مہوش علی خود تو روایات نہیں مانتی جو بقول ان کے ضعیف ہوں مگر ہماری صیح روایات کے مقابلے میں ضعیف روایات پیش کرتی ہے یہ کیسی دو رخی ہے؟؟؟
مہوش علی کا دعوی کہ سعودی مفتی حضرات نامکمل روایت بیان کرتے ہیں
بخاری اور مسلم کی متفق علیہ روایات جو کئی طرق سے مروی ہے اس کے مقابلے میں ضعیف روایات پیش کرتے تمہیں شرم تو نہیں آئی ہو گی؟؟؟؟
----------
سب سے پہلے تو اللہ تعالی آپ کو غلیظ زبان اور "لفظی چھترول" کی بیماری سے نجات دلائے تاکہ آپ انسانوں کی طرح بات کر سکیں۔ امین۔
کیا سند درست نہ ہونے سے پوری روایت غلط ہو جاتی ہے؟
کچھ تو عقل کے ناخن لیں۔ اور روایت میں ایک راوی ضعیف نکل آئے تو کی اندھوں کی طرح پوری روایت کو ہی ردی کی ٹوکری میں دے مارو؟
اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ حجر اسود صرف پتھر نہیں۔
یہ چیز ہرگز درست نہیں کہ حجر اسود کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
حجر اسود کو چومنا رسول (ص) کی سنت کے ساتھ ساتھ نفع کا باعث ہے جس کہ رسول (ص) نے خود بیان فرمایا ہے۔
1) امام حاکم والی روایت میں علی بیان کر رہے ہیں:
۔۔۔ میں (علی ابن ابی طالب ) نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے
:”اس کالے پتھر کو قیامت کے روز لایا جائے گا، اور اس کو زبان عطا کی جائے گی جو کہ اُن لوگوں کی شہادت دے گی جو توحید پر قائم تھے اور اپنے فرائض انجام بجا لاتے تھے۔" چنانچہ یہ پتھر نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی۔" یہ سن کر حضرت عمر نے کہا۔ "اعوذ باللہ کہ مجھے لوگوں میں ایسے رہنا پڑے کہ جن میں اے ابوالحسن (علی) آپ نہ موجود ہوں۔
2) اب آنکھیں کھول کر پڑھیے کہ یہی قیامت کے روز حجر اسود کے اس نفع پہنچانے والی بات کی گواہی ابن عباس بھی دے رہے ہیں:
قتیبہ نے جریر سے، اُس نے ابن خثیم سے، اُس نے سعید بن جبیر سے، اُس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول ﷺ نے حجر الاسود کے متعلق فرمایا:
حجر اسود کو اللہ جل شانہ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) ۔ابو عیسی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے
ابن عباس کی یہ گواہی آرٹیکل میں ساتھ درج کر دی گئی تھی۔ مگر افسوس کہ آپ نے پھر کوئی عقل نہ پکڑی، اور پھر سند کے نام پر پوری روایت کی ٹانگ کھینچنا شروع کر دی۔
3) اور پھر حجر اسود کے اس نفع کے حوالے سے دیڑھ درجن روایات اور درج کر دی گئیں اور کئی سو احادیث کی طرف مزید اشارہ کیا گیا جو اس اصول کی گواہی دے رہی ہیں کہ جو چیز بھی انبیاء اللہ سے مس ہو جائے، وہ متبرک بن جاتی ہے۔
عام چیزوں، عام پتھروں میں کوئی نفع و نقصان نہیں ہوتا۔ انکی تذلیل کرو، انہیں گندی نالی میں پھینکو یا پھر انہیں سر پر اٹھا کر رکھو، انہیں چومو۔۔۔ نہ تمہیں کوئی نقصان ہو گا، نہ کوئی نفع ہو گا۔۔۔۔۔
مگر عقل سے کام لیجئے کہ وہ چیزیں جو رسول (ص) سے مس ہو گئیں، کیا ان کے متعلق بھی آپ یہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا کبھی سوچ بھی سکتے ہیں کہ حجر اسود عام پتھر ہے جس کی معاذ اللہ تذلیل بھی کر لی جائے تو کوئی نقصان ہیں پہنچے گا؟ حجر اسود ہی کیا، جو چیز بھی رسول (ص) سے مس ہو جائے، کیا آپ کبھی اسکی تذلیل کا سوچ سکتے ہیں؟
انبیاء جس چیز کو مس کر لیں، وہ متبرک۔ اور حجر اسود کا مقام تو یہ ہے کہ اس کو تو بے تحاشہ انبیاء نے بے تحاشہ مرتبہ چوما۔ یہ سراسر غلطی ہے کہ آپ پھر بھی ہٹ دھرمی کے ساتھ حجر اسود کو عام پتھر کہتے رہیں، اس میں کسی بھی خیر کا انکار کرتے رہیں، اس میں کسی نفع کا انکار کرتے رہیں۔
4) ایک اور گواہی کہ حجر اسود عام پتھر نہیں، بلکہ یہ نفع پہنچاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ان دونوں پتھروں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ (سنن ترمذی)
آپ کب تک ان تبرکاتِ نبوی اور حجر اسود میں خیر اور نفع کا انکار کرتے رہیں گے؟
علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی پر کیا فتویٰ لگاو گی، ظاہر پرستی یا ناصبیت کا؟؟؟
حالانکہ بریلوی تو آدھا شیعہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت تو مان لو وہ تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے والد کے ساتھ تو آپ کو چڑ ہے کہ ان کی روایت نہیں ماننی
یہ کرفرمائی صرف سعودی مفتی حضرات کے ساتھ ہی کیوں ؟ بریلوی عالم پر کیوں نہیں؟؟؟؟
جو روایات تمہارے کرتوتوں کو ظاہر کرتی ہیں ان کو تو تم نہیں مانتی اور ہماری صیح روایات کو بھی تسلیم نہیں کرتی، آخر اتنی منافقت کیوں؟؟؟؟
چلو شاباش، فتویٰ لگاو بریلوی عالم پر کہ یہ ظاہر پرست ہے اور گستاخ ہے ا
مہوش علی، اب تمہاری جی بھر کر میں نے ' لفظی چھترول' کرنی ہے ہمت ہے تو جواب دو۔ ۔ ۔۔ ۔
تم بھی کہو، میں بھی کہتا ہوں
جھوٹوں پر اللہ کی لعنت، جو مستحق ہو گا اسے ضرور پہنچے گی، ان شاء اللہ!
ذرا اپنے بہانے اور پھر بہتان تراشیاں دیکھیں۔ پہلے بریلوی حضرات کو شیعہ بنا دیا، اور پھر انکے لکھے کو ہم پر بطور حجت پیش کر دیا۔
اگر آپ کو بریلوی حضرات سے کوئی مسئلہ ہے تو جا کر ان سے براہ راست بات کیجئے، مگر براہ مہربانی ایسے بہانوں اور الزامات سے پرہیز کیجئے۔
قرآنی حکم کے مطابق موضوع پر فقط دلیل فراہم کرنی ہے۔ اس دلیل سے جو بھی ٹکرائے گا، وہ سمجھ لے کہ وہ غلطی پر ہے اور اسے اپنی اصلاح کرنی ہے۔
مگر آپ کی تو کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ دلیل کی بجائے آپ کو "لفظی چھترول" کی بیماری ہو گئی ہے۔ اسی بیماری کے زیر اثر آپ دلیل چھوڑ کر ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔
موضوع پر پلٹتے ہوئے۔
کیا رکن یمانی کو چومنا بدعت و شرک ہے؟
1) یہ ایک بنیادی اصول تواتر کے ساتھ سینکڑوں احادیث سے ثابت ہے کہ جو چیز بھی اللہ کے انبیاء اور دیگر شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ عام چیز نہیں رہتی، بلکہ اس میں اللہ کے اذن سے نفع پہنچانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔
2) دوسری بات یہ ہے کہ "عدم ذکر" کا مطلب "ذکر عدم" نہیں ہوتا۔
تبرکات نبوی سے برکت حاصل کرنے کے بہت سے افعال ہیں جو رسول اللہ (ص) نے براہ راست نہیں کیے، مگر صحابہ کرام نے رسول (ص) کی وفات کے بعد کیے کیونکہ انہیں علم تھا کہ تبرکات نبوی میں برکت و شفا و نفع ہے اور ان سے برکت حاصل کرنے کی عام اجازت ہے، چاہے رسول (ص) نے بذات خود اس تبرک سے برکت حاصل کرنے کا حکم دیا ہو یا نہ دیا ہو۔
اگر رسول اللہ (ص) نے رکن یمنی کو نہیں چوما، تو اسکا مطلب یہ کہاں سے نکل آیا کہ رکن یمنی کو چومنا بدعت اور شرک بن گیا؟
کیا رسول اللہ (ص) کی کوئی حدیث ہے جس میں آپ نے "منع" فرمایا ہو کہ رکن یمنی کو نہیں چومنا جا سکتا؟
رسول اللہ (ص) حج کے لیے ہر عبادتی عمل کی مقدار بتلا کر اسے معین کر رہے تھے۔ اس لیے حج کے اراکین میں حجر اسود کو چومنا، اور رکن یمنی کو مس کرنا ہے۔مگر اسکا مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کوئی رکن یمنی کو برکت کے لیے چوم لے تو یہ بدعت ہو گئی۔ صحابہ کا متواتر عمل اس پر ہے کہ وہ تبرکات نبوی کو چومتے تھے، چاہے اسکا حکم رسول (ص) نے دیا ہو یا نہ دیا ہو۔
اس بات کی شہادت اس بذات خود اس روایت میں ملتی ہے جہاں معاویہ ابن ابی سفیان طواف کے دوران رکن یمنی کو چوم رہے ہیں۔ اور ابن عباس (جن کا آپ اوپر بار بار تذکرہ کر رہے ہیں) بھی ساتھ میں ہیں۔ روایت یہ ہے:
محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان، معمر، ابن خیثم، حضرت ابو طفیل سے روایت ہے کہ ہم ابن عباس اور معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ طواف کر رہے تھے۔
معاویہ جس رکن سے گذرتے، اسے چوم لیتے۔ اس پر ابن عباس نے کہا کہ
نبی اکرم (ص) نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی چیز کو بوسہ نہیں دیا تھا۔
اس پر معاویہ ابن ابی سفیان نے جواب دیا کہ بیت اللہ میں کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے۔
امام ابو عیسی ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (جامع ترمذی)
تو اب آپ میں ہمت ہے تو لگائیے "توفیقی" اور بدعت و شرک کا فتوی معاویہ ابن ابی سفیان پر۔ اور ابن عباس نے سنت رسول تو بیان کی، مگر جب معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ بیت اللہ کی کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے، تو اس پر ابن عباس نے بدعت و شرک کا کوئی فتویٰ نہیں لگایا اور نہ ہی معاویہ ابن ابی سفیان کو زبردست روکا جو بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ابن عباس بھی معاویہ ابن ابی سفیان سے متفق ہوئے کہ اگرچہ کہ سنت رسول فقط رکن یمنی کو مس کرنے کی ہے، لیکن اگر کوئی مزید حصول برکت کے لیے رکن یمانی کو چوم بھی لے تو یہ حلال فعل ہے۔
اور رکن یمانی ہی کیا، معاویہ ابن ابی سفیان نے تو کھل کر کہا ہے کہ بیت اللہ کی کوئی چیز بھی نہیں چھوڑنی چاہیے جس میں کعبہ کی دیواروں کو مس کرنا اور چومنا بھی شامل ہے اور ابن عباس نے اس پر بھی سکوت کیا جو گواہی ہے کہ وہ معاویہ ابن ابی سفیان کی اس بات سے متفق ہوئے، وگرنہ وہ اسے آپکی طرح بدعت اور شرک کے نام پر لازماً روکتے۔
تو بتلائیے کہ کس بنیاد پر معاویہ ابن ابی سفیان نے اپنا یہ عقیدہ بیان کیا کہ سنتِ نبوی تو فقط مس کرنے کی ہے، مگر مزید برکت کے حصول کے لیے چوم بھی لیا جائے تو اسکا ثواب ہے؟ کیا یہ وہی عقیدہ نہیں کہ شعائر اللہ اور تبرکات میں "عام" برکت ہے اور اسکے حصول کے لیے عام اجازت ہے کہ ان کی تعظیم کرتے ہوئے انہیں چوما جا سکتا ہے؟