• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش خلافت: بدعت و شرک کے نام پر خانہ کعبہ، مسجد النبوی، مسجد الحرام اور ہر متبرک جگہ کی تباہی

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18

بلی تھیلے سے باہر آ گئی، مہوش علی گستاخ امہات المومنین ہے

جیسا کہ میں قارئین کو بتا چکا ہوں کہ مہوش (گستاخ صحابہ) ایک رافضی ویب سائٹ آنسرنگ انصار کے لیے کام کرتی تھی اب وہ سائٹ ڈاون ہے لیکن اس کا کچھ مواد ایک ویب سائٹ Shia pen پر موجود ہے۔ اب میں اصل بات کی طرف آتا ہوں

مہوش علی نے اشارہ کیا ہے ۔ ۔۔ جناب عائشہ ہی کافی ہیں جب انہوں نے دین کے ان معاملات ۔۔ ۔۔ جو کہ غسل وغیرہ کے متعلق۔۔۔۔"

آئیے آپ کو پڑھواتا ہوں کہ یہ between the lines کہنا کیا چاہتی ہے ۔۔۔۔




دیکھا آپ نے میں کیوں اس وفا نامی خاتون کے خلاف ہوں کیوں کہ یہ امی جان عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے بغض رکھتی ہے ان کے والد سے بغض رکھتی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھتی ہے اور دوسرے صحابہ سے بغض رکھتی ہے
شرم تو آپکو پھر نہیں آئی۔۔۔
جس کام کے لیے آپ اس ویب سائیٹ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، وہی کام تو آپ میرے معاملے میں کر رہے ہیں کہ دین کے مسائل پر بات کرنے پر کردار کشی شروع کر دی۔
کیا یہی آپ کہہ کر آپ جناب عائشہ کا دفاع نہیں کر رہے ہوتے کہ وہ دین کے مسئلے کو بیان کر رہی تھیں اور اس میں کوئی بے حیائی نہیں؟
اپنے گریبان میں جھانکیں اور اس میں موجود غلاظت کو بھی دیکھیے، پھر دوسروں پر انگلی اٹھائیں۔
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
شرم تو آپکو پھر نہیں آئی۔۔۔
جس کام کے لیے آپ اس ویب سائیٹ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، وہی کام تو آپ میرے معاملے میں کر رہے ہیں کہ دین کے مسائل پر بات کرنے پر کردار کشی شروع کر دی۔
کیا یہی آپ کہہ کر آپ جناب عائشہ کا دفاع نہیں کر رہے ہوتے کہ وہ دین کے مسئلے کو بیان کر رہی تھیں اور اس میں کوئی بے حیائی نہیں؟
اپنے گریبان میں جھانکیں اور اس میں موجود غلاظت کو بھی دیکھیے، پھر دوسروں پر انگلی اٹھائیں۔
اگر ہمت ہے تو کہو کہ تمہارا عقیدہ اس شیعہ ویب سائٹ والا نہیں ہے ؟؟؟؟

دوسری بات ایک اور پوسٹ بھی میں نے کی تھی اس کا بھی جواب دو کیا بریلوی مولوی بھی ظاہر پرست ہے ؟؟؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آپ خامخواہ میں بحث کو الجھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہی ان چیزوں میں برکت رکھی ہے اور ہم انکے وسیلے سے یہی برکت طلب کر رہے ہوتے ہیں جو شفا و نفع کی صورت میں ہوتی ہے۔
جناب عائشہ نے جبے سے مس شدہ پانی کو بیماری سے شفا کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ ایسا کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا گیا۔ مگر سب کو علم ہے کہ "نیت" یہی ہے کہ یہ پانی نہیں بلکہ اللہ ہی اسکے وسیلے سے شفا عطا کر رہا ہے۔
رسول (ص) نے فرمایا تھا: اعمال کا دارومدار "نیت" پر ہے۔
مگر سلفی حضرات عقیدہ بنا کر آ گئے ہیں: اعمال کا دارومدار انکے "ظاہر" پر ہے۔
صرف ’’ نیت ‘‘ سے کام نہیں چلے گا ، حکم لگانے کے لیے ظاہر دیکھا جاتا ہے ۔ جاکر قبر پر سجدے کریں اور کہیں کہ جناب ہماری نیت ٹھیک ہے ۔ تو ظاہر ہے اس کی اس مزعومہ نیت کی کوئی حیثیت نہیں یہاں ۔
آپکے دعوی بغیر دلیل کے ہیں اور فقط بہتان تراشی پر مبنی ہیں۔
جبکہ اوپر مکمل دلیل پیش ہو چکی ہے کہ آپ حضرات کافر کے متعلق برکت والی روایت کو لے کر مسلمانوں کے لیے برکت کا انکار کر رہے ہیں۔ اور جب رسول اللہ (ص) اور مسلمانوں کے برکت والے واقعات پیش کیے گئے تو انہیں حسب عادت نظر انداز کر کے سوئی ابھی تک کافر والی روایت پر اٹکی ہوئی ہے۔
یہ خرابی آپ کے بیان کردہ اصول کے اندر تھی جس کا اعتراف کرنے کی بجائے آپ دوسروں سے شکوے کررہی ہیں ۔ اس غلطی کا اعتراف کریں اور اصول نئے سرے سے لکھیں کہ جس میں کافر شامل نہ ہوں ۔
جی ہاں عالم تو فقط آپ ہی ہیں۔ باقی سب تو جاہل ہیں۔ اور یہاں آپ کا مقصد موضوع کے ساتھ انصاف کرنا نہیں ہے، بلکہ فقط دوسرے فریق کو ایک طریقے یا دوسرے طریقے نیچے گرانا ہے، اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ اسکی ذات کو نشانہ بناؤ، اسے جاہل ثابت کر دو۔
بہن جی اگر کوئی آپ کوجاہل ثابت کرنا چاہ رہا ہے تو اس کو اس مقصد میں کامیاب ہونے کاموقع فراہم نہ کریں ۔
حالانکہ طریقہ یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہو رہی ہے تو اس بات کو کلیئر کر دیا جائے۔ اگر آپ کو لگا کہ برکت اور تبرک کی تعریف میں کہیں کوئی مسئلہ ہو رہا ہے، تو پھر آپ نے خود اسے بیان کیوں نہیں فرما دیا؟
برکت اسم ہے۔ جبکہ اسکو حاصل کرنے کے فعل کو "تبرک" کہتے ہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ آپ اس میں کہاں غلطی نکالتے ہیں اور ہمیں نیچے گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے اندر غلطی یہ ہے کہ یہ تعریف ناقص ہے ۔ کیونکہ اس تعریف کے مطابق عبد اللہ بن ابی کو حضور کی قمیص اور لعاب کا فائدہ ہونا چاہیے تھا جو کہ نہیں ہوا ۔
برائے مہربانی تبرک کی جامع و مانع تعریف فرمائیں ۔ تاکہ ہم اس پر کچھ عرض کرسکیں ۔
آپ کہتے ہیں کہ آپ تبرکات نبوی کو تباہ نہیں کرنا چاہتے۔ مگر آپکا اقوال اور اعمال تو کچھ اور گواہی دے رہے ہیں۔
کوئی ایک قول اور عمل باحوالہ ثابت فرمائیں جس میں ہم نے کسی بابرکت جگہ کو تباہ کیا ہو ۔
مسجد نبوی اور مسجد حرام کے حوالے سے آپ نے عنوان قائم کیا ہے اس سے فرار نہ ہوں ۔
کیا آپ پہلے ہی اپنے عقیدے کے نام پر ان بابرکت جگہوں کو تباہ نہیں کر چکے جو رسول (ص) سے مس ہوئیں؟
آپ مسلسل اپنے گرد دائرہ تنگ کررہی ہیں ۔ بالا عبارت سے اب آپ کی تین ذمہ داریاں بنتی ہیں ، لہذا اب اگر آپ ہمیں کوئی بھی حوالہ ذکر کریں تو اس میں تین چیزیں موجود ہونی چاہییں ۔
1۔ تباہ شدہ مکان کے بابرکت ہونے کا ثبوت ۔
2۔ تباہی کی وجہ سلفیوں کا عقیدہ تھا ۔
3۔ تباہ کرنے والے سلفی تھے ۔
یہ سب چیزیں باحوالہ ذکر فرمادیں ۔
(حالانکہ آپکے نزدیک حجرے میں دفن ہونا غلط ہے)۔
حجرے سے آب کی کیا مراد ہے ؟ ہمارے نزدیک حجرے سے مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا گھر ہے ۔ حجرے سے مراد کوئی کمرہ یا قبہ نہیں ہے ۔
قبوں کی ممانعت ہماری طرف سے نہیں بلکہ حضور کے فرمان کے مطابق منع ہے ، آپ نے قبروں کو پکا کرنے ، ان پر مجاور بیٹھنے ، ان پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
مہوش علی خود تو روایات نہیں مانتی جو بقول ان کے ضعیف ہوں مگر ہماری صیح روایات کے مقابلے میں ضعیف روایات پیش کرتی ہے یہ کیسی دو رخی ہے؟؟؟



مہوش علی کا دعوی کہ سعودی مفتی حضرات نامکمل روایت بیان کرتے ہیں





بخاری اور مسلم کی متفق علیہ روایات جو کئی طرق سے مروی ہے اس کے مقابلے میں ضعیف روایات پیش کرتے تمہیں شرم تو نہیں آئی ہو گی؟؟؟؟


----------
سب سے پہلے تو اللہ تعالی آپ کو غلیظ زبان اور "لفظی چھترول" کی بیماری سے نجات دلائے تاکہ آپ انسانوں کی طرح بات کر سکیں۔ امین۔

کیا سند درست نہ ہونے سے پوری روایت غلط ہو جاتی ہے؟

کچھ تو عقل کے ناخن لیں۔ اور روایت میں ایک راوی ضعیف نکل آئے تو کی اندھوں کی طرح پوری روایت کو ہی ردی کی ٹوکری میں دے مارو؟
اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ حجر اسود صرف پتھر نہیں۔
یہ چیز ہرگز درست نہیں کہ حجر اسود کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
حجر اسود کو چومنا رسول (ص) کی سنت کے ساتھ ساتھ نفع کا باعث ہے جس کہ رسول (ص) نے خود بیان فرمایا ہے۔

1) امام حاکم والی روایت میں علی بیان کر رہے ہیں:
۔۔۔ میں (علی ابن ابی طالب ) نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے:”اس کالے پتھر کو قیامت کے روز لایا جائے گا، اور اس کو زبان عطا کی جائے گی جو کہ اُن لوگوں کی شہادت دے گی جو توحید پر قائم تھے اور اپنے فرائض انجام بجا لاتے تھے۔" چنانچہ یہ پتھر نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی۔" یہ سن کر حضرت عمر نے کہا۔ "اعوذ باللہ کہ مجھے لوگوں میں ایسے رہنا پڑے کہ جن میں اے ابوالحسن (علی) آپ نہ موجود ہوں۔

2) اب آنکھیں کھول کر پڑھیے کہ یہی قیامت کے روز حجر اسود کے اس نفع پہنچانے والی بات کی گواہی ابن عباس بھی دے رہے ہیں:
قتیبہ نے جریر سے، اُس نے ابن خثیم سے، اُس نے سعید بن جبیر سے، اُس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول ﷺ نے حجر الاسود کے متعلق فرمایا:
حجر اسود کو اللہ جل شانہ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) ۔ابو عیسی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے

ابن عباس کی یہ گواہی آرٹیکل میں ساتھ درج کر دی گئی تھی۔ مگر افسوس کہ آپ نے پھر کوئی عقل نہ پکڑی، اور پھر سند کے نام پر پوری روایت کی ٹانگ کھینچنا شروع کر دی۔

3) اور پھر حجر اسود کے اس نفع کے حوالے سے دیڑھ درجن روایات اور درج کر دی گئیں اور کئی سو احادیث کی طرف مزید اشارہ کیا گیا جو اس اصول کی گواہی دے رہی ہیں کہ جو چیز بھی انبیاء اللہ سے مس ہو جائے، وہ متبرک بن جاتی ہے۔
عام چیزوں، عام پتھروں میں کوئی نفع و نقصان نہیں ہوتا۔ انکی تذلیل کرو، انہیں گندی نالی میں پھینکو یا پھر انہیں سر پر اٹھا کر رکھو، انہیں چومو۔۔۔ نہ تمہیں کوئی نقصان ہو گا، نہ کوئی نفع ہو گا۔۔۔۔۔
مگر عقل سے کام لیجئے کہ وہ چیزیں جو رسول (ص) سے مس ہو گئیں، کیا ان کے متعلق بھی آپ یہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا کبھی سوچ بھی سکتے ہیں کہ حجر اسود عام پتھر ہے جس کی معاذ اللہ تذلیل بھی کر لی جائے تو کوئی نقصان ہیں پہنچے گا؟ حجر اسود ہی کیا، جو چیز بھی رسول (ص) سے مس ہو جائے، کیا آپ کبھی اسکی تذلیل کا سوچ سکتے ہیں؟

انبیاء جس چیز کو مس کر لیں، وہ متبرک۔ اور حجر اسود کا مقام تو یہ ہے کہ اس کو تو بے تحاشہ انبیاء نے بے تحاشہ مرتبہ چوما۔ یہ سراسر غلطی ہے کہ آپ پھر بھی ہٹ دھرمی کے ساتھ حجر اسود کو عام پتھر کہتے رہیں، اس میں کسی بھی خیر کا انکار کرتے رہیں، اس میں کسی نفع کا انکار کرتے رہیں۔

4) ایک اور گواہی کہ حجر اسود عام پتھر نہیں، بلکہ یہ نفع پہنچاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ان دونوں پتھروں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ (سنن ترمذی)

آپ کب تک ان تبرکاتِ نبوی اور حجر اسود میں خیر اور نفع کا انکار کرتے رہیں گے؟

علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی پر کیا فتویٰ لگاو گی، ظاہر پرستی یا ناصبیت کا؟؟؟
حالانکہ بریلوی تو آدھا شیعہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔





عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت تو مان لو وہ تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے


عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے والد کے ساتھ تو آپ کو چڑ ہے کہ ان کی روایت نہیں ماننی

یہ کرفرمائی صرف سعودی مفتی حضرات کے ساتھ ہی کیوں ؟ بریلوی عالم پر کیوں نہیں؟؟؟؟






جو روایات تمہارے کرتوتوں کو ظاہر کرتی ہیں ان کو تو تم نہیں مانتی اور ہماری صیح روایات کو بھی تسلیم نہیں کرتی، آخر اتنی منافقت کیوں؟؟؟؟




چلو شاباش، فتویٰ لگاو بریلوی عالم پر کہ یہ ظاہر پرست ہے اور گستاخ ہے ا


مہوش علی، اب تمہاری جی بھر کر میں نے ' لفظی چھترول' کرنی ہے ہمت ہے تو جواب دو۔ ۔ ۔۔ ۔
تم بھی کہو، میں بھی کہتا ہوں
جھوٹوں پر اللہ کی لعنت، جو مستحق ہو گا اسے ضرور پہنچے گی، ان شاء اللہ!
ذرا اپنے بہانے اور پھر بہتان تراشیاں دیکھیں۔ پہلے بریلوی حضرات کو شیعہ بنا دیا، اور پھر انکے لکھے کو ہم پر بطور حجت پیش کر دیا۔
اگر آپ کو بریلوی حضرات سے کوئی مسئلہ ہے تو جا کر ان سے براہ راست بات کیجئے، مگر براہ مہربانی ایسے بہانوں اور الزامات سے پرہیز کیجئے۔

قرآنی حکم کے مطابق موضوع پر فقط دلیل فراہم کرنی ہے۔ اس دلیل سے جو بھی ٹکرائے گا، وہ سمجھ لے کہ وہ غلطی پر ہے اور اسے اپنی اصلاح کرنی ہے۔
مگر آپ کی تو کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ دلیل کی بجائے آپ کو "لفظی چھترول" کی بیماری ہو گئی ہے۔ اسی بیماری کے زیر اثر آپ دلیل چھوڑ کر ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔

موضوع پر پلٹتے ہوئے۔

کیا رکن یمانی کو چومنا بدعت و شرک ہے؟


1) یہ ایک بنیادی اصول تواتر کے ساتھ سینکڑوں احادیث سے ثابت ہے کہ جو چیز بھی اللہ کے انبیاء اور دیگر شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ عام چیز نہیں رہتی، بلکہ اس میں اللہ کے اذن سے نفع پہنچانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

2) دوسری بات یہ ہے کہ "عدم ذکر" کا مطلب "ذکر عدم" نہیں ہوتا۔
تبرکات نبوی سے برکت حاصل کرنے کے بہت سے افعال ہیں جو رسول اللہ (ص) نے براہ راست نہیں کیے، مگر صحابہ کرام نے رسول (ص) کی وفات کے بعد کیے کیونکہ انہیں علم تھا کہ تبرکات نبوی میں برکت و شفا و نفع ہے اور ان سے برکت حاصل کرنے کی عام اجازت ہے، چاہے رسول (ص) نے بذات خود اس تبرک سے برکت حاصل کرنے کا حکم دیا ہو یا نہ دیا ہو۔

اگر رسول اللہ (ص) نے رکن یمنی کو نہیں چوما، تو اسکا مطلب یہ کہاں سے نکل آیا کہ رکن یمنی کو چومنا بدعت اور شرک بن گیا؟
کیا رسول اللہ (ص) کی کوئی حدیث ہے جس میں آپ نے "منع" فرمایا ہو کہ رکن یمنی کو نہیں چومنا جا سکتا؟

رسول اللہ (ص) حج کے لیے ہر عبادتی عمل کی مقدار بتلا کر اسے معین کر رہے تھے۔ اس لیے حج کے اراکین میں حجر اسود کو چومنا، اور رکن یمنی کو مس کرنا ہے۔مگر اسکا مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کوئی رکن یمنی کو برکت کے لیے چوم لے تو یہ بدعت ہو گئی۔ صحابہ کا متواتر عمل اس پر ہے کہ وہ تبرکات نبوی کو چومتے تھے، چاہے اسکا حکم رسول (ص) نے دیا ہو یا نہ دیا ہو۔

اس بات کی شہادت اس بذات خود اس روایت میں ملتی ہے جہاں معاویہ ابن ابی سفیان طواف کے دوران رکن یمنی کو چوم رہے ہیں۔ اور ابن عباس (جن کا آپ اوپر بار بار تذکرہ کر رہے ہیں) بھی ساتھ میں ہیں۔ روایت یہ ہے:

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان، معمر، ابن خیثم، حضرت ابو طفیل سے روایت ہے کہ ہم ابن عباس اور معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ طواف کر رہے تھے۔ معاویہ جس رکن سے گذرتے، اسے چوم لیتے۔ اس پر ابن عباس نے کہا کہ نبی اکرم (ص) نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی چیز کو بوسہ نہیں دیا تھا۔ اس پر معاویہ ابن ابی سفیان نے جواب دیا کہ بیت اللہ میں کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے۔
امام ابو عیسی ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (جامع ترمذی)

تو اب آپ میں ہمت ہے تو لگائیے "توفیقی" اور بدعت و شرک کا فتوی معاویہ ابن ابی سفیان پر۔ اور ابن عباس نے سنت رسول تو بیان کی، مگر جب معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ بیت اللہ کی کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے، تو اس پر ابن عباس نے بدعت و شرک کا کوئی فتویٰ نہیں لگایا اور نہ ہی معاویہ ابن ابی سفیان کو زبردست روکا جو بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ابن عباس بھی معاویہ ابن ابی سفیان سے متفق ہوئے کہ اگرچہ کہ سنت رسول فقط رکن یمنی کو مس کرنے کی ہے، لیکن اگر کوئی مزید حصول برکت کے لیے رکن یمانی کو چوم بھی لے تو یہ حلال فعل ہے۔
اور رکن یمانی ہی کیا، معاویہ ابن ابی سفیان نے تو کھل کر کہا ہے کہ بیت اللہ کی کوئی چیز بھی نہیں چھوڑنی چاہیے جس میں کعبہ کی دیواروں کو مس کرنا اور چومنا بھی شامل ہے اور ابن عباس نے اس پر بھی سکوت کیا جو گواہی ہے کہ وہ معاویہ ابن ابی سفیان کی اس بات سے متفق ہوئے، وگرنہ وہ اسے آپکی طرح بدعت اور شرک کے نام پر لازماً روکتے۔

تو بتلائیے کہ کس بنیاد پر معاویہ ابن ابی سفیان نے اپنا یہ عقیدہ بیان کیا کہ سنتِ نبوی تو فقط مس کرنے کی ہے، مگر مزید برکت کے حصول کے لیے چوم بھی لیا جائے تو اسکا ثواب ہے؟ کیا یہ وہی عقیدہ نہیں کہ شعائر اللہ اور تبرکات میں "عام" برکت ہے اور اسکے حصول کے لیے عام اجازت ہے کہ ان کی تعظیم کرتے ہوئے انہیں چوما جا سکتا ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عجیب تماشہ ہے۔ رسول (ص) سے مس شدہ چیزوں پانی، پیالہ، چادر، چھڑی، سکہ، جبہ سے صحابہ کے تبرک حاصل کرنے کے بے تحاشہ روایات بطور دلیل پیش کی گئیں۔ اور چپ سادھی گئی تو ان روایات پر سادھی گئی۔۔۔
حیرت کا مقام ہے کہ پھر بھی کیسے آرام سے آپ ادھر آپ الٹی گنگا بہا رہے ہیں اور صحابہ کے تبرکات نبوی سے نفع حاصل کرنے والے واقعے پر آتے ہی نہیں ہیں۔
حیرت کا مقام ہے کہ آپکے ایک ساتھی کتنی آرام سے پھر بھی کفار کے تبرک والے واقعات کو مسلسل مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہیں اور جو رسول (ص) نے مسلمانوں کو اپنے تبرکات سے نفع پہنچانے کے لیے اپنی چادر اور کرتے وغیرہ کو حکم دے کر انکا کفن بنوایا، تو آپ کے یہ ساتھی بھی اس سنتِ نبوی کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔


اور کیا تبرک کی تعریف آپ کو نہیں آتی؟ یا پھر آپ صرف اپنے آپ کو ہی عالم سمجھتے ہیں اور دوسروں کو جاہل؟ کیا لفظی تعریف بڑھ جانا، زیادتی ہو جانا کا آپ کو نہیں پتا، یا پھر امام راغب کی تعریف کا نہیں پتا کہ کسی چیز میں اللہ کی طرف سے خیر کاپیدا ہو جانا برکت ہے؟
قرآن نے جن جن چیزوں میں برکت بیان کی ہے کتاب میں برکت، انبیاء میں برکت، افعال میں برکت، مکان میں برکت، زمان میں برکت، کھانے پینے کی اشیاء میں برکت، ان سب پر ہمارا ایمان ہے۔
لیکن یہاں پر ہم جس تبرک کی قسم کی بات کر رہے ہیں، وہ یہ ہے:
" (صحیح مسلم)۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جبہ پہنا کرتے تھے اور ہم اس جبہ کو دھو کر(اس کا پانی) شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں" ہمارے نزدیک یہ شفا، یہ نفع بھی تبرک ہے۔ مگر آپ رسول (ص) مس شدہ چیزوں سے تبرک سے ایک بہانے یا دوسرے بہانے فرار کے چکر میں ہیں، حالانکہ ان میں مسلمانوں کے لیے اللہ کے اذن سے شفا و نفع ہے۔
آپ کو پہلے عقیدہ کے بارے میں سیکھنا چاھیے

اس کے لئے آپ اس پوسٹ کو پڑھ لے


108579 - ایک مسلمان کیلئے صحیح عقیدہ کے مختصر مسائل ، اور باطل عقائد کا بیان
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
@وفا کیا آپ اس کو بھی تبرک کہے گی

ہم کہتے ہیں کہ شعیہ کے گھر کا کھانا نا کھاؤ یہ کھانے میں تھوک ملا کے کھلاتے ہیں ،،،،،،،،،، تو جواب آتا ہے تمہیں تو شعیہ سے کوئی زاتی دشمنی ہے آپس میں لڑواتے ہو کوئی دلیل ہے کہ وہ کھانے میں اپنا پلید تھوک ملا کے کھلاتے ہیں؟؟؟
تو یہ ویڈیو ان بھائیوں کیلئے حاضر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود ان کا ذاکر شعیہ مان رہا ہے کہ ہم تھوک ڈالتے ہیں یہ تو نبی کی سنت ہے لعن اللہ علی الکاذبین والروافض الشعیہ
مجھے شعیہ اور بڑیلوی کہتے ہیں (ایڈمن فسادی ) ۔۔۔۔:P ۔۔۔ کیونکہ میں ان کی اصلیت عوام کو دکھاتا ہوں .... تاکہ بھولے مسلمان ان کی گھناؤنی حرکات کو جان جائیں
ہمارا مقصد شعیہ سنی کی جنگ کرنا یا کروانا نہیں بلکہ غلیظ شرکانہ عمل عوام تک پہنچانا ہے ،،، اب آگے تمہاری مرضی گالی دو یا دعا


 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
کیا رکن یمانی کو چومنا بدعت و شرک ہے؟


1) یہ ایک بنیادی اصول تواتر کے ساتھ سینکڑوں احادیث سے ثابت ہے کہ جو چیز بھی اللہ کے انبیاء اور دیگر شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ عام چیز نہیں رہتی، بلکہ اس میں اللہ کے اذن سے نفع پہنچانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

2) دوسری بات یہ ہے کہ "عدم ذکر" کا مطلب "ذکر عدم" نہیں ہوتا۔
تبرکات نبوی سے برکت حاصل کرنے کے بہت سے افعال ہیں جو رسول اللہ (ص) نے براہ راست نہیں کیے، مگر صحابہ کرام نے رسول (ص) کی وفات کے بعد کیے کیونکہ انہیں علم تھا کہ تبرکات نبوی میں برکت و شفا و نفع ہے اور ان سے برکت حاصل کرنے کی عام اجازت ہے، چاہے رسول (ص) نے بذات خود اس تبرک سے برکت حاصل کرنے کا حکم دیا ہو یا نہ دیا ہو۔

اگر رسول اللہ (ص) نے رکن یمنی کو نہیں چوما، تو اسکا مطلب یہ کہاں سے نکل آیا کہ رکن یمنی کو چومنا بدعت اور شرک بن گیا؟
کیا رسول اللہ (ص) کی کوئی حدیث ہے جس میں آپ نے "منع" فرمایا ہو کہ رکن یمنی کو نہیں چومنا جا سکتا؟

رسول اللہ (ص) حج کے لیے ہر عبادتی عمل کی مقدار بتلا کر اسے معین کر رہے تھے۔ اس لیے حج کے اراکین میں حجر اسود کو چومنا، اور رکن یمنی کو مس کرنا ہے۔مگر اسکا مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کوئی رکن یمنی کو برکت کے لیے چوم لے تو یہ بدعت ہو گئی۔ صحابہ کا متواتر عمل اس پر ہے کہ وہ تبرکات نبوی کو چومتے تھے، چاہے اسکا حکم رسول (ص) نے دیا ہو یا نہ دیا ہو۔

اس بات کی شہادت اس بذات خود اس روایت میں ملتی ہے جہاں معاویہ ابن ابی سفیان طواف کے دوران رکن یمنی کو چوم رہے ہیں۔ اور ابن عباس (جن کا آپ اوپر بار بار تذکرہ کر رہے ہیں) بھی ساتھ میں ہیں۔ روایت یہ ہے:

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان، معمر، ابن خیثم، حضرت ابو طفیل سے روایت ہے کہ ہم ابن عباس اور معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ طواف کر رہے تھے۔
معاویہ جس رکن سے گذرتے، اسے چوم لیتے۔ اس پر ابن عباس نے کہا کہ نبی اکرم (ص) نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی چیز کو بوسہ نہیں دیا تھا۔ اس پر معاویہ ابن ابی سفیان نے جواب دیا کہ بیت اللہ میں کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے۔
امام ابو عیسی ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (جامع ترمذی)


تو اب آپ میں ہمت ہے تو لگائیے "توفیقی" اور بدعت و شرک کا فتوی معاویہ ابن ابی سفیان پر۔ اور ابن عباس نے سنت رسول تو بیان کی، مگر جب معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ بیت اللہ کی کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے، تو اس پر ابن عباس نے بدعت و شرک کا کوئی فتویٰ نہیں لگایا اور نہ ہی معاویہ ابن ابی سفیان کو زبردست روکا جو بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ابن عباس بھی معاویہ ابن ابی سفیان سے متفق ہوئے کہ اگرچہ کہ سنت رسول فقط رکن یمنی کو مس کرنے کی ہے، لیکن اگر کوئی مزید حصول برکت کے لیے رکن یمانی کو چوم بھی لے تو یہ حلال فعل ہے۔
اور رکن یمانی ہی کیا، معاویہ ابن ابی سفیان نے تو کھل کر کہا ہے کہ بیت اللہ کی کوئی چیز بھی نہیں چھوڑنی چاہیے جس میں کعبہ کی دیواروں کو مس کرنا اور چومنا بھی شامل ہے اور ابن عباس نے اس پر بھی سکوت کیا جو گواہی ہے کہ وہ معاویہ ابن ابی سفیان کی اس بات سے متفق ہوئے، وگرنہ وہ اسے آپکی طرح بدعت اور شرک کے نام پر لازماً روکتے۔

تو بتلائیے کہ کس بنیاد پر معاویہ ابن ابی سفیان نے اپنا یہ عقیدہ بیان کیا کہ سنتِ نبوی تو فقط مس کرنے کی ہے، مگر مزید برکت کے حصول کے لیے چوم بھی لیا جائے تو اسکا ثواب ہے؟ کیا یہ وہی عقیدہ نہیں کہ شعائر اللہ اور تبرکات میں "عام" برکت ہے اور اسکے حصول کے لیے عام اجازت ہے کہ ان کی تعظیم کرتے ہوئے انہیں چوما جا سکتا ہے؟
السلام علیکم -

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے فرمایا کہ "بیت اللہ میں کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے" تو یہ ان کا اجتہاد تھا - کیوں کہ بیت الله پورے کا پورا حرم ہے جس کی تعظیم ہر مسلمان پر واجب ہے اس بنا پر انہوں نے اس کی ہر چیز کا بوسہ لینا جائز سمجھا - اس پر ابن عباس رضی الله عنہ نے کوئی نکیر نہیں کی -کیوں کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے اجتہاد کو صحیح مانا - اس طرح کے اجتہادی مسائل صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے درمیان اکثر و بیشتر پاے جاتے ہیں -

دوسری بات یہ کہ ویسے بھی بدعت کا اطلاق صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا عمل پر نہیں ہوتا - کیوں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے براہ راست تربیت یافتہ تھے - ہر وہ قول وفعل جو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ "بدعت" کہلاے گا کیوں کہ اس (دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔

صحابہ کرام خود بھی اس بات کو جانتے تھے کہ ان کی نیکی کا ہر عمل شرعی سند رکھتا ہے وہ نصاً ہو یااجتہاداً سب کے سب قولاً اورعملاًترجمان شریعت تھے، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ(۳۶ھ)فرماتے ہیں:
"کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔
(الاعتصام:۱/۵۴)
ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔



١-حضرت عمر کے مشورے سے حضرت ابو بکر کا حضرت زید بن ثابت (رضی الله عنہم) کو حکم دیکر قرآن مجید کا جمع کرنا اور اس کی سورتوں کو (موجودہ ترتیب کے ساتھ) مرتب کرنا،

٢-حضرت عمر (رضی الله عنہ) کا "پورا" رمضان "مسجد" میں تراویح کی جماعت"ایک امام" کی اقتدا میں جاری کرانا، ا
٣. حضرت عثمان کا نماز_جمعہ کے واسطے پہلی اذاں مقرر کرنا -
٤-حضرت علی رضی الله عنہ (اس امت کے قاضی یعنی جج) کا (اور بقیہ صحابہ_کرام رضی الله عنہم کا) ان سے پہلے کے خلفاء کے اجتہادی فیصلوں اور طریقوں پر اتفاق کرتے ہوے جاری و ساری رکھنا یعنی ان فیصلوں پر ان کا اتفاق و اجماع قائم رہنا.

حدیث :
"من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد" (بخاری و مسلم)
یعنی جو شخص کوئی نئی بات ایجاد کرے جس پر ہمارا (دینی) حکم نہ ہو، تو وہ (نئی بات) مردود ہے؛


یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام کا وہ عمل جس پر نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی - وہ بدعت نہیں - کیوں کہ حدیث کے الفاظ "من أحدث في أمرنا" میں جمع کا صیغہ استمال کیا گیا ہے - نہ کہ واحد کا - ترجمہ: "جو ہمارے یعنی (میرے اور میرے صحابہ رضوان الله اجمعین) کے طریقے پر عمل پیرا نہیں اس کا عمل رد کردیا جائے گا "

ایک اور حدیث نبوی میں خلفاء راشدین کی سنّت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے -جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجععین کا عمل بھی ہمارے لئے حجت ہے-

عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّکُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَاِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» سنن ابی داود، السنة، باب فی لزوم السنة، ح:4607

’’تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ سختی سے پکڑ لو اور (دین میں) نئے نئے کاموں سے کنارہ کشی اختیارکرو کیونکہ (دین میں ایجاد کردہ) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘


کیوں کے خلفاء راشدین نبی کریم سے براہ راست تعلیم یافتہ تھے اور ان سے اجتہادی غلطی کے امکانات بہت کم تھے -اس لئے ان کا عمل بھی حجت قرار پایا- غلطیاں ان سے ہوئیں بھی لیکن الله نے ان کے لئے ایسا سبب پیدا کردیا کہ انہوں نے فوری اپنی اصلاح کر لی-

اسی لئے قرآن میں بھی ان پاک ہستیوں جیسا ایمان لانے کا حکم دیا گیا -

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ١٣
اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ (یعنی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین) ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے-


لہذا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا عمل بدعت کے زمرے میں نہیں آے گا -(واللہ اعلم)

یہ بات ذہن میں رہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا دور خیرالقرون کا دور تھا- اس لئے ان کے بعد کے دور میں کیا جانے والا ہر نیا عمل بدعت میں شمار کیا جائے گا -

اور یہی وجہ ہے کہ سعودی علماء نے اس عمل کو بدعت قرار نہیں دیا - البتہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے روضۂ مبارک کی جالیاں چھونا یا ان کو بوسہ دینا بدعت ہے کیوں کہ یہ کسی بھی صحابی یا سلف و صالحین سے ثابت نہیں -
 
Last edited:

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
السلام علیکم -

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے فرمایا کہ "بیت اللہ میں کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے" تو یہ ان کا اجتہاد تھا - کیوں کہ بیت الله پورے کا پورا حرم ہے جس کی تعظیم ہر مسلمان پر واجب ہے اس بنا پر انہوں نے اس کی ہر چیز کا بوسہ لینا جائز سمجھا - اس پر ابن عباس رضی الله عنہ نے کوئی نکیر نہیں کی -کیوں کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے اجتہاد کو صحیح مانا - اس طرح کے اجتہادی مسائل صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے درمیان اکثر و بیشتر پاے جاتے ہیں -

دوسری بات یہ کہ ویسے بھی بدعت کا اطلاق صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا عمل پر نہیں ہوتا - کیوں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے براہ راست تربیت یافتہ تھے - ہر وہ قول وفعل جو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ "بدعت" کہلاے گا کیوں کہ اس (دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔

صحابہ کرام خود بھی اس بات کو جانتے تھے کہ ان کی نیکی کا ہر عمل شرعی سند رکھتا ہے وہ نصاً ہو یااجتہاداً سب کے سب قولاً اورعملاًترجمان شریعت تھے، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ(۳۶ھ)فرماتے ہیں:
"کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔
(الاعتصام:۱/۵۴)
ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔



١-حضرت عمر کے مشورے سے حضرت ابو بکر کا حضرت زید بن ثابت (رضی الله عنہم) کو حکم دیکر قرآن مجید کا جمع کرنا اور اس کی سورتوں کو (موجودہ ترتیب کے ساتھ) مرتب کرنا،

٢-حضرت عمر (رضی الله عنہ) کا "پورا" رمضان "مسجد" میں تراویح کی جماعت"ایک امام" کی اقتدا میں جاری کرانا، ا
٣. حضرت عثمان کا نماز_جمعہ کے واسطے پہلی اذاں مقرر کرنا -
٤-حضرت علی رضی الله عنہ (اس امت کے قاضی یعنی جج) کا (اور بقیہ صحابہ_کرام رضی الله عنہم کا) ان سے پہلے کے خلفاء کے اجتہادی فیصلوں اور طریقوں پر اتفاق کرتے ہوے جاری و ساری رکھنا یعنی ان فیصلوں پر ان کا اتفاق و اجماع قائم رہنا.

حدیث :
"من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد" (بخاری و مسلم)
یعنی جو شخص کوئی نئی بات ایجاد کرے جس پر ہمارا (دینی) حکم نہ ہو، تو وہ (نئی بات) مردود ہے؛


یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام کا وہ عمل جس پر نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی - وہ بدعت نہیں - کیوں کہ حدیث کے الفاظ "من أحدث في أمرنا" میں جمع کا صیغہ استمال کیا گیا ہے - نہ کہ واحد کا - ترجمہ: "جو ہمارے یعنی (میرے اور میرے صحابہ رضوان الله اجمعین) کے طریقے پر عمل پیرا نہیں اس کا عمل رد کردیا جائے گا "

ایک اور حدیث نبوی میں خلفاء راشدین کی سنّت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے -جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجععین کا عمل بھی ہمارے لئے حجت ہے-

عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّکُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَاِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» سنن ابی داود، السنة، باب فی لزوم السنة، ح:4607

’’تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ سختی سے پکڑ لو اور (دین میں) نئے نئے کاموں سے کنارہ کشی اختیارکرو کیونکہ (دین میں ایجاد کردہ) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘


کیوں کے خلفاء راشدین نبی کریم سے براہ راست تعلیم یافتہ تھے اور ان سے اجتہادی غلطی کے امکانات بہت کم تھے -اس لئے ان کا عمل بھی حجت قرار پایا- غلطیاں ان سے ہوئیں بھی لیکن الله نے ان کے لئے ایسا سبب پیدا کردیا کہ انہوں نے فوری اپنی اصلاح کر لی-

اسی لئے قرآن میں بھی ان پاک ہستیوں جیسا ایمان لانے کا حکم دیا گیا -

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ١٣
اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ (یعنی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین) ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے-


لہذا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا عمل بدعت کے زمرے میں نہیں آے گا -(واللہ اعلم)

یہ بات ذہن میں رہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا دور خیرالقرون کا دور تھا- اس لئے ان کے بعد کے دور میں کیا جانے والا ہر نیا عمل بدعت میں شمار کیا جائے گا -

اور یہی وجہ ہے کہ سعودی علماء نے اس عمل کو بدعت قرار نہیں دیا - البتہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے روضۂ مبارک کی جالیاں چھونا یا ان کو بوسہ دینا بدعت ہے کیوں کہ یہ کسی بھی صحابی یا سلف و صالحین سے ثابت نہیں -
^^^^^^^^
صحابہ پرستش

شریعت ساز فقط اور فقط اللہ کی ذات ہے۔
حتیٰ کہ رسول (ص) کو بھی شریعت سازی میں کوئی حق نہیں۔ اگر رسول (ص) کی بات کو حدیث کے نام پر شریعت کا حصہ سمجھا گیا ہے، تو وہ اس لیے کہ رسول (ص) اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے سوائے اسکے جو انہیں "وحی" کیا گیا۔
اور جبرئیل علیہ السلام اللہ کی وحی لے کر فقط محمد رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئے، امیر معاویہ یا کسی اور صحابی پر نہیں۔
صحابہ کو شریعت ساز بنانا شرک کی بدترین صورت ہے۔


آپ لوگوں کے پاس چوائس تھی کہ اپنے سعودی علماء کی بند آنکھوں کے ساتھ پیروی کی جگہ نصوص سے سبق حاصل کرتے، اور سینکڑوں روایات سے ثابت شدہ اس بنیادی اصول کو تسلیم کرتے کہ جو چیز رسول (ص) اور دیگر شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ بابرکت ہو جاتی ہے۔ ان تبرکاتِ کی تعظیم کرنا، ان سے نفع و شفا طلب کرنا بدعت و شرک نہیں، بلکہ عین اسلام ہے۔
مگر آپ اپنی خود ساختہ توحید کے نام پر ان سینکڑوں روایات اور تبرکات نبوی اور ان میں نفع کو ٹھکرا کر اس پر بدعت و شرک کے فتوے لگاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے فتووؤں کی براہ راست زد میں صحابہ اور رسول (ص) آ رہے ہیں اور آپکو بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں مل رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ یا تو آپ کو انہیں بھی معاذ اللہ بدعتی و مشرک ٹہرانا پڑے گا، یا پھر منافقانہ رویے دکھانے پڑیں گے جیسا کہ آپ دکھاتے آ رہے ہیں۔

انہی منافقانہ رویوں (منافقت کا لغوی معنی لیجئے، یعنی ڈبل سٹینڈرڈز) کی وجہ سے آپ قاصر ہیں کہ 110 مراسلے گذر جانے کے باوجود اس تصویر کے حوالے سے کیے گئے سادہ سے سوال کا جواب نہ دے سکے۔

انہی منافقانہ رویوں کی وجہ سے سعودی مفتی حضرات 18 ویں صدی سے لے کر آجتک خانہ کعبہ کو مس کرنے اور چومنے اور اسکے وسیلے سے حاجات طلب کرنے پر کھل کر بدعت و شرک کا فتویٰ نہ لگا سکے، اور نہ ہی طاقت کے زور پر اس بدعت و شرک کو روک سکے، حتی کہ خانہ کعبہ شرک کا اڈہ بن گیا، اور لگتا یہی ہے کہ آج انہی کی صفوں سے اٹھتے داعش جیسے انتہا پسند اسی خود ساختہ توحیدی عقیدے کے نام پر خانہ کعبہ کو شرک کا اڈہ کہتے ہوئے، خانہ کعبہ میں کسی بھی فزیکل برکت کا انکار کرتے ہوئے، خانہ کعبہ کو فقط "عام پتھر" کہتے ہوئے خانہ کعبہ کی تباہی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

یہ ناممکن ہے کہ کوئی شرک کی حدوں تک پہنچنے والی بدعتِ ضلالت کرے، وہ بھی خانہ خدا میں، اور ابن عباس جیسے صحابی خاموش رہیں۔ اس سکوت کا مطلب یہی نکل رہا ہے کہ ابن عباس بھی اس اصول کو تسلیم کر رہے ہیں کہ شعائر اللہ سے مس شدہ ہر چیز بابرکت ہے، اور رسول (ص) نے جو رکن یمانی کو فقط مس کیا، تو یہ فقط مناسکِ حج کے فرائض بتانے کی غرض سے تھا تاکہ صحابہ حج کے فرائض اور نفل عباداتی افعال کو آپس میں خلط ملط نہ کر دیں۔ اس سے کہیں یہ مطلب نہیں تھا کہ رکن یمانی کو چومنا بدعت و شرک بن گیا۔


جو چیز شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ بھی بابرکت ہو جاتی ہے:۔
چنانچہ جو چھڑی حجر اسود سے مس ہو گئی، وہ بابرکت ہو گئی۔

صحیح بخاری، کتاب الحج:
حدثنا أحمد بن صالح، ويحيى بن سليمان، قالا حدثنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال طاف النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع على بعير، يستلم الركن بمحجن‏.‏ تابعه الدراوردي عن ابن أخي الزهري عن عمه‏.‏
ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح اور یحٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یونس نے ابن شہاب سے خبردی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی اونٹنی پر طواف کیا تھا اور آپ حجر اسود کا استلام ایک چھڑی کے ذریعہ کررہے تھے او راس چھڑی کو چومتے تھے۔ اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو دراوردی نے زہری کے بھتیجے سے روایت کیا اور انہو ںنے اپنے چچا ( زہری ) سے۔

اور یہ فقط معاویہ ابن ابی سفیان ہی نہیں تھے، بلکہ عبداللہ ابن زبیر بھی اس معاملے میں اُن کے ساتھ تھے:۔

صحیح بخاری، کتاب الحج:۔
وقال محمد بن بكر أخبرنا ابن جريج، أخبرني عمرو بن دينار، عن أبي الشعثاء، أنه قال ومن يتقي شيئا من البيت، وكان معاوية يستلم الأركان، فقال له ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ إنه لا يستلم هذان الركنان‏.‏ فقال ليس شىء من البيت مهجورا، وكان ابن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ يستلمهن كلهن‏.‏
ترجمہ:
اور محمد بن بکرنے کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبردی، انہوں نے کہا مجھ کو عمروبن دینار نے خبردی کہ ابوالشعثاءنے کہا بیت اللہ کے کسی بھی حصہ سے بھلا کون پرہیز کرسکتا ہے۔ اور معاویہ ابن ابی سفیان چاروں رکنوں کا استلام کرتے تھے، اس پر حضرت عبداللہ بن عباس نے ان سے کہا کہ ہم ان دوار کان شامی اور عراقی کا استلام نہیں کرتے تو معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ بیت اللہ کا کوئی جزءایسا نہیں جسے چھوڑ دیا جائے اور عبداللہ بن زبیر بھی تمام ارکان کا استلام کرتے تھے۔

اسی اصول کے تحت جناب ابو بکر اور جناب عمر اور دیگر صحابہ رسول (ص) کے پہلو میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ آجتک سلفی حضرات کی طرف سے اسکا جواب نہیں دیا گیا کہ جناب ابو بکر اور جناب عمر کیوں رسول (ص) کے پہلو میں دفن ہوئے حالانکہ عمارت کے اندر قبر بنانا آپکے نزدیک حرام ہے ۔
(موڈ بھائی صاحب نے پچھلے مراسلے میں واحد عذر پیش کیا کہ وہ حجرہ ہے، کوئی قبہ نہیں۔ یہ ایک لولا لنگڑا عذر ہے کیونکہ قبر کے اوپر عمارت بنانا آپکے نزدیک حرام ہے اور حجرہ بھی عمارت میں آتا۔ نیز اسکا دوسرا سوال یہ تھا کہ جناب ابوبکر اور جناب عمر نے رسول (ص) کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کیوں کی؟ اس دوسرے سوال کا جواب آج تک درجنوں بار پوچھنے پر بھی نہیں مل سکا)۔
 
Last edited:

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
^^^^^^^^
ا اور لگتا یہی ہے کہ آج انہی کی صفوں سے اٹھتے داعش جیسے انتہا پسند اسی خود ساختہ توحیدی عقیدے کے نام پر خانہ کعبہ کو شرک کا اڈہ کہتے ہوئے، خانہ کعبہ میں کسی بھی فزیکل برکت کا انکار کرتے ہوئے، خانہ کعبہ کو فقط "عام پتھر" کہتے ہوئے خانہ کعبہ کی تباہی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
مرغے کی وہی ایک ٹانگ!!!
بی بی۔۔آپ سے شاید لنک مانگا تھا۔۔بغیر ثبوت بہتان تراشیاں آپ کا شیوہ ہے گویا۔۔
اور قرآن کہتا ہے کہ
دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو!!!
 
Top