ابو بصیر
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 30، 2012
- پیغامات
- 1,420
- ری ایکشن اسکور
- 4,198
- پوائنٹ
- 239
آپ بخاری ڈاؤنلوڈ کریں اور پڑھے اور پھر سکرین شاٹس دیں کہ اس حوالے پر یہ ایسے لکھا ہوا ہےیہ جن الفاظ کا ترجمہ ہے وہ عربی الفاظ لکھ دیں۔
میں نے سکرین شاٹس سے جواب دیا ہے آپ بھی سکرین شاٹس سے جواب دیں ،،،،تا کہ معاملہ برابر ہوبھائی حوالہ آپ نے دیا ہے اس پر سوال کا جواب بھی آپ ہی کو دینا چاہیے۔
آپ نے جو رقم الحدیث بتایا ہے اس میں مجھے یہ الفاظ نظر نہیں آئے۔
آپ سکرین شاٹس کے ذریعے نہ سہی شاملہ سے یا کہیں سے بھی وہ الفاظ نقل کر دیں جن الفاظ کا یہ ترجمہ ہے۔
اسی چیز کے بارے میں میں بھی سوچ رہا ہوں کل سے۔وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَيَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
دہشت گردی کے لیے دماغی طور پر ناپختہ (Brain washed) کم عمر لڑکوں کو استعمال کیا جائے گا۔
جی بتائیے یہ کن الفاظ کا ترجمہ ہے۔
واللہ اعلم،اس سے پہلی آیت میں مومنین کو حق تعالیٰ کے احسانات اور اپنا عہدو پیمان یاد کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہاں بتلا دیا کہ صرف زبان سے یاد کرنا نہیں، بلکہ عملی رنگ میں ان سے اس کا ثبوت مطلوب ہے۔ اس آیت میں اسی پر تنبیہ کی گئ ہے کہ اگر تم نے خدا کے بےشمار احسانات اور اپنے عہدو اقرار کو بھلا نہیں دیا تو لازم ہے کہ اس محسن حقیقی کے حقوق ادا کرنے اور اپنے عہد کو سچا کر دکھانے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہو اور جب کوئی حکم اپنے آقائے ولی نعمت کی طرف سے ملے تو فورًا تعمیل حکم کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ اور خدا کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق ادا کرنے میں بھی پوری جدوجہد اور اہتمام کرو۔ چنانچہ { قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ } میں حقوق اللہ کی اور { شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ } میں حقوق العباد کی طرف اشارہ ہے۔ اسی قسم کی ایک آیت والمحصنات کے آخر میں گذر چکی ہے صرف اس قدر فرق ہے کہ وہاں "بالقسط" کو "للہ" پر مقدم کر دیا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہاں دور سے "حقوق العباد" کا ذکر چلا آ رہا تھا اور یہاں پہلے سے "حقوق اللہ" پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے وہاں "بالقسط" کی اور یہاں "للہ" کی تقدیم مناسب ہوئی۔ نیز یہاں لحاق میں مبغوض دشمن سے معاملہ کرنے کا ذکر ہے جس کے ساتھ "قسط" کو یاد دلانے کی ضرورت ہے اور "سورۂ نساء" کے لحاق میں محبوب چیزوں کا ذکر ہے اس لئے وہاں سب سے بڑے محبوب (اللہ) کو یاد دلایا گیا۔
[۴۶] عدل و انصاف کی تاکید:
"عدل" کا مطلب ہے کسی شخص کے ساتھ بدون افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔ عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہئے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلوں میں سے کسی پلہ کو جھکا نہ سکے۔
[۴۷] عدل و انصاف سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے:
جو چیزیں شرعًا مہلک یا کسی درجہ میں مضر ہیں ان سے بچاؤ کرتے رہنے سے جو ایک خاص نورانی کیفیت آدمی کے دل میں راسخ ہو جاتی ہے اس کا نام "تقویٰ" ہے ۔ تحصیل تقویٰ کے اسباب قریبہ و بعیدہ بہت سےہیں۔ تمام اعمال حسنہ اور خصال خیر کو اس کے اسباب و معدات میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ "عدل و قسط" یعنی دوست و دشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملہ میں جذبات محبت و عداوت سے قطعًا مغلوب نہ ہونا، یہ خصلت حصول تقویٰ کے موثر ترین اور قریب ترین اسباب میں سے ہے۔ اسی لئے { ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی } فرمایا (یعنی عدل جس کا حکم دیا گیا تقویٰ سے نزدیک تر ہے) کہ اس کی مزاولت کے بعد تقویٰ کی کیفیت بہت جلد حاصل ہو جاتی ہے۔
[۴۸] یعنی ایسا عدل و انصاف جسے کوئی دوستی یا دشمنی نہ روک سکے اور جس کے اختیار کرنے سے آدمی کو متقی بننا سہل ہو جاتا ہے۔ اس کے حصول کا واحد ذریعہ خدا کا ڈر اور اس کی شان انتقام کا خوف ہے۔ اور یہ خوف { اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ } کے مضمون کا بار بار مراقبہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ جب کسی مومن کے دل میں یہ یقین مستحضر ہو گا کہ ہماری کوئی چھپی یا کھلی حرکت حق تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔ تو اس کا قلب خشیہ الہٰی سے لرزنے لگے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ تمام معاملات میں عدل و انصاف کا راستہ اختیار کر ے گا۔ اور احکام الہٰیہ کے امنتثال کے لئے غلامانہ تیار رہے گا۔ پھر اس نتیجہ پر ثمرہ وہ ملے گا جسے اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔ { وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا } الخ