ہمارا (اہل حدیث ) مذہب ہے کہ خلافت ِراشدہ حق پر ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان ذوالنورین، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم خلفاے راشدین تھے۔ ان کی اِطاعت بموجب ِشریعت سب پر لازم تھی۔ کیونکہ خلافت ِراشدہ کے معنی نیابت کے ہیں، حضرت ابوبکر کو حضورﷺنے اپنی زندگی ہی میں اپنا نائب بنایا تھا۔مرض الموت میں صدیق اکبر کو امام مقرر کیا۔ حالانکہ سیدہ عائشہ بنت ِابوبکرؓ نے یہ سوچ کر کہ کہیں حضرت انتقال فرماگئے تو میرے باپ کی نسبت لوگوں کا گمانِ بدنہ ہو کہ ایسا امامت پر کھڑا ہوا کہ آنحضرتﷺ جانبر نہ ہوئے ۔عرض کیا کہ حضرت ابوبکرؓ بڑے رقیق القلب ہیں، وہ آپ کی جگہ پر اِمامت نہیں کرسکیں گے۔ آپ عمرفاروقؓ کو امام بنا دیجئے مگر آپ نے ایک نہ سنی۔ بلکہ نہایت خفگی سے فرمایا:
’’ أنتُنّ صواحب یوسف ‘‘ (صحیح بخاری:۷۱۲)
’’تم ویسی ہی عورتیں ہو جو یوسف کو بہکاتی تھیں۔‘‘
یعنی جن عورتوں کو زلیخا نے دعوت میں بلایا تھا اور اُنہوں نے بھی یوسف علیہ السلام کو زلیخا کی طرف ناجائزمیلان کرنے کی رغبت دی تھی، تم بھی اسی طرح مجھ کو ایک ناجائز کام کی رغبت دیتی ہو کہ
میں ابوبکرؓ کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو منصب ِامامت پر مامور کروں۔چنانچہ صدیق اکبرؓ برابر نماز پڑھاتے رہے۔ آخر سرورِ عالمﷺ کے انتقال پُرملال کے بعد
حضرت ابوبکرؓ کو سب نے خلیفہ مان لیا۔ اتنا بالاجمال واقعہ تو سنی، شیعہ دونوں گروہوں میں متفقہ ہے۔ ایک حدیث جو خاص اہل سنت کی روایت سے اس امر کا قطعی فیصلہ کرتی ہے جس میں آنحضرتﷺ نے مرض الموت میں حضرت عائشہؓ کو فرمایا تھا:
عن عائشۃ قالت قال لي رسول اﷲ! في مرضہ: اُدعي لي أبا بکر أباک وأخاک حتی أکتب کتابًا فإنی أخاف أن یتمنّٰی متمنّ ویقول قائل: أنا ویأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبابکر (صحیح مسلم: رقم ۲۳۸۷)
’’اپنے باپ ابوبکرؓ اور بھائی عبدالرحمنؓ کوبلا کہ میں خلافت کا فیصلہ لکھ دوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کوئی کہنے لگے کہ میں خلافت کا حق دار ہوں حالانکہ اللہ کو اور سب مؤمنوں کو ابوبکرؓ کے سوا کوئی بھی منظور نہ ہوگا۔‘‘
اس حدیث سے نہ صرف خلافت ِصدیقی کا فیصلہ ہوتا ہے بلکہ اس مشہور مسئلۂ قرطاس کا بھی تصفیہ ہوتا ہے جو آنحضرتﷺ کے قلم دوات طلب کرنے پر صحابہ رض کے انکار واِقرار کا مشہور ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ
آنحضرتﷺنے مرض الموت میں فرمایا تھا۔ قلم دوات منگاؤ، میں تم کو کچھ لکھ دوں میرے بعد جھگڑا نہ ہو۔ اس پر صحابہ کا بایں خیال اختلاف رہا کہ حضور کو بیماری میں تکلیف ہوگی۔ آخر آپ خلافت کی بابت ہی کچھ لکھوائیں گے۔ عرض کیا:
حسبُنا کتاب اﷲ ’’ہم کو کتاب اللہ قرآنِ مجید کافی ہے۔کیا ضرورت کہ حضورﷺ کو ایسی تکلیف میں تکلیف بڑھائیں؟‘‘
اس دلیل کے پیش کرنے والے حضرت فاروق تھے۔
جن کی قوتِ استدلال سب کو مسلم تھی۔چنانچہ اکثر نے ان سے اس رائے میں اتفاق کیا اور آنحضرتﷺنے بھی معمولی اظہارِ رنج کرکے جیسے عموماً کسی ہمدرد بزرگ کو ایسے موقع پر ہوتا ہے، اُن کو اُٹھا دیا اور فرمایا کہ میں اس وقت جس شغل میں ہوں، تمہارے شغل سے کہیں بہتر ہے۔
