سعودی مفتی اعظم کا فتویٰ
نبی کریم ﷺ کو اللہ رب العزت نے رحمت اللعالمین قرار دیتے ہوئے تمام انسانوں کا امام بنایا، چنانچہ آپ ﷺ کی آمد کے بعد وہ معاشرہ جو جہالت، جبر اور وحشت کا شکار تھا اُسے علم، مساوات اور قرار نصیب ہوا، آپ ﷺ کے قول و عمل سے یہ ثابت ہوا کہ بلاشبہ آپ سراپا رحمت اور راہ برِ انسانیت ہیں۔ تبلیغ ہو یا جہاد، آپ ﷺ کا ہر عمل انسانیت کیلئے فلاح کا سبب بنا، قرآن عظیم نے یہ کہہ کر کہ آپ ﷺ کی زندگی میں ہی بہترین نمونہ عمل ہے، درحقیقت ایک عملی چارٹر کو متعارف و متعین کر دیا۔ جب تک اس چارٹر کے مطابق زندگی گزارنے کی سعی کی جاتی رہی، اُمت سُرخ رو اور قابل تقلید ٹھہری، جوں جوں راہ ہدایت کے برعکس دیگر راستوں کی جستجو سماتی گئی انحطاط اُمت کے وجود سے نفاست کو مٹائی چلی گئی، بالاخر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ حضرت اقبال کو روحِ محمد ﷺ کے حضور بے بسی کے آنسو نذرانے کرنا پڑے۔
شیرازہ ہوا ملّتِ مرحوم کا ابتر!
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے!
آج ہمارا جو حال ہے اس میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا کمال ہے۔ غیر نے محض یہ سوچا کہ خالص میں ملاوٹ کس طرح کی جائے، اپنوں نے یہ کارنامہ غیروں کیلئے سر کر کے دکھا دیا۔ یہاں تک کہ جہاد کو بھی خالص رہنے نہیں دیا ۔ وہ جہاد جس نے دنیائے عرب و عجم کو امن عطا کیا تھا بہروپیوں نے اُسے فساد بنا ڈالا ؟ فلسطین اور اس حوالے سے فتویٰ فروشوں کے بعض "کارناموں" سے متعلق راقم کے گزشتہ تین کالموں پر بعض قابلِ احترام اصحاب نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ علمائے حق کو چاہئے کہ وہ بہروپیوں کو بے نقاب کرنے کیلئے منصب و منبر کو بروئے کار لائیں، بلاشبہ وقت کا تقاضا یہی ہے...
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو اغیار نے سامنے آکر کبھی شکست نہ دی بلکہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہی وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے۔ ہر ایک نے ملت جتنا کو ممکن تھا نقصان پہنچایا۔
اس حوالے سے سعودی مفتی اعظم کا حالیہ فتویٰ جہاں ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، وہاں اس سے ان مجاہدین کی بھی رہنمائی ہو سکے گی جو اپنے جذبے میں اگرچہ صادق ہیں لیکن باطل کے آلہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔ سعودی عرب پوری اُمتِ مسلمہ کا مرکز و محور ہے لیکن خاص کر جو تنظیمیں قرآن و حدیث کا ہی ذکر کرتی ہیں ان کیلئے اس فتوے میں لاثانی درس پنہاں ہے۔ 20 اگست کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق "سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے القاعدہ اور دولت اسلامیہ نامی تنظیموں کو اسلام کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے، سعودی شیخ الاسلام کا کہنا ہے کہ : "شدت پسندانہ افکار و خیالات اور دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور اس کی حمایت کرنے والے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔"
دہشت گردی کا پہلا شکار مسلمان ہی بنتے ہیں جس کی مثالیں ان سے منسلک گروپوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے دیکھی جا سکتی ہیں یہ جنگجو اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ سعودی مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں اسلامی ممالک کو شدت پسند کمزور کر رہے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کفر کے بعد مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنا سب سے بڑا گناہ ہے ، داعش اور القاعدہ جیسے خوارج گروپوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نبی آخر الزمان ﷺ نے فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں کچھ ایسے گروہ تواتر کے ساتھ سامنے آئیں گےجو نیکی کی بات کریں گے، قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، آپ انہیں جہاں پائیں قتل کریں، جس کسی نے بھی انہیں قتل کیا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے اس کی جزا دینگے۔ "سعودی مفتی اعظم کی علمی بصارت و بصیرت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے ۔
شدت پسندوں نے مذہب کے مقدس نام پر مسلمانوں کو تقسیم کر دیا ہے ۔ اس تناظر میں پاکستان بھی متاثرہ ممالک میں شامل ہے ۔ اب چونکہ پوری دنیا میں ان نام نہاد جہادی تنظیموں کے اصل عزائم کھل کر سامنے آ گئے ہیں تو عوام و ریاستیں بھی ان کیخلاف عملی اقدامات اٹھا رہی ہیں، اس حوالے سے پاکستان میں بھی مثبت رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں، ریاست جہاں عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے تندہی سے روبہ عمل ہے تو عوام میں بھی شعور و آگہی کی شمعیں فروزاں ہونے کو ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک ایسا ایس ایم ایس تواتر سے گردش میں ہے جو پاکستانی عوام کے ادراک و شعوری جستجو کا آئینہ دار ہے ،ایس ایم ایس میں کہا گیا ہے کہ عراق میں داعش، شام میں النصرت، افغانستان میں افغان طالبان، صومالیہ میں الشباب، نائیجریا میں بوکو حرام اور متعدد اسلامی ممالک میں القاعدہ جیسی
خود ساختہ جہادی تنظیمیں مسلمانوں کو ہی قتل کر رہی ہیں جبکہ ان میں سے کوئی بھی تنظیم نہ تو فلسطین جا کر لڑنا چاہتی ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی نے اسرائیل کیخلاف اعلان جہاد کر رکھا ہے، ایسا کیوں ہے !؟
اس سوال کا جواب اگرچہ سیدھا سادہ ہے لیکن یہ اپنے پہلو میں جو وسعت پذیری لئے ہوئے ہے اس کی گہرائی و گیرائی پر توجہ کی ضرورت ہے اور اسی سے نفسِ مضمون کی تفہیم تک رسائی ممکن ہے۔ مثلاً اس کا آسان جواب یہ ہو سکتا ہے کہ
امریکہ، یہود و ہنود نے مسلمان ممالک کو کمزور کرنے، وسائل لوٹنے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کیلئے ایسی تنظیموں کا اہتمام کر رکھا ہے !!
لیکن اس جواب میں پنہاں ایک کیوں !!
یعنی پھر یہ تنظیمیں مسلمانوں میں "کیوں" اتنی مقبول بلکہ اس حد تک با اختیار ہو جاتی ہیں کہ وہ جو چاہتی ہیں کر گزرتی ہیں !!
اس "کیوں" کا جواب ہی چونکہ دراصل "روپ، بہروپ" سے متعلق ہے لہٰذا اسے سمجھنے کیلئے غور و فکر مطلوب ہے۔
با الفاظ دیگر ایسا ناممکن ہے کہ ریاست کے اندر سے کمک ملے بغیر کوئی خارجی کسی ریاست میں اپنے عزائم کی فتح کا پرچم بلند کر سکے!!
ایسا کھلی جنگ میں تو طاقت کے بل بوتے پر ہوتا رہا ہے لیکن " پراکسی وار" میں گھر کے بھیدی کے تعاون کے بغیر در تو کیا کسی دریچے کا بھی وا ہونا محال ہے !!
پشتو میں کہاوت ہے کہ "
پیاری امی سچ کہوں گا تو پھر مار ہی پڑے گی"۔
سچ آسان اور سیدھا سادہ ہوتا ہے، لیکن پیارے وطن میں سچ کون بولے گا!!؟
یہ جو سعودی مفتی اعظم نے القاعدہ کو اسلام کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے تو اسلام کے اس دشمن کو اسلام کے اس قلعے پاکستان میں کون لایا !!؟
وہ کون تھے جنہوں نے 2002ء کے انتخابات میں اسامہ بن لادن کی قد آور تصاویر اٹھا کر پختونخوا حکومت پر قبضہ جمایا اور پھر جنرل پرویز مشرف کو 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملک کا بلا شرکت غیرے وارث بنوایا!!؟
خیر ہم یہاں یوں گنجائش نکال سکتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ بعد ازاں اسامہ صاحب کے حامیوں نے رجوع کر لیا تھا کیوں کہ بن لادن کی موت پر کسی کا ایک انٓسو بھی نہ ٹپکا تھا!!
خیر ہم تو طالب علم ہیں اور طالب علم بھی ایسے کج فہم کہ اب تک "کیوں" کا جواب تلاش نہیں کر پائے ہیں۔ جو طالب علم کچھ نہیں جانتے وہ جواب ادھورا چھوڑ جاتے ہیں، ہم بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ...
البتہ جستجو جاری ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں ہم حافظ سعید صاحب سے رہنمائی کے طلب گار ہیں۔ اس پر اگر کچھ ارشاد فرمائیں تو ممکن ہے اہل ِوطن کا بھلا ہو جائے..
اجمل خٹک کشر: پیر 28 شوال 1435هـ - 25 اگست 2014م