دوسری صورت
حدیث کو روایت کرنے والا جو صحابی ہے اس صحابی کا اپنا عمل یا فتوی بظاہر اس حدیث کے خلاف ہے ۔ یہاں ہم یہ نہیں کہ سکتے ہیں کہ غالبا صحابی کے پاس مذکورہ حدیث نہ پہنچی ہو گی ۔ کیوں کہ حدیث کو روایت کرنے والا وہ خودی ہیں
اس دوسری صورت میں اہل حدیث حضرات کا کیا موقف ہے مجھے وہ جاننا ہے
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق ہمارا درج ذیل موقف ہے :
اگر کسی بات پر صحابہ کا اتفاق ہو تو وہ قابل حجت ہے البتہ
اگر صحابہ کے ما بین اختلاف ہو تو اب یہاں تین میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے
اول : سب کی پیروی کی جائے ۔ اور یہ عقلا محال ہے ۔
ثانی : جس کی دل چاہے مان لی جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ شرعا محال ہے کیونکہ دین کسی کی مرضی پر مبنی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی ایک کی بات کو مان لینا اور باقی سب کو چھوڑ دینا یہ ان کی سنت کی پیروی نہیں کہلائے گا ۔
ثالث : اب صرف تیسری صورت بچتی ہے کہ جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ( الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم ج 6 ص 76 وما بعدہا)
داڑھی کے متعلق ہم یہی سمجھتے ہیں کہ داڑھی کے متعلق صرف ایک دو صحابہ کرام سے کاٹنے کی بات منقول ہے ، باقی صحابہ کرام داڑھی نہیں کاٹتے تھے ، لہذا ہم بھی ایک مشت سے زائد کاٹنے کو درست نہیں سمجھتے ۔
میرا موقف یہ ہے کہ صحابی جس نے حدیث روایت کی وہ حدیث کے مطلب کو صحیح سمجھتا ھے ۔ مثلا حدیث میں داڑھی چھوڑنے کا حکم ہے لیکن صحابی کا عمل ایک مشت سے زائد کاٹنے کا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا حدیث میں جو داڑھی چھوڑنے کا حکم ہے اس کی حد کی وضاحت حدیث میں نہیں۔ اس کی وضاحت اس حدیث کے راوی نے اپنے عمل سے کردی کہ اگر کوئی ایک مشت سے زائد بال کاٹتا ہے تو جائز ہے
آپ کا موقف فعل صحابہ کی بنا پر ہے ، لیکن اس کے مطابق نہیں ہے ۔ صحابی سال میں ایک دفعہ کاٹتے تھے ، اور دوسری بات آپ اس کو جائز سمجھتے ہیں ، حالانکہ فعل رسول کو مبین اور فعل صحابی کو بیان کہا جائے تو پھر مبین اور بیان دونوں کا ایک ہی حکم ہونا چاہیے :
یا تو دونوں ہی فرض ہونے چاہییں
یا دونوں ہی جائز ہونے چاہییں
نہ آپ کا موقف پہلا ہے نہ دوسرا ۔ بلکہ آپ کا کہنا ہے کہ مبین ( فعل رسول ) کا حکم تو فرض کا ہے ، البتہ بیان ( فعل صحابی ) جواز کا حکم رکھتا ہے ۔