اس واقعہ پرفریقین (سنی، شیعہ) کی رائیں اور توجیہیں مختلف ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ اس کتاب کا مضمون جو آنحضرتﷺ نے لکھنا چاہا تھا،
خلافت ِعلی کی وصیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمر نے اس باب میں مزاحمت کی۔ جبکہ اہل سنت کا قول ہے کہ آنحضرتﷺ اگر لکھتے تو
حضرت ابوبکرؓ کی خلافت لکھتے۔ مگر آپ نے لکھنے کو ضروری نہ سمجھا کیونکہ آپ بطورِ پیش گوئی فرما چکے تھے کہ
یأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبا بکر ’’اللہ اور مؤمنوں کو سواے ابوبکر کے کوئی پسند ہی نہ ہوگا۔‘‘
اسی وجہ سے عائشہ صدیقہؓ کو ابوبکرؓ کے بلانے کی بابت ارشاد کرکے خاموش رہے اور اسی وجہ سے اس وقت بھی سکوت اختیار کیا۔ یہ حدیث اہل سنت کے لیے ایک قوی دلیل ہے کہ خلافت ِصدیقی منظورِ نبویﷺ ہے۔ نیز مسئلہ قرطاس کی بابت صریح تصفیہ ہے کہ حضورﷺ وہی بات لکھتے جس کے لکھنے کی خواہش پہلے ظاہر فرما چکے تھے کہ
ابوبکرؓ کو خلیفہ بنانا!
٭ خاص شیعہ کی طرز پر اس کا الزامی جواب بھی ہوسکتا ہے کہ بقول ان کے آنحضرتﷺ خلافت ِعلی کے پہنچانے پر مامور تھے اور بقول ان کے آیت:
{بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ} ’’جو کچھ تجھ کو اللہ کی طرف سے حکم پہنچا ہے وہ پہنچا دے۔‘‘
انہی معنی کے لیے نازل ہوئی تھی کہ
خلافت ِعلی کی بابت جو تجھے حکم دیا گیا ہے، وہ لوگوں کو پہنچا۔ اگر تو نے نہ پہنچایا تو گویا تو نے نبوت کی تبلیغ نہ کی۔
پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے روکنے سے حضورﷺ ایسے بڑے ضروری کام سے جس کا ارشاد جناب ِباری تعالیٰ سے پہنچا ہوا تھا جس کے نہ کرنے پر تمام نبوت کی تبلیغ کالعدم ہوتی تھی، آپ نے لکھوانے میں تساہل فرمایا۔
اگر اس موقع پر حضرت عمرؓ کی مخالفت مانع تھی
تو صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی تو حضرت عمرؓ ہی صلح کے مخالف تھے بلکہ زور سے اس مخالفت کو نیک نیتی سے ظاہر کرتے اور پھیلاتے تھے۔ مگر اس نازک موقع پر جہاں ایک طرف کفار کا ہجوم ہے اور دوسری طرح خود صحابی بھی رنج و ملول بیٹھے ہیں،
عمرؓ کی مخالفت کی کچھ پروا نہ ہوئی تو اس موقع پر جب کہ
تمام حاضرین خدام ہیں، اہل بیت سب حاضر ہیں، عمرؓ کا اس قدر اثر ہواکہ حکم الٰہی کی تبلیغ سے خاموش ہوگئے۔ ہمارے خیال میں ایسا گمان شانِ نبوتﷺ میں بدگمانی پیدا کرنے کا موجب ہے۔
٭ علاوہ ازیں شیعوں کی طرف سے اس دعویٰ پر کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بابت حضورﷺنے خلافت کی وصیت فرمائی تھی، ایک حدیث یہ بھی پیش کی جاتی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
’’ من کنت مولاہ فعلي مولاہ‘‘
’’یعنی جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کا مولا ہے۔‘‘
چونکہ آنحضرتﷺ سب ایمانداروں کے مولا ہیں اور اس لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی سب کے مولا ہیں اور مولا کے معنی حاکم اور امیر کے بتاتے ہیں۔ اسی حدیث کا تتمہ وہ الفاظ ہیں جو فاروق اعظمؓ کی طرف سے روایت کئے جاتے ہیں کہ فرمانِ نبویؐ
