• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج عقائدوافکار

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوارج کے فرقے
خوارج شروع میں متحدتھے اوران میں کوئی اختلاف نہیں تھا ، لیکن گذرتے وقت کے ساتھ ان میں بھی گروہ بندی ہوتی گئی اوریہ مختلف فرقوں میں بنٹتےگئے، ان فرقوں کی تعدادمیں علماءکا اختلاف ہے ، امام ابوالحسن اشعری کے مطابق ان کی تعدادچارہے ، لیکن دیگرلوگوں نے مختلف تعدادبیان کی ہے ، کسی نےپانچ کسی نے سات کسی نے آٹھ کسی نے بیس کسی نےپچیس اورکسی نےتیس بیان کی ہے ، درحقیقت چند اسباب وعوامل کی بناپران کاحصر مشکل ہوگيا کیونکہ ایک جنگ بازفرقہ ہونےاورقلت اسباب کی بناپریہ استمرارکے ساتھ اختلاف وافتراق کے شکار ہوتے رہے، اسی طرح ان لوگوں نے عام طورپراپنی تالیفات کو لوگوں سے چھپاکررکھا ہے۔
ذیل میں ہم خوارج کے چند معروف فرقوں کا مختصرتعارف پیش کررہے ہیں :
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اباضیہ

اباضیہ خوارج کا مشہورفرقہ ہے ،اورباعتبارفرقہ خوارج کا یہ پہلافرقہ ہے اوردنیامیں اسی کو زیادہ وسعت وترقی ملی جس کی وجہ سے آج بھی اٹلانٹک کےبعض خطوں میں ان کا وجودہے ،اس فرقےکا امام عبد اللہ بن اباض تھاجس کا پورانام عبداللہ بن یحیی بن اباض المری ہے ، اس کا ظہورپہلی صدی ہجری کے نصف اخیرمیں مروان بن محمد الحمار کے عہدمیں ہوا، ان کے اندربھی تقریبا دس فرقوں نے جنم لیا جن میں چارزیادہ مشہورہوئے :
1- حفصیہ : یہ حفص بن ابو المقدام کے متبعین ہیں ، ان کے نزدیک ایما ن اورشرک کے درمیان حدفاصل اللہ وحدہ لاشریک کی معرفت ہے یعنی اللہ کی معرفت کے بعد کسی نے رسول ،جنت اورجہنم کاانکارکیا اورہرقسم کے برےاعمال انجام دیااوراللہ کے حرام کردہ تمام اشیاءکاارتکاب کیاپھربھی وہ کفروشرک سے بری ہے ، اگرکسی نے اللہ سےنابلداس کا انکارکیاہےتووہ مشرک ہے ۔(الملل والنحل /شہرستانی : 1/182) ۔
2- حارثیۃ : یہ حارث بن مزیداباضی کے متبعین ہیں ، تقدیرکے باب میں اباضیہ کی مخالفت کرتےہو‏‏ئےیہ معتزلہ کے ہمنواہیں جبکہ عام اباضیہ اس باب میں اہل سنت والجماعت کےساتھ ہیں کہ اللہ تعالی بندوں کےاعمال کاخالق ہےاوراسکی استطاعت وقوت عمل کے ساتھ رکھی ہے جبکہ حارثیہ کاکہناہے کہ استطاعت عمل سے پہلےہے، اسی وجہ سے تمام اباضیہ نے حارثیہ کی تکفیرکی ہے ۔(الفرق بین الفرق :ص/104 -105 ،التعریفات :ص55 والملل والنحل :1/158)۔
3 - یزیدیہ : یہ یزید بن ابی انیسہ خارجی کے متبعین ہیں جوبصرہ کارہنے والاتھاپھربعد میں فارس میں تون (جور) نے مقام پرسکونت پذیرہوگيا، یہ ابتداءمیں عقیدۂ اباضیہ پرتھابعدمیں اپنے برےعقیدےکی بنیادپرملت اسلامیہ سے بھی خارج ہوگیا، اس کا دعوی تھاکہ اللہ تعالی ایک رسول عجم میں بھیجےگا، جسے ایک آسمانی کتاب دی جائےگی اور وہ اس کے ذریعہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کردیگااس نبی کے منتظرین قرآن کریم میں مذکورصابئین کہلائیں گے ، اس گمراہ کن عقیدہ کے ساتھ ساتھ اس کا یہ بھی عقیدہ تھاکہ اہل کتاب میں سے جس نے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کااقرارکیاگرچہ وہ دین اسلام میں داخل نہیں ہواوہ مؤمن ہے،اس قول کی بنیاد پر یہودیوں کے فرقےعیسویہ اوررعیانیہ بھی مؤمن ہیں کیونکہ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرارکرتےہیں گرچہ اسلام میں داخل نہیں ہوتے ۔
