• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش خلافت: بدعت و شرک کے نام پر خانہ کعبہ، مسجد النبوی، مسجد الحرام اور ہر متبرک جگہ کی تباہی

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
اب یہ فزیکل برکت کیا بلا ہے اس پر آپ روشنی ضرور ڈالیے ۔۔
یہ وہ بلا ہے جس کے ذریعے جناب عائشہ بیماری کے خلاف شفا کے حصول کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ تمام کے تمام صحابہ رسول (ص) سے مس شدہ چیزوں کی اس بلا (فزیکل برکت) کے اسیر تھے۔
ہمارے نزدیک رافضی گدھا کعبہ جا کر بھی گدھا ہی رہتا ہے جب تک عقیدہ درست نہ کرے ۔
اللہ تعالی آپ کو حسن کردار ادا فرمائے۔ امین۔
کعبے سے مس ہونا اتنا ہی مقدس عمل ہوتا تو قریش کے جثوں کو کلیب بدر میں نہ پھینکا جاتا ۔ قریش کعبے کا خادم قبیلہ تھا دن میں کتنی بار یہ کافر مس ہوتے ہوں گے غلاف کعبہ سے لے کر در کعبہ تک سے ؟ جائیے ان کے مزار تعمیر کیجیے اور بین کیجیے کہ ہائے کعبے سے مس ہونے والے ۔
کاش کہ آپ نے کافر و مسلم کا فرق کیا ہوتا۔ تب آپ تبرکاتِ نبوی میں برکت کا انکار نہ کرتیں۔
کعبۃ اللہ کو مس کرنا نہ حج کا رکن ہے نہ اسلام کا کوئی فریضہ۔ جو کام خلیل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا نہ اس کا حکم دیا ہم بھی نہیں کرتے ۔
کیا پھر یہ درست نہیں کہ آپ اس لیے نہیں کرتے کیونکہ یہ آپ کے نزدیک بدعت اور شرک ہے؟ تو پھر کیوں 70 مراسلے گذر جانے کے باوجود آپ لوگوں کو توفیق نہیں ہو رہی کہ کھل کر اس سادہ سے سوال کا جواب دیں کہ:۔

آپ تو نہیں کرتے۔ مگر اس تصویر میں جو لوگ خانہ کعبہ کو دونوں ہاتھوں سے مس کر رہے ہیں، اسے چوم رہے ہیں، اور اسکے وسیلے سے اپنی حاجات طلب کر رہے ہیں، وہ بدعت و شرک کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ داعش کی طرح آپکا بھی عقیدہ ہے کہ خانہ کعبہ کو شرک کا اڈہ بنا دیا گیا ہے۔

یہ ایک سادہ سا سوال ہے۔ مگر اس سوال سے آپ سب الرجک نظر آ رہے ہیں۔ مجھ پر ہزار دیگر غیر متعلقہ ٹاپک کھول کر طعن کر لیے، مگر اس سادہ سے سوال کا جواب نہیں دیا۔
اگر آپ مہوش علی ہیں تو یہ آپ کو نام بدلنے کی کیا سوجھی ؟ وفا کے نازک زنانہ فرضی نام سے آپ نے یہاں ایک رکن بچی کے لیے جو الفاظ استعمال کیے میں سمجھتی ہوں ایسا کوئی خاتون نہیں کر سکتی ، اسی لیے میں نے تلخ الفاظ استعمال کیے۔ اگر آپ واقعی خاتون ہیں تو آپ کو شرم آنی چاہیے کم سن بچیوں سے ایسے کنائے استعمال کرنے پر۔
نام کے حوالے سے اوپر ارسلان صاحب کو جواب دے چکی ہوں۔
میں اس فورم پر نئی ہوں اور مجھے کچھ علم نہیں کہ آپ کس رکن بچی کے متعلق گفتگو کر رہی ہیں اور میں نے ان سے کیا گستاخی کر لی ہے۔ اگر خطائے بشری سے کوئی سخت بات کہہ دی ہے تو معذرت اور اللہ تعالی میری تحریر میں حسن عطا فرمائے کہ کسی کی دل آزاری نہ کروں۔ امین۔
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
حقیقت حال اللہ بہتر جانتا ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ داعش کی طرف سے شرک کے اڈوں کی تباہی سے بوکھلا کر قبر پرستوں نے پرانی باتیں لے کر نئے مغالطے ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے ۔
خانہ کعبہ ، مسجد نبوی اور دیگر مقامات مقدسہ کے بارے میں جو سعودی موقف ہے بلکہ سلف صالحین کا موقف ہے وہ نیا نہیں آیا ۔ یہ شروع سے ہی موجود ہے ۔ لیکن ابھی تک الحمد للہ یہ تمام مقدس مقامات جوں کے توں موجود ہیں ۔ اگر سعودی علماء کا موقوف وہی ہوتا جو قبر پرستوں کی طرف سے گھڑ کر بتایا جارہا ہے تو جس طرح سعودیہ میں شرک کے اڈوں کی صفائی کردی گئی تھی اسی طرح یہ مقامات مقدسہ بھی متاثر ہوتے ۔ ان مقامات کا جوں کا توں باقی رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ شرک پرست اس حوالے سے جو پراپیگنڈہ کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے ۔
خضر حیات صاحب!
اتفاقاً نظر پڑی تو آپ کے نام کے ساتھ لکھا ہے کہ آپ "علمی نگران" ہیں اور آپ انتظامیہ کا حصہ ہیں۔
تو کیا انتظامیہ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قرانی حکم کی مخالفت کرتے ہوئے بحث کے دوران یوں دوسروں کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے؟ میں تو انتظامیہ سے امید کر رہی تھی کہ وہ اس چیز کو روکیں گے، مگر یہاں تو انتظامیہ خود یہ فضیحت ڈھاتے نظر آ رہی ہے۔
آپ ہمیں شرک پرست اور قبر پرست بناتے ہیں، جبکہ ہمارے نزدیک آپ کی خود ساختہ توحید ہرگز رحمانی توحید نہیں بلکہ ابلیسی توحید ہے جس کے نام پر آپ نے رسول (ص) سے مس شدہ متبرک مقامات کو مسمار کر دیا، کچھ پر ٹوائلٹ تعمیر کیے۔ ۔۔۔
توکیا پھر ہم بھی آپ کے یہاں گفتگو میں "شرک پرست" جیسے خطابات پر آپکو ابلیسی توحیدی کے القابات سے نوازتے ہوئے گفتگو شروع کر دیں؟

یا پھر یہ طرز عمل درست اور قرآن کے مطابق ہو گا کہ ایک دوسرے کے لیے ایسے القابات سے احتراز کریں، اور قرآنی حکم کے مطابق فقط اور فقط دلیل اور حسن کے ساتھ ایک دوسرے سے گفتگو کریں؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
کیا فورم کے اصولوں میں لکھا ہے کہ ان چیزوں اور ناموں کو یوزر نیم کے طور پر نہیں رکھا جا سکتا جو کہ آپ کی پسند ہوں۔ کربلا میں جناب عباس (برادرِ جناب زینب و حسین) کی وفا مشہور ہے وفائے عباس کے نام سے جس وجہ سے وفا مجھے بہت عزیز ہے۔ میرے لیے کیا نئے قوانین اپنی طرف سے گھڑے جا رہے ہیں تاکہ مطعون کیا جا سکے؟


آپکا جواب گول مول ہے۔ مجھے نہیں علم کہ آپ نے جناب عائشہ کا تبرک نبی سے نفع اٹھانے اور اس سے بیماری کے خلاف شفا حاصل کرنے کے استعمال پر کوئی وضاحت کی ہو۔ صحیح مسلم کی کوئی شرح اگر اسکے متعلق کچھ فرق رکھتی ہے تو پھر آپکو یہ شرح یہاں بیان کرنی چاہیے۔


بالکل یہ اصول ہے کہ جو بے جان اشیاء رسول (ص) سے مس ہوئیں، وہ متبرک ہو گئیں اور ان میں نفع و نقصان کی صلاحیت پیدا ہو گئی، جناب عائشہ انہیں بیماری کے خلاف شفا کے حصول کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کافر اور مسلم کے فرق کا علم بھی نہیں اور اسکے ساتھ ساتھ بے جان اشیاء اور شعور رکھ کر صحیح یا غلط کا فیصلہ کرنے والے انسانوں کے فرق کا علم بھی نہیں۔ اور اسی وجہ سے آپ غلط استدلال پیش کر کے اس چیزوں میں برکت کا انکار کر رہے جو کہ رسول (ص) مس ہوئیں۔



مسلم اور کافر کے فرق کا علم ہوتا تو کفار کا ذکر کر کے رسول (ص) کے کرتے میں موجود برکت کا انکار نہ کرتے۔ اور مسلمانوں کے رسول (ص) کے کرتے سے برکت حاصل کرنے کے واقعات کی جگہ کافر و منافق کے واقعے پر اپنے عقیدہ کی بنیاد نہ رکھتے۔

کاش کہ کافر کی جگہ مسلمانوں کے واقعات سے سبق پکڑ کر آپ نے اپنا عقیدہ بنایا ہوتا۔


1۔ علی ابن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 256

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033، 3032

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘


بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 454

4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم : 4715

5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘

ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48



آپ نے تو "عدم ذکر" کو "ذکرِ عدم" ہی بنا ڈالا۔
اگر اس تنے سے برکت کے حصول کی کوئی روایت نہیں تو اس سے یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ تبرک حرام ہو گیا، اور پھر اس بنیاد پر آپ نے کیسے وہ سینکڑوں روایات ردی کی ٹوکری کی نذر کر ڈالیں جن کے مطابق صحابہ تبرکات نبوی سے نفع حاصل کرتے تھے، انہی بیماری سے شفا کے لیے استعمال کرتے تھے؟
السلام علیکم -

محترمہ -

جو برکت یا تاثیر الله نے اپنے نبی کے جسم یا کپڑوں یا کسی اور مس شدہ چیز میں ڈال دے -اور اس کی قرآن اور صحیح احادیث نبوی میں دلیل موجود ہو تو اس پر ایمان لانا ہم پر فرض ہے - لیکن ایسی تاثیر و برکت جو نہ قرآن سے ثابت ہو اور نہ احدیث نبوی سے ثابت ہو وہ شرک و بدعت کے زمرے میں آے گی- نقصان اور فائدہ صرف الله کے ہاتھ میں ہے - اگر نبی کریم بشر نہ ہوتے تو آپ کو بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچتی نہ آپ پر جادو اثر کرتا اور نہ آپ پر زہر کا اثر ہوتا - آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم کو مجسمہ برکت ہونے کے باوجود ان تمام آزمائشوں سے گزرنا پڑا جیسا کہ دوسرے لوگ ان آزمائشوں سے گزرتے ہیں- آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم کا جبہ بیماری میں دوسروں کے لئے بائث برکت و شفا تھا - لیکن آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم بذات خود مرض الموت میں شفا یاب نہ ہوسکے اور آپ کو بھی موت کا سامنا کرنا پڑا- اور جن صحابہ و صحابیات کو اس جبہ سے شفا ملی اوہ بھی ہمیشہ زندہ نہیں رہے -

وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ سوره التکویر ٢٩
اور نہیں ہوتا تمھارے چاہنے سے کچھ بھی مگرجو الله چاہے گا جو تمام جہان کا رب ہے


جن صحابہ کرام کو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی چادر مبارک وغیرہ میں دفن کیا گیا تو ان کی نجات ان کے اپنے عمل و ایمان کی وجہ سے ہوئی - ورنہ عبد الله بن ابی جسے منافقوں کو بھی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی چادر مبارک نصیب ہوئی لیکن اس کا کفر اور منافقت اس کو الله کے عذاب سے نہ بچا سکے - حتیٰ کے اس کے لئے مغفرت کی دعا مانگنے سے بھی الله نے اپنے نبی کو صاف منع کردیا -

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ سوره التوبہ ٨٠
تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ اگر تو ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی الله انہیں ہر گز نہیں بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے الله اور اس کے رسول سےکفر کیا اور الله نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا-


صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین شرک سے اتنا دور بھاگتے تھے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کو مسلم فوج کے جنرل کےعہدے سے صرف اس لئے معزول کردیا کہ کہیں مسلمان جنگوں میں الله رب العزت سے زیادہ خالد بن ولید رضی الله عنہ پر نہ بھروسہ کرلیں (کہ خالد الله کی تلوار ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا) - مستدرک حاکم -

جہاں تک حرم اور قبر نبی کریم کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی اس زمین پر انتہائی با برکت مقامات ہیں - لیکن اگر یہ مقامات نفع نقصان کے ملک ہوتے تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین ان جگہوں کو کبھی نہ چھوڑتے - ان ہی سے چپکے رہتے- اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی قبریں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ پاک ہستیاں زمین کے مختلف مقامات پر رہائش پذیر ہوئیں اور وہیں موت سے ہمکنار ہوئیں- کیا ان کی محبّت نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے لئے ختم ہو گئی تھی جو انہوں نے جنّت البقع یا مسجد نبوی یا مسجد حرام کے نزدیک رہائش اختیار نہیں کی؟؟؟ -١٢٤٠٠٠ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں سے صرف چند صحابہ کرام کی قبریں مدینہ یا مکہ میں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان جگہوں کو با برکت ضرور سمجھتے تھے لیکن نفع و نقصان کا مالک صرف الله کو جانتے تھے -
 
Last edited:

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
تبرکات کے متعلق عامر یونس بھائی نے پوسٹ کر دی ہے۔ جہاں تک آپ نے تبرکات میں نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت کی بات کی ہے، یہی عقیدے کی خرابی ہے۔
اور دوسری بات آپ اپنا اصول ثابت کرنے میں بھی ناکام رہیں ہیں، ہر چیز میں وہ کھجور کا تنا بھی شمار ہوتا ہے لیکن اس کو تبرک کے طور پر بعد میں نہیں لیا گیا۔
اگر تبرکات سے نفع اٹھانے عقیدے کی خرابی ہے تو جناب عائشہ کا عقیدہ خراب تھا کیونکہ وہ رسول (ص) کے جبے سے نفع اٹھاتی تھیں، تمام کے تمام اجمعین صحابہ ، ان کُل صحابہ کا عقیدہ خراب تھا، کیونکہ وہ تبرکات نبی کو نفع اٹھانے کی غرض سے استعمال کرتے تھے، اور معاذ اللہ معاذ اللہ عقیدے کی خرابی کے آپکے اس الزام سے بذات خود رسول (ص) ذات اقدس تک پامال ہو گی کیونکہ رسول (ص) خود صحابہ میں اپنے بال اور کُلی کا پانی اور دیگر تبرکات تقسیم کرتے تھے، اور خود اپنے مرنے والے رشتے داروں اور صحابہ میں اپنے چادر اور کرتہ تقسیم کیا تاکہ وہ انکا کفن بنے اور انکو اسکی برکت سے نفع حاصل ہو۔

سلفی حضرات کی بیماری یہ تھی کہ وہ کافروں کے لیے نازل ہونے والی آیات مسلمانوں پر چسپاں کر کے انہیں مشرک و کافر بناتے تھے۔ مگر یہ بیماری قرآنی آیات تک محدود نہ رہی، بلکہ یہ بیماری یہاں تک پہنچ گئی کہ تبرکات نبوی کے جو واقعات کفار کے لیے مخصوص تھے، انکو سلفی حضرات نے مسلمانوں پر چسپاں کر کر تبرکِ نبوی کا انکار کرنا شروع کر دیا۔ اوپر کی تمام کی تمام گفتگو اسی سلفی بیماری کی گواہی دے رہی ہے۔

اور عامر یونس صاحب کی بات کہاں سے میرے سوال کا جواب ہے؟ بلکہ جو انہوں نے بمشکل 3 روایات رسول (ص) کے مشروع تبرکات کے نام سے نقل کی ہیں، وہ تو بذات خود آپ لوگوں کی تکذیب کر رہی ہیں اور یہ اصول ثابت کر رہی ہیں کہ جو چیز بھی رسول (ص) سے مس ہوئی، وہ متبرک بن گئی۔
ان 3 روایت میں پہلی رسول (ص) کے جبے کی ہے اور جناب اسماء بنت ابی بکر اور انکی بہن جناب عائشہ کی ہے کہ وہ رسول (ص) کے جبے کو دھوتی تھیں، اور پھر اس پانی کو بیماری سے شفا کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ تو جبہ میں یہ بیماری سے شفا میں مدد دینے کا فائدہ کہاں سے آ گیا؟؟؟؟ یہ روایت بذات خود ثابت کر رہی ہے کہ جبہ میں یہ برکت یہ فائدہ اس لیے آیا کیونکہ وہ رسول (ص) سے مس شدہ تھا۔

دوسری اور تیسری روایات پیالے اور بالوں کے متعلق ہیں، اور بخاری و مسلم و صحاح ستہ کی احادیث کا پورا دفتر ہے جو ثابت کر رہا ہے کہ پیالے سے صحابہ برکت حاصل کرتے تھے اور رسول (ص) کے بالوں کو جناب ام سلمہ اور مدینہ کے سارے صحابہ بیماری کسے شفا کے لیے استعمال کرتے تھے اور نظر بد سے بچنے کے لیے بھی۔

تو اب آپ بتلائیے کہ یہ چیزیں اگر رسول (ص) سے مس ہونے کی وجہ سے متبرک نہیں بنیں تو پھر کس وجہ سے متبرک بنی ہیں؟

خیر مجھے تو 80 مراسلوں کے بعد خانہ کعبہ کو مس کرتے اور چومتے لوگوں کے متعلق کوئی جواب نہیں ملا تو پھر آپ کہاں اس سوال کا جواب دینے والے ہیں۔

اور تنے کے متعلق میں تفصیلی جواب اوپر دے چکی ہوں۔ مگر آپ نے سوائے انکار کرنے کے کوئی ایک دلیل بھی جواب میں نہیں دی ہے۔ اور دلیل یہ ہوتی کہ کسی صحابی نے تنے سے برکت حاصل کرنے کو شرک اور بدعت کہا ہوتا۔ اور دلیل ہوتی جب آپ ان سینکڑوں روایات کا جواب دیتے جو یہ بیان کر رہی ہیں کہ ہر وہ چیز متبرک بن گئی جو رسول (ص) سے مس ہوئی اور صحابہ انکی تعظیم کرنے لگے اور ان سے نفع حاصل کرنے لگے۔
 

محمود

رکن
شمولیت
اگست 19، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
41
نبیﷺ کے تو پسینے سے بھی برکت حاصل کی جاتی تھی ۔
نفع و نقصان اللہ ہی طرف سے ہوتا ہے ۔لیکن اللہ اشیا، میں بھی اپنے حکم سے نفع و نقصان رکھ دیتا ہے ۔
بے شمار اشیا، سے ہم دن رات نفع حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن یاد رہے کوئی شے بذات خود کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں ۔
میں نے شروع سے سارا تھریڈ پڑھا ہے میری ذاتی رائے میں اتنے سب لوگوں کے مقابلے میں وفا کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آپ اس سے سمجھ لے

عمر ابن خطاب نے حجر الاسود کو مخاطب کر کے کہا کہ:

توصرف ایک پتھر ہے اور مجھے پتا ہے کہ تجھ میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے چوم رہےہیں، تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کعبہ کے غلاف ، حجراسود اورقرآن مجید کوچومنے کا کیا حکم ہے ؟

الحمدللہ

زمین میں حجراسود کےعلاوہ کسی اورجگہ کوچومنا بدعت ہے ، اورحجراسود بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی میں چوما جاتا ہے وگرنہ یہ بھی بدعت ہوتا ، اورعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ توحجراسود کا بوسہ لیتے وقت یہ کہا کرتے تھے :

( مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ توکوئي نفع دے سکتا ہے اورنہ ہی نقصان ، اوراگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرا بوسہ نہ لیا ہوتا تومیں کبھی بھی تیرا بوسہ نہ لیتا ) ۔

اس لیے کعبہ کے غلاف یا پتھروں اوررکن یمانی یا مصحف کوچومنا جائز نہيں ہے ، اوراسی طرح بطور تبرک اسے چھونا بھی ۔.

الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کتاب کا نام
جائز او رناجائز تبرک

مصنف
ڈاکٹر علی بن نفیع العلیانی

ناشر
مکتبہ السنہ الکوثر اسلامی پبلشرز کراچی

TitlePages---Jaiz-Aur-Najaiz-Tabarruk.jpg

تبصرہ

صالح اور بزرگ حضرات کی شخصیات اور ان سے متعلق مقامات اور دیگر آثار سے تبرک حاصل کرنا عقیدہ و دین کے اہم مسائل میں سے ہے۔ اور اس بارے میں غلو اور حق سے تجاوز کی وجہ سے قدیم زمانہ سے آج تک لوگوں کی ایک معقول تعداد بدعات اور شرک میں مبتلا رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ مسئلہ نہایت پرانا ہے حتیٰ کہ سابقہ جاہلیت جس میں رسول اللہﷺ مبعوث ہوئے، ان کا شرک بتوں کو پوجنا اور ان مورتیوں سے تبرک حاصل کرنا تھا۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر علی بن نفیع العلیانی نے ایک کتاب لکھی جس میں جائز اور ناجائز تبرک کو شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا تھا۔ زیر نظر کتاب اسی کتاب کا اردو قالب ہے جسے اردو میں منتقل کرنے کا کام ابوعمار عمر فاروق سعیدی نے انجام دیا ہے، جو کہ فاضل مدینہ یونیورسٹی اور بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ بعض شخصیات ، مقامات اور اوقات ایسے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی ہے تو اس برکت سے استفادہ رسول اللہﷺ کے فرمودہ طریقے سے ہی ممکن ہے۔ کسی جگہ یا وقت کی فضیلت اس بات کا تقاضا نہیں کرتی کہ اس سے تبرک بھی لیا جائے مگر یہ کہ اللہ کی شریعت سے ثابت ہو۔(ع۔م)


اس کتاب جائز او رناجائز تبرک کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شکریہ۔ مگر آپ جواب کو گھما پھرا رہے ہیں۔
آپ کے نزدیک خانہ کعبہ کو مس کرنا درست نہیں۔ کیا اس"درست نہیں" کا مطلب ہے یہ بدعت ہے اور شرک ہے؟
سوال بہت سادہ سا تھا:
آپ لوگوں کے عقیدے کے مطابق جو لوگ خانہ کعبہ کو متبرک سمجھتے ہوئے چھو رہے ہیں، اسے چوم رہے ہیں، اور اسکے وسیلے سے اپنی حاجات طلب کر رہے ہیں، تو کیا وہ بدعت و شرک کر رہے ہیں؟
یعنی داعش سے منسوب بیان اور آپکے عقیدے میں یہ مشترک ہے کہ خانہ کعبہ میں شرک ہو رہا ہے؟
یعنی داعش کی طرح آپکا بھی عقیدہ ہے کہ خانہ کعبہ اس وقت شرک کا اڈہ بنا ہوا ہے؟
اطمنان رکھئے پہلے خانہ کعبہ کے حوالے سے داعش اور آپکے مشترکہ عقائد واضح ہو جائیں، اسکے بعد قبروں کو مسمار کر کے زمین کے برابر کر دینے کی بدعت پر گفتگو کریں گے، جبکہ رسول اللہ (ص) کی قبر کے قبر بھی زمین کے برابر نہ تھی اور نہ ہی صحابہ کی قبریں جنہیں آپ حضرات نے اپنے عقیدے کے نام پر بلڈوزر چلوا کر مسمار کر کے زمین کے برابر کر دیا۔ مگر یہ گفتگو اختتام پر ہو گی، یا پھر علیحدہ ڈورا کھول لیں گے۔
خضر حیات صاحب!
اتفاقاً نظر پڑی تو آپ کے نام کے ساتھ لکھا ہے کہ آپ "علمی نگران" ہیں اور آپ انتظامیہ کا حصہ ہیں۔
تو کیا انتظامیہ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قرانی حکم کی مخالفت کرتے ہوئے بحث کے دوران یوں دوسروں کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے؟ میں تو انتظامیہ سے امید کر رہی تھی کہ وہ اس چیز کو روکیں گے، مگر یہاں تو انتظامیہ خود یہ فضیحت ڈھاتے نظر آ رہی ہے۔
آپ ہمیں شرک پرست اور قبر پرست بناتے ہیں، جبکہ ہمارے نزدیک آپ کی خود ساختہ توحید ہرگز رحمانی توحید نہیں بلکہ ابلیسی توحید ہے جس کے نام پر آپ نے رسول (ص) سے مس شدہ متبرک مقامات کو مسمار کر دیا، کچھ پر ٹوائلٹ تعمیر کیے۔ ۔۔۔
توکیا پھر ہم بھی آپ کے یہاں گفتگو میں "شرک پرست" جیسے خطابات پر آپکو ابلیسی توحیدی کے القابات سے نوازتے ہوئے گفتگو شروع کر دیں؟
یا پھر یہ طرز عمل درست اور قرآن کے مطابق ہو گا کہ ایک دوسرے کے لیے ایسے القابات سے احتراز کریں، اور قرآنی حکم کے مطابق فقط اور فقط دلیل اور حسن کے ساتھ ایک دوسرے سے گفتگو کریں؟
جس بات کا آپ رونا روہی رہی ہیں اس کی ابتداء آپ کی طرف سے سب سے پہلے ہوئی ہے اور آپ نے کمال عدم استحیاء کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمیع علماء سعودیہ کو ’’ منافق ‘‘ قرار دیا ہے ۔
حالانکہ نفاق ایسی چیز کا جس کا تعلق دل کے ساتھ ہے ۔ کیا آپ دل کے بھید جانتی ہیں ؟
رہا کسی کو ’’ قبر پرست ‘‘ قرار دینا ، تو اس چیز کا تعلق بالکل واضح حقائق کے ساتھ ہے ، اس کا مشاہدہ کیا ہے تو کہا گیا ہے ۔
رہا آپ کا ’’ ابلیسی توحید ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا ، تو آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ ’’ ابلیس ‘‘ کے عقیدہ توحید میں کسی قسم کا خلل نہیں تھا ، وہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہراتا تھا ۔
اس کی بیماری یہ تھی کہ اس نے حکم خداوندی کے مقابلے میں اپنے ذوق اور عقل کو ترجیح دی تھی اور یہی بیماری آج کے گمراہوں کے اندر پائی جاتی ہیں جن میں قبر پرست لوگ پیش پیش ہیں ۔ توحید و شرک اور بدعت کے مسائل میں بھی اہل حدیث اور اہل بدعت کے درمیان ایک بنیادی فرق یہی ہے کہ اہل حدیث اللہ اور اس کے رسول فہم سلف کے پابند رہتے ہیں جبکہ اہل بدعت اپنی عقل پرستی اور قیاسی آرائیوں سے نصوص دینیہ سے تجاوز کرتے ہیں ۔
باقی آپ ایک دفعہ ایک دفعہ شرارے چھوڑ کر بار بار ’’ جدال احسن ‘‘ اور ’’ موعظۃ حسنہ ‘‘ کی تلقین کر رہی ہیں اس بات کا خیال آپ کو اگر پہلے سے ہوتا تو آپ اس طرح ’’ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ‘‘ جوڑ کر یوں ’’ کعبہ کے پاسبانوں ‘‘ کو اس کے دشمنوں کی صف میں کھڑا نہ کرتیں۔
آپ کی علمی امانت اور باحثانہ دیانت اس وقت کہاں تھی جب آپ نے کمال ڈھٹائی کا مظاہر کرتے ہوئے سلفی اور سعودی علماء کو ’’ خانہ کعبہ ‘‘ اور ’’ مسجد نبوی ‘‘ کو تباہ کرنے والا گردانا اور اس ’’ فریۃ عظیمۃ ‘‘ کی جب کوئی نظریاتی یا واقعاتی دلیل نہ سوجھی تو انہیں ’’ منافق ‘‘ بھی قرار دے دیا ۔
شروع سے ہی کج بحثی کی داغ بیل ڈال کر دوسروں سے ’’ دلائل ‘‘ مانگ رہی ہیں ۔ جو شرک ، بدعت کے خلاف دلائل دیتا ہے اس کو آپ ’’ خانہ خدا ‘‘ اور ’’ مسجد رسول ‘‘ کے دشمن قرار دینا شروع کردیتی ہیں کیا یہ انصاف ہے ؟
سوالات یہ ہیں:
1۔ داعش نے 3 ہفتے سے زیادہ وقت گذر جانے کے باوجود ایک مرتبہ بھی اس خبر کی آفیشیلی تردید کرنے کی زحمت کیوں نہ کی۔
2۔ داعش کے خانہ کعب کے پتھر، اور بدعت اور شرک کے عقیدے کے متعلق اٹھائے گئے دلائل کا جواب۔
اور آپکے عقیدے کے مطابق نہ مسجد النبی میں کوئی فزیکل برکت ہے، نہ مسجد الحرام میں۔۔۔ اور اس اصول کے تحت آپکے عقیدے کے مطابق خانہ کعبہ میں بھی کوئی برکت نہیں اور یہ فقط اور فقط خالی پتھر ہے۔
یہی بات داعش سے منسوب بیان میں موجود تھی۔
بالا مشارکات میں جو آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات یا آپ سے متعلقات سے تبرک کے حوالے سے بیان کی ہے ، اس ضمن میں ہمارے موقف کا خلاصہ درج ذیل ہے :
’’ تبرک ‘‘ کا معنی ہے ’’ خیر کا حصول ‘‘ کیونکہ یہ لفظ برکت سے جس کے معنی ہیں ’’ خیر اور بھلائی ‘‘ ۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ’’ خیر اور بھلائی ‘‘ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اللہ کا جہاں جی چاہتا ہے اللہ برکت رکھتا ہے ۔ کوئی چیز بابرکت ہے یا نہیں ؟ کسی چیز سے تبرک کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ اس کا فیصلہ صرف اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرسکتے ہیں ۔
گویا تبرک کا معاملہ عقل پرستی اور کسی کے ذوق پر مبنی نہیں بلکہ خالص توقیفی مسئلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے اہل حدیث تبرک کے مسائل میں نصوص شریعت اور فہم سلف کے پابند ہیں ۔
آپ کا یہ کہنا کہ
جبکہ اصول یہ تھا کہ جو چیز رسول (ص) مس ہو جائے، اس میں فزیکل برکت پیدا ہو جاتی ہے، اس کی تعظیم فرض ہو جاتی ہے، اس میں نفع و نقصان کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور صحابہ رسول (ص) سے مس شدہ ہر ہر چیز سے یہ فزیکل برکت حاصل کرتے تھے، چاہے یہ پیالہ ہو، یا چادر، یا قمیص، یا سکہ یا پانی یا چھڑی وغیرہ۔
اس اصول کی سب سے پہلے قرآن وسنت سے دلیل بیان فرمادیں ۔ اور اس کی جامع مانع وضاحت فرمادیں ۔ تاکہ بعد میں آپ کو اس میں استثناءیا تخصیص نہ کرنا پڑے جیسا کہ آپ نے ’’ ابو طالب اور عبد اللہ بن ابی ‘‘ کا حوالہ دینے پر ’’ کافر و مسلم ‘‘ کا بیان کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ آپ کا بیان کردہ اصول مطلقا نہیں بلکہ اس کے کچھ مستثنیات بھی ہیں ۔

ایک ایک کرکے بات آگے بڑھاتے ہیں تاکہ آپ کووہ تمام شکوے شکایتیں نہ ہوں جو سابق میں آپ دہرا چکی ہیں ۔
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
السلام علیکم -
محترمہ -
جو برکت یا تاثیر الله نے اپنے نبی کے جسم یا کپڑوں یا کسی اور مس شدہ چیز میں ڈال دے -اور اس کی قرآن اور صحیح احادیث نبوی میں دلیل موجود ہو تو اس پر ایمان لانا ہم پر فرض ہے - لیکن ایسی تاثیر و برکت جو نہ قرآن سے ثابت ہو اور نہ احدیث نبوی سے ثابت ہو وہ شرک و بدعت کے زمرے میں آے گی-
وعلیکم السلام جواد صاحب:
قرآن اور درجنوں احادیث احادیث سے فقط ایک اصول ثابت شدہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو رسول (ص) سے مس ہوئی، وہ بابرکت ہو گئی۔ صحابہ نے ہر مس شدہ چیز کو بابرکت سمجھا، اس سے نفع حاصل کرنا چاہا۔ پھر یہ کیسے ہے کہ آپ ابھی تک ایک بہانے یا دوسرے بہانے اسے شرک بھی بنا رہے ہیں اور بدعت بھی؟

نقصان اور فائدہ صرف الله کے ہاتھ میں ہے -
بلاشبہ تمام حقیقی نفع اور نقصان کا مالک اللہ تعالی کی ذات ہے۔ مگر جب یہی اللہ قرآن اور احادیث کے ذریعے یہ اصول بیان فرما رہا ہے کہ رسول (ص) سے مس شدہ تبرکات مسلمانوں کو نفع پہنچاتے ہیں تو پھر آپ کو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ اس عقیدے کا انکار کیوں؟

اگر نبی کریم بشر نہ ہوتے تو آپ کو بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچتی نہ آپ پر جادو اثر کرتا اور نہ آپ پر زہر کا اثر ہوتا - آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم کو مجسمہ برکت ہونے کے باوجود ان تمام آزمائشوں سے گزرنا پڑا جیسا کہ دوسرے لوگ ان آزمائشوں سے گزرتے ہیں- آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم کا جبہ بیماری میں دوسروں کے لئے بائث برکت و شفا تھا - لیکن آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم بذات خود مرض الموت میں شفا یاب نہ ہوسکے اور آپ کو بھی موت کا سامنا کرنا پڑا- اور جن صحابہ و صحابیات کو اس جبہ سے شفا ملی اوہ بھی ہمیشہ زندہ نہیں رہے -
ایسی عذر پیش کر کے آپ بہت ظلم والی بات کرتے ہیں۔ اللہ تو تمام نفع و نقصان کا مالک ہے، مگر آزمائشوں سے تو انہیں بھی گذرنا پڑتا ہے جو اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ موت تو انکو بھی آئی جو ہر چیز کے مالک اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ تو کیا اس بنیاد پر اللہ کا انکار کر دیا جائے کہ اس نے آزمائش میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، اور تکلیف میں شفا دے کر مدد کرنے کی بجائے بیماری اور پھر موت دے دی؟
استغفراللہ۔
شفاعت ہو یا تبرکات عقیدہ یہ ہے کہ یہ سب اللہ کے اذن سے فائدہ دیتے ہیں۔ لیکن اگر اللہ نے تقدیر میں کچھ آزمائش یا بیماری لکھ دی ہے تو پھر اللہ کا ارادہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ مگر اس بنیاد پر شفاعت یا تبرکات نبوی کا انکار کر دینا جہالت کی بات ہو گی۔ کیونکہ اللہ کے ارادے کے آگے اللہ سے آزمائش سے بچاؤ اور بیماری سے شفا کی دعا بھی کام نہیں آتی۔ تو کیا اس بنیاد پر اللہ سے دعا کرنا چھوڑ دینی چاہیے؟

آپ نے تبرکاتِ نبوی کے نفع کا انکار کرتے ہوئے لکھا کہ: جناب رسول خدا بیماری میں مرض الموت سے شفایاب نہ ہو سکے۔
عجیب دلیل ہے آپکی۔ کس حکیم لقمان نے آپ کو کہہ دیا کہ اگر تبرک یا دعا کبھی آپ کے کام نہ آئیں تو انکا انکار کر دو؟

اللہ کا شکر ہے کہ جناب عائشہ کا عقیدہ آپکی طرح کا نہیں تھا، ورنہ وہ پھر مرض الموت میں بیماری کی شدت میں رسول (ص) کے ہاتھ انکے جسم پر برکت کے لیے نہ پھر رہی ہوتیں۔

مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرتﷺ مرض الموت میں معوذات (سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ جب آپﷺ پر بیماری کی شدت ہوئی تو میں پڑھ کر آپ ﷺ پر پھونکتی اور آپﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم پر پھیراتی برکت کے لئے، معمر نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا دونوں ہاتھوں پر دم کر کے ان کو منہ پر پھیر لے۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ج 3 ص 338۔339 ، ترجمہ از اہلحدیث عالم مولانا وحید الزمان خان صاحب

بلکہ اگر جنابِ عائشہ آپکی ہم عقیدہ ہوتیں تو پھر رسول (ص) کی مرض الموت سے چھٹکارا نہ ملنے پر تبرکات کے ساتھ ساتھ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کی بھی منکر ہو جاتیں کیونکہ اس نے بھی مرض الموت میں کچھ نہیں کیا۔

جن صحابہ کرام کو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی چادر مبارک وغیرہ میں دفن کیا گیا تو ان کی نجات ان کے اپنے عمل و ایمان کی وجہ سے ہوئی - ورنہ عبد الله بن ابی جسے منافقوں کو بھی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی چادر مبارک نصیب ہوئی لیکن اس کا کفر اور منافقت اس کو الله کے عذاب سے نہ بچا سکے - حتیٰ کے اس کے لئے مغفرت کی دعا مانگنے سے بھی الله نے اپنے نبی کو صاف منع کردیا -
استغر اللہ۔
کیا رسول (ص) کو علم نہ تھا کہ نجات انسان کے عمل کی وجہ سے ہوتی ہے؟
آپ کو ادراک تک نہیں ہو پا رہا، مگر آپ اپنے عقیدے میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ آپ کی باتوں کا نشانہ رسول (ص) کی ذاتِ اقدس بننے لگی ہے۔ کیونکہ یہ رسول (ص) تھے جنہیں بہت اچھی طرح علم تھا کہ انسان کا ایمان اور پھر اسکے اعمال اسکو فائدہ پہنچاتے ہیں، مگر اسکے ساتھ ساتھ رسول (ص) کے تبرکاتِ بھی انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اسی لیے رسول (ص) اپنا کرتہ اور چادر اور دیگر چیزیں مرنے والے صحابہ کا کفن بنواتے تھے۔

ایک مرتبہ پھر، معذرت کے ساتھ، مگر ہمارے سلفی برادران واقعی میں اس بیماری میں مبتلا ہیں کہ وہ کفار کے لیے نازل کردہ آیات مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اور یہ بیماری یہاں آگے بڑھتی ہے، اور کفار کے جنازے کے متعلق روایات کو مسلمانوں پر چسپاں کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے لیے رسول (ص) کی سنت یہ ہے:۔

1۔ علی ابن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 256

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033، 3032

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘


بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 454

4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم : 4715

5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘

ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48


جہاں تک حرم اور قبر نبی کریم کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی اس زمین پر انتہائی با برکت مقامات ہیں - لیکن اگر یہ مقامات نفع نقصان کے ملک ہوتے تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین ان جگہوں کو کبھی نہ چھوڑتے - ان ہی سے چپکے رہتے
آپ کا آرگومینٹ ہرگز درست نہیں۔
جہاد میں بھی برکت ہے، اور تبلیغ میں بھی برکت ہے، اور اس لیے صحابہ جہاد اور تبلیغ کے لیے نکلے۔

اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی قبریں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ پاک ہستیاں زمین کے مختلف مقامات پر رہائش پذیر ہوئیں اور وہیں موت سے ہمکنار ہوئیں- کیا ان کی محبّت نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے لئے ختم ہو گئی تھی جو انہوں نے جنّت البقع یا مسجد نبوی یا مسجد حرام کے نزدیک رہائش اختیار نہیں کی؟؟؟
استغفراللہ۔
پھر آپ جناب ابوبکر اور جنابِ عمر کے لیے کیا کہیں گے جن کی خواہش پر انہیں جناب عائشہ کے حجرے میں رسول (ص) کے ساتھ دفن کیا گیا؟ (حالانکہ آپکے نزدیک گنبد کے نیچے دفن ہونا درست نہیں)
اور جناب شیخین تنہا نہیں، بلکہ جناب عائشہ کہتی ہے کہ بے تحاشہ صحابہ ان سے اس خواہش کا اظہار کرتے رہے کہ انہیں حجرے میں دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔

بلکہ پہلے صفحہ پر موجود آرٹیکل میں پر اس مسئلے پر مزید نصوص پیش کی جا چکی تھیں۔ افسوس کہ آپ لوگ اس سے سبق نہیں سیکھ رہے۔

 
Top