شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
تیسرا نظریہ:
’’بعض سر پھرےاور عقل کے بیری لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت نہیں ہے اور اس دعویٰ پر ان کی دلیل یہ ہے کہ جنتی مرد بے ریش ہوں گےلہٰذا اگر واقعی داڑھی خوبصورتی کی علامت ہوتی تو جنت میں بھی مرد کو داڑھی عطا کی جاتی۔‘‘
اس نامعقول نظریے کا جواب یہ ہے کہ خوبصورتی کا معیار زمانے ، حالات اور قوموں کے لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ زمانہ نبوی ﷺ اور اس سے قبل بھی داڑھی مرد کی اور لمبے بال عورتوں کی خوبصورتی کی واحد علامات تھیں اور مرد اور عورت کے سراپے میں سب سے نمایاں چیز جسے دلکشی اور خوبصورتی سے تعبیر کیا جاسکتا تھا بالترتیب داڑھی اور سر کے بال ہی تھے۔عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے: ’’ملائکۃ السماء یستغفرون لذوائب النساء ولحی الرجال یقولون سبحان اللہ الذی زین الرجال باللحیٰ والنساء بالذوائب‘‘ آسمان کے ملائکہ ان خواتین کے لیے جن کے سر کے لمبے بال ہوں اور ان مردوں کیلئے جن کی داڑھیاں ہوں مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کے ساتھ اور خواتین کو سر کے لمبے بالوں کے ساتھ خوبصورتی بخشی۔ ( مسند الفردوس ج 4 ص 157 رقم الحدیث 6488)
اس حدیث کی اسنادی حیثیت چاہے کمزور ہو یا موضوع لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ پہلے زمانوں میں جب انسان کسی حد تک فطرت پسند تھا عورت کے لمبے بال اور مرد کی داڑھی خوبصورتی کی علامت تھی۔ اب چونکہ اللہ نے اپنے رسول کو کامل بنایا تھا اور ہر اچھے وصف اور ہر اس چیز سے دل کھول کر نوازا تھا جسے اس زمانے اور ماحول میں مرد کے لئے خوبصورتی سمجھا جاتا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ بھی داڑھی والے تھے اور یہ داڑھی مکمل طور پر خوبصورت تھی اور اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں تھی جو بدنما لگے لہٰذا نبی کریم ﷺ کی داڑھی گھنی تھی کیونکہ ہلکی داڑھی خوبصورتی سے خارج سمجھی جاتی ہے اسی طرح داڑھی کی لمبائی بھی معتدل تھی کیونکہ حد سے لمبی داڑھی خوبصورت معلوم نہیں ہوتی اسکے علاوہ داڑھی کالی تھی کیونکہ سفید داڑھی خوبصورتی کے اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اترتی۔ چالیس سال کی عمر میں کافی حد تک داڑھی سفید ہوجاتی ہے لیکن اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اس سے محفوظ رکھا اور وفات تک نبی ﷺ کے اتنے بال ہی سفید تھے جو دیکھنے پر نظر بھی نہیں آتے تھے۔ مطلب یہ کہ نبی ﷺ کے سراپے میں ہر چیز محض خوبصورت نہیں بلکہ معیاری خوبصورتی کی حامل تھی۔ یاد رہے کہ اگر زمانہ نبوت یا عرب کے ماحول میں داڑھی خوبصورتی کی علامت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنے رسول کو داڑھی عطا نہ فرماتا کیونکہ رسول و نبی کو مرجع خلائق بنانے کے لئے اس سے ہر وہ چیز دور کردی جاتی ہے جو اس کی شخصیت میں کوئی عیب پیدا کرنے کا سبب بنےاور اس کی شخصیت ایسی بنا دی جاتی ہے کہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی خوبصورتی سے متاثر ہوکرلوگ ان کی جانب کچھے چلے آئیں ۔ اس نقطہ کے بعد کہ نبی و رسول کو ہر چیز اعلیٰ،معیاری اور خوبصورت عطا کی جاتی ہے پھر چاہے وہ خاندان ہو، سراپا ہو یا عادتیں ہر وصف میں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی مکرم ﷺ داڑھی والے اس لئے تھے کہ اس وقت مرد کے لئے خوبصورتی کا اعلیٰ معیارداڑھی والا ہوناہی تھا۔اب چونکہ ایک مسلمان ہر چیز میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرتا ہے اور ہر اس چیز سے محبت رکھنا اسکے ایمان کا حصہ ہے جو چیز اللہ کے رسول ﷺ کو پسند اور مرغوب تھی اس لئے قیامت تک ایک مسلمان مرد کے لئے داڑھی خوبصورتی ہی کی علامت رہے گی۔اب رہی یہ بات کہ جنت میں مرد کیوں بے ریش ہوگا تو عرض ہے کہ زمانے اور حالات کے لحاظ سے اس وقت خوبصورتی کے معیار کو تبدیل کردیا جائےگا جیسے پرانے وقتوں کے بادشاہ سونے کے زیوارت سے لدے پھندے ہوتے تھےجس میں سونے اور ہیرے جواہرات کے ہار، ہاتھوں میں کنگن اور کانوں میں بالے اور کئی قسم کے دوسرے زیورات شامل ہوتے تھے کیونکہ ان زمانوں یا قوموں میں یہ مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت تھی لیکن جب اسلام آیا اور سونے کو مرد پر حرام قرار دیا گیا اور زیورات عورتوں کی مشابہت کی بنا پر مردوں کے لئے ممنوع ہوئے تو اس وقت سے لے کر قیامت تک مسلمان مردوں کے لئے خوبصورتی کا معیار تبدیل ہوگیا ۔ اب ایک مسلمان مرد کی نظر میں سونے کے زیورات پہنے ہوا مرد انتہائی بدصورت ، بدنمااور کریہہ صورت قرار پائے گا لیکن چونکہ خوبصورتی اور بدصورتی کا یہ معیار جنت میں تبدیل ہوجائے گا اور جنت میں مرد کو سونے کے زیورات اور ریشم پہنایا جائے گا اس لئے جنت میں یہ چیزیں بدصورتی کے معیار سے تبدیل ہوکر خوبصورتی کی نشانی و علامت میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اس بارے میں اگر کوئی کچھ کہنا ہی چاہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں داڑھی مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت ہے لیکن جنت میں بے ریش ہونا مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت ہوگی۔ لیکن اگر کوئی شخص دنیا میں داڑھی صاف کرواکر خود کو خوبصورت سمجھتا ہے کیونکہ جنت میں بھی داڑھی نہ ہوگی تو وہ نہ صرف احمق ہے بلکہ زبان حال سے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر طعن کرنے والا بھی ہے کیونکہ وہ داڑھی منڈا ہوکر خود کو خوبصورت سمجھ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نظر اور نظریے میں نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک خوبصورت نہیں تھا کیونکہ وہ گھنی اور بڑی داڑھی والے تھے۔ کوئی لاکھ انکار کرکے لیکن ایسے نظریے کا نتیجہ تو یہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔
داڑھی کو خوبصورتی کے معیار سے خارج کرنے کے لئے جنتی مرد کی مثال پیش کرنا دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں رکھتاکیونکہ جنتی مرد کے جسم پر سرے سے کوئی بال ہی نہیں ہوگانہ مونچھیں ،نہ داڑھی ، نہ زیرناف اور بغل کے بال اور نہ ہی ہاتھوں ،پیروں اور سینے پر کسی قسم کا کوئی بال لہٰذا مخصوص کرکے یہ کہنا کہ جنتی مرد بغیر داڑھی کا ہوگا غلط ہے کیونکہ جنتی مردمکمل بے ریش ہوگا جس میں دیگر بالوں کے ساتھ ساتھ داڑھی بھی خودبخود شامل ہے۔یہ تو جنتی مرد کی خصوصیت ہے لیکن اگر ہم ایک بالغ مرد کے لئے دنیاوی خوبصورتی کے معیار پر نظر ڈالیں تو خواتین اور لڑکیاں ایسے مردوں کو بالکل پسند نہیں کرتیں جن کے جسم پر کوئی بال ہی نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں آدمی مرد کم اور عورت زیادہ لگتا ہے کیونکہ جسم پر بالوں کا بالکل پایا نہ جانا خاص زنانہ خوبصورتی ہے اور ظاہر ہے اسی چیز کامردوں میں پایا جانا بدصورتی کی علامت ہے۔پس معاملہ صاف ہے کہ مردوں کے لئے دنیا میں بال ہونا صنف مخالف کی نظر میں خوبصورتی کی علامت ہے جبکہ آخرت میں اس کی خوبصورتی میں بال شامل نہیں ہوں گے۔یا یوں کہہ لیں کہ اللہ جنت میں انسانوں کی فطرت کو تبدیل کردے گا وہاں بغیر بالوں والا مرد خوبصورت سمجھا جائے گا جبکہ دنیا میں بالوں والے مرد کو خوبصورت، حسین، پرکشش اور وجیہہ سمجھا جاتا ہے۔یہ صرف معیار حسن کی تبدیلی کی بات ہے جو زماں و مکاں کے لحاظ سے بدل جائے گی۔
جامع ترمذی کی ایک حدیث میں جنتی مرد کے لئے ’’امرد‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی ایسا نابالغ لڑکا جس کے جسم پر ابھی قدرتی طور پر بال ہی نہ اگیں ہوں۔ ملاحظہ ہو: ’’عن أبی هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم أهل الجنة جرد مرد کحلی لايفنی شبابهم ولا تبلی ثيابهم.‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جنتی بغیر بال کے ’’امرد‘‘وسرمگیں آنکھوں والے ہوں گے، نہ ان کی جوانی ختم ہوگی اور نہ ان کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے۔(سنن الترمذی، ابواب صفۃ الجنۃ، رقم الحدیث: 2539)
یاد رہے کہ مخصوص حالات میں’’امرد‘‘ کا حکم عورتوں والا ہوتا ہے کیونکہ وہ نظر آنے میں مردوں سےزیادہ عورتوں کے قریب ہوتا ہےاورایک بالغ مرد خوبصورت’’امرد‘‘ کی جانب اسی طرح کشش اور رغبت محسوس کرتا ہے جیسے ایک عورت یا لڑکی کی طرف۔ یہی وجہ ہے کہ قوم لوط میں امرد پرستی رائج تھی یعنی ایک ایسے لڑکے سے بدفعلی کی جاتی تھی جس کے جسم پر ابھی بال نہ اگے ہوں اور جیسے ہی وہ اس عمر کو پہنچتا جب اسکے داڑھی مونچھیں اور بدن پر بال آنے لگتے تو اس سے کنارہ کش ہوکر اسے چھوڑ دیا جاتاتھا ۔چناچہ عورتوں کی جانب رغبت اور میلان رکھنے والاآج کون سا بالغ مرد ایسا ہے جو ایسی صفات کو پسند کرتا ہو جس کی وجہ سے عورتوں سے زیادہ مرد اس کی طرف راغب ہونے لگیں۔ لہٰذا ایک بالغ مرد کے لئے امرد جیسا ہونا نہ صرف ایک عیب ہے بلکہ امرد کا طعنہ بھی اس کے لئے گالی ہے۔ایک امرد یا لونڈے کو ہمارا معاشرہ کس بری نظر سے دیکھتا ہے اس کا اندازہ ہمارے شعراءسے لگا لیجئے جنھوں نے عورت کی طرح امرد کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ نمونے کے طور پر بڑے اور نامور شعراء کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
روایات میں چار انبیاء کرام کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی جنت میں بھی داڑھیاں ہوں گی ان میں آدم علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام شامل ہیں۔لیکن یہ تمام روایات موضوع درجے کی ہیں۔ ان کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی ان روایات کو گھڑا ہے ان کے نزدیک داڑھی کے بغیر مرد کا تصور یقیناًمشکل رہاہوگا اور ان کو یہ بات ہضم کرنا دشوار ہوگا کہ جنت میں مرد اس چیزسے محروم ہوگا جومرد کو مرد بناتی ہے اور اس کا سب سے بڑا حسن ہے چونکہ ان کے زمانے اور ماحول میں مرد داڑھی کے بغیر انتہائی بدصورت بلکہ نامرد سمجھا جاتا تھا اس لئے انہوں نے اپنی ذہنی تسلی کے لئے ایسی احادیث گھڑ دیں جس کے مطابق انبیاء دنیا میں بھی داڑھی والے تھے اور آخرت میں داڑھی والے ہی ہوں گے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں داڑھی فطرتاً خوبصورتی کی علامت ہے۔ اب اگر کسی نے اس سے ہٹ کر کوئی غیر فطری خوبصورتی کا معیار بنالیا ہے تو وہ اس کا قصور ہے۔اب تو فطرت سے بغاوت کرنے والے مغربی مرد نے بھی داڑھی رکھنا شروع کردی ہے او ر وہاں کی خواتین بھی داڑھی والے مردوں کو ترجیح دینے لگی ہیں لیکن ہمارا مسلمان بھائی فطرت سے بغاوت کی طرف مائل ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ داڑھی خوبصورتی ہے یا نہیں اس کا تمام تر انحصار آپ کے طے کردہ معیار اور انتخاب پر ہے۔ اگر تو آپ کا معیار وہی ہے جو فطرت کی باغی مغربی اقوام کا ہے تو پھرداڑھی بدصورتی کی علامت ہے۔ اور اگر آپ کا انتخاب دین فطر ت ہے تو پھر داڑھی مرد کے لئے خوبصورتی کی واحد علامت ہے اس کے بغیر دنیا کا حسین ترین مرد بھی بدصورت ہے اور اس کے ساتھ ایک بدصورت مرد بھی کسی حد تک خوبصورت ہوجاتا ہے کیونکہ داڑھی صرف دین نہیں بلکہ فطرت بھی ہےاور فطرت خوبصورتی کا دوسرا نام ہے۔اس کے بجائے غیر فطری چیزوں میں حسن صرف اس کو نظر آسکتا ہے جس کے دین میں بگاڑ ہو، جس کی شخصیت میں تضاد ہو جو بیک وقت اسلام اور کفر دونوں کو پسند کرتا ہواس طرح کہ بعض چیزوں میں اس کا رجحان اور میلان کفریہ نظریات کی طرف ہو اور بعض باتیں اسے دین اسلام کی پسند آتی ہوں یا پھرکفر میں اس کی رغبت بمقابلہ اسلام زیادہ ہو جیسا کہ آج کل کے مسلمانوں کی حالت ہےکہ زبانی دعویٰ تو ایمان اور اسلام کا کرتے ہیں لیکن رہن سہن، لباس،زبان، عادات و اطوار میں مغرب کی پیروی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ گویا دعویٰ تو اسلامی ہے لیکن سوچ کافرانہ ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو جو زبان سے مسلمان اور سوچ سے کافر ہے اپنی سوچ وفکر کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے داڑھی میں حسن اور خوبصورتی نظر آسکے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ‘‘ ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی ......اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا: ’’ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُم‘‘ وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔(صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)
توجہ فرمائیں کہ فرشتوں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں اور نہ ہی داڑھی کی فرضیت کا اطلاق ان کی ذات پر ہوتا ہے اس کے باوجود بعد سیدنا جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں آئے تو ان کے چہرے پر داڑھی تھی۔ اس کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے اگر وہ داڑھی کے بغیر ہوتے تو صحابہ کو برا محسوس ہوتا کیونکہ انہوں نے مرد کو داڑھی کے بغیر تصور ہی نہیں کیا تھا جبکہ خود رسول اللہ ﷺ کو داڑھی منڈے چہروں سے نفرت تھی۔ نبی ﷺ حسن اور خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے جیسا کہ اللہ رب العالمین کے متعلق آیا ہے کہ وہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تو اگر داڑھی خوبصورتی کی علامت نہ ہوتی تو داڑھی منڈے چہروں سے نبی ﷺ کو نفرت نہیں ہونی چاہیے تھی۔نبی ﷺ کی یہ نفرت ہی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ نبی ﷺ کے نزدیک بھی داڑھی خوبصورتی کی علامت تھی۔
جب عذاب اور خوشخبری کا پیغام لے کر فرشتے انسانی شکل میں لوط علیہ السلام کے پاس آئے تو ان کے چہروں پر داڑھی نہیں تھی کیونکہ وہ ایسے لڑکوں کے بھیس میں تھے جن کے قدرتی طور پر ابھی داڑھی مونچھوں کے بال نہیں اگے تھے۔ لیکن اگر وہ نوعمر لڑکوں کے بجائے مرد کے روپ میں ہوتے تو یقیناًان کے چہروں پر بھی داڑھی ہوتی کیونکہ لوط علیہ السلام بھی مرد تھے اور داڑھی والے تھےاور یہ تو سوچنا بھی گستاخی ہے کہ لوط علیہ السلام کے چہرے پر ایک ایسی چیز تھی یعنی داڑھی جو خوبصورتی کی علامت نہیں تھی۔ بدصورت چیزوں اور ادنیٰ اخلاق اور برے اور ہلکے اطوار کا انبیاء کی شخصیات میں کوئی دخل نہیں۔پس ثابت ہوا کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے کیونکہ ہر نبی داڑھی والا تھا۔اس بحث کے اختتام پر اپنے ثبوت دعویٰ کے حق میں ایک صریح حدیث ہدیہ قارئین ہے:
چودھری عبدالحفیظ لکھتے ہیں: ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ ایک مجوسی رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس نے اپنی داڑھی مونڈی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں، اسے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ماہذا؟‘‘ یہ کیا ہیئت کذائی ہے؟ اس نے کہا: ’’هذا ديننا ‘‘یہ ہمارا دین ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’لكن فى ديننا ان نحفى الشوارب وان نعفی اللحية‘‘ لیکن ہمارے دین میں ہے کہ ہم مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں۔"(بحوالہ ماہنامہ محدث، لاہور، شمارہ نمبر6، جلدنمبر12، اپریل 1982ء)
یہاں واضح طور پر نبی مکرم ﷺ نے داڑھی منڈے چہرے کو بدصورت چہرہ قرار دیا ہے جس کا مخالف مفہوم داڑھی والے چہرے کا خوبصورت ہونا ہے۔پس اللہ کے رسول ﷺ کے اپنے الفاظ سے ثابت ہوا کہ داڑھی خوبصورتی جبکہ داڑھی نہ ہونا بد صورتی کی علامت اور معیارہے۔ اگر کسی کو نبی ﷺ کا بیان کردہ معیار حسن پسند نہیں تو یہ اس کا اپنا انتخاب ہے۔لیکن اپنی چاہت کو فوقیت دینے اور اپنی مرضی کو مقدم کرنے والے شخص کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی پسند نہ صرف نبی ﷺ کی پسند سے الگ ہے بلکہ اللہ کی پسند کے بھی مخالف ہے کیونکہ داڑھی علامت جمال ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ حدیث میں اسےمرد کے حسن اور خوبصورتی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسکی براہ راست نسبت اللہ رب العالمین کی جانب کی گئی ہے،لہٰذا جب اللہ ہی نے داڑھی کو مرد کی زینت بنایا ہے تو داڑھی کے خوبصورتی کی علامت اور نشان ہونے پر کیا کلام باقی رہ جاتا ہے۔ چودھری عبدالحفیظ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مردوں کو داڑھی کا حسن عطا کیا ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ ملائکہ کی تسبیح میں ایک کلمہ یہ بھی ہے ......’’سبحان من زين الرجال باللحىٰ‘‘ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کا حسن عطا کیا۔(ماہنامہ محدث،لاہور،شمارہ نمبر6، جلد12،اپریل 1982ء)
اسی طرح مولانا قاری محمد طیب دیوبندی رقمطراز ہیں: ملائکہ علیہم السّلام کی ایک لاتعداد جماعت کی تسبیح ہی حدیث نبوی میں یہ بتلائی گئی ہے کہ ’’سبحان من زیّن الرّجال باللحّی وزیّن النساء بالقرون والذّوائب‘‘ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو ڈاڑھیوں سے زینت دی اور عورتوں کو مینڈھیوں اور چوٹیوں سے زینت بخشی۔ (ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع ڈاڑھی کا فلسفہ،صفحہ 39)
’’بعض سر پھرےاور عقل کے بیری لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت نہیں ہے اور اس دعویٰ پر ان کی دلیل یہ ہے کہ جنتی مرد بے ریش ہوں گےلہٰذا اگر واقعی داڑھی خوبصورتی کی علامت ہوتی تو جنت میں بھی مرد کو داڑھی عطا کی جاتی۔‘‘
اس نامعقول نظریے کا جواب یہ ہے کہ خوبصورتی کا معیار زمانے ، حالات اور قوموں کے لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ زمانہ نبوی ﷺ اور اس سے قبل بھی داڑھی مرد کی اور لمبے بال عورتوں کی خوبصورتی کی واحد علامات تھیں اور مرد اور عورت کے سراپے میں سب سے نمایاں چیز جسے دلکشی اور خوبصورتی سے تعبیر کیا جاسکتا تھا بالترتیب داڑھی اور سر کے بال ہی تھے۔عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے: ’’ملائکۃ السماء یستغفرون لذوائب النساء ولحی الرجال یقولون سبحان اللہ الذی زین الرجال باللحیٰ والنساء بالذوائب‘‘ آسمان کے ملائکہ ان خواتین کے لیے جن کے سر کے لمبے بال ہوں اور ان مردوں کیلئے جن کی داڑھیاں ہوں مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کے ساتھ اور خواتین کو سر کے لمبے بالوں کے ساتھ خوبصورتی بخشی۔ ( مسند الفردوس ج 4 ص 157 رقم الحدیث 6488)
اس حدیث کی اسنادی حیثیت چاہے کمزور ہو یا موضوع لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ پہلے زمانوں میں جب انسان کسی حد تک فطرت پسند تھا عورت کے لمبے بال اور مرد کی داڑھی خوبصورتی کی علامت تھی۔ اب چونکہ اللہ نے اپنے رسول کو کامل بنایا تھا اور ہر اچھے وصف اور ہر اس چیز سے دل کھول کر نوازا تھا جسے اس زمانے اور ماحول میں مرد کے لئے خوبصورتی سمجھا جاتا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ بھی داڑھی والے تھے اور یہ داڑھی مکمل طور پر خوبصورت تھی اور اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں تھی جو بدنما لگے لہٰذا نبی کریم ﷺ کی داڑھی گھنی تھی کیونکہ ہلکی داڑھی خوبصورتی سے خارج سمجھی جاتی ہے اسی طرح داڑھی کی لمبائی بھی معتدل تھی کیونکہ حد سے لمبی داڑھی خوبصورت معلوم نہیں ہوتی اسکے علاوہ داڑھی کالی تھی کیونکہ سفید داڑھی خوبصورتی کے اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اترتی۔ چالیس سال کی عمر میں کافی حد تک داڑھی سفید ہوجاتی ہے لیکن اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اس سے محفوظ رکھا اور وفات تک نبی ﷺ کے اتنے بال ہی سفید تھے جو دیکھنے پر نظر بھی نہیں آتے تھے۔ مطلب یہ کہ نبی ﷺ کے سراپے میں ہر چیز محض خوبصورت نہیں بلکہ معیاری خوبصورتی کی حامل تھی۔ یاد رہے کہ اگر زمانہ نبوت یا عرب کے ماحول میں داڑھی خوبصورتی کی علامت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنے رسول کو داڑھی عطا نہ فرماتا کیونکہ رسول و نبی کو مرجع خلائق بنانے کے لئے اس سے ہر وہ چیز دور کردی جاتی ہے جو اس کی شخصیت میں کوئی عیب پیدا کرنے کا سبب بنےاور اس کی شخصیت ایسی بنا دی جاتی ہے کہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی خوبصورتی سے متاثر ہوکرلوگ ان کی جانب کچھے چلے آئیں ۔ اس نقطہ کے بعد کہ نبی و رسول کو ہر چیز اعلیٰ،معیاری اور خوبصورت عطا کی جاتی ہے پھر چاہے وہ خاندان ہو، سراپا ہو یا عادتیں ہر وصف میں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی مکرم ﷺ داڑھی والے اس لئے تھے کہ اس وقت مرد کے لئے خوبصورتی کا اعلیٰ معیارداڑھی والا ہوناہی تھا۔اب چونکہ ایک مسلمان ہر چیز میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرتا ہے اور ہر اس چیز سے محبت رکھنا اسکے ایمان کا حصہ ہے جو چیز اللہ کے رسول ﷺ کو پسند اور مرغوب تھی اس لئے قیامت تک ایک مسلمان مرد کے لئے داڑھی خوبصورتی ہی کی علامت رہے گی۔اب رہی یہ بات کہ جنت میں مرد کیوں بے ریش ہوگا تو عرض ہے کہ زمانے اور حالات کے لحاظ سے اس وقت خوبصورتی کے معیار کو تبدیل کردیا جائےگا جیسے پرانے وقتوں کے بادشاہ سونے کے زیوارت سے لدے پھندے ہوتے تھےجس میں سونے اور ہیرے جواہرات کے ہار، ہاتھوں میں کنگن اور کانوں میں بالے اور کئی قسم کے دوسرے زیورات شامل ہوتے تھے کیونکہ ان زمانوں یا قوموں میں یہ مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت تھی لیکن جب اسلام آیا اور سونے کو مرد پر حرام قرار دیا گیا اور زیورات عورتوں کی مشابہت کی بنا پر مردوں کے لئے ممنوع ہوئے تو اس وقت سے لے کر قیامت تک مسلمان مردوں کے لئے خوبصورتی کا معیار تبدیل ہوگیا ۔ اب ایک مسلمان مرد کی نظر میں سونے کے زیورات پہنے ہوا مرد انتہائی بدصورت ، بدنمااور کریہہ صورت قرار پائے گا لیکن چونکہ خوبصورتی اور بدصورتی کا یہ معیار جنت میں تبدیل ہوجائے گا اور جنت میں مرد کو سونے کے زیورات اور ریشم پہنایا جائے گا اس لئے جنت میں یہ چیزیں بدصورتی کے معیار سے تبدیل ہوکر خوبصورتی کی نشانی و علامت میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اس بارے میں اگر کوئی کچھ کہنا ہی چاہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں داڑھی مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت ہے لیکن جنت میں بے ریش ہونا مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت ہوگی۔ لیکن اگر کوئی شخص دنیا میں داڑھی صاف کرواکر خود کو خوبصورت سمجھتا ہے کیونکہ جنت میں بھی داڑھی نہ ہوگی تو وہ نہ صرف احمق ہے بلکہ زبان حال سے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر طعن کرنے والا بھی ہے کیونکہ وہ داڑھی منڈا ہوکر خود کو خوبصورت سمجھ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نظر اور نظریے میں نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک خوبصورت نہیں تھا کیونکہ وہ گھنی اور بڑی داڑھی والے تھے۔ کوئی لاکھ انکار کرکے لیکن ایسے نظریے کا نتیجہ تو یہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔
داڑھی کو خوبصورتی کے معیار سے خارج کرنے کے لئے جنتی مرد کی مثال پیش کرنا دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں رکھتاکیونکہ جنتی مرد کے جسم پر سرے سے کوئی بال ہی نہیں ہوگانہ مونچھیں ،نہ داڑھی ، نہ زیرناف اور بغل کے بال اور نہ ہی ہاتھوں ،پیروں اور سینے پر کسی قسم کا کوئی بال لہٰذا مخصوص کرکے یہ کہنا کہ جنتی مرد بغیر داڑھی کا ہوگا غلط ہے کیونکہ جنتی مردمکمل بے ریش ہوگا جس میں دیگر بالوں کے ساتھ ساتھ داڑھی بھی خودبخود شامل ہے۔یہ تو جنتی مرد کی خصوصیت ہے لیکن اگر ہم ایک بالغ مرد کے لئے دنیاوی خوبصورتی کے معیار پر نظر ڈالیں تو خواتین اور لڑکیاں ایسے مردوں کو بالکل پسند نہیں کرتیں جن کے جسم پر کوئی بال ہی نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں آدمی مرد کم اور عورت زیادہ لگتا ہے کیونکہ جسم پر بالوں کا بالکل پایا نہ جانا خاص زنانہ خوبصورتی ہے اور ظاہر ہے اسی چیز کامردوں میں پایا جانا بدصورتی کی علامت ہے۔پس معاملہ صاف ہے کہ مردوں کے لئے دنیا میں بال ہونا صنف مخالف کی نظر میں خوبصورتی کی علامت ہے جبکہ آخرت میں اس کی خوبصورتی میں بال شامل نہیں ہوں گے۔یا یوں کہہ لیں کہ اللہ جنت میں انسانوں کی فطرت کو تبدیل کردے گا وہاں بغیر بالوں والا مرد خوبصورت سمجھا جائے گا جبکہ دنیا میں بالوں والے مرد کو خوبصورت، حسین، پرکشش اور وجیہہ سمجھا جاتا ہے۔یہ صرف معیار حسن کی تبدیلی کی بات ہے جو زماں و مکاں کے لحاظ سے بدل جائے گی۔
جامع ترمذی کی ایک حدیث میں جنتی مرد کے لئے ’’امرد‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی ایسا نابالغ لڑکا جس کے جسم پر ابھی قدرتی طور پر بال ہی نہ اگیں ہوں۔ ملاحظہ ہو: ’’عن أبی هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم أهل الجنة جرد مرد کحلی لايفنی شبابهم ولا تبلی ثيابهم.‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جنتی بغیر بال کے ’’امرد‘‘وسرمگیں آنکھوں والے ہوں گے، نہ ان کی جوانی ختم ہوگی اور نہ ان کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے۔(سنن الترمذی، ابواب صفۃ الجنۃ، رقم الحدیث: 2539)
یاد رہے کہ مخصوص حالات میں’’امرد‘‘ کا حکم عورتوں والا ہوتا ہے کیونکہ وہ نظر آنے میں مردوں سےزیادہ عورتوں کے قریب ہوتا ہےاورایک بالغ مرد خوبصورت’’امرد‘‘ کی جانب اسی طرح کشش اور رغبت محسوس کرتا ہے جیسے ایک عورت یا لڑکی کی طرف۔ یہی وجہ ہے کہ قوم لوط میں امرد پرستی رائج تھی یعنی ایک ایسے لڑکے سے بدفعلی کی جاتی تھی جس کے جسم پر ابھی بال نہ اگے ہوں اور جیسے ہی وہ اس عمر کو پہنچتا جب اسکے داڑھی مونچھیں اور بدن پر بال آنے لگتے تو اس سے کنارہ کش ہوکر اسے چھوڑ دیا جاتاتھا ۔چناچہ عورتوں کی جانب رغبت اور میلان رکھنے والاآج کون سا بالغ مرد ایسا ہے جو ایسی صفات کو پسند کرتا ہو جس کی وجہ سے عورتوں سے زیادہ مرد اس کی طرف راغب ہونے لگیں۔ لہٰذا ایک بالغ مرد کے لئے امرد جیسا ہونا نہ صرف ایک عیب ہے بلکہ امرد کا طعنہ بھی اس کے لئے گالی ہے۔ایک امرد یا لونڈے کو ہمارا معاشرہ کس بری نظر سے دیکھتا ہے اس کا اندازہ ہمارے شعراءسے لگا لیجئے جنھوں نے عورت کی طرح امرد کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ نمونے کے طور پر بڑے اور نامور شعراء کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
جو لونڈا چھوڑ کر رنڈی کو چاہے
وہ کوئی عاشق نہیں ہے بوالہوس ہے (آبرو شاہ مبارک)
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا (میر تقی میر)
کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ (میر تقی میر)
امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا (حیدر علی آتش)
یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم
کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو (قائم چاندپوری)
لیا میں بوسہ بہ زور اس سپاہی زادے کا
عزیزو اب بھی مری کچھ دلاوری دیکھی (مصحفی غلام ہمدانی)
گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے
پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے (میر تقی میر)
باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا (میر تقی میر)
پس دنیا میں ایک مرد کے لئے امرد جیسا ہونا بدصورتی اور طعن ہے جبکہ جنت میں امرد ہونا اس کے لئے خوبصورتی ہوگی۔ کسی چیز یا چہرے میں خوبصورتی محسوس ہونا انسانی سوچ کی بنا پر ہوتا ہے معاشرہ ، ماحول اور دین جس چیز کو خوبصورتی کہتا ہے انسانی ذہن اسے تسلیم کرلیتا ہے پھر اس سے ہٹ کر نظر آنے والی کوئی بھی چیز یا چہرہ اسے بدصورت نظر آنے لگتا ہے اگر یہ سوچ بدل جائے تو خوبصورتی کا نظریہ بھی خودبخود بدل جاتا ہے۔ چناچہ اصل بات یہی ہے کہ خوبصورتی کا معیار دنیا میں کچھ اور ہے اور آخرت میں کچھ اور ہوگا لہٰذا دنیاوی حسن کے معیار کا تقابل جنت کے معیار حسن کے ساتھ کرنا عقلی اور نقلی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔وہ کوئی عاشق نہیں ہے بوالہوس ہے (آبرو شاہ مبارک)
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا (میر تقی میر)
کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ (میر تقی میر)
امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا (حیدر علی آتش)
یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم
کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو (قائم چاندپوری)
لیا میں بوسہ بہ زور اس سپاہی زادے کا
عزیزو اب بھی مری کچھ دلاوری دیکھی (مصحفی غلام ہمدانی)
گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے
پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے (میر تقی میر)
باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا (میر تقی میر)
روایات میں چار انبیاء کرام کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی جنت میں بھی داڑھیاں ہوں گی ان میں آدم علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام شامل ہیں۔لیکن یہ تمام روایات موضوع درجے کی ہیں۔ ان کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی ان روایات کو گھڑا ہے ان کے نزدیک داڑھی کے بغیر مرد کا تصور یقیناًمشکل رہاہوگا اور ان کو یہ بات ہضم کرنا دشوار ہوگا کہ جنت میں مرد اس چیزسے محروم ہوگا جومرد کو مرد بناتی ہے اور اس کا سب سے بڑا حسن ہے چونکہ ان کے زمانے اور ماحول میں مرد داڑھی کے بغیر انتہائی بدصورت بلکہ نامرد سمجھا جاتا تھا اس لئے انہوں نے اپنی ذہنی تسلی کے لئے ایسی احادیث گھڑ دیں جس کے مطابق انبیاء دنیا میں بھی داڑھی والے تھے اور آخرت میں داڑھی والے ہی ہوں گے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں داڑھی فطرتاً خوبصورتی کی علامت ہے۔ اب اگر کسی نے اس سے ہٹ کر کوئی غیر فطری خوبصورتی کا معیار بنالیا ہے تو وہ اس کا قصور ہے۔اب تو فطرت سے بغاوت کرنے والے مغربی مرد نے بھی داڑھی رکھنا شروع کردی ہے او ر وہاں کی خواتین بھی داڑھی والے مردوں کو ترجیح دینے لگی ہیں لیکن ہمارا مسلمان بھائی فطرت سے بغاوت کی طرف مائل ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ داڑھی خوبصورتی ہے یا نہیں اس کا تمام تر انحصار آپ کے طے کردہ معیار اور انتخاب پر ہے۔ اگر تو آپ کا معیار وہی ہے جو فطرت کی باغی مغربی اقوام کا ہے تو پھرداڑھی بدصورتی کی علامت ہے۔ اور اگر آپ کا انتخاب دین فطر ت ہے تو پھر داڑھی مرد کے لئے خوبصورتی کی واحد علامت ہے اس کے بغیر دنیا کا حسین ترین مرد بھی بدصورت ہے اور اس کے ساتھ ایک بدصورت مرد بھی کسی حد تک خوبصورت ہوجاتا ہے کیونکہ داڑھی صرف دین نہیں بلکہ فطرت بھی ہےاور فطرت خوبصورتی کا دوسرا نام ہے۔اس کے بجائے غیر فطری چیزوں میں حسن صرف اس کو نظر آسکتا ہے جس کے دین میں بگاڑ ہو، جس کی شخصیت میں تضاد ہو جو بیک وقت اسلام اور کفر دونوں کو پسند کرتا ہواس طرح کہ بعض چیزوں میں اس کا رجحان اور میلان کفریہ نظریات کی طرف ہو اور بعض باتیں اسے دین اسلام کی پسند آتی ہوں یا پھرکفر میں اس کی رغبت بمقابلہ اسلام زیادہ ہو جیسا کہ آج کل کے مسلمانوں کی حالت ہےکہ زبانی دعویٰ تو ایمان اور اسلام کا کرتے ہیں لیکن رہن سہن، لباس،زبان، عادات و اطوار میں مغرب کی پیروی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ گویا دعویٰ تو اسلامی ہے لیکن سوچ کافرانہ ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو جو زبان سے مسلمان اور سوچ سے کافر ہے اپنی سوچ وفکر کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے داڑھی میں حسن اور خوبصورتی نظر آسکے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ‘‘ ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی ......اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا: ’’ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُم‘‘ وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔(صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)
توجہ فرمائیں کہ فرشتوں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں اور نہ ہی داڑھی کی فرضیت کا اطلاق ان کی ذات پر ہوتا ہے اس کے باوجود بعد سیدنا جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں آئے تو ان کے چہرے پر داڑھی تھی۔ اس کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے اگر وہ داڑھی کے بغیر ہوتے تو صحابہ کو برا محسوس ہوتا کیونکہ انہوں نے مرد کو داڑھی کے بغیر تصور ہی نہیں کیا تھا جبکہ خود رسول اللہ ﷺ کو داڑھی منڈے چہروں سے نفرت تھی۔ نبی ﷺ حسن اور خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے جیسا کہ اللہ رب العالمین کے متعلق آیا ہے کہ وہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تو اگر داڑھی خوبصورتی کی علامت نہ ہوتی تو داڑھی منڈے چہروں سے نبی ﷺ کو نفرت نہیں ہونی چاہیے تھی۔نبی ﷺ کی یہ نفرت ہی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ نبی ﷺ کے نزدیک بھی داڑھی خوبصورتی کی علامت تھی۔
جب عذاب اور خوشخبری کا پیغام لے کر فرشتے انسانی شکل میں لوط علیہ السلام کے پاس آئے تو ان کے چہروں پر داڑھی نہیں تھی کیونکہ وہ ایسے لڑکوں کے بھیس میں تھے جن کے قدرتی طور پر ابھی داڑھی مونچھوں کے بال نہیں اگے تھے۔ لیکن اگر وہ نوعمر لڑکوں کے بجائے مرد کے روپ میں ہوتے تو یقیناًان کے چہروں پر بھی داڑھی ہوتی کیونکہ لوط علیہ السلام بھی مرد تھے اور داڑھی والے تھےاور یہ تو سوچنا بھی گستاخی ہے کہ لوط علیہ السلام کے چہرے پر ایک ایسی چیز تھی یعنی داڑھی جو خوبصورتی کی علامت نہیں تھی۔ بدصورت چیزوں اور ادنیٰ اخلاق اور برے اور ہلکے اطوار کا انبیاء کی شخصیات میں کوئی دخل نہیں۔پس ثابت ہوا کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے کیونکہ ہر نبی داڑھی والا تھا۔اس بحث کے اختتام پر اپنے ثبوت دعویٰ کے حق میں ایک صریح حدیث ہدیہ قارئین ہے:
چودھری عبدالحفیظ لکھتے ہیں: ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ ایک مجوسی رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس نے اپنی داڑھی مونڈی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں، اسے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ماہذا؟‘‘ یہ کیا ہیئت کذائی ہے؟ اس نے کہا: ’’هذا ديننا ‘‘یہ ہمارا دین ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’لكن فى ديننا ان نحفى الشوارب وان نعفی اللحية‘‘ لیکن ہمارے دین میں ہے کہ ہم مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں۔"(بحوالہ ماہنامہ محدث، لاہور، شمارہ نمبر6، جلدنمبر12، اپریل 1982ء)
یہاں واضح طور پر نبی مکرم ﷺ نے داڑھی منڈے چہرے کو بدصورت چہرہ قرار دیا ہے جس کا مخالف مفہوم داڑھی والے چہرے کا خوبصورت ہونا ہے۔پس اللہ کے رسول ﷺ کے اپنے الفاظ سے ثابت ہوا کہ داڑھی خوبصورتی جبکہ داڑھی نہ ہونا بد صورتی کی علامت اور معیارہے۔ اگر کسی کو نبی ﷺ کا بیان کردہ معیار حسن پسند نہیں تو یہ اس کا اپنا انتخاب ہے۔لیکن اپنی چاہت کو فوقیت دینے اور اپنی مرضی کو مقدم کرنے والے شخص کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی پسند نہ صرف نبی ﷺ کی پسند سے الگ ہے بلکہ اللہ کی پسند کے بھی مخالف ہے کیونکہ داڑھی علامت جمال ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ حدیث میں اسےمرد کے حسن اور خوبصورتی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسکی براہ راست نسبت اللہ رب العالمین کی جانب کی گئی ہے،لہٰذا جب اللہ ہی نے داڑھی کو مرد کی زینت بنایا ہے تو داڑھی کے خوبصورتی کی علامت اور نشان ہونے پر کیا کلام باقی رہ جاتا ہے۔ چودھری عبدالحفیظ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مردوں کو داڑھی کا حسن عطا کیا ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ ملائکہ کی تسبیح میں ایک کلمہ یہ بھی ہے ......’’سبحان من زين الرجال باللحىٰ‘‘ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کا حسن عطا کیا۔(ماہنامہ محدث،لاہور،شمارہ نمبر6، جلد12،اپریل 1982ء)
اسی طرح مولانا قاری محمد طیب دیوبندی رقمطراز ہیں: ملائکہ علیہم السّلام کی ایک لاتعداد جماعت کی تسبیح ہی حدیث نبوی میں یہ بتلائی گئی ہے کہ ’’سبحان من زیّن الرّجال باللحّی وزیّن النساء بالقرون والذّوائب‘‘ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو ڈاڑھیوں سے زینت دی اور عورتوں کو مینڈھیوں اور چوٹیوں سے زینت بخشی۔ (ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع ڈاڑھی کا فلسفہ،صفحہ 39)
Last edited: