• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش خلافت: بدعت و شرک کے نام پر خانہ کعبہ، مسجد النبوی، مسجد الحرام اور ہر متبرک جگہ کی تباہی

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مختصر سی بات تھی جس کو اس قدر لمبا کر دیا گیا، وفا صاحبہ کا دعویٰ تھا کہ:
"ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک ہے"
اس پر میں نے دلیل دینے کو کہا، تو وفا صاحبہ نے پہلی پوسٹ میں موجود پوسٹرز میں جتنی بھی احادیث درج ہیں ان کا حوالہ دیا اور کہا کہ میں نے یہ مفہوم ان روایات سے حاصل کیا ہے
یہاں پر میرا یہ جواب تھا کہ ان احادیث سے ایسا مفہوم تو کہیں بھی نہیں نکل رہا، بلکہ یہاں سے تو صرف اتنا ثابت ہو رہا ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن چیزوں کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے اور جس قدر آیا ہے وہی متبرک ہیں، بشرطیکہ اس سے کوئی اپنا عقیدہ خراب نہ کر لے"(جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے اور خوبصورت ہونٹوں سے حجرہ اسود کا بوسہ لیا، اب ہم بھی بوسہ لیں گے، لیکن کوئی حجرہ اسود کو مشکل کشا، یا حاجت روائیں یا بلائیں دور کرنے والا پتھر سمجھنے لگ جائے گا تو بلاشک و شبہ وہ شخص مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج ہے)
وفا صاحبہ نے میری ان باتوں کو تسلیم نہیں کیا، تو میں نے کھجور کے تنے کا ذکر کیا جس پر ٹیک لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے، اب اسے چھوڑنے کے بعد اس کی تعظیم اور تبرک وفا صاحبہ کے نظریے کے مطابق ضروری اور لازمی امر تھا، لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا، اب اس کے جواب میں وفا صاحبہ نے مزید کوئی بات نہیں کی بلکہ دوبارہ وہی پوسٹرز میں موجود روایات کی طرف توجہ دلائی۔

باتیں اور بھی میری اور وفا صاحبہ کے درمیان ہوئیں جنہیں پچھلے صفحات میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اب ہم یہاں ایک اور دلیل وفا صاحبہ کو سمجھانے کے لئے اور ان کے خود ساختہ اصول کے باطل ہونے کے لئے دے رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍحَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، ‏‏‏‏‏‏إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض، ‏‏‏‏‏‏أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ حَتَّى إِذَا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ وَأَنَا أَنْظُرُ لَا أُغَيَّرُ شَيْئًا لَوْ كَانَ لِي مَنَعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَعَلُوا يَضْحَكُونَ وَيُحِيلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَشَقَّ عَلَيْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِي ذَلِكَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَمَّى اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَدَّ السَّابِعَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَحْفَظْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ عَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْعَى فِي الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ".‏(صحيح بخاري)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور(لا کر) جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی)اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا(عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے)ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔

جی تو وفا صاحبہ! آپ بتائیں کہ:
  1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اوجھڑی ڈالی گئی (نعوذباللہ) وہ آپ کے نزدیک متبرک ہوئی یا نہیں؟
  2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے اوجھڑی کو ہٹا دیا، جبکہ آپ کے اصول کے مطابق تو اوجھڑی متبرک ہو گئی تھی، اور اس کی تعظیم فرض تھی، لیکن فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تو اسے اُتار پھینکا۔
  3. یہ اتنا بڑا جرم تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کے پھر اس عمل کے بعد ان کافروں کے لئے بددعا بھی کی گئی۔
اب وفا صاحبہ سے گزارش ہے کہ ان تین پوائنٹس پر اپنا نقطہ نظر واضح کر دیں
اور اس کے ساتھ ساتھ
وفا صاحبہ نے محمد ارسلان ملک کے پچھلے دو پوائنٹس جو اگنور کئے ہیں، جوابات کی اُمید نہ رکھتے ہوئے بھی دوبارہ لکھ دئیے جاتے ہیں، شاید جواب دے دیا جائے
  1. کھجور کا تنا کیوں نہ متبرک سمجھا گیا اور اس کی تعظیم کیوں نہ فرض ہوئی؟
  2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی کی میت کے لئے جو کُرتا پیش کیا، اور آپ کے نظریے کے مطابق یہ کُرتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے مس ہوا ہوا تھا اسی لئے متبرک تھا اور اس کی تعظیم فرض تھی، گزارش ہے کہ صرف اتنا بتا دیا جائے پھر کیا وجہ ہے کہ عبداللہ بن ابی کو اس کُرتے سے کیوں فائدہ نہ ہوا؟
 
Last edited:

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
http://forum.mohaddis.com/threads/داعش-خلافت-بدعت-و-شرک-کے-نام-پر-خانہ-کعبہ،-مسجد-النبوی،-مسجد-الحرام-اور-ہر-متبرک-جگہ-کی-تباہی.24120/page-11#post-193781

وفا نے لکھا ہے

کیا سند درست نہ ہونے سے پوری روایت غلط ہو جاتی ہے؟

کچھ تو عقل کے ناخن لیں۔ اور روایت میں ایک راوی ضعیف نکل آئے تو کی اندھوں کی طرح پوری روایت کو ہی ردی کی ٹوکری میں دے مارو؟
  • کیا یہ اصول شعیہ روایات پر بھی لگتا ہے یا یہ دو رنگی صرف سنیوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ہی ہے

  • کیا یہ اصول شعیہ روایات پر بھی لگتا ہے اگر لگتا ہے تو ملا باقر مجلسی کی وہ روایت کیوں ٹھکراتی ہو جس میں لکھا ہے کہ تمہارا بارہوان امام مسجد نبوی کو گرائے گا اور روضہ رسول کو منہدم کر کے وہاں سے اول و دوئم خلفائے راشدین کی میتوں کو جلائے گا؟؟؟؟
---------------------------------------------------------

اس بات کی شہادت اس بذات خود اس روایت میں ملتی ہے جہاں معاویہ ابن ابی سفیان طواف کے دوران رکن یمنی کو چوم رہے ہیں۔ اور ابن عباس (جن کا آپ اوپر بار بار تذکرہ کر رہے ہیں) بھی ساتھ میں ہیں۔ روایت یہ ہے:

محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان، معمر، ابن خیثم، حضرت ابو طفیل سے روایت ہے کہ ہم ابن عباس اور معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ طواف کر رہے تھے۔ معاویہ جس رکن سے گذرتے، اسے چوم لیتے۔ اس پر ابن عباس نے کہا کہ نبی اکرم (ص) نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی چیز کو بوسہ نہیں دیا تھا۔ اس پر معاویہ ابن ابی سفیان نے جواب دیا کہ بیت اللہ میں کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے۔
امام ابو عیسی ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (جامع ترمذی)

تو اب آپ میں ہمت ہے تو لگائیے "توفیقی" اور بدعت و شرک کا فتوی معاویہ ابن ابی سفیان پر۔ اور ابن عباس نے سنت رسول تو بیان کی، مگر جب معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ بیت اللہ کی کوئی چیز نہیں چھوڑنی چاہیے، تو اس پر ابن عباس نے بدعت و شرک کا کوئی فتویٰ نہیں لگایا اور نہ ہی معاویہ ابن ابی سفیان کو زبردست روکا جو بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ابن عباس بھی معاویہ ابن ابی سفیان سے متفق ہوئے کہ اگرچہ کہ سنت رسول فقط رکن یمنی کو مس کرنے کی ہے، لیکن اگر کوئی مزید حصول برکت کے لیے رکن یمانی کو چوم بھی لے تو یہ حلال فعل ہے۔
اور رکن یمانی ہی کیا، معاویہ ابن ابی سفیان نے تو کھل کر کہا ہے کہ بیت اللہ کی کوئی چیز بھی نہیں چھوڑنی چاہیے جس میں کعبہ کی دیواروں کو مس کرنا اور چومنا بھی شامل ہے اور ابن عباس نے اس پر بھی سکوت کیا جو گواہی ہے کہ وہ معاویہ ابن ابی سفیان کی اس بات سے متفق ہوئے، وگرنہ وہ اسے آپکی طرح بدعت اور شرک کے نام پر لازماً روکتے۔

تو بتلائیے کہ کس بنیاد پر معاویہ ابن ابی سفیان نے اپنا یہ عقیدہ بیان کیا کہ سنتِ نبوی تو فقط مس کرنے کی ہے، مگر مزید برکت کے حصول کے لیے چوم بھی لیا جائے تو اسکا ثواب ہے؟ کیا یہ وہی عقیدہ نہیں کہ شعائر اللہ اور تبرکات میں "عام" برکت ہے اور اسکے حصول کے لیے عام اجازت ہے کہ ان کی تعظیم کرتے ہوئے انہیں چوما جا سکتا ہے؟

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقیدہ ایک ہی ہے، میں نے پہلا رافضی دیکھا ہے جو حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کو اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے

میرا سوال ہے کہ: کیا تم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب نقل کرنے میں دیانتداری سے کام لیا ہے؟؟؟؟

---------

میرے سوالوں کے جواب دو، باقی باتیں بعد میں ہوں گی
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
^^^^^^^^
صحابہ پرستش

شریعت ساز فقط اور فقط اللہ کی ذات ہے۔
حتیٰ کہ رسول (ص) کو بھی شریعت سازی میں کوئی حق نہیں۔ اگر رسول (ص) کی بات کو حدیث کے نام پر شریعت کا حصہ سمجھا گیا ہے، تو وہ اس لیے کہ رسول (ص) اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے سوائے اسکے جو انہیں "وحی" کیا گیا۔
اور جبرئیل علیہ السلام اللہ کی وحی لے کر فقط محمد رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئے، امیر معاویہ یا کسی اور صحابی پر نہیں۔
صحابہ کو شریعت ساز بنانا شرک کی بدترین صورت ہے۔


آپ لوگوں کے پاس چوائس تھی کہ اپنے سعودی علماء کی بند آنکھوں کے ساتھ پیروی کی جگہ نصوص سے سبق حاصل کرتے، اور سینکڑوں روایات سے ثابت شدہ اس بنیادی اصول کو تسلیم کرتے کہ جو چیز رسول (ص) اور دیگر شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ بابرکت ہو جاتی ہے۔ ان تبرکاتِ کی تعظیم کرنا، ان سے نفع و شفا طلب کرنا بدعت و شرک نہیں، بلکہ عین اسلام ہے۔
مگر آپ اپنی خود ساختہ توحید کے نام پر ان سینکڑوں روایات اور تبرکات نبوی اور ان میں نفع کو ٹھکرا کر اس پر بدعت و شرک کے فتوے لگاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے فتووؤں کی براہ راست زد میں صحابہ اور رسول (ص) آ رہے ہیں اور آپکو بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں مل رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ یا تو آپ کو انہیں بھی معاذ اللہ بدعتی و مشرک ٹہرانا پڑے گا، یا پھر منافقانہ رویے دکھانے پڑیں گے جیسا کہ آپ دکھاتے آ رہے ہیں۔

انہی منافقانہ رویوں (منافقت کا لغوی معنی لیجئے، یعنی ڈبل سٹینڈرڈز) کی وجہ سے آپ قاصر ہیں کہ 110 مراسلے گذر جانے کے باوجود اس تصویر کے حوالے سے کیے گئے سادہ سے سوال کا جواب نہ دے سکے۔

انہی منافقانہ رویوں کی وجہ سے سعودی مفتی حضرات 18 ویں صدی سے لے کر آجتک خانہ کعبہ کو مس کرنے اور چومنے اور اسکے وسیلے سے حاجات طلب کرنے پر کھل کر بدعت و شرک کا فتویٰ نہ لگا سکے، اور نہ ہی طاقت کے زور پر اس بدعت و شرک کو روک سکے، حتی کہ خانہ کعبہ شرک کا اڈہ بن گیا، اور لگتا یہی ہے کہ آج انہی کی صفوں سے اٹھتے داعش جیسے انتہا پسند اسی خود ساختہ توحیدی عقیدے کے نام پر خانہ کعبہ کو شرک کا اڈہ کہتے ہوئے، خانہ کعبہ میں کسی بھی فزیکل برکت کا انکار کرتے ہوئے، خانہ کعبہ کو فقط "عام پتھر" کہتے ہوئے خانہ کعبہ کی تباہی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

یہ ناممکن ہے کہ کوئی شرک کی حدوں تک پہنچنے والی بدعتِ ضلالت کرے، وہ بھی خانہ خدا میں، اور ابن عباس جیسے صحابی خاموش رہیں۔ اس سکوت کا مطلب یہی نکل رہا ہے کہ ابن عباس بھی اس اصول کو تسلیم کر رہے ہیں کہ شعائر اللہ سے مس شدہ ہر چیز بابرکت ہے، اور رسول (ص) نے جو رکن یمانی کو فقط مس کیا، تو یہ فقط مناسکِ حج کے فرائض بتانے کی غرض سے تھا تاکہ صحابہ حج کے فرائض اور نفل عباداتی افعال کو آپس میں خلط ملط نہ کر دیں۔ اس سے کہیں یہ مطلب نہیں تھا کہ رکن یمانی کو چومنا بدعت و شرک بن گیا۔


جو چیز شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ بھی بابرکت ہو جاتی ہے:۔
چنانچہ جو چھڑی حجر اسود سے مس ہو گئی، وہ بابرکت ہو گئی۔

صحیح بخاری، کتاب الحج:
حدثنا أحمد بن صالح، ويحيى بن سليمان، قالا حدثنا ابن وهب، قال أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال طاف النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع على بعير، يستلم الركن بمحجن‏.‏ تابعه الدراوردي عن ابن أخي الزهري عن عمه‏.‏
ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح اور یحٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یونس نے ابن شہاب سے خبردی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی اونٹنی پر طواف کیا تھا اور آپ حجر اسود کا استلام ایک چھڑی کے ذریعہ کررہے تھے او راس چھڑی کو چومتے تھے۔ اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو دراوردی نے زہری کے بھتیجے سے روایت کیا اور انہو ںنے اپنے چچا ( زہری ) سے۔

اور یہ فقط معاویہ ابن ابی سفیان ہی نہیں تھے، بلکہ عبداللہ ابن زبیر بھی اس معاملے میں اُن کے ساتھ تھے:۔

صحیح بخاری، کتاب الحج:۔
وقال محمد بن بكر أخبرنا ابن جريج، أخبرني عمرو بن دينار، عن أبي الشعثاء، أنه قال ومن يتقي شيئا من البيت، وكان معاوية يستلم الأركان، فقال له ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ إنه لا يستلم هذان الركنان‏.‏ فقال ليس شىء من البيت مهجورا، وكان ابن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ يستلمهن كلهن‏.‏
ترجمہ:
اور محمد بن بکرنے کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبردی، انہوں نے کہا مجھ کو عمروبن دینار نے خبردی کہ ابوالشعثاءنے کہا بیت اللہ کے کسی بھی حصہ سے بھلا کون پرہیز کرسکتا ہے۔ اور معاویہ ابن ابی سفیان چاروں رکنوں کا استلام کرتے تھے، اس پر حضرت عبداللہ بن عباس نے ان سے کہا کہ ہم ان دوار کان شامی اور عراقی کا استلام نہیں کرتے تو معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ بیت اللہ کا کوئی جزءایسا نہیں جسے چھوڑ دیا جائے اور عبداللہ بن زبیر بھی تمام ارکان کا استلام کرتے تھے۔

اسی اصول کے تحت جناب ابو بکر اور جناب عمر اور دیگر صحابہ رسول (ص) کے پہلو میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ آجتک سلفی حضرات کی طرف سے اسکا جواب نہیں دیا گیا کہ جناب ابو بکر اور جناب عمر کیوں رسول (ص) کے پہلو میں دفن ہوئے حالانکہ عمارت کے اندر قبر بنانا آپکے نزدیک حرام ہے ۔
(موڈ بھائی صاحب نے پچھلے مراسلے میں واحد عذر پیش کیا کہ وہ حجرہ ہے، کوئی قبہ نہیں۔ یہ ایک لولا لنگڑا عذر ہے کیونکہ قبر کے اوپر عمارت بنانا آپکے نزدیک حرام ہے اور حجرہ بھی عمارت میں آتا۔ نیز اسکا دوسرا سوال یہ تھا کہ جناب ابوبکر اور جناب عمر نے رسول (ص) کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کیوں کی؟ اس دوسرے سوال کا جواب آج تک درجنوں بار پوچھنے پر بھی نہیں مل سکا)۔
السلام علیکم -

ایک طرف تو آپ "صحابہ پرستش" کا الزام دے رہی ہیں اور دوسری طرف که رہی ہیں کہ " جو چیز رسول (ص) اور دیگر شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ بابرکت ہو جاتی ہے۔ ان تبرکاتِ کی تعظیم کرنا، ان سے نفع و شفا طلب کرنا بدعت و شرک نہیں، بلکہ عین اسلام ہے۔"

تو کیا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے اجسام آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے کبھی مس نہیں ہوے ؟؟؟ جب بھی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے مصافہ کرتے تو ان کے ہاتھ نبی کریم سے مس ہوتے تھے - تو کیا یہ پاک ہستیاں تعظیم کے قابل اور با برکت نہ ہوئیں-

آپ کہتی ہیں کہ رسول (ص) اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے سوائے اسکے جو انہیں "وحی" کیا گیا۔ اور جبرئیل علیہ السلام اللہ کی وحی لے کر فقط محمد رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئے -

تو یہ بھی تو الله کی وحی تھی جو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر ان کے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پر نازل ہوئی تھی -

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ١٣
اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ (یعنی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین) ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے-


اس آیت میں صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی جو عظمت کا بیان ہے وہ آپ جیسے منافق ذہن لوگوں کو کس طرح نظر آئے گا ؟؟

آپ کہتی ہیں کہ "شریعت ساز فقط اور فقط اللہ کی ذات ہے۔ حتیٰ کہ رسول (ص) کو بھی شریعت سازی میں کوئی حق نہیں"

تو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ شریعت ساز فقط اللہ کی ذات ہے- لیکن اس شریعت کا نفاذ کون کرتا ہیں - کیا الله کے خلیفہ اس کا نفاذ نہیں کرتے -

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ سوره ٦٢
بھلا کون ہے جوبے قرار کی دعا قبول کرتا ہے اور برائی کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں خلیفہ بناتا ہے کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے تم بہت ہی کم سمجھتے ہو

-

کیا حضرت علی رضی الله عنہ نے اس امت کے قاضی یعنی جج کا کردار ادا نہیں کیا کا (اور بقیہ صحابہ_کرام رضی الله عنہم کا) ان سے پہلے کے خلفاء کے اجتہادی فیصلوں اور طریقوں پر اتفاق کرتے ہوے شرعی فیصلے نہیں کیے ؟؟؟ .کیا قرآن میں کہیں حکم ہے کہ پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی الله عنہ ہوں گے اورامّت کے پہلے جج حضرت علی رضی الله عنہ ہونگے ؟؟؟

پھر آپ فرما رہی ہے کہ "انہی منافقانہ رویوں کی وجہ سے سعودی مفتی حضرات 18 ویں صدی سے لے کر آجتک خانہ کعبہ کو مس کرنے اور چومنے اور اسکے وسیلے سے حاجات طلب کرنے پر کھل کر بدعت و شرک کا فتویٰ نہ لگا سکے، اور نہ ہی طاقت کے زور پر اس بدعت و شرک کو روک سکے، حتی کہ خانہ کعبہ شرک کا اڈہ بن گیا،"

تو یہ آپ جسے منافق ذہن کی اختراع ہے - شاید آپ کو پتا نہیں کہ تعظیم کی بھی الله اور اس کے رسول نے حدیں مقرر کی ہیں - اگر کوئی ان حدوں سے تجاوز کرتا ہے تو وہ بدعتی و مشرک بنتا ہے - جب صحابہ کرام نے دیکھا کہ کافر اور مشرک اپنے بڑوں سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں - تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے کہنے لگے کہ "اے الله کے نبی صل الله علیہ و آ لہ وسلم آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کے ہم آپ کو سجدہ کریں - جس پر آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا کہ جب میں فوت ہو جاؤں گا تو کیا تم میری قبر پر مجھے سجدہ کرنے آؤ گے ؟؟ صحابہ کرام نے نفی میں جواب دیا تو آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا "تو پھر میری زندگی میں بھی مجھے سجدہ جائز نہیں - اگر الله کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں" (متفق علیہ)-

شعائر اللہ کی تظیم اور چیز ہے اور ان کو وسیلہ یا حاجت روا سمجھنا اور چیز ہے -تعظیم تو ہر انسان اپنے والدین کی بھی کرتا ہے ان کے ہاتھ پاؤں چومتا ہے- جو کہ ہر مسلمان پر واجب ہے تو کیا اب ہم اپنے والدین کو اپنا حاجت روا ، مشکل کشا مان لیں یا ان کے مرنے کا بعد ان کی قبروں کو وسیلہ بنا لیں؟؟

یہی وجہ ہے کہ الله رب العزت نے حج فرض کرنے سے پہلے یہ فرما دیا کہ :

فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَٰذَا الْبَيْتِ سوره القریش ٣
پس عبادت کرو اس گھر (یعنی خانہ کعبہ ) کے رب کی -(نہ کہ خانہ کعبہ کی)-


صحابہ کرام رضوان الله اجمعین جب بھی قسم کھاتے تو کہتے - فُزتُ رَبّ الکَعبہ "رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا- (یہ نہیں فرمایا کہ اے کعبہ میں کامیاب ہو گیا)-

کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا یہ فرمان مبارک نہیں کہ :

لا تتخذوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا (مسند 2/367،سنن ابوداود:2042 المناسك.)
میری قبر پر میلہ نہ لگانا اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا لینا

للهم لا تجعل قبرى وثنا لعن الله قوما اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد. (مسند احمد2/246، مسند ابويعلى .)
اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا دے[ کہ اسکی پوجا کی جائے] اللہ کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اپنے نبیوں کی قبر وں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔ .


آپ بار بار حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فعل کا ذکر کرکے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ " شعائر اللہ " کے ساتھ جو بھی سلوک کیا جائے - وہ شرک و بدعت کے زمرے میں نہیں آتا - اور سعودی علماء اور داعش وغیرہ کے فتوے انتہا پسندی پر مبنی ہیں تو محترمہ یہ آپ کی بڑی غلط فہمی ہے -

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جناب ابو بکر اور جناب عمر اور دیگر صحابہ رضوان الله اجمعین نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ تو یہ آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے محبّت اور انسیت کی بنا پر تھا - کتنے لوگ ہیں جو اپنے فوت شدہ والدین یا عزیز و اقارب کے پہلو میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں -ایسا محبّت و تعظیم کی بنا پر ہوتا ہے -

اور حجرے میں آ پ صل اللہ علیہ و آ لہ وسلم کو اس بنا پر دفن کیا گیا کہ انبیاء کے لئے یہی حکم تھا کہ جہاں وہ فوت ہوں ان کو وہیں دفن کردیا جائے -آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اپنی قبر کھلی جگہ بنانے سے اس بنا پر منع فرمایا کہ کہیں لوگ اس کو عبادت گاہ نہ بنا لیں -

عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ. مسند احمد1/196، مسند ابويعلى:872،2/177.
حضرت ابو عبیدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ حجاز کے یہود اور اہل نجران کو جزیرہ عربیہ سے باہر نکال دینا اور یاد رکھو کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جو اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالئے ہیں

۔
 
Last edited:

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
یہ وہ لوگ ہیں جو خود پر ہزار قتل معاف رکھتے ہیں۔
آج تک میرے 110 مراسلوں کے بعد میرے کتنے سوالوں کا جواب دیا ہے جو اپنی ہر پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ "میرے سوالوں کا جواب دو"؟؟؟ کیا اپنی یہ منافقتیں (ڈبل سٹینڈرڈز) نظر آتے ہیں؟

کیا تصویر دیکھ کر کچھ یاد آیا؟


یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقیدہ ایک ہی ہے، میں نے پہلا رافضی دیکھا ہے جو حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کو اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے
اگر آنکھیں کھلی رکھی ہوتیں تو وہ سینکڑوں روایات بھی نظر آ جاتیں جسکے تحت یہ عقیدہ معاویہ ابن ابی سفیان کا ہی نہیں، بلکہ جمیع صحابہ اور بذاتِ خود رسول (ص) کا تھا کہ جو چیز شعائر اللہ سے مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔

میرا سوال ہے کہ: کیا تم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب نقل کرنے میں دیانتداری سے کام لیا ہے؟؟؟؟
ہاں، اپنی حد تک ۔ اگر کوئی بشری غلطی نہ ہوئی ہو تو۔
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
السلام علیکم -

ایک طرف تو آپ "صحابہ پرستش" کا الزام دے رہی ہیں اور دوسری طرف که رہی ہیں کہ " جو چیز رسول (ص) اور دیگر شعائر اللہ سے مس ہو جائے، وہ بابرکت ہو جاتی ہے۔ ان تبرکاتِ کی تعظیم کرنا، ان سے نفع و شفا طلب کرنا بدعت و شرک نہیں، بلکہ عین اسلام ہے۔"

تو کیا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے اجسام آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے کبھی مس نہیں ہوے ؟؟؟ جب بھی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے مصافہ کرتے تو ان کے ہاتھ نبی کریم سے مس ہوتے تھے - تو کیا یہ پاک ہستیاں تعظیم کے قابل اور با برکت نہ ہوئیں-

آپ کہتی ہیں کہ رسول (ص) اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے سوائے اسکے جو انہیں "وحی" کیا گیا۔ اور جبرئیل علیہ السلام اللہ کی وحی لے کر فقط محمد رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئے -

تو یہ بھی تو الله کی وحی تھی جو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم پر ان کے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین پر نازل ہوئی تھی -

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ١٣
اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ (یعنی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین) ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے-


اس آیت میں صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی جو عظمت کا بیان ہے وہ آپ جیسے منافق ذہن لوگوں کو کس طرح نظر آئے گا ؟؟

آپ کہتی ہیں کہ "شریعت ساز فقط اور فقط اللہ کی ذات ہے۔ حتیٰ کہ رسول (ص) کو بھی شریعت سازی میں کوئی حق نہیں"

تو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ شریعت ساز فقط اللہ کی ذات ہے- لیکن اس شریعت کا نفاذ کون کرتا ہیں - کیا الله کے خلیفہ اس کا نفاذ نہیں کرتے -

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ سوره ٦٢
بھلا کون ہے جوبے قرار کی دعا قبول کرتا ہے اور برائی کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں خلیفہ بناتا ہے کیا الله کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے تم بہت ہی کم سمجھتے ہو

-

کیا حضرت علی رضی الله عنہ نے اس امت کے قاضی یعنی جج کا کردار ادا نہیں کیا کا (اور بقیہ صحابہ_کرام رضی الله عنہم کا) ان سے پہلے کے خلفاء کے اجتہادی فیصلوں اور طریقوں پر اتفاق کرتے ہوے شرعی فیصلے نہیں کیے ؟؟؟ .کیا قرآن میں کہیں حکم ہے کہ پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی الله عنہ ہوں گے اورامّت کے پہلے جج حضرت علی رضی الله عنہ ہونگے ؟؟؟

پھر آپ فرما رہی ہے کہ "انہی منافقانہ رویوں کی وجہ سے سعودی مفتی حضرات 18 ویں صدی سے لے کر آجتک خانہ کعبہ کو مس کرنے اور چومنے اور اسکے وسیلے سے حاجات طلب کرنے پر کھل کر بدعت و شرک کا فتویٰ نہ لگا سکے، اور نہ ہی طاقت کے زور پر اس بدعت و شرک کو روک سکے، حتی کہ خانہ کعبہ شرک کا اڈہ بن گیا،"

تو یہ آپ جسے منافق ذہن کی اختراع ہے - شاید آپ کو پتا نہیں کہ تعظیم کی بھی الله اور اس کے رسول نے حدیں مقرر کی ہیں - اگر کوئی ان حدوں سے تجاوز کرتا ہے تو وہ بدعتی و مشرک بنتا ہے - جب صحابہ کرام نے دیکھا کہ کافر اور مشرک اپنے بڑوں سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں - تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے کہنے لگے کہ "اے الله کے نبی صل الله علیہ و آ لہ وسلم آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کے ہم آپ کو سجدہ کریں - جس پر آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا کہ جب میں فوت ہو جاؤں گا تو کیا تم میری قبر پر مجھے سجدہ کرنے آؤ گے ؟؟ صحابہ کرام نے نفی میں جواب دیا تو آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا "تو پھر میری زندگی میں بھی مجھے سجدہ جائز نہیں - اگر الله کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں" (متفق علیہ)-

شعائر اللہ کی تظیم اور چیز ہے اور ان کو وسیلہ یا حاجت روا سمجھنا اور چیز ہے -تعظیم تو ہر انسان اپنے والدین کی بھی کرتا ہے ان کے ہاتھ پاؤں چومتا ہے- جو کہ ہر مسلمان پر واجب ہے تو کیا اب ہم اپنے والدین کو اپنا حاجت روا ، مشکل کشا مان لیں یا ان کے مرنے کا بعد ان کی قبروں کو وسیلہ بنا لیں؟؟

یہی وجہ ہے کہ الله رب العزت نے حج فرض کرنے سے پہلے یہ فرما دیا کہ :

فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَٰذَا الْبَيْتِ سوره القریش ٣
پس عبادت کرو اس گھر (یعنی خانہ کعبہ ) کے رب کی -(نہ کہ خانہ کعبہ کی)-


صحابہ کرام رضوان الله اجمعین جب بھی قسم کھاتے تو کہتے - فُزتُ رَبّ الکَعبہ "رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا- (یہ نہیں فرمایا کہ اے کعبہ میں کامیاب ہو گیا)-

کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا یہ فرمان مبارک نہیں کہ :

لا تتخذوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا (مسند 2/367،سنن ابوداود:2042 المناسك.)
میری قبر پر میلہ نہ لگانا اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا لینا

للهم لا تجعل قبرى وثنا لعن الله قوما اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد. (مسند احمد2/246، مسند ابويعلى .)
اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا دے[ کہ اسکی پوجا کی جائے] اللہ کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اپنے نبیوں کی قبر وں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔ .


آپ بار بار حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فعل کا ذکر کرکے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ " شعائر اللہ " کے ساتھ جو بھی سلوک کیا جائے - وہ شرک و بدعت کے زمرے میں نہیں آتا - اور سعودی علماء اور داعش وغیرہ کے فتوے انتہا پسندی پر مبنی ہیں تو محترمہ یہ آپ کی بڑی غلط فہمی ہے -

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جناب ابو بکر اور جناب عمر اور دیگر صحابہ رضوان الله اجمعین نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ تو یہ آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے محبّت اور انسیت کی بنا پر تھا - کتنے لوگ ہیں جو اپنے فوت شدہ والدین یا عزیز و اقارب کے پہلو میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں -ایسا محبّت و تعظیم کی بنا پر ہوتا ہے -

اور حجرے میں آ پ صل اللہ علیہ و آ لہ وسلم کو اس بنا پر دفن کیا گیا کہ انبیاء کے لئے یہی حکم تھا کہ جہاں وہ فوت ہوں ان کو وہیں دفن کردیا جائے -آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے اپنی قبر کھلی جگہ بنانے سے اس بنا پر منع فرمایا کہ کہیں لوگ اس کو عبادت گاہ نہ بنا لیں -

عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ. مسند احمد1/196، مسند ابويعلى:872،2/177.
حضرت ابو عبیدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ حجاز کے یہود اور اہل نجران کو جزیرہ عربیہ سے باہر نکال دینا اور یاد رکھو کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جو اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالئے ہیں

۔
1) آپ موضوع سے فرار ہیں اور آپ کو علم تک نہیں۔
سوال برقرار ہے کہ کس اصول کی بنیاد پر معاویہ ابن ابی سفیان نے یہ فتوی دیا کہ بیت اللہ کی ہر چیز کو چوم لینا چاہیے؟

2) صحابہ کے شریعت میں دخل کے متعلق آپکا پورا کلام لغو ہے۔ یہ صحابہ پرستش ہے، چاہے جس مرضی بہانے سے آپ انہیں شریعت سازی کا حق دیں۔

3) کیا آپ کو جاندار اپنا ارادہ رکھنے والی، اور غیر جاندار اشیاء کا فرق معلوم نہیں؟ بات پہلے صاف ہو چکی تھی کہ تبرکات فقط وہ اشیاء بنتی ہیں جو غیر جاندار ہیں اور اپنا ارادہ نہیں رکھتیں۔ افسوس کہ آپ نے سبق نہیں سیکھا۔

اور آپکے ساتھی ارسلان صاحب کو کافر اور مسلمان کا فرق نہیں سمجھتے۔ مسلسل کفار والی قرآنی آیات مسلمانوں پر لگاتے ہیں، اور کفار والی احادیث مسلمانوں پر لگاتے ہیں۔
اور اب نیا شوشہ چھوڑ کر مزید جہالت کا مظاہرہ کیا جہاں انہیں پاک چیزوں اور اوجھڑی جیسی ناپاک چیزوں کے فرق کا علم نہیں، اور اس بنیاد پر ان سینکڑوں احادیثِ نبوی کو ٹھکرا رہے ہیں جہاں صحابہ کرام رسول (ص) کے وضؤ کے پاک پانی، رسول (ص) کے پسینے، رسول (ص) کے بالوں، پیالہ، کمبل، چادر، قمیص، چھڑی، گھر وغیرہ سے تبرک کر رہے ہیں۔

اور آپ محبت و انسیت کا بہانہ کیسے پیش کر سکتے ہیں جبکہ آپکے عقیدے کے مطابق تو مرنے کے بعد کوئی محبت و انسیت کا وجود ہی نہیں، اور جو اس پر یقین رکھے و بدعت و ضلالت میں مبتلا شخص ہو گیا۔ اور پھر محبت و انسیت بھی ایسی کہ جس کے لیے حجرے میں نبی (ص) کے ساتھ دفن ہو کر آپکے عقیدے کے مطابق حرام کام کیا جا رہا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
الحمدللہ، یہ میرے پوائنٹس پر اپنا تبصرہ کرنے سے ڈرتی ہے، اور یہ دوسری مرتبہ میری پوسٹ کا جواب ڈائریکٹ دینے کی ہمت نہیں کر پائی، میرا چلینج ہے اسے کہیں اگر جراءت ہے تو میری پوسٹ کا اقتباس لے کر اپنا دعویٰ ثابت کر کے دکھائے۔الحمدللہ

اس رافضی خاتون کا دعویٰ واضح "ہر چیز" یعنی "کل اشیاء" کا تھا، اب جب یہ جواب دینے سے ساکت آجاتی ہے تو کبھی کافر اور مسلمان اور کبھی ناپاک اور پاک چیزوں کی بحث کرنے لگ جاتی ہے۔

چلو اس سے پوچھتے ہیں، کہ کھجور کا تنا پاک تھا یا نہیں، یہ کہتی ہے کہ پاک تھا تو پھر اس سے تبرک حاصل کیوں نہ کیا گیا؟

اوجھڑی کے ناپاک ہونے کی وجہ سے یہ اس کے متبرک ہونے کی قائل نہیں ہے پھر یہ بار بار کیوں کہتی ہے کہ ہر چیز متبرک بن جاتی ہے، پھر یہ بولے کہ میں صرف ہر پاک چیز کے متبرک ہونے کی قائل ہوں تو اس سے پوچھیں کہ کھجور کا تنا متبرک تھا تو اس سے تبرک کیوں حاصل نہ کیا گیا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
محمد علی جواد اور طالب علم برادران کو میں کہتا ہوں کہ اتنی لمبی لمبی پوسٹیں کر کے اسے سمجھانے کی ضرورت نہیں، اسے صرف اتنا بولیں کہ محمد ارسلان ملک کے پوائنٹس کا جواب دے دے۔

دوسروں کو جواب دیتے وقت ڈھکے چھپے انداز سے محمد ارسلان کا تذکرہ کیوں کرتی ہے، واضح انداز میں جواب کیوں نہیں دیتی۔ اس سے یہ پوچھیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس لڑی میں مراسلات کی تعداد سو سے تجاوز کر چکی ہے ۔ بطور نگران گزارش ہے کہ موضوع کو سمیٹنے کی طرف آئیں ۔
جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ وفا صاحبہ اپنے موقف کا خلاصہ لکھیں اور ساتھ ہی ان کے جو مطالبات ہیں وہ بھی نکات کی شکل میں لکھ دیں ۔
تاکہ دیگر اراکین سے ان کے جوابات لیے جائیں ( اگر انہوں نے دے دیے ہیں تو ان کو بار دیگر دہرا دیا جائے )
پھر محمد ارسلان ، محمد علی جواد ، طالب علم وغیرہ بھائیوں سے بھی گزارش کی جائے گی کہ موضوع سے متعلق دو دو چار چار سطروں میں اپنا مافی الضمیر بیان کریں ۔
کوشش کریں بات مختصر ہو ، غیر متعلقہ گفتگو نہ ہو ۔ مناظرہ و مباحثہ کے اصول کے مطابق ایک دوسرے کی بات کا جواب دینے پر توجہ کی جائے ۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنا ہے یہ عالمی ایجنڈا ہے کچھ دنوں پہلے کیری کردستان گئے تھے تو انہوں نے ریفرنڈم کا اعلان کردیا تھا اس پورے معاملے کے پس منظر کو سامنے رکھیں۔ مشرقی وسطٰی کا میں مزید ممالک کو وجود میں لانا ہے۔ اور ساتھ ہی پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنا بھی اسی سازش کا حصہ ہے @کنعان بھائی سے درخواست ہیں اس پر کچھ تجزیہ پیش کریں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
@خضر حیات بھائی! چونکہ وفا صاحبہ نے یہاں "تبرک" کا موضوع اٹھایا ہے، اسی سلسلے میں عرض ہے کہ وفا صاحبہ کو ہمارے پوائنٹس کا جواب دینا چاہئے، اور وہ بھی مکمل وضاحت کے ساتھ ناکہ دوسروں کی پوسٹس میں ڈھکے چھپے انداز میں ہمارا تذکرہ کرے۔

آپ نے موضوع کے متعلق مختصرا بیان کرنے کو کہا، اگر آپ شروع سے میری پوسٹیں دیکھیں تو ایک بھی غیر متعلق نظر نہیں آئے گی، میں نے ہر پوسٹ میں دلیل دی ہے، خیر پھر سے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیتا ہوں۔

محمد ارسلان ملک کا نقطہ نظر

ہم اہل حدیثوں کا یہ اصول ہے کہ جو بات قرآن و سنت سے ثابت ہو، وہ چھوڑتے نہیں اور جو ثابت نہ ہو وہ اپناتے نہیں، تبرک کے سلسلے میں میں نے دو ٹوک مختصرا واضح لکھا ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن چیزوں کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے اور جس قدر آیا ہے وہی متبرک ہیں، بشرطیکہ اس سے کوئی اپنا عقیدہ خراب نہ کر لے"(جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے اور خوبصورت ہونٹوں سے حجرہ اسود کا بوسہ لیا، اب ہم بھی بوسہ لیں گے، لیکن کوئی حجرہ اسود کو مشکل کشا، یا حاجت روائیں یا بلائیں دور کرنے والا پتھر سمجھنے لگ جائے گا تو بلاشک و شبہ وہ شخص مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج ہے)

اب اس میں کوئی غلطی ہو تو کوئی موحد بہن بھائی میری اصلاح کر دے، لیکن وفا صاحبہ اس موقف کو تسلیم کرنے سے عاری ہے، وہ مسلسل اپنے موقف پر خوامخواہ اڑی ہوئی ہیں، اب مختصرا تین پوائنٹ نوٹ کر لیں وفا صاحبہ کے اور ان پر محمد ارسلان ملک کے کمنٹس بھی، اور پھر خود دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے۔
(1)
وفا صاحبہ کا دعویٰ
ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک ہے۔

محمد ارسلان ملک کا جواب
  1. اس دعوے کی قرآن و حدیث سے کوئی دلیل سامنے نہیں آئی، جس میں یہ عقیدہ بیان کیا گیا ہو۔
  2. کوئی بھی صحابی، تابعی، یا تبع تابعی کا نام بتا دیا جائے جو بالکل اسی طرح موقف کا قائل ہو۔
  3. یہ دعویٰ سلف صالحین سے بھی ثابت نہیں ہو سکا۔
  4. ہر چیز نہیں، بلکہ جس چیز کا ذکر صحیح احادیث میں ہے صرف وہی متبرک ہے، اگر ہر چیز متبرک ہوتی تو کھجور کا تنا بھی متبرک سمجھا جاتا۔

(2)
وفا صاحبہ کا دعویٰ
ان کا یہ مشرکانہ عقیدہ بھی ہے کہ جو چیز متبرک بن جائے وہ نفع و نقصان کی مالک بن جاتی ہے۔ (نعوذباللہ)

محمد ارسلان ملک کا جواب
اس بارے میں تو ہمارا صاف عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿١٠٧۔۔۔سورۃ یونس)
ترجمہ: اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے واﻻ نہیں ہے اور اگر وه تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے واﻻ نہیں، وه اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وه بڑی مغفرت بڑی رحمت واﻻ ہے
احادیث کا میں نے مطالعہ کیا ہے ان میں یہ عقیدہ بیان نہیں ہوا، نہ ہی کسی صحابی نے یہ عقیدہ رکھا ہے، چونکہ اس خاتون کا تعلق مشرکین سے ہے اسی لئے اس نے اپنا عقیدہ بیان کر دیا ہے۔

یہاں اس سے صرف دو ٹوک الفاظ میں یہ پوچھیں کہ کیا یہ اللہ کے سوا بھی کسی پتھر، حجر، شجر، یا انسان کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتی ہے یا نہیں۔
  1. اگر یہ انکار کرتی ہے تو پھر اس سے پوچھیں کہ اوپر اس نے جو یہ کہا ہے کہ نفع و نقصان متبرک چیزوں میں آ جاتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
  2. اگر یہ اقرار کرتی ہے تو پھر اس کے مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے میں کوئی شک نہیں۔

(3)
وفا صاحبہ کا دعویٰ
پہلے وفا صاحبہ کا دعویٰ تھا کہ ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک بن جاتی ہے، اب اس نے نئی بات شروع کی ہے کہ جو "شعائراللہ" بھی کسی سے مس ہو جائیں تو وہ بھی متبرک ہے۔ نجانے یہ خاتون آگے کس کس چیز کے مس ہونے کو متبرک شمار کرے گی۔

محمد ارسلان ملک کا جواب
میرا جواب یہ ہے کہ یہ عورت صرف دعویٰ کرنا جانتی ہے، دلائل اس کے پاس کچھ بھی نہیں، جب ثابت کرنا ہو تو خاص کر میری پوسٹوں کو نظر انداز کر جاتی ہے۔ شعائر اللہ کے کسی سے چھو جانے سے اس چیز کا متبرک ہونے کی قرآن و حدیث سے دلیل دیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ۔۔۔سورة البقرة
ترجمه: صفااور مروه اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں
صفا اور مردہ کا شعائراللہ ہونے میں کوئی شک نہیں، وفا صاحبہ بتائیں کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں صفا اور مردہ جانے والے لوگ اس سے مس ہوتے ہیں، تو کیا وہ لاکھوں لوگ متبرک ہیں:
  1. اگر کہتی ہے کہ ہاں تو پھر اس کو کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں تاکہ اس کے دماغ کا علاج کیا جا سکے۔
  2. اگر کہتی ہے کہ نہیں تو اس سے گزارش ہے کہ ایسے دعوے نہ کیا کرے جو ثابت نہ کر سکے۔

آخر میں خضر حیات بھائی سے گزارش

بھائی آپ اس خاتون کو انہی پوائنٹس پر گفتگو کرنے کو بولیں، داعش وغیرہ یا خانہ کعبہ پر حملے کی دھمکیوں جیسے مضامین سے پرہیز کریں، یا علیحدہ تھریڈ کھول لیں، کیونکہ یہ خاتون صرف اس تھریڈ کے علاوہ کسی اور تھریڈ میں نظر نہیں آئی۔
اور آخر میں یہ بھی بیان کر دوں کہ یہ عورت چاہے جتنی لمبی گفتگو کر لو نہیں مانے گی، کیونکہ ان لوگوں کا مقصد کوئی بات وغیرہ سمجھنا نہیں ہوتا( واللہ اعلم، یہ میرا گمان ہے غلط بھی ہو سکتا ہے) لہذا اس کو یہاں تک ہی رکھیں، لیکن اگر اس کے بعد بھی لمبی لمبی گفتگو شروع ہو جاتی ہے تو پھر مزید میں تو کچھ لکھنے سے معذرت کرتا ہوں۔
 
Last edited:
Top