محمد عاصم
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 10، 2011
- پیغامات
- 236
- ری ایکشن اسکور
- 1,027
- پوائنٹ
- 104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام میں خودپسندی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اس کی جہاں ممانعت بھی وارد ہوئی
ہے وہاں ہی کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ کہیں شیطان اس
بندے کو مغرور، متکبر نہ بنادے، اسلام ایک انسان کی ہر معاملے میں بہترین رہنمائی
کرنے والا دین ہے اسلام نہیں چاہتا کہ ایک انسان اپنی حدود کو پار کرئے کہ جس کی
وجہ سے اس کی زندگی میں خرابی آئے،اسلام نے ہر معاملے میں بہترین رہنمائے اصول دیئے
ہیں اگر ان اصولوں کو فراموش کرکے ان کے خلاف اقدام کیئے جائیں تو معاشرے میں بگاڑ
پیدا ہوجاتا ہے جو آخر کسی بڑے فتنے کا سبب بن جاتا ہے اور انہی اصولوں میں سے ایک
اصول ہے کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باھندنا کہ جس کی وجہ سے وہ بندہ
ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دینا ہے اور جس انسان میں
تکبر آگیا تو سمجھ لو کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔
ابلیس ::شیطان::بھی اسی تکبر کی وجہ
سے برباد ہوا تھا، تکبر اللہ کو بہت ناپسند عمل ہے اس لیئے اسلام نے اس تکبر کو ایک
انسان کے اندر آنے کے رستے بند کرنے کی طرف توجہ دی ہے جیسا کہ ایک حدیث شریف میں
نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا غندر عن شعبة عن سعد بن
إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف عن معبد الجهني عن معاوية قال سمعت رسول الله صلی
الله عليه وسلم يقول إياکم والتمادح فإنه الذبح
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو یہ ارشاد فرماتے سنا ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ
توذبح کرنے کے مترادف ہے۔سنن ابن ماجہ:جلد سوم:باب:آداب کا بیان۔ :خوشامد کا بیان
۔اس فرمانِ رسولﷺ سے واضح ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اس کی
تعریف کرنا اس کو ذبح یعنی ہلاک کرنے کے مترادف ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ وہ شخص
خودپسندی اور تکبر کا شکار ہوجائے اور شیطان کی طرح گمراہ ہوجائے۔
اسی طرح کی ایک حدیث مسند احمد میں بھی ہے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہت کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے، البتہ یہ کلمات اکثر جگہوں پر نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کرتے تھے کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔ منہ پر تعریف کرنے سے بچو
کیونکہ یہ اس شخص کو ذبح کر دینا ہے۔مسند احمد:جلد ہفتم:باب: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مرویات
اس ارشاد رسولﷺ کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے معاشرے میں کچھ
عجیب سی حرکات ہورہی ہیں اگر کوئی دین کے علم سے نابلد انسان ایسی حرکت کرئے تو
دُکھ نہیں ہوتا کہ وہ جاہل ہے مگر افسوس کہ ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس مرض کے
شکار ہوچکے ہیں کہ جب وہ کسی فورم پر تشریف فرما ہوتے ہیں تو ان کے سامنے ان کی خوب
تعریف کی جاتی ہے اور وہ صاحب اُس تعریف کرنے والے کو منع بھی نہیں کرتے کہ بھائی
منہ پر تعریف نہ کرو اس سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے اور اس مرض میں سیاسی
اور مذہبی سبھی طرح کے لیڈران شامل ہیں، میں سبھی پر اس کا اطلاق نہیں کرتا مگر
اکثریت اس کا شکار ہوچکی ہے، مثلاً جب کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ ہوتا ہے تو وہاں پر
موجود امیدوار برائے پارلیمنٹ کے سامنے اس کی خوب تعریف کی جاتی ہے اور اس کے نام
وہ وہ کام لگائے جاتے ہیں جو اس نے کیئے بھی نہیں ہوتے ہیں اور وہ صاحب اس خوشامدی
پر پھولے نہیں سماتے چلو یہ لوگ تو دین کے علم سے بےبہرہ ہیں ان کو ان احادیث کا
علم نہیں ہوگا::ویسے یہ احادیث پرائمری کے نصاب میں شامل ہیں مگر افسوس کہ
ہمارے اکثر حکمران جاہل اور ان پڑھ ہیں جعلی ڈگڑیاں لے کر ہم پر مسلط ہو جاتے
ہیں:: مگر دوسری طرف مذہبی رہنماء بھی کم نہیں ہیں ان کے سامنے ان کو ایسے ایسے خطاب سے نوازہ جاتا ہے
کہ جو خطاب کسی صحابی رسولﷺ کے نام کے ساتھ بھی نہیں لگاتے ان کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں
مولانا، رہبر ملت، رہبر طریقت، رہبر معرفت، شیخ المشائح، مفکر
اسلام، سند المفسرین، فیض ملت، ملک التحریر، امام المناظرین، شمس المصنفین، عمدۃ
المفسرین، استاد العرب و العجم، غواث بحر حقائق، محدث وقت، ریئس التحریر، ولی نعمت،
عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت، مجدد دین و ملت، عالم شریعت، پیر
طریقت، حامی سنت، ماحی بدعت، باعث خیر و برکت، امام عشق و محبت، حضرت شیخ الفضیلت،
آفتاب رضویت، ضیاء ملت، مقتدائے اہلسنت، شیخ العرب والعجم اورقطب مدینہ۔
یہ صرف ایک مثال کے طور پر ہیں ورنہ اس سے بھی بڑے بڑے القابات سے نوازہ جاتا ہے مگر مجال ہے کہ وہ صاحب جن کو یہ القاب نوازے جارہے ہوں وہ ان لوگوں کو منع کریں کہ بھائی آپ کیوں میرے منہ پر میری تعریف کیئے جا رہے ہو؟ اس سے میرے پیارے رسولﷺ سے منع کیا ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ان حضرات کے سامنے سے یہ حدیث بھی نہیں
گزری؟؟؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔ دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسرں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن مجید پڑھا اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس کے لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو یہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسےمنہ لے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔۔۔۔۔الخ
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:امارت اور خلافت کا بیان :جو ریاکاری اور نمود نمائش کے لئے لڑتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہوتا ہے ۔
ایک اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا گیا لیکن میں نے اسے خود نہیں سنا کہ تم میں ایک قوم ایسی آئے گی جو عبادت کرے گی اور دینداری پر ہوگی، حتیٰ کہ لوگ ان کی کثرت عبادت پر تعجب کیا کریں گے اور وہ خود بھی خودپسندی میں مبتلاء ہوں گے، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
مسند احمد:جلد پنجم:باب:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی مرویات
ان واضح احکامات کے ہوتے ایک مسلم کبھی بھی خودپسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے سامنے کسی کو تعریف کرنے کی اجازت دینی چاہیے، مگر افسوس کہ اہلِ علم طبقہ بھی اس مرض کا شکار ہوچکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جس بندے نے اللہ کی رضا کے لیئے دین کا علم حاصل کیا ہوگا وہ ایسی حرکت کسی کو بھی کرنے نہیں دے گا اور جس نے علم حاصل ہی اس لیئے کیا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اس کو القابات سے نوازیں وہ بلا کیونکر لوگوں کو منع کرئے گا۔
اب دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر کیسا عمل تھا؟
ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان کے منہ پر تعریف کرنا شروع کردی۔ تو مقداد بن الاسود نے ایک مٹھی مٹی اٹھائی اور اس کے چہرے پر پھینک دی اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم منہ پر تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دیا کرو۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:ادب کا بیان :چاپلوسی وخوشامد کی برائی کا بیان
اور آج ہم کیا کررہے ہیں؟کیا آج تک مَیں نے آپ نے اس حکمِ
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کیا ہے؟اگر اتنی ہمت نہیں کہ مٹی منہ پر پھینک سکیں تو کم از کم کسی کو منہ پر تعریف ہی کرنے سےہی روک دیا کریں میرے خیال سے اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہوگی۔
اب تعریف کرنے کا مسنون طریقہ بھی
آپ بھائی لوگ نوٹ فرما لیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ وَيْحَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ قَطَعْتَ
عُنُقَ صَاحِبِکَ مِرَارًا إِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ وَلَا أُزَکِّي عَلَی اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ إِنْ کَانَ يَعْلَمُ ذَاکَ کَذَا وَکَذَا
حضرت عبدالرحمن بن بکرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی دوسرے آدمی کی تعریف بیان کی تو آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دہرایا کہ جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کی تعریف ہی کرنا چاہئے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسے کہے میرا گمان ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور میں اس کے دل کا حال نہیں جانتا انجام کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب: زہد و تقوی کا بیان :کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو ۔
اس حدیث میں بھی اس بات کا خدشہ پیش کیا کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی یعنی تو نے اپنے بھائی کو ہلاک کردیا یہ الفاظ چھوٹے نہیں ہیں جو ان کو اگنور کردیا جائے بلکہ ہمارے پیارے رسولﷺکے ہر حکم میں ہزاروں دانائیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اور اس میں ایک یہ دانائی کی بات بھی ہے کہ کہیں وہ بندہ غرور و تکبر کا شکار نہ ہوجائے۔اور اس حکمِ رسولﷺ سے بات بالکل واضح ہوئی کہ اگر تعریف کرنی ہے تو پہلے وہ کہے کہ میرا گمان ہے اور اصل حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ ایسے ایسے ہے یعنی اس میں فلاں فلاں اچھائی ہے۔
اسلام میں خودپسندی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اس کی جہاں ممانعت بھی وارد ہوئی
ہے وہاں ہی کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ کہیں شیطان اس
بندے کو مغرور، متکبر نہ بنادے، اسلام ایک انسان کی ہر معاملے میں بہترین رہنمائی
کرنے والا دین ہے اسلام نہیں چاہتا کہ ایک انسان اپنی حدود کو پار کرئے کہ جس کی
وجہ سے اس کی زندگی میں خرابی آئے،اسلام نے ہر معاملے میں بہترین رہنمائے اصول دیئے
ہیں اگر ان اصولوں کو فراموش کرکے ان کے خلاف اقدام کیئے جائیں تو معاشرے میں بگاڑ
پیدا ہوجاتا ہے جو آخر کسی بڑے فتنے کا سبب بن جاتا ہے اور انہی اصولوں میں سے ایک
اصول ہے کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باھندنا کہ جس کی وجہ سے وہ بندہ
ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دینا ہے اور جس انسان میں
تکبر آگیا تو سمجھ لو کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔
ابلیس ::شیطان::بھی اسی تکبر کی وجہ
سے برباد ہوا تھا، تکبر اللہ کو بہت ناپسند عمل ہے اس لیئے اسلام نے اس تکبر کو ایک
انسان کے اندر آنے کے رستے بند کرنے کی طرف توجہ دی ہے جیسا کہ ایک حدیث شریف میں
نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا غندر عن شعبة عن سعد بن
إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف عن معبد الجهني عن معاوية قال سمعت رسول الله صلی
الله عليه وسلم يقول إياکم والتمادح فإنه الذبح
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو یہ ارشاد فرماتے سنا ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ
توذبح کرنے کے مترادف ہے۔سنن ابن ماجہ:جلد سوم:باب:آداب کا بیان۔ :خوشامد کا بیان
۔اس فرمانِ رسولﷺ سے واضح ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اس کی
تعریف کرنا اس کو ذبح یعنی ہلاک کرنے کے مترادف ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ وہ شخص
خودپسندی اور تکبر کا شکار ہوجائے اور شیطان کی طرح گمراہ ہوجائے۔
اسی طرح کی ایک حدیث مسند احمد میں بھی ہے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہت کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے، البتہ یہ کلمات اکثر جگہوں پر نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کرتے تھے کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔ منہ پر تعریف کرنے سے بچو
کیونکہ یہ اس شخص کو ذبح کر دینا ہے۔مسند احمد:جلد ہفتم:باب: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مرویات
اس ارشاد رسولﷺ کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے معاشرے میں کچھ
عجیب سی حرکات ہورہی ہیں اگر کوئی دین کے علم سے نابلد انسان ایسی حرکت کرئے تو
دُکھ نہیں ہوتا کہ وہ جاہل ہے مگر افسوس کہ ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس مرض کے
شکار ہوچکے ہیں کہ جب وہ کسی فورم پر تشریف فرما ہوتے ہیں تو ان کے سامنے ان کی خوب
تعریف کی جاتی ہے اور وہ صاحب اُس تعریف کرنے والے کو منع بھی نہیں کرتے کہ بھائی
منہ پر تعریف نہ کرو اس سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے اور اس مرض میں سیاسی
اور مذہبی سبھی طرح کے لیڈران شامل ہیں، میں سبھی پر اس کا اطلاق نہیں کرتا مگر
اکثریت اس کا شکار ہوچکی ہے، مثلاً جب کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ ہوتا ہے تو وہاں پر
موجود امیدوار برائے پارلیمنٹ کے سامنے اس کی خوب تعریف کی جاتی ہے اور اس کے نام
وہ وہ کام لگائے جاتے ہیں جو اس نے کیئے بھی نہیں ہوتے ہیں اور وہ صاحب اس خوشامدی
پر پھولے نہیں سماتے چلو یہ لوگ تو دین کے علم سے بےبہرہ ہیں ان کو ان احادیث کا
علم نہیں ہوگا::ویسے یہ احادیث پرائمری کے نصاب میں شامل ہیں مگر افسوس کہ
ہمارے اکثر حکمران جاہل اور ان پڑھ ہیں جعلی ڈگڑیاں لے کر ہم پر مسلط ہو جاتے
ہیں:: مگر دوسری طرف مذہبی رہنماء بھی کم نہیں ہیں ان کے سامنے ان کو ایسے ایسے خطاب سے نوازہ جاتا ہے
کہ جو خطاب کسی صحابی رسولﷺ کے نام کے ساتھ بھی نہیں لگاتے ان کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں
مولانا، رہبر ملت، رہبر طریقت، رہبر معرفت، شیخ المشائح، مفکر
اسلام، سند المفسرین، فیض ملت، ملک التحریر، امام المناظرین، شمس المصنفین، عمدۃ
المفسرین، استاد العرب و العجم، غواث بحر حقائق، محدث وقت، ریئس التحریر، ولی نعمت،
عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت، مجدد دین و ملت، عالم شریعت، پیر
طریقت، حامی سنت، ماحی بدعت، باعث خیر و برکت، امام عشق و محبت، حضرت شیخ الفضیلت،
آفتاب رضویت، ضیاء ملت، مقتدائے اہلسنت، شیخ العرب والعجم اورقطب مدینہ۔
یہ صرف ایک مثال کے طور پر ہیں ورنہ اس سے بھی بڑے بڑے القابات سے نوازہ جاتا ہے مگر مجال ہے کہ وہ صاحب جن کو یہ القاب نوازے جارہے ہوں وہ ان لوگوں کو منع کریں کہ بھائی آپ کیوں میرے منہ پر میری تعریف کیئے جا رہے ہو؟ اس سے میرے پیارے رسولﷺ سے منع کیا ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ان حضرات کے سامنے سے یہ حدیث بھی نہیں
گزری؟؟؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔ دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسرں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن مجید پڑھا اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس کے لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو یہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسےمنہ لے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔۔۔۔۔الخ
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:امارت اور خلافت کا بیان :جو ریاکاری اور نمود نمائش کے لئے لڑتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہوتا ہے ۔
