• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دجال مدینہ کے مشرق میں کسی جزیرے میں قید ہے کیا یہ حدیث صحیح ہے

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45

7386 . حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ كِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَاللَّفْظُ لِعَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ ذَكْوَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ شَعْبُ هَمْدَانَ أَنَّهُ سَأَلَ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ وَكَانَتْ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ فَقَالَ حَدِّثِينِي حَدِيثًا سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُسْنِدِيهِ إِلَى أَحَدٍ غَيْرِهِ فَقَالَتْ لَئِنْ شِئْتَ لَأَفْعَلَنَّ فَقَالَ لَهَا أَجَلْ حَدِّثِينِي فَقَالَتْ نَكَحْتُ ابْنَ الْمُغِيرَةِ وَهُوَ مِنْ خِيَارِ شَبَابِ قُرَيْشٍ يَوْمَئِذٍ فَأُصِيبَ فِي أَوَّلِ الْجِهَادِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا تَأَيَّمْتُ خَطَبَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَوْلَاهُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَكُنْتُ قَدْ حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ أُسَامَةَ فَلَمَّا كَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أَمْرِي بِيَدِكَ فَأَنْكِحْنِي مَنْ شِئْتَ فَقَالَ انْتَقِلِي إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ وَأُمُّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ غَنِيَّةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ عَظِيمَةُ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَنْزِلُ عَلَيْهَا الضِّيفَانُ فَقُلْتُ سَأَفْعَلُ فَقَالَ لَا تَفْعَلِي إِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ كَثِيرَةُ الضِّيفَانِ فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَنْكِ خِمَارُكِ أَوْ يَنْكَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَيْكِ فَيَرَى الْقَوْمُ مِنْكِ بَعْضَ مَا تَكْرَهِينَ وَلَكِنْ انْتَقِلِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فِهْرٍ فِهْرِ قُرَيْشٍ وَهُوَ مِنْ الْبَطْنِ الَّذِي هِيَ مِنْهُ فَانْتَقَلْتُ إِلَيْهِ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي سَمِعْتُ نِدَاءَ الْمُنَادِي مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنْتُ فِي صَفِّ النِّسَاءِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ ثُمَّ قَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ إِنِّي وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْ مَسِيحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِهِمْ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَتَّى مَغْرِبِ الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبْ السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقَالُوا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَأَشَدُّهُ وِثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ قُلْنَا وَيْلَكَ مَا أَنْتَ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ قَالُوا نَحْنُ أُنَاسٌ مِنْ الْعَرَبِ رَكِبْنَا فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا ثُمَّ أَرْفَأْنَا إِلَى جَزِيرَتِكَ هَذِهِ فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يُدْرَى مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقُلْنَا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قُلْنَا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ اعْمِدُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْهَا وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً فَقَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ يُثْمِرُ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ لَا تُثْمِرَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِيهَا مَاءٌ قَالُوا هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ قَالَ أَمَا إِنَّ مَاءَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ قَالُوا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءٌ وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاءِ الْعَيْنِ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ وَأَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ قَالَ أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنْ الْعَرَبِ وَأَطَاعُوهُ قَالَ لَهُمْ قَدْ كَانَ ذَلِكَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنِّي أُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ أَلَا هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَعَنْ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّأْمِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ قَالَتْ فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

حکم : صحیح

ابن بریدہ نے ہمیں حدیث بیان کی،کہا:مجھے عامر بن شراحیل شعبی نے جن کا تعلق شعب ہمدان سے تھا،حدیث بیان کی ،انھوں نے ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ سید ہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا،وہ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(بلاواسطہ) سنی ہو۔وہ بولیں کہ اچھا، اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ جوانوں میں سے تھے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلے ہی جہاد میں شہید ہو گئے۔ جب میں بیوہ ہو گئی تو مجھے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے چند کے ساتھ آ کر نکاح کا پیغام دیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولیٰ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لئے پیغام بھیجا۔ اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث سن چکی تھی کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے، اس کو چاہئے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اس بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ میرے کام کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں نکاح کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر چلی جاؤ اور ام شریک انصار میں ایک مالدار عورت تھی اور اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتی تھیں، اس کے پاس مہمان اترتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت اچھا، میں ام شریک کے پاس چلی جاؤں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام شریک کے پاس مت جا اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تیری اوڑھنی گر جائے یا تیری پنڈلیوں پر سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے بدن میں سے وہ دیکھیں جو تجھے برا لگے گا۔ تم اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ بن عمرو ابن ام مکتوم کے پاس چلی جاؤ اور وہ بنی فہر میں سے ایک شخص تھا اور فہر قریش کی ایک شاخ ہے اور وہ اس قبیلہ میں سے تھا جس میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ پھر سیدہ فاطمہ نے کہا کہ میں ان کے گھر میں چلی گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی تھا، وہ پکار رہا تھا کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ صحابہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا، بلکہ اس لئے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے، پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے (یعنی جلدی) دیر میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو (یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا)، تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے، لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی، پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے، پس ہمیں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا، ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ وہ بولا کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امییّن کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا رہے؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں، سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ خبردار رہو! بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟ تو اصحاب نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمیم رضی اللہ عنہ کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔ خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے (مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی ہے۔



اس حدیث کو حدیث الجساسہ کہا جاتا ہے یعنی جاسوس والی حدیث

عرب محقق دکتور حاكم المطيري کی تحقیق کے ساتھ کتاب
٢٠٠٩ چھپی ہے جس میں اس روایت کو معلول کہا گیا ہے اس میں اس کے تمام طرق جمع کیے گئے ہیں

صراط الہدا فورم پرایک بھائی جن کی آئ ڈ ی منہج سلف ہے انہوں نے علوم و اصول محدثین کے سیکشن میں ایک تھریڈ بنایا ہے جس میں اصطلاحات محدثین لکھی ہیں - اس میں وہ معلول یا معلّل کی تعریف میں لکھتے ہیں

وہ حدیث جو بظاہر مقبول معلوم ہوتی ہو لیکن اس میں ایسی پوشیدہ علت یا عیب پایا جائے جو اسے غیر مقبول بنادے- ان عیوب و علل کا پتہ چلانا ماہرین فن ہی کا کام ہے، ہر شخص کے بس کی بات نہیں

اور اردو مجلس فورم میں کارتوس خان بھائی حدیث کی اصطلاحات میں لکھتے ہیں کہ

معلل اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی ایسی علت کا پتہ چلے جس سے حدیث میں قدح وار ہوجاتی ہو۔
حدیث کی علت معلوم کرنے کے لئے وسعت علم وقت حافظہ فہم دقیق کی ضرورت ہے اس لئے کہ علت ایک پوشیدہ چیز ہے جس کا پتہ بسا اوقات علوم حدیث میں مہارت رکھنے والوں کو بھی نہیں چلتا۔

سوال یہ ہے کہ اس روایت کو معلول کیوں کہا گیا - کیا اس میں ایسی پوشیدہ علت یا عیب پایا جاتا ہے جو اسے غیر مقبول بنا دے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس روایت کو معلول کہا گیا ہے اس میں اس کے تمام طرق جمع کیے گئے ہیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
جناب تمیم الداری رضی اللہ عنہ سے مروی جساسہ والی یہ حدیث بالکل صحیح ہے ،
اسی لئے امام مسلم ؒ نے اسے اپنی صحیح میں نقل فرمایا ہے ، اور ان کے علاوہ دیگر عظیم محدثین نے بھی اسے اپنے کتب میں روایت کیا ہے ،
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۔۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۔۔ میں سیدنا تمیم داری ؓ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
كان نصرانيا، وقدم المدينة فأسلم، وذكر النبي صلّى اللَّه عليه وسلم قصة الجساسة والدجال،
فحدّث النبي صلّى اللَّه عليه وسلم عنه بذلك على المنبر وعدّ ذلك من مناقبه.
قال ابن السّكن: أسلم سنة تسع ‘‘

یعنی جناب تمیم الداری رضی اللہ عنہ پہلے نصرانی تھے ، پھر مدینہ منورہ آئے اور(؁۹ ھ )سلام قبول کیا ،
انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ’’ جساسہ ‘‘ کا قصہ بیان کیا ، پھر نبی مکرم ﷺ نے ان کا بیان کردہ یہ قصہ منبر پر بیٹھ کر دوسرے صحابہ کو سنایا
اور اس واقعہ کو جناب تمیم الداری رضی اللہ عنہ کے مناقب (مدح و تعریف ) قرار دیا ، (الاصابہ جلد اول ص 488 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح مسلم کے مشہور شارح امام النوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
هذا معدود في مناقب تميم لأن النبي صلى الله عليه وسلم روى عنه هذه القصة وفيه رواية الفاضل عن المفضول ورواية المتبوع عن تابعه وفيه قبول خبر الواحد قوله صلى الله عليه وسلم ۔۔۔۔
یعنی یہ حدیث
جناب تمیم الداری رضی اللہ عنہ کے مناقب میں سے ایک ہے ،
کیونکہ ان سے یہ قصہ روایت کیا ہے ( یعنی جناب تمیم نے بنی کریم ﷺ کو یہ قصہ بتایا ،اور آپ ﷺ نے ان سے سن کر آگے دوسروں کو نقل فرمایا ) اور ( نبی اکرم ﷺ کا ایک صحابی سے نقل کرنے سے ) فاضل کا مفضول سے اور تابع کا متبوع سے روایت نقل کرنا ثابت ہوتا ہے ،
اور یہ روایت خبر واحد کے مقبول و حجت ہونے کی دلیل ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس حدیث کے صحیح ہونے کیلئے اتنا ہی کافی تھا کہ اسے امام مسلم نے صحیح مسلم میں بالاسناد روایت کیا ، لیکن اس حدیث کو مسلم کے ساتھ دیگر
ائمہ کرام نے رواه غير مسلم الإمام أحمد ، و أبو يعلى ، و أبو داود ، و ابن ماجه ، بھی روایت کیا ہے ،
اور عصر حاضر کے نامور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اعلم أن هذه القصة صحيحة - بل متواترة - لم ينفرد بها تميم الداري كما يظن بعض الجهلة من المعلقين على (النهاية) لابن كثير ‘‘(قصة المسيح الدجال ونزول عيسى )
یعنی سیدنا تمیم داری ؓ کا بیان یہ قصہ بالکل صحیح بلکہ متواتر ہے ، اسے بیان کرنے میں تمیم ؓ اکیلے نہیں ،جیسا کہ بعض جاہلوں نے اپنی جہالت کے سبب یہ گمان کرلیا ہے ‘‘
خلاصہ یہ کہ یہ حدیث یقیناً صحیح ہے ،
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
@اسحاق سلفی بھائی الله آپ کو جزایۓ خیر دے - آپ نے علمی جواب دیا - لیکن کچھ الفاظ مناسب نہیں ہیں کیوں کہ ان الفاظ کی زد میں
عرب محقق دکتور حاكم المطيري بھی آتے ہیں - میرا سوال ان کی ہی تحقیق کے متعلق تھا - دکتور حاکم المطیری کی تحقیق میں کیا غلطیاں ہیں - وہ بھی ایک محقق ہیں - باقی آپ نے ایک علمی جواب دیا - اور میں آپ کے جواب کی قدر کرتا ہوں -

آپ نے لکھا کہ
اور عصر حاضر کے نامور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اعلم أن هذه القصة صحيحة - بل متواترة - لم ينفرد بها تميم الداري كما يظن بعض الجهلة من المعلقين على (النهاية) لابن كثير ‘‘(قصة المسيح الدجال ونزول عيسى )
یعنی سیدنا تمیم داری ؓ کا بیان یہ قصہ بالکل صحیح بلکہ متواتر ہے ، اسے بیان کرنے میں تمیم ؓ اکیلے نہیں ،جیسا کہ بعض جاہلوں نے اپنی جہالت کے سبب یہ گمان کرلیا ہے ‘‘
خلاصہ یہ کہ یہ حدیث یقیناً صحیح ہے ،
آپ نے علامہ البانی رحمہ الله کے الفاظ لکھے اور وہ اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں - میرے بھائی دوسری طرف آپ کہ رہے ہیں کہ

اور اس حدیث کے صحیح ہونے کیلئے اتنا ہی کافی تھا کہ اسے امام مسلم نے صحیح مسلم میں بالاسناد روایت کیا
تو بھائی کیا امام مسلم کا اپنی صحیح میں یا امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث دینا کافی ہے کہ وہ صحیح ہے -

علامہ البانی رحمہ الله صحیحین کی کئی احادیث کو ضعیف بھی کہہ چکے ہیں
قصہ مختصر سوال آپ سے

عرب محقق دکتور حاكم المطيري کی تحقیق کے متعلق ہے -
٢٠٠٩ چھپی ہے جس میں اس روایت کو معلول کہا گیا ہے اس میں اس کے تمام طرق جمع کیے گئے ہیں-

دکتور حاکم المطیری کی تحقیق میں کیا غلطیاں ہیں -

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تو بھائی کیا امام مسلم کا اپنی صحیح میں یا امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث دینا کافی ہے کہ وہ صحیح ہے -
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں :
قال: ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا إنما وضعت ها هنا ما أجمعوا عليه ‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ )
تمام وہ احادیث جو میرے نزدیک صحیح ہیں ان کو میں نے اپنی اس کتاب میں نہیں لکھا ، بلکہ میں نے اس کتاب میں وہ احادیث لکھی ہیں جو متفقہ طور پر صحیح ہیں۔‘‘
یعنی صحیح مسلم کی تمام احادیث نہ صرف صحیح ہیں ، بلکہ اس سے بڑھ کر ان کے صحیح ہونے پر امام مسلمؒ کے دور تک محدثین کا اتفاق ہے ،
اور اندلس کے عظیم محدث اور امام ابن حزم ظاہری کے شاگرد الامام أبو عبد الله محمد بن أبي نصر الحميدي، الأندلسي؛ (المتوفی 488 ھ)
فرماتے ہیں :
((لَمْ نجدْ مِنَ الأئمَّةِ الماضينَ رضيَ اللهُ عنهُم أجمعينَ مَنْ أفصَحَ لنا في جميعِ ما جمَعَهُ بالصِّحَّةِ إلاَّ هذينِ الإمامَيْنِ))
(مقدمۃ ابن الصلاح ، نیز دیکھئے :
الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم )
''ہم نے پچھلے ائمہ میں سے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ و امام مسلم رحمة اللہ علیہ کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ اس کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں ۔''

اور اصول حدیث کے بے مثال امام أبوعمرو تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643 ھ) اپنی معروف کتاب (معرفة أنواع علوم الحديث ) میں فرماتے ہیں :
وكتاباهما أصح الكتب بعد كتاب الله العزيز (مقدمة ابن الصلاح )
یعنی
امام بخاری رحمة اللہ علیہ و امام مسلم رحمہ اللہ دونوں کی کتابیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہیں ‘‘