مذکورہ عقیدہ کی بنیادپریزیدیہ فرقےکوایک اسلامی فرقہ ماننا قطعا درست نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثراباضیہ نے اس فرقےسے اپنی برءت کا اظہارکیاہے ، کیونکہ وہ فرقہ جواسلامی شریعت کے منسوخ ہونے کا دعویدارہواسلامی فرقوں میں سے ہو ہی نہیں سکتا۔(مقالات الاسلامیین:1/183-185 ، الفرق بین الفرق :ص263 والملل والنحل /شہرستانی :1/158- 159)
4 – اصحاب طاعۃ لایراداللہ بھا(ان چاہےاللہ کی اطاعت کرنےوالے) : ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی چاہت وقصدکے بغیربھی اللہ کی اطاعت صحیح ہوگی ۔ (الفرق بین الفرق :ص105)
یہ چاراباضیہ کے مشہورفرقےہیں ، ان کےعلاوہ مزیدچھ فرقے المغرب کے اندر پائے جاتےہیں جومندرجہ ذیل ہیں :
1 – فرقۃ النکار: ان کا سرگروہ ابوقدامہ بن یزیدبن فندین نامی شخص تھا، عبدالوہاب بن رستم کی امامت کے انکارکی وجہ سے اس جماعت کانام نکاریہ پڑا، واضح رہے کہ عبدالوہاب بن رستم کے متبعین کو وہابیہ یا وہبیہ کہاجاتاتھا۔
2 – نفاثیہ : فرح النفوس عرف نفاث نامی ‎شخص کی طرف منسوب ہے اورنفوسہ لیبیا میں ایک گاؤں کا نا م ہے ۔
3 – خلفیہ : خلف بن سمح بن ابی الخطاب المعافری کی جانب منسوب ہے ۔
4 – حسینیہ : ان کا سرگروہ ابوزیاداحمدبن الحسین طرابلسی تھا۔
5 – سکاکیہ : عبداللہ بن سکاک نامی آدمی کی طرف منسوب ہے ۔
6 – فرثیہ : یہ فرقہ أبو سليمان بن يعقوب بن أفلح کی طرف منسوب ہے ۔
ان چھ فرقوں کوگرچہ کچھ لوگوں نے اباضیہ کے فرقےہونےسے انکارکیاہے ، لیکن بہت سارے علماءنے ان کو مغرب میں موجوداباضیہ کے ضمن میں ذکرکیاہے ۔( فرق معاصرۃ :1/85-86)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
عقیدہ کےباب میں اباضیہ کاموقف
1 – عبداللہ بن اباض کی امامت پرتمام اباضیہ کا اتفاق ہے ۔
2 – عام خوارج کی طرح ان کے نزدیک مرتکب کبیرہ کافرہے ، البتہ اس کفرکو کفر نعمت سے تعبیرکرتےہیں ، جس کے مرتکب کے ساتھ دنیامیں کافروں جیساسلوک نہیں کیاجائےگا لیکن آخرت میں کافروں کی طرح ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہےگا۔
3 - صفات باری تعالی کے تعلق سے اباضیہ کے اندردوگروہ ہے ، ایک گروہ صفات الہی سے بالکلیہ منکرہے ان کے بزعم اثبات صفات سے تشبیہ لازم آئےگی ، اوردوسرا گروہ صفات کو ذات پرلوٹاتاہے یعنی اللہ عالم بذاتہ ، سمیع بذاتہ اورقادربذاتہ ہے ،گویا صفات ان کے نزدیک عین ذات ہے ۔
4 – استواءعلی العرش کے باب میں حلولیہ ( صوفیہ ) اورغالی قسم کے جہمیہ کے ہمنوا ہیں ، ان کا گمان ہے کہ اللہ کے لئے کسی ایک جہت میں مختص ہونامحال ہے لہذاوہ ہرمکان میں اورہرجگہ ہے ، یہاں پرانہوں نے استواءعلی العرش کی تاویل" استواء أمرہ وقدرته ولطفه فوق خلقه "یا "استواء ملک وقدرۃ وغلبة " سے کیاہے ۔
5 – قیامت کے روزرؤیت باری کے باب میں معتزلہ کے ہمنواہیں ، یعنی انسان کےلئے محال ہےکہ وہ اللہ تعالی کودیکھ سکے ، یہ لوگ "لاتدرکہ الابصار"اورلن ترانی" جیسی آیات کریمہ کی تاویل کرتےہیں ۔
6 – بعض اباضیہ قرآن کریم کے مخلوق ہونے کے قائل ہیں ، بعض علمائے اباضیہ مثلا : ابن جمیع اورورجلانی وغیرہ کہتےہیں کہ جوخلق قرآن کا قائل نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔
7 – اباضیہ کا ایک گروہ عذاب قبرکا منکراوردوسرااس کے اثبات کا قائل ہے۔
8 – اسی طرح اباضیہ میزان اورپل صراط کے بھی منکرہیں ۔
9 – اباضیہ اکثرخوارج کے برخلاف تقیہ کے جوازکے بھی قائل ہیں ۔
10 - صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ابوبکروعمررضی اللہ عنہماکا احترام کرتےہیں جبکہ عثمان غنی اورعلی رضی اللہ عنہماپہ سب شتم کرتےہیں ، بعض نے توعثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیرکرڈالی ہے (دیکھئے : کشف الغمہ :ص268) اسی طرح ان کی کتاب الدلیل لاہل العقول (ص :27-28)اورکتاب الادیان (ص: 26-27)کے اندران کو مختلف گالیوں سے نوازہ گیاہے ، اوران کو شہیدکرنےوالوں کو "فرقۃ اہل الاستقامۃ" کہاگیاہے ، اسی طرح کشف الغمہ کے اندرحسن وحسین رضی اللہ عنہماسے برءت کے اظہارکوواجب قراردیکران کو گالیاں دی گئیں ہیں ، نیزطلحہ بن عبیداللہ اورزبیربن العوام رضی اللہ عنہماکوجہنمی قراردیاگیاہے ۔(کشف الغمہ :ص 304 ،فرق معاصرہ : 1/88-105 ،الفرق بین الفرق : ص 103، مقالات الاسلامیین :1/189 والخوارج / سعوی :ص 87)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
محکمہ اولی
جیساکہ پچھلےصفحات میں گذراکہ خوارج کو محکمہ بھی کہا جاتاہے جوکہ خوارج میں سب سے پہلا گروہ ہے ، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیااورحکمین کے فیصلہ کوماننے سے انکارکردیااورپھرحروراء نامی مقام پر جمع ہوگئے ، ان کے سردارعبداللہ بن کواء،عتاب بن اعور، عبداللہ بن وہب راسبی ، عروہ بن عمروبن حدیر(یا عروہ بن ادیہ ) یزیدبن ابوعاصم محاربی ، حرقوص بن زہیربجلی ( المعروف بذی الثدیہ ) وغیرہ تھے ، جب وہ لوگ علی اورمعاویہ رضی اللہ عنہماکی جماعت سے نکل کرحروراءمیں اکٹھاہوئے اس وقت ان تعدادبارہ ہزارتھی ، مناظرہ کے بعد ابن الکواء دس شہ سواروں کے ساتھ مسلمان ہوگیا اورباقی عبد اللہ بن وہب راسبی اورذوالثدیہ کوامیر بناکرنہروان کی طرف کوچ کرگئے ، راستےمیں ان لوگوں نے عبداللہ بن خباب ابن الارت کوقتل کردیا اوران کے گھرمیں گھس کران کے بیٹے اورام ولدکو بھی قتل کردیا، اورنہروان پرقابض ہوگئے ،جن سے علی رضی اللہ عنہ کے مناظرہ اورجنگ کا مفصل بیا ن گذرچکاہے ۔( الفرق بین الفرق : ص 79 – 86 ،الملل والنحل : 1/133 – 137)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ازارقہ

یہ ابوراشد نافع بن ازرق حنفی کے متبعین ہیں جس نے یزید بن معاویہ کےآخری عہدمیں خروج کیا، خوارج کی اتنی بڑی تعداداورقوت جواس کے عہدمیں تھی کبھی نہیں رہی ، یہ اپنی جماعت لےکربصرہ سے اہوازکی طرف نکلا اورعبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے عمال کو قتل کرکے فارس وکرمان کےشہروں پرقابض ہوگیا، اس کا قتل سنہ 65 ہجری میں ہوا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ازارقہ کے باطل عقائد
1 – علی ، عثمان ، طلحہ ، زبیر، عائشہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام کی تکفیر۔
2 – تکفیرقاعد: یعنی جوجنگ سے روگردانی کرکےبیٹھارہے وہ کافرہے گرچہ وہ ان کے مذہب وطریقہ پرہی کیوں نہ ہو۔
3 – مخالفین کے بچوں اورعورتوں کو قتل کرناجائزہے ۔
4 – زناکارسے رجم کا اسقاط۔
5 – مشرکین کے بچے اپنے آباءواجدادکے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔
6 – قول وعمل میں تقیہ ناجائزہے ۔
7 – مرتکب کبیرہ کافرخالدمخلدفی النارہے ۔(الملل والنحل للشہرستانی :1/140 -141 الفرق بین الفرق : ص 87 -91 والخوارج للسعوی :ص74 -77)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
نجدات

نجدہ بن عامرالحنفی کی طرف نسبت کرکے اس جماعت کونجدات کہاجاتاہے،نافع بن ازرق نے جب ان لوگوں کوجو قعدہ (یعنی مخالفین کے خلاف جنگ سے بازرہنے) سے اپنی برءت کا اظہارکرکے اس کی طرف ہجرت نہ کریں گرچہ وہ ان کے ہم ‎مشرب ہوں مشرکین کا نام دیدیا اورمخالفین کے بچوں اورعورتوں کےقتل کو جا‏ئز قرار دیدیا توابو فدیک ، عطیہ حنفی ، راشدالطویل ، مقلاص اورابوب ازرق اس سے جداہوکرایک جماعت کے ساتھ یمامہ کی جانب چلے گئےجہاں نجدہ بن عامرنے جونافع کی طرف عازم تھاان کا استقبال کیا، وہ لوگ نجدہ کو نافع کی بدعتوں سے آگاہ کرکے اسے یمامہ واپس لےگئے اوراس کی امامت پربیعت کرلیااورقعدہ کی تکفیرکرنےوالوں اور نافع کی امامت کے قائلین کی تکفیرکردی ،پھریہ خودہی آپس میں اختلاف کا شکارہوکرتین گروہ میں بٹ گئے ، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے دوفوجیں بری اوربحری تیارکرکے جنگ پرروانہ کیا اورسازوسامان کی فراہمی میں بری کو بحری پرفوقیت دی ۔ اسی طرح ایک فوج مدینہ طیبہ پرحملہ کے لئے بھیجاجہاں ان لوگوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خاندان کی ایک لڑکی کو قیدکرلیا جس کی رہائی کے سلسلےمیں عبدالملک بن مروان نے نجدہ کوخط لکھا، نجدہ نے اس لڑکی کو جس کے حصےمیں آئی تھی اس سے خریدکرمروان کے پاس بھیج دیا ، جس پراس کے ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ اس نے ہماری ایک لونڈی کو دشمن کو واپس کردیا ۔
تیسرا سبب یہ ہواکہ اس نے اجتہادمیں غلطی کرنے والوں کومعذورقراردیدیا(اسی وجہ سے اس جماعت کونجدات العاذریہ بھی کہاجاتاہے ) اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے اپنےبیٹےمضرج کو ایک فوج دیکربحرین کے شہرقطیف روانہ کیاجہاں اس کی فوج نے حملہ کرکے عورتوں اوربچوں کوقیدکرلیااورتقسیم غنائم سے قبل ہی عورتوں کو آپس میں تقسیم کرکے ان سے استفادہ کرلیااورکہنے لگے کہ جوعورت ہمارےحصے میں آگئی وہ ہماری پوری ملکیت ہے ، اوراگروہ تقسیم غنائم میں زائدقرارپائیں توہم ان کا تاوان اپنے مال سے اداکریں گے، پھریہ لوگ نجدہ کے پاس آئے اوراس سے اس سلسلےمیں استفسارکیا تو اس نے عدم حلت کا فتوی دیا پھرجب ان لوگوں حرمت کی عدم معرفت کا عذرپیش کیا تواس نے ان کا عذرجہالت کی بنیادپرقبول کرلیا ۔ نیزاس نے اپنے موافقین میں سے جوصاحب حدتھےان کوکو‏‏ئی سزانہیں دیااورکہاکہ شایداللہ تعالی ان کو ان کے گناہوں کے بدلےجہنم کے علاوہ کی سزادےاورپھرانہیں جنت میں داخل کردے، اس کاعقیدہ تھاکہ جہنم میں وہی لوگ جائیں گےجوان کے مخالف ہیں۔
