عجاردہ
عبدالکریم بن عجردکی طرف منسوب ہے،جوعطیہ بن اسودحنفی کے متبعین میں سے تھا،اس فرقے کی نشوونماسجستان میں ہوئی اور اپنےاختلافات کی وجہ سےیہ تقریباپندرہ فرقوں میں تقسیم ہوگئے،ان میں سے جب کوئی ایک رائے پیش کرتاتودوسرااسے ردکردیتااورپھراس کےمتبعین اس سے براءت کا اظہارکردیتے اورپھروہ اپنے متبعین کے ساتھ ایک فرقہ بنالیتا۔
ان کے یہاں بچوں سے براءت واجب ہے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں تو ان کواسلام کی تبلیغ واجب ہے ، مشرکین کے بچے اپنے آباءکے ساتھ جہنم میں جائیں گے، مال فئ اس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک صاحب مال قتل نہ کردیاجائے، نیزان کے نزدیک مرتکب کبرہ کافرہے ، اورایک روایت کے مطابق یہ سورہ یوسف کوقرآن کریم کا جزءنہیں مانتےاورکہتےہیں کہ یہ عام قصوں کی طرح ایک قصہ ہے۔عجاردہ کے چندمشہورفرقےہیں :
1 - صلتیۃ : عثمان بن ابی الصلت یاصلت بن ابی الصلت کی طرف منسوب ہے ، بغدادی نےالفرق بین الفرق (ص98) کے اندرصلت بن عثمان لکھاہے ۔اس کاکہنا ہے کہ جب کوئی مسلمان ہوتاہے توہم اس کے ولی ہیں اوراس کی اولادسے بری ہیں یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں اوراسلام قبول کرلیں، ان میں سے ایک جماعت کاکہناہے کہ مسلمین یا مشرکین کی اولادسے نہ عداوت ہے اورنہ ہی ولایت تاآنکہ وہ بالغ ہوجائیں اوران پراسلام پیش کیاجائے پھروہ اسے قبول کریں یا انکار۔
2 – حمزیہ : حمزہ بن ادرک کی طرف منسوب ہے ، (بغدادی نے اکرک لکھاہے ) اس کا ظہورہارون رشیدکے عہدمیں ہوا، یہ عجاردہ خازمیہ میں سے تھاپھرتقدیرو استطاعت کے باب میں ان کی مخالفت کرکے قدریہ کی موافقت کرلی جس کی وجہ سے خازمیہ نے اس کی تکفیرکردی پھراس نے یہ اعتقاداختیارکرلیاکہ مشرکین کے بچےجہنم میں جائیں گے، جس کی وجہ سے قدریہ نے اس کی تکفیرکردی ، سجستان ، خراسان ، مکران اورکرمان وغیرہ میں اس کا زوررہا۔
(مقالات الاسلامیین : 1/165 ، الفرق بین الفرق :ص 99 ، التبصیر: ص 33 والملل والنحل : 1/150)
3 – شعیبیہ : شعیب بن محمدکے اصحاب جومیمون بن خالد کے ساتھیوں میں سے تھاپھرجب میمون سے تقدیر کے باب میں اختلاف ہواتو اس سے براءت کا اظہارکر دیا، اس کا عقیدہ تھاکہ اللہ تعالی بندوں کے اعمال کاخالق ہے ، بندےکواختیارحاصل ہے اوراس سےخیروشرکا سوال کیاجائے گااوراسی کےمطابق وہ جزاء وسزاکا مستحق ہوگا ، اورکوئی بھی چیز صرف اللہ کی مشیئت سےہی وجودمیں آتی ہے ۔
(مقالات الاسلامیین :1/165،الفرق بین الفرق:ص 97،التبصیر:ص 32 والملل والنحل: 1/151)
4 - میمونیہ : میمون بن خالدکے متبعین شعیب بن محمد اوریہ دونوں عجاردہ میں سے تھے ، پھردونوں میں اختلاف ہوگیا اور دونوں الگ ہوگئے ، واقعہ یہ ہواکہ میمون کا شعیب کے اوپرقرض تھاجس کا اس نے شعیب سے مطالبہ کیاتواس نے کہا کہ اگراللہ نے چاہاتومیں تیرا قرض اداکردوں گا ، اس پرمیمون نے کہا: اللہ نے ابھی چاہاہے ، توشعیب نے کہا: اگراللہ نے چاہاہوتاتومیں نہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتا، میمون نے کہا: اللہ نے تجھے حکم دیاہے اورہروہ چیزجس کا حکم اللہ نے دیاہے اس کی چاہت ہے ، اوروہ جس کو نہیں چاہتا اس کاحکم نہیں دیتاہے ،پھراس مسئلہ میں ان دونوں نے قیدمیں پڑے عبدالکریم بن عجردکے پاس خط لکھا ، جس کے جواب میں اس نے لکھا :
"ماشاء الله كان مالم يشأ لم يكن ولانلحق بالله سوءاً "
"جواللہ چاہتاہے وہی ہوتاہے ، جونہیں چاہتانہیں ہوتا، اورہم اللہ کے ساتھ برائی کو نہیں ملا سکتے
"عبدالکریم کا یہ جواب ان لوگوں کے پاس اس کی موت کے بعدپہنچاجس سے ان دونوں نے اپنے اپنے حق میں استدلال کیا میمون کا کہناتھاکہ عبدالکریم کے جواب سے اس کے موقف کی تائیدہوتی ہے کیونکہ اس نے
" لانلحق بالله سوءاً " کہاہے ، اورشعیب کا کہناتھاکہ اس سے اس کےموقف کی تائیدہوتی ہے ، کیونکہ اس نے "ماشاء الله كان مالم يشأ لم يكن" کہاہے ، یہی پرخازمیہ اوراکثرعجاردہ شعیب کے ہمنواہوگئے اورحمزیہ قدریہ کے ساتھ میمون کے ہمنواہوگئے ۔
نیزمیمونیہ کے باطل عقائدمیں سے یہ بھی ہے کہ نواسیوں اورپوتیوں کے ساتھ نکاح جائزہے جوکہ مجوسیوں کے عقیدہ کی موافقت ہے ، اسی وجہ سے بعض لوگوں نے میمونیہ کو اسلامی فرقہ ماننے سے انکارکردیاہے ۔
نیزیہ لوگ سورہ یوسف کو قرآن کا حصہ نہیں مانتےاوران کے نزدیک بادشاہ سے لڑائی واجب ہے اورجوبادشاہ کے حکم پرراضی ہو اس پرحدقائم ہے ، لیکن جس نے بادشاہ کا انکارکیااس سے اس وقت تک قتال جائزنہیں ہے جب تک کہ وہ اس کی مددنہ کرےاورخارجی مذہب پرطعن نہ کرےاورسلطان کے لئے دلیل راہ نہ بنے ، ان کے نزدیک مشرکین کے بچےجنت میں جائیں گے ۔
( الفرق بین الفرق :ص 97 والملل والنحل : 1/149)
5 – خلفیہ : خلف خارجی کی طرف منسوب ہے ، یہ کرمان اورمکران کے خوارج ہیں جنہوں نےتقدیرکے مسئلے میں حمزیہ کی مخالفت کی ہے ، ان کا اعتقادہے کہ ان کے مخالفین کے بچے جہنم میں جائیں گے ۔
( الفرق بین الفرق :ص 98 ، التبصیر: ص 32 والملل والنحل : 1/150)
6- اطرافیہ : ان کا نام اطرافیہ ان کے اس عقیدہ کی بنیادپرپڑاکہ اطراف عالم میں جوشخص احکام شریعت نہیں جانتاوہ معذورہے ۔ ان کا سرگروہ سجستان کا غالب بن شاذک تھا۔
( الفرق بین الفرق : ص 150)
7 – حازمیہ : بغدادی نے خازمیہ لکھاہے ، یعنی حازم بن علی کے اصحاب جبکہ التعریفات کے اندرجازمیہ ہے یعنی جازم بنی عاصم کے اصحاب جنہوں نے شعیبیہ کی موافقت کی ۔
حازمیہ سجستان کے عجاردہ میں اکثریت میں تھےتقدیر، استطاعت اورمشیئت کے باب میں یہ اہل سنت کے موافق ہیں ،انہوں نے میمونیہ کی تکفیرکی ہے جوقدریہ کے موافق ہیں ، ان سے ایک روایت آتی ہے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے متعلق توقف اختیارکیاہے یعنی یہ ان سے صراحۃ براءت کااظہارنہیں کرتے، جبکہ ان کے علاوہ دیگرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بالصراحت براءت کا اظہارکرتےہیں ، یہ اہل سنت کی موافقت کرتےہوئے کہتےہیں کہ اللہ تعالی بندےکے آخری عمل کو دیکھتاہے ، بندہ تمام عمرمؤمن رہالیکن اگرآخرمیں کافرہوگیاتو اسی کے مطابق اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمائے گا، اوراگرپوری عمرکافررہا اورآخرمیں مؤمن ہوکرمراتواسی کے مطابق اس کا فیصلہ فرمائےگا ، نیزکہتےہیں کہ اللہ تعالی ہمیشہ اپنے اولیاءسے محبت کرتاہے اوردشمنوں سے ناراض رہتاہے ۔
اہل سنت نے ان کے ان عقائدکے باوجودعلی ، طلحہ ، زبیراورعثمان رضی اللہ عنہم سے متعلق ان کی تکفیرپران کا مؤاخذہ کیاہے ، کیونکہ یہ حضرات ان صحابۂ کرام میں سے ہیں جنکے لئے اللہ تعالی نے پہلے ہی جنت کی خوشخبری سنادی ہے ، کیونکہ یہ بیعت رضواں میں شامل تھے جنکے متعلق اللہ تعالی کا ارشادہے :
{لقدرضي الله عن المؤمنين إذيبايعونك تحت الشجرة}(الفتح :18) ۔
( الفرق بین الفرق :ص 96 والملل والنحل : 1/151)
حازمیہ میں دوفرقوں نے اورجنم لیا ، ایک معلومیہ اوردوسرامجہولیہ ، معلومیہ نے اپنے اسلاف سے دوچیزوں میں اختلاف کیاہے ، اول : ان کا دعوی ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالی کی معرفت اس کے اسماء وصفات کے ساتھ نہیں ہے وہ جاہل ہے اورجواللہ سے جاہل ہے وہ کافرہے ۔ دوم : یہ کہتے ہیں کہ : بندوں کے افعال کا خالق اللہ تعالی نہیں ہے ۔
مجہولیہ بھی تقریبا معلومیہ کے قول پرہی ہے سوائے اس کے کہ ان کے نزدیک جس نے اللہ تعالی کو اس کے بعض اسماء کے ساتھ پہچان لیا اس نے اللہ کوپہچان لیا ۔
(الفرق بین الفرق :ص 98)
شہرستانی نے ان دونوں فرقوں کو ثعالبیہ کے فرقوں کے ذیل میں ذکرکیاہے۔
( الملل والنحل :1/155)