شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
بیسواں نظریہ:
’’علمائے کرام نے کبیرہ گناہوں کی جو فہرست بنائی ہے اس میں داڑھی مونڈنا شامل نہیں ہے لہٰذا جب قطع اللحیہ کبیرہ گناہ نہیں تو یہ فرض بھی نہیں تو پھریہ داڑھی کے غیرواجب ہونے کی طرف اشارہ اوراس کی دلیل ہے۔‘‘
سب سے پہلے تو عرض ہے کبیرہ گناہوں کے اعداد وشمار پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں وہ سب کی سب امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ کی تصنیف ’’الکبائر‘‘ سے ماخوذ ہیں اس لئے کبائر کی اس فہرست کودیگر علمائے کرام کی طرف منسوب کرنا اور ان کی ذاتی کاوش قرار دینازیادتی ہے اور اگر امام ذہبی کسی سہو کی بنا پر کبائر کی لسٹ میں داڑھی مونڈنے کو شامل کرنابھول گئے تو یہ داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بنتی اور وہ بھی اس صورت میں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے تمام کبائر کے درج کرنے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی امام ذہبی کی اپنی کتاب میں داخل کردہ کبیرہ گناہوں کی تعداد کوئی حتمی تعداد ہے جس میں اضافہ ممکن نہیں۔ اس طرح حافظ ذہبی کی فہرست کبائر کو حتمی تصور کرکے اس کی بنیاد پر داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ ہونے سےانکارکرنا یا داڑھی کی وجوبیت میں اشکال پیدا کرنا بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کے دور میں بھی کچھ لوگوں کا نظریہ تھا کہ کبیرہ گناہ تعداد میں صرف سات ہیں جن کا تذکرہ صحیح حدیث میں آیا ہےاسکے علاوہ گناہوں کو کبیرہ قرار دینا درست نہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں لوگوں کے نظریے کے ابطال کے لئے ’’الکبائر‘‘ لکھی اور تقریباً ۷۰ ایسےگناہوں کی فہرست پیش کی جن پر کبیرہ ہونے کا اطلاق کیا۔ سعید احمدقمر الزمان لکھتے ہیں: بعض لوگ گناہ کبیرہ صرف ان سات چیزوں کو ہی سمجھتے ہیںجن کا بیان ’’سات کبیرہ گناہ‘‘ والی حدیث میں ہوا ہے، حالانکہ یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ ساتوں چیزیں دیگر گناہ کبیرہ کے ضمن میں ہیں، اور اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ ’’کبائر‘‘ صرف ان سات چیزوں میں محدود ہیں، اسی سلسلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہےکہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ جاتی ہےنہ کہ صرف سات تک محدود ہیں( امام طبری نے صحیح سند سے روایت کیاہے)۔ کتاب ’’الکبائر‘‘ کے مصنف امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سات کبیرہ والی حدیث میں کبائر کو محدود نہیں کردیا گیاہے۔(مختصر کتاب الکبائر،صفحہ 9)
پس جس طرح کبیرہ گناہوں کو سات گناہوں میں محدود سمجھناجہالت ہے اسی طرح داڑھی مونڈنے کو کبیرہ گناہوں میں شامل نہ سمجھنا بھی کم علمی، کم عقلی اور جہالت ہے۔ داڑھی کے حلق کو کبیرہ گناہوں میں شامل نہ سمجھنے کی بنیاد اسکے فرض و واجب نہ ہونے کا نظریہ ہے اگر اس نظریے کو غلط ثابت کردیا جائے تو حلق اللحیہ کا کبیرہ ہونا خود بخود ثابت ہوجاتا ہے ۔اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ’’ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا بإحفاء الشوارب، وإعفاء اللحى ‘‘ بے شک رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مونچھیں کٹوانےاور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔(سنن ترمذی،باب مَا جَاءَ فِي إِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ، حدیث نمبر2764)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہےکہ : ’’انه امر بإحفاء الشوارب، وإعفاء اللحي‘‘ بے شک آپ ﷺ نے مونچھیں اچھی طرح تراشنے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا۔(صحیح مسلم،كِتَاب الطَّهَارَةِ،باب خِصَالِ الْفِطْرَةِ، حدیث نمبر601)
عرض ہے کہ داڑھی کے وجوب پربخاری و مسلم کی دیگر احادیث میں براہ راست ’’حکم یا امر‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ علمائے کرام نے الفاظ روایات سے داڑھی کے فرض ہونے پر استدلال کیا ہے۔مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف حفظہ اللہ اس طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے۔جیسا کہ احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کثیرہ اس کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں:
۱۔’’ فَحَصَلَ خَمْسُ رِوَایَاتٍ أَعْفُوا وَأَوْفُوا وَأَرْخُوا وَأَرْجُوا وَوَفِّرُوا وَمَعْنَاہَا کُلُّہَا تَرْکُہَا عَلَی حَالِہَا ہَذَا ہُوَ الظَّاہِرُ مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِی تَقْتَضِیہِ أَلْفَاظُہُ وَہُوَ الَّذِی قَالَہُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا‘‘ کہ حدیث کے راویوں سے مختلف الفاظ میں پانچ روایات مروی ہیں جو کہ پانچوں کی پانچوں صیغہ ہائے امر،یعنی اعفوا، اوفواارجوااور ووفروا پر مشتمل ہیں اور امروجوب کے لیے ہوتا ہے بشرطیکہ وہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہ ہو۔(نووی: ج۱ص۱۲۹)
(اور یہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں) لہٰذا ان پانچوں صیغوں کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو بلا کسی تعرض کے اس کے حال پر چھوڑ دینا واجب ہے اور یہی معنی متبادر اور ظاہر ہے اور حدیث کے الفاظ بھی اس معنی سے مقتضی ہیں۔
۲۔ امام ابن دقیق داڑھی کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے یہ تصریح فرماتے ہیں:
’’وقد وردت الاحادیث الکثیرة الصحیحة الصریحة فی الامر باعقاء اللحیة اخرجھا ائمة السنة وغیرھم وأصل الامر الوجوب ولا یصرف عنہ إلا بدلیل کما ھو مقرر فی علم الاصول۔‘‘ (المنھل العذب المورود شرح سنن ابی داؤد: ج۱ص۱۸۶ ، والتعلیقات السلفیة ج۲ ص۲۸۵) صحاح ستہ وغیرہ میں بہت سی احادیث صحیحہ صریحہ میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیاگیا ہے اور علم اصول کے مسلمہ قاعدہ کے مطابق جب کوئی قرینہ صارفہ موجود نہ ہو تو امر کا صیغہ وجوب کا فائدہ دیتا ہے چونکہ یہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں، لہٰذا اصولی طور پر داڑھی کا بڑھانا واجب ٹھہرا۔(فتاویٰ محمدیہ، صفحہ443)
اب چونکہ بعض دینی طریقہ کار سے بے بہرہ لوگ علماء کے استخراجی اور استدلالی مسائل سے تشفی نہیں پاتےلہٰذا ان کی تسلی کے لئے راقم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ صحیح مسلم اور جامع ترمذی کی وہ صریح روایات پیش کی ہیں جن میں داڑھی بڑھانے کا صاف صاف حکم موجود ہےاور داڑھی کا وجوب ثابت کرنے کے لئے کسی استخراج اور استدلال کی حاجت نہیں ہے ۔ لہٰذاجب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بتادیا کہ ہمیں یعنی رسول اللہ ﷺ کی امت کے تمام بالغ مردوں کو داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے تو اس حکم سے انکار کرنے والا خود بخودکبیرہ گناہ کا مرتکب بن جاتا ہے کیونکہ نبی ﷺ کا حکم فرض کے درجہ میں ہوتا ہے اور فرض کا ترک یا انکار بڑا یا کبیرہ گناہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں یہی وجہ ہے کہ اہل علم کی جماعت نے حلق اللحیہ کے کبیرہ گناہ ہونے پر اتفاق کیا ہے۔
راقم السطور کا دعویٰ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے داڑھی مونڈنے کو بھی کبیرہ گناہ میں شامل کیا ہے کیونکہ انہوں نے کبیرہ گناہوں کے تحت عورتوں اور مردوں کی باہمی مشابہت کی ممانعت کو بھی اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ سعید احمدقمر الزمان نےاپنی کتاب ’’مختصر کتاب الکبائر‘‘ کے صفحہ نمبر 41 ، ابوالقاسم حافظ محمود تبسّم نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور ان کا علاج‘‘ کے صفحہ نمبر267، حافظ عبدالسلام بن محمد نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور ان کا انجام‘‘ کے صفحہ نمبر49،سید شفیق الرحمٰن زیدی نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام‘‘ کےصفحہ نمبر133اورابوانس محمد سرور گوہر نے ’’کبیرہ گناہ‘‘ کے صفحہ نمبر205پر اس کا اندراج کیا ہےان تمام کتابوں کا حوالہ اس لئے دیاگیا ہے کہ یہ تمام کتب امام ذہبی کی تالیف’’الکبائر‘‘ کا اردو ترجمہ ہیں۔
مسئلے کی تفہیم کے لئےپہلے تو یہ سمجھ لیں کہ دین اسلام میں جامعیت ہے اس لئے ہر کبیرہ گناہ کا بنام تذکرہ قرآن و حدیث میں نہیں ملے گا۔ اس کے حل کے لئے شارع نے کچھ ایسے کلیے اور قاعدے بیان کردئیے ہیں جن کے ضمن میں کئی کبیرہ گناہ آجاتے ہیں۔ مردوں کاداڑھی منڈوانا، ناک و کان چھدوانا، عورتوں کے سے انداز و اطوار میں گفتگو کرنا وغیرہ کبیرہ گناہ ہے یا صغیرہ اس کے ذکر سے قرآن و حدیث خاموش ہیں لیکن حدیث میں بیان کیا گیا قاعدہ ’’لعن رسول اللهﷺ المتشبهات بالرجال من النساء، والمتشبهين بالنساء من الرجال‘‘ داڑھی مونڈنے سمیت ہر اس کام کو اس اصول کے دائرے میں لانے کا سبب بنتا ہے جسے عرف عام میں عورتوں کی مشابہت سمجھا جاتا ہے اور اس پر لعنت کی وعید ان تمام افعال بشمول داڑھی کے حلق کو کبیرہ گناہ بنادیتی ہےکیونکہ یہ کبیرہ گناہ کی تعریف کے عین مطابق ہے۔سید شفیق الرحمٰن زیدی حفظہ اللہ کسی گناہ کے کبیرہ ہونے کا اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر شرعی نصوص میں کسی کام کو موجب لعنت قرار دیا گیا ہو تو یہ اس کام کے حرام اورکبیرہ گناہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام،صفحہ 133)
حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کبیرہ کی یوں تعریف کی ہے:’’گناہ کبیرہ ہر اس گناہ کو کہتے ہیں جس کے مرتکب کے لئے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی گئی ہویا آخرت میں کوئی وعید سنائی گئی ہو، اور شیخ الاسلام نے مزید فرمایاکہ اس کے مرتکب سے ایمان کی نفی کی گئی ہویا ملعون وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں‘‘۔ (کبیرہ گناہ اور ان کا انجام، صفحہ 17،18)
پس داڑھی مونڈنا موجب لعنت ہے اس لئے یہ اس فعل کے کبیرہ ہونے کی واضح ترین دلیل ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ ہونے کے اور بھی دلائل ہیں جیسے اس کا فرض ہونا جبکہ فرض اور واجب امور کو ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے اس کے علاوہ داڑھی مونڈنا کفار سے مشابہت کی وجہ سے بھی کبیرہ گناہ ہے کیونکہ اس پر کفار کے ساتھ حشر نشر کی سخت وعید موجود ہےنیز عورتوں اور ہیجڑوں سے مشابہت کی بنا پر بھی یہ کبیرہ گناہ ہے۔
ایک مرد کے لئے کون کون سے امور صنف نازک کی مشابہت کے زمرے میں آتے ہیں اس کی ام عبد منیب صاحبہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں24 امور کی ایک لسٹ بنائی ہے جس میں انہوں نے مرد کے داڑھی مونڈنے کو بھی عورتوں کی مشابہت میں داخل کیا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: صنف مخالف کی مشابہت ایک مہلک بیماری، صفحہ 31 تا59)
اگر ہم بالفرض محال داڑھی کے عملی انکار کو کبیرہ کے بجائے صغیرہ گناہ بھی سمجھ لیں تب بھی یہ کبیرہ گناہ میں داخل ہوجاتا ہے کیونکہ اصول ہے کہ صغیرہ گناہوں پر مواظبت اور ہمیشگی اسے کبیرہ گناہ بنادیتی ہےچونکہ داڑھی مونڈنے کا فعل دن رات مہینوں بلکہ سالوں بغیر کسی انقطاع کے مسلسل جاری رہتا ہے اس لئے اسے کبیرہ گناہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک مفتی صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے متعلق سائل کے استفسار پر لکھتے ہیں:
قرآن پاک اوراحادیث مبارکہ میں گناہوں پروعیداور ممانعت کے انداز میں تبدیلی کی بناپر گناہوں کی دوقسمیں ذکرکی گئی ہیں،صغیرہ اور کبیرہ۔صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی کوئی قطعی تعداد نہیں ، مختلف احادیث کوسامنے رکھتے علماء نے مختلف تعداد ذکر کی ہے۔تعریف کی حد تک جس گناہ پر مجرم کے لیے رحمت سے دوری (لعنت) مذکور ہو، وعیدسنائی گئی ہو یاجس پر عذاب وسزایا حدکاذکرہووہ کبائرہیں۔اسی طرح جو گناہ جرأت و بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس گناہ پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے، خواہ اس پر وعید، لعنت یا عذاب وسزا وارد نہ ہو۔(banuri.edu.pk)
حافظ مغیث الرحمٰن حفظہ اللہ اپنے مضمون ’’گناہ تعریف،اقسام اور اس کے اثرات‘‘ میں رقمطراز ہیں: کبیرہ گناہ وہ ہیں کہ جس پر کوئی حدمقرر کی گئی ہو یا اس پر عذاب، لعنت،سزا،آگ کی وعید کی گئی۔اورصغیرہ گناہ وہ جو کبائر کے علاوہ ہوں۔صغیرہ گناہوں کاکفارہ اعمال صالحہ ہیں، البتہ صغیرہ گناہوں پر اصرار کرنا یا لاپرواہی سےکام لینا بھی کبیرہ گناہوں میں شمار کیاجاتاہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’لاکبیرۃ مع الاستغفار ولاصغیرۃ مع الإصرار‘‘ (فتح الباری،رواہ ابن جریر فی تفسیرہ وابن ابی حاتم فی تفسیرہ وصححہ محمد بن عمرو بن عبداللطیف)
استغفار کے بعد کبیرہ گناہ باقی نہیں رہتا، اور اصرار(باربارکرنا) کے ساتھ صغیرہ گناہ، صغیرہ نہیں رہتا۔(بلکہ کبیرہ بن جاتاہے)۔ (ماہنامہ مجلہ دعوت اہل حدیث، شمارہ اپریل2017)
اس بحث کے بعد علامہ ذہبی کی کبیرہ گناہوں کی فہرست پر بنائے گئے نظریے کی اصلاح ہوجانا چاہیے کیونکہ امام ذہبی کی کبائرکی فہرست توفیقی نہیں ہے بلکہ ان کا اجتہاد اور اکتساب ہے جس میں اضافہ بھی ممکن ہے اور کمی بھی۔
اکیسواں نظریہ:
بہت سے لوگوں کا نظریہ عام حالات میں داڑھی کاٹنے کا صرف اس لئے ہے کہ عبداللہ بن عمر حج و عمرے کے خاص موقع پر داڑھی کاٹتے تھے ان کے نزدیک صحابی رسول کاکسی بھی موقع پر داڑھی کاٹنا مسلمانوں کے لئے ہر موقع پر کاٹنے کی دلیل بنتا ہے اسی طرح بعض لوگوںکی ناقص فہمی میں ابن عمر کا حج اور عمرے پر داڑھی کاٹنے کا سبب یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ مسئلہ پہنچ جائے کیونکہ حج اور عمرہ ہی ایسے مواقع ہیں جس پر دنیا بھرکے مسلمانوں کا اجماع ہوتا ہے۔
جہاں تک آخر الذکر نظریے کی بات ہے کہ عبداللہ بن عمر کا عمل دنیا دکھاوے کے لئے تھا اس لئے وہ لوگوں کے جم غفیر کے موقع پر ایک بالشت تک داڑھی کاٹتے تھے تواس نظریے کے بطلان کے لئے یہی بات کافی ہے کہ ماضی سے لے کر آج تک کسی اہل علم نے ابن عمر کے عمل کی ایسی توجیہ یا وجہ بیان نہیں کی لہٰذا یہ نظریہ نہ صرف ردی اور کچرا ہے بلکہ شیطانی ذہن کی پیداوار ہونے کی وجہ سے ناقابل جواب ہےبلکہ اس کا جواب نہ دیاجانا ہی اس کادرست جواب ہے اور جہاں تک پہلے نظریے کی بات ہے تو راقم کے مطابق یہ مضحکہ خیز اور بے تکا نظریہ آج کا نہیں ہے بلکہ اس کے ڈانڈے ماضی میں کچھ نامور لوگوں سے جا ملتے ہیں، چناچہ اسی طرح کا ایک ملتا جلتا نظریہ حافظ ابن عبد البر مالکی کا بھی ہے، موصوف لکھتے ہیں:
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کا داڑھی کے اگلے حصہ بال لینا دلیل ہے غیر حج میں بھی بال لینے کی، کیونکہ (یہ کام) باقی زمانہ میں ناجائز ہوتا تو حج میں بھی ناجائز ہوتا. کیونکہ محرمین (حج/عمرہ کا احرام بھندنے والوں) کو یہ حکم ہے کہ جب وہ احرام کھولنے لگیں تو وہ کام کریں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا یعنی حلق یا قصرپھر حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے داڑھی بڑھنے کی حدیث روایت کی اور وہ اس کےمعنی کو زیادہ جانتے ہیں اور حضر ت ابن عمررضی اللہ عنہ اور جمہور علماءکے نزدیک معنی یہ ہیں کہ جو بال داڑھی کو قبیح اور بھدا کردیں ان کا لینا جائز ہے۔[الاستذکار : 4/317، بیروت]
حافظ ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر کے داڑھی سے بال لینے سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ انتہائی غلط ہےکیونکہ ابن عمر کا حج وغیرہ پر داڑھی کاٹنا کسی بھی صورت غیر حج میں داڑھی کاٹنے کی دلیل نہیں بنتاوجہ اس کی یہ ہے کہ ابن عمر اس فعل یعنی داڑھی تراشنے کو مناسک حج میں شمار کرتے تھے اور اس کے لئے قرآن سے دلیل لاتے تھےجیسا کہ شمس الدین الکرمانی اس بابت رقمطراز ہیں: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے قول مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ(الفتح: 27) کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ حج یا عمرہ میں سر کے بالوں کاحلق اور داڑھی کے بالوں کو چھوٹا کروایا جائے گا۔ (شرح الکرمانی علی البخاری، جلد نمبر 21،صفحہ نمبر 111) لہٰذا خود عبداللہ بن عمر کے نزدیک داڑھی کاٹنا امور حج سے تعلق رکھتا ہےجو اس امر (داڑھی کاٹنے)کو عام حالات میں ازخودبے دلیل بنادیتا ہےچناچہ ایام حج میں داڑھی کاٹنے کے خاص فعل کوبلادلیل عام بناکر غیرایام حج میں داڑھی کاٹنے کے لئے جواز گھڑنا یا امور حج کی دلیل پر غیر امورحج کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ عبداللہ بن عمر اور ان کے ہمنوا تین صحابہ کا دوران حج و عمرہ داڑھی کاٹنے کے لئے قرآن کی آیات سے استدلال کرنا ان کا ذاتی اجتہاد تھا جس پر وہ غلطی پر تھے اسی بناپر باقی امت نے اسےقبول نہیں کیا چناچہ اس غلط اجتہاد کی وجہ سے داڑھی کاٹنا حج میں بھی ناجائز ہے اور غیر حج میں بھی غلط اور ناجائز ہے۔مذکورہ بالا عبارت کے آخر میں حافظ ابن عبدالبر نے جوداڑھی کو بھدا کرنے والے بالوں کے کاٹنے کے مشروع ہونے کے قول کو جمہور علماء کی طرف منسوب کیا ہے وہ سراسر غلط بیانی ہے کیونکہ ہر دور میں جمہوراس کے خلاف رہے ہیں اور یہ موقف ہرزمانے میں غیر جمہور اور قلیل علماء کا رہا ہے۔ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ لکھتے ہیں: مشت سے زائد داڑھی کٹانے پر امت کا اجماع بھی نہیں، بلکہ ہر دور میں اختلاف رہا ہے۔ بعض اسلاف سے اگر اس کا جواز ملتا ہے تو دیگر اسلاف سے اس کی کراہت بھی منقول ہے۔ بلکہ کٹانے کی نسبت داڑھی کو اس کی طبعی حالت پر برقرار رکھنے اور اسے اولیٰ قرار دینے والے ہر دور کے جمہور علمائے کرام ہیں۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 272)
بہرحال باوجود کوشش کےراقم کی عقل یہ بات سمجھنے سے بالکل عاجز ہے کہ خاص مواقع یعنی حج و عمرہ پر داڑھی کاٹنے کی جو دلیل عام حالات میں داڑھی کو معاف کردینے کا بین ثبوت ہے وہی دلیل بعض الناس کی اکثریت کے نزدیک غیر ایام حج و عمرہ میں داڑھی تراشنے کے لئے دلیل کا فائدہ کیونکر دیتی ہے ؟ آخر اس بات کی منطق اور انداز فہم کیا ہے؟ کس زاویے اور کس سمت سے ایک خاص موقع کی دلیل بنا کسی ثبوت کے عام موقع کی دلیل میں تبدیل ہوجاتی ہے؟ بہر کیف یہ بہت ہی حیران کن نظریہ ہے جو ناپسندیدہ شرعی احکام سے دامن چھڑانے کے متلاشی ذہنوں میں راہ پا گیا ہے اور وہ دلائل سے تہی دامن ہونے کے باوجود صحابہ کے بارے میں یہ تصور قائم کئے بیٹھے ہیں کہ وہ روزمرہ کی زندگی میں بھی اسی طرح داڑھی تراشتے تھے جس طرح حج و عمرہ کے موقع پر۔فاروق رفیع حفظہ اللہ بھی اس نقطہ کو سمجھنے سے آخری حد تک لاچار ہیں، چناچہ لکھتے ہیں: عہد صحابہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فقط حج و عمرہ کے موقع پر داڑھی کی تقصیر کے قائل تھے، جو ان کا ذاتی اجتہاد تھا ...... پھر ان کے حج و عمرہ میں احرام کے بعد داڑھی کی تقصیر کے عمل کو ان کی تمام زندگی کا معمول قرار دینا جہالت اورعقل کج روی ہی کا کمال ہے۔ علمی دنیا میں اس نکتے کوسمجھنے سے عقل قاصر ہے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 19)
فاروق رفیع حفظہ اللہ اس غلط نظریے کی بیخ کنی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فقط حج وعمرہ کے موقع پر داڑھی کٹواتے تھے، ان مواقع کے علاوہ ان سے تاحیات داڑھی کے مٹھی سےزائد تو دور داڑھی کا کوئی ایک بال کٹوانا بھی ثابت نہیں، سو ان کے خاص عمل کو عام قرار دینا اور داڑھی کاٹنے کے جواز کی عام دلیل کے طور پر پیش کرنا قطعاً درست نہیں۔ یہ قیاس مع الفارق کی صورت ہے اور اصول فقہ میں قیاس مع الفارق باطل ہے۔ (داڑھی اور خضاب ...، صفحہ 58)
مزید فرماتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حج و عمرہ کے سوا داڑھی کاٹنے اور اس کی تراش خراش کے قطعی قائل نہیں تھے۔ جو شخص ان کے داڑھی کو مطلق طور کاٹنے کا تاثر دیتا ہے اس پر دلیل پیش کرنا لازم ہے، ورنہ اسے لوگوں سے اپنے اس باطل موقف اور صحابی رسول کی طرف غلط بات منسوب کرنے سے تائب ہونا چاہیے اور عامۃ الناس کے لیے گمراہی کا سامان مہیا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 59،60)
اسی طرح ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ بھی سیدنا عمر کے خاص فعل سےلوگوں کے عام فعل کے لئے دلیل قائم کرلینےکا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: سیدنا ابن عمر کے اس موقف سے عام حالات میں داڑھی کٹانے کی کوئی دلیل ہی نہیں ملتی ، چناچہ اس حدیث کی بنا پر حج کے ماسواداڑھی کٹانابلادلیل ہےاور ایسا کرنے والوں کے ذمہ دلیل ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 336)
پس اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ عام حالات میں ریش تراشی کرتے ہیں اور اس کے لئے جواز عبداللہ بن عمر کے فعل کو بناتے ہیں ایسے لوگوں کا عمل و دعویٰ ان کی دلیل کے مطابق نہیں ہے بلکہ دعویٰ و عمل میں زبردست تضاد ہے دلیل خاص موقع کی دی جاتی ہے جبکہ اس سے استدلال عام حالات کے لئے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے زائد از قبضہ داڑھی کو کاٹنے کا سوال ہوا تو سوال کیا کہ ابن عمر کب کاٹتے تھے ، تو اس نے کہاحج کے موقع پر، تو شیخ نے فرمایاکہ جو بھی اس سے استدلال کرتے ہیں، وہ تو حج کے علاوہ بھی کاٹتے ہیں، پھر ان کو بھی حج کے موقع پر ہی کاٹنی چاہیے۔ پھر فرمایا: ’’یجب ان یکون الاستدلال مطابقاً للدلیل‘‘ وہ پسند فرماتے ہیں کہ استدلال دلیل کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ (یک مشت سے زائدداڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 335)
پس جب دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت اور موافقت ہی نہیں بلکہ بعدالمشرکین ہے تو اس بنیاد پر کئے جانے والے عمل کی کیا وقعت اور حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟
’’علمائے کرام نے کبیرہ گناہوں کی جو فہرست بنائی ہے اس میں داڑھی مونڈنا شامل نہیں ہے لہٰذا جب قطع اللحیہ کبیرہ گناہ نہیں تو یہ فرض بھی نہیں تو پھریہ داڑھی کے غیرواجب ہونے کی طرف اشارہ اوراس کی دلیل ہے۔‘‘
سب سے پہلے تو عرض ہے کبیرہ گناہوں کے اعداد وشمار پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں وہ سب کی سب امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ کی تصنیف ’’الکبائر‘‘ سے ماخوذ ہیں اس لئے کبائر کی اس فہرست کودیگر علمائے کرام کی طرف منسوب کرنا اور ان کی ذاتی کاوش قرار دینازیادتی ہے اور اگر امام ذہبی کسی سہو کی بنا پر کبائر کی لسٹ میں داڑھی مونڈنے کو شامل کرنابھول گئے تو یہ داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بنتی اور وہ بھی اس صورت میں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے تمام کبائر کے درج کرنے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی امام ذہبی کی اپنی کتاب میں داخل کردہ کبیرہ گناہوں کی تعداد کوئی حتمی تعداد ہے جس میں اضافہ ممکن نہیں۔ اس طرح حافظ ذہبی کی فہرست کبائر کو حتمی تصور کرکے اس کی بنیاد پر داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ ہونے سےانکارکرنا یا داڑھی کی وجوبیت میں اشکال پیدا کرنا بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کے دور میں بھی کچھ لوگوں کا نظریہ تھا کہ کبیرہ گناہ تعداد میں صرف سات ہیں جن کا تذکرہ صحیح حدیث میں آیا ہےاسکے علاوہ گناہوں کو کبیرہ قرار دینا درست نہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں لوگوں کے نظریے کے ابطال کے لئے ’’الکبائر‘‘ لکھی اور تقریباً ۷۰ ایسےگناہوں کی فہرست پیش کی جن پر کبیرہ ہونے کا اطلاق کیا۔ سعید احمدقمر الزمان لکھتے ہیں: بعض لوگ گناہ کبیرہ صرف ان سات چیزوں کو ہی سمجھتے ہیںجن کا بیان ’’سات کبیرہ گناہ‘‘ والی حدیث میں ہوا ہے، حالانکہ یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ ساتوں چیزیں دیگر گناہ کبیرہ کے ضمن میں ہیں، اور اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ ’’کبائر‘‘ صرف ان سات چیزوں میں محدود ہیں، اسی سلسلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہےکہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ جاتی ہےنہ کہ صرف سات تک محدود ہیں( امام طبری نے صحیح سند سے روایت کیاہے)۔ کتاب ’’الکبائر‘‘ کے مصنف امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سات کبیرہ والی حدیث میں کبائر کو محدود نہیں کردیا گیاہے۔(مختصر کتاب الکبائر،صفحہ 9)
پس جس طرح کبیرہ گناہوں کو سات گناہوں میں محدود سمجھناجہالت ہے اسی طرح داڑھی مونڈنے کو کبیرہ گناہوں میں شامل نہ سمجھنا بھی کم علمی، کم عقلی اور جہالت ہے۔ داڑھی کے حلق کو کبیرہ گناہوں میں شامل نہ سمجھنے کی بنیاد اسکے فرض و واجب نہ ہونے کا نظریہ ہے اگر اس نظریے کو غلط ثابت کردیا جائے تو حلق اللحیہ کا کبیرہ ہونا خود بخود ثابت ہوجاتا ہے ۔اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ’’ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا بإحفاء الشوارب، وإعفاء اللحى ‘‘ بے شک رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مونچھیں کٹوانےاور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔(سنن ترمذی،باب مَا جَاءَ فِي إِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ، حدیث نمبر2764)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہےکہ : ’’انه امر بإحفاء الشوارب، وإعفاء اللحي‘‘ بے شک آپ ﷺ نے مونچھیں اچھی طرح تراشنے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا۔(صحیح مسلم،كِتَاب الطَّهَارَةِ،باب خِصَالِ الْفِطْرَةِ، حدیث نمبر601)
عرض ہے کہ داڑھی کے وجوب پربخاری و مسلم کی دیگر احادیث میں براہ راست ’’حکم یا امر‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ علمائے کرام نے الفاظ روایات سے داڑھی کے فرض ہونے پر استدلال کیا ہے۔مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف حفظہ اللہ اس طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے۔جیسا کہ احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کثیرہ اس کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں:
۱۔’’ فَحَصَلَ خَمْسُ رِوَایَاتٍ أَعْفُوا وَأَوْفُوا وَأَرْخُوا وَأَرْجُوا وَوَفِّرُوا وَمَعْنَاہَا کُلُّہَا تَرْکُہَا عَلَی حَالِہَا ہَذَا ہُوَ الظَّاہِرُ مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِی تَقْتَضِیہِ أَلْفَاظُہُ وَہُوَ الَّذِی قَالَہُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا‘‘ کہ حدیث کے راویوں سے مختلف الفاظ میں پانچ روایات مروی ہیں جو کہ پانچوں کی پانچوں صیغہ ہائے امر،یعنی اعفوا، اوفواارجوااور ووفروا پر مشتمل ہیں اور امروجوب کے لیے ہوتا ہے بشرطیکہ وہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہ ہو۔(نووی: ج۱ص۱۲۹)
(اور یہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں) لہٰذا ان پانچوں صیغوں کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو بلا کسی تعرض کے اس کے حال پر چھوڑ دینا واجب ہے اور یہی معنی متبادر اور ظاہر ہے اور حدیث کے الفاظ بھی اس معنی سے مقتضی ہیں۔
۲۔ امام ابن دقیق داڑھی کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے یہ تصریح فرماتے ہیں:
’’وقد وردت الاحادیث الکثیرة الصحیحة الصریحة فی الامر باعقاء اللحیة اخرجھا ائمة السنة وغیرھم وأصل الامر الوجوب ولا یصرف عنہ إلا بدلیل کما ھو مقرر فی علم الاصول۔‘‘ (المنھل العذب المورود شرح سنن ابی داؤد: ج۱ص۱۸۶ ، والتعلیقات السلفیة ج۲ ص۲۸۵) صحاح ستہ وغیرہ میں بہت سی احادیث صحیحہ صریحہ میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیاگیا ہے اور علم اصول کے مسلمہ قاعدہ کے مطابق جب کوئی قرینہ صارفہ موجود نہ ہو تو امر کا صیغہ وجوب کا فائدہ دیتا ہے چونکہ یہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں، لہٰذا اصولی طور پر داڑھی کا بڑھانا واجب ٹھہرا۔(فتاویٰ محمدیہ، صفحہ443)
اب چونکہ بعض دینی طریقہ کار سے بے بہرہ لوگ علماء کے استخراجی اور استدلالی مسائل سے تشفی نہیں پاتےلہٰذا ان کی تسلی کے لئے راقم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ صحیح مسلم اور جامع ترمذی کی وہ صریح روایات پیش کی ہیں جن میں داڑھی بڑھانے کا صاف صاف حکم موجود ہےاور داڑھی کا وجوب ثابت کرنے کے لئے کسی استخراج اور استدلال کی حاجت نہیں ہے ۔ لہٰذاجب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بتادیا کہ ہمیں یعنی رسول اللہ ﷺ کی امت کے تمام بالغ مردوں کو داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے تو اس حکم سے انکار کرنے والا خود بخودکبیرہ گناہ کا مرتکب بن جاتا ہے کیونکہ نبی ﷺ کا حکم فرض کے درجہ میں ہوتا ہے اور فرض کا ترک یا انکار بڑا یا کبیرہ گناہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں یہی وجہ ہے کہ اہل علم کی جماعت نے حلق اللحیہ کے کبیرہ گناہ ہونے پر اتفاق کیا ہے۔
راقم السطور کا دعویٰ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے داڑھی مونڈنے کو بھی کبیرہ گناہ میں شامل کیا ہے کیونکہ انہوں نے کبیرہ گناہوں کے تحت عورتوں اور مردوں کی باہمی مشابہت کی ممانعت کو بھی اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ سعید احمدقمر الزمان نےاپنی کتاب ’’مختصر کتاب الکبائر‘‘ کے صفحہ نمبر 41 ، ابوالقاسم حافظ محمود تبسّم نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور ان کا علاج‘‘ کے صفحہ نمبر267، حافظ عبدالسلام بن محمد نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور ان کا انجام‘‘ کے صفحہ نمبر49،سید شفیق الرحمٰن زیدی نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام‘‘ کےصفحہ نمبر133اورابوانس محمد سرور گوہر نے ’’کبیرہ گناہ‘‘ کے صفحہ نمبر205پر اس کا اندراج کیا ہےان تمام کتابوں کا حوالہ اس لئے دیاگیا ہے کہ یہ تمام کتب امام ذہبی کی تالیف’’الکبائر‘‘ کا اردو ترجمہ ہیں۔
مسئلے کی تفہیم کے لئےپہلے تو یہ سمجھ لیں کہ دین اسلام میں جامعیت ہے اس لئے ہر کبیرہ گناہ کا بنام تذکرہ قرآن و حدیث میں نہیں ملے گا۔ اس کے حل کے لئے شارع نے کچھ ایسے کلیے اور قاعدے بیان کردئیے ہیں جن کے ضمن میں کئی کبیرہ گناہ آجاتے ہیں۔ مردوں کاداڑھی منڈوانا، ناک و کان چھدوانا، عورتوں کے سے انداز و اطوار میں گفتگو کرنا وغیرہ کبیرہ گناہ ہے یا صغیرہ اس کے ذکر سے قرآن و حدیث خاموش ہیں لیکن حدیث میں بیان کیا گیا قاعدہ ’’لعن رسول اللهﷺ المتشبهات بالرجال من النساء، والمتشبهين بالنساء من الرجال‘‘ داڑھی مونڈنے سمیت ہر اس کام کو اس اصول کے دائرے میں لانے کا سبب بنتا ہے جسے عرف عام میں عورتوں کی مشابہت سمجھا جاتا ہے اور اس پر لعنت کی وعید ان تمام افعال بشمول داڑھی کے حلق کو کبیرہ گناہ بنادیتی ہےکیونکہ یہ کبیرہ گناہ کی تعریف کے عین مطابق ہے۔سید شفیق الرحمٰن زیدی حفظہ اللہ کسی گناہ کے کبیرہ ہونے کا اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر شرعی نصوص میں کسی کام کو موجب لعنت قرار دیا گیا ہو تو یہ اس کام کے حرام اورکبیرہ گناہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام،صفحہ 133)
حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کبیرہ کی یوں تعریف کی ہے:’’گناہ کبیرہ ہر اس گناہ کو کہتے ہیں جس کے مرتکب کے لئے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی گئی ہویا آخرت میں کوئی وعید سنائی گئی ہو، اور شیخ الاسلام نے مزید فرمایاکہ اس کے مرتکب سے ایمان کی نفی کی گئی ہویا ملعون وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں‘‘۔ (کبیرہ گناہ اور ان کا انجام، صفحہ 17،18)
پس داڑھی مونڈنا موجب لعنت ہے اس لئے یہ اس فعل کے کبیرہ ہونے کی واضح ترین دلیل ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ ہونے کے اور بھی دلائل ہیں جیسے اس کا فرض ہونا جبکہ فرض اور واجب امور کو ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے اس کے علاوہ داڑھی مونڈنا کفار سے مشابہت کی وجہ سے بھی کبیرہ گناہ ہے کیونکہ اس پر کفار کے ساتھ حشر نشر کی سخت وعید موجود ہےنیز عورتوں اور ہیجڑوں سے مشابہت کی بنا پر بھی یہ کبیرہ گناہ ہے۔
ایک مرد کے لئے کون کون سے امور صنف نازک کی مشابہت کے زمرے میں آتے ہیں اس کی ام عبد منیب صاحبہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں24 امور کی ایک لسٹ بنائی ہے جس میں انہوں نے مرد کے داڑھی مونڈنے کو بھی عورتوں کی مشابہت میں داخل کیا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: صنف مخالف کی مشابہت ایک مہلک بیماری، صفحہ 31 تا59)
اگر ہم بالفرض محال داڑھی کے عملی انکار کو کبیرہ کے بجائے صغیرہ گناہ بھی سمجھ لیں تب بھی یہ کبیرہ گناہ میں داخل ہوجاتا ہے کیونکہ اصول ہے کہ صغیرہ گناہوں پر مواظبت اور ہمیشگی اسے کبیرہ گناہ بنادیتی ہےچونکہ داڑھی مونڈنے کا فعل دن رات مہینوں بلکہ سالوں بغیر کسی انقطاع کے مسلسل جاری رہتا ہے اس لئے اسے کبیرہ گناہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک مفتی صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے متعلق سائل کے استفسار پر لکھتے ہیں:
قرآن پاک اوراحادیث مبارکہ میں گناہوں پروعیداور ممانعت کے انداز میں تبدیلی کی بناپر گناہوں کی دوقسمیں ذکرکی گئی ہیں،صغیرہ اور کبیرہ۔صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی کوئی قطعی تعداد نہیں ، مختلف احادیث کوسامنے رکھتے علماء نے مختلف تعداد ذکر کی ہے۔تعریف کی حد تک جس گناہ پر مجرم کے لیے رحمت سے دوری (لعنت) مذکور ہو، وعیدسنائی گئی ہو یاجس پر عذاب وسزایا حدکاذکرہووہ کبائرہیں۔اسی طرح جو گناہ جرأت و بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس گناہ پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے، خواہ اس پر وعید، لعنت یا عذاب وسزا وارد نہ ہو۔(banuri.edu.pk)
حافظ مغیث الرحمٰن حفظہ اللہ اپنے مضمون ’’گناہ تعریف،اقسام اور اس کے اثرات‘‘ میں رقمطراز ہیں: کبیرہ گناہ وہ ہیں کہ جس پر کوئی حدمقرر کی گئی ہو یا اس پر عذاب، لعنت،سزا،آگ کی وعید کی گئی۔اورصغیرہ گناہ وہ جو کبائر کے علاوہ ہوں۔صغیرہ گناہوں کاکفارہ اعمال صالحہ ہیں، البتہ صغیرہ گناہوں پر اصرار کرنا یا لاپرواہی سےکام لینا بھی کبیرہ گناہوں میں شمار کیاجاتاہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’لاکبیرۃ مع الاستغفار ولاصغیرۃ مع الإصرار‘‘ (فتح الباری،رواہ ابن جریر فی تفسیرہ وابن ابی حاتم فی تفسیرہ وصححہ محمد بن عمرو بن عبداللطیف)
استغفار کے بعد کبیرہ گناہ باقی نہیں رہتا، اور اصرار(باربارکرنا) کے ساتھ صغیرہ گناہ، صغیرہ نہیں رہتا۔(بلکہ کبیرہ بن جاتاہے)۔ (ماہنامہ مجلہ دعوت اہل حدیث، شمارہ اپریل2017)
اس بحث کے بعد علامہ ذہبی کی کبیرہ گناہوں کی فہرست پر بنائے گئے نظریے کی اصلاح ہوجانا چاہیے کیونکہ امام ذہبی کی کبائرکی فہرست توفیقی نہیں ہے بلکہ ان کا اجتہاد اور اکتساب ہے جس میں اضافہ بھی ممکن ہے اور کمی بھی۔
اکیسواں نظریہ:
بہت سے لوگوں کا نظریہ عام حالات میں داڑھی کاٹنے کا صرف اس لئے ہے کہ عبداللہ بن عمر حج و عمرے کے خاص موقع پر داڑھی کاٹتے تھے ان کے نزدیک صحابی رسول کاکسی بھی موقع پر داڑھی کاٹنا مسلمانوں کے لئے ہر موقع پر کاٹنے کی دلیل بنتا ہے اسی طرح بعض لوگوںکی ناقص فہمی میں ابن عمر کا حج اور عمرے پر داڑھی کاٹنے کا سبب یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ مسئلہ پہنچ جائے کیونکہ حج اور عمرہ ہی ایسے مواقع ہیں جس پر دنیا بھرکے مسلمانوں کا اجماع ہوتا ہے۔
جہاں تک آخر الذکر نظریے کی بات ہے کہ عبداللہ بن عمر کا عمل دنیا دکھاوے کے لئے تھا اس لئے وہ لوگوں کے جم غفیر کے موقع پر ایک بالشت تک داڑھی کاٹتے تھے تواس نظریے کے بطلان کے لئے یہی بات کافی ہے کہ ماضی سے لے کر آج تک کسی اہل علم نے ابن عمر کے عمل کی ایسی توجیہ یا وجہ بیان نہیں کی لہٰذا یہ نظریہ نہ صرف ردی اور کچرا ہے بلکہ شیطانی ذہن کی پیداوار ہونے کی وجہ سے ناقابل جواب ہےبلکہ اس کا جواب نہ دیاجانا ہی اس کادرست جواب ہے اور جہاں تک پہلے نظریے کی بات ہے تو راقم کے مطابق یہ مضحکہ خیز اور بے تکا نظریہ آج کا نہیں ہے بلکہ اس کے ڈانڈے ماضی میں کچھ نامور لوگوں سے جا ملتے ہیں، چناچہ اسی طرح کا ایک ملتا جلتا نظریہ حافظ ابن عبد البر مالکی کا بھی ہے، موصوف لکھتے ہیں:
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کا داڑھی کے اگلے حصہ بال لینا دلیل ہے غیر حج میں بھی بال لینے کی، کیونکہ (یہ کام) باقی زمانہ میں ناجائز ہوتا تو حج میں بھی ناجائز ہوتا. کیونکہ محرمین (حج/عمرہ کا احرام بھندنے والوں) کو یہ حکم ہے کہ جب وہ احرام کھولنے لگیں تو وہ کام کریں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا یعنی حلق یا قصرپھر حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے داڑھی بڑھنے کی حدیث روایت کی اور وہ اس کےمعنی کو زیادہ جانتے ہیں اور حضر ت ابن عمررضی اللہ عنہ اور جمہور علماءکے نزدیک معنی یہ ہیں کہ جو بال داڑھی کو قبیح اور بھدا کردیں ان کا لینا جائز ہے۔[الاستذکار : 4/317، بیروت]
حافظ ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر کے داڑھی سے بال لینے سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ انتہائی غلط ہےکیونکہ ابن عمر کا حج وغیرہ پر داڑھی کاٹنا کسی بھی صورت غیر حج میں داڑھی کاٹنے کی دلیل نہیں بنتاوجہ اس کی یہ ہے کہ ابن عمر اس فعل یعنی داڑھی تراشنے کو مناسک حج میں شمار کرتے تھے اور اس کے لئے قرآن سے دلیل لاتے تھےجیسا کہ شمس الدین الکرمانی اس بابت رقمطراز ہیں: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے قول مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ(الفتح: 27) کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ حج یا عمرہ میں سر کے بالوں کاحلق اور داڑھی کے بالوں کو چھوٹا کروایا جائے گا۔ (شرح الکرمانی علی البخاری، جلد نمبر 21،صفحہ نمبر 111) لہٰذا خود عبداللہ بن عمر کے نزدیک داڑھی کاٹنا امور حج سے تعلق رکھتا ہےجو اس امر (داڑھی کاٹنے)کو عام حالات میں ازخودبے دلیل بنادیتا ہےچناچہ ایام حج میں داڑھی کاٹنے کے خاص فعل کوبلادلیل عام بناکر غیرایام حج میں داڑھی کاٹنے کے لئے جواز گھڑنا یا امور حج کی دلیل پر غیر امورحج کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ عبداللہ بن عمر اور ان کے ہمنوا تین صحابہ کا دوران حج و عمرہ داڑھی کاٹنے کے لئے قرآن کی آیات سے استدلال کرنا ان کا ذاتی اجتہاد تھا جس پر وہ غلطی پر تھے اسی بناپر باقی امت نے اسےقبول نہیں کیا چناچہ اس غلط اجتہاد کی وجہ سے داڑھی کاٹنا حج میں بھی ناجائز ہے اور غیر حج میں بھی غلط اور ناجائز ہے۔مذکورہ بالا عبارت کے آخر میں حافظ ابن عبدالبر نے جوداڑھی کو بھدا کرنے والے بالوں کے کاٹنے کے مشروع ہونے کے قول کو جمہور علماء کی طرف منسوب کیا ہے وہ سراسر غلط بیانی ہے کیونکہ ہر دور میں جمہوراس کے خلاف رہے ہیں اور یہ موقف ہرزمانے میں غیر جمہور اور قلیل علماء کا رہا ہے۔ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ لکھتے ہیں: مشت سے زائد داڑھی کٹانے پر امت کا اجماع بھی نہیں، بلکہ ہر دور میں اختلاف رہا ہے۔ بعض اسلاف سے اگر اس کا جواز ملتا ہے تو دیگر اسلاف سے اس کی کراہت بھی منقول ہے۔ بلکہ کٹانے کی نسبت داڑھی کو اس کی طبعی حالت پر برقرار رکھنے اور اسے اولیٰ قرار دینے والے ہر دور کے جمہور علمائے کرام ہیں۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 272)
بہرحال باوجود کوشش کےراقم کی عقل یہ بات سمجھنے سے بالکل عاجز ہے کہ خاص مواقع یعنی حج و عمرہ پر داڑھی کاٹنے کی جو دلیل عام حالات میں داڑھی کو معاف کردینے کا بین ثبوت ہے وہی دلیل بعض الناس کی اکثریت کے نزدیک غیر ایام حج و عمرہ میں داڑھی تراشنے کے لئے دلیل کا فائدہ کیونکر دیتی ہے ؟ آخر اس بات کی منطق اور انداز فہم کیا ہے؟ کس زاویے اور کس سمت سے ایک خاص موقع کی دلیل بنا کسی ثبوت کے عام موقع کی دلیل میں تبدیل ہوجاتی ہے؟ بہر کیف یہ بہت ہی حیران کن نظریہ ہے جو ناپسندیدہ شرعی احکام سے دامن چھڑانے کے متلاشی ذہنوں میں راہ پا گیا ہے اور وہ دلائل سے تہی دامن ہونے کے باوجود صحابہ کے بارے میں یہ تصور قائم کئے بیٹھے ہیں کہ وہ روزمرہ کی زندگی میں بھی اسی طرح داڑھی تراشتے تھے جس طرح حج و عمرہ کے موقع پر۔فاروق رفیع حفظہ اللہ بھی اس نقطہ کو سمجھنے سے آخری حد تک لاچار ہیں، چناچہ لکھتے ہیں: عہد صحابہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فقط حج و عمرہ کے موقع پر داڑھی کی تقصیر کے قائل تھے، جو ان کا ذاتی اجتہاد تھا ...... پھر ان کے حج و عمرہ میں احرام کے بعد داڑھی کی تقصیر کے عمل کو ان کی تمام زندگی کا معمول قرار دینا جہالت اورعقل کج روی ہی کا کمال ہے۔ علمی دنیا میں اس نکتے کوسمجھنے سے عقل قاصر ہے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 19)
فاروق رفیع حفظہ اللہ اس غلط نظریے کی بیخ کنی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فقط حج وعمرہ کے موقع پر داڑھی کٹواتے تھے، ان مواقع کے علاوہ ان سے تاحیات داڑھی کے مٹھی سےزائد تو دور داڑھی کا کوئی ایک بال کٹوانا بھی ثابت نہیں، سو ان کے خاص عمل کو عام قرار دینا اور داڑھی کاٹنے کے جواز کی عام دلیل کے طور پر پیش کرنا قطعاً درست نہیں۔ یہ قیاس مع الفارق کی صورت ہے اور اصول فقہ میں قیاس مع الفارق باطل ہے۔ (داڑھی اور خضاب ...، صفحہ 58)
مزید فرماتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حج و عمرہ کے سوا داڑھی کاٹنے اور اس کی تراش خراش کے قطعی قائل نہیں تھے۔ جو شخص ان کے داڑھی کو مطلق طور کاٹنے کا تاثر دیتا ہے اس پر دلیل پیش کرنا لازم ہے، ورنہ اسے لوگوں سے اپنے اس باطل موقف اور صحابی رسول کی طرف غلط بات منسوب کرنے سے تائب ہونا چاہیے اور عامۃ الناس کے لیے گمراہی کا سامان مہیا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 59،60)
اسی طرح ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ بھی سیدنا عمر کے خاص فعل سےلوگوں کے عام فعل کے لئے دلیل قائم کرلینےکا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: سیدنا ابن عمر کے اس موقف سے عام حالات میں داڑھی کٹانے کی کوئی دلیل ہی نہیں ملتی ، چناچہ اس حدیث کی بنا پر حج کے ماسواداڑھی کٹانابلادلیل ہےاور ایسا کرنے والوں کے ذمہ دلیل ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 336)
پس اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ عام حالات میں ریش تراشی کرتے ہیں اور اس کے لئے جواز عبداللہ بن عمر کے فعل کو بناتے ہیں ایسے لوگوں کا عمل و دعویٰ ان کی دلیل کے مطابق نہیں ہے بلکہ دعویٰ و عمل میں زبردست تضاد ہے دلیل خاص موقع کی دی جاتی ہے جبکہ اس سے استدلال عام حالات کے لئے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے زائد از قبضہ داڑھی کو کاٹنے کا سوال ہوا تو سوال کیا کہ ابن عمر کب کاٹتے تھے ، تو اس نے کہاحج کے موقع پر، تو شیخ نے فرمایاکہ جو بھی اس سے استدلال کرتے ہیں، وہ تو حج کے علاوہ بھی کاٹتے ہیں، پھر ان کو بھی حج کے موقع پر ہی کاٹنی چاہیے۔ پھر فرمایا: ’’یجب ان یکون الاستدلال مطابقاً للدلیل‘‘ وہ پسند فرماتے ہیں کہ استدلال دلیل کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ (یک مشت سے زائدداڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 335)
پس جب دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت اور موافقت ہی نہیں بلکہ بعدالمشرکین ہے تو اس بنیاد پر کئے جانے والے عمل کی کیا وقعت اور حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟
Last edited: