السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اردو ترجمہ بلاشبہ بہت اچھی چیز ہے ۔۔۔۔عوام تاریخ سے واقف ہو سکتے ہیں۔۔۔۔لیکن کسی کو خیال نہیں کہ اس سے عوام کے عقائد میں کتنا نقصان ہوا ۔۔۔۔ان چھپی ہوئی تواریخ میں نہ کوئی تحقیق ہے اور نہ تعلیق و وضاحت۔۔۔
کوئی پتہ نہیں کیا صحیح ہے ۔۔کیا ضعیف۔۔۔۔
اس وجہ سے تاریخ کی کتب زیادہ اس کی مستحق تھیں کہ ان کو تحقیق و تعلیق سے شائع کیا جائے ۔۔۔۔۔لیکن نہیں ہوا۔۔۔
کسی بھی مسلک کی جانب سے میری معلومات کے مطابق کوئی تاریخ کی کتاب اردو میں ایسی مترجم موجود نہیں ۔۔۔۔
سب سے کم اگر نقصان ہو سکتا ہے تو تاریخ ابن کثیر ہے جس میں امام ابن کثیرؒ کچھ وضاحت کر دیتے ہیں ۔۔۔۔لیکن طبقات ، اور طبری وغیرہ تو بہت ہی غلط تراجم ہیں ۔۔۔۔جس سے فتنہ ہی پھیل سکتا ہے ۔۔۔۔اور بہت پھیلا بھی۔۔۔
اور عجیب بات ہے ۔۔۔۔۔امام ذہبیؒ کی تاریخ و سیر جو اس معاملے میں سب سے بہتر تھی ۔۔۔کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔۔۔۔۔۔
ان تواریخ کی وجہ سے ہی مشاجرات صحابہؓ ہماری عوام کی زبان پر آگئے ۔۔۔۔
تاریخ کی کتب کو علم الاسناد کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتے۔ ایک تو اس کی اسناد محفوظ نہیں ہیں۔ سند محفوظ کرنے کا کام حدیث پر ہوا ہے تاریخ پر نہیں، تاریخ کے روات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس طرح ہم کئی تاریخی روایات کو یکسر رد کر دیں گے حالانکہ وہ صحیح ہوں گی۔
دوسرا تاریخ میں غلط روایات صحیح سند سے بکثرت ملتی ہیں کیوں کہ تاریخ کے راویوں نے وہ احتیاط نہیں کی جو حدیث بیان کرتے وقت انہوں نے کی ہے۔ مثال کے طور پر ابن عباس رض سے متعہ کی روایت کو لے لیں۔
تیسرا اکثر ایک شخص حدیث میں کمزور لیکن تاریخ کا ماہر ہوتا ہے۔ اور کتب جرح و تعدیل میں حکم حدیث کے تناظر میں ہوتا ہے (سوائے کذاب جیسی جروح کے)۔
لہذا تاریخ کو ہم اسناد سے زیادہ درایۃ دیکھ سکتے ہیں اور یہ ایک مشکل کام ہے۔ ہر بات کے کئی پہلو دیکھنا اور ہر پہلو کی صحت و ضعف معلوم کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہوتا۔
این تقبیل را در بعض کتب فقہ مستحب نوشة است، نہ واجب ونہ سنت، مثل کنز العباد وخزانة الروایات، وجامع الرموز وفتاویٰ صوفیہ وغیرہ، مگر در اکثر کتب معتبرہ متداولہ نشان آن نیست،
در آن کتب کہ درانہا این مسئلہ مذکور است غیر معتبر اند، چنانکہ جامع الرموزوفتاویٰ صوفیہ وکنز العباد وغیرہ، اینوجہ کہ درین کتب رطب ویابس بلا تنقیح مجتمع است،
تفصیل آن در رسالہ من ”النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ موجود است، درین باب فقہاء نقل میکنند آنہا بتحقیق محدثین صحیح نیستند… إلخ“․(مجموعة الفتاویٰ، کتاب الکراہیة:4/325، رشیدیة)
”اس انگوٹھے چومنے والے مسئلہ کو فقہ کی بعض کتابوں میں مستحب کہا گیا ہے، واجب یا سنت نہیں، مثلاً: کنز العباد ، خزانة الروایات، جامع الرموز اور فتاویٰ صوفیہ وغیرہ (میں یہ مسئلہ مذکور ہے)، مگر اکثر معتبر کتبِ فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ مذکور نہیں ہے
اور جن کتب میں یہ مسئلہ موجود ہے ، وہ کتب معتبر نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کتابوں میں ہر رطب ویابس کو اس بات کی تصریح کیے بغیر” کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں“، جمع کر دیا گیا ہے،
اس بات کی پوری تفصیل میرے رسالے ” النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ میں موجود ہے، اس انگوٹھا چومنے والے مسئلہ میں (ان کتابوں کے مصنفین)فقہاء نے جو کچھ کہا ہے، محدثینِ کرام نے اسے صحیح قرار نہیں دیا“۔
اس پر فرماتے ہیں کہ:
حالانکہ کتب فقہ میں مذکورہ چیزیں کم اور مسائل زیادہ ذکر ہوتے ہیں بلکہ بیشتر کتب فقہ میں مسائل ہی ذکر ہیں۔
اسی لیے اس جملہ میں بھی روایات کا ذکر نہیں جس میں کتب کے غیر معتبر ہونے کی وجہ ذکر کی جا رہی ہے۔
ہم نے وہ وجہ ہی بیان کی ہے، کہ جو یہاں کتب کے معتبر نہ ہونے کے لئے جو وجہ بیان کی گئی اسے مد نظر رکھیں کہ جس کتاب میں رطب یابس کو اس بات کی تصریح کئے بغیر کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں، اور پھر اس میں سند بھی نہ ہو کہ اس کی بنا پر اس بات کے صحیح و غلط ہونے کا اعتبار کیا جاسکے!
مگر ہمارے ایک صاحب کا مدعا یہ ہے کہ تاریخ میں سند کی کوئی حیثیت نہیں، یہ صاحب اپنی اٹکل کی بنا پر بتلائیں گے کہ آیا کیا صحیح ہے کیا غلط!
خیر تاریخ میں سند کی اہمیت پر تو میں دوسرے زمرے میں مفصل بات کروں گا!