اور صحیح مسلم کے مشہور مستند شارح امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676 ھ) فرماتے ہیں :
وكتاباهما أصح الْكتب بعد كتاب الله الْعَزِيزقَالَ النَّوَوِيّ بِاتِّفَاق الْعلمَاء (النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي)
یعنی :​
امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ دونوں کی کتابیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) باتفاق علماء قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسے بے شمار حوالے اور ائمہ کرام کے بیانات اصول حدیث اور شروح الحدیث کی کتابوں میں موجود ہیں ، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ
صحیحین ( صحیح بخاری و صحیح مسلم ) کی تمام مسند احادیث نہ صرف صحیح بلکہ سب سے زیادہ صحیح ہیں ،
اور امت مسلمہ کے ان معروف ائمہ حدیث کے اتفاق و اجماع کے بعد ۔۔ کسی کے اعتراض کی کوئی حیثیت ۔۔نہیں ،
حاکم المطیری بے چارہ کیا چیز ہے محض ایک دکتورہ کا حامل پروفیسر ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
دکتور حاکم المطیری کی تحقیق میں کیا غلطیاں ہیں
آپ نے میرا جواب مکمل پڑھا ہی نہیں ،ورنہ دوبارہ یہ سوال ہی نہ کرتے ۔
میں نے اس حدیث شریف کے متعلق دو عظیم ائمہ حدیث کا بیان نقل کیا تھا ، امام ابن حجر عسقلانی ؒ اور امام النوویؒ
اگر اس روایت میں کوئی بھی علت قادحہ ہوتی تو یہ دو عظیم محدث اس علت کو بیان کئے بغیر نہ رہتے ، اور اس حدیث کو جناب تمیم الداریؓ کی فضیلت و شان کی دلیل نہ بناتے ،
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۔۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۔۔ میں سیدنا تمیم داری ؓ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
كان نصرانيا، وقدم المدينة فأسلم، وذكر النبي صلّى اللَّه عليه وسلم قصة الجساسة والدجال،
فحدّث النبي صلّى اللَّه عليه وسلم عنه بذلك على المنبر وعدّ ذلك من مناقبه.
قال ابن السّكن: أسلم سنة تسع ‘‘
یعنی جناب تمیم الداری رضی اللہ عنہ پہلے نصرانی تھے ، پھر مدینہ منورہ آئے اور(؁۹ ھ )سلام قبول کیا ،
انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ’’ جساسہ ‘‘ کا قصہ بیان کیا ، پھر نبی مکرم ﷺ نے ان کا بیان کردہ یہ قصہ منبر پر بیٹھ کر دوسرے صحابہ کو سنایا
اور اس واقعہ کو جناب تمیم الداری رضی اللہ عنہ کے مناقب (مدح و تعریف ) قرار دیا ، (الاصابہ جلد اول ص 488 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح مسلم کے مشہور شارح امام النوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
هذا معدود في مناقب تميم لأن النبي صلى الله عليه وسلم روى عنه هذه القصة وفيه رواية الفاضل عن المفضول ورواية المتبوع عن تابعه وفيه قبول خبر الواحد قوله صلى الله عليه وسلم ۔۔۔۔
یعنی یہ حدیث
جناب تمیم الداری رضی اللہ عنہ کے مناقب میں سے ایک ہے ،
کیونکہ ان سے یہ قصہ روایت کیا ہے ( یعنی جناب تمیم نے بنی کریم ﷺ کو یہ قصہ بتایا ،اور آپ ﷺ نے ان سے سن کر آگے دوسروں کو نقل فرمایا ) اور ( نبی اکرم ﷺ کا ایک صحابی سے نقل کرنے سے ) فاضل کا مفضول سے اور تابع کا متبوع سے روایت نقل کرنا ثابت ہوتا ہے ،
اور یہ روایت خبر واحد کے مقبول و حجت ہونے کی دلیل ہے ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس حدیث کے صحیح ہونے پر امام المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ گواہی ملاحظہ فرمائیں ،جو سب سے بھاری ہے ، اسے معتبر ترین امام ترمذی نے ’’ العلل الکبیر ‘‘ میں نقل فرمایا ہے :
سألت محمدا عن هذا الحديث: يعني: حديث الجساسة، فقال: يرويه الزهري عن أبي سلمة , عن فاطمة ابنة قيس
607 - قال محمد: وحديث الشعبي عن فاطمة بنت قيس , في الدجال هو حديث صحيح )

یعنی امام ترمذی فرماتے ہیں :
میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری سے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی جساسہ اور دجال کے متعلق حدیث کے پوچھا (کہ صحیح ہے یا نہیں ؟)
فرمایا : وہ حدیث صحیح ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں :
قال: ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا إنما وضعت ها هنا ما أجمعوا عليه ‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب الصلاۃ )
تمام وہ احادیث جو میرے نزدیک صحیح ہیں ان کو میں نے اپنی اس کتاب میں نہیں لکھا ، بلکہ میں نے اس کتاب میں وہ احادیث لکھی ہیں جو متفقہ طور پر صحیح ہیں۔‘‘
یعنی صحیح مسلم کی تمام احادیث نہ صرف صحیح ہیں ، بلکہ اس سے بڑھ کر ان کے صحیح ہونے پر امام مسلمؒ کے دور تک محدثین کا اتفاق ہے ،
اور اندلس کے عظیم محدث اور امام ابن حزم ظاہری کے شاگرد الامام أبو عبد الله محمد بن أبي نصر الحميدي، الأندلسي؛ (المتوفی 488 ھ)
فرماتے ہیں :

((لَمْ نجدْ مِنَ الأئمَّةِ الماضينَ رضيَ اللهُ عنهُم أجمعينَ مَنْ أفصَحَ لنا في جميعِ ما جمَعَهُ بالصِّحَّةِ إلاَّ هذينِ الإمامَيْنِ))
(مقدمۃ ابن الصلاح ، نیز دیکھئے :
الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم )
''ہم نے پچھلے ائمہ میں سے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ و امام مسلم رحمة اللہ علیہ کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ اس کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں ۔''

اور اصول حدیث کے بے مثال امام أبوعمرو تقي الدين المعروف بابن الصلاح (المتوفى: 643 ھ) اپنی معروف کتاب (معرفة أنواع علوم الحديث ) میں فرماتے ہیں :
وكتاباهما أصح الكتب بعد كتاب الله العزيز (مقدمة ابن الصلاح )
یعنی
امام بخاری رحمة اللہ علیہ و امام مسلم رحمہ اللہ دونوں کی کتابیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہیں ‘‘

اور صحیح مسلم کے مشہور مستند شارح امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676 ھ) فرماتے ہیں :
وكتاباهما أصح الْكتب بعد كتاب الله الْعَزِيزقَالَ النَّوَوِيّ بِاتِّفَاق الْعلمَاء (النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي)
یعنی :​
امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ دونوں کی کتابیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) باتفاق علماء قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسے بے شمار حوالے اور ائمہ کرام کے بیانات اصول حدیث اور شروح الحدیث کی کتابوں میں موجود ہیں ، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ
صحیحین ( صحیح بخاری و صحیح مسلم ) کی تمام مسند احادیث نہ صرف صحیح بلکہ سب سے زیادہ صحیح ہیں ،
اور امت مسلمہ کے ان معروف ائمہ حدیث کے اتفاق و اجماع کے بعد ۔۔ کسی کے اعتراض کی کوئی حیثیت ۔۔نہیں ،
حاکم المطیری بے چارہ کیا چیز ہے محض ایک دکتورہ کا حامل پروفیسر ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعی بھائی
امت مسلمہ کے ان معروف ائمہ حدیث کے اتفاق و اجماع کے بعد
کسی کے اعترض کی ضرورت نہیں آپ کے بقول- لیکن ١٥ روایات جو صحیح بخاری کی ہیں البانی رحم الله ان کو




میں ضعیف قرار دیتے ہیں گویا کہ ان صحیح بخاری کی ١٥ روایات کے (أثرها السيئ في الأمة) امت پر برے اثرات ہوئے
.الضعيفة حديث رقم ) …. ( 1030من استطاع منكم أن يطيل غرته
.الضعيفة حديث رقم )…( 1052لما نـزل عليـه الـوحي يريـد أن يلقـي بنفـسه
.الضعيفة حديث رقم)..(1299إن العبد ليتكلم بالكلمة
. الضعيفة حديث رقم)…(3364إذا أعتق الرجل أمته
. الضعيفة حديث رقم)..(4226كان له فرس الظرب
. الضعيفة حديث رقم) (4835إن هاتين الصلاتين
. الضعيفة حديث رقم) (4839قضى في ابن الملاعنة
. الضعيفة حديث رقم)(4992نعم وأبيك لتنبأن
الضعيفة حديث رقم) (5036لا يسبغ عبد الوضوء
– الضعيفة حديث رقم)(6763ثلاثة أنا خصمهم
– الضعيفة حديث رقم)(6945بينما أنا قائم خرج رجل همل النعم
– الضعيفة حديث رقم)(6947إذا وسد الأمر فانتظر الساعة
– الضعيفة حديث رقم)(6949إن كان عندك ماء بات في شنة
– الضعيفة حديث رقم)(6950أن رجلا من أهل الجنة استأذن ربه
– الضعيفة حديث رقم) ( 6959لا عقوبة فـوق عـشر ضـربات

البانی رحمہ الله نے صحیح مسلم کی کئی روایات کو بھی ضعیف کہا ہے




لا يشربن أحد منكم قائما ، فمن نسي فليستقئ )) رواه

مسلم 116 (2026) .

قال الألباني في الضعيفة ( 2 / 326 ) : ( منكر بهذا اللفظ ،

أخرجه مسلم في صحيحه من طريق عمر بن حمزة ) .
5- (( إن من شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة الرجل يفضي

إلى امرأته وتفضي إليه ثم ينشر سرها))
رواه مسلم 123 (1437) ،
قال الألباني في ضعيف الجامع ( 2/192 ) : ( ضعيف ، رواه مسلم )
وكذا ضعفه في إرواء الغليل ( 7/74 – 75 ) ،

وفي غاية المرام ( ص150 ) ،

وكذلك في مختصر صحيح مسلم تعليق ( 150 ) ،

و في آداب الزفاف ( 142 ) .

6- حديث (( إني لأفعل ذلك أنا وهذه ثم نغتسل ))

يعني الجماع دون إنزال رواه مسلم 89 (350) .
قال في الضعيفة ( 2/406 – 407 ) : ( ضعيف مرفوعا ) .

إلى أن قال :( وهذا سند ضعيف له علتان : الأولى عنعنة أبي

الزبير ؛ فقد كان مدلسا … إلخ ،

الثانية ضعف عياض بن عبدالرحمن الفهري المدني …) إلخ .

7- (( لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن تتعسر عليكم فتذبحوا جذعة من

الضأن ))رواه مسلم رقم 13 (1963) .
قال الألباني : ( رواه أحمد ومسلم و… و… ضعيف )

انظر ضعيف الجامع ( 6/64 ) .
وكذلك ضعفه في إرواء الغليل برقم ( 1131 ) ،

وكذلك في الأحاديث الضعيفة ( 1/91 ) . وقال هناك بعد كلام : (

ثم بدا لي أني كنت واهما في ذلك تبعا للحافظ ، وأن هذا الحديث

الذي صححه هووأخرجه مسلم كان الأحرى به أن يحشر في زمرة

الأحاديث الضعيفة … إلخ ) .

8- (( إذا قام أحدكم من الليل فليفتتح صلاته بركعتين خفيفتين )

رواه مسلم198 (768) .

قال الألباني في ضعيف الجامع ( 1/213 ) :( رواه أحمد ومسلم ،

ضعيف ) .

9- (( لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا تماثيل ))رواه مسلم 87

(2106) .
قال الألباني في غاية المرام ( ص104 ) :( صحيح دون قول عائشة

( لا) فإنه شاذ أو منكر ).
10- حديث : ( أنتم الغر المحجلون يوم القيامة ، من إسباغ الوضوء ،

فمن استطاع منكم فليطل غرته وتحجيله )
رواه مسلم
قال الالباني في ( ضعيف الجامع وزيادته )
( 14 / 2 برقم 1425 ) : رواه مسلم عن أبي هريرة ( ضعيف بهذا

التمام ) .12- حديث :

( من قرأ العشر الاواخر من سورة الكهف عصم من فتنة الدجال ) .
قال الالباني في ( ضعيف الجامع وزيادته ) ( 5 / 233 برقم 5772 ) :

رواه أحمد ومسلم والنسائي عن أبي الدرداء( ضعيف )

حديث ” إن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في كسوف

ثماني ركعات في أربع سجدات …”
اخرجه مسلم
قال الألباني في إرواء الغليل (3/129) ما نصه : ضعيف وإن أخرجه

مسلم ومن ذكره معه وغيرهم .

لیکن کوئی بات نہیں
امت مسلمہ کے معروف ائمہ حدیث کے اتفاق و اجماع کے بعد ۔۔ کسی کے اعتراض کی کوئی حیثیت ۔۔نہیں
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
صحیح مسلم کے مشہور مستند شارح امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676 ھ) فرماتے ہیں :

وكتاباهما أصح الْكتب بعد كتاب الله الْعَزِيزقَالَ النَّوَوِيّ بِاتِّفَاق الْعلمَاء (النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي)
یعنی :​
امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ دونوں کی کتابیں (صحیح بخاری و صحیح مسلم ) باتفاق علماء قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ صحیح ہیں ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی یہاں پر تو آپ شارح امام أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676 ھ) کی بات کو پیش کر رہے ہیں جو انہوں نے صحیحین کی صحت کے بارے میں کی- لیکن اسی کتاب شرح صحيح مسلم ميں لکھتے ہيں
جمہور علماء کے نزديک وہ زندہ ہيں اور ہمارے ساتھ موجود ہيں اور يہ بات صوفيہ اور أَهْلِ الصَّلَاحِ وَالْمَعْرِفَةِ ميں متفق ہے

اور اس کا ذکر

کتاب شذرات الذهب في أخبار من ذهب از ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) میں بھی ہے

قيل: كان ملكا وقيل بشرا وهو الصحيح، ثم قيل: إنه عبد صالح ليس بنبيّ وقيل: بل نبيّ هو الصحيح. والصحيح عندنا أنه حيّ، وأنه يجوز أن يقف على باب أحدنا مستعطيا له، أو غير ذلك.


کہا جاتا ہے وہ (خضر) فرشتہ تھے اور کہا جاتا ہے بشر تھے اور يہ صحيح ہے پھر کہا جاتا ہے کہ وہ ايک صالح بندے تھے نبي نہيں تھے اور يہ صحيح ہے اور ہمارے نزديک يہ صحيح ہے کہ وہ زندہ ہيں اور يہ بھي جائز ہے کہ کسي کے در پر رکيں اور ديں يا اسي طرح ديگر


محدث ابن الصلاح المتوفي 643 ھ (بحوالہ فتح الباري از ابن حجر) کہتے ہيں

وَقَالَ بن الصَّلَاحِ هُوَ حَيٌّ عِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ

خضر جمہور علماء کے نزديک اب بھي زندہ ہيں


لیکن یہ بات محدث فورم پر قبول نہیں کی جا رہی - @محمد عامر یونس بھائی


شیخ محمد صالح المنجد کا فتویٰ لکھ کر اس بات کو رد کر رہے ہیں -

اب ایک اجماع قبول تو دوسرا کیوں نہیں

اور

میں لکھا ہے کہ

جمہور کا اس بارے میں یہ مذہب ہے کہ اجماع حجت ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا واجب ہے۔ اس مسئلہ میں نظام طوسی، شیعہ اور خوارج نے جمہور کی مخالفت کی ہے۔

کیا یہ اجماع کا انکار نہیں -

کسی پر تنقید کرنا مقصد نہیں - لیکن اگر اجماع حجت ہے تو کچھ قبول اور کچھ کا انکار کیوں -
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
غالباً@وجاہت صاحب کو منقول اجماع، ثابت اجماع اور جمہور کے اتفاق اور ان کے مقبول ومردود ہونے کی تفصیل کا علم نہیں، اور صاحب ہر منقول اجماع کو ثابت گمان کرتے ہوئے اس کے برخلاف کو ثابت اجماع کے خلاف سمجھے ہوئے ہیں، اور جمہور کے مؤقف کو بھی غالباً اجماع ہی سمجھ بیٹھے ہیں!
شیخ رفیق طاہر کا مؤقف آپ کو غالباً معلوم نہیں! کبھی موقع ملے تو معلوم کر لیجئے گا، وہ اجