کتنے خارجی اورکتنے شیعی اور کتنے دیگر گمراہ فرقہ اورعقیدہ کے افراد کتب حدیث کی روایتوں میں موجود ہیں
رواۃ حدیث میں موجود وہ لوگ جنہیں شیعہ کہا گیا ، وہ ہمارے دور کے روافضیوں جیسے شیعہ نہیں تھے ، نہ مشرک قبر پرست ، پیر پرست تھے
بلکہ امام ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان, وأن عليا كان مصيبا في حروبه وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما, وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله -صلى الله عليهآله وسلم-, وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا, لا سيما إن كان غير داعية, وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة, (تهذيب التهذيب الجزء الاول ترجمہ ابان بن تغلب)
یعنی متقدمین نے جنہیں شیعہ کہا ہے تو اس سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو جناب علی ؓ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے تھے، اور جنگوں میں جناب علی کو حق پر اور انکے مخالفین کو خطا پر سمجھتے تھے، لیکن ساتھ ہی شیخین یعنی سیدنا ابو بکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و برتری کے بھی قائل تھے ، ہاں ان میں بعض کا عقیدہ تھا کہ جناب علی ؓ پیغمبر کے بعد سب سے افضل ہیں ،
اور اگر یہ عقیدہ رکھنے والا نیک اور دیندار ، اور سچا ہو ، تو اسکی روایت رد نہیں کی جائے گی ،خاص کر جب وہ اپنی روایت میں اپنے مذہب کا داعی نہ ہو ۔
آگے فرماتے ہیں :
اور جہاں تک متاخرین کے دور کے شیعہ کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ خالص رافضی ہیں ( یعنی تبرا باز شیعہ ہیں ) اور رافضی کی روایت کسی صورت قبول نہیں ہوتی ، نہ ان کی کوئی حیثیت ہے ‘‘ ))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علیؓ کے قاتل کی تعریف کرنے والے خارجی کی روایت بخاری میں موجود ہے،
یہ جملہ شاید کسی فیس بکی کی پوسٹ سے چرایا گیا ہے ، خود اس راوی ( عمران بن حطان ) کا ترجمہ کسی مستند ماخذ سے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی ،
کیونکہ امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :
كان أولا من أهل السنة والجماعة، فتزوج امرأة من الخوارج حسنة جميلة جدا فأحبها، وكان هو دميم الشكل، فأراد أن يردها إلى السنة فأبت، فارتد معها إلى مذهبها.( (
البدایۃ والنہایۃ ۱۲۔ ۳۵۲)
کہ یہ عمران بن حطان پہلے اہل سنت والجماعت کا فرد تھا ، بعد میں اس نے ایک حسین و جمیل خارجی عورت سے شادی کرلی ، اور اسے اہل سنت میں لانے کی کوشش بھی کی ،لیکن ناکام رہا ، اور ْخود پھسل کر اس کے مذہب کا اسیر بن گیا ‘‘
یہ بہت بڑا عالم تھا ، ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کا شاگرد تھا ،
امام الذہبی سیر اعلام النبلاء (4/ 214) میں لکھتے ہیں :
عمران بن حطان بن ظبيان السدوسي * (خ، د، ت)
البصري.
من أعيان العلماء، لكنه من رؤوس الخوارج.
حدث عن: عائشة، وأبي موسى الأشعري، وابن عباس.، روى عنه: ابن سيرين، وقتادة، ويحيى بن أبي كثير.
قال أبو داود: ليس في أهل الأهواء أصح حديثا من الخوارج ،،، ثم ذكر عمران بن حطان، وأبا حسان الأعرج
.یعنی عمران بن حطان یہ بہت بڑا عالم تھا ،ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کا شاگرد تھا ،
اور دوسری طرف اس سے امام ابن سیرین امام قتادہ اور حافظ یحی بن ابی کثیر جیسے عظیم علماء نے روایت کیا ہے
اور امام ابو داود فرماتے ہیں :
اہل بدعت میں خوارج سے بڑھ کر کسی کی احادیث صحیح نہیں ، یعنی خوارج کی روایت سب بدعتی رواۃ میں سب سے بڑھ کر صحیح ہوتی ہے
اور پھر مثال کے طور پر عمران بن حطان ہی پیش کیا ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب یہ شادی کے بعد خارجی مذہب میں گیا تو اس وقت سے اسے چین سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا ،بلکہ حکومت کی گرفت سے بچنے کیلئے یہ بھاگتا پھرا،
امام الذہبی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں :
وقال الأصمعي: بلغنا أن عمران بن حطان كان ضيفا لروح بن زنباع، فذكره لعبد الملك وقال: اعرض عليه أن يأتينا، فأعلمه روح ذلك، فهرب، ثم كتب إلى روح:
يا روح كم من كريم قد نزلت به ... قد ظن ظنك من لخم وغسان
حتى إذا خفته زايلت منزله ... من بعد ما قيل عمران بن حطان
قد كنت ضيفك حولا ما تروعني ... فيه طوارق من إنس ومن جان
حتى أردت بي العظمى فأوحشني [1] ... ما يوحش الناس من خوف ابن مروان
فاعذر أخاك ابن زنباع فإن له ... في الحادثات هنات ذات ألوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ عمران بن حطان پہلے صحیح العقیدہ تھا ،اور عظیم صحابہ کا شاگرد تھا ، بعد میں خارجی بنا ،
اور خارجی لوگ بھی حدیث میں جھوٹ نہیں بولتے ،جیسا امام ابو داود نے فرمایا ہے
اور صوفی تو اکثر داستان سرائی ، خواب سرائی اور حکایت گوئی سے کام چلاتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