• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش خلافت: بدعت و شرک کے نام پر خانہ کعبہ، مسجد النبوی، مسجد الحرام اور ہر متبرک جگہ کی تباہی

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
یاد دھائی @طالب علم
تھریڈ کا ٹاپک خانہ کعبہ اور رسول (ص) و انبیاء سے مس ہونے والے متبرک مقامات ہیں۔


الحمدللہ! ہم نے آپ کی کتاب سے ثابت کیا کہ پختہ قبریں بنانا جائز نہیں
علی بن جعفر نے کہا: میں نے امام موسیٰ کاظم سے سوال کیا کہ قبر پر عمارت بنانا اور اس پر بیٹھنا کیسا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
لا یصلح البناء علیہ ولا الجلوس ولا تجصیصہ ولا تطیینہ
قبر پر عمارت تعمیر کرنا،
اس پر بیٹھنا،
اسے پختہ بنانا
اور لپائی کرنا درست نہیں


کتاب الاستبصار، جلد نمبر 1
لیکن آپ ٹاپک کا بہانا لے کر بھاگنا چاہتی ہیں تو آپ کی مرضی۔ یہاں آپ کی شرک کی ہنڈیا پکنے والی نہیں، مزید کا انتظار کریں ۔۔۔۔۔۔
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18


الحمدللہ! ہم نے آپ کی کتاب سے ثابت کیا کہ پختہ قبریں بنانا جائز نہیں

لیکن آپ ٹاپک کا بہانا لے کر بھاگنا چاہتی ہیں تو آپ کی مرضی۔ یہاں آپ کی شرک کی ہنڈیا پکنے والی نہیں، مزید کا انتظار کریں ۔۔۔۔۔۔
یہ آرٹیکل کا آغاز نہیں، بلکہ اختتامی الفاظ تھے۔
اطمنان رکھئے پہلے خانہ کعبہ کے حوالے سے داعش اور آپکے مشترکہ عقائد واضح ہو جائیں، اسکے بعد قبروں کو مسمار کر کے زمین کے برابر کر دینے کی بدعت پر گفتگو کریں گے، جبکہ رسول اللہ (ص) کی قبر کے قبر بھی زمین کے برابر نہ تھی اور نہ ہی صحابہ کی قبریں جنہیں آپ حضرات نے اپنے عقیدے کے نام پر بلڈوزر چلوا کر مسمار کر کے زمین کے برابر کر دیا۔ مگر یہ گفتگو اختتام پر ہو گی، یا پھر علیحدہ ڈورا کھول لیں گے۔
فی الحال تو 63 مراسلے پورے ہو جانے کے بعد بھی، اور ہر طرح کے غیر متعلقہ مراسلوں اور پرسنل اٹیک کے باوجود آپکی طرف سے موضوع پر 1 لفظ بھی آنا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ حالانکہ سوال بہت سادہ سا ہے۔
 
شمولیت
جولائی 31، 2011
پیغامات
67
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
71
خوش آمدید کہنے کا شکریہ ام نور العین بہن۔
آپ کی محبت کا شکریہ ، میں نے ایک دعا بھی دی تھی شاید آپ طوفانی رفتار کے سبب دیکھ نہ سکیں ۔ ہو سکے تو اس پر آمین بالجہر کہیے۔ اور سنائیے سحر وافطار بنانا کس کے ذمے لگا رکھا ہے جو اتنی فرصت میسر ہے؟
اور آپ نے لکھا ہے: "اولا: آپ نے شاید قرآن مجید کا مطالعہ نہیں کیا ، خانہ کعبہ کواس لیے متبرک سمجھا نہیں جاتا کہ وہ کسی سے مس ہو چکا ہے بلکہ قرآن نے اس کو کئی مقامات پر مبارک قرار دیا ہے، اس کی برکت اپنی ہے ۔
کیا آپ جانتے بوجھتے تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہیں، یا پھر آپ موضوع کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟ یہاں ہماری گفتگو کا موضوع خانہ کعبہ میں "فزیکل برکت" کے حوالے سے ہے۔
موضوع بہت آسان سا ہے۔
کیا آپکے عقیدے کے مطابق بھی جو لوگ کعبہ کو مس کر رہے ہیں، اسے چوم رہے ہیں، اسکو عقیدت اور تعظیم کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، جو اسے وسیلہ بنا کر دعائیں مانگ رہے ہیں ۔۔۔۔ تو کیا یہ آپکے عقیدے کے مطابق بھی داعش کی طرح"بدعت" بھی کر رہے ہیں اور "شرک" بھی؟
میرے سب سے پہلے نکتے کا جواب نجانے کیوں آپ نے سب سے آخر میں دیا۔ آپ کی سہولت کے لیے چار باتیں عرض کی تھیں جو موضوع سے انتہائی متعلق تھیں پھر بھی آپ کو تجاہل عارفانہ کا شکوہ ہے یا شاید یہ آپ کا تکیہ کلام ہے جو موقع بے موقع جڑ دیتی ہیں۔ اب یہ فزیکل برکت کیا بلا ہے اس پر آپ روشنی ضرور ڈالیے ۔۔ہمارے نزدیک رافضی گدھا کعبہ جا کر بھی گدھا ہی رہتا ہے جب تک عقیدہ درست نہ کرے ۔ ابو جہل کعبے کے دروازے کی دہلیز پر چڑھ کر تقریریں کرتا تھا لیکن آج تک ہم اس کو کافر سمجھتے ہیں ۔ کعبے سے مس ہونا اتنا ہی مقدس عمل ہوتا تو قریش کے جثوں کو کلیب بدر میں نہ پھینکا جاتا ۔ قریش کعبے کا خادم قبیلہ تھا دن میں کتنی بار یہ کافر مس ہوتے ہوں گے غلاف کعبہ سے لے کر در کعبہ تک سے ؟ جائیے ان کے مزار تعمیر کیجیے اور بین کیجیے کہ ہائے کعبے سے مس ہونے والے ۔ حرم کی حدود میں شکار منع ہے اس لیے وہاں کبوتر بہت ہوتے ہیں اور بیٹ بھی بہت کرتے ہیں ، آپ وہ بیٹ جمع کر کے ایران منگو ا سکتی ہیں ، مکہ میونسپلٹی کا ہاتھ بٹے گا اور آپ کو تبرکات کی نئی برانڈ نصیب ہو گی۔
کعبۃ اللہ کو مس کرنا نہ حج کا رکن ہے نہ اسلام کا کوئی فریضہ۔ جو کام خلیل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا نہ اس کا حکم دیا ہم بھی نہیں کرتے ۔ ہم اس کی طرف رخ کر کے پوری پانچ نمازیں پڑھتے ہیں ، آپ تو وہ بھی مغربین میں گول مول کر دیتے ہیں۔ اپنی خبر لیجیے۔
ہم نے اسلام داعش سے نہیں سیکھا ، داعش کے نام نہاد خلیفہ نے نماز اس مسجد میں پڑھائی ہے جہاں قبر ہے ۔ کوئی سلفی ، اہل حدیث بچہ بھی ایسی مسجد میں کبھی نماز نہیں پڑھتا جہاں قبر مسجد کے احاطے میں ہو، اس لیے زبردستی داعش کو اہل حدیث یا سعودیہ کے ساتھ ٹانکنا آپ کی بدترین بددیانتی ہے ۔ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔ آپ کےاس لولے لنگڑے استدلال کی چال بہت بے ڈھنگی ہے۔ اگر آپ واقعی خاتون ہیں تو ذرا جمالیاتی پہلو کی طرف توجہ دی ہوتی۔ کچھ نوک پلک سنواری ہوتی اسی تحریر کی۔
اور میرا ساسانیوں یا فاطمیوں سے کیا لینا دینا؟ (کیا آپ قرامطہ اور فاطمیوں میں فرق کر سکتی ہیں؟؟؟ ۔۔۔ کیونکہ یہ فاطمی نہیں، بلکہ قرامطہ تھے جو حجر الاسود کو لے گئے تھے، ۔۔۔ بہرحال اس وقت مشکل لگ رہا ہے کہ آپ فرق کریں کیونکہ غصے میں آپ مجھ میں اور ساسانیوں اور فاطمیوں میں کوئی فرق نہیں کر رہی ہیں تو پھر فاطمیوں اور قرامطہ میں بھی شاید فرق نہیں کریں گی)۔
دروغ گو کے حافظے کی مانند آپ کی نظر بھی کمزور ہے ، میرے پیغام میں قرامطہ ہی کا ذکر بد آیا تھا، ویسے آپ سعودیہ اور داعش کو ایک کر سکتی ہیں تو قرامطہ اور فاطمیہ کیا شیعہ کے فرقے نہیں؟ ایک زمانے تک آپ کے ایرانی فقیہ صفویوں سے براءت کا اظہار کرتے تھے اور آج اسی بشار الاسد کو پیمپر کرنے کے لیے مسلح جتھے ایران سے جا رہے ہیں ؟ کیا یہ ثبوت نہیں کہ آپ سب کی اصل ایک ہے اور انیس بیس کے فرق سے آپ سب ایک ہی نکلتے ہیں ؟ رہے ساسانی اور مجوسی تو ایرانی شیعہ آج بھی ان کی ثقافت سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور ان کے تہوار مناتے ہیں ، قم سے پڑھ کر آنے والے پاکستان میں بھی ان تہواروں کا بیج بو رہے ہیں ، جس محفل کا آپ نے ذکر کیا ،اور جہاں آپ privileged ممبر ہیں ، کیا وہاں آپ کے پسندیدہ ترین موضوع متعہ کے علاوہ زرتشت کی تعلیمات سے لے کر جشن نوروز تک کے موضوعات موجود نہیں؟ ایسے میں آپ ساسانیوں، زرتشتیوں اور مجوسیوں سے اپنے جذباتی رشتوں کا انکار نہ کریں تو بہتر ہے کیوں کہ سورج کی روشنی کو آنکھیں ڈھانپ کر چھپایا نہیں جا سکتا ۔
قرآن کہتا ہے دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو ۔۔۔۔ مگر آپ حضرات موضوع پر دلیل چھوڑ کر سب سے پہلے شخصیت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ماضی کے حوالے سے غیر ضروری بہتان تراشیاں کر رہے ہیں جنکا موجودہ موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔
پھر اسی تھریڈ کے مراسلہ نمبر 25 میں کھل کر میں اپنے متعلق لکھ چکی ہوں، مگر پھر بھی آپ نے اپنے 2 عدد مراسلے اسی حوالے سے طنز کرنے میں لگا دیے۔ کیوں؟ کیا مراسلہ نمبر 25 نہیں پڑھا تھا؟ یا پھر پڑھ کر بھی کوئی پرانا حساب چکانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
میں نے چار نکات ذکر کیے تھے آپ نے ایک کا بے تکا جواب لکھا اور باقی الفاظ تقریر میں ضائع کر دئیے ، باقی تین نکات کا جواب دے دیجیے ۔
پھر جو طنز طالبعلم صاحب تبرکات کے تھریڈ کے حوالے سے کرنے کی کوشش کر رہے تھے، ایسی ہی کچھ طنز اور غیر ضروری بہتان آپ نے عقد المتعہ کو بیچ میں گھسانے کے حوالے سے کی ہے۔
آپ نے لکھا ہے: یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کوئی سیاہ چغے والے فقیہ ہوں جو شیعہ مومنات کو زیادہ قریب سے سمجھانے کی خاطر مونث بن کر متعہ کے مسائل پر لکھتے ہوں۔
میں اردو محفل کی ممبر سن 2003 سے ہوں (جب پرانا فورم سافٹویئر تھا)، جبکہ عقد المتعہ پر بحث سن 2010 میں شروع ہوئی۔ آپ کے بہتان کے مطابق میں 2003 سے 2010 تک سیاہ چغے میں شیعہ مومنات کو سمجھانے کے لیے اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ کوئی خار کھائے بیٹھی ہیں، وگرنہ صحیح العقل کے ساتھ آپ ایسی بات نہ کرتیں، اور یہ غصہ ہے جو عقل کو کھا جاتا ہے۔
عجیب بات ہے پہلے آپ کا کہنا تھا کسی نے آپ کے مضامین چرا لیے تو اس میں آپ کا کیا قصور، اب فرماتی ہیں کہ آپ محفل کی ممبر ہیں اور اپنے مرغوب موضوع متعہ پر وہ رذیل بحث آپ نے کی تھی ، گویا آپ ہی مہوش علی ہوئیں۔ اب آپ کے کس بیان پر یقین کریں؟ اور اگر آپ مہوش علی ہیں تو یہ آپ کو نام بدلنے کی کیا سوجھی ؟ وفا کے نازک زنانہ فرضی نام سے آپ نے یہاں ایک رکن بچی کے لیے جو الفاظ استعمال کیے میں سمجھتی ہوں ایسا کوئی خاتون نہیں کر سکتی ، اسی لیے میں نے تلخ الفاظ استعمال کیے۔ اگر آپ واقعی خاتون ہیں تو آپ کو شرم آنی چاہیے کم سن بچیوں سے ایسے کنائے استعمال کرنے پر۔ لیکن اگر آپ کو متعہ کے موضوع پر بحث کرنے اور کرتے ہی چلے جانے پر شرم نہیں آتی تو میری اس کوشش سے کیا ہوگا؟ کیا مذہب صرف تبرک ، بدعت اور شرک پر بحث کا نام ہےیا مذہب شرم و حیا بھی سکھاتا ہے؟ماہ رمضان میں آپ ایک دینی زمرے میں ایسے الفاظ لکھ رہی ہیں کچھ تو شرم کریں۔
اگلا ایک سوال کا سادہ سے جواب دے دیجئے کہ آپ نے عراقی سیاست کا ذکر اس تھریڈ میں کیوں شروع کیا؟ کیا آپ اسکے لیے دوسرا تھریڈ شروع نہیں کر سکتی تھیں؟ کیا یہ آپ کی طرف سے مسلسل موجودہ موضوع کو بھٹکانے کی کوشش نہیں؟
انسانیت یہ ہے کہ جو بھی ظلم کرے اسے سزا ملنی چاہیے۔ عراقی اداروں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے ہیں اور اگر وہ مجرم پائے جائیں تو انہیں سزا ہونی چاہیے ۔انسانیت میرا ایمان ہے۔
اب آپ کو اپنی آنکھ میں موجود شہتیر کو بھی دیکھنا چاہیے۔
آپ کے شروع کردہ موضوع کا عنوان ہی داعش ہے اور داعش اٹلانٹک اوشن میں چلنے والی ہوا کو نہیں کہتے ، آپ کی غیر ضروری توجہ کی محور یہ چڑیا جس جغرافیے میں پائی جاتی ہے اس کا ذکر آنا لازمی ہے ۔ چمگادڑوں کی طرح اندھا دھند اڑنے اور یہاں وہاں ٹکرانے سے بہتر ہے اپنی پرواز کا رخ متعین کر لیں ۔
عجیب بات ہے کہ آپ کا دعوی ہے کہ آپ عورت ہیں ، انسانیت آپ کا ایمان ہے ، پھر بھی آپ متعہ کی حامی ہیں؟
اتنی نہ بڑھا پاکئ داماں کی حکایات
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
1۔آپ نام بگاڑ کر کیا قرآنی حکم کی پیروی کر رہے ہیں جو ہے کہ حسن سے مناظرہ کیا جائے؟
آپ بھی تو اپنا اصل نام چھپائے ہوئے ہیں اور یہ بھی ظاہر نہیں کہ آپ مرد ہیں یا عورت، بولئے کیا یہ آپ کا اصل نام ہے ، اگر اصل ہے تو پھر میں "بے وفا" کہنے پر معذرت کر لیتا ہوں۔
2۔ پہلے آرٹیکل میں بے تحاشہ دلائل تھے کہ جو چیز رسول (ص) سے مس ہو جائے وہ متبرک ہو جاتی ہے۔
اہل حدیث مسلک کے نظریے کے مطابق جو چیز قرآن اور صحیح حدیث سے ثابت ہو جائے اسی کو مانا جاتا ہے، تبرکات سے متعلق جو صحیح عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہے وہی قابل قبول ہے، لیکن تبرکات بھی صرف اسی حد تک جس حد تک احادیث میں بیان ہوئے ہیں ناکہ جس سے عقیدے کی خرابی لازم آئے، جیسے کہ آپ لوگوں نے اللہ کی ذات کو نظرانداز کر کے منکے، چھلے،دھاگے وغیرہ کو اپنا لیا ہے، اور ان سے حاجت روائی، مشکل کشائی کے مشرکانہ عقائد بھی گھڑ لئے ہیں، جیسے بعض لوگ اپنے بازو میں دھاگہ باندھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی امام کی ضمانت میں آ چکے ہیں جو کہ بالکل جھوٹ ہے، جب ایسے لوگوں پر مصیبت آتی ہے تو کوئی امام ان کے کام نہیں آتا، جیسے بے نظیر کا انجام آپ کے سامنے ہے۔
جناب عائشہ رسول (ص) سے مس شدہ جبے کو دھوتیں اور پھر اس پانی کو بیماری کے خلاف شفا کے لیے استعمال کرتیں۔ دلیل آپ کو نظر نہ آئیں تو کیا میں قصوروار ہوں؟
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہ عقیدہ نہیں تھا جو آپ لوگوں کا ہے، تبرکات کے متعلق اوپر وضاحت کر چکا ہوں، صحیح مسلم کی اس روایت کی شرح دیکھ لیں۔
3۔ کیا آپ بتلا سکتے ہیں کہ جناب ابو طالب کا موجودہ موضوع سے کیا تعلق ہے؟
جی بالکل، میں بتا سکتا ہوں کہ ابوطالب کا اس موضوع سے کیا تعلق ہے، آپ نے ایک اصول بیان کیا کہ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے تو وہ بابرکت ہو جاتی ہے، ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت خدمت کی، تو صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو ہاتھ بھی لگایا ہو گا، تو وہ بابرکت نہیں بنا، نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جانے والی کسی چیز کو چھونے سے اسے کوئی تبرک حاصل ہوا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ دولتِ ایمانی اور عقیدہ توحید سے محروم تھا، یہاں تک کہ اس کے مرنے کے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کلمہ توحید پڑھنے کی تلقین کی لیکن وہ اپنے آباؤ و اجداد کے دین پر مرا، اب اس کو جہنم میں عذاب ہو گا۔ (العیاذباللہ)
4۔ آپ نے عبداللہ ابن ابی کو بطور دلیل استعمال کیا۔ کیا آپ کو مسلم اور کافر کے مابین فرق کا علم ہے؟ کیا آپ کو جناب عائشہ، جناب ام سلمہ کا رسول (ص) کے جبے اور بال سے فزیکل تبرک حاصل کرنا نظر آتا ہے؟
الحمدللہ، ہمیں مسلم و کافر کے مابین فرق کا علم ہے بفضل اللہ تعالیٰ، آپ بتائیں کہ آپ کے اصول کے مطابق جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک ہوتی ہے اور اس سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے۔
  • وہ کُرتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کی میت کے لئے دیا کیا وہ آپ کے نزدیک متبرک تھا یا نہیں؟
  • وہ کُرتا اس وقت عبداللہ بن ابی کی میت کے لئے کیوں دیا گیا؟
  • باوجود آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عبداللہ بن ابی کی میت کے لئے کُرتا دینے کے اللہ نے اسے کیوں نہ بخشا؟
  • بلکہ اللہ نے اس کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع کیا اور اس کی نماز جنازہ سے بھی روک دیا اور اس کے لئے استغفار سے بھی روک دیا چاہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے لئے ستر مرتبہ سے زیادہ بخشش کیوں نہ مانگے؟
  • آپ بتائیں جس کے لئے ستر بار سے بھی زیادہ بخشش وہ شخص مانگے جس کو اللہ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے، پھر بھی اسے کیوں نہ بخشا گیا؟

اور آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ کھجور کے تنے والی بات کا جواب آپ کی طرف سے نہیں آیا، اس پر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگاتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اس سے مس ہوا یا نہیں، پھر بھی بعد میں وہ کھجور کا تنا تبرک کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
مہوش علی رافضی @وفا ہم پر الزام لگاتی ہے کہ ہم مسجدنبوی اور روضہ رسول کو گرائیں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس کا عائد کردہ الزام!



شیعوں کا بارہواں امام جس میں دجال جیسی خوبیاں ہوں گی روضہ رسول کی دیواریں اکھاڑ کر شیخین کی قبروں کی بے حرمتی کرے گا۔ شیعہ کی کتابوں سے ثبوت، کتاب بحار الانوار بحوالہ انگلش ترجمہ



بحوالہ اردو ترجمہ، بحار الانوار ، مصنف: ملا باقر مجلسی

روضہ رسول اور مسجد نبوی کو یہ رافضی گرانا چاہتے ہیں، ثبوت حاضر ہے۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بغض رکھے، آمین!






لو جی مہوش علی، ہم دلیل لے آئے اب اس کا انکار کرو تو جانیں
کہ تمہارا 12 ایسا نہیں کرے گا۔
اب یہ نہ کہہ دینا یہ موضوع سے غیر متعلق ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,787
پوائنٹ
1,069
یاد دھائی @طالب علم
تھریڈ کا ٹاپک خانہ کعبہ اور رسول (ص) و انبیاء سے مس ہونے والے متبرک مقامات ہیں۔
تبرکات کی شرعی حیثیت !!!

تبرکات کی شرعی حیثیت: یہ نہایت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ بسا اوقات اس کی وجہ سے توحید کے منافی اقوال و افعال سرزد ہو جاتے ہیں ، اولیاء و صلحاء کی عبادت کا بنیادی سبب ان کی ذات ، آثار اور قبور کو متبرک سمجھنا تھا ، شروع میں انہوں نے ان کے جسموں کوتبرک کی نیت سے چھوا، پھر ان کو پکارنے لگے ، ان سے مدد مانگنے لگے ، پھر ان اولیاء سے کام آگے بڑھا تو مختلف جگہیں ، جمادات اور اوقات کو متبرک سمجھنے جانے لگے۔دراصل تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجرو ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا ۔

محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں :

1... ممنوع تبرک: :

جو جائز تبرک میں شامل نہ ہویا شارع نے اس سے منع فرما دیاہو

۔2 ... مشروع تبرک :

جسے اللہ ورسول نے جائز قرار دیا ہو ۔


ممنوع تبرک:ممنوع تبرک شرک میں داخل ہے، اس کی دلیل یہ ہے:

سیدنا ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے ، اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ایک بیری تھی ، جس کے پاس مشرکین ٹھہرتے اور (تبرک کی غرض سے)اپنااسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے ، اسے ذات ِ انواط کہا جاتا تھا ، ہم نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول !جس طرح مشرکین کا ذات ِ انواط ہے ، ہمارے لیے بھی کوئی ذات ِ انواط مقرر کر دیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الله اکبر ، انها السنن ، قلتم ، والذی نفسی بیده ، کما قالت بنو اسرائیل لموسی {اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ}(الاعراف ؛ ۱۳۸)

لترکبن سنن من کان قبلکم ۔''اللہ اکبر ! اللہ کی قسم ، یہ پرانا طریقہ ہے، تم نے اسی طرح کہا ہے، جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا

{اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ} (الاعراف ؛ 138)"

ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دیجیے ، جس طرح ان (کافروں کے معبود ہیں )ضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔''


(مسند الامام احمد : 218/25، جامع الترمذی : 2180،مسند الحمیدی ؛ 868، المعجم الکبیر للطبرانی 274/3، صحیح)
امام ِ ترمذی نے اس حدیث کو ''حسن صحیح'' اور امام ابن حبان (4702)نے ''صحیح'' کہاہے۔

مشروع تبرک:

آئیے اب مشروع تبرک کے بارے میں جانتے ہیں : عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں :

اخرج الینا انس رضی الله عنه نعلین جرداوین ، لهما قبالان ، فحدثنی ثابت البنانی بعد عن انس انهما نعلا النبی صلی الله علیه وسلم۔''سیدناانس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے ، ان کے دو تسمے تھے ، اس کے بعدمجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔''(صحیح بخاری : 438/1،ح؛3107)ا

یک دفعہ سیدہ اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہا نے ایک سبز جبّہ نکالا اور فرمایا: هذه
کانت عند عائشة حتی قبضت ، فلما قبضت قبضتها ، وکان النبی صلی الله علیه وسلم یلبسها ، فنحن نغسلها للمرضیٰ یستشفیٰ بها ۔''یہ سیدہ عائشہ کے پاس تھا ، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب ِ تن فرمایا کرتے تھے ، ہم اسے بیماروں کے لیے شفا کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں ۔''
(صحیح مسلم :2/ 190، ح: 2049)

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پانی پیا تھا ، ابو حازم کہتے ہیں کہ سہل نے اسے نکالااور ہم نے اس میں پانی پیا، اس کے بعد امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ان سے مانگا ، انہوں نے ان کو تحفہ میں دے دیا۔
(صحیح بخاری 842/2 ح: 5437)

عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے ، جنہیں ہم نے سیدناانس یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا ، کہتے ہیں ، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔
(صحیح بخاری : 29/1،ح:0 17 )

یاد رہے کہ یہ تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا ، اب کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔

حافظ شاطبی فرماتے ہیں :ان الصحابة بعد موته لم یقع من أحد منهم شیء من ذلک بالنسبة الی من خلفه ، اذ لم یترک النبی صلی الله علیه وسلم بعدہ فی الأمة أفضل من أبی بکر الصدیق رضی الله عنه ، فهو کان خلیفته ، ولم یفعل به شیء من ذلک ، ولا عمر رضی الله عنه ، وهو کان أفضل الأمة بعدہ ، ثم کذلک عثمان ، ثم علی ، ثم سائر الصحابة الذین لا أحد أفضل منهم فی الأمة ، ثم لم یثبت لوأحد منهم من طریق صحیح معروف أنّ متبرکا تبرک به علی أحد تلک الوجوه أو نحوها ، بل اقتصروا فیهم علی الاقتداء بالٔافعال والٔاقوال والسیر التی اتبعوا فیها النبی صلی الله علیه وسلم ، فهو اذا اجماع منهم علی ترک تلک الأشیائ۔''


صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ(تبرک)مقرر نہ کیا ، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدناابو بکر صدیق تھے ، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے ، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا ، نہ سیدنا عمر نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابو بکر کے بعد امت میں سب سے افضل تھے ، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے ، کسی سے بھی باسند ِ صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ )کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اورطریقہ کا ر پر اکتفاکیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک ِ تبرکات پر اجماع ہے ۔
''(الاعتصام ؛9-2/8)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تشد الرحل الا الی ثلاثة مساجد ، المسجد الحرام ، ومسجدی هذا، والمسجد الأقصیٰ۔''(تبرک کی نیت سے)سامان صرف ان تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، میری مسجد(مسجد ِ نبوی)اور مسجد ِ اقصیٰ ۔'

'(صحیح بخاری : 1/159، ح؛ 1189، صحیح مسلم ؛ 1/247،ح؛ 1397)

حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف سامان باندھ کر جانے کی نذر مان لے تو اس پر نذر کا پور ا کرنا ضروری نہ ہوگا ، اس بات پر ائمہ دین کا اتفاق ہے۔
(مجموع الفتاوٰی :184/27 مختصرا)

حصولِ برکت کی خاطر انبیا ء و صلحاء کی قبرو ں کی زیارت کے لیے سفر بدعت ہے، صحابہ کرام و تابعین عظام نے ایسا نہیں کیا ، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔امام ابراہیم نخعی تابعی فرماتے ہیں :

لا تشد الرحال الا الی ثلاثة مساجد ؛ المسجد الحرام ، مسجد الرسول ، وبیت المقدس۔''(برکت حاصل کرنے کی نیت سے)رخت ِ سفر صرف تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، مسجد ِ نبوی اور بیت المقدس۔'
'(مصنف ابن ابی شیبة ؛ 2/45، وسنده صحیح)

 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
روضہ رسول اور مسجد نبوی کو یہ رافضی گرانا چاہتے ہیں، ثبوت حاضر ہے۔ اللہ کی لعنت ہو اس پر جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بغض رکھے، آمین!





لو جی مہوش علی، ہم دلیل لے آئے اب اس کا انکار کرو تو جانیں
کہ تمہارا 12 ایسا نہیں کرے گا۔
اب یہ نہ کہہ دینا یہ موضوع سے غیر متعلق ہے۔
غیر متعلق اس لحا ظ سے کہ ہم یہاں داعش اور آپکے مشترکہ "عقیدے" کی بات کر رہے ہیں جس کے مطابق خانہ کعبہ فقط پتھر ہے، خانہ کعبہ شرک کا اڈہ ہے جہاں بدعت اور شرک دونوں انجام پذیر ہو رہے ہیں۔ جبکہ آپ ایسی روایت لے کر آ گئے ہیں جن کا اہل تشیع کے عقیدے سے کوئی تعلق ہیں اور نہ وہ انکے لیے حجت ہیں۔

وباسناده ، عن إسحاق بن عمار ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : إذا قدم القائم عليه السلام وثب أن يكسر الحائط الذي على القبر فيبعث الله تعالى ريحا شديدة وصواعق ورعودا حتى يقول الناس : إنما ذا لذا ، فيتفرق أصحابه عنه حتى لا يبقى معه أحد ، فيأخذ المعول بيده ، فيكون أول من يضرب بالمعول ثم يرجع إليه أصحابه إذا رأوه يضرب المعول بيده ، فيكون ذلك اليوم فضل بعضهم على بعض بقدر سبقهم إليه ، فيهدمون الحائط ثم يخرجهما غضين رطبين فيلعنهما ويتبرأ منهما ويصلبهما ثم ينزلهما ويحرقهما ثم يذريهما في الريح .