اسی طرح اس نے حدخمرکوساقط قراردیااورکہاکہ جس نے چھوٹی نگاہ ڈالی اورہلکا جھوٹ بولااوراس پرمصرہے تووہ مشرک ہے،اورجس نے زناکیا،چوری کی اور شراب پی لیالیکن اس پرمصرنہیں ہے تووہ اگراس کے مذہب کے موافقین میں سے ہے تووہ مؤمن ہے ۔
جب اس نےاپنی ان بدعات کا اظہارکیا تواس کے اکثرمتبعین نے اس سے مسجدمیں جاکران بدعات سے توبہ کے لئے کہاچنانچہ اس نے ایساہی کیاجس پرکچھ لوگوں کو ندامت ہوئی اوراس سے کہاکہ آپ امام ہیں اورآپ کو اختیاراجتہادحاصل ہے ہمیں آپ سے توبہ کرانے کا کوئی اختیارنہیں تھا، اس لئے آپ اپنی توبہ سے توبہ کیجئے ، اور جن لوگوں نے آپ سے توبہ کرایاہے ان سے توبہ کرائیے ، ورنہ ہم آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے ، چنانچہ اس نے ایساہی کیا جس پراس کے متبعین تین گروہوں میں بٹ گئے :
اول : نجدات : نجدہ بن عامرکے متبعین ۔
دوم : عطویہ : عطیہ بن اسودکے متبعین ۔
سوم : فدیکیہ : ابوفدیک (جوعبدالملک بن مروان کی فوج کے ہاتھوں ماراگیا) کے متبعین ، انہیں لوگوں نے نجدہ کے خلاف جنگ کرکے اسے قتل کردیا۔ (مقالات الاسلامیین :1/174-176 ، الفرق بین الفرق : ص 91-93 والملل والنحل / شہرستانی :1/141-144)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
صفریہ

صفریہ خوارج کے بڑے فرقوں میں سے ایک ہے ، زیادبن اصفرکی جانب منسوب الصفریۃ الزیادیۃ کے نام سے معروف ہے ، اس گروہ نے چند امورمیں ازارقہ نجدات اوراباضیہ کی مخالفت کی ہے ، مثلا:
قعدہ عندالقتال کو کفرنہیں گردانتے، رجم کو ساقط نہیں مانتے ، مشرکین کے بچوں کو قتل کرنےکے قائل نہیں ، اورنہ ان کے خلودفی النارکے قائل ہیں ، ان کے یہاں عمل کے برعکس قول میں تقیہ جائزہے ، یہ فرقہ اپنےعقیدہ میں تین گروہوں میں منقسم ہے :
اول : ہرگنہ گارمشرک ہے ۔
دوم : ہرگناہ جس پرحدواجب ہے اس کے مرتکب کو اسی سےموسوم کیاجائےگاوہ کافرومشرک نہیں ہوگا ، جیسے : زناکارکو زانی ، چورکو سارق ، بہتان تراش کو قاذف اورقاتل عمدکوقاتل عمد، اورہرگناہ جس کے اندرحد نہیں جیسے : ترک نمازاورترک صیام (روزہ) تواس کا مرتکب کافرہے ، اسے مؤمن نہیں کہاجائےگا۔
سوم : گنہ گارپرکفرکا حکم نہیں لگاجائےگا تاآنکہ حاکم تک مقدمہ پہنچ جائے اوروہ اس پر حدقائم کردے۔( الفرق بین الفرق :ص 94-95 ، الملل والنحل /شہرستانی :1/159، التبصیر: ص 31، مقالات الاسلامیین : 1/182 والخوارج /سعوی : ص 81-83)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
بیہسیة