ایک اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا گیا لیکن میں نے اسے خود نہیں سنا کہ تم میں ایک قوم ایسی آئے گی جو عبادت کرے گی اور دینداری پر ہوگی، حتیٰ کہ لوگ ان کی کثرت عبادت پر تعجب کیا کریں گے اور وہ خود بھی خودپسندی میں مبتلاء ہوں گے، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
مسند احمد:جلد پنجم:باب:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی مرویات
ان واضح احکامات کے ہوتے ایک مسلم کبھی بھی خودپسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے سامنے کسی کو تعریف کرنے کی اجازت دینی چاہیے، مگر افسوس کہ اہلِ علم طبقہ بھی اس مرض کا شکار ہوچکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جس بندے نے اللہ کی رضا کے لیئے دین کا علم حاصل کیا ہوگا وہ ایسی حرکت کسی کو بھی کرنے نہیں دے گا اور جس نے علم حاصل ہی اس لیئے کیا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اس کو القابات سے نوازیں وہ بلا کیونکر لوگوں کو منع کرئے گا۔
اب دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر کیسا عمل تھا؟
ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان کے منہ پر تعریف کرنا شروع کردی۔ تو مقداد بن الاسود نے ایک مٹھی مٹی اٹھائی اور اس کے چہرے پر پھینک دی اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم منہ پر تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دیا کرو۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:ادب کا بیان :چاپلوسی وخوشامد کی برائی کا بیان
اور آج ہم کیا کررہے ہیں؟کیا آج تک مَیں نے آپ نے اس حکمِ
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کیا ہے؟اگر اتنی ہمت نہیں کہ مٹی منہ پر پھینک سکیں تو کم از کم کسی کو منہ پر تعریف ہی کرنے سےہی روک دیا کریں میرے خیال سے اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہوگی۔
اب تعریف کرنے کا مسنون طریقہ بھی
آپ بھائی لوگ نوٹ فرما لیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ وَيْحَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ قَطَعْتَ
عُنُقَ صَاحِبِکَ مِرَارًا إِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ وَلَا أُزَکِّي عَلَی اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ إِنْ کَانَ يَعْلَمُ ذَاکَ کَذَا وَکَذَا
حضرت عبدالرحمن بن بکرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی دوسرے آدمی کی تعریف بیان کی تو آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دہرایا کہ جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کی تعریف ہی کرنا چاہئے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسے کہے میرا گمان ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور میں اس کے دل کا حال نہیں جانتا انجام کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب: زہد و تقوی کا بیان :کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو ۔
اس حدیث میں بھی اس بات کا خدشہ پیش کیا کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی یعنی تو نے اپنے بھائی کو ہلاک کردیا یہ الفاظ چھوٹے نہیں ہیں جو ان کو اگنور کردیا جائے بلکہ ہمارے پیارے رسولﷺکے ہر حکم میں ہزاروں دانائیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اور اس میں ایک یہ دانائی کی بات بھی ہے کہ کہیں وہ بندہ غرور و تکبر کا شکار نہ ہوجائے۔اور اس حکمِ رسولﷺ سے بات بالکل واضح ہوئی کہ اگر تعریف کرنی ہے تو پہلے وہ کہے کہ میرا گمان ہے اور اصل حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ ایسے ایسے ہے یعنی اس میں فلاں فلاں اچھائی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایک کامل مسلم بنائے جو ہر معاملے
میں قرآن و سنت کا پابند ہو آمین ثم آمین یارب
العاملین۔
میں قرآن و سنت کا پابند ہو آمین ثم آمین یارب
العاملین۔