الرواية مرسلة، عن إسحاق بن عمار ،و هي من روايات الآحاد ليس لها ما يقويها، ولا يصح الاعتقاد بها، فلا يحق لك الاستشاد بها.
 

وفا

مبتدی
شمولیت
جولائی 15، 2014
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
آپ بھی تو اپنا اصل نام چھپائے ہوئے ہیں اور یہ بھی ظاہر نہیں کہ آپ مرد ہیں یا عورت، بولئے کیا یہ آپ کا اصل نام ہے ، اگر اصل ہے تو پھر میں "بے وفا" کہنے پر معذرت کر لیتا ہوں۔
کیا فورم کے اصولوں میں لکھا ہے کہ ان چیزوں اور ناموں کو یوزر نیم کے طور پر نہیں رکھا جا سکتا جو کہ آپ کی پسند ہوں۔ کربلا میں جناب عباس (برادرِ جناب زینب و حسین) کی وفا مشہور ہے وفائے عباس کے نام سے جس وجہ سے وفا مجھے بہت عزیز ہے۔ میرے لیے کیا نئے قوانین اپنی طرف سے گھڑے جا رہے ہیں تاکہ مطعون کیا جا سکے؟

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہ عقیدہ نہیں تھا جو آپ لوگوں کا ہے، تبرکات کے متعلق اوپر وضاحت کر چکا ہوں، صحیح مسلم کی اس روایت کی شرح دیکھ لیں۔
آپکا جواب گول مول ہے۔ مجھے نہیں علم کہ آپ نے جناب عائشہ کا تبرک نبی سے نفع اٹھانے اور اس سے بیماری کے خلاف شفا حاصل کرنے کے استعمال پر کوئی وضاحت کی ہو۔ صحیح مسلم کی کوئی شرح اگر اسکے متعلق کچھ فرق رکھتی ہے تو پھر آپکو یہ شرح یہاں بیان کرنی چاہیے۔

جی بالکل، میں بتا سکتا ہوں کہ ابوطالب کا اس موضوع سے کیا تعلق ہے، آپ نے ایک اصول بیان کیا کہ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے تو وہ بابرکت ہو جاتی ہے، ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت خدمت کی، تو صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو ہاتھ بھی لگایا ہو گا، تو وہ بابرکت نہیں بنا، نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جانے والی کسی چیز کو چھونے سے اسے کوئی تبرک حاصل ہوا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ دولتِ ایمانی اور عقیدہ توحید سے محروم تھا، یہاں تک کہ اس کے مرنے کے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کلمہ توحید پڑھنے کی تلقین کی لیکن وہ اپنے آباؤ و اجداد کے دین پر مرا، اب اس کو جہنم میں عذاب ہو گا۔ (العیاذباللہ)
بالکل یہ اصول ہے کہ جو بے جان اشیاء رسول (ص) سے مس ہوئیں، وہ متبرک ہو گئیں اور ان میں نفع و نقصان کی صلاحیت پیدا ہو گئی، جناب عائشہ انہیں بیماری کے خلاف شفا کے حصول کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کافر اور مسلم کے فرق کا علم بھی نہیں اور اسکے ساتھ ساتھ بے جان اشیاء اور شعور رکھ کر صحیح یا غلط کا فیصلہ کرنے والے انسانوں کے فرق کا علم بھی نہیں۔ اور اسی وجہ سے آپ غلط استدلال پیش کر کے اس چیزوں میں برکت کا انکار کر رہے جو کہ رسول (ص) مس ہوئیں۔

الحمدللہ، ہمیں مسلم و کافر کے مابین فرق کا علم ہے بفضل اللہ تعالیٰ، آپ بتائیں کہ آپ کے اصول کے مطابق جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہو جائے وہ متبرک ہوتی ہے اور اس سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے۔
  • وہ کُرتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کی میت کے لئے دیا کیا وہ آپ کے نزدیک متبرک تھا یا نہیں؟
  • وہ کُرتا اس وقت عبداللہ بن ابی کی میت کے لئے کیوں دیا گیا؟
  • باوجود آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عبداللہ بن ابی کی میت کے لئے کُرتا دینے کے اللہ نے اسے کیوں نہ بخشا؟
  • بلکہ اللہ نے اس کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع کیا اور اس کی نماز جنازہ سے بھی روک دیا اور اس کے لئے استغفار سے بھی روک دیا چاہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے لئے ستر مرتبہ سے زیادہ بخشش کیوں نہ مانگے؟
  • آپ بتائیں جس کے لئے ستر بار سے بھی زیادہ بخشش وہ شخص مانگے جس کو اللہ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے، پھر بھی اسے کیوں نہ بخشا گیا؟
مسلم اور کافر کے فرق کا علم ہوتا تو کفار کا ذکر کر کے رسول (ص) کے کرتے میں موجود برکت کا انکار نہ کرتے۔ اور مسلمانوں کے رسول (ص) کے کرتے سے برکت حاصل کرنے کے واقعات کی جگہ کافر و منافق کے واقعے پر اپنے عقیدہ کی بنیاد نہ رکھتے۔

کاش کہ کافر کی جگہ مسلمانوں کے واقعات سے سبق پکڑ کر آپ نے اپنا عقیدہ بنایا ہوتا۔


1۔ علی ابن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 256

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033، 3032

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘


بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 454

4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم : 4715

5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘

ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48

اور آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ کھجور کے تنے والی بات کا جواب آپ کی طرف سے نہیں آیا، اس پر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگاتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اس سے مس ہوا یا نہیں، پھر بھی بعد میں وہ کھجور کا تنا تبرک کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟
آپ نے تو "عدم ذکر" کو "ذکرِ عدم" ہی بنا ڈالا۔
اگر اس تنے سے برکت کے حصول کی کوئی روایت نہیں تو اس سے یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ تبرک حرام ہو گیا، اور پھر اس بنیاد پر آپ نے کیسے وہ سینکڑوں روایات ردی کی ٹوکری کی نذر کر ڈالیں جن کے مطابق صحابہ تبرکات نبوی سے نفع حاصل کرتے تھے، انہی بیماری سے شفا کے لیے استعمال کرتے تھے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
کیا فورم کے اصولوں میں لکھا ہے کہ ان چیزوں اور ناموں کو یوزر نیم کے طور پر نہیں رکھا جا سکتا جو کہ آپ کی پسند ہوں۔ کربلا میں جناب عباس (برادرِ جناب زینب و حسین) کی وفا مشہور ہے وفائے عباس کے نام سے جس وجہ سے وفا مجھے بہت عزیز ہے۔ میرے لیے کیا نئے قوانین اپنی طرف سے گھڑے جا رہے ہیں تاکہ مطعون کیا جا سکے؟


آپکا جواب گول مول ہے۔ مجھے نہیں علم کہ آپ نے جناب عائشہ کا تبرک نبی سے نفع اٹھانے اور اس سے بیماری کے خلاف شفا حاصل کرنے کے استعمال پر کوئی وضاحت کی ہو۔ صحیح مسلم کی کوئی شرح اگر اسکے متعلق کچھ فرق رکھتی ہے تو پھر آپکو یہ شرح یہاں بیان کرنی چاہیے۔


بالکل یہ اصول ہے کہ جو بے جان اشیاء رسول (ص) سے مس ہوئیں، وہ متبرک ہو گئیں اور ان میں نفع و نقصان کی صلاحیت پیدا ہو گئی، جناب عائشہ انہیں بیماری کے خلاف شفا کے حصول کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کافر اور مسلم کے فرق کا علم بھی نہیں اور اسکے ساتھ ساتھ بے جان اشیاء اور شعور رکھ کر صحیح یا غلط کا فیصلہ کرنے والے انسانوں کے فرق کا علم بھی نہیں۔ اور اسی وجہ سے آپ غلط استدلال پیش کر کے اس چیزوں میں برکت کا انکار کر رہے جو کہ رسول (ص) مس ہوئیں۔



مسلم اور کافر کے فرق کا علم ہوتا تو کفار کا ذکر کر کے رسول (ص) کے کرتے میں موجود برکت کا انکار نہ کرتے۔ اور مسلمانوں کے رسول (ص) کے کرتے سے برکت حاصل کرنے کے واقعات کی جگہ کافر و منافق کے واقعے پر اپنے عقیدہ کی بنیاد نہ رکھتے۔

کاش کہ کافر کی جگہ مسلمانوں کے واقعات سے سبق پکڑ کر آپ نے اپنا عقیدہ بنایا ہوتا۔


1۔ علی ابن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 256

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033، 3032

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘


بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 454

4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم : 4715

5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘

ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48



آپ نے تو "عدم ذکر" کو "ذکرِ عدم" ہی بنا ڈالا۔
اگر اس تنے سے برکت کے حصول کی کوئی روایت نہیں تو اس سے یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ تبرک حرام ہو گیا، اور پھر اس بنیاد پر آپ نے کیسے وہ سینکڑوں روایات ردی کی ٹوکری کی نذر کر ڈالیں جن کے مطابق صحابہ تبرکات نبوی سے نفع حاصل کرتے تھے، انہی بیماری سے شفا کے لیے استعمال کرتے تھے؟
تبرکات کے متعلق عامر یونس بھائی نے پوسٹ کر دی ہے۔ جہاں تک آپ نے تبرکات میں نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت کی بات کی ہے، یہی عقیدے کی خرابی ہے۔

اور دوسری بات آپ اپنا اصول ثابت کرنے میں بھی ناکام رہیں ہیں، ہر چیز میں وہ کھجور کا تنا بھی شمار ہوتا ہے لیکن اس کو تبرک کے طور پر بعد میں نہیں لیا گیا۔
 
Top