ابوبیہس ہیثم بن جابرکی طرف منسوب ہے ، جوسعدبن ضبیعہ میں سے تھا، اورابتداءمیں خوارج محکمہ میں سے تھا، پھران سے اختلاف کی وجہ سے ان سے الگ ہوگیا، اسے ولیدبن عبدالملک کے حکم سے مدینہ کے والی عثمان بن حیان مری نے سنہ 94ھ میں قتل کردیا ۔ ان کے بہت سارےشاذاقوال ہیں جن کی کو‏ئی حیثیت نہیں ہے ، ان میں گروہ درگروہ مختلف فرقوں نے جنم لیا جوایک دوسرےسے براءت کااظہاراوران کی تکفیرکرتےرہے، ان کے یہاں ایمان اس وقت تک قابل قبول نہیں ہے جب تک کہ اللہ کی معرفت اوراس کے رسولوں کی معرفت کااقرارنہ کرلے۔
ان کے چندمشہورفرقےمندرجہ ذیل ہیں :
1- عونیۃ (عوفیہ) : ان کا عقیدہ ہےکہ اگرامام کفرکاارتکاب کرتاہے توساری رعیت کافرہوجاتی ہے ۔
2- اصحاب التفسیر:حکم بن روان نامی شخص کی طرف منسوب ہے ، ان کا عقیدہ ہے کہ اگرکسی نے کسی مسلمان پرمعصیت کی گواہی دی تو اس کی تفسیراس پرلازم ہے ، مثلا: کسی کے خلاف چارآدمیوں نے زناکاری کی گواہی دی تواس وقت تک ان کی گواہی قابل قبول نہیں جب تک وہ اس کی وضاحت نہ کردیں کہ اس کا وقوع کیسے ہوا۔
3 – اصحاب السؤال : شبیب نجرانی نامی شخص کے متبعین ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لئےکوئی بھی عمل اس کا حکم جانے بغیرکہ وہ حلال ہے اس کا کرنا ناجائزہے ، لہذاجب کو‏ئی عمل اس کا حکم جانے بغیرکرتاہے تو وہ معصیت کاارتکاب کرتاہے،اورکافرہوجاتاہے،اسی طرح ان کایہ بھی اعتقادہے کہ مؤمنین کے بچے مؤمن ہی ہوتےہیں جب تک حق کا انکارنہ کردیں ، اسی طرح کفارکے بچے کافرہوتےہیں جب تک اسلام میں داخل نہ ہوجائیں ، اورتقدیرکے باب میں ان کا عقیدہ قدریہ جیساہے یعنی اللہ تعالی بندوں کے اعمال کو بندوں کو ہی سونپ رکھاہے۔ (مقالات الاسلامیین :1/191 ،الملل والنحل : 1/144،147 والکامل / مبرد:ص211)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
عجاردہ

عبدالکریم بن عجردکی طرف منسوب ہے،جوعطیہ بن اسودحنفی کے متبعین میں سے تھا،اس فرقے کی نشوونماسجستان میں ہو‏ئی اور اپنےاختلافات کی وجہ سےیہ تقریباپندرہ فرقوں میں تقسیم ہوگئے،ان میں سے جب کوئی ایک رائے پیش کرتاتودوسرااسے ردکردیتااورپھراس کےمتبعین اس سے براءت کا اظہارکردیتے اورپھروہ اپنے متبعین کے ساتھ ایک فرقہ بنالیتا۔
ان کے یہاں بچوں سے براءت واجب ہے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں تو ان کواسلام کی تبلیغ واجب ہے ، مشرکین کے بچے اپنے آباءکے ساتھ جہنم میں جائیں گے، مال فئ اس وقت تک نہیں ہوسکتاجب تک صاحب مال قتل نہ کردیاجائے، نیزان کے نزدیک مرتکب کبرہ کافرہے ، اورایک روایت کے مطابق یہ سورہ یوسف کوقرآن کریم کا جزءنہیں مانتےاورکہتےہیں کہ یہ عام قصوں کی طرح ایک قصہ ہے۔عجاردہ کے چندمشہورفرقےہیں :
1 - صلتیۃ : عثمان بن ابی الصلت یاصلت بن ابی الصلت کی طرف منسوب ہے ، بغدادی نےالفرق بین الفرق (ص98) کے اندرصلت بن عثمان لکھاہے ۔اس کاکہنا ہے کہ جب کوئی مسلمان ہوتاہے توہم اس کے ولی ہیں اوراس کی اولادسے بری ہیں یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں اوراسلام قبول کرلیں، ان میں سے ایک جماعت کاکہناہے کہ مسلمین یا مشرکین کی اولادسے نہ عداوت ہے اورنہ ہی ولایت تاآنکہ وہ بالغ ہوجائیں اوران پراسلام پیش کیاجائے پھروہ اسے قبول کریں یا انکار۔
2 – حمزیہ : حمزہ بن ادرک کی طرف منسوب ہے ، (بغدادی نے اکرک لکھاہے ) اس کا ظہورہارون رشیدکے عہدمیں ہوا، یہ عجاردہ خازمیہ میں سے تھاپھرتقدیرو استطاعت کے باب میں ان کی مخالفت کرکے قدریہ کی موافقت کرلی جس کی وجہ سے خازمیہ نے اس کی تکفیرکردی پھراس نے یہ اعتقاداختیارکرلیاکہ مشرکین کے بچےجہنم میں جائیں گے، جس کی وجہ سے قدریہ نے اس کی تکفیرکردی ، سجستان ، خراسان ، مکران اورکرمان وغیرہ میں اس کا زوررہا۔ (مقالات الاسلامیین : 1/165 ، الفرق بین الفرق :ص 99 ، التبصیر: ص 33 والملل والنحل : 1/150)
3 – شعیبیہ : شعیب بن محمدکے اصحاب جومیمون بن خالد کے ساتھیوں میں سے تھاپھرجب میمون سے تقدیر کے باب میں اختلاف ہواتو اس سے براءت کا اظہارکر دیا، اس کا عقیدہ تھاکہ اللہ تعالی بندوں کے اعمال کاخالق ہے ، بندےکواختیارحاصل ہے اوراس سےخیروشرکا سوال کیاجائے گااوراسی کےمطابق وہ جزاء وسزاکا مستحق ہوگا ، اورکوئی بھی چیز صرف اللہ کی مشیئت سےہی وجودمیں آتی ہے ۔(مقالات الاسلامیین :1/165،الفرق بین الفرق:ص 97،التبصیر:ص 32 والملل والنحل: 1/151)
4 - میمونیہ : میمون بن خالدکے متبعین شعیب بن محمد اوریہ دونوں عجاردہ میں سے تھے ، پھردونوں میں اختلاف ہوگیا اور دونوں الگ ہوگئے ، واقعہ یہ ہواکہ میمون کا شعیب کے اوپرقرض تھاجس کا اس نے شعیب سے مطالبہ کیاتواس نے کہا کہ اگراللہ نے چاہاتومیں تیرا قرض اداکردوں گا ، اس پرمیمون نے کہا: اللہ نے ابھی چاہاہے ، توشعیب نے کہا: اگراللہ نے چاہاہوتاتومیں نہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتا، میمون نے کہا: اللہ نے تجھے حکم دیاہے اورہروہ چیزجس کا حکم اللہ نے دیاہے اس کی چاہت ہے ، اوروہ جس کو نہیں چاہتا اس کاحکم نہیں دیتاہے ،پھراس مسئلہ میں ان دونوں نے قیدمیں پڑے عبدالکریم بن عجردکے پاس خط لکھا ، جس کے جواب میں اس نے لکھا : "ماشاء الله كان مالم يشأ لم يكن ولانلحق بالله سوءاً "
"جواللہ چاہتاہے وہی ہوتاہے ، جونہیں چاہتانہیں ہوتا، اورہم اللہ کے ساتھ برائی کو نہیں ملا سکتے
"عبدالکریم کا یہ جواب ان لوگوں کے پاس اس کی موت کے بعدپہنچاجس سے ان دونوں نے اپنے اپنے حق میں استدلال کیا میمون کا کہناتھاکہ عبدالکریم کے جواب سے اس کے موقف کی تائیدہوتی ہے کیونکہ اس نے " لانلحق بالله سوءاً " کہاہے ، اورشعیب کا کہناتھاکہ اس سے اس کےموقف کی تا‏ئیدہوتی ہے ، کیونکہ اس نے "ماشاء الله كان مالم يشأ لم يكن" کہاہے ، یہی پرخازمیہ اوراکثرعجاردہ شعیب کے ہمنواہوگئے اورحمزیہ قدریہ کے ساتھ میمون کے ہمنواہوگئے ۔
نیزمیمونیہ کے باطل عقائدمیں سے یہ بھی ہے کہ نواسیوں اورپوتیوں کے ساتھ نکاح جائزہے جوکہ مجوسیوں کے عقیدہ کی موافقت ہے ، اسی وجہ سے بعض لوگوں نے میمونیہ کو اسلامی فرقہ ماننے سے انکارکردیاہے ۔
نیزیہ لوگ سورہ یوسف کو قرآن کا حصہ نہیں مانتےاوران کے نزدیک بادشاہ سے لڑائی واجب ہے اورجوبادشاہ کے حکم پرراضی ہو اس پرحدقائم ہے ، لیکن جس نے بادشاہ کا انکارکیااس سے اس وقت تک قتال جائزنہیں ہے جب تک کہ وہ اس کی مددنہ کرےاورخارجی مذہب پرطعن نہ کرےاورسلطان کے لئے دلیل راہ نہ بنے ، ان کے نزدیک مشرکین کے بچےجنت میں جائیں گے ۔( الفرق بین الفرق :ص 97 والملل والنحل : 1/149)
5 – خلفیہ : خلف خارجی کی طرف منسوب ہے ، یہ کرمان اورمکران کے خوارج ہیں جنہوں نےتقدیرکے مسئلے میں حمزیہ کی مخالفت کی ہے ، ان کا اعتقادہے کہ ان کے مخالفین کے بچے جہنم میں جائیں گے ۔( الفرق بین الفرق :ص 98 ، التبصیر: ص 32 والملل والنحل : 1/150)
6- اطرافیہ : ان کا نام اطرافیہ ان کے اس عقیدہ کی بنیادپرپڑاکہ اطراف عالم میں جوشخص احکام شریعت نہیں جانتاوہ معذورہے ۔ ان کا سرگروہ سجستان کا غالب بن شاذک تھا۔( الفرق بین الفرق : ص 150)
7 – حازمیہ : بغدادی نے خازمیہ لکھاہے ، یعنی حازم بن علی کے اصحاب جبکہ التعریفات کے اندرجازمیہ ہے یعنی جازم بنی عاصم کے اصحاب جنہوں نے شعیبیہ کی موافقت کی ۔
حازمیہ سجستان کے عجاردہ میں اکثریت میں تھےتقدیر، استطاعت اورمشیئت کے باب میں یہ اہل سنت کے موافق ہیں ،انہوں نے میمونیہ کی تکفیرکی ہے جوقدریہ کے موافق ہیں ، ان سے ایک روایت آتی ہے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے متعلق توقف اختیارکیاہے یعنی یہ ان سے صراحۃ براءت کااظہارنہیں کرتے، جبکہ ان کے علاوہ دیگرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بالصراحت براءت کا اظہارکرتےہیں ، یہ اہل سنت کی موافقت کرتےہوئے کہتےہیں کہ اللہ تعالی بندےکے آخری عمل کو دیکھتاہے ، بندہ تمام عمرمؤمن رہالیکن اگرآخرمیں کافرہوگیاتو اسی کے مطابق اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمائے گا، اوراگرپوری عمرکافررہا اورآخرمیں مؤمن ہوکرمراتواسی کے مطابق اس کا فیصلہ فرمائےگا ، نیزکہتےہیں کہ اللہ تعالی ہمیشہ اپنے اولیاءسے محبت کرتاہے اوردشمنوں سے ناراض رہتاہے ۔
اہل سنت نے ان کے ان عقائدکے باوجودعلی ، طلحہ ، زبیراورعثمان رضی اللہ عنہم سے متعلق ان کی تکفیرپران کا مؤاخذہ کیاہے ، کیونکہ یہ حضرات ان صحابۂ کرام میں سے ہیں جنکے لئے اللہ تعالی نے پہلے ہی جنت کی خوشخبری سنادی ہے ، کیونکہ یہ بیعت رضواں میں شامل تھے جنکے متعلق اللہ تعالی کا ارشادہے :{لقدرضي الله عن المؤمنين إذيبايعونك تحت الشجرة}(الفتح :18) ۔
( الفرق بین الفرق :ص 96 والملل والنحل : 1/151)
حازمیہ میں دوفرقوں نے اورجنم لیا ، ایک معلومیہ اوردوسرامجہولیہ ، معلومیہ نے اپنے اسلاف سے دوچیزوں میں اختلاف کیاہے ، اول : ان کا دعوی ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالی کی معرفت اس کے اسماء وصفات کے ساتھ نہیں ہے وہ جاہل ہے اورجواللہ سے جاہل ہے وہ کافرہے ۔ دوم : یہ کہتے ہیں کہ : بندوں کے افعال کا خالق اللہ تعالی نہیں ہے ۔
مجہولیہ بھی تقریبا معلومیہ کے قول پرہی ہے سوائے اس کے کہ ان کے نزدیک جس نے اللہ تعالی کو اس کے بعض اسماء کے ساتھ پہچان لیا اس نے اللہ کوپہچان لیا ۔(الفرق بین الفرق :ص 98)
شہرستانی نے ان دونوں فرقوں کو ثعالبیہ کے فرقوں کے ذیل میں ذکرکیاہے۔ ( الملل والنحل :1/155)
 
Top