وعلیکم السلام جواد صاحب:
قرآن اور درجنوں احادیث احادیث سے فقط ایک اصول ثابت شدہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو رسول (ص) سے مس ہوئی، وہ بابرکت ہو گئی۔ صحابہ نے ہر مس شدہ چیز کو بابرکت سمجھا، اس سے نفع حاصل کرنا چاہا۔ پھر یہ کیسے ہے کہ آپ ابھی تک ایک بہانے یا دوسرے بہانے اسے شرک بھی بنا رہے ہیں اور بدعت بھی؟
بلاشبہ تمام حقیقی نفع اور نقصان کا مالک اللہ تعالی کی ذات ہے۔ مگر جب یہی اللہ قرآن اور احادیث کے ذریعے یہ اصول بیان فرما رہا ہے کہ رسول (ص) سے مس شدہ تبرکات مسلمانوں کو نفع پہنچاتے ہیں تو پھر آپ کو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ اس عقیدے کا انکار کیوں؟
ایسی عذر پیش کر کے آپ بہت ظلم والی بات کرتے ہیں۔ اللہ تو تمام نفع و نقصان کا مالک ہے، مگر آزمائشوں سے تو انہیں بھی گذرنا پڑتا ہے جو اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ موت تو انکو بھی آئی جو ہر چیز کے مالک اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ تو کیا اس بنیاد پر اللہ کا انکار کر دیا جائے کہ اس نے آزمائش میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، اور تکلیف میں شفا دے کر مدد کرنے کی بجائے بیماری اور پھر موت دے دی؟
استغفراللہ۔
شفاعت ہو یا تبرکات عقیدہ یہ ہے کہ یہ سب اللہ کے اذن سے فائدہ دیتے ہیں۔ لیکن اگر اللہ نے تقدیر میں کچھ آزمائش یا بیماری لکھ دی ہے تو پھر اللہ کا ارادہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ مگر اس بنیاد پر شفاعت یا تبرکات نبوی کا انکار کر دینا جہالت کی بات ہو گی۔ کیونکہ اللہ کے ارادے کے آگے اللہ سے آزمائش سے بچاؤ اور بیماری سے شفا کی دعا بھی کام نہیں آتی۔ تو کیا اس بنیاد پر اللہ سے دعا کرنا چھوڑ دینی چاہیے؟
آپ نے تبرکاتِ نبوی کے نفع کا انکار کرتے ہوئے لکھا کہ:
جناب رسول خدا بیماری میں مرض الموت سے شفایاب نہ ہو سکے۔
عجیب دلیل ہے آپکی۔ کس حکیم لقمان نے آپ کو کہہ دیا کہ اگر تبرک یا دعا کبھی آپ کے کام نہ آئیں تو انکا انکار کر دو؟
اللہ کا شکر ہے کہ جناب عائشہ کا عقیدہ آپکی طرح کا نہیں تھا، ورنہ وہ پھر مرض الموت میں بیماری کی شدت میں رسول (ص) کے ہاتھ انکے جسم پر برکت کے لیے نہ پھر رہی ہوتیں۔
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرتﷺ مرض الموت میں معوذات (سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔
جب آپﷺ پر بیماری کی شدت ہوئی تو میں پڑھ کر آپ ﷺ پر پھونکتی اور آپﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم پر پھیراتی برکت کے لئے، معمر نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا دونوں ہاتھوں پر دم کر کے ان کو منہ پر پھیر لے۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ج 3 ص 338۔339 ، ترجمہ از اہلحدیث عالم مولانا وحید الزمان خان صاحب
بلکہ اگر جنابِ عائشہ آپکی ہم عقیدہ ہوتیں تو پھر رسول (ص) کی مرض الموت سے چھٹکارا نہ ملنے پر تبرکات کے ساتھ ساتھ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کی بھی منکر ہو جاتیں کیونکہ اس نے بھی مرض الموت میں کچھ نہیں کیا۔
استغر اللہ۔
کیا رسول (ص) کو علم نہ تھا کہ نجات انسان کے عمل کی وجہ سے ہوتی ہے؟
آپ کو ادراک تک نہیں ہو پا رہا، مگر آپ اپنے عقیدے میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ آپ کی باتوں کا نشانہ رسول (ص) کی ذاتِ اقدس بننے لگی ہے۔ کیونکہ یہ رسول (ص) تھے جنہیں بہت اچھی طرح علم تھا کہ انسان کا ایمان اور پھر اسکے اعمال اسکو فائدہ پہنچاتے ہیں، مگر اسکے ساتھ ساتھ رسول (ص) کے تبرکاتِ بھی انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اسی لیے رسول (ص) اپنا کرتہ اور چادر اور دیگر چیزیں مرنے والے صحابہ کا کفن بنواتے تھے۔
ایک مرتبہ پھر، معذرت کے ساتھ، مگر ہمارے سلفی برادران واقعی میں اس بیماری میں مبتلا ہیں کہ وہ کفار کے لیے نازل کردہ آیات مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اور یہ بیماری یہاں آگے بڑھتی ہے، اور کفار کے جنازے کے متعلق روایات کو مسلمانوں پر چسپاں کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے لیے رسول (ص) کی سنت یہ ہے:۔
1۔ علی ابن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 256
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033، 3032
3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘
بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 454
4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم : 4715
5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘
ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48
آپ کا آرگومینٹ ہرگز درست نہیں۔
جہاد میں بھی برکت ہے، اور تبلیغ میں بھی برکت ہے، اور اس لیے صحابہ جہاد اور تبلیغ کے لیے نکلے۔
استغفراللہ۔
پھر آپ جناب ابوبکر اور جنابِ عمر کے لیے کیا کہیں گے جن کی خواہش پر انہیں جناب عائشہ کے حجرے میں رسول (ص) کے ساتھ دفن کیا گیا؟ (حالانکہ آپکے نزدیک گنبد کے نیچے دفن ہونا درست نہیں)
اور جناب شیخین تنہا نہیں، بلکہ جناب عائشہ کہتی ہے کہ بے تحاشہ صحابہ ان سے اس خواہش کا اظہار کرتے رہے کہ انہیں حجرے میں دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔
بلکہ پہلے صفحہ پر موجود آرٹیکل میں پر اس مسئلے پر مزید نصوص پیش کی جا چکی تھیں۔ افسوس کہ آپ لوگ اس سے سبق نہیں سیکھ رہے۔