• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواجہ معین الدین چشتی کون تھے؟؟؟؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسحاق سلفی بھائی!
جن راویوں نے حدیث کی روایت کی ہے، وہ اگرغلط عقیدہ کے بھی پیرو ہیں تو بھی ان کے غلط عقیدہ کی وجہ سے روایت ترک نہیں کی جاتی،
جب بندہ علم الحدیث میں اس قدر یتیم و مسکین ہو تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ:
صوفی نے بر بنائے کشف حیلہ یہ کیا
''جا تجھے کشمکش سند سے آزاد کیا''
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
کتنے خارجی اورکتنے شیعی اور کتنے دیگر گمراہ فرقہ اورعقیدہ کے افراد کتب حدیث کی روایتوں میں موجود ہیں
رواۃ حدیث میں موجود وہ لوگ جنہیں شیعہ کہا گیا ، وہ ہمارے دور کے روافضیوں جیسے شیعہ نہیں تھے ، نہ مشرک قبر پرست ، پیر پرست تھے
بلکہ امام ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة, (تهذيب التهذيب الجزء الاول ترجمہ ابان بن تغلب)
یعنی متقدمین نے جنہیں شیعہ کہا ہے تو اس سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو جناب علی ؓ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے تھے، اور جنگوں میں جناب علی کو حق پر اور انکے مخالفین کو خطا پر سمجھتے تھے، لیکن ساتھ ہی شیخین یعنی سیدنا ابو بکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و برتری کے بھی قائل تھے ، ہاں ان میں بعض کا عقیدہ تھا کہ جناب علی ؓ پیغمبر کے بعد سب سے افضل ہیں ،
اور اگر یہ عقیدہ رکھنے والا نیک اور دیندار ، اور سچا ہو ، تو اسکی روایت رد نہیں کی جائے گی ،خاص کر جب وہ اپنی روایت میں اپنے مذہب کا داعی نہ ہو ۔
آگے فرماتے ہیں :
اور جہاں تک متاخرین کے دور کے شیعہ کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ خالص رافضی ہیں ( یعنی تبرا باز شیعہ ہیں ) اور رافضی کی روایت کسی صورت قبول نہیں ہوتی ، نہ ان کی کوئی حیثیت ہے ‘‘ ))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علیؓ کے قاتل کی تعریف کرنے والے خارجی کی روایت بخاری میں موجود ہے،
یہ جملہ شاید کسی فیس بکی کی پوسٹ سے چرایا گیا ہے ، خود اس راوی ( عمران بن حطان ) کا ترجمہ کسی مستند ماخذ سے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی ،
کیونکہ امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :

كان أولا من أهل السنة والجماعة، فتزوج امرأة من الخوارج حسنة جميلة جدا فأحبها، وكان هو دميم الشكل، فأراد أن يردها إلى السنة فأبت، فارتد معها إلى مذهبها.( (البدایۃ والنہایۃ ۱۲۔ ۳۵۲)
کہ یہ عمران بن حطان پہلے اہل سنت والجماعت کا فرد تھا ، بعد میں اس نے ایک حسین و جمیل خارجی عورت سے شادی کرلی ، اور اسے اہل سنت میں لانے کی کوشش بھی کی ،لیکن ناکام رہا ، اور ْخود پھسل کر اس کے مذہب کا اسیر بن گیا ‘‘

یہ بہت بڑا عالم تھا ، ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کا شاگرد تھا ،
امام الذہبی سیر اعلام النبلاء (4/ 214) میں لکھتے ہیں :
عمران بن حطان بن ظبيان السدوسي * (خ، د، ت)
البصري.
من أعيان العلماء، لكنه من رؤوس الخوارج.
حدث عن: عائشة، وأبي موسى الأشعري، وابن عباس.، روى عنه: ابن سيرين، وقتادة، ويحيى بن أبي كثير.
قال أبو داود: ليس في أهل الأهواء أصح حديثا من الخوارج ،،، ثم ذكر عمران بن حطان، وأبا حسان الأعرج

.یعنی عمران بن حطان یہ بہت بڑا عالم تھا ،ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کا شاگرد تھا ،
اور دوسری طرف اس سے امام ابن سیرین امام قتادہ اور حافظ یحی بن ابی کثیر جیسے عظیم علماء نے روایت کیا ہے
اور امام ابو داود فرماتے ہیں :
اہل بدعت میں خوارج سے بڑھ کر کسی کی احادیث صحیح نہیں ، یعنی خوارج کی روایت سب بدعتی رواۃ میں سب سے بڑھ کر صحیح ہوتی ہے
اور پھر مثال کے طور پر عمران بن حطان ہی پیش کیا ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب یہ شادی کے بعد خارجی مذہب میں گیا تو اس وقت سے اسے چین سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا ،بلکہ حکومت کی گرفت سے بچنے کیلئے یہ بھاگتا پھرا،
امام الذہبی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں :

وقال الأصمعي: بلغنا أن عمران بن حطان كان ضيفا لروح بن زنباع، فذكره لعبد الملك وقال: اعرض عليه أن يأتينا، فأعلمه روح ذلك، فهرب، ثم كتب إلى روح:
يا روح كم من كريم قد نزلت به ... قد ظن ظنك من لخم وغسان
حتى إذا خفته زايلت منزله ... من بعد ما قيل عمران بن حطان
قد كنت ضيفك حولا ما تروعني ... فيه طوارق من إنس ومن جان
حتى أردت بي العظمى فأوحشني [1] ... ما يوحش الناس من خوف ابن مروان
فاعذر أخاك ابن زنباع فإن له ... في الحادثات هنات ذات ألوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ عمران بن حطان پہلے صحیح العقیدہ تھا ،اور عظیم صحابہ کا شاگرد تھا ، بعد میں خارجی بنا ،
اور خارجی لوگ بھی حدیث میں جھوٹ نہیں بولتے ،جیسا امام ابو داود نے فرمایا ہے
اور صوفی تو اکثر داستان سرائی ، خواب سرائی اور حکایت گوئی سے کام چلاتے ہیں ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
خلاصہ یہ کہ عمران بن حطان پہلے صحیح العقیدہ تھا ،اور عظیم صحابہ کا شاگرد تھا ، بعد میں خارجی بنا ،
اور خارجی لوگ بھی حدیث میں جھوٹ نہیں بولتے ،جیسا امام ابو داود نے فرمایا ہے
اور صوفی تو اکثر داستان سرائی ، خواب سرائی اور حکایت گوئی سے کام چلاتے ہیں ،
موصوف کسی ایک موقف بھی قائم نہیں رہتے،ادھر ادھر سے گھومتے رہتے ہیں،پہلے کہاکہ مصنف کیلئے صحیح العقیدہ ہوناضروری ہے،جب اس پر کہاگیاکہ روایت حدیث تک میں صحیح العقیدہ ہونے کی شرط لازم نہیں ہے اورخارجیوں کی مثال دی تواب فرمانے لگے کہ وہ صدق شعار ہوتے ہیں۔
صدق شعاری سے انکار کسے ہیں، سوال یہ ہے کہ خارجی صحیح عقیدہ کے حامل ہیں یاغلط عقیدہ کے،اس کو صاف کیجئے۔
یہ مرحلہ طے ہوجائے تواس پر آئیے کہ اگروہ غلط عقیدہ کے حامل ہیں تواس کے باوجود ان کی روایت قبول کی جائے یانہ کی جائے؟
ان دونوں باتوں کو صاف کردیجئے ساری باتیں صاف ہوجائیں گی،ورنہ آئیں بائیں شائیں اورادھر ادھر کی ہانکنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
ذرا چلے چلاتے یہ بھی عرض کردوں کہ اس طرح کی دہائی مت دیاکیجئے کہ فلاں حدیث کا استخفاف کرتے ہیں یہ بہت اوچھے ہتھکنڈے ہوچکے ہیں، ٹودی پوائنٹ بات کیجئے۔
کسی کتاب میں کمزورروایات یامستحیل العادہ روایتیں اگرنقل ہوں توبھی اس سے کوئی کتاب غیرمعتبر نہیں ہوتی۔
اخبار الاخیار کو کن کن حضرات نے معتبر کہاہے اس کی تفصیل میں جائے بغیر عرض کردیں کہ آپ کے ہی پیش کردہ اقتباس میں مولانا عبدالحی نے اس کو کتب معتبرہ میں شمار کیاہے،اب ذرایہ بتائیے کہ اخبارالاخیار کو غیرمعتبر کس نےقراردیاہے؟
دوبارہ گزارش ہے کہ صحیح العقیدہ کا راگ چھیڑنے سے قبل اس کے مالہ وماعلیہ پر غورکرلیاکریں کہ زد کہاں کہاں پڑتی ہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
عمران بن حطان بن ظبيان السدوسي * (خ، د، ت)
البصري.
من أعيان العلماء، لكنه من رؤوس الخوارج.
حدث عن: عائشة، وأبي موسى الأشعري، وابن عباس.، روى عنه: ابن سيرين، وقتادة، ويحيى بن أبي كثير.
قال أبو داود: ليس في أهل الأهواء أصح حديثا من الخوارج ،،، ثم ذكر عمران بن حطان، وأبا حسان الأعرج
.یعنی عمران بن حطان یہ بہت بڑا عالم تھا ،ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کا شاگرد تھا ،
اور دوسری طرف اس سے امام ابن سیرین امام قتادہ اور حافظ یحی بن ابی کثیر جیسے عظیم علماء نے روایت کیا ہے
اور امام ابو داود فرماتے ہیں :
اہل بدعت میں خوارج سے بڑھ کر کسی کی احادیث صحیح نہیں ، یعنی خوارج کی روایت سب بدعتی رواۃ میں سب سے بڑھ کر صحیح ہوتی ہے
اور پھر مثال کے طور پر عمران بن حطان ہی پیش کیا ‘‘
شاید اسحاق سلفی صاحب کا گمان ہے کہ مکتبہ شاملہ اورگوگل وہی سرچ کرتے ہیں دوسرے اس سے محروم ہیں،حافظ ذہبی نے جہاں ابن حطان کی تھوڑی تعریف کی ہے ،وہیں انہوں نے اورکیاکہاہے یہ بھی دیکھئے۔

