• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی نامہ

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بیسواں نظریہ:
’’علمائے کرام نے کبیرہ گناہوں کی جو فہرست بنائی ہے اس میں داڑھی مونڈنا شامل نہیں ہے لہٰذا جب قطع اللحیہ کبیرہ گناہ نہیں تو یہ فرض بھی نہیں تو پھریہ داڑھی کے غیرواجب ہونے کی طرف اشارہ اوراس کی دلیل ہے۔‘‘
سب سے پہلے تو عرض ہے کبیرہ گناہوں کے اعداد وشمار پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں وہ سب کی سب امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ کی تصنیف ’’الکبائر‘‘ سے ماخوذ ہیں اس لئے کبائر کی اس فہرست کودیگر علمائے کرام کی طرف منسوب کرنا اور ان کی ذاتی کاوش قرار دینازیادتی ہے اور اگر امام ذہبی کسی سہو کی بنا پر کبائر کی لسٹ میں داڑھی مونڈنے کو شامل کرنابھول گئے تو یہ داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بنتی اور وہ بھی اس صورت میں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے تمام کبائر کے درج کرنے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی امام ذہبی کی اپنی کتاب میں داخل کردہ کبیرہ گناہوں کی تعداد کوئی حتمی تعداد ہے جس میں اضافہ ممکن نہیں۔ اس طرح حافظ ذہبی کی فہرست کبائر کو حتمی تصور کرکے اس کی بنیاد پر داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ ہونے سےانکارکرنا یا داڑھی کی وجوبیت میں اشکال پیدا کرنا بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کے دور میں بھی کچھ لوگوں کا نظریہ تھا کہ کبیرہ گناہ تعداد میں صرف سات ہیں جن کا تذکرہ صحیح حدیث میں آیا ہےاسکے علاوہ گناہوں کو کبیرہ قرار دینا درست نہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں لوگوں کے نظریے کے ابطال کے لئے ’’الکبائر‘‘ لکھی اور تقریباً ۷۰ ایسےگناہوں کی فہرست پیش کی جن پر کبیرہ ہونے کا اطلاق کیا۔ سعید احمدقمر الزمان لکھتے ہیں: بعض لوگ گناہ کبیرہ صرف ان سات چیزوں کو ہی سمجھتے ہیںجن کا بیان ’’سات کبیرہ گناہ‘‘ والی حدیث میں ہوا ہے، حالانکہ یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ ساتوں چیزیں دیگر گناہ کبیرہ کے ضمن میں ہیں، اور اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ ’’کبائر‘‘ صرف ان سات چیزوں میں محدود ہیں، اسی سلسلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہےکہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ جاتی ہےنہ کہ صرف سات تک محدود ہیں( امام طبری نے صحیح سند سے روایت کیاہے)۔ کتاب ’’الکبائر‘‘ کے مصنف امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سات کبیرہ والی حدیث میں کبائر کو محدود نہیں کردیا گیاہے۔(مختصر کتاب الکبائر،صفحہ 9)
پس جس طرح کبیرہ گناہوں کو سات گناہوں میں محدود سمجھناجہالت ہے اسی طرح داڑھی مونڈنے کو کبیرہ گناہوں میں شامل نہ سمجھنا بھی کم علمی، کم عقلی اور جہالت ہے۔ داڑھی کے حلق کو کبیرہ گناہوں میں شامل نہ سمجھنے کی بنیاد اسکے فرض و واجب نہ ہونے کا نظریہ ہے اگر اس نظریے کو غلط ثابت کردیا جائے تو حلق اللحیہ کا کبیرہ ہونا خود بخود ثابت ہوجاتا ہے ۔اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ’’ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا بإحفاء الشوارب، وإعفاء اللحى ‘‘ بے شک رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مونچھیں کٹوانےاور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔(سنن ترمذی،باب مَا جَاءَ فِي إِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ، حدیث نمبر2764)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہےکہ : ’’انه امر بإحفاء الشوارب، وإعفاء اللحي‘‘ بے شک آپ ﷺ نے مونچھیں اچھی طرح تراشنے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا۔(صحیح مسلم،كِتَاب الطَّهَارَةِ،باب خِصَالِ الْفِطْرَةِ، حدیث نمبر601)
عرض ہے کہ داڑھی کے وجوب پربخاری و مسلم کی دیگر احادیث میں براہ راست ’’حکم یا امر‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ علمائے کرام نے الفاظ روایات سے داڑھی کے فرض ہونے پر استدلال کیا ہے۔مفتی محمد عبیداللہ خان عفیف حفظہ اللہ اس طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: داڑھی رکھنا شرعاً واجب ہے۔جیسا کہ احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کثیرہ اس کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں:
۱۔’’ فَحَصَلَ خَمْسُ رِوَایَاتٍ أَعْفُوا وَأَوْفُوا وَأَرْخُوا وَأَرْجُوا وَوَفِّرُوا وَمَعْنَاہَا کُلُّہَا تَرْکُہَا عَلَی حَالِہَا ہَذَا ہُوَ الظَّاہِرُ مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِی تَقْتَضِیہِ أَلْفَاظُہُ وَہُوَ الَّذِی قَالَہُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا‘‘ کہ حدیث کے راویوں سے مختلف الفاظ میں پانچ روایات مروی ہیں جو کہ پانچوں کی پانچوں صیغہ ہائے امر،یعنی اعفوا، اوفواارجوااور ووفروا پر مشتمل ہیں اور امروجوب کے لیے ہوتا ہے بشرطیکہ وہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہ ہو۔(نووی: ج۱ص۱۲۹)
(اور یہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں) لہٰذا ان پانچوں صیغوں کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو بلا کسی تعرض کے اس کے حال پر چھوڑ دینا واجب ہے اور یہی معنی متبادر اور ظاہر ہے اور حدیث کے الفاظ بھی اس معنی سے مقتضی ہیں۔
۲۔ امام ابن دقیق داڑھی کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے یہ تصریح فرماتے ہیں:
’’وقد وردت الاحادیث الکثیرة الصحیحة الصریحة فی الامر باعقاء اللحیة اخرجھا ائمة السنة وغیرھم وأصل الامر الوجوب ولا یصرف عنہ إلا بدلیل کما ھو مقرر فی علم الاصول۔‘‘ (المنھل العذب المورود شرح سنن ابی داؤد: ج۱ص۱۸۶ ، والتعلیقات السلفیة ج۲ ص۲۸۵) صحاح ستہ وغیرہ میں بہت سی احادیث صحیحہ صریحہ میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیاگیا ہے اور علم اصول کے مسلمہ قاعدہ کے مطابق جب کوئی قرینہ صارفہ موجود نہ ہو تو امر کا صیغہ وجوب کا فائدہ دیتا ہے چونکہ یہاں کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں، لہٰذا اصولی طور پر داڑھی کا بڑھانا واجب ٹھہرا۔
(فتاویٰ محمدیہ، صفحہ443)
اب چونکہ بعض دینی طریقہ کار سے بے بہرہ لوگ علماء کے استخراجی اور استدلالی مسائل سے تشفی نہیں پاتےلہٰذا ان کی تسلی کے لئے راقم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ صحیح مسلم اور جامع ترمذی کی وہ صریح روایات پیش کی ہیں جن میں داڑھی بڑھانے کا صاف صاف حکم موجود ہےاور داڑھی کا وجوب ثابت کرنے کے لئے کسی استخراج اور استدلال کی حاجت نہیں ہے ۔ لہٰذاجب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بتادیا کہ ہمیں یعنی رسول اللہ ﷺ کی امت کے تمام بالغ مردوں کو داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے تو اس حکم سے انکار کرنے والا خود بخودکبیرہ گناہ کا مرتکب بن جاتا ہے کیونکہ نبی ﷺ کا حکم فرض کے درجہ میں ہوتا ہے اور فرض کا ترک یا انکار بڑا یا کبیرہ گناہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں یہی وجہ ہے کہ اہل علم کی جماعت نے حلق اللحیہ کے کبیرہ گناہ ہونے پر اتفاق کیا ہے۔
راقم السطور کا دعویٰ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے داڑھی مونڈنے کو بھی کبیرہ گناہ میں شامل کیا ہے کیونکہ انہوں نے کبیرہ گناہوں کے تحت عورتوں اور مردوں کی باہمی مشابہت کی ممانعت کو بھی اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ سعید احمدقمر الزمان نےاپنی کتاب ’’مختصر کتاب الکبائر‘‘ کے صفحہ نمبر 41 ، ابوالقاسم حافظ محمود تبسّم نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور ان کا علاج‘‘ کے صفحہ نمبر267، حافظ عبدالسلام بن محمد نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور ان کا انجام‘‘ کے صفحہ نمبر49،سید شفیق الرحمٰن زیدی نے اپنی کتاب ’’کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام‘‘ کےصفحہ نمبر133اورابوانس محمد سرور گوہر نے ’’کبیرہ گناہ‘‘ کے صفحہ نمبر205پر اس کا اندراج کیا ہےان تمام کتابوں کا حوالہ اس لئے دیاگیا ہے کہ یہ تمام کتب امام ذہبی کی تالیف’’الکبائر‘‘ کا اردو ترجمہ ہیں۔
مسئلے کی تفہیم کے لئےپہلے تو یہ سمجھ لیں کہ دین اسلام میں جامعیت ہے اس لئے ہر کبیرہ گناہ کا بنام تذکرہ قرآن و حدیث میں نہیں ملے گا۔ اس کے حل کے لئے شارع نے کچھ ایسے کلیے اور قاعدے بیان کردئیے ہیں جن کے ضمن میں کئی کبیرہ گناہ آجاتے ہیں۔ مردوں کاداڑھی منڈوانا، ناک و کان چھدوانا، عورتوں کے سے انداز و اطوار میں گفتگو کرنا وغیرہ کبیرہ گناہ ہے یا صغیرہ اس کے ذکر سے قرآن و حدیث خاموش ہیں لیکن حدیث میں بیان کیا گیا قاعدہ ’’لعن رسول اللهﷺ المتشبهات بالرجال من النساء، والمتشبهين بالنساء من الرجال‘‘ داڑھی مونڈنے سمیت ہر اس کام کو اس اصول کے دائرے میں لانے کا سبب بنتا ہے جسے عرف عام میں عورتوں کی مشابہت سمجھا جاتا ہے اور اس پر لعنت کی وعید ان تمام افعال بشمول داڑھی کے حلق کو کبیرہ گناہ بنادیتی ہےکیونکہ یہ کبیرہ گناہ کی تعریف کے عین مطابق ہے۔سید شفیق الرحمٰن زیدی حفظہ اللہ کسی گناہ کے کبیرہ ہونے کا اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر شرعی نصوص میں کسی کام کو موجب لعنت قرار دیا گیا ہو تو یہ اس کام کے حرام اورکبیرہ گناہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام،صفحہ 133)
حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کبیرہ کی یوں تعریف کی ہے:’’گناہ کبیرہ ہر اس گناہ کو کہتے ہیں جس کے مرتکب کے لئے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی گئی ہویا آخرت میں کوئی وعید سنائی گئی ہو، اور شیخ الاسلام نے مزید فرمایاکہ اس کے مرتکب سے ایمان کی نفی کی گئی ہویا ملعون وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں‘‘۔ (کبیرہ گناہ اور ان کا انجام، صفحہ 17،18)
پس داڑھی مونڈنا موجب لعنت ہے اس لئے یہ اس فعل کے کبیرہ ہونے کی واضح ترین دلیل ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ داڑھی مونڈنے کے کبیرہ گناہ ہونے کے اور بھی دلائل ہیں جیسے اس کا فرض ہونا جبکہ فرض اور واجب امور کو ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے اس کے علاوہ داڑھی مونڈنا کفار سے مشابہت کی وجہ سے بھی کبیرہ گناہ ہے کیونکہ اس پر کفار کے ساتھ حشر نشر کی سخت وعید موجود ہےنیز عورتوں اور ہیجڑوں سے مشابہت کی بنا پر بھی یہ کبیرہ گناہ ہے۔
ایک مرد کے لئے کون کون سے امور صنف نازک کی مشابہت کے زمرے میں آتے ہیں اس کی ام عبد منیب صاحبہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں24 امور کی ایک لسٹ بنائی ہے جس میں انہوں نے مرد کے داڑھی مونڈنے کو بھی عورتوں کی مشابہت میں داخل کیا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: صنف مخالف کی مشابہت ایک مہلک بیماری، صفحہ 31 تا59)
اگر ہم بالفرض محال داڑھی کے عملی انکار کو کبیرہ کے بجائے صغیرہ گناہ بھی سمجھ لیں تب بھی یہ کبیرہ گناہ میں داخل ہوجاتا ہے کیونکہ اصول ہے کہ صغیرہ گناہوں پر مواظبت اور ہمیشگی اسے کبیرہ گناہ بنادیتی ہےچونکہ داڑھی مونڈنے کا فعل دن رات مہینوں بلکہ سالوں بغیر کسی انقطاع کے مسلسل جاری رہتا ہے اس لئے اسے کبیرہ گناہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک مفتی صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے متعلق سائل کے استفسار پر لکھتے ہیں:
قرآن پاک اوراحادیث مبارکہ میں گناہوں پروعیداور ممانعت کے انداز میں تبدیلی کی بناپر گناہوں کی دوقسمیں ذکرکی گئی ہیں،صغیرہ اور کبیرہ۔صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی کوئی قطعی تعداد نہیں ، مختلف احادیث کوسامنے رکھتے علماء نے مختلف تعداد ذکر کی ہے۔تعریف کی حد تک جس گناہ پر مجرم کے لیے رحمت سے دوری (لعنت) مذکور ہو، وعیدسنائی گئی ہو یاجس پر عذاب وسزایا حدکاذکرہووہ کبائرہیں۔اسی طرح جو گناہ جرأت و بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس گناہ پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے، خواہ اس پر وعید، لعنت یا عذاب وسزا وارد نہ ہو۔(banuri.edu.pk)
حافظ مغیث الرحمٰن حفظہ اللہ اپنے مضمون ’’گناہ تعریف،اقسام اور اس کے اثرات‘‘ میں رقمطراز ہیں: کبیرہ گناہ وہ ہیں کہ جس پر کوئی حدمقرر کی گئی ہو یا اس پر عذاب، لعنت،سزا،آگ کی وعید کی گئی۔اورصغیرہ گناہ وہ جو کبائر کے علاوہ ہوں۔صغیرہ گناہوں کاکفارہ اعمال صالحہ ہیں، البتہ صغیرہ گناہوں پر اصرار کرنا یا لاپرواہی سےکام لینا بھی کبیرہ گناہوں میں شمار کیاجاتاہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’لاکبیرۃ مع الاستغفار ولاصغیرۃ مع الإصرار‘‘ (فتح الباری،رواہ ابن جریر فی تفسیرہ وابن ابی حاتم فی تفسیرہ وصححہ محمد بن عمرو بن عبداللطیف)
استغفار کے بعد کبیرہ گناہ باقی نہیں رہتا، اور اصرار(باربارکرنا) کے ساتھ صغیرہ گناہ، صغیرہ نہیں رہتا۔(بلکہ کبیرہ بن جاتاہے)۔
(ماہنامہ مجلہ دعوت اہل حدیث، شمارہ اپریل2017)
اس بحث کے بعد علامہ ذہبی کی کبیرہ گناہوں کی فہرست پر بنائے گئے نظریے کی اصلاح ہوجانا چاہیے کیونکہ امام ذہبی کی کبائرکی فہرست توفیقی نہیں ہے بلکہ ان کا اجتہاد اور اکتساب ہے جس میں اضافہ بھی ممکن ہے اور کمی بھی۔

اکیسواں نظریہ:
بہت سے لوگوں کا نظریہ عام حالات میں داڑھی کاٹنے کا صرف اس لئے ہے کہ عبداللہ بن عمر حج و عمرے کے خاص موقع پر داڑھی کاٹتے تھے ان کے نزدیک صحابی رسول کاکسی بھی موقع پر داڑھی کاٹنا مسلمانوں کے لئے ہر موقع پر کاٹنے کی دلیل بنتا ہے اسی طرح بعض لوگوںکی ناقص فہمی میں ابن عمر کا حج اور عمرے پر داڑھی کاٹنے کا سبب یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ مسئلہ پہنچ جائے کیونکہ حج اور عمرہ ہی ایسے مواقع ہیں جس پر دنیا بھرکے مسلمانوں کا اجماع ہوتا ہے۔
جہاں تک آخر الذکر نظریے کی بات ہے کہ عبداللہ بن عمر کا عمل دنیا دکھاوے کے لئے تھا اس لئے وہ لوگوں کے جم غفیر کے موقع پر ایک بالشت تک داڑھی کاٹتے تھے تواس نظریے کے بطلان کے لئے یہی بات کافی ہے کہ ماضی سے لے کر آج تک کسی اہل علم نے ابن عمر کے عمل کی ایسی توجیہ یا وجہ بیان نہیں کی لہٰذا یہ نظریہ نہ صرف ردی اور کچرا ہے بلکہ شیطانی ذہن کی پیداوار ہونے کی وجہ سے ناقابل جواب ہےبلکہ اس کا جواب نہ دیاجانا ہی اس کادرست جواب ہے اور جہاں تک پہلے نظریے کی بات ہے تو راقم کے مطابق یہ مضحکہ خیز اور بے تکا نظریہ آج کا نہیں ہے بلکہ اس کے ڈانڈے ماضی میں کچھ نامور لوگوں سے جا ملتے ہیں، چناچہ اسی طرح کا ایک ملتا جلتا نظریہ حافظ ابن عبد البر مالکی کا بھی ہے، موصوف لکھتے ہیں:
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کا داڑھی کے اگلے حصہ بال لینا دلیل ہے غیر حج میں بھی بال لینے کی، کیونکہ (یہ کام) باقی زمانہ میں ناجائز ہوتا تو حج میں بھی ناجائز ہوتا. کیونکہ محرمین (حج/عمرہ کا احرام بھندنے والوں) کو یہ حکم ہے کہ جب وہ احرام کھولنے لگیں تو وہ کام کریں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا یعنی حلق یا قصرپھر حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے داڑھی بڑھنے کی حدیث روایت کی اور وہ اس کےمعنی کو زیادہ جانتے ہیں اور حضر ت ابن عمررضی اللہ عنہ اور جمہور علماءکے نزدیک معنی یہ ہیں کہ جو بال داڑھی کو قبیح اور بھدا کردیں ان کا لینا جائز ہے۔[الاستذکار : 4/317، بیروت]
حافظ ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر کے داڑھی سے بال لینے سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ انتہائی غلط ہےکیونکہ ابن عمر کا حج وغیرہ پر داڑھی کاٹنا کسی بھی صورت غیر حج میں داڑھی کاٹنے کی دلیل نہیں بنتاوجہ اس کی یہ ہے کہ ابن عمر اس فعل یعنی داڑھی تراشنے کو مناسک حج میں شمار کرتے تھے اور اس کے لئے قرآن سے دلیل لاتے تھےجیسا کہ شمس الدین الکرمانی اس بابت رقمطراز ہیں: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے قول مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ(الفتح: 27) کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ حج یا عمرہ میں سر کے بالوں کاحلق اور داڑھی کے بالوں کو چھوٹا کروایا جائے گا۔ (شرح الکرمانی علی البخاری، جلد نمبر 21،صفحہ نمبر 111) لہٰذا خود عبداللہ بن عمر کے نزدیک داڑھی کاٹنا امور حج سے تعلق رکھتا ہےجو اس امر (داڑھی کاٹنے)کو عام حالات میں ازخودبے دلیل بنادیتا ہےچناچہ ایام حج میں داڑھی کاٹنے کے خاص فعل کوبلادلیل عام بناکر غیرایام حج میں داڑھی کاٹنے کے لئے جواز گھڑنا یا امور حج کی دلیل پر غیر امورحج کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ عبداللہ بن عمر اور ان کے ہمنوا تین صحابہ کا دوران حج و عمرہ داڑھی کاٹنے کے لئے قرآن کی آیات سے استدلال کرنا ان کا ذاتی اجتہاد تھا جس پر وہ غلطی پر تھے اسی بناپر باقی امت نے اسےقبول نہیں کیا چناچہ اس غلط اجتہاد کی وجہ سے داڑھی کاٹنا حج میں بھی ناجائز ہے اور غیر حج میں بھی غلط اور ناجائز ہے۔مذکورہ بالا عبارت کے آخر میں حافظ ابن عبدالبر نے جوداڑھی کو بھدا کرنے والے بالوں کے کاٹنے کے مشروع ہونے کے قول کو جمہور علماء کی طرف منسوب کیا ہے وہ سراسر غلط بیانی ہے کیونکہ ہر دور میں جمہوراس کے خلاف رہے ہیں اور یہ موقف ہرزمانے میں غیر جمہور اور قلیل علماء کا رہا ہے۔ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ لکھتے ہیں: مشت سے زائد داڑھی کٹانے پر امت کا اجماع بھی نہیں، بلکہ ہر دور میں اختلاف رہا ہے۔ بعض اسلاف سے اگر اس کا جواز ملتا ہے تو دیگر اسلاف سے اس کی کراہت بھی منقول ہے۔ بلکہ کٹانے کی نسبت داڑھی کو اس کی طبعی حالت پر برقرار رکھنے اور اسے اولیٰ قرار دینے والے ہر دور کے جمہور علمائے کرام ہیں۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 272)
بہرحال باوجود کوشش کےراقم کی عقل یہ بات سمجھنے سے بالکل عاجز ہے کہ خاص مواقع یعنی حج و عمرہ پر داڑھی کاٹنے کی جو دلیل عام حالات میں داڑھی کو معاف کردینے کا بین ثبوت ہے وہی دلیل بعض الناس کی اکثریت کے نزدیک غیر ایام حج و عمرہ میں داڑھی تراشنے کے لئے دلیل کا فائدہ کیونکر دیتی ہے ؟ آخر اس بات کی منطق اور انداز فہم کیا ہے؟ کس زاویے اور کس سمت سے ایک خاص موقع کی دلیل بنا کسی ثبوت کے عام موقع کی دلیل میں تبدیل ہوجاتی ہے؟ بہر کیف یہ بہت ہی حیران کن نظریہ ہے جو ناپسندیدہ شرعی احکام سے دامن چھڑانے کے متلاشی ذہنوں میں راہ پا گیا ہے اور وہ دلائل سے تہی دامن ہونے کے باوجود صحابہ کے بارے میں یہ تصور قائم کئے بیٹھے ہیں کہ وہ روزمرہ کی زندگی میں بھی اسی طرح داڑھی تراشتے تھے جس طرح حج و عمرہ کے موقع پر۔فاروق رفیع حفظہ اللہ بھی اس نقطہ کو سمجھنے سے آخری حد تک لاچار ہیں، چناچہ لکھتے ہیں: عہد صحابہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فقط حج و عمرہ کے موقع پر داڑھی کی تقصیر کے قائل تھے، جو ان کا ذاتی اجتہاد تھا ...... پھر ان کے حج و عمرہ میں احرام کے بعد داڑھی کی تقصیر کے عمل کو ان کی تمام زندگی کا معمول قرار دینا جہالت اورعقل کج روی ہی کا کمال ہے۔ علمی دنیا میں اس نکتے کوسمجھنے سے عقل قاصر ہے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 19)
فاروق رفیع حفظہ اللہ اس غلط نظریے کی بیخ کنی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فقط حج وعمرہ کے موقع پر داڑھی کٹواتے تھے، ان مواقع کے علاوہ ان سے تاحیات داڑھی کے مٹھی سےزائد تو دور داڑھی کا کوئی ایک بال کٹوانا بھی ثابت نہیں، سو ان کے خاص عمل کو عام قرار دینا اور داڑھی کاٹنے کے جواز کی عام دلیل کے طور پر پیش کرنا قطعاً درست نہیں۔ یہ قیاس مع الفارق کی صورت ہے اور اصول فقہ میں قیاس مع الفارق باطل ہے۔ (داڑھی اور خضاب ...، صفحہ 58)
مزید فرماتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حج و عمرہ کے سوا داڑھی کاٹنے اور اس کی تراش خراش کے قطعی قائل نہیں تھے۔ جو شخص ان کے داڑھی کو مطلق طور کاٹنے کا تاثر دیتا ہے اس پر دلیل پیش کرنا لازم ہے، ورنہ اسے لوگوں سے اپنے اس باطل موقف اور صحابی رسول کی طرف غلط بات منسوب کرنے سے تائب ہونا چاہیے اور عامۃ الناس کے لیے گمراہی کا سامان مہیا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 59،60)
اسی طرح ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ بھی سیدنا عمر کے خاص فعل سےلوگوں کے عام فعل کے لئے دلیل قائم کرلینےکا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: سیدنا ابن عمر کے اس موقف سے عام حالات میں داڑھی کٹانے کی کوئی دلیل ہی نہیں ملتی ، چناچہ اس حدیث کی بنا پر حج کے ماسواداڑھی کٹانابلادلیل ہےاور ایسا کرنے والوں کے ذمہ دلیل ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 336)
پس اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ عام حالات میں ریش تراشی کرتے ہیں اور اس کے لئے جواز عبداللہ بن عمر کے فعل کو بناتے ہیں ایسے لوگوں کا عمل و دعویٰ ان کی دلیل کے مطابق نہیں ہے بلکہ دعویٰ و عمل میں زبردست تضاد ہے دلیل خاص موقع کی دی جاتی ہے جبکہ اس سے استدلال عام حالات کے لئے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے زائد از قبضہ داڑھی کو کاٹنے کا سوال ہوا تو سوال کیا کہ ابن عمر کب کاٹتے تھے ، تو اس نے کہاحج کے موقع پر، تو شیخ نے فرمایاکہ جو بھی اس سے استدلال کرتے ہیں، وہ تو حج کے علاوہ بھی کاٹتے ہیں، پھر ان کو بھی حج کے موقع پر ہی کاٹنی چاہیے۔ پھر فرمایا: ’’یجب ان یکون الاستدلال مطابقاً للدلیل‘‘ وہ پسند فرماتے ہیں کہ استدلال دلیل کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ (یک مشت سے زائدداڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 335)
پس جب دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت اور موافقت ہی نہیں بلکہ بعدالمشرکین ہے تو اس بنیاد پر کئے جانے والے عمل کی کیا وقعت اور حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بائیسواں نظریہ:
کچھ لوگوں کے سامنے جب اس عام حقیقت کی ترجمانی کی جاتی ہے کہ صحابہ کی اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جنھوں نے اپنی ہی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کیا ہے یا فتویٰ دیا ہے اور امت مسلمہ نے اسے ان کا اجتہادی قصور قرار دے کر اس طرح کے اعمال اور فتوؤ ں کو ترک کردیا ہے تو اس پر وہ یہ جواب عنایت کرتے ہیں کہ انفرادی سطح پر تو کوئی بھی غلطی کرسکتا ہے اس سے انہیں انکار نہیں ہےلیکن داڑھی کا معاملہ مختلف نوعیت کا ہےکیونکہ داڑھی کی احادیث کو روایت کرنے والے چار صحابہ ہیں اور چاروں کے چاروں سے داڑھی کاٹنا ثابت ہے ۔اب یہ کیسے ممکن ہے کہ چاروں روایان حدیث بیک وقت ایک جیسی غلطی کا شکار ہوگئے ہوں؟ اگر تو یہ صرف ایک صحابی کا عمل ہوتا تو اسکو اجتہادی خطا مان کر چھوڑا جاسکتا تھا لیکن یہاں چاروں راویان صحابہ کا عمل یکساں ہے جبکہ غلطی ایک سے ہوتی ہے دو سے ہوتی ہےایک ہی وقت میں چارسے اس کا صدور ممکن نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ داڑھی کاٹنے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ضرور ہےجس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے خطا یا غلطی کہہ کر مکمل طور پر رد کیا جاسکتا ہےلہٰذا یہ داڑھی کاٹنے کے عمل کے صحیح ہونے کی مضبوط دلیل ہے۔
جاہل الناس کا یہ نظریہ کئی ایک وجوہات کی بنا پر کمزور ہے:
اوّل:
وَفِّرُوا اللِّحَى کو روایت کرنےوالے صحابہ فقط چار نہیں ہیں جیسا کہ ناقص علم رکھنے اور ادھوری تحقیق کرنے والے لوگ سمجھتے ہیں بلکہ کئی دوسرے صحابہ نے بھی ’’داڑھی بڑھاؤ ‘‘ والی حدیث کو روایت کیا ہےاور ان صحابہ سے داڑھی کوکاٹنا، تراشنا اور قطع بریدکرنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔ مثلاً سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ‘‘ ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول !اہل کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا:تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔‘‘(مسند الامام احمد: ۵؍۲۶۴۔۲۶۵، وسندہ حسن)
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ ان کے داداعبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ : ’’قال رسول اللہ ﷺ احفواالشوارب واعفوا اللحی‘‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مونچھیں کاٹواور داڑھیاں چھوڑدو۔(الجامع الصغیر۱/۱۲)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’احفواالشوارب واعفوا اللحی ولاتشبھوابالیھود‘‘ مونچھیں کاٹواور داڑھیاں چھوڑ دو اوریہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کیا کرو۔( اخرج الطحاوی فی شرح معانی الاثار۲/۳۳۳)
پس چار راویان صحابہ کے علاوہ باقی صحابہ کا داڑھی والی حدیث کو روایت کرنا اور خود داڑھی نہ تراشنا اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ریش تراشی مضبوط موقف نہیں ہے اگر تو واقعی ایسا ہوتا تو دیگر راویان حدیث صحابہ کا عمل بھی داڑھی کاٹنا ہی ہوتاچناچہ ایک ہی مسئلہ کی حدیث بیان کرنے والے صحابہ کے درمیان یہ اختلاف اس موقف کی کمر توڑ دیتا ہے کہ داڑھی کاٹنا ہی داڑھی والی احادیث کا صحیح فہم ہےاور دل و دماغ خودبخود اس بدیہی سچائی کی جانب منتقل ہوجاتا ہے کہ صحابہ کرام کی کثیر تعداد کے مقابلے میں چار صحابہ سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی ہے۔
دوم:
یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ چار صحابہ سے پوری صحت کے ساتھ داڑھی کی قطع وبرید ثابت ہےحقیقت یہ ہے کہ صرف عبداللہ بن عمر؄کی موقوف روایت صحت کے درجہ کو پہنچتی ہے باقی تین صحابہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں کہ وہ داڑھی کاٹتے تھے، ایسی روایات کسی نہ کسی درجہ میں کمزور ہیں اور حسن یا صحیح کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ اس بارے میں فاروق رفیع حفظہ اللہ فرماتے ہیں: صرف دو صحابہ سے حج و عمرہ کے موقع پر داڑھی کٹوانے کا جواز ملتاہے، ایک سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اور دوسرے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 78)
ایک اور مقام پر فاروق رفیع لکھتے ہیں: دو صحابی نبی ﷺ کی رحلت کے بعد حج وعمرہ میں احرام سے حلال ہوتے وقت داڑھی کاٹنے کے قائل تھے۔(داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 93)
اس بحث سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا نام خارج سمجھا جائے کیونکہ وہ داڑھی کو لمبائی میں کاٹنے کے قائل و فاعل نہیں تھے بلکہ داڑھی کو صرف چوڑائی سے تھوڑا سا تراش لینے کو حج و عمرہ کے خاص موقع پر جائز سمجھتے تھے جیساکہ اس کی تشریح میں فاروق رفیع، عبداللہ بن عباس کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کے قول سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تقصیر میں لمبائی میں داڑھی کاٹنے کے قائل نہ تھے،ان کے نزدیک احرام کھول کر رخساروں سے کچھ بال کٹوا لینے چاہیں، ان سے لمبائی میں داڑھی کٹوانا تقصیر میں بھی ثابت نہیں ہے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟،صفحہ 137)
اب چونکہ وجہ نزاع اور جھگڑا داڑھی کو ایک مشت کے بعد لمبائی میں کاٹنے کے جواز اور عدم جواز پر ہےاس لئےمخالفین کے لئے عبداللہ بن عباس کے قول میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ وہ داڑھی کو لمبائی میں نہ تراشنے کے حامی تھے۔ اب لے دے کے صرف ایک ہی صحابی رسول بچتے ہیں جوقبضہ کے بعد داڑھی کاٹتے تھے اس طرح معترضین کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ منفرد یا شخص واحد سے خطاء کا صدور ممکن ہے اور اگر داڑھی کاٹنا ایک راوی کا عمل ہوتا تو اسے اجتہادی غلطی سمجھ کر نظراندازکیا جاسکتا تھا۔ اب چونکہ اس کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ یہ عبداللہ بن عمر کی غلطی تھی جس میں دوسرے صحابہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔تو یہ بات ان کے موقف کو حد درجہ کمزور کردیتی ہے۔ اب چاہے ہمارا مخالف ہماری اس بات و دعویٰ کو صحیح تسلیم کرنے سے انکاری ہو لیکن کم ازکم یہ معاملہ اب مشکوک ضرور ہوچکا ہے اور مخالف کے پیش کردہ نظریے میں پہلا جیسا وزن نہیں رہا۔ اب یا تو مخالف باقی تین صحابہ کے عمل کی صحیح سند پیش کرے یا پھر اپنے موقف و نظریے سے دستبردار ہوجائے اور کوئی دوسرا نظریہ پیش کرے جو وزنی ہو۔
سوم:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین رونما ہونے والے اس طرح کے اختلافی معاملات میں اہل سنت والجماعت کا اصول و قاعدہ یہ ہے کہ قلیل کے بجائے کثیر جماعت صحابہ کو ترجیح دی جاتی ہےیعنی اختلافی مسائل میں جمہور کا موقف ہی مبنی بر صواب ہوتا ہے کیونکہ زیادہ لوگوں کے مقابلے میں کم لوگوں کے غلطی پر ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اسکے علاوہ کسی مسئلہ کو لے کر دو جماعتوں یا گروہ میں سےایک وقت میں ایک ہی حق پر ہوتا ہے جبکہ دوسرا گمراہی پر اس لئے بڑی جماعت کو ترجیح دینا اور ان کے موقف کو حق تسلیم کرنا ہی محفوظ ترین راستہ ہے کیونکہ زیادہ لوگوں سے غلطی کا صدورہونا مشکل ہے۔
اب داڑھی والے اختلافی مسئلہ میں ریش تراشی کرنے والے گنتی کے چارصحابہ ہیں اوران کے مقابلے میں ریش تراشی نہ کرنے والے صحابہ کی تعداد بلاشبہ ہزاروں میں ہے جو ثابت کرتا ہے کہ صحابہ کی بڑی جماعت کا عمل ہی حکم رسول ﷺ کی درست ترجمانی ہے۔اسکے مقابلے میں کوئی عقل سے پیدل ہی ہوگا جو چار صحابہ کی قلیل جماعت کے فعل کو صحیح اور ہزاروں صحابہ کی بڑی جماعت کے فعل کو غلط قرار دے گا۔ چناچہ یہ وجہ بھی ہمارے مخالفین کے موقف کو مزید کمزور کردیتی ہے
چہارم:
صحابہ کی اکثریت کے داڑھی کو معاف کردینے کےعمل کی تائید و تصدیق نبی کریم ﷺ کے فرامین سے ہوتی ہے جو اس موقف کو تقویت پہنچاتے اور مزید مضبوط کرتے ہیں اس کے برعکس چار صحابہ کا فعل نبی مکرم ﷺ کے فرامین سے براہ راست متصادم بلکہ مخالف ہے۔ایک عام مسلمان کا دل بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے حکم کی تصدیق کرنے والا عمل بالکل صحیح ہے اور حکم رسول ﷺ کی تکذیب کرنے والا چار صحابہ کا عمل ہرگز درست نہیں کیونکہ یہ ایمان، اسلام اور نبی کریم ﷺ سے محبت کے تقاضے کو پورا نہیں کرتا یہ ایک ایسی سچائی ہے جو کسی بھی دلیل کی محتاج نہیں اس کے لئے صرف دل میں ایمان کی موجودگی ہی کافی ہے۔ اور اہل حدیث کا اصول بھی یہی ہے کہ جب کسی مسئلہ میں اقوال و افعال مختلف ہوں تو صرف وہی قول اورفعل قابل قبول ہوگا جو کتاب و سنت کے قریب ہوگا اور قرآن و حدیث سے بعید قول و عمل قابل رد اور مردود ہوگا۔ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اس بابت اہل حدیث کا اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر اختلاف ہو توان میں سے جو قول کتاب وسنت کی طرف زیادہ قریب ہو، اس پر عمل کیا جائے اور اس پر کسی عمل ، رائے یا قیاس کو مقدم نہ سمجھا جائے۔ (الاصلاح، حصہ اوّل، صفحہ 135)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل کے بارے میں رقمطراز ہیں: تیسرا اصول:جب صحابہ میں اختلاف ہوتو اس قول کو لیتے جو کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہوتا، ان کے اقوال سے باہر نہ نکلتے۔(اعلام الموقعین عن رب العالمین، بحوالہ الاصلاح، حصہ اوّل، صفحہ136)
اور داڑھی والے مسئلہ میں داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا ہی متعلقہ احادیث کی مراد کے زیادہ قریب ہے جبکہ داڑھی کاٹنے کا عمل احادیث کے ظاہری معنی سے قریب ہونا تو دور کی بات انتہائی بعید بلکہ احادیث کی ضد ، مخاصمت اور مخالفت میں جاپڑا ہے۔
پنجم:
صحابہ کرام نے بہت سے مسائل میں آپس میں اختلاف کیا ہے جیسا کہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام ابوعیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ نے نماز مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے بارےمیں فرمایا: ’’وقد اختلف اصحاب النبی ﷺ فی الصلوٰۃ قبل المغرب: فلم یر بعضھم الصلاۃ قبل المغرب، وقدروی عن غیرواحد من اصحاب النبی ﷺ انھم کانو یصلّون قبل صلوۃ المغرب رکعتین بین الاذان والاقامۃ‘‘ مغرب سے پہلے نماز کے بارے میں نبی ﷺ کے صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا: پس ان میں سے بغض مغرب سے پہلے نماز کے قائل نہیں تھے اور نبی ﷺ کے کئی صحابہ سے مروی ہے کہ وہ مغرب کی نماز سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے۔(سنن الترمذی ح۱۸۵، باب ماجاء فی الصلوٰۃ قبل المغرب)
امام ابوبکرمحمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ(متوفی۳۱۸ھ) نے فرمایا: ’’اختلف اصحاب رسول اللہ ﷺ ومن بعدھم فی الوضوء ممامست النار۔۔۔‘‘ الخ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اور ان کے بعد آنے والوں میں، جسے آگ چھو لےاس (کے کھانے)سے وضو کے بارے میں اختلاف ہے۔
( تحقیقی ،اصلاحی اور علمی مقالات، جلد چہارم،صفحہ 328،329)
ان اختلافی مسائل میں دونوں جانب بلاشبہ صحابہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن امت نے صحابہ کی بھاری تعداد سے متاثر ہونے کے بجائےاپنی توجہ ان دلائل پر رکھی جس کی وجہ سے ان میں سے ایک گروہ کا موقف راجح ثابت ہوتا ہے ۔ پس جب دلائل کے سامنے سینکڑوں صحابہ کے عمل، فہم اور فتویٰ کی کوئی حیثیت امت نے تسلیم نہیں کی تو گنتی کے صرف چار صحابہ کے ایک موقف اختیار کرلینے سے امت کیونکر صحابہ کے ایک بڑے گروہ کے موقف کو نظرا نداز کرکے چار صحابہ کے فعل کو صحیح تسلیم کرسکتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب نصوص بھی چار صحابہ کے فعل کو سہارا یا قوت نہیں پہنچاتے۔ محمد ابراہیم ربانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: بلاشبہ کتاب وسنت کا وہی مفہوم ومراد معتبر ہے جو سلف صالحین صحابہ، تابعین وائمہ دین سےماخوذ ہو لیکن جو مسئلہ سلف صالحین میں بھی مختلف فیہ ہو تو اس صورت میں انہی اسلاف کےموقف کو درست تصور کیا جائے گاجن کاموقف کتاب وسنت کے موافق ہوگا۔( ماہنامہ مجلہ دعوت اہل حدیث، شمارہ اپریل 2017)
لہٰذا یہ تمام وجوہات معترضین کے خودساختہ موقف کو ضعیف اور کمزور ثابت کرتی ہیں۔
ششم:
عبداللہ بن عمر کے علاوہ جن تین صحابہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ریش تراشی کرتے تھے وہ اس وجہ درست نہیں کہ جن موقوفات میں اس بات کا ذکر ہے وہ سند کے لحاظ سے کمزور ہیں چناچہ عبداللہ بن عمر کے علاوہ کسی صحابی سے داڑھی کاٹناپایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا ۔ڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قصر کی مستندروایت سیدنا ابن عمر کے سواکسی کی نہیں اور وہ بھی مناسک حج کے طور۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 336)
عبداللہ بن عمر کے ساتھ داڑھی کی تراش خراش کے ثبوت میں سب سے زیادہ تذکرہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کاکیا جاتا ہےاور اس موقوف روایت کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئےڈاکٹر حسن مدنی حفظہ اللہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل بھی جو مصنف ابن ابی شیبہ میں مروی ہے۔ اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں کس قسم کے آثار ملتے ہیں۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 336)
فاروق رفیع نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ضعف پر تفصیل سے کلام کیا ہے دیکھئے: داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 163 تا 165
اسی طرح شیخ امتیاز الہٰی حفظہ اللہ بھی داڑھی کاٹنے سے متعلق عبداللہ بن عمر کے علاوہ باقی صحابہ کی موقوفات کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار پیش کیے جاتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم داڑھی کی تراش خراش کرتے تھے یا تو وہ روایات ضعیف ہیں یا پھر مرفوع نہیں بلکہ صحابی کا عمل ہے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 376)
لہٰذا بات واضح ہوگئی کہ صرف ایک صحابی داڑھی کاٹتے تھےاور ایک صحابی سے غلطی کا امکان ہمارے مخالفین کو بھی تسلیم ہےاور غلطی ناقابل اتباع ہوتی اس سے بھی انہیں کو ئی انکار نہیں چناچہ دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنے بے وزن موقف سےفی الفور رجوع کرلینا چاہیے اور حکم رسول ’’داڑھی بڑھاؤ ‘‘ پر سر تسلیم خم کردینا چاہیے۔ مزید عرض ہے کہ ہماری جانب سے یہ تمام کدوکاوش، بحث و مناظرہ اور دلائل اس کٹ حجت شخص کے لئے ہیں جو داڑھی کاٹنے کی ضعیف موقوفات کوباوجود مطلع ہونے پر بھی ضعیف تسلیم نہیں کرتاجبکہ چشم کشا حقیقت تو یہ ہےکہ داڑھی پر ہاتھ ڈالنے یعنی اسے کاٹنے یا قطع وبرید کے موقف کی پوری عمارت ہی انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہےکیونکہ اس نظریے کی جو سب سے بڑی اور مضبوط دلیل سمجھی جاتی ہےوہ خود پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی یعنی ابن عمر کا ایک قبضہ داڑھی تراشنے کا فعل جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو معلق روایت کیا گیا ہے اور معلق ضعیف روایت ہی کی ایک قسم ہے۔زیلعی حنفی کہتے ہیں: امام بخاری نے اس روایت کو معلق روایت کیا ہے۔ (نصب الرایۃ: ۲/۴۵۷، بحوالہ داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، حاشیہ صفحہ 160)
صحابہ تو صحابہ تابعین کے بارے میں جو روایات بطور دلیل پیش کی جاتیں ہیں کہ وہ داڑھی کاٹتے تھے ان کی سند بھی صحیح نہیں۔چناچہ انہی دلائل کو دیکھتے ہوئے فاروق رفیع حفظہ اللہ نے تمام صحابہ و تابعین کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی داڑھی نہیں کاٹتا تھالہٰذا محترم موصوف لکھتے ہیں: یہ ہمارے موقف کی زبردست دلیل ہے کہ صحابہ و تابعین سمیت سبھی لوگ داڑھیاں نہ کٹوانے پر عامل تھےاور صحابہ وتابعین میں سے کوئی بھی داڑھی کاٹنے کا قائل و فاعل نہ تھا اور کسی بھی صحابی اور تابعی سے داڑھی کی زیادہ سے زیادہ مقدار ایک مشت ثابت نہیں۔ بلکہ تمام صحابہ کرام و تابعین عظام داڑھی کو اس کی اصل حالت پر باقی رکھنے اور کسی بھی مرحلے پر نہ کاٹنے کے قائل وفاعل تھے۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 168،169)
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
تیئس واں نظریہ:
بعض علماء نے ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر، ابن عباس اور جابر بن عبداللہ کے داڑھی کاٹنے کے فعل کو نبی کریم ﷺ کی مخالفت کی بنا پر ان کے گناہوں میں شمار کیا ہے اس فکر کے حامل انٹرنیشنل طباعتی ادارے دارالسلام لاہور کے ریسرچ اسکالر شیخ عبدالصمد رفیقی اورعبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ وغیرہ ہیں چناچہ شیخ عبدالصمد لکھتے ہیں: پہلی بات یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام یہ نہیں ہے کہ ان سے گناہ ہو ہی نا، بلکہ ان کامقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ معاف کردئیے ہیں۔ اور یہ ان سے گناہ ہواتھا، جیسا کہ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ نے اپنے مقالات میں انہیں گناہ شمار کیا ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 327،328)
عبداللہ بن عمر کے فعل کو ناقابل حجت اور ناقابل عمل ثابت کرنے کے بعد داڑھی کٹانے کے فعل کو جرم اور گناہ بتاتے ہوئے عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: نہ خط اور نہ لفافہ اور نہ کٹانااور نہ منڈواناکوئی چیز بھی شریعت میں ثابت نہیں۔ یہ جرم اور گناہ ہےحرام ہے، معصیت اور فرض کا ترک ہے۔(مقالات نورپوری، صفحہ 276، داڑھی ، صفحہ 32)
شیخ عبدالرحمٰن حماد رقمطراز ہیں: داڑھی کا جو مسئلہ ہے اس میں اس کو کاٹنا، کٹوانا، کتروانا اور مونڈنا میں ان تمام کاموں کو گناہ سمجھتا ہوں...... داڑھی کو معاف ہی کرنا چاہیے کاٹنا اور کتروانا نہیں چاہیے اور یہ گناہ ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ377)
اسی طرح مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ بھی رقمطراز ہیں: داڑھی کو اپنی طبعی اور اصل حالت پر رکھنا واجب اور اس کی تراش خراش کرنا گناہ ہے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 247)
زبیر بن خالد مرجالوی، عبداللہ بن عمر کے یک مشت داڑھی کاٹنے کے مختلف احتمالات ذکر کرتے ہوئے ایک احتمال یہ لکھتے ہیں: پانچواں احتمال یہ ہوسکتا ہے کہ داڑھی کٹوانے میں ابن عمررضی اللہ عنہ غلطی پر ہوں، لیکن ان کے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردئیے ہیں۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ108)
فاروق رفیع حفظہ اللہ رقم طراز ہیں: چھوٹی داڑھی اگر قدرتی اور فطرتی ہے تو درست ہے البتہ کٹوا کر یا کسی اور طریقہ سے اسے چھوٹی کرنا رسول اللہ ﷺ کے فرمان: اعفوا اللّحی کے منافی ہونے کی بنا پر ناجائز، گناہ اور حرام ہے۔ اگر کسی صحابی سے یہ چیز سرزد ہوئی تو یہ ان کی خطا ہے اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی تمام خطائیں معاف کردی ہیں۔ (داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، صفحہ 110)
راقم الحروف کے نزدیک یہ ایک انتہا پسندانہ سوچ و فکر ہے جوکہ نہ صرف غلط ہے بلکہ قابل اصلاح بھی ہےقرائن اور شواہد کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ پوری جماعت صحابہ میں کسی ایک صحابی نے بھی نبی ﷺ کے مطلق اور عام حکم اعفاء اللحیۃ کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس پر پورا پورا عمل کیاحتی کہ ان چار صحابہ نے بھی داڑھی کو ہمیشہ معاف کئے رکھاجن کے بارے میں یک مشت سےزائد داڑھی کاٹنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے جبکہ داڑھی کی تراش خراش حج و عمرہ کے موقع کی وجہ سے ایک خاص فعل قرار پاتاہے جو کہ اللہ کے رسول ﷺ کے داڑھی کے متعلق عام حکم کے خلاف نہیں ہے قطع نظر اس کے کہ یہ خاص فعل بھی صواب ہے یا خطا، شرعی قاعدہ کے مطابق خاص فعل عام فعل پر مقدم ہوتا ہے۔ بعض اوقات کوئی صحابی کسی دلیل یا اپنے اجتہاد کی بنا پر ایک فعل کرتا ہے جو بعض حالات میں کسی حکم نبوی کے خلاف معلوم ہوسکتا ہے لیکن صحابی نےاس فعل کو کرتے ہوئے کسی حکم شرعی کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ اس نے کسی اور وجہ سے اس فعل کو کیا تھا جو بالاتفاق کسی دینی حکم کے خلاف جا پڑااس لئے مخصوص کرکے کسی صحابی کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے فلاں حدیث کی مخالفت کی ہےکیونکہ حقیقت میں اس کی وجہ ہمارے ناقص فہم کے برعکس کوئی اور بھی ہوسکتی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے رفیق طاہر حفظہ اللہ کی تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی شخص جب ایک روایت بیان کرے اور اس حدیث کے خلاف انکا اپنا عمل ہو تو ایسی صورت میں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حدیث کے راوی نے جو عمل کیا ہے وہی اس حدیث کا صحیح فہم ہے۔ جبکہ ایسا نہیں! کیونکہ فہم نص الگ شے ہے اور عمل الگ شے ہے۔ اگر اسی قاعدہ کو درست مان لیا جائے کہ حدیث کے راوی کے قول و عمل کو بلا دلیل ہی اس روایت کا فہم مان لیا جائے جیسا کہ داڑھی والے مسئلے میں کیا جاتا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ داڑھی بڑھانے کے حکم نبوی والی روایت کے راوی ہیں اور ان سے داڑھی کاٹنا ثابت ہے، لہٰذا داڑھی بڑھانے کا مطلب اس حد تک بڑھانا ہے، تو اس سے بہت سی خرابیاں لازم آتی ہیں ۔ مثلاً:(داڑھی کی واجب مقدار،rafiqtahir.com)
اس کے بعد محمد رفیق طاہر نے بعض ایسے صحابہ کی امثال پیش کی ہیں جنہوں نے کسی شرعی حکم یا مسئلہ کو نبی کریم ﷺ سے روایت کیا اور خود اسکے خلاف عمل کیا یا فتویٰ دیا۔یہاں جن خرابیوں کی طرف رفیق طاہر نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہیں کہ اگر صحابہ کے،خلاف حدیث فتویٰ یا عمل کا اعتبار کیا جائے تو احادیث رسول ﷺ کو ترک کرنا پڑے گا جبکہ ہمیں حکم، نبی ﷺ کی اتباع کا دیا گیا ہے ناکہ صحابہ کی اتباع کا۔اس کے علاوہ اس سے صحابہ کے معصوم عن الخطاء ہونے کا نظریہ و عقیدہ پیدا ہوتا ہے جو کہ صرف اللہ کے انبیاء کا خاصہ ہے بہرکیف اس میں گوناگوں خرابیاں اور بگاڑ پنہاں ہیں لہٰذا ان خرابیوں سے بچنے کے لئے امت مسلمہ نے اس طرح کے ہر موقع اورمقام پر صحابہ کے فتویٰ یا عمل کو رد کرکے حدیث رسول ﷺ کو فوقیت ، اولیت اور ترجیح دی ہے۔محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و افعال کا معاملہ بھی ہے۔ کہ کبھی کسی صحابی سے کوئی قول یا عمل ثابت ہوتا ہے اور انکا وہ قول یا عمل کسی ضعیف روایت کے موافق آ جائے تو اس سے وہ ضعیف روایت صحیح نہیں بن جاتی ۔ الا کہ صحابی اپنے اس قول یا عمل پہ اس روایت کو بطور دلیل پیش کرے۔
بعینہ کسی صحابی کا قول یا عمل اسی موضوع کی کسی روایت یا آیت کی تشریح و توضیح قرار نہیں پائے گا جب تک اس صحابی سے اس آیت یا روایت کو دلیل بنانا ثابت نہ ہو۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ صحابی نے وہ عمل کسی اور دلیل کے پیش نظر کیا ہو۔
بالکل یہی معاملہ اس داڑھی والے مسئلہ میں بھی ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے واعفوا کا معنی ایک مشت تک چھوڑنا نہیں کیا۔ بلکہ جنہوں نے کٹوانے کا عمل کیا انہوں نے کسی اور وجہ سے کیا ۔
(داڑھی کی واجب مقدار،rafiqtahir.com)
یہ ثابت ہوجانے یا اس بات کا قوی احتمال یا امکان ہونے کی وجہ سے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر کا داڑھی تراشنے کا فعل مناسک حج کی وجہ سے تھا سوئے ظن رکھتے ہوئے اسے بلاوجہ داڑھی کی حدیث کی مخالفت کی بنا پر گناہ سمجھنا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے۔ اگر داڑھی کاٹنے کے فعل کو گناہ ہی قرار دینا ضروری ہے تو اس کا سب سے بہتر اور احسن طریقہ و انداز یہ ہے جسے احسان یوسف حسینوی حفظہ اللہ نے اختیار کیا ہے ، موصوف لکھتے ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ ہم ہر اس شخص کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ جو بھی ایک بالشت سے زائد داڑھی کٹاتا ہے وہ صریح غلطی پر ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 390)
شیخ احسان یوسف کی یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ جو صحابہ قطع الحیۃ کے مرتکب تھے ان کا فعل مناسک حج کی بنا پر تھا اسکے برعکس عام مسلمان نبی کریم ﷺ کے حکم ’’داڑھی بڑھاؤ ‘‘ سے بچنے کے لئے داڑھی کاٹتا ہےاگر یہ بھی صحیح معنوں میں ان صحابہ کی پیروی کرنے والا ہوتا تو یہ بھی انہیں کی طرف صرف حج یا عمرے کے موقع پر اپنی داڑھی کی قطع برید کرتا۔پس جب ایک عمل کے محرکات علیحدہ ہیں تو ان کا حکم بھی علیحدہ ہوگا صحابہ اپنے اجتہاد کی بنا پر عنداللہ ماجور ہوں گے جبکہ اندھےاور بہرے بن کر صحابہ کی تقلید کرنے والے لائق سزا ہوں گے۔

چوبیسواں نظریہ:
جو لوگ لمبی داڑھی سے خائف ہیں وہ اس مسئلہ کو عجیب نظریات کی عینک سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں چناچہ اعفاء اللحیۃ کا مذاق اڑاتے ہوئے بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ جس شخص کی داڑھی آتی ہی نہ ہو یاقدرتی طور پر بہت چھوٹی ہو تو وہ داڑھی بڑھاؤ کے حکم پر کیسے عمل کرے گا؟ ان کے نزدیک الفاظ حدیث کا اطلاق ہر شخص پر ہونا ضروری ہے اور اگر کسی وجہ سے اس اطلاق میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حدیث کے ان الفاظ کا مطلب یا مفہوم ہی درست بیان نہیں کیا گیا پس چونکہ داڑھی کو معاف کرو، لٹکاؤ ، لمباکرو پر ایک ایسا شخص عمل ہی نہیں کرسکتا جو داڑھی سے محروم ہو یا جس کے چہرے پر برائے نام ہی داڑھی آتی ہواس کا مطلب یہ ہے کہ احادیث کا مقصود داڑھی کو لمباکرنا یا معاف کردینا نہیں ہے کیونکہ ذکر کردہ شخص اس پر عمل کرنے سے پوری طرح عاجز اور قاصر ہے۔
یہ بہانہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہے اور اس اعتراض کے قیام کی مدد سےبہت سے شرعی احکامات پر ہاتھ صاف کرکےبڑی آسانی سے انہیں ناقابل عمل ٹھہرایا جاسکتا ہے جیسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر233 میں اللہ رب العالمین نے ماؤ ں کو دو سال تک بچے کو دودھ پلانے کا حکم دیا ہےلیکن بہت سی خواتین ایسی ہیں جن کے پستانوں میں بچے کی پیدائش کے بعد دودھ ہی پیدانہیں ہوتاتو کیا اس وجہ سے کہ بعض مائیں بچوں کو دودھ ہی نہیں پلاسکتیں قرآن کے اس حکم کا انکار کردیا جائے یایہ کہا جائے کہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر درست بیان نہیں کی؟ یا پھراس آیت میں تاویل کرکے اسے نئے معنی دئیے جائیں؟وَعَلیٰ ہٰذا الْقِیاس
معترضین یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ جب نبی ﷺ سے داڑھی منڈوں کا ذکر کیا گیا تو نبی کریم ﷺ نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا چناچہ داڑھی منڈے کے مقابلے میں داڑھی کو تھوڑا سا بڑھانے سے بھی حکم نبی کی تعمیل اور کفار کی مخالفت ممکن ہوجاتی ہے پھر لمبی داڑھی ضرورت ہی کیا ہے!
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تو طے ہے کہ کفار بھی داڑھیاں رکھتے تھے لیکن ان کی داڑھیاں چھوٹی ہوتی تھیں جبکہ داڑھی مونڈنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی یہی وجہ ہے کہ جب بھی داڑھی کےمسئلہ میں نبی کریم ﷺ نے کفار کی مخالفت کا حکم دیا تو ’’داڑھی بڑھاؤ یا داڑھی کو لمبا کرو‘‘ کے الفاظ سے دیا۔ اگر تمام کافر داڑھے منڈے ہوتے تو ان کی مخالفت چھوٹی داڑھی سے بھی ہوجاتی ہے لیکن داڑھی بڑھاؤ کا حکم بتاتا ہے کہ کافراکثر چھوٹی داڑھی رکھتے تھےاور ان کی مخالفت صرف لمبی داڑھی ہی سے ممکن ہے لہٰذا ایک مشت یا ایک مشت سے کم داڑھی سے کافروں کی مخالفت کے حکم کی تعمیل نہیں کی جاسکتی۔ اس بات کو اس انداز سےبھی سمجھا جاسکتا ہے کہ لمبی داڑھی سے داڑھی منڈوں اور چھوٹی داڑھی والے دونوں طرح کے افراد کی مخالفت ہوجاتی ہےجبکہ اگرصرف داڑھی منڈے کی مخالفت کرنی ہوتو وہ چھوٹی داڑھی سے بھی ممکن ہے لیکن دقت اور پریشانی یہ ہے کہ مسلمان کو نہ صرف داڑھی منڈے کی مخالفت کرنی ہے بلکہ مختصراور چھوٹی داڑھی والوں سے بھی اپنا ایک الگ امتیاز قائم کرنا ہےجو صرف لمبی داڑھی کا تقاضا کرتا ہے۔
اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشت داڑھی شریعت کا منشا نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان مرد سے یہی مطلوب ومقصود ہے کہ وہ لمبی داڑھی والا ہو ،تاکہ ایک طرف تو اس مسئلہ میں کفار کی کامل مخالفت ہو سکے اور دوسری طرف حکم نبوی ﷺ پر پورا پورا عمل کیا جاسکے جو ایک مشت داڑھی سے پورا نہیں ہوسکتالیکن اگر قدرتی طور پر ہی کسی مرد کی داڑھی چھوٹی ہو تو وہ معذور ہے۔ جیسے تاتاری نسل کے لوگ ہیں کہ ان کے چہروں پر دوسرے مردوں کے مقابلے بہت کم بال اگتے ہیں اوراسی لئے نہ تو ان کی داڑھیاں گھنی ہوتی ہیں اور نہ ہی لمبی ۔ویکی پیڈیا میں لکھا ہے: چین، جاپان، کوریا، ملایا، ہند چینی، برما، تبت، نیپال اور وہ تمام علاقہ جس میں منگول نسل کے لوگ بستے ہیں وہ قدرتی طور پر داڑھی سے محروم ہیں، چنانچہ ان ممالک میں داڑھی کی بحث پیدا نہیں ہوتی۔(ur.wikipedia.org/wiki)
اب ایسےمعذور مردوں کی وجہ سےداڑھی بڑھانے کا شرعی حکم تو نہیں بدل سکتا اور نہ ہی اسے اپنی پسند کےکوئی الگ معنی و مفہوم دیئےجاسکتے ہیں اور ویسے بھی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی ایسی چیز کا مکلف نہیں بنایا جو ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہوچناچہ ایسے ذکر کردہ افراد داڑھی بڑھاؤ کے حکم پر اس طرح عمل کریں گے کہ وہ داڑھی کو بڑھنے کے لئے چھوڑ دیں گے پھر وہ جتنی بھی بڑھے چاہے انتہائی کم یا پھر زیادہ۔چونکہ داڑھی کی کوئی مخصوص لمبائی اسلام میں بیان نہیں کی گئی جسے حاصل کرنے کے لئے داڑھی کو ایک خاص حد تک بڑھانا ضروری ہو اس لئےیہ اعتراض بہت ہی بھونڈا ہے کہ جس کی داڑھی نہ ہو وہ داڑھی کیسے بڑھائے گا۔ بس وہ داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دے گا چاہے وہ ایک یا آدھا انچ تک ہی بڑھےیا چہرے پر چار پانچ ہی بال ہوں ان میں تصرف نہیں کرے گایا پھر چہرے پربال ہی نہ ہوں ویسے حقیقت میںایسا کوئی مرد نہیں ہوتا جس کا چہرہ بالوں سے بالکل ہی بے نیاز ہو کیونکہ چہرے پر کچھ نہ کچھ بال ضرور ہوتے ہیں اور انہیں بالوں کو داڑھی کے نام پر معاف کرنا ہے تاکہ شرعی حکم کی بجاآوری ہوسکے۔
اگر داڑھی سے متعلق احادیث پر تھوڑا غوروفکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہےکفار اور مسلمانوں میں مقابلہ لمبی اور چھوٹی داڑھی کا نہیں ہےبلکہ کٹوانے اور نہ کٹوانے کا ہے کفار داڑھیاں کاٹتے تھے اس لئے ان کی مخالفت داڑھی نہ کاٹ کر ہی ہوسکتی ہےاسی لئے نبی ﷺ نے اپنی امت کو داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور داڑھی بڑھانے کے اصل معنی داڑھی نہ کٹوانا ہے کیونکہ اگر کوئی داڑھی نہیں کٹوائے گا تو داڑھی بڑھے گی، لٹکے گی، لمبی ہوگی اور نہ صرف اپنے حال پر آجائے گی بلکہ اپنی قدرتی طوالت تک بھی پہنچ جائے گی اور احادیث میں داڑھی کے متعلق جتنے بھی الفاظ آتے ہیں داڑھی نہ کٹوانے سے ان سب پر بیک وقت عمل ہوجائے گا۔ پس اس طرح مخالفین کا یہ اعتراض بھی اپنی موت آپ مرجاتا ہے کہ جس کی داڑھی قدرتاً چھوٹی ہے وہ داڑھی بڑھاؤ پر عمل یا کافروں کی مخالفت کیونکر کرے گا۔ عرض ہے کہ جس کی داڑھی چھوٹی یا برائے نام ہے جب وہ داڑھی کو نہیں کاٹے گا تو نہ صرف حدیث میں بیان کئے گئے حکم کی کامل تعمیل کرنے والا ہوگا اور کفار کی مخالفت کا بھی حق ادا کرنے والا ہوگا کیونکہ کافر اور اس میں بنیادی امتیاز یہ ہوگا کہ کافر داڑھی کاٹتا ہے جب کہ وہ داڑھی نہیں کاٹتا پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ داڑھی کاٹنے والے منکر و کافر کی داڑھی اس مسلمان شخص کی داڑھی سے لمبی ہو جس نے کبھی داڑھی نہیں کاٹی۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
پچیسواں نظریہ:
’’عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اوردیگر تین صحابہ یقیناً کسی ایسی حدیث کے بارے میں علم رکھتے تھے جس کی بنیاد پر وہ داڑھی کاٹتے تھے ‘‘
یہ تصوراتی اورفرضی نظریہ حافظ عمران الہٰی صاحب اور ان کے متاثرین کا ہے۔ اس نظریے کو بیان کرتے ہوئے حافظ عمران لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے جب ’’اعفاء اللحیۃ‘‘ (وغیرہ) کا امر فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں گفتگو کی (کہ زیادہ بھاری لمبی داڑھی میں تکلیف ہوتی ہے) تو آپ نے فرمایا: داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جو زائد بال ہوں ان کے کٹانے کا اختیار ہے، شاید ابن عمررضی اللہ عنہ کو (اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو) یہ حدیث پہنچی ہوگی، اسی بنا پر وہ مٹھی سے زائد کٹاتے تھے، ورنہ ’’اعفاء اللحیۃ‘‘ (وغیرہ)کی حدیث اس (کٹانے) سے روکتی ہے تو عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ(اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف عمل کس طرح کرسکتے تھے، حالانکہ وہ بڑے محتاط بڑے پرہیزگار اور متبع سنت تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کو مٹھی سے زائد کٹانے کی حدیث کا علم تھا۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 197)
سب سے پہلے تو اس خود ساختہ نظریے کو پیش کرنے والے یہ بتائیں کہ اگر سیدنا عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے علم میں داڑھی کاٹنے کی حدیث تھی تو انہوں نے اسے بیان کیوں نہیں کیا اور کیوں اس شرعی علم کو خود تک ہی محدود رکھا؟ حالانکہ اس حدیث کی امت کو بہت ضرورت تھی کیونکہ اس میں ایک اختلافی مسئلہ کا حل موجود تھا۔دوسری جانب رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ میری جانب سے پہنچادو اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔کیا قطع اللحیۃ کی حدیث کو چھپا کریہ صحابہ کتمان حق کے مرتکب ہوئے؟
اگر عمران الہٰی صاحب کی یہ گھڑی ہوئی کہانی صحابہ تک ہی محدود رہتی تو خیر تھی لیکن اس کہانی کی قباحت اور شناعت یہ ہے کہ اس میں داڑھی کاٹنے کی اجازت کو نبی کریم ﷺ کی جانب کھلم کھلا منسوب کیا گیا ہےجبکہ اس کا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ نبی مکرم ﷺ پرسیدھا سیدھا جھوٹ باندھنا بنتا ہے۔نبی ﷺ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کی سزا ایک عام مسلمان کو بھی معلوم ہے کہ کتنی بھیانک ہےتو کیا یہ نام نہاد علماء اس سے بے خبر ہیں؟
صحابی رسول ﷺ کی جانب سے داڑھی کاٹنے کی وضاحت پیش کرنے کا یا اسکی علت اور وجہ بیان کرنے کا اگر کوئی مناسب ترین موقع ہوسکتا تھا تووہ یہ تھا:
مروان بن سالم المقنع فرماتے ہیں: میں نے (عبداللہ) ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے، وہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے اور جو ہتھیلی سے زیادہ ہوتی اس کو کاٹ دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: رسول اللہ ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا مانگا کرتے تھے: ’’ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ‘‘ پیاس ختم ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں اور اجر ثابت ہوگیا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔ (المستدرک(مترجم)، کتاب الصّوم،جلد دوم، صفحہ 80)
دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی مناسب موقع و محل ہے جہاں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ داڑھی کاٹنے کی علت بیان کرسکتے تھےاورامت کو بتا سکتے تھے کہ یہ ان کا کوئی ذاتی اجتہاد نہیں بلکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا تھایا پھر رسول اللہ ﷺ نے ایسا کوئی حکم ، اجازت یا رعایت دی تھی یا رسول اللہ ﷺ کی یہی مرضی ومنشا تھی جسے وہ اپنے عمل کے ذریعہ پورا کررہے ہیں۔ لیکن جب عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ داڑھی کاٹتے وقت بھی اپنے اس عمل کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دے رہے بلکہ یہ بتا رہے ہیں کہ روزے کے وقت کون سی دعا پڑھنا مسنون ہے تو بات صاف ہے کہ ان کے پاس یا ان کے علم میں ایسا کوئی فرمان نبوی ﷺ نہیں تھا جس کو وہ داڑھی کاٹنے کی بنیاد بناتے۔ اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عبداللہ بن عمر کو خود تو حدیث کا علم تھا لیکن انہوں نے اس علم کو آگے منتقل نہیں کیا تو یہ ابن عمررضی اللہ عنہ پر کتمان حق کا بہتان ہے جس کا عذاب بہت شدید ہے لہٰذا ایسی سوچ رکھنے والے کو توبہ کرنی چاہیےاور صحابی رسول کے داڑھی تراشنے کے فعل کی اپنی جانب سے غیرمنطقی، عجیب و غریب اور گستاخانہ توجیہات پیش کرنے سے پرہیز کرناچاہیے اور اس خوش فہمی کو دور کرلینا چاہیے کہ داڑھی کٹوانے والے صحابہ کے پاس اپنے اس عمل کے جواز کے لئے کوئی صاف اور صریح مرفوع روایت موجودتھی۔
اس نظریے کے رد کے لئے راقم السطور قاری کو مندرجہ ذیل حدیث پربھی غوروفکر کی دعوت دیتا ہے:
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ: ’’ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمًا، فَقَمِلَ رَأْسُهُ وَلِحْيَتُهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَدَعَا الْحَلَّاقَ فَحَلَقَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ:" هَلْ عِنْدَكَ نُسُكٌ؟"، قَالَ: مَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ،" فَأَمَرَهُ أَنْ يَصُومَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ يُطْعِمَ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، لِكُلِّ مِسْكِينَيْنِ صَاعٌ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ خَاصَّةً فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ سورة البقرة آية 196 ثُمَّ كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً‘‘ وہ احرا م باندھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ان کے سر اور داڑھی میں (کثرت سے) جو ئیں پڑ گئیں۔اس کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے انھیں بلا بھیجا اور حجام کو بلا کر ان کا سر مونڈ دیا پھر ان سے پو چھا: کیا تمھا رے پاس کوئی قربانی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: (اے اللہ کے رسول) میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا آپ نے انھیں حکم دیا: تین دن کے روزے رکھ لو یا چھ مسکینوں کو کھا نا مہیا کر دو، ہردو مسکینو ں کے لیے ایک صا ع ہو۔ اللہ عزوجل نے خاص ان کے بارے میں یہ آیت نازل فر ما ئی: جو شخص تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو، اس کے بعد یہ (اجازت) عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الحج)
یہ حدیث بہت قابل غور ہے اس میں بہت سے قیمتی نقاط پوشیدہ ہیں جیسے کہ کعب بن عجرہ کے سر اور داڑھی دونوں میں بے تحاشا جوئیں تھیں جو کہ ظاہر ہے کہ بہت تکلیف دہ تھیں اس کے علاج کے لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ان کا سرتومنڈوا دیا لیکن داڑھی کو نہیں ترشوایا حالانکہ داڑھی کو ایک قبضہ تک بھی کٹوادیا جاتا تو مرض میں کافی افاقہ ہوتا اور بڑی حد تک جوؤ ں سے نجات حاصل ہوجاتی۔ اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ صحابہ کے درمیان داڑھی کاٹنے کا کوئی تصورموجود نہیں تھا حتی کہ بیماری کی حالت میں بھی نبی ﷺ نے داڑھی کو کاٹنے کی اجازت نہیں دی۔اس حدیث پر امام مسلم رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے وہ بھی توجہ کے لائق ہے:
’’باب جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ لِلْمُحْرِمِ إِذَا كَانَ بِهِ أَذًى وَوُجُوبِ الْفِدْيَةِ لِحَلْقِهِ وَبَيَانِ قَدْرِهَا‘‘ باب: تکلیف لاحق ہونے کی صورت میں محرم کو سر منڈانے کی اجازت اور اس پر فدیہ کا بیان
چونکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سمیت باقی چار صحابہ بھی حج ہی کے موقع پر داڑھیاں کاٹتے تھے اس لئے اس کی رعایت کرتے ہوئے یا ان صحابہ کے عمل کو صحیح سمجھتے ہوئے امام مسلم مذکورہ باب کے بجائے ’’تکلیف لاحق ہونے کی صورت میں محرم کو سرمنڈانے اور داڑھی ترشوانے کی اجازت‘‘ کا باب بھی قائم کرسکتے تھے اور اسکے ثبوت کے لئے اس حدیث کے ساتھ صحابہ کی موقوف روایت بھی ذکر کی جاسکتی تھی جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کیا کہ داڑھی کی حدیث ذکر کرکے ساتھ ہی یہ بھی بیان کردیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کاٹتے تھےیا کم ازکم شارحین حدیث ایسے مریض کے لئے مذکورہ روایت کے تحت سر منڈانے کے ساتھ ایک مشت تک داڑھی کاٹنے کا جواز بھی نقل کرسکتے تھےکیونکہ ان کے سامنے عبداللہ بن عمر اور دیگرکا فعل موجود تھا لیکن ایسا نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ گویا محدثین نے بھی حدیث سےیہی سمجھا ہے کہ ایک مسلمان مرد کو کسی بھی صورت ،یہاں تک کہ تکلیف اور بیماری میں بھی داڑھی کو قینچی لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا اختیار صرف سر تک ہے داڑھی اس کےشرعی اختیاراور تصرف سے باہر ہے اور اس کو معاف کردینا ہی نبی ﷺ کا اصلی حکم ہے۔
پس اس حدیث سے بعض ان علماء کاخیال بھی خام خیال ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا داڑھی کتروانے کا فعل ان کے اجتہاد کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ان کے پاس اسکی یقیناً کوئی نہ کوئی دلیل یا حدیث تھی۔ عرض ہے کہ اگر کسی کو داڑھی کاٹنے کی کوئی شدید سے شدید ضرورت درپیش ہوسکتی ہے تو وہ بیماری ہے،تو جب شدید مرض میں بھی اپنے صحابی کوداڑھی تراشنے یا کاٹنے کی اجازت نبی ﷺ نے مرحمت نہیں فرمائی توپھر اس کے بعد اور کون سی صورت ہوسکتی ہے جس میں ایک مشت تک داڑھی کاٹنے کی اجازت ہوتی؟!اس سے یقینی طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ عبداللہ بن عمریا ان کے ہمنوا دوسرے صحابہ کے پاس بھی اپنے اس فعل کے لئے کوئی حدیث نہیں تھی بلکہ ان کا عمل خالص ان کا ذاتی اجتہاد تھا۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ایک مشت داڑھی اور حافظ عمران الہٰی:
ایک مشت سے زائد داڑھی تراشنے کے جائز ہونے کا موقف و نظریہ بالکل بھی کوئی اچھوتا یا نیا نظریہ نہیں ہے بلکہ زمانہ قدیم ہی سے اس مسئلہ میں اختلاف چلا آتا ہے۔ مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ اس بابت لکھتے ہیں: ذہن میں رہے کہ یہ مسئلہ بھی دیگر مختلف فیہ مسائل کی طرح ہے۔ اس میں بھی ہردور میں علماء کا اختلاف رہا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی اور امت کا اجماعی مسئلہ نہیں کہ جس میں دوسری رائے کی گنجائش نہ ہو۔ گنجائش تھی اور موجود ہے لیکن اس کا اصل حل کتاب وسنت کی طرف رجوع ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 248)
لیکن اس سلسلے میں حافظ عمران الہٰی کا موقف ضرور انوکھا اور قابل مذمت ہے اپنے ہم خیال دوسرے علماء کے برعکس حافظ عمران نے اس مسئلہ میں بہت غلو اور نا انصافی سے کام لیا ہےاور اپنا نظریہ ثابت کرنے کے لئے ہر وہ اوچھا ہتھکنڈہ اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کیا ہے جو صرف اہل باطل کے شایان شان ہے۔ داڑھی کاٹنے کے حق میں حافظ صاحب نے گمراہی کا جو باب کھولا ہے مستقبل میں اس سے گزرنے والوں کے موصوف سرخیل اور پیشوا ہوں گے۔ حافظ صاحب نے ثبوت مسئلہ کے لئے جو انداز اختیار کیا ہے وہ باطل پرستوں کا دستور اور چلن ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں حافظ عمران الہٰی نے گمراہوں کے اس طریق کو اہل حق کی صفوں میں متعارف کروا کر بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہےجس پر وہ بجا طور پر لائق مذمت اور قابل طعن ہیں۔نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حافظ عمران الہٰی کے غلط موقف کی گرفت کی جائےاور ان کی چالاکیوں اور فریب کاریوں کا پردہ چاک کیا جائے،تو پیش خدمت ہے:

حافظ عمران الہٰی صاحب کے عجیب وغریب افکار و نظریات کا تعاقب:
جب کسی شرعی اور دینی مسئلہ کو کوئی دلائل کے بجائے ذاتی انا کی عینک سے دیکھنا شروع کردے اورصرف اپنی رائے کے صحیح اور اسلم ہونے کی ضد پکڑلے تو پھر اس سے ایسا کچھ سرزد ہوتا ہے جو کہ اسے مستحق تنقید و مذمت بنادیتا ہےاور اس کی حالت کچھ اس شعر میں بیان کردہ حالت جیسی ہوجاتی ہے
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی​
حافظ عمران الہٰی صاحب بھی اس حالت سے دوچار ہیں موصوف نے ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانے کے مسئلہ کو کچھ ایسا سر پر سوار کیا کہ ان کے حواسوں نے کام کرنا چھوڑ دیااور انہوں نے انتہائی بے باکی اور جرات سے نبی کریم ﷺ کے داڑھی بڑھانے کے حکم پر عمل کو بدعت اور چار صحابہ کے داڑھی کاٹنے کے انفرادی فعل کو سنت قرار دے دیاچناچہ حافظ عمران ایک فقہی اصول بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’اگر سلف کے دور میں کسی نص کے عموم پر عمل نہ ہوا تو اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں بلکہ بدعت ہے۔‘‘(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 223)
نص کے عموم پر عمل سے مراد داڑھی بڑھائو کے عموم پر عمل یعنی داڑھی کوایک مشت سے زیادہ بڑھنے دینا یا اس کے حال پر چھوڑ دینا ہے۔ حافظ عمران الٰہی کی دانست میں چونکہ پورے دور سلف میں کسی ایک صحابی، تابعی اور تبع تابعی نے بھی داڑھی کو معاف نہیں کیا اس لئے اللہ کے رسول ﷺ کے حکم داڑھی بڑھاؤ کے عموم پر عمل کرتے ہوئےداڑھی کو بڑھنے دینا حرام ،ناجائز اور بدعت ہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون!
حافظ عمران الہٰی اپنے موقف کی محبت میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ انہوں نے نبیﷺ کے ساتھیوں کے بارے میں یہ مکذبانہ دعویٰ کردیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری کی پوری جماعت داڑھی کٹواتی تھی اور ان میں سے کوئی بھی نبی کریم ﷺ کے فرمان داڑھی بڑھاؤ کے ظاہری حکم پر عمل نہیں کرتا تھاحتی کہ اس پر اجماع کا جھوٹا دعویٰ کرکے اپنی بدبختی میں مزید اضافہ کیا ۔ موصوف رقمطراز ہیں: تابعین نے ان آثار میں تمام صحابہ سے مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کو نقل کیا ہے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ189) پھر مزید لکھتے ہیں: میرا تویہ دعویٰ ہے کہ یک مشت سے زائد داڑھی کٹانے کے جواز پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ197)
تابعین اور صحابہ تو ایک طرف رہے حافظ عمران الہٰی صاحب نے چار صحابہ کے داڑھی کاٹنے کے فعل کو نبی ﷺ کا حکم اور اجازت بتا کر بے شرمی کی ہر حد پارکرلی اپنی بات منوانے کے لئے موصوف نے رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام، تابعین کرام سب پر بیک جنبش قلم جھوٹ لکھا اوربولا ہے۔ ذخیرہ روایات میں انہیں کوئی بھی ایسی روایت نظر نہیں آئی جس سے کسی ایک صحابی کے بھی داڑھی کو اس کی طبعی حالت پرچھوڑ دینے کا ذکر ہو ۔ نجانے یہ قلت علم ہے یا تجاہل عارفانہ یا پھر تعصب اور ضدی پن!
حافظ عمران الہٰی نے اپنے نظریات کی عمارت کی بنیاد دو طرح کے دلائل پر رکھی ہے:
اوّل: ضعیف روایات
دوم: ضعیف روایات
اوّل اور دوم ضعیف روایات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کچھ روایات کی کمزوری کا اعتراف انہوں نے بقلم خود کیا ہےیعنی ضعیف روایات کو ضعیف کہہ کرہی پیش کیا ہے اور باقی پیش کردہ روایات کا حال یہ ہے کہ اصل میں وہ بھی ضعیف ہیں لیکن موصوف نے ان کے ضعف کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اسے پوشیدہ رکھا ہے اور انہیں کمزور بنیادوں پر اپنے موقف اور دعویٰ کی عمارت تعمیر کر کے لوگوں کو مبتلائے دھوکہ کیا ہے۔ اس بابت محمد ابراہیم ربانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: حافظ عمران صاحب نے اپنے مؤقف کے حق میں جوآثار نقل کئے ہیں ان میں سے اکثر بلحاظ سند ثابت ہی نہیں بلکہ بعض تو بے سند ہیں۔( ماہنامہ مجلہ دعوت اہل حدیث، شمارہ اپریل 2017)
اس لئے حافظ عمران الہٰی کے موقف کو موقف نہیں بلکہ ضد کہنا مناسب ہے انہوں نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ایمانداری اور سچ کو طاق پر رکھ کر جھوٹ، فریب اور دھوکے کا سہارا لیاہے۔مثال کے طور پر حافظ عمران الہٰی صاحب نے کئی مقامات پر مرسل روایات کو بطور دلیل پیش کرکے آنکھوں میں دھول جھونکی ہے کیونکہ موصوف اہل حدیث ہونے کے دعویدار ہیں جبکہ جماعت اہل حدیث کا مسلک مرسل کے ضعیف ہونے کا ہے۔حافظ عمران الہٰی مرسل کے ساتھ ’’صحیح‘‘ اور ’’بسند صحیح‘‘کا اضافہ کرکےضعیف حدیث پر صحیح حدیث کا مغالطہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کے بارے میں صحیح مرسل حدیث: امام ابودائود نے جلیل القدر تابعی جناب مجاہد بن جبر سے بسند صحیح ایک مرسل حدیث اس طرح بیان کی ہے: ’’حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا مروان یعنی ابن معاویہ، عن عثمان بن الاسود، سمع مجاھدًا، یقول رای النبی ﷺ رجلاً طویل اللحیۃ فقال لم یشوہ احدکم نفسہ؟‘‘ ’’عثمان بن اسود سے مروی ہے کہ اس نے مجاہد بن جبر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک لمبی داڑھی والے آدمی کو دیکھ کر اسے کہا: تم جان بوجھ کر اپنا چہرہ کیوں بگاڑتے ہو؟‘‘ ۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 189،190)
حافظ عمران الہٰی نے اپنی تحریر میں اسی ضعیف حدیث کو ایک مرتبہ پھر پیش کیا ہےاور اس سے ’’بہت زیادہ لمبی داڑھی کو کاٹنے کا استحباب‘‘ کے مسئلہ پر استدلال کیا ہے، ملاحظہ ہو:( یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ237)
اپنے مسلکی اصول اور قاعدے کے برخلاف حافظ عمران صاحب مرسل حدیث کے حمایتی اور علمبردار اس لئے بن گئے کہ اس سے ان کا موقف ثابت ہوتا ہے ۔ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ مرسل حدیث کی حجیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: جمہور محدثین کے نزدیک تابعی کی مرسل روایت ہر لحاظ سے مردود ہے۔ امام مسلم بن الحجاج النیسابوری (متوفی۲۶۱ھ)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’والمرسل من الروایات فی اصل قولنا وقول اھل العلم بالاخبار لیس بحجۃ‘‘ ہمارے (محدثین)کے اصل قول اور (دوسرے) علماءکے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہے۔ (مقدمہ صحیح مسلم......حافظ ابوالفضل عبدالرحیم بن الحسین العراقی (متوفی۸۰۶ھ)رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وردہ جماھیرالنقاد للجھل بالساقط فی الاسناد‘‘ اور مرسل کو جمہورناقدین (محدثین)نے رد کردیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سند میں سے ساقط شدہ واسطہ مجہول ہوتا ہے ......(فتاویٰ علمیہ المعروف تو ضیح الاحکام، جلد دوم، صفحہ 290)
حافظ عمران صاحب کی ایک اور فنکاری ملاحظہ فرمائیں،موصوف اپنے موقف کو تقویت دینے کے لئے ایک موقوف روایت پیش کرکے لکھتے ہیں: یہ اثر ابوہلال راسبی میں ہلکا سا ضعف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ182)
لیکن ساتھ ہی اس اثر کے ضعف پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک بہانہ گھڑتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ اثر ابوہلال راسبی میں ہلکا سا ضعف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دیگر صحابہ کے آثار اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہیں۔ (ایضاً)
یہاں راقم الحروف عرض کرتاہے کہ ایک صحیح موقوف روایت، ضعیف موقوف روایت کے لئے شاہد نہیں بن سکتی کیونکہ دویا دو سے زائد صحابہ کے بظاہر ایک جیسے نظر آنے افعال ان کے ذاتی نظریات اورمختلف وجوہات کی وجہ سے ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوسکتے ہیں جبکہ شاہد بننے کے لئے ان میں مکمل مماثلت ضروری ہے۔ ہاں البتہ ایک ہی شخصیت کی ایک مسئلہ میں ضعیف اور صحیح روایت ضرورایک دوسرے کے لئے شاہد کاکام دے سکتی ہے یہی سبب ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کے لئے صحابی کی موقوف روایت شاہد نہیں بن سکتی صرف ضعیف حدیث کے لئے صحیح حدیث ہی شاہد بن سکتی ہے۔واللہ اعلم بالصواب
آگے چل کر حافظ عمران الہٰی نے پھر یہی چال چلی کہ اپنی پیش کردہ روایت کو ضعیف تسلیم کرنے کے باوجودحیلے بہانے سے اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ، دیکھئے موصوف رقمطراز ہیں: زمعہ بن صالح یمانی کی وجہ سے اس اثر کی سند کمزور ہے، لیکن اس کی سندکی صحت کے لیے ہم ان آثار کو معنوی شاہد بنالیتے ہیں جن میں تابعین عظام نے مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کے عمل کو تمام صحابہ کرام کی طرف منسوب کیا ہے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ183)
حافظ صاحب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک بے سند قول جس میں عمررضی اللہ عنہ ناتراش داڑھی والے کو درندے سے تشبیہ دیتے ہیں پیش کرکےلکھتے ہیں: حافظ ابن حجر نے امام طبری کے بارے میں جو الفاظ نقل کیے ہیں ان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس اثر کی سند بھی موجود ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں: ’’ثم ساق بسندہ الی عمر انہ فعل ذلک برجل‘‘ پھر امام ابن جریر طبری نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تک اپنی سند بیان کی ہے کہ انھوں نے کسی آدمی کی مشت سے زائد داڑھی کاٹ دی تھی۔ اور حافظ ابن حجر بالعموم جس حدیث کی سند پر سکوت اختیار کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہوتی ہے، لہٰذا یہ اثر ان کے نزدیک کم ازکم حسن درجے کا تو ہوگا۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ184)
اس پر بھی جب حافظ عمران الہٰی کی تسلی نہ ہوئی تو دبے لفظوں میں اس روایت کی کمزوری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا: بفرض محال اگر یہ اثر بھی کمزور ہے تو اس کی سند کی صحت کے لیے ہم ان آثار کو معنوی شاہد بنا لیتے ہیں جن میں تابعین عظام نے مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کے عمل کو تمام صحابہ کرام کی طرف منسوب کیا ہے۔(ایضاً)
یاد رہے کہ صرف یہاں نہیں بلکہ ہر جگہ حافظ عمران صاحب نے ضعیف ومردود آثار کے ضعف اور کمزوری کو دور کرنے کے لئے تابعین کے غیرمتعلق ا قوال کو اصول بناکر تماشہ اورشعبدہ دکھایا ہے، دیکھئے موصوف اس بحث کے اختتام میں لکھتے ہیں: اسی طرح وہ آثار صحابہ جن کی سند کمزور ہے، اس اصول کی وجہ سے درست قرار پاتے ہیں، کیونکہ تابعین نے ان آثار میں تمام صحابہ سے مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کو نقل کیا ہے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ189)
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کی ہےتابعی کا قول اوراس کی رائے کسی صورت صحابی کے فعل کے لئےشاہد نہیں بن سکتی۔ یہ عجیب و غریب قاعدہ، نظریہ ضرورت کے تحت حافظ عمران الہٰی صاحب نے از خود ایجاد کیا ہےجو اسکے باطل ہونے کی دلیل ہے اور دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ حافظ عمران صاحب تابعین کے جس قول پر تکیہ کئے ہوئے ہیں انہوں نےنہ صرف اس کاترجمہ غلط کیا ہے بلکہ اس کا مفہوم بھی خلاف واقعہ بیان کیا ہے۔ حافظ عمران الہٰی رقمطراز ہیں: ’’عن منصور قال سمعت عطاء بن ابی رباح، قال کانوا یحبون ان یعفوا اللحیۃ الافی حج اوعمرۃ‘‘ تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح (وفات ۱۱۴ھ) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام وتابعین عظام)حج و عمرےکے موقع پر اپنی مشت سے زائد داڑھیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے...... محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں: ’’عن الحسن، قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ ان یوخذ منھا‘‘ جناب حسن بصری سے مروی ہے کہ وہ (صحابہ و تابعین) مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کی رخصت دیتے تھے...... محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابعی جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی سے بیان کرتے ہیں: ’’کانو یاخذون من جوانبھا، و ینظفونھا یعنی اللحیۃ‘‘ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) داڑھی کے اطراف سے (مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اسے صاف ستھرا رکھتے تھے۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 184تا186)
ابراہیم نخعی سے بیان کردہ یہ آخرالذکر روایت تو حافظ عمران الہٰی کی دلیل ویسے ہی نہیں بنتی کیونکہ اس میں داڑھی کے اطراف سے بال لینے کا ذکر ہے اور اطراف کا مطلب آس پاس اور اردگرد ہے جو داڑھی کو لمبائی کے بجائے چوڑائی میں کاٹنےکا معنی دیتا ہےجبکہ حافظ عمران کا موقف داڑھی کو لمبائی میں کاٹنے کا ہے۔ حافظ موصوف کا بریکٹ میں ’’مشت سے زائد‘‘ الفاظ بڑھا کرزبردستی چوڑائی کو لمبائی میں بدلنے کی سعی کرنا ان کی بددیانتی اور خیانت ہے۔ اس کے علاوہ ان تینوں روایات پر غور کریں تو راویوں نے صحابہ یا تابعین کا نام یا ذکر کرنے کے بجائے ’’کانوا‘‘ یعنی’’وہ‘‘ کہہ کر اپنی بات بیان کی ہے اور اس ’’وہ‘‘ کو حافظ عمران نےترجمہ کرتے وقت بریکٹ لگا کر زور زبردستی سے صحابہ اور تابعین کردیاہےاور اس کے لئے دلیل یہ دی ہے، ملاحظہ کریں حافظ عمران لکھتے ہیں: ان تمام آثار میں بھی لفظ ’’کانوا‘‘ کی نسبت اصحاب رسول ﷺ کی طرف ہے، اس لیے مندرجہ بالا اصول کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا آثار میں موجود لفظ ’’کانوا‘‘ سے مراد صحابہ کرام ہیں۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ189)
حافظ عمران الہٰی اور ان جیسے دیگر چاہے دلائل میں کتنی ہی ہیرا پھیری کرکےخود ساختہ اور من چاہا مطلب نکالنے کی کوشش کریں اور یہ دعویٰ کرتے پھریں کہ تمام تر صحابہ مشت سے زائد داڑھی کاٹتے تھے لیکن یہ سب مل کر بھی اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ ذخیرہ روایات میں صرف اور صرف چار صحابہ سے داڑھی کاٹنا ثابت ہے اس کے علاوہ کسی بھی صحابی سے داڑھی کاٹنے کا ثبوت نہیں ملتااور چار صحابہ کا مطلب ہرگز جماعت صحابہ نہیں ہےاس لئے تمام صحابہ سے داڑھی کاٹنے کے فعل کو منسوب کرنے کے لئے روایات سے غلط استدلال اور استنباط کے بجائے کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنی چاہیے۔حافظ عمران کی پہلی موقوف روایت یا اثر یہ تھا: ’’تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح (وفات ۱۱۴ھ) بیان کرتے ہیں کہ وہ حج و عمرےکے موقع پر اپنی مشت سے زائد داڑھیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے‘‘ اس اثر کے بارے میں راقم عرض کرتا ہے کہ چونکہ صرف چار صحابہ ہی حج اور عمرے کے موقع پر داڑھی کاٹتے تھے اس لئے اس اثر میں’’وہ‘‘ کا مطلب صرف سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا ابوہریرہ، سیدناعبداللہ بن عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ان کے علاوہ چونکہ کوئی صحابی داڑھی نہیں کاٹتا تھا اس لئے یہاں ’’وہ‘‘ کا مطلب تمام صحابہ بیان کرنا حقیقت اور سچائی کو تبدیل کرنا ہے۔
حافظ عمران الہٰی کا پیش کردہ دوسرا اثر یہ ہے: ’’جناب حسن بصری سے مروی ہے کہ وہ مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کی رخصت دیتے تھے‘‘ ظاہر ہے اس اثر میں بھی ’’وہ‘‘ سے مراد مخصوص چار صحابہ ہی ہیں کیونکہ جو خود داڑھی کاٹتا ہو وہی اس فعل کی رخصت دے سکتا ہےاور جو داڑھی کاٹتا ہی نہ ہو اس کا اس فعل کی رخصت دینا چہ معنی دارد! حافظ عمران صاحب نے اس اثر میں’’وہ‘‘ کے ساتھ بریکٹ میں صحابہ اور تابعین لکھا ہے اور اس سے مراد پوری جماعت صحابہ اور تابعین لیا ہے لیکن جس طرح ان کا تمام صحابہ سے متعلق داڑھی کاٹنے کا دعویٰ کذب ہے اسی طرح تابعین کی پوری جماعت بھی عمران الہٰی کے جھوٹ سے بری ہے کیونکہ تابعین میں سے بھی کچھ لوگ ہی داڑھی کاٹنے کو صحیح سمجھتے تھےناکہ پوری جماعت تابعین۔
حافظ عمران الٰہی صاحب کا تیسرا اثر یہ ہے: محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابعی جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی سے بیان کرتے ہیں: ’’وہ داڑھی کے اطراف سے (مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اسے صاف ستھرا رکھتے تھے‘‘ اوّل تو یہ اثر ہی حافظ صاحب کے دعویٰ سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ اس میں داڑھی کو چوڑائی میں کاٹنے کا ذکر ہے لیکن اگر ہم اسے لمبائی میں داڑھی کاٹنے کی دلیل بھی سمجھ لیں تب بھی یہاں وہی مسئلہ ہے جو دیگرآثار میں ہے کہ یہاں ’’وہ‘‘ سے مراد جماعت صحابہ و تابعین نہیں ہے بلکہ صرف وہ چار صحابہ مراد ہیں جو حج اور عمرے کے موقع پر داڑھی کاٹتے تھے اس کے ساتھ چونکہ یہ صحابہ بھی عام حالات میں اپنی داڑھی کو معاف رکھتے تھے اس لئے اس اثر میں داڑھی کاٹنے کے ذکر کوصرف حج و عمرے سے متعلق سمجھنا چاہیے۔
صرف راقم السطور کے ہی یہ خیالات نہیں بلکہ علماءبھی اس طرح کے آثار اور روایات کو صرف مخصوص چار صحابہ کے ساتھ ہی خاص سمجھتے ہیں ۔ زبیر بن خالد مرجالوی حفظہ اللہ ایسی ہی ایک روایت کا ترجمہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں: ’’کانوا یحبون ان یعفوا اللحیۃ الا فی حج او عمرۃ‘‘ وہ (یعنی جن کے بارے میں داڑھی کٹوانے کا ذکرہے) داڑھی کو معاف کرنا پسند کرتے تھے مگر حج و عمرہ میں (نہیں)۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 75)
اگر اس موقع پرکوئی جاہل یہ اعتراض کرے کہ حافظ عمران الہٰی کی بریکٹ والی عبارت تو آپ نے بغیر دلیل رد کردی اور زبیر خالد کی بریکٹ میں دی گئی وضاحت ، تشریح اور عبارت قبول کرلی تو اس جہالت کا جواب یہ ہے کہ یہ بات کہ وہ حج یا عمرے کے علاوہ داڑھی نہیں کاٹتے تھےصرف ان ا شخاص کے بارے میں ہی کہی جاسکتی ہے جو حج و عمرے پر داڑھی کاٹتے ہوں جبکہ وہ شخصیات جو کسی بھی موقع پرداڑھی کاٹتےہی نہ ہوں ان کے بارے میں ایسی بات ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے اور اس بات کو تھوڑی سی عقل رکھنے والا شخص بھی بغیر کسی دقت اور پریشانی کےسمجھ سکتا ہے۔
حافظ عمران ایک جگہ لکھتے ہیں: سیدنا جابر بن عبداللہ سے مروی ہے: ’’کنا نعفی السبال الا فی حج او عمرۃ‘‘ ہم تمام صحابہ حج و عمرہ کے علاوہ داڑھیاں بڑھاتے تھے۔ یعنی حج یا عمرہ کے موقع پر تمام صحابہ کرام داڑھیاں کٹاتے تھے۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ209)
حافظ صاحب نے اس روایت کا ایساخود فریبانہ ترجمہ کیا ہےکہ یہ عبارت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بجائےحافظ عمران الہٰی کی ترجمان بن گئی ہے اور روایت کے معنی و مفہوم بالکل ہی بدل گئے ہیں اس لئے اسے ترجمہ نہیں بلکہ دجل کہنازیادہ قرین حق ہے۔ اس عبارت کا سیدھا سا ترجمہ یہ تھا ’’ہم حج و عمرہ کے علاوہ داڑھیاں بڑھاتے تھے ‘‘ اب اس ہم سے مراد تمام صحابہ کرام ہیں یا چند صحابہ اس کا فیصلہ اس روایت کے راوی کے ذریعہ باآسانی ہوجاتا ہے۔ اس روایت کے راوی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں جو خود حج و عمرے کے موقع پر داڑھی کاٹتے ہیں اس لئے جب وہ روایت کو ’’ہم ‘‘کہہ کر بیان کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے مراد باقی تین صحابہ ہیں جو انہیں کی طرح حج و عمرے پر داڑھی کاٹتے تھے۔ اب وہ صحابہ جو داڑھی کاٹتے ہی نہیں تھے انہیں اس ’’ہم‘‘ میں شامل کرنا ظلم عظیم ہے۔جابر بن عبداللہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اور عبداللہ بن عمر، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عباس حج اور عمرے پر داڑھی کاٹتے تھے اور اسکے علاوہ داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔پس معلوم ہوا کہ حافظ عمران الہٰی صاحب نے اپنے مطلب براری کے لئے قدم قدم پر دھوکہ دیا ہے کبھی غلط ترجمہ کرکے کبھی اپنے خود ساختہ فہم کو اصل عبارت میں بریکٹ کے ذریعے ٹھونس کر، کبھی ضعیف حدیث کو صحیح بتا کر اور کبھی ضعیف حدیث کا ضعف چھپا کر، اللہ انہیں ہدایت دے۔ آمین
حافظ عمران الہٰی نے ایک ضعیف روایت کو بطور حجت نقل کیا اور اس سے اپنا مسئلہ و موقف ثابت کیا لیکن اس روایت کی کمزوری کو ظاہر یا بیان کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اسکے ضعف کو شیرمادر سمجھ کر ہضم کرگئے حالانکہ وہ عالم ہونے کی وجہ سے اچھی طرح جانتے تھے کہ انکی نقل کردہ روایت کی سند صحیح نہیں ہےاور نہ ہی اس مردود روایت سے ان کا اخذ کردہ مسئلہ درست ہے۔حافظ صاحب لکھتے ہیں: امام مالک جناب سالم بن عبداللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ’’ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُحْرِمَ دَعَا بِالْجَلَمَيْنِ، فَقَصَّ شَارِبَهُ، وَأَخَذَ مِنْ لِحْيَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْكَبَ، وَقَبْلَ أَنْ يُهِلَّ مُحْرِمًا‘‘ ابن عمر؄کے بیٹے سالم بن عبداللہ جب احرام باندھنے کا ارادہ کرتے تو قینچی منگواتے، اپنی مونچھوں کوکاٹتے اور داڑھی کے بال بھی لیتے، وہ یہ کام سواری پر سوار ہونے اور تلبیہ کہنے سے پہلے کرتے تھے۔ (موطا امام مالک للاعظمی، رقم الحدیث:۱۴۸۷)
اثر میں وجہ دلالت یہ ہے کہ جناب سالم عبداللہ بن عمر کے بیٹے تھے، وہ احرام باندھنے سے پہلے اپنی داڑھی کے بال کاٹتے تھے، کیوں کہ داڑھی مناسک حج کے دوران لمبی ہوجائے گی، یعنی وہ عام دنوں میں بھی اپنے والد ابن عمر کی طرح مشت سے زائد داڑھی کاٹتے تھے۔
(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 227، 228)
یہ اثر بالاتفاق ضعیف ہے اور کسی محقق ، محدث نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا،موطا امام مالک کے محققین شیخ ڈاکٹرسلیم الھلالی اورشیخ احمدعلی سلیمان المصری دونوں نے اس روایت کوضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے (الموطاء، جلد دوم، صفحہ 197طبع انصار السنہ)
ایسی مردود روایت سے استدلال کرتے ہوئے حافظ عمران صاحب کو کچھ شرم کرنی چاہیے تھی، نیز یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ حافظ عمران صاحب دلائل سے تہی دامن ہیں وگرنہ وہ اپنے موقف کے لئے صحیح روایات کو دلیل بناتےاس کے لئے انہیں کمزور روایات کا سہارا نہ لینا پڑتااور نہ ہی روایات کی اصل حقیقت چھپاکر فریب کاری اور دسیسہ کاری کو اپنا ہتھیار بنانا پڑتا۔بطور وضاحت عرض ہے کہ اگر بعض الناس کو حافظ عمران کے حق میں راقم السطور کے جملے سخت اور نا انصافی پر مبنی لگیں تو ان کی تسلی کے لئے اطلاع ہے کہ دوسرے علماء نے بھی حافظ صاحب کے متعلق اسی طرح خیالات کا اظہار کیا ہےچناچہ مفتی ابوالحسن عبدالخالق حفظہ اللہ لکھتے ہیں: میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ لغوی معنی کے بیان میں گھپلے اور خیانتیں کی ہیں، بلکہ بعض جہالتوں کا بھی ارتکاب کیا ہے......بیان حقیقت اور مذکورہ اوامر اور الفاظ حدیث کی اصل مراد واضح کرنے سے موصوف نے جو قصداً یا اپنی ناعلمی کی بنا پر چند گھپلوں اور خیانتوں کا ارتکاب کیا ہے، ہم بتوفیق اللہ تعالیٰ اس کی حقیقت سے اب پردہ ہٹاتے ہیں۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 250،251)
حافظ عمران الہٰی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی تائید میں مختلف علماء کی عبارات نقل کرتے ہیں لیکن ان کا ترجمہ ایسا کرتے ہیں کہ یا تو وہ اپنے اصل معنی سے ہی ہٹ جاتیں ہیں اور ان کا مفہوم وہ نہیں رہتا جو اس عالم کا مقصود و منشا تھا یا پھر ترجمہ کرتے وقت عمران صاحب اپنی جانب سےایسی کمی پیشی اور حدک واضافہ کردیتے ہیں کہ اصل عبارات کے معنی ہی کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔ مفتی ابوالحسن عبدالخالق حافظ عمران الہٰی کی ایسی ہی ایک خیانت کی نشاندہی کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں: ابن فارس ’’عفوت الشعر وعفیتہ‘‘ کے معنی لکھتے ہیں:’’ وذلک اذا ترکتہ حتی یکثر ویطول...‘‘ عمران موصوف اس کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’یعنی یہ لفظ (اس وقت بولاجاتا ہے) جب بالوں کو اس وقت تک نہ کاٹا جائے یہاں تک کہ وہ زیادہ ہوجائیں۔‘‘ صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’یہ لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب انسان بالوں کو چھوڑ دے اور ترک کردے یہاں تک کہ وہ زیادہ اور لمبے ہوجائیں۔‘‘ لیکن موصوف نے ابن فارس کی عبارت اور مقصد کا مذکورہ ترجمہ کرکے جنازہ نکال دیا ہے۔ ’’بالوں کو اس وقت تک نہ کاٹاجائے‘‘ میں پوچھتا ہوں یہ کس عبارت کا ترجمہ ہے؟ دوسرے ’’ویطول‘‘ ’’طویل اور لمبے ہوجائیں۔‘‘ کے معنی کو کیوں ہضم کرگئے؟ یہ گھپلا اور خیانت اس لیے کی ہے کہ اپنا دعویٰ ثابت کیاجائے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔(یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 260،261)
حافظ عمران الہٰی صاحب شرمناک حد تک بے باک واقع ہوئے ہیں اور اپنا مذموم مقصد حاصل کرنے کے لئے ہر حد کو پارکرنے پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں چناچہ موصوف کو جہاں جہاں موقع ملا انہوں نے نبی کریم ﷺ کی جانب جھوٹ منسوب کرنے میں ذرا بھی وقت ضائع نہیں کیا اور نہ ہی ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی اس کی امثال اور نمونے سابق میں بھی پیش کئے گئے ہیں۔ اسکی ایک عدد مثال پھر ہدیہ قارئین ہے:
حافظ عمران الہٰی صاحب لکھتے ہیں: اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ رسول اللہﷺ سے داڑھی کاٹنا ثابت ہی نہیں ہے،اس لیے یہ عمل غیر مشروع ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی داڑھی اتنی لمبی نہیں تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آئی ہو،معتبر علمائے کرام کے اقوال کے مطابق آپ ﷺ کی داڑھی مشت سے زیادہ نہیں تھی،لہٰذ ان کو داڑھی کٹوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 174)
اس کا مطلب ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک ایک مشت سے زائد ہوتی تو وہ کاٹتے۔یہ حافظ عمران الہٰی صاحب کی بڑی جرات ہے کہ نبی ﷺ کے متعلق وہ ایک ایسی بات کا دعویٰ کررہے ہیں جس کا کوئی ثبوت ان کے پاس موجود نہیں ۔ انہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی کہ مٹھی سے زائد داڑھی ہونے پر رسول اللہ ﷺ کو داڑھی کاٹنے کی ضرورت پڑنی تھی؟ کیا نبی ﷺ نے خود کبھی کسی موقع پریہ بات بیان فرمائی ہے کہ اگر میری داڑھی مشت سے زائد ہوتی تو میں ضرور کاٹتا؟ یہ نہ صرف حافظ عمران کی جانب سے دعویٰ غیب ہےبلکہ ایک ایسی بات کو نبی کریم ﷺ کی جانب ناحق منسوب کرناہے جو انہوں نے نہیں کہی اس طرح یہ اللہ کے رسول ﷺ پر بہتان بھی ہےاور دخول جہنم کا سبب بھی ۔
حافظ عمران الہٰی کی باتوں کا تضاد ملاحظہ کیجئے کہ ایک جانب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی داڑھی ایک مشت سے زائد نہیں تھی اس لئےاپنی زندگی میں انہیں داڑھی کاٹنے کی ضرورت درپیش نہیں ہوئی لیکن دوسری جانب وہ نبی کریم ﷺ کے داڑھی کاٹنے کے امکان کو صحیح بھی مانتے ہیں اور اسکے لئے یہ ناقابل فہم فلسفہ پیش کرتے ہیں: ایسی کوئی صحیح یا ضعیف حدیث موجود نہیں ہے جس میں قطعی طور پر یہ وضاحت موجود ہو کہ رسول اللہ ﷺ اپنی داڑھی نہیں کاٹتے تھے، حالانکہ اس کے برعکس ایک ضعیف روایت ایسی موجود ہے کہ جس میں آپ ﷺ کے داڑھی کٹانے کا ذکر موجود ہے۔علامہ البانی نے اس مسئلے کے بارے میں بات کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے، جس میں اس بات کا ذکر موجود ہو کہ آپ ﷺ نے کبھی داڑھی نہیں کٹوائی۔ (یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، صفحہ 204)
یہاں حافظ عمران الہٰی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی اتباع میں لوگوں کو داڑھی کاٹنے سے اس لئے روکتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی داڑھی کبھی نہیں کاٹی وہ لوگ غلطی پر ہیں کیونکہ روایات میں نبی ﷺکے داڑھی کاٹنے کا ذکر نہ پایا جانا داڑھی کاٹنے پر دلالت بھی کرسکتا ہے کیونکہ ایک ضعیف روایت اس دعویٰ،بات،اورامکان کو تقویت پہنچاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ بھی داڑھی کاٹتے تھےجبکہ داڑھی نہ کاٹنے کی تائید و حمایت میں صحیح تو کجاکوئی ضعیف روایت بھی نہیں ہے۔
عجیب ہے کہ جو بات دوسروں کے نزدیک نبی ﷺ کے داڑھی نہ کاٹنے کی دلیل ہے وہی بات حافظ صاحب کے نزدیک نبی ﷺ کے داڑھی کاٹنے کی دلیل ٹھہری۔ سبحان اللہ! اس سے معلوم ہوا کہ حافظ عمران الہٰی صاحب ایک عالم ہی نہیں بلکہ شعبدہ باز بھی ہیں۔
اصل میں یہاں علماء کی ترجیحات کا فرق ہے جس کی وجہ سےان کے فہم کے نتائج بھی مختلف ہیں۔ جیسے علمائے حق کی اکثریت اللہ کے رسول ﷺ کے حکم ’’واعفوا اللحی‘‘ داڑھی بڑھاؤ کو اصل اصول قرار دیتی ہے اورروایات میں نبی کریم ﷺ سے داڑھی کاٹنے کاذکر نہ پائے جانے کوداڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کی دلیل بناتی ہےاور ابن عمر کے فعل کو ان کا اجتہاد سمجھتی ہے۔
جبکہ حافظ عمران الہٰی اور ان سے متفق لوگ سیدنا عبداللہ بن عمر کے داڑھی کاٹنے کے فعل کو اصل اصول سمجھتے ہیں او رتاویل کے ذریعہ داڑھی بڑھاؤ کے نبوی حکم کو بھی صحابی کے فعل کے ماتحت کردیتے ہیں پھر اس اصول کی روشنی میں انہیں احادیث میں نبی ﷺ سے داڑھی کاٹنے کا تذکرہ نہ ملنا بھی نبی کریم ﷺ کے داڑھی کاٹنے کا ثبوت نظر آتا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ایک مٹھی سے زائد داڑھی کٹوانے کے مخالف اور حامی علماء دونوں ہی کے پاس بنیادی دلائل نبی کریم ﷺ کی ایک جیسی احادیث ہیں بس فرق یہ ہے کہ داڑھی میں کسی قسم کے بھی تصرف کے مخالف علماء ان احادیث کے ظاہری الفاظ کو فوقیت دیتے ہیں اور بعض صحابہ کےذاتی اجتہاد کو اہمیت نہیں دیتے کہ صحابہ کے اقوال و اجتہادات شرعی حجت نہیں ہیں۔جبکہ ایک مشت کے بعدداڑھی کٹوانے کے حامی علماء بھی انہیں احادیث رسول ﷺ سے استدلال کرتے ہیں ۔ بس ظلم یہ کرتے ہیں کہ الفاظ حدیث میں بے جاتاویل کرتے ہیں جس کے لئے بعض صحابہ کےاجتہادی فعل کو بنیاد بنا تے ہیں یعنی الفاظ حدیث کا مطلب فعل صحابہ کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی علماء عام حالات میں آثار صحابہ اور اقوال صحابہ کو سند اور حجت تسلیم نہیں کرتے۔اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو داڑھی کے متعلق حکم رسول اور فعل صحابہ میں بعد المشرقین ہے اگر نبی ﷺ کے حکم کا مقصد الفاظ حدیث سے داڑھی نہ کٹوانا معلوم ہوتا ہے تو فعل صحابہ سے ایک مشت کے بعد داڑھی نہ بڑھاناثابت ہوتا ہے ۔ اب اس میں تطبیق و توفیق نہیں ہوسکتی کیونکہ حکم رسول شرعی حجت ہے اور اس حکم کے مقابلے میں فعل صحابہ نا قابل التفات ہے۔ تطبیق وہاں ہوتی ہے جہاں دونوں اقوال یا افعال یکساں طور پر حجت ہوں۔جبکہ اہل سنت والجماعت اہل حدیث کا بنیادی نظریہ صحابہ کے آثار کا شرعی حجت نہ ہونے کا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے قبر رسول ﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ’’کل احد یوخذ من قولہ ویترک الاصاحب ھذا القبر‘‘ ہر کسی کا قول رد بھی کیا جاسکتا ہے اور قبول بھی سوائے اس قبر والے کے۔ (سیر اعلام النبلاء:۹۳ ۸/)
پس اس صورت میں ایک مسلمان کے پاس واحد انتخاب یہ ہے کہ یا تو احادیث رسول رد کردے یا فعل صحابہ سے انکاری ہوجائے۔ عافیت اسی میں ہے کہ فعل صحابہ کو ان کا ذاتی تفرد مان کر چھوڑ دیا جائے اور حدیث کے ظاہری حکم پر عمل کیا جائے ویسے بھی ایک مسلمان کو اختلاف کی صورت میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہے ۔ اگر وہ اس راستے سے بھی دین کی طرف آئے گا تو اسے حدیث ہی کو تسلیم کرنا پڑے گا اور مکمل داڑھی رکھنا ہوگی۔
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
فائدہ:
راقم الحروف نے اس مضمون کو ابتدائی طور پرنامکمل حالت میں 04-11-2015 کو لکھا تھاجبکہ اس سے بھی پہلے اپنی تین ڈائریوں میں الگ الگ مقامات پر اسکے مختلف حصے لکھ کر محفوظ کرلیے تھےتاکہ بوقت ضرورت انہیں یکجا کرکے ایک مضمون کی شکل دی جاسکے۔ اس کے تقریباً آٹھ برس بعدایک عزیز دوست کی تحریک پر اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اسکے مختلف حصوں کو جوڑ کر اور اس میں داڑھی کے متعلق تمام شبہات، اعتراضات نیز یک مشت داڑھی کا مسئلہ اس پر اختلاف اور اس کا حل پیش کرکے اسے موجودہ حالت میں لایا۔ داڑھی کے متعلق پرانی تحریروں کو ترتیب دینے اور اس میں نیا مواد شامل کرنے کا آغاز03ستمبر2023 میں کیا اور اللہ کی توفیق سے اس کا انجام24اپریل2024 کو ہوا۔ الحمدللہ
میرےایک سابقہ اہل حدیث دوست محمد اسلم کی داڑھی نہیں تھی لہٰذا مضمون کا بڑا حصہ انہیں کو ذہن میں رکھ کر لکھا ہے اور زیادہ تر انہیں کے اعتراضات اور انکے جوابات کو تحریر کا موضوع بنایا گیا ہے جبکہ مضمو ن کا ایک اورقابل ذکر اوربڑا حصہ یک مشت داڑھی کے جواز اور عدم جواز پر مشتمل ہے جو کہ موجودہ اہل حدیث دوست عمیر بن اشرف کی ایمااور خواہش پر لکھا گیا ہےاور اس سلسلے کے سارے عجیب وغریب شبہات دراصل انہیں کے شبہات ہیں جنھیں دور کرنے کی راقم نے اپنی سی ایک کوشش کی ہے۔

ازقلم: شاہد نذیر
 
Last edited:

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
مراجع ومصادر

۰۱۔ یک مشت سے زائد داڑھی کی شرعی حیثیت، جمع و ترتیب: زبیربن خالد مرجالوی، نظرثانی: شیخ الحدیث مولانا حافظ خالد بن بشیر مرجالوی، مولانامحمد رفیق طاہر، ناشر: دارالسلف، گوجرانوالہ پاکستان
۰۲۔ توفیق الباری شرح صحیح بخاری، تالیف: پروفیسر ڈاکٹر عبدالکبیر محسن، زیر نگرانی و نظر ثانی: شیخ الحدیث مولاناعبدالحلیم، ناشر:مکتبہ اسلامیہ،
۰۳۔ نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، تصنیف: علامہ غلام رسول سعیدی، ناشر: ضیاءالقرآن پبلی کیشنز 14-انفال سنٹر،اردو بازار، کراچی
۰۴۔ خطبات سورۃ کوثر، تصنیف: پروفیسرحافظ عبدالستّار حامد، ناشر: حامد اکیڈمی، محلہ کٹڑہ مائی، وزیرآباد، پاکستان
۰۵۔ ’’ انوارالبدر فی وضع الیدین علی الصدر‘‘ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں، تالیف: ابوفوزان کفایت اللہ سنابلی، ناشر: مکتبہ بیت السّلام، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور
۰۶۔ اغلاط العوام یعنی عوام کے غلط مسائل، مصنف: مولانا اشرف علی تھانوی، ناشر: ادارۃالمعارف، احاطہ دارالعلوم کراچی۴۱
۰۷۔ المستدرک علی الصحیحین(مترجم)، جلد دوم، تصنیف: حافظ ابومحمد بن عبداللہ حاکم نیسابوری، ترجمہ: محمد شفیق الرحمان قادری رضوی، ناشر: شبیر برادرز، زبیدہ سنٹر۴۰، اردو بازار، لاہور
۰۸۔ رسائل ومسائل، حصّہ چہارم، مصنف: مولاناسیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ناشر: اسلامک پبلیکیشنزلمیٹڈ، ۱۳-ای-شاہ عالم مارکیٹ،لاہور (مغربی پاکستان)
۰۹۔ صحیح بخاری، جلد ہفتم، ترجمہ و تشریح: مولانادائود راز، نظرثانی: حافظ عبدالستّار حماد، مقدمہ : حافظ زبیرعلی زئی، ناشر: دارالعلم، ممبئی انڈیا
۱۰۔ احمقوں کی دنیا، تالیف: علامہ ابن جوزی، مترجم: مولانا محمد فاروق حسن زئی، ناشر: مکتبہ عائشہ، حق سٹریٹ، اردو بازار، لاہور
۱۱۔ مقالات راشدیہ ،جلددوم، ازقلم: ابومحمد بدیع الدین شاہ راشدی، تقدیم: ارشاد الحق اثری، اعداد: افتخار احمدتاج الدین، ناشر: نعمانی کتب خانہ، لاہور
۱۲۔ لغات الحدیث ،جلددوم ،سوم، چہارم، تالیف: علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی، ناشر: میر محمد کتب خانہ ، مرکز علم و ادب ، آرام باغ، کراچی
۱۳۔ اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ، مصنفہ: ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی، ناشر: نشریات، الحمد مارکیٹ، اردو بازار، لاہور
۱۴۔ الدّین النّصیحۃ،دین خیرخواہی کا نام ہے، تبلیغی جماعت سے وابستہ متعلقین واحباب سے ایک نصیحت آموز گفتگو، تالیف: مولانا زبیر احمد صدیقی، ناشر: ادارہ تحسین الاسلام، لاہور
۱۵۔ شہاب نامہ، تالیف: قدرت اللہ شہاب، ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
۱۶۔ ہندو کا ہمدرد، تالیف: مولانا امیر حمزہ، ناشر: دارالاندلس، مرکز القادسیہ4-لیک روڈچوبرجی، لاہور
۱۷۔ فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد دوم، تالیف: حافظ زبیرعلی زئی ، ناشر: مکتبہ اسلامیہ، بالمقابل رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور
۱۸۔ رسائل بہاولپوری، تالیف: پروفیسر حافظ محمد عبداللہ بہالپوری، تخریج و تصحیح: محمد سرور عاصم، ناشر: مکتبہ اسلامیہ، بالمقابل رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور
۱۹۔ الموطاء، جلددوم، تصنیف: امام مالک بن انس، ترجمہ وتخریج وشرح: حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، تحقیقی افادات: علامہ ناصر الدین البانی، ڈاکٹر سلیم الھلالی، احمد علی سلیمان المصری، نظرثانی: شیخ الحدیث حافظ عبداللہ رفیق و حافظ حامد محمود الخضری، تقریظ: شیخ الحدیث عبداللہ ناصر رحمانی، ناشر: انصار السنہ پبلیکیشنز ، لاہور
۲۰۔ تذکرۃ الاولیاء، تصنیف: شیخ فرید الدین عطار، تصحیح: مولانا اختر حجازی، ناشر: الفیصل، ناشران وتاجران کتب، اردو بازار، لاہور
۲۱۔ شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا، تالیف: ابن بشیر الحسینوی، تخریج و تحقیق: حافظ زبیرعلی زئی، تقدیم: حافظ صلاح الدین یوسف، ناشر: احیاءالسنۃ پبلی کیشنز، قصور
۲۲۔ ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع ڈاڑھی کا فلسفہ، تالیف: مولانا قاری محمد طیب، مولانا سید حسین احمد مدنی، ناشر: دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی
۲۳۔ سنت مطہرہ اور آداب مباشرت، تالیف:علامہ ناصر الدین البانی، ترجمہ: محمد اخترصدیق، ناشر:مکتبہ اسلامیہ،بالمقابل رحمان مارکیٹ غزنی سٹریٹ، اردوبازار،لاہور
۲۴۔ داڑھی اور خضاب حقیقت کیا افسانہ کیا؟، تالیف: فاروق رفیع، تقریظ: علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، ناشر: فصل الخطاب للنشروالتوزیع
۲۵۔ کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام، تالیف: ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن زیدی، نظرثانی: الشیخ اسد اللہ عثمان مدنی، ناشر: مکتبہ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار،لاہور
۲۶۔ تتمہ احسن الفتاویٰ، جلد دہم، تالیف: مفتی رشید احمد صاحب، ناشر: الحجاز، علامہ بنوری ٹائون، کراچی
۲۷۔ احسن الفتاویٰ، جلد دوم، تالیف: مفتی رشید احمد صاحب، واحدتقسیم کنندگان: ایچ ایم سعید کمپنی، ادب منزل، پاکستان چوک، کراچی
۲۸۔ شریعت و طریقت، مصنف: مولانا عبدالرحمٰن کیلانی، ناشر: مکتبۃ السّلام، سٹریٹ ۲۰ وسن پورہ ،لاہور
۲۹۔ براہین، مصنف: عمار خان ناصر، ناشر: ، دارالکتاب، دیوبند، انڈیا
۳۰۔ ماہنامہ محدث لاہور
۳۱۔ مقالات محدث گوندلوی، ازقلم: امام العصر حافظ محمد محدث گوندلوی، تقدیم: مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا عبدالرحمٰن ضیاء، تحقیق: حافظ شاہد محمود، ناشر: ام القریٰ پبلی کیشنز، سیالکوٹ روڈ،فتومنڈ، گوجرانوالہ
۳۲۔ ماہنامہ السنّۃ جہلم، مدیر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری، ناشر: دارالتخصّص والتّحقیق، جہلم، پاکستان
۳۳۔ نکاح اور طلاق(احکام ومسائل)، افادات: ڈاکٹر محمد طاہر القادری، مرتّبہ: مسز فریدہ سجاد، نظرثانی: محمد شبیر قادری، ناشر: منہاج القرآن پبلیکیشنز
۳۴۔ مختصر کتاب الکبائر، تالیف: امام شمس الدّین ذہبی، اردو ترجمہ: سعید احمد قمرالزمان، طباعت و اشاعت: وزارت اسلامی امور و اوقاف ودعوت وارشاد مملکت سعودی عرب
۳۵۔ کبیرہ گناہ اور ان کا علاج، تالیف: الامام حافظ علامہ شمس الدین الذّ ہبی، ترجمہ: ابوالقاسم حافظ محمود تبسّم، تخریج و تحقیق: الاستاذعبدالسّلام عبدالشّافعی، ناشر:حدیبیہ پبلیکیشنز، رحمان مارکیٹ غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور
۳۶۔ کبیرہ گناہ اور ان کا انجام، تالیف: امام شمس الدین الذہبی، نظرثانی: حافظ عبدالسلام بن محمد، ناشر: دارالاندلس، مرکز القادسیہ4-لیک روڈ چوبرجی، لاہور
۳۷۔ صنف مخالف کی مشابہت ایک مہلک بیماری، تصنیف: ام عبد منیب، ناشر: مشربہ علم و حکمت، کامران پارک زینبیہ کالونی نزد منصورہ ملتان روڈ، لاہور
۳۸۔ کبیرہ گناہ، تالیف: شیخ الاسلام الحافظ شمس الدین الذہبی، ترجمہ: پروفیسرابوانس محمد سرور گوھر، ناشر: مکتبہ محمدیہ، قذافی سٹریٹ، الفضل مارکیٹ، اردو بازار، لاہور
۳۹۔ ماہنامہ دعوت اہل حدیث، جمعیت اہل حدیث سندھ کا ترجمان، من آثار: ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی، مئوسس: حکیم قاضی عبدالحق انصاری،
۴۰۔ تیسیرالباری ترجمہ و شرح صحیح بخاری، تالیف: علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی، ناشر: تاج کمپنی لمیٹڈ، لاہور، کراچی، راولپنڈی، پشاور
۴۱۔ تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات، جلد چہارم، تالیف: حافظ زبیرعلی زئی، ناشر: الکتاب انٹرنیشنل، جامعہ نگر، نئی دھلی۱۱۰۰۲۵
۴۲۔ الاصلاح، تالیف: امام العصرحافظ محمدمحدث گوندلوی، تحقیق وتخریج: مرکز التربیۃ الاسلامیۃ، ناشر: ام القریٰ پبلی کیشنز، سیالکوٹ روڈ،فتومنڈ، گوجرانوالہ
۴۳۔ مقالات نورپوری، دروس: حافظ عبدالمنان نورپوری، ترتیب: محمد طیب محمدی، ناشر: ادارہ تحقیقات سلفیہ،گوجرانوالہ
۴۴۔ داڑھی، از: حافظ عبدالمنان نورپوری، ناشر: مکتبہ اصحاب الحدیث، حسن مارکیٹ، مچھلی منڈی، اردوبازار، لاہور
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,031
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
قطع اللحیہ سے متعلق راقم السطور کا موقف ماضی اور حال کے آئینہ میں

قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض ہے کہ داڑھی کے متعلق راقم کا اوّلین اور پرانا موقف یہی تھا کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا فرض ہے جبکہ داڑھی کاٹنا ناجائز اور حرام ہے اور رہی بات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ذاتی فعل کی تو یہ ان کا غلط اجتہاد تھا جو ہم پر حجت نہیں۔اس موقف کی دو بنیادی وجوہات تھیں اوّل یہ کہ اہل حدیث ہونے سے پہلے بھی راقم جانتا تھا کہ اہل حدیث اپنی داڑھی نہیں کٹواتے اور دوسرا اہل حدیث ہونے کے بعد راقم کو داڑھی کے موضوع پر جن علماء جیسے عبداللہ ناصر رحمانی وغیرہ کو سننے کا موقع ملا ان کا اپنا نظریہ بھی یہی تھا کہ داڑھی کا ایک بال بھی کاٹنا داڑھی مونڈنے کے مترادف ہے۔میرے اس موقف میں نرمی یا تبدیلی اس وقت آئی جب مجھے اس بارے میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے موقف کا علم ہو ا جو صحابی کے فعل اور رسول اللہ ﷺ کے حکم میں تطبیق اور توفیق کے قائل تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ چونکہ کوئی صحابی بھی جان بوجھ کر نبی کریم ﷺ کی مخالفت نہیں کرسکتا اس لئے صحابی کاکوئی بھی ایسا فعل اور عمل جو بظاہر حدیث کے خلاف معلوم ہو تا ہو تو ایسی صورت میں اثرصحابی اور حدیث رسول کو آپس میں ٹکرا کر رد کرنے کے بجائے اس میں تطبیق دیناہی صحیح راستہ ہے۔دراصل یہاں حافظ رحمہ اللہ یہ بھول گئے کہ صحابی سے غلطی اور خطاء کا صدور بھی ممکن ہےاور ایسے میں ان کے عمل کی پیروی نہ کرنا ہی محفوظ راستہ ہے۔ بہرحال راقم چونکہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق اور علم و فضل سے حد درجہ متاثر تھا اس لئے راقم نے اپنا پرانا موقف تبدیل کرلیا لیکن جب اس مضمون کی شکل میں راقم کو اس موضوع پر تحقیق کا موقع ملا توراقم اپنے پہلے اورپرانے موقف کی طرف لوٹ آیا ہے۔ یہاں راقم ’’محدث فورم‘‘ پر ہونے والی داڑھی سے متعلق دیوبندی اور اہل حدیث علماء سے ہونے والی اپنی گفتگو پر مشتمل اپنی کچھ تحریرات پیش کررہا ہے اس میں راقم کے تبدیل ہوتے موقف کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

دیوبندی عالم جناب جمشید صاحب نے لکھا:
قطع لحیہ کے مسئلہ پر میں نے ایک بڑے عالم مولانا ولی رحمانی سے بات کی تھی جوخود بھی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ حدیث سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ داڑھی کے لئے کوئی خاص ایک مشت یاکوئی کچھ اورکی تعیین نہیں ہے تاہم داڑھی کو بالکل ہی چھوڑدینا چہرہ کو بدشکل بنانا اورلوگوں میں سنت رسول کے تئیں بیزاری اورنفرت پیداکرناہے لہٰذا داڑھی کو اپنے حال پر بھی چھوڑےا ورحسب ضرورت دائیں بائیں سے چہرہ اورسنت رسول کو خوشنما بنانے کیلئے قطع وبرید کرتا رہے۔ والسلام
اس کے جواب میں راقم الحروف نے لکھا:
داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اس عمل کے بارے میں کسی بدعتی اور جاہل مولوی ولی رحمانی کا یہ کہنا کہ داڑھی کو بالکل ہی چھوڑدینا چہرہ کو بدشکل بنانا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مذاق اڑنا ہے۔اپنے مولوی سے کہئے گا کہ صرف ایک ایسی صحیح حدیث پیش کرے جس سے داڑھی کا کاٹنا ثابت ہوتا ہو۔ ورنہ فقہ حنفی کا یہ فضول اور خلاف سنت مسئلہ بتا کر عوام کو گمراہ نہ کرے۔
جمشید صاحب نے لکھا:
جن لوگوں کوبھی خدا نے عقل سلیم سے نوازا ہے وہ اس قول کی معقولیت میں شک نہیں کریں گے۔اوراس طرح سے حدیث رسول اورعمل صحابہ میں بھی تطبیق ہوجاتی ہے۔
راقم نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا:
السلام علیکم!
کم از کم مقلدوں کے پاس تو عقل سلیم نہیں ہوتی۔ اگر انکے پاس عقل سلیم ہوتی تو تقلید کیوں کرتے۔ آپ یہاں کن لوگوں کی بات کر رہے ہیں؟
محترم شاید آپکو اس بات کا علم نہیں کہ جب دو صحیح احادیث بظاہر ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہوں۔ تو انکے درمیان تطبیق دی جاتی ہے۔ کیونکہ صحیح احادیث میں تعارض نہیں ہوتا۔ لیکن صحابہ کے آثار اور صحیح احادیث میں تو کوئی بھی تطبیق نہیں دیتا۔ یہ بات تو میرے لئے بالکل نئی ہے۔ اگر آپکے پاس اسکی کوئی مثال ہوتو ہمیں بتاو۔ ورنہ بلا تحقیق باتیں کرنا تو فضول ہے۔
جمشید نے لکھا:
ویسے میں نے اب تک جتنے غیر مقلدین کو دیکھاان میں سے کسی ایک کوبھی ایسا نہیں دیکھا کہ جس نے داڑھی کو ابتداء سے اپنے حال پر چھوڑرکھاہو اورکبھی قینچی کو زحمت نہ دی ہو۔لمبی ڈاڑھی ہونا الگ چیز ہے اورکبھی قینچی ہی نہ لگانا الگ معاملہ ہے۔
راقم الحروف نےجواباً لکھا:
السلام علیکم!
آپ نے آخر کتنے غیرمقلدوں سے ملاقات کر لی جو آپ اس طرح کا بیان دے رہے ہیں۔ میرے بھائی آپ کنوئیں سے باہر نکلیں تو آپ کو معلوم ہو کہ اہل حدیثوں کی اکثریت ابتدا ہی سے داڑھی کو قینچی نہیں لگواتی۔ اور سنت پر عمل کرتی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ کوئی دیوبندی یا بریلوی فرقہ چھوڑ کر اہل حدیث ہوا ہو اور اسے اس سنت کا علم نہ ہو اور داڑھی کی تراش خراش کرتا ہو۔ لیکن علم ہو جانے کے بعد اہل حدیثوں کی اکثریت اس عمل سے باز آجاتی ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اہل حدیث ہی وہ واحد فرقہ ہے جو نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر دل و جان سے عمل پیرا ہے۔ اور دوسروں فرقوں کی طرح اماموں کا بہانہ بنا کر سنتوں سے جان نہیں چھڑاتا۔ باطل فرقے حدیثوں کو رد کرنے کےلئے یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ہمارے امام نے یہ فتوی دیا۔ ہمارے امام نے یہ عمل کیا۔ اور ہم بھی یہی عمل کرینگے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رنگ برنگے تقلیدی مذاہب سے نجات عطا فرمائے۔ آمین
جمشید نے لکھا:
میں سمجھتاہوں کہ میرے اندراجتہاد کی صلاحیتیں یااس لائق جتنا علم ہونا چاہئے وہ نہیں ہے اس لئے میں ائمہ اربعہ میں سے ایک کے فہم قران وحدیث پر اعتماد کرتا ہوں۔اورقرآن وحدیث سے جو کچھ انہوں نے سمجھاہے اسی کے مطابق عمل کرتاہوں۔
راقم الحروف نے لکھا:
قرآن اور حدیث پر عمل کرنے کےلئے کسی نام نہاد اجتہاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے فرامین اور قرآن پر عمل کرنے کےلئے پہلے اجتہاد کرتے تھے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نص کے مقابلہ میں اجتہاد کرنا باطل ہے۔ الحمد للہ نماز کیسے پڑھنی ہے روزہ کیسے رکھنا ہے۔ حج کے مسائل زکوۃ اور دیگر روزمرہ کے مسائل صحیح احادیث اور قرآن میں تفصیل سے موجود ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جو قرآن اور صحیح حدیث میں موجود نہ ہو۔ کیونکہ دین قیامت تک کے لئے مکمل ہے۔ اجتہاد کی ضرورت صرف اس وقت پڑتی ہے جب کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو اور وہ واضح طور پر قرآن اور حدیث میں موجود نہ ہو پھر ایک عالم جو قرآن اور حدیث کا علم رکھتا ہے ایسی صورت میں اجتہاد کرتا ہے اور شریعت کی منشاء معلوم کرنے کی کوشش کرتاہے۔ یہ اجتہاد کوئی بھی عالم کر سکتا ہے جو قرآن اور حدیث کا علم رکھتا ہو۔ اسکے لئے کسی خاص امام کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
نبی کریمﷺ کے پاس دیہاتی آتے تھے اور سوالات پوچھ کر چلے جاتے تھے۔ اور اپنی زندگی اس علم کے مطابق گزارتے تھے۔ کیا وہ دیہاتی مجتہد تھے۔ جب وہ دیہاتی جو بات چیت کے آداب سے بھی واقف نہیں تھے دین پر بغیر کسی اجتہاد کے عمل کر سکتے تھے تو آج کا مقلد کیوں اسطرح دین پر عمل نہیں کر سکتا یہ بھی ایک خاص بات ہے کہ مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے تو اس میں غلطی کا امکان سو فیصد ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی امام کی تقلید کرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ یہ سو فیصد ممکن ہے کہ آپ امام کے کسی مسئلہ پر عمل کررہے ہوں اور وہ غلط ہو۔ ایک مقلد کو کس نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ آنکھ بند کرکے اپنے امام کے ہر صحیح اور غلط فتوی پر عمل کرے۔
کیا آپ نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ اگر کوئی شخص حق پر بھی ہو تو تم اپنے دین میں اسکی کی تقلید نہ کرو۔ سبحان اللہ صحابی رسول نے تقلید شخصی کا کتنا زبردست رد کیا ہے۔
محترم باذوق نے راقم کی تائید کرتے ہوئے لکھا:
یہ بات تو شاہد نذیر صاحب نے بالکل درست کہی کہ :’’صحابہ کے آثار اور صحیح احادیث میں تو کوئی بھی تطبیق نہیں دیتا۔‘‘
صحیح احادیث اور آثارِ صحابہ میں اگر فرق نظر آئے تو تطبیق نہیں بلکہ صحابہ کے قول/عمل کی تاویل کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ممکن ہے صحیح حدیث اُن تک نہ پہنچی ہو یا ممکن ہے کوئی دوسری وجہ ہو۔
داڑھی کی بحث میں حصّہ لیتے ہوئے راقم نے ایک دیوبندی کے خلاف لکھا:
السلام علیکم،
احناف داڑھی کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ خود ساختہ ہے اور اپنے خود ساختہ عمل کےلئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کا سہارا لیتے ہیں کہ انہوں نے ایک مشت سے زائد داڑھی کٹائی تھی۔ لیکن در حقیقت احناف کا داڑھی کے ساتھ موجودہ سلوک کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ہے۔
1۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خاص حج اور عمرہ کے موقع پر ایسا کیا جبکہ موجود حنفی تقریبا ہر مہینے یا پندرہ دن بعد یہ عمل کرتے ہیں اور نہ وہ کوئی حج کا موقع ہوتا ہے اور نہ ہی عمرہ کا۔
2۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عمل کو سنت قرار نہیں دیا جبکہ احناف اسے سنت قرار دیتے ہیں
3۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے داڑھی کو صرف لمبائی میں کٹوایا تھا جبکہ احناف داڑھی کو لمبائی کے علاوہ اطراف سے بھی کٹواتے ہیں اور خط بنوانے کے نام پر گالوں کے بال بھی کٹواتے ہیں جو کہ داڑھی کا حصہ ہیں۔
کیا احناف کا یہ طرز عمل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ؟ اپنے خود ساختہ اعمال کو کسی صحابی یا رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنا بڑی جرات ہے۔ اللہ محفوظ رکھے آمین
کچھ عرصہ بعد راقم نے اس موضوع میں جمشید دیوبندی کے نام اپنی ایک شراکت اس طرح داخل بحث کی:
السلام علیکم و رحمۃاللہ!
محترم جمشید صاحب نے پوسٹ نمبر 21 پر احادیث اور عمل صحابہ میں تطبیق کی بات کی تھی جسکا رد کرتے ہوئے میں نے پوسٹ نمبر 32 پر لکھا تھا ہمارے لئے یہ بات بالکل نئی ہے اور دو صحیح احادیث کے درمیان تو تطبیق دی جاتی ہے لیکن آثار اور احادیث کے درمیان تطبیق نہیں دی جاتی پھر میں نے جمشید بھائی سے مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ اسکی کوئی مثال پیش کریں لیکن وہ کوئی مثال پیش کرنے یا اپنی بات کا دفاع کرنے میں ناکام رہے تھے۔میرے اس موقف کی تائید محترم باذوق بھائی نے بھی پوسٹ نمبر 39 پر کی تھی کہ شاہد نزیر صاحب کی یہ بات درست ہے۔
میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جمشید صاحب کا موقف درست تھا جبکہ میرا موقف غلط تھا یہ اور بات ہے کہ جمشید صاحب اپنے صحیح موقف کا بھی دفاع نہیں کرپائے۔
اپنے موقف کے غلط ہونے کا مجھے اس وقت علم ہوا جب حال ہی میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ تصنیف جزرفع الیدین کا مطالعہ کیا۔ جسے مکتبہ اسلامیہ نے شائع کیا ہے اور اس کتاب کی تخریج و تعلیق اور اسکا ترجمہ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے کیا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 106 کے حاشیہ میں درج ہے (اس کے علاوہ دوسرا مفہوم لینا غلط ہے کیونکہ اس سے اثر صحابی اور مرفوع احادیث میں تعارض واقع ہوجاتا ہے۔ آثار صحابہ اور احادیث مرفوعہ میں تطبیق و توفیق دینا ہی راجح ہے)
شاید اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے داڑھی سے متعلق آثار صحابہ اور احادیث مرفوعہ میں تطبیق دی ہے اور یہ فتویٰ دیا ہے کہ داڑھی کو اسکے حال پر چھوڑ دینا افضل ہے اور ایک مشت سے زائد داڑھی کو اگر کوئی کٹواتا ہے تو جائز ہے۔ اس فتوی سے آثار اور احادیث دونوں پر تطبیق ہوجاتی ہے اور کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔ الحمد اللہ
میں اپنے پرانے موقف سے رجوع کرتا ہوں۔ اور ان لوگوں سے خصوصا ًجمشید صاحب سے معذرت خواہ ہوں جنھیں میرے رویے سے تکلیف پہنچی۔
محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ نے راقم کے جواب میں لکھا:
محترم بھائی جان !
آپ کا موقف اوّل درست وصحیح اور کتاب وسنت کے موافق تھااور موجودہ موقف غلط وغیر صحیح اور کتاب وسنت کے خلاف ہے کیونکہ صحابہ کرام کا قول وفعل وتقریر وحی نہیں ہوتا جبکہ نبی کریم ﷺ کا قول و فعل و تقریر وحی ہوتا ہے اور فرمان الٰہی ہے:
اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ [الأعراف : 3]
یعنی: جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اسکی اتباع کرو اور اسکے علاوہ دیگر اولیاء کی اتباع نہ کرو
ــــــ صحابہ کرام رضوان الله علیہم أجمعین بھی بحیثیت بشر خطاء کے مرتکب ہوسکتے ہیں لیکن اللہ نے انکی شان بہت بلند رکھی ہے رضی اللہ عنہم و رضواعنہ
اور ہمارے بارے میں یہ اعلان نہیں فرمایا ہے۔ لہٰذا تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور آیت مذکورہ میں تو اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں کتاب وسنت کے خلاف کسی کی بھی اتباع سے کلی منع فرمادیا ہے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا یہ عمل وحی نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کا عمل وحی ہے اور صرف اور صرف وحی ہی کی اتباع کا اللہ نے حکم دیا اور دیگر کی اتباع سے منع فرمایاہے۔فتدبر وافهم بارک الله فیک......
نیز زبیر علی زئی صاحب کا یہ کہنا کہ : ’’آثار صحابہ اور احادیث مرفوعہ میں تطبیق و توفیق دینا ہی راجح ہے‘‘ قطعاً غلط ہے کیونکہ وحی و غیر وحی برابر نہیں ، جب تک دو ادلہ میں وزن برابر نہ ہو تطبیق نہیں دی جاتی اور قول یا فعل یا تقریر صحابہ کو تو کوئی بھی دلیل نہیں مانتا۔ دیکھیں اصول فقہ کی جس قدر کتب ہیں سب میں زیادہ سے زیادہ دلائل چار اشیاء کو بنایا گیا ہے:
کتاب اللہ
سنت رسول ﷺ
کتاب وسنت سے مستنبط کسی مسئلہ پر اجماع
یا کتاب وسنت میں منصوص علیہ مسألہ پر غیر منصوص مسأله کو قیاس کرنا
خوب سمجھ لیں اللہ آپ کو جزائے خیردے (آمین)
راقم الحروف نے محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ کے جواب میں لکھا:
السلام علیکم و رحمۃاللہ!
رفیق طاہر بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ بات تو آپ کی، میری سمجھ میں بھی آگئی ہے اور میں اس سے اختلاف کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں۔ ہاں البتہ مزید تحقیق اور مطالعہ اور علماء سے معلوم کرنے کے بعد اگر کوئی مضبوط دلیل میرے علم میں آئی تو یقینا ًآپ سے اختلاف کرونگا۔ فی الحال میں خاموشی اختیار کرتاہوں کیونکہ زبیر علی زئی نے صرف ایک اصول بیان کیا ہے جس کے دلائل ذکر نہیں کئے۔ اگر ان کی طرف سے اس اصول کی کوئی مضبوط دلیل سامنے آئی تو ہم قبول کرینگے وگرنہ محترم رفیق طاہر بھائی کا موقف ہی درست ہے کیونکہ ٹھوس دلائل پر مبنی ہے۔
مجھے داڑھی کے مسئلہ پر ایک اشکال ہے جو اہل حدیث مسلک اختیار کرنے کے بعد سے آج تک حل نہیں ہوا تھا اسکے لئے میں نے علمائے اہل حدیث کی کئی کتابیں پڑھیں جو کہ داڑھی کے موضوع پر تھیں لیکن کسی عالم کے جواب سے تشفی اور تسلی نہیں ہوئی اور میرا یہ اشکال حال ہی میں دور ہو گیا جب میں نےحافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا داڑھی سے متعلق فتوی اور مذکورہ اصول پڑھا۔
رفیق طاہر بھائی اگر آپ کے نزدیک مذکورہ اصول غلط ہے تو برائے مہربانی میرے اشکال کا حل پیش کردیں۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ کوئی صحابی بھی جان بوجھ کر نبی کریم ﷺ کے کسی حکم اور حدیث کے خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کا عمل بحوالہ بخاری آپ کے سامنے ہے۔
کچھ صحابہ کا عمل جو خلاف حدیث ملتا ہے اسکا سبب ان تک حدیث کا نہ پہنچنا یا ناسخ کا نہ معلوم ہونا ہوتاہے۔ جیسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھنا۔ اب یہ مسئلہ اس طرح حل ہوجاتاہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو حدیث کا علم نہیں ہوسکا۔ لیکن جہاں تک عبداللہ بن عمر ؄ کے فعل کا تعلق ہے تو یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان تک نبی کریم ﷺ کی داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے والی حدیث نہیں پہنچی۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ خود ہی اس حدیث کے راوی ہیں۔
بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ عمل عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا ذاتی اجتہاد ہے لیکن اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ نص کے مقابلہ پر اجتہاد باطل ہے۔بہت سے صحابہ سے جب کوئی اجتہادی غلطی ہوئی تو دوسرے صحابہ نے اسکی نشاندہی فرمائی اور اس پر اعتراض کیا لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر کسی بھی صحابی سے کوئی نکیر یا اعتراض ثابت نہیں ہے۔ یعنی اس مسئلہ پر اجماع سکوتی ہے۔اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس عمل میں منفرد بھی نہیں بلکہ چند دیگر صحابہ سے بھی ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کا عمل ملتا ہے۔ اسلئے اس عمل کو صرف عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ذاتی اجتہاد کہنا بھی درست نہیں۔کچھ علماء عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے والے عمل کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ ہم پر نبی کریم ﷺکی اتباع فرض ہے کسی صحابی کی نہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے لیکن اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ سوال یہ ہے کہ ایک صحابی نے حدیث کا حکم جانتے ہوئے اسکے خلاف کیوں کیا ؟؟
یہ بات بھی یقینی ہے کہ احادیث رسولﷺ کا فہم سب سے زیادہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو تھا۔یہ بھی مسلمہ اصول ہے کہ روای حدیث خصوصاً جب وہ صحابی ہو اپنی روایت کردہ حدیث کے مفہوم سے سب سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنا بھی عبداللہ بن عمر ؄کا عمل ہے اور داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینے والی حدیث کے راوی بھی عبداللہ بن عمر ؄ خود ہیں۔اب جو بھی آپکے علم میں اس مسئلہ کا حل ہے برائے مہربانی مجھے بتادیں تاکہ میرا یہ اشکال دور ہو جائے۔ جزاک اللہ خیر
راقم الحروف کے اس اعتراض (ہم سب کو معلوم ہے کہ کوئی صحابی بھی جان بوجھ کر نبی کریم ﷺ کے کسی حکم اور حدیث کے خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ا ایک مشت سے زائد داڑھی کاٹنے کا عمل بحوالہ بخاری آپ کے سامنے ہے) کے جواب میں رفیق طاہر نے لکھا:
آپ کی ساری بحث کا دارومدار اس مذکورہ بالا اصول پر ہے۔ جبکہ یہ اصول ہی غلط ہے کیونکہ:
1) رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں بھی کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے غلطیاں سرزد ہوئیں جو کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی حکم اور حدیث کے خلاف نہیں بلکہ بسا اوقات اللہ کے حکم کے بھی خلاف نہیں!!! کیونکہ وہ بھی بشرتھے، انسان تھے اور انسان سے غلطی سرزد ہوجانا بعید نہیں ہے!!!
مثلاً:
۱۔ صحابہ کرام کا زنا کرنا... ( طهرني ......) (أحدكما كاذب فهل منكما......)
2) ہم سب کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم اور قرآن کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ اب نبی کریم ﷺ کا شہد کو حرام کرنايَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [التحريم : 1]
عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے منہ پھیرناعَبَسَ وَتَوَلَّى [عبس : 1]
اسیران بدر کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا لَّوْلاَ كِتَابٌ مِّنَ اللّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [الأنفال : 68]
منافقین کو غزوہ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت دیناعَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ [التوبة : 43]
بحوالہ قرآن آپ کے سامنے ہے۔
اس بات کا جو جواب آپ کی سمجھ میں آئے وہی اوپر والی بات کا بھی جواب سمجھیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 17، 2021
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
28
تیسرا نظریہ:
’’بعض سر پھرےاور عقل کے بیری لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت نہیں ہے اور اس دعویٰ پر ان کی دلیل یہ ہے کہ جنتی مرد بے ریش ہوں گےلہٰذا اگر واقعی داڑھی خوبصورتی کی علامت ہوتی تو جنت میں بھی مرد کو داڑھی عطا کی جاتی۔‘‘
اس نامعقول نظریے کا جواب یہ ہے کہ خوبصورتی کا معیار زمانے ، حالات اور قوموں کے لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ زمانہ نبوی ﷺ اور اس سے قبل بھی داڑھی مرد کی اور لمبے بال عورتوں کی خوبصورتی کی واحد علامات تھیں اور مرد اور عورت کے سراپے میں سب سے نمایاں چیز جسے دلکشی اور خوبصورتی سے تعبیر کیا جاسکتا تھا بالترتیب داڑھی اور سر کے بال ہی تھے۔عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے: ’’ملائکۃ السماء یستغفرون لذوائب النساء ولحی الرجال یقولون سبحان اللہ الذی زین الرجال باللحیٰ والنساء بالذوائب‘‘ آسمان کے ملائکہ ان خواتین کے لیے جن کے سر کے لمبے بال ہوں اور ان مردوں کیلئے جن کی داڑھیاں ہوں مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کے ساتھ اور خواتین کو سر کے لمبے بالوں کے ساتھ خوبصورتی بخشی۔ ( مسند الفردوس ج 4 ص 157 رقم الحدیث 6488)
اس حدیث کی اسنادی حیثیت چاہے کمزور ہو یا موضوع لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ پہلے زمانوں میں جب انسان کسی حد تک فطرت پسند تھا عورت کے لمبے بال اور مرد کی داڑھی خوبصورتی کی علامت تھی۔ اب چونکہ اللہ نے اپنے رسول کو کامل بنایا تھا اور ہر اچھے وصف اور ہر اس چیز سے دل کھول کر نوازا تھا جسے اس زمانے اور ماحول میں مرد کے لئے خوبصورتی سمجھا جاتا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ بھی داڑھی والے تھے اور یہ داڑھی مکمل طور پر خوبصورت تھی اور اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں تھی جو بدنما لگے لہٰذا نبی کریم ﷺ کی داڑھی گھنی تھی کیونکہ ہلکی داڑھی خوبصورتی سے خارج سمجھی جاتی ہے اسی طرح داڑھی کی لمبائی بھی معتدل تھی کیونکہ حد سے لمبی داڑھی خوبصورت معلوم نہیں ہوتی اسکے علاوہ داڑھی کالی تھی کیونکہ سفید داڑھی خوبصورتی کے اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اترتی۔ چالیس سال کی عمر میں کافی حد تک داڑھی سفید ہوجاتی ہے لیکن اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اس سے محفوظ رکھا اور وفات تک نبی ﷺ کے اتنے بال ہی سفید تھے جو دیکھنے پر نظر بھی نہیں آتے تھے۔ مطلب یہ کہ نبی ﷺ کے سراپے میں ہر چیز محض خوبصورت نہیں بلکہ معیاری خوبصورتی کی حامل تھی۔ یاد رہے کہ اگر زمانہ نبوت یا عرب کے ماحول میں داڑھی خوبصورتی کی علامت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنے رسول کو داڑھی عطا نہ فرماتا کیونکہ رسول و نبی کو مرجع خلائق بنانے کے لئے اس سے ہر وہ چیز دور کردی جاتی ہے جو اس کی شخصیت میں کوئی عیب پیدا کرنے کا سبب بنےاور اس کی شخصیت ایسی بنا دی جاتی ہے کہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی خوبصورتی سے متاثر ہوکرلوگ ان کی جانب کچھے چلے آئیں ۔ اس نقطہ کے بعد کہ نبی و رسول کو ہر چیز اعلیٰ،معیاری اور خوبصورت عطا کی جاتی ہے پھر چاہے وہ خاندان ہو، سراپا ہو یا عادتیں ہر وصف میں وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی مکرم ﷺ داڑھی والے اس لئے تھے کہ اس وقت مرد کے لئے خوبصورتی کا اعلیٰ معیارداڑھی والا ہوناہی تھا۔اب چونکہ ایک مسلمان ہر چیز میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرتا ہے اور ہر اس چیز سے محبت رکھنا اسکے ایمان کا حصہ ہے جو چیز اللہ کے رسول ﷺ کو پسند اور مرغوب تھی اس لئے قیامت تک ایک مسلمان مرد کے لئے داڑھی خوبصورتی ہی کی علامت رہے گی۔اب رہی یہ بات کہ جنت میں مرد کیوں بے ریش ہوگا تو عرض ہے کہ زمانے اور حالات کے لحاظ سے اس وقت خوبصورتی کے معیار کو تبدیل کردیا جائےگا جیسے پرانے وقتوں کے بادشاہ سونے کے زیوارت سے لدے پھندے ہوتے تھےجس میں سونے اور ہیرے جواہرات کے ہار، ہاتھوں میں کنگن اور کانوں میں بالے اور کئی قسم کے دوسرے زیورات شامل ہوتے تھے کیونکہ ان زمانوں یا قوموں میں یہ مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت تھی لیکن جب اسلام آیا اور سونے کو مرد پر حرام قرار دیا گیا اور زیورات عورتوں کی مشابہت کی بنا پر مردوں کے لئے ممنوع ہوئے تو اس وقت سے لے کر قیامت تک مسلمان مردوں کے لئے خوبصورتی کا معیار تبدیل ہوگیا ۔ اب ایک مسلمان مرد کی نظر میں سونے کے زیورات پہنے ہوا مرد انتہائی بدصورت ، بدنمااور کریہہ صورت قرار پائے گا لیکن چونکہ خوبصورتی اور بدصورتی کا یہ معیار جنت میں تبدیل ہوجائے گا اور جنت میں مرد کو سونے کے زیورات اور ریشم پہنایا جائے گا اس لئے جنت میں یہ چیزیں بدصورتی کے معیار سے تبدیل ہوکر خوبصورتی کی نشانی و علامت میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اس بارے میں اگر کوئی کچھ کہنا ہی چاہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں داڑھی مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت ہے لیکن جنت میں بے ریش ہونا مرد کے لئے خوبصورتی کی علامت ہوگی۔ لیکن اگر کوئی شخص دنیا میں داڑھی صاف کرواکر خود کو خوبصورت سمجھتا ہے کیونکہ جنت میں بھی داڑھی نہ ہوگی تو وہ نہ صرف احمق ہے بلکہ زبان حال سے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر طعن کرنے والا بھی ہے کیونکہ وہ داڑھی منڈا ہوکر خود کو خوبصورت سمجھ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نظر اور نظریے میں نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک خوبصورت نہیں تھا کیونکہ وہ گھنی اور بڑی داڑھی والے تھے۔ کوئی لاکھ انکار کرکے لیکن ایسے نظریے کا نتیجہ تو یہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔
داڑھی کو خوبصورتی کے معیار سے خارج کرنے کے لئے جنتی مرد کی مثال پیش کرنا دعویٰ اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں رکھتاکیونکہ جنتی مرد کے جسم پر سرے سے کوئی بال ہی نہیں ہوگانہ مونچھیں ،نہ داڑھی ، نہ زیرناف اور بغل کے بال اور نہ ہی ہاتھوں ،پیروں اور سینے پر کسی قسم کا کوئی بال لہٰذا مخصوص کرکے یہ کہنا کہ جنتی مرد بغیر داڑھی کا ہوگا غلط ہے کیونکہ جنتی مردمکمل بے ریش ہوگا جس میں دیگر بالوں کے ساتھ ساتھ داڑھی بھی خودبخود شامل ہے۔یہ تو جنتی مرد کی خصوصیت ہے لیکن اگر ہم ایک بالغ مرد کے لئے دنیاوی خوبصورتی کے معیار پر نظر ڈالیں تو خواتین اور لڑکیاں ایسے مردوں کو بالکل پسند نہیں کرتیں جن کے جسم پر کوئی بال ہی نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں آدمی مرد کم اور عورت زیادہ لگتا ہے کیونکہ جسم پر بالوں کا بالکل پایا نہ جانا خاص زنانہ خوبصورتی ہے اور ظاہر ہے اسی چیز کامردوں میں پایا جانا بدصورتی کی علامت ہے۔پس معاملہ صاف ہے کہ مردوں کے لئے دنیا میں بال ہونا صنف مخالف کی نظر میں خوبصورتی کی علامت ہے جبکہ آخرت میں اس کی خوبصورتی میں بال شامل نہیں ہوں گے۔یا یوں کہہ لیں کہ اللہ جنت میں انسانوں کی فطرت کو تبدیل کردے گا وہاں بغیر بالوں والا مرد خوبصورت سمجھا جائے گا جبکہ دنیا میں بالوں والے مرد کو خوبصورت، حسین، پرکشش اور وجیہہ سمجھا جاتا ہے۔یہ صرف معیار حسن کی تبدیلی کی بات ہے جو زماں و مکاں کے لحاظ سے بدل جائے گی۔
جامع ترمذی کی ایک حدیث میں جنتی مرد کے لئے ’’امرد‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی ایسا نابالغ لڑکا جس کے جسم پر ابھی قدرتی طور پر بال ہی نہ اگیں ہوں۔ ملاحظہ ہو: ’’عن أبی هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم أهل الجنة جرد مرد کحلی لايفنی شبابهم ولا تبلی ثيابهم.‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جنتی بغیر بال کے ’’امرد‘‘وسرمگیں آنکھوں والے ہوں گے، نہ ان کی جوانی ختم ہوگی اور نہ ان کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے۔(سنن الترمذی، ابواب صفۃ الجنۃ، رقم الحدیث: 2539)
یاد رہے کہ مخصوص حالات میں’’امرد‘‘ کا حکم عورتوں والا ہوتا ہے کیونکہ وہ نظر آنے میں مردوں سےزیادہ عورتوں کے قریب ہوتا ہےاورایک بالغ مرد خوبصورت’’امرد‘‘ کی جانب اسی طرح کشش اور رغبت محسوس کرتا ہے جیسے ایک عورت یا لڑکی کی طرف۔ یہی وجہ ہے کہ قوم لوط میں امرد پرستی رائج تھی یعنی ایک ایسے لڑکے سے بدفعلی کی جاتی تھی جس کے جسم پر ابھی بال نہ اگے ہوں اور جیسے ہی وہ اس عمر کو پہنچتا جب اسکے داڑھی مونچھیں اور بدن پر بال آنے لگتے تو اس سے کنارہ کش ہوکر اسے چھوڑ دیا جاتاتھا ۔چناچہ عورتوں کی جانب رغبت اور میلان رکھنے والاآج کون سا بالغ مرد ایسا ہے جو ایسی صفات کو پسند کرتا ہو جس کی وجہ سے عورتوں سے زیادہ مرد اس کی طرف راغب ہونے لگیں۔ لہٰذا ایک بالغ مرد کے لئے امرد جیسا ہونا نہ صرف ایک عیب ہے بلکہ امرد کا طعنہ بھی اس کے لئے گالی ہے۔ایک امرد یا لونڈے کو ہمارا معاشرہ کس بری نظر سے دیکھتا ہے اس کا اندازہ ہمارے شعراءسے لگا لیجئے جنھوں نے عورت کی طرح امرد کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ نمونے کے طور پر بڑے اور نامور شعراء کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جو لونڈا چھوڑ کر رنڈی کو چاہے
وہ کوئی عاشق نہیں ہے بوالہوس ہے (آبرو شاہ مبارک)

حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا (میر تقی میر)

کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ (میر تقی میر)

امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا (حیدر علی آتش)

یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم
کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو (قائم چاندپوری)

لیا میں بوسہ بہ زور اس سپاہی زادے کا
عزیزو اب بھی مری کچھ دلاوری دیکھی (مصحفی غلام ہمدانی)

گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے
پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے (میر تقی میر)

باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا (میر تقی میر)
پس دنیا میں ایک مرد کے لئے امرد جیسا ہونا بدصورتی اور طعن ہے جبکہ جنت میں امرد ہونا اس کے لئے خوبصورتی ہوگی۔ کسی چیز یا چہرے میں خوبصورتی محسوس ہونا انسانی سوچ کی بنا پر ہوتا ہے معاشرہ ، ماحول اور دین جس چیز کو خوبصورتی کہتا ہے انسانی ذہن اسے تسلیم کرلیتا ہے پھر اس سے ہٹ کر نظر آنے والی کوئی بھی چیز یا چہرہ اسے بدصورت نظر آنے لگتا ہے اگر یہ سوچ بدل جائے تو خوبصورتی کا نظریہ بھی خودبخود بدل جاتا ہے۔ چناچہ اصل بات یہی ہے کہ خوبصورتی کا معیار دنیا میں کچھ اور ہے اور آخرت میں کچھ اور ہوگا لہٰذا دنیاوی حسن کے معیار کا تقابل جنت کے معیار حسن کے ساتھ کرنا عقلی اور نقلی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔
روایات میں چار انبیاء کرام کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی جنت میں بھی داڑھیاں ہوں گی ان میں آدم علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام شامل ہیں۔لیکن یہ تمام روایات موضوع درجے کی ہیں۔ ان کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی ان روایات کو گھڑا ہے ان کے نزدیک داڑھی کے بغیر مرد کا تصور یقیناًمشکل رہاہوگا اور ان کو یہ بات ہضم کرنا دشوار ہوگا کہ جنت میں مرد اس چیزسے محروم ہوگا جومرد کو مرد بناتی ہے اور اس کا سب سے بڑا حسن ہے چونکہ ان کے زمانے اور ماحول میں مرد داڑھی کے بغیر انتہائی بدصورت بلکہ نامرد سمجھا جاتا تھا اس لئے انہوں نے اپنی ذہنی تسلی کے لئے ایسی احادیث گھڑ دیں جس کے مطابق انبیاء دنیا میں بھی داڑھی والے تھے اور آخرت میں داڑھی والے ہی ہوں گے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں داڑھی فطرتاً خوبصورتی کی علامت ہے۔ اب اگر کسی نے اس سے ہٹ کر کوئی غیر فطری خوبصورتی کا معیار بنالیا ہے تو وہ اس کا قصور ہے۔اب تو فطرت سے بغاوت کرنے والے مغربی مرد نے بھی داڑھی رکھنا شروع کردی ہے او ر وہاں کی خواتین بھی داڑھی والے مردوں کو ترجیح دینے لگی ہیں لیکن ہمارا مسلمان بھائی فطرت سے بغاوت کی طرف مائل ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ داڑھی خوبصورتی ہے یا نہیں اس کا تمام تر انحصار آپ کے طے کردہ معیار اور انتخاب پر ہے۔ اگر تو آپ کا معیار وہی ہے جو فطرت کی باغی مغربی اقوام کا ہے تو پھرداڑھی بدصورتی کی علامت ہے۔ اور اگر آپ کا انتخاب دین فطر ت ہے تو پھر داڑھی مرد کے لئے خوبصورتی کی واحد علامت ہے اس کے بغیر دنیا کا حسین ترین مرد بھی بدصورت ہے اور اس کے ساتھ ایک بدصورت مرد بھی کسی حد تک خوبصورت ہوجاتا ہے کیونکہ داڑھی صرف دین نہیں بلکہ فطرت بھی ہےاور فطرت خوبصورتی کا دوسرا نام ہے۔اس کے بجائے غیر فطری چیزوں میں حسن صرف اس کو نظر آسکتا ہے جس کے دین میں بگاڑ ہو، جس کی شخصیت میں تضاد ہو جو بیک وقت اسلام اور کفر دونوں کو پسند کرتا ہواس طرح کہ بعض چیزوں میں اس کا رجحان اور میلان کفریہ نظریات کی طرف ہو اور بعض باتیں اسے دین اسلام کی پسند آتی ہوں یا پھرکفر میں اس کی رغبت بمقابلہ اسلام زیادہ ہو جیسا کہ آج کل کے مسلمانوں کی حالت ہےکہ زبانی دعویٰ تو ایمان اور اسلام کا کرتے ہیں لیکن رہن سہن، لباس،زبان، عادات و اطوار میں مغرب کی پیروی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ گویا دعویٰ تو اسلامی ہے لیکن سوچ کافرانہ ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو جو زبان سے مسلمان اور سوچ سے کافر ہے اپنی سوچ وفکر کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے داڑھی میں حسن اور خوبصورتی نظر آسکے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ‘‘ ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی ......اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا: ’’ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُم‘‘ وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔(صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)
توجہ فرمائیں کہ فرشتوں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں اور نہ ہی داڑھی کی فرضیت کا اطلاق ان کی ذات پر ہوتا ہے اس کے باوجود بعد سیدنا جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں آئے تو ان کے چہرے پر داڑھی تھی۔ اس کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے اگر وہ داڑھی کے بغیر ہوتے تو صحابہ کو برا محسوس ہوتا کیونکہ انہوں نے مرد کو داڑھی کے بغیر تصور ہی نہیں کیا تھا جبکہ خود رسول اللہ ﷺ کو داڑھی منڈے چہروں سے نفرت تھی۔ نبی ﷺ حسن اور خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے جیسا کہ اللہ رب العالمین کے متعلق آیا ہے کہ وہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تو اگر داڑھی خوبصورتی کی علامت نہ ہوتی تو داڑھی منڈے چہروں سے نبی ﷺ کو نفرت نہیں ہونی چاہیے تھی۔نبی ﷺ کی یہ نفرت ہی اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ نبی ﷺ کے نزدیک بھی داڑھی خوبصورتی کی علامت تھی۔
جب عذاب اور خوشخبری کا پیغام لے کر فرشتے انسانی شکل میں لوط علیہ السلام کے پاس آئے تو ان کے چہروں پر داڑھی نہیں تھی کیونکہ وہ ایسے لڑکوں کے بھیس میں تھے جن کے قدرتی طور پر ابھی داڑھی مونچھوں کے بال نہیں اگے تھے۔ لیکن اگر وہ نوعمر لڑکوں کے بجائے مرد کے روپ میں ہوتے تو یقیناًان کے چہروں پر بھی داڑھی ہوتی کیونکہ لوط علیہ السلام بھی مرد تھے اور داڑھی والے تھےاور یہ تو سوچنا بھی گستاخی ہے کہ لوط علیہ السلام کے چہرے پر ایک ایسی چیز تھی یعنی داڑھی جو خوبصورتی کی علامت نہیں تھی۔ بدصورت چیزوں اور ادنیٰ اخلاق اور برے اور ہلکے اطوار کا انبیاء کی شخصیات میں کوئی دخل نہیں۔پس ثابت ہوا کہ داڑھی خوبصورتی کی علامت ہے کیونکہ ہر نبی داڑھی والا تھا۔اس بحث کے اختتام پر اپنے ثبوت دعویٰ کے حق میں ایک صریح حدیث ہدیہ قارئین ہے:
چودھری عبدالحفیظ لکھتے ہیں: ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ ایک مجوسی رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس نے اپنی داڑھی مونڈی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں، اسے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ماہذا؟‘‘ یہ کیا ہیئت کذائی ہے؟ اس نے کہا: ’’هذا ديننا ‘‘یہ ہمارا دین ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’لكن فى ديننا ان نحفى الشوارب وان نعفی اللحية‘‘ لیکن ہمارے دین میں ہے کہ ہم مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں۔"(بحوالہ ماہنامہ محدث، لاہور، شمارہ نمبر6، جلدنمبر12، اپریل 1982ء)
یہاں واضح طور پر نبی مکرم ﷺ نے داڑھی منڈے چہرے کو بدصورت چہرہ قرار دیا ہے جس کا مخالف مفہوم داڑھی والے چہرے کا خوبصورت ہونا ہے۔پس اللہ کے رسول ﷺ کے اپنے الفاظ سے ثابت ہوا کہ داڑھی خوبصورتی جبکہ داڑھی نہ ہونا بد صورتی کی علامت اور معیارہے۔ اگر کسی کو نبی ﷺ کا بیان کردہ معیار حسن پسند نہیں تو یہ اس کا اپنا انتخاب ہے۔لیکن اپنی چاہت کو فوقیت دینے اور اپنی مرضی کو مقدم کرنے والے شخص کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی پسند نہ صرف نبی ﷺ کی پسند سے الگ ہے بلکہ اللہ کی پسند کے بھی مخالف ہے کیونکہ داڑھی علامت جمال ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ حدیث میں اسےمرد کے حسن اور خوبصورتی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسکی براہ راست نسبت اللہ رب العالمین کی جانب کی گئی ہے،لہٰذا جب اللہ ہی نے داڑھی کو مرد کی زینت بنایا ہے تو داڑھی کے خوبصورتی کی علامت اور نشان ہونے پر کیا کلام باقی رہ جاتا ہے۔ چودھری عبدالحفیظ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مردوں کو داڑھی کا حسن عطا کیا ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ ملائکہ کی تسبیح میں ایک کلمہ یہ بھی ہے ......’’سبحان من زين الرجال باللحىٰ‘‘ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کا حسن عطا کیا۔(ماہنامہ محدث،لاہور،شمارہ نمبر6، جلد12،اپریل 1982ء)
اسی طرح مولانا قاری محمد طیب دیوبندی رقمطراز ہیں: ملائکہ علیہم السّلام کی ایک لاتعداد جماعت کی تسبیح ہی حدیث نبوی میں یہ بتلائی گئی ہے کہ ’’سبحان من زیّن الرّجال باللحّی وزیّن النساء بالقرون والذّوائب‘‘ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو ڈاڑھیوں سے زینت دی اور عورتوں کو مینڈھیوں اور چوٹیوں سے زینت بخشی۔ (ڈاڑھی کی شرعی حیثیت مع ڈاڑھی کا فلسفہ،صفحہ 39)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
شیخ محترم ایک سوال تھا یہاں مضمون میں آپ نے جن ابن جوزی صاحب کا حوالہ دیا ہے کیا یہ امام ابن قیم الجوزیہ ہیں یا کوئی اور؟ اگر کوئی اور ہیں تو براہ کرم ابتدا میں مکمل تعارف دے دیں
 
Top