من کنت مولاہ … الخ سن کر اُنہوں نے کہا تھا:
’’بخ بخ یا أبا الحسن أصبحت مولائي ومولا کل مؤمن ومؤمنۃ‘‘ ( مختصرا)
’’یعنی اے ابوالحسن علی مرتضیٰؓ! تجھے مبارک ہو کہ تو میرا اور ہرایماندار کا مولا ہوچکا ۔‘‘
لیکن بغور دیکھا جائے تو اس سے بھی شیعوں کا مدعا ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی کو حق خلافت تھا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ وغیرہ نے خلافت ِعلیؓ کو معاذ اللہ ظلم سے غصب کیا۔جس کی وجہ سے وہ موردِ عتاب الٰہی ہوگئے وغیرہ وغیرہ، کیونکہ اس حدیث میں جو
مولا کا لفظ ہے جس پر سارا مدار ہے اس کے معنی دوست اور محب ِخالص کے ہیں، نہ کہ حاکم اور امیر کے چنانچہ آپﷺنے خاص اپنی ذات ستودہ صفات کی نسبت بھی فرمایا ہے:
’’ لا یؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من ولدہ ووالدہ والناس أجمعین ‘‘
’’یعنی جب تک میں سب چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور مجھے تم اپنی اولاد اور ماں باپ اور تمام جہان کے لوگوں سے زیادہ پیارا نہ سمجھو گے، مسلمان نہ ہوگے۔‘‘(صحیح مسلم:۴۴)
نیز اسی حدیث میں
من کنت مولاہ کے آخر میں بروایت ِامام احمد، ابویعلی اور طبرانی کے یہ الفاظ بھی ہیں:
’’ اللھم والِ من والاہ وعادِ من عاداہ ‘‘(مسند احمد:۱؍۱۱۸) یعنی حضورﷺ نے من کنت مولاہ فرمانے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ
’’اے اللہ! جو علیؓ سے محبت کرے اس سے محبت کر اور جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اس سے دشمنی کر اور اس کو مبغوض رکھ۔‘‘
اس سے صاف سمجھا جاتاہے کہ آنحضرتﷺنے خلافت کے متعلق وصیت نہ فرمائی تھی۔ بلکہ اخلاص اور محبت کے متعلق تھی جو ہم کو بھی منظور ہے، کیونکہ موالات کے مقابلہ میں آپﷺ نے معادات کا لفظ فرمایا ہے۔ پس جو اس مقابلے کا مفہوم ہے، وہ صرف اسی قدر ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے عداوت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہیں جس پر ہمارا بھی اتفاق ہے۔
٭ اس سے بڑھ کر اس معنی کا قوی قرینہ بلکہ دلیل کہ آنحضرتﷺ کی
ان الفاظ سے مراد صرف وصیت ِمحبت تھی نہ کہ وصیت ِخلافت، واقعہ بیعت ِابوبکر صدیقؓ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ فداہ ابی و امی کے انتقال فرماتے ہی انصارِ مدینہ نے ایک الگ مجلس منعقد کرکے امیر بنانے کی تجویز کی جس پر ابوبکرصدیقؓ اور عمر فاروقؓ یہ خبر سنتے ہی مع ابوعبیدہ امینِ امت کے وہاں برسر موقع پہنچے دیکھا کہ مباحثہ گرم ہے۔
انصار کا ارادہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے امیر مقرر ہو۔ ان صاحبوں کے سوال و جواب کرنے کرانے پر آخر اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ
’’ منَّا أمیر ومنکم أمیر‘‘ ’’یعنی ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے۔‘‘
جس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حدیث نبویﷺ پیش کی کہ
’’الأئمة من قریش‘‘… ’’یعنی امارت اور امامت قریش ہی میں ہے۔‘‘
جب سب انصار کے روبرو حضرت ابوبکرؓ نے یہ دلیل پیش کی تو کسی کو اس سے انکارِ جرات نہ ہوئی اور آخر کار فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ مقرر ہوگئے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکرصدیقؓ نے انصار کے مقابلہ پر حدیث پیش کرکے اُن کے دعویٰ کو توڑا۔اسی طرح کسی صحابی نے انصار سے یا مہاجرین بلکہ اہل بیت سے حضرت ابو بکرﷺ کے سامنے یہ حدیث کیوں پیش نہ کی کہ
آپ تو یونہی خلیفہ بنائے گئے ہیں۔ حالانکہ آنحضرتﷺنے علی مرتضیٰ ؓ کے لیے وصیت اور تاکید فرمائی ہوئی ہے اور آپ دونوں (ابوبکرؓ اور عمرؓ) صاحبین نے تو علیؓ سے حضرتﷺ کی زندگی میں بیعت ِخلافت کی ہوئی ہے بلکہ مبارکباد بھی دی ہوئی ہے۔پھر آپ کاکیا منصب ہے کہ آپ خلافت کے مدعی ہوں اور تو اور ائمہ اہل بیت اور خاندان بنی ہاشم نے بھی اس دلیل کو معلوم نہیں کیوں پیش نہ کیا، حالانکہ یہ ایسی قوی دلیل تھی کہ اس دلیل کے سامنے کسی کی چوں چرا چل ہی نہ سکتی، کیونکہ ہزاروں آدمی اس کے گواہ موجود تھے۔
لیکن جب حضرت علی مرتضیٰ ؓ اور دیگر ائمہ ہدیٰ اور خاندانِ بنی ہاشم بلکہ مہاجرین وانصار سے کسی نے یہ حدیث اور واقعہ غدیر کو ابوبکرؓ کی خلافت کے خلاف بلکہ خلافت ِصدیقی کے بعد عمرفاروقؓ کی خلافت کے وقت بلکہ بعد ازاں حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے وقت بھی پیش نہ کیا جب کہ کوئی امر مشکل نہ تھا۔ صرف عبدالرحمن بن عوفؓ کی رائے پر فیصلہ موقوف تھا اور بالکل الگ دارالندوہ (کمیٹی گھر) میں صرف تینوں صاحب (عبدالرحمن، عثمان، علی رضی اللہ عنہم) بیٹھے ہوئے تھے،
اس حدیث کا پیش کرنا کیا مشکل تھا۔پس جب کہ کسی نے بھی اس حدیث سے اِستدلال نہیں کیا۔ نہ کسی اپنے نے، نہ بیگانے نے، مہاجرین نے، نہ انصار نے بلکہ نہ خود علی مرتضیٰؓ نے، تو معلوم ہوا کہ سب صحابہ نے مع اہل بیت اس حدیث من کنت مولاہ سے یہ معنی سمجھے تھے جو ہم نے بیان کئے ،
نہ کہ وہ جو شیعہ کا گمان ہے۔
اس مختصر سی تفصیل سے شیعوں کی اُن کل روایتوں کاجواب ہوسکتا ہے جو اس مسئلہ کے متعلق پیش کیا کرتے ہیں جن میں سے بعض میں حضرت علی ؓ کی نسبت امیرالمؤمنین کا لفظ بھی آتا ہے۔ کیونکہ اس دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ روایات غلط ہیں یا مؤول۔ اس تقریر سے حضرت عمر فاروق و عثمان ذوالنورین و علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم کی خلافت کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ خلافت کا مدار اس بات پر ہے کہ رعایا میں سے صلحا لوگ خلیفہ منتخب کریں یا خود خلیفہ اپنے نائب کو منتخب کرجائے اور بعد اس کے لوگ اس سے بیعت کرلیں۔ چنانچہ حضرت فاروقؓ کو خلیفۂ اوّل نے انتخاب کیا اور سب لوگوں نے منظور کیا تھا اور باقی دونوں اہل شوریٰ کے انتخاب سے خلیفہ ہوئے مگر چونکہ اصل بحث سنی شیعہ صرف اس امر پر ہے کہ حضرت علیؓ ہی کا حق خلافت تھا،جو ابوبکرؓ وغیرہ نے معاذ اللہ غضب کیا یا ابوبکرؓ بھی خلیفہ برحق تھا۔ اس واسطے ہم نے اس جگہ مختصر طور سے اس امر پربحث کی ہے کہ حضرت علی ؓ خلیفہ بلا فصل نہ تھے بلکہ جو کچھ ہوا یہی حق تھا۔