع ہوا اور حضرت عمر فاروق رضی ا للہ عنہ کے دور خلافت میں اللہ نے مسلمانوں کی قوت کو استحکام بخشا اور انتہائی قوت دی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمٖ ٖ کی کی گئی کتنی ہی پیشین گوئیاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اللہ عز وجل نے پو ری فرمائیں حضرت عثمان غنی رضٰی اللہ عنہ کا دور بھی فتوحات سے مزین رہا جبکہ مسلمانوں کے اندرونی خلفشار کی وجہ سے حضرت علی رضٰی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتوحات کا یہ سلسلہ رک گیا ،والحمد للہ جَلَّ وَعَلَا، آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اسکے بعد کفر کریں گے وہی فاسق ہونگے یعنی جو لوگ اللہ کے ان بندوں کی خلافت کو نہیں مانتے جنہیں اللہ نے خود پسند کر کے خلافت اور بادشاہت عطا فرمائی وہی درحقیقت فاسق اور گنہگار ہیں اور کفر کے مرتکب ہیں۔ اور فسق کا لفظ یہاں برفقہی مفہوم میں نہیں، بلکہ قرآنی مفہوم میں ہے اور قرآنی مفہوم میں یہ عام ہے جو کفر کو بھی شامل ہے، کیونکہ فسق کے اصل معنی خروج کے ہوتے ہیں سو فسق کے معنی ہونگے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی حدود سے نکل جانا اور ظاہر ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ کفر و شرک سب ہی مفاہیم کو عام اور شامل ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے، آمین
اے اللہ دین کے معاملات میں میری مدد فرما اور میرے لئے حقیقت کا ہر دریچہ کھول دے۔آمین
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گےاس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں۔
اس ارشاد سے اللہ اور اسکے رسول کی صحیح اور سچی اطاعت و فرمانبرداری یعنی ایمان صادق اور عمل صالح کی ان بعض خاص اور اہم برکات کا ذکر فرما دیا گیا جو مومنین صادقین کو آخرت سے پہلے اس دنیا میں نصیب ہوتی ہیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم میں سے جو لوگ صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان اور عمل صالح کی راہ کو اپنائیں گے ان سے اللہ تعالیٰ اس بات کا وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ ان کو اس سرزمین میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے کے لوگوں یعنی گذشتہ رسولوں اور ان کی امتوں کو اقتدار بخشا، اور وہ ان کے اس دین کو اس ملک میں استحکام بخشے گا جس کو اس نے ان کیلئے پسند فرمایا ہے، یعنی اسلام کو کہ یہی دین دین حق اور دین فطرت ہے، اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے پسند فرمایا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اسکی اس طرح تصریح فرمائی گئی (وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ:3) یعنی میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا، اور مزید یہ کہ وہ ان کو خوف کے بجائے امن و امان کی دولت سے نوازے گا، چنانچہ فتح مکہ کے بعد اور پھر حضرات خلفاء راشدین کی خلافت علی منہاج النبوۃ کے دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ وعدہ پورا ہوا اور اسکی ان خیرات و برکات کو دنیا نے خود اور بچشم سر دیکھا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں تمام فتنوں کا قلع قمع ہوا اور حضرت عمر فاروق رضی ا للہ عنہ کے دور خلافت میں اللہ نے مسلمانوں کی قوت کو استحکام بخشا اور انتہائی قوت دی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمٖ ٖ کی کی گئی کتنی ہی پیشین گوئیاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اللہ عز وجل نے پو ری فرمائیں حضرت عثمان غنی رضٰی اللہ عنہ کا دور بھی فتوحات سے مزین رہا جبکہ مسلمانوں کے اندرونی خلفشار کی وجہ سے حضرت علی رضٰی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتوحات کا یہ سلسلہ رک گیا ،والحمد للہ جَلَّ وَعَلَا، آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اسکے بعد کفر کریں گے وہی فاسق ہونگے یعنی جو لوگ اللہ کے ان بندوں کی خلافت کو نہیں مانتے جنہیں اللہ نے خود پسند کر کے خلافت اور بادشاہت عطا فرمائی وہی درحقیقت فاسق اور گنہگار ہیں اور کفر کے مرتکب ہیں۔ اور فسق کا لفظ یہاں برفقہی مفہوم میں نہیں، بلکہ قرآنی مفہوم میں ہے اور قرآنی مفہوم میں یہ عام ہے جو کفر کو بھی شامل ہے، کیونکہ فسق کے اصل معنی خروج کے ہوتے ہیں سو فسق کے معنی ہونگے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی حدود سے نکل جانا اور ظاہر ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ کفر و شرک سب ہی مفاہیم کو عام اور شامل ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے، آمین
اے اللہ دین کے معاملات میں میری مدد فرما اور میرے لئے حقیقت کا ہر دریچہ کھول دے۔آمین