ومن شعره في مصرع علي -رضي الله عنه:
يا ضربة من تقي ما أراد بها ... إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا
إني لأذكره حينا فأحسبه ... أو فى البرية عند الله ميزانا
أكرم بقوم بطون الطير قبرهم ... لم يخلطوا دينهم بغيا وعدوانا

سیراعلام النبلاء۵؍۱۲۲

وَفِي ابنُ مُلْجَم يقول عُمَران بْن حطّان الخارجيّ:
يا ضربة من تُقيً مَا أراد بها ... إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا
إني لأذكره حينا فأحسبه ... أوفى البرية عند الله ميزانا
.

تاریخ الاسلام۲؍۳۷۳

وقد امتدح ابن ملجم بعض الخوارج المتأخرين في زمن التابعين وهو عمران بن حطان وكان أحد العباد ممن يروي عن عائشة في صحيح البخاري فقال فيه: يا ضربة من تقي ما أراد بها * إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا إني لأذكره يوما فأحسبه * أوفى البرية عند الله ميزانا
ابن کثیر،البدایہ والنہایہ۷۳۶۴

عمران بن حطان الخارجي، كان أولا من أهل السنة والجماعة فتزوج امرأة من الخوارج حسنة جميلة جدا فأحبها.
وكان هو دميم الشكل، فأراد أن يردها إلى السنة فأبت فارتد معها إلى مذهبها.
وقد كان من الشعراء المفلقين، وهو القائل في قتل علي وقاتله: يا ضربة من تقي ما أراد بها * إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا إني لأذكره يوما فأحسبه * أوفى البرية عند الله ميزانا أكرم بقوم بطون الطبر قبرهم * لم يخلطوا دينهم بغيا وعدوانا
المصدرالسابق ۹/۶۴

. وَقَال الدَّارَقُطْنِيُّ: متروك لسوء اعتقاده وخبث رأيه (التتبع: 333)
اس دارقطنی کے حوالہ پر بحث مت شروع کردیجئے گا،گذارش صرف اتنی ہے کہ عمران بن حطان خارجی تھا، وہ صحیح العقیدہ نہیں تھا،اس نے حضرت علی ؓ کے قاتل ابن ملجم کی تعریف میں اشہار کہے جس سے اس کی شقاوت بخوبی معلوم ہوتی ہے،اور یہ بالواسطہ طورپر حدیث رسول سے بھی ثابت ہے کیونکہ حضورنے جب حضرت علیؓ کے قاتل کو بدبخت ترین انسان قراردیاتواس بدبخت ترین انسان کی تعریف کرنے والابھی اسی دائرہ میں شامل ہوگا۔

في الحديث قال: كنت جالساً مع النبي (صلى الله عليه وآله وسلم)، فجاء عليّ فسلّم، فأقعده رسول الله إلى جنبه، فقال: ‎ يا علي، مَن أشقى الاوّلين؟ قال: الله ورسوله أعلم. قال: عاقر الناقة، فمن أشقى الاخرين؟قال: الله ورسوله أعلم .قال: فأهوى بيده إلى لحية عليّ، فقال: ‎ يا علي الذي يخضب هذه من هذا . ووضع يده على قرنه.قال أبو هريرة: فوالله ما أخطأ الموضع الذي وضع رسول الله يده عليه.
فهذا الحديث له طرق كثيرة يصح بمجموعها، قال الزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار الواقعة في تفسير الكشاف:روي من حديث عمار بن ياسر ومن حديث جابر بن سمرة ومن حديث صهيب ومن حديث علي. انتهى.. ثم ذكر هذه الطرق مفصلة.. وقال ابن حجرفي الفتح:خرجه الطبراني، وله شاهد من حديث عمار بن ياسر عند أحمد، ومن حديث صهيب عند الطبراني، وعن علي نفسه عن أبي يعلى بإسناد لين، وعند البزار بإسناد جيد. انتهى. وقال في الإصابة في ترجمة ابن ملجم قبحه الله: وهو أشقى هذه الأمة بالنص الثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم بقتل علي بن أبي طالب انتهى.[/COLOR]
والحديث صححه الألباني بطرقه في السلسلة الصحيحة، وأما بالنسبة لمعنى هذا الحديث والإشكال الذي ذكره السائل الكريم، فبداية لا بد من التنبيه على أن أهل العلم اختلفوا في ابن ملجم هل قتل كافرا أم مسلماً، ومن قال بكفره استدل بهذا الحديث، قالالبيهقي في السنن الكبرى:قال بعض أصحابنا إنما استبد الحسن بن علي رضي الله عنه بقتل ابن ملجم قبل بلوغ الصغار من ولد علي رضي الله عنه، لأنه قتله حداً لكفره لا قصاصاً، واحتجوا في ذلك.. انتهى. فأسند هذا الحديث.

وقال ابن قدامة: إن كان بتأويل كالخوارج فقد ذكرنا أن أكثر الفقهاء لم يحكموا بكفرهم مع استحلالهم دماء المسلمين وأموالهم وفعلهم لذلك متقربين به إلى الله تعالى، وكذلك لم يحكم بكفر ابن ملجم مع قتله أفضل الخلق في زمنه متقرباً بذلك.. انتهى. وعلى هذا القول ينبغي تأويل الحديث بما لا يتعارض مع كون الموحد الذي يخرج من النار يوماً من الدهر، أفضل حالاً من الكافر الذي يخلد في النار، فقد قال الله تعالى: إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا{النساء:48}، ويمكن أن يكون تأويله أن ابن ملجم أشقى أهل القبلة كما أن عاقر الناقة أشقى أهل الكفر، ولا يخفى ما في هذا التأويل من بعد عن النص وأظهر القولين هو القول الأول وهو الذي يشهد له ظاهر الحديث الصحيح.


ان سب کے باوجود جب اس کی روایت بخاری تک میں معتبر ہے توبے چارے شیخ عبدالحق نے کیاقصور کیاہے کہ آپ کے بقول اگر غلط عقیدہ کےبھی ہوئے توان کی پوری کتاب ہی غیرمعتبر قراردی جائے؟
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
بات علمی انداز میں شروع هوئی لیکن اسکا رخ تبدیل کردیا گیا ، یعنی اصل موضوع سے هٹا کر کسی اور طرف لیجایا جا رہا هے ۔ اب گفتگو هونی کہاں هے ایک لایعنی بحث هوگی جسکا کوئی فائدہ نہیں ۔ پتہ نہیں ہر ہر بار ایسا ہی کیوں هوتا هے!
آپ کا درددل واقعتاًقابل تعریف ہے لیکن کتنااچھاہوتااگرآپ تلقین وارشاد ادھر کے بجائے کسی اورکی جانب یہ کہہ کر کرتے کہ جس ارشاد سے ساری بات شروع ہوئی ہے ،یعنی کتاب مذکور کو غیرمعتبر کرنے کہنے، اس کے غیرمعتبر ہونے پر کچھ حوالے اور اورشواہد ذکر کردیئے جائیں،
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
رحمانی صاحب !اس کا ترجمہ فرما دیں!
اگرترجمہ نہیں معلوم تو اس کا اعتراف کیجئے
اگرترجمہ معلوم ہے لیکن کوئی دوسراتیسرا اشکال نظرآرہاہے تو ڈائریکٹ اپنااشکال پیش کیجئے ،آئیں بائیں شائیں سے کیافائدہ؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
شاید اسحاق سلفی صاحب کا گمان ہے کہ مکتبہ شاملہ اورگوگل وہی سرچ کرتے ہیں دوسرے اس سے محروم ہیں،حافظ ذہبی نے جہاں ابن حطان کی تھوڑی تعریف کی ہے ،وہیں انہوں نے اورکیاکہاہے یہ بھی دیکھئے۔

ومن شعره في مصرع علي -رضي الله عنه:
يا ضربة من تقي ما أراد بها ... إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا
إني لأذكره حينا فأحسبه ... أو فى البرية عند الله ميزانا
أكرم بقوم بطون الطير قبرهم ... لم يخلطوا دينهم بغيا وعدوانا

سیراعلام النبلاء۵؍۱۲۲

وَفِي ابنُ مُلْجَم يقول عُمَران بْن حطّان الخارجيّ:
يا ضربة من تُقيً مَا أراد بها ... إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا
إني لأذكره حينا فأحسبه ... أوفى البرية عند الله ميزانا
.

تاریخ الاسلام۲؍۳۷۳

وقد امتدح ابن ملجم بعض الخوارج المتأخرين في زمن التابعين وهو عمران بن حطان وكان أحد العباد ممن يروي عن عائشة في صحيح البخاري فقال فيه: يا ضربة من تقي ما أراد بها * إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا إني لأذكره يوما فأحسبه * أوفى البرية عند الله ميزانا
ابن کثیر،البدایہ والنہایہ۷۳۶۴

عمران بن حطان الخارجي، كان أولا من أهل السنة والجماعة فتزوج امرأة من الخوارج حسنة جميلة جدا فأحبها.
وكان هو دميم الشكل، فأراد أن يردها إلى السنة فأبت فارتد معها إلى مذهبها.
وقد كان من الشعراء المفلقين، وهو القائل في قتل علي وقاتله: يا ضربة من تقي ما أراد بها * إلا ليبلغ من ذي العرش رضوانا إني لأذكره يوما فأحسبه * أوفى البرية عند الله ميزانا أكرم بقوم بطون الطبر قبرهم * لم يخلطوا دينهم بغيا وعدوانا
المصدرالسابق ۹/۶۴

. وَقَال الدَّارَقُطْنِيُّ: متروك لسوء اعتقاده وخبث رأيه (التتبع: 333)
اس دارقطنی کے حوالہ پر بحث مت شروع کردیجئے گا،گذارش صرف اتنی ہے کہ عمران بن حطان خارجی تھا، وہ صحیح العقیدہ نہیں تھا،اس نے حضرت علی ؓ کے قاتل ابن ملجم کی تعریف میں اشہار کہے جس سے اس کی شقاوت بخوبی معلوم ہوتی ہے،اور یہ بالواسطہ طورپر حدیث رسول سے بھی ثابت ہے کیونکہ حضورنے جب حضرت علیؓ کے قاتل کو بدبخت ترین انسان قراردیاتواس بدبخت ترین انسان کی تعریف کرنے والابھی اسی دائرہ میں شامل ہوگا۔


في الحديث قال: كنت جالساً مع النبي (صلى الله عليه وآله وسلم)، فجاء عليّ فسلّم، فأقعده رسول الله إلى جنبه، فقال: ‎ يا علي، مَن أشقى الاوّلين؟ قال: الله ورسوله أعلم. قال: عاقر الناقة، فمن أشقى الاخرين؟قال: الله ورسوله أعلم .قال: فأهوى بيده إلى لحية عليّ، فقال: ‎ يا علي الذي يخضب هذه من هذا . ووضع يده على قرنه.قال أبو هريرة: فوالله ما أخطأ الموضع الذي وضع رسول الله يده عليه.

فهذا الحديث له طرق كثيرة يصح بمجموعها، قال الزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار الواقعة في تفسير الكشاف:روي من حديث عمار بن ياسر ومن حديث جابر بن سمرة ومن حديث صهيب ومن حديث علي. انتهى.. ثم ذكر هذه الطرق مفصلة.. وقال ابن حجرفي الفتح:خرجه الطبراني، وله شاهد من حديث عمار بن ياسر عند أحمد، ومن حديث صهيب عند الطبراني، وعن علي نفسه عن أبي يعلى بإسناد لين، وعند البزار بإسناد جيد. انتهى. وقال في الإصابة في ترجمة ابن ملجم قبحه الله: وهو أشقى هذه الأمة بالنص الثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم بقتل علي بن أبي طالب انتهى.[/COLOR]
والحديث صححه الألباني بطرقه في السلسلة الصحيحة، وأما بالنسبة لمعنى هذا الحديث والإشكال الذي ذكره السائل الكريم، فبداية لا بد من التنبيه على أن أهل العلم اختلفوا في ابن ملجم هل قتل كافرا أم مسلماً، ومن قال بكفره استدل بهذا الحديث، قالالبيهقي في السنن الكبرى:قال بعض أصحابنا إنما استبد الحسن بن علي رضي الله عنه بقتل ابن ملجم قبل بلوغ الصغار من ولد علي رضي الله عنه، لأنه قتله حداً لكفره لا قصاصاً، واحتجوا في ذلك.. انتهى. فأسند هذا الحديث.

وقال ابن قدامة: إن كان بتأويل كالخوارج فقد ذكرنا أن أكثر الفقهاء لم يحكموا بكفرهم مع استحلالهم دماء المسلمين وأموالهم وفعلهم لذلك متقربين به إلى الله تعالى، وكذلك لم يحكم بكفر ابن ملجم مع قتله أفضل الخلق في زمنه متقرباً بذلك.. انتهى. وعلى هذا القول ينبغي تأويل الحديث بما لا يتعارض مع كون الموحد الذي يخرج من النار يوماً من الدهر، أفضل حالاً من الكافر الذي يخلد في النار، فقد قال الله تعالى: إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا{النساء:48}، ويمكن أن يكون تأويله أن ابن ملجم أشقى أهل القبلة كما أن عاقر الناقة أشقى أهل الكفر، ولا يخفى ما في هذا التأويل من بعد عن النص وأظهر القولين هو القول الأول وهو الذي يشهد له ظاهر الحديث الصحيح.



ان سب کے باوجود جب اس کی روایت بخاری تک میں معتبر ہے توبے چارے شیخ عبدالحق نے کیاقصور کیاہے کہ آپ کے بقول اگر غلط عقیدہ کےبھی ہوئے توان کی پوری کتاب ہی غیرمعتبر قراردی جائے؟
اس پوسٹ میں موجود عربی عبارات کا ترجمہ کردیں ،
تاکہ بات آگے چلے ۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
پہلے کہاکہ مصنف کیلئے صحیح العقیدہ ہوناضروری ہے،جب اس پر کہاگیاکہ روایت حدیث تک میں صحیح العقیدہ ہونے کی شرط لازم نہیں ہے اورخارجیوں کی مثال دی تواب فرمانے لگے کہ وہ صدق شعار ہوتے ہیں۔
گذارش صرف اتنی ہے کہ عمران بن حطان خارجی تھا، وہ صحیح العقیدہ نہیں تھا،
جب اس کی روایت بخاری تک میں معتبر ہے توبے چارے شیخ عبدالحق نے کیاقصور کیاہے کہ آپ کے بقول اگر غلط عقیدہ کےبھی ہوئے توان کی پوری کتاب ہی غیرمعتبر قراردی جائے؟
محترم بھائی اگر خمارِ تصوف کبھی کم ہو تو بتایئے گا کہ :
کس خارجی نے حدیث کی کون سی کتاب تصنیف فرمائی اور اس کو کن لوگوں نے سند اعتبار بخشی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ :
صحیح بخاری عمران خارجی نے نہیں لکھی ، بلکہ امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاریؒ نے لکھی ہے،
 
Top