- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ایسے الفاظ سے اجتناب کریں ۔لعنت ہو خدا امریکیوں کی منافقت پر۔۔۔ آپ کو مشورہ ہے یہ جاب چھوڑ دیں۔۔۔
ایسے الفاظ سے اجتناب کریں ۔لعنت ہو خدا امریکیوں کی منافقت پر۔۔۔ آپ کو مشورہ ہے یہ جاب چھوڑ دیں۔۔۔
کم سے کم اسرائیل کے خلاف ہی کردے جو کھلیتے کودتے معصوم بچے مارنے میں خاصی مہارت رکھتا ہے۔ وہاں امریکیوں کی انسانیت کیوں مر جاتی ہے۔۔ ۔
اقوام متحدہ کا زکر کرکہ آپ افغانستان ، عراق وغیرہ میں لاکھوں معصوم لوگوں کے خون سے خود کو صاف نہیں کر سکتے ۔۔ اقوام متحدہ کی مثال ایک فاحشہ کی ہے جسے ویسٹ والے ریپ کرتے رہتے ہیں۔۔۔(فورم کے منتظمین سے معزرت )۔۔۔۔۔۔ اگر سچ میں یہ ادارہ کچھ کر سکتا تو فلسطینیوں و کشمیروں کی حالت ایسی نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔ جو اب ہے۔
کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں کیا یہ درست نہیں کہ اسرائیل معصوم بچوں کو قتل کرتا ہے(اسرائیل پلاننگ کے طور پر مسلسل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے آج نہیں تو کل ہماری بارے بھی آئیگی حالات ہمیشہ یہی نہیں رہیں گے)اور رد عمل میں اقوام متحدہ میں کوئی عرب ملک رزولیوشن لے کہ آتا ہے تو امریکہ وہ واحد ملک ہے جو منافقت کرتے ہوئے اس کو ویٹو کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسرائیل کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ،، جس طرح اسرائیل معصوم فلسطینیوں پر ظلم کرتا ہے ا صاف امریکی کارندے کہتے ہیں کہ اسرائیل کو کاروائی کا حق ہے وہ رد عمل میں کرتا ہے واہ!! بچے مارنے کا اس کو حق ہے!! (تو یہ حق فلسطینیوں کو کیوں نہیں بقول آپ کے ان کی ریاست کو امریکہ تسلیم کرتا ہے وہ کیوں اسرائیل پر ایک پتھر مارنے پر دھشت گرد کھلاتے ہیں)فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
امريکہ اسرائيل تعلقات پر امريکی موقف
آپ کی راۓ اس مخصوص سوچ اور غلط تصور کی آئينہ دار ہے جس کے مطابق امريکہ اور اسرائيل کو يکجا کر کے کسی بھی طور ايک ہی عنصر کے طور پر بيان کيا جاتا ہے۔
جبکہ حقائق اس سے کوسوں دور ہيں۔
اسرائيل کے ساتھ ہمارے طويل المدت بنيادوں پر استوار سفارتی تعلقات کا يہ مطلب نہيں ہے کہ ہر عالمی ايشو پر ہمارا موقف اور ہماری خارجہ پاليسی کے فيصلے ايک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہيں يا لازمی طور پر وابستہ ہيں۔ ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ خطے ميں بے شمار عرب ممالک کے ساتھ بھی ہمارے مضبوط سفارتی روابط اور اسٹريجک شراکت دارياں ہيں۔ تاہم اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ اسرائيل يا خطے کا کوئ بھی دوسرا ملک کسی بھی ايشو پر اپنے موقف کے ليے کسی طور بھی ہم پر انحصار کرتا ہے يا ہماری تائيد کا تابع ہے۔
مختلف اردو فورمز پر راۓ اور تجزيے پڑھنے کے بعد يہ واضح ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل اور فلسطين کے کئ دہائيوں پر محيط تنازعے کے خاتمے کے ضمن ميں کی جانے والی کوششوں اور اس حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور پاليسی کے حوالے سے غلط فہمی اور ابہام پايا جاتا ہے۔
امريکی حکومت مغربی کنارے اور غزہ ميں ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور 1967 سے فلسطينی علاقوں پر اسرائيلی تسلط کے ضمن ميں فلسطينی عوام کے موقف کی مکمل حمايت کرتی ہے۔ امريکی حکومت کے مشرق وسطی کے حوالے سے نقطہ نظر کو عرب ليگ کی بھی حمايت حاصل ہے۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت تمام متعلقہ فريقين سے مکمل رابطے ميں ہے اور ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جاۓ
ہم خطے ميں ايک مربوط امن معاہدے کے لیے کوشاں ہيں جس ميں فلسطين کے عوام کی اميدوں کے عين مطابق ايک خودمختار اور آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا حصول شامل ہے جہاں وہ اسرائيل کے شانہ بشانہ امن کے ساتھ زندگی گزار سکيں۔ اس ايشو کے حوالے سے امريکہ پر زيادہ تر تنقید اس غلط سوچ کی بنياد پر کی جاتی ہے کہ امريکہ کو دونوں ميں سے کسی ايک فريق کو منتخب کرنا ہو گا۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ اسرائيل کی غيرمشروط حمايت کرتا ہے۔
ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے ميں اسرائيل يا کسی اور ملک کے فوجی اقدامات کی توجيحات يا ان کی حمايت اور ترجمانی نہيں کروں گا۔
جو راۓ دہندگان امريکہ کی جانب سے اسرائيل کو اسلحہ فراہم کرنے کا سوال اٹھاتے ہيں وہ صرف ايک پہلو پر توجہ مرکوز کيے ہوۓ ہيں۔ حقيقت يہ ہے کہ امريکہ دنيا کے بہت سے ممالک کی افواج کو اسلحے کے ساتھ ساتھ فوجی سازوسامان اور تربيت فراہم کرتا ہے۔ ان ميں اسرائيل کے علاوہ اسی خطے ميں لبنان، سعودی عرب اور شام سميت بہت سے ممالک شامل ہيں۔
اسی ضمن ميں آپ کو يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت نے پاکستان اور بھارت، دونوں کو فوجی امداد کے علاوہ تعمير وترقی اور معاشی حوالے سے مستقل بنيادوں پر امداد فراہم کی ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کے درميان کئ بار جنگيں ہو چکی ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ دونوں ممالک ميں سے کسی ايک کو دوسرے پر فوقيت ديتا ہے
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://www.instagram.com/doturdu/
https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
آپ کی باتوں سے ہی میری بات صحیح نظر آتی ہے جو قراردایں مسلمانوں کے خلاف ہین ان تو فوری ایکشن لیا جاتا ہے لیکن جو قرارداد مسلمانوں کے حق میں ہیں ان پر سرد مہری۔۔۔۔ کشمیر اور فلسطین اس کی زندہ مثال ہیں۔۔۔۔۔فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اس وقت اقوام متحدہ ميں قريب 1800 کے لگ بھگ قرارداديں موجود ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک ميں جاری تنازعات سے ہے۔ يہ غير منطقی سوچ ہے کہ ان تمام ممالک ميں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے ليے فوجیں بيجھی جانی چاہيے۔ يہ طريقہ کار تو اقوام متحدہ کے قيام کے بنيادی فلسفے کی ہی نفی کر ديتا ہے جس کے مطابق دنيا کے مختلف ممالک کے درميان تنازعات کے حل کے ليے سفارتی کوششوں کو زيادہ موثر بنانے پر زور ديا گيا ہے۔
يہ بات قابل توجہ ہے کہ اسامہ بن لادن اور القائدہ کے خلاف قرارداد 1998 ميں منظور کی جا چکی تھی۔ اسی طرح صدام حکومت کے خلاف 1990 کی جنگ کے بعد کئ قراردادیں موجود تھيں جن پر عمل درآمد نہيں ہو رہا تھا۔ ليکن اس کے باوجود ان قراردادوں پر عمل درآمد کے ليے فوج کا استعمال نہيں کيا گيا۔ ليکن 911 کے واقعات کے بعد امريکی حکومت اور عالمی برادری پر يہ بات واضح ہو چکی تھی کہ افغانستان ميں القائدہ کے ٹھکانوں کے خاتمے کے ليے فوج کا استعمال ناگزير ہو چکا ہے۔
ميں پھر اس بات کا اعادہ کروں گا کہ عراق اور افغانستان ميں فوج کے استعمال کا فيصلہ صرف اس وقت کيا گيا جب کئ مہينوں اور سالوں کی بحث، معاہدوں اور مذاکرات ميں مکمل ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہيں کرايا جا سکا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
اقوام متحدہ میں کوئی عرب ملک رزولیوشن لے کہ آتا ہے تو امریکہ وہ واحد ملک ہے جو منافقت کرتے ہوئے اس کو ویٹو کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسرائیل کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ،،
امریکہ اندرونی اسرائل کی حمایت ہی کرتا ہے
۔
وجہ؟ایسے الفاظ سے اجتناب کریں ۔
بات ذاتیات پر آجاتی ہے ۔وجہ؟
چلین بات کو ختم کرتیں ہیںفواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
امريکہ نے اسرائيل کے ساتھ تعلقات سے کبھی انکار نہيں کيا اور امريکہ کے اندر اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنے کے حوالے سے سپورٹ سے بھی انکار نہيں ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ فلسطين کے عوام کے ساتھ دوستانہ روابط کے خلاف ہے۔ حقیقت يہ ہے کہ يہ تعلقات دونوں ممالک کے بہترين مفاد ميں ہيں۔
امريکہ نے اس مسلۓ کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی بہت سے قراردادوں کی حمايت کی ہے اور ان ميں کئ قرارداديں منظور بھی ہو چکی ہيں۔ امريکہ اس مسلۓ کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں 242، 338 اور 1397 اور اس ضمن ميں فريقين کے مابين طے پانے والے معاہدوں کی مکمل حمايت کرتا ہے اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو تسليم کرتا ہے۔ اس مسلۓ کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کی انھی قراردادوں پر عمل سے ممکن ہے۔
ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکہ نے اقوام متحدہ کی ايسی بھی بہت سی قرارداديں تسليم کی ہيں جس سے فلسطين کے موقف کی تائيد ہوتی ہے ليکن جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسلۓ کے حل کے ليے دونوں فريقين کی رضامندی کے بغير اقوام متحدہ کی قرارداديں ناکافی ہيں۔
امريکہ دونوں فريقين کے مابين فاصلے کم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
https://www.instagram.com/doturdu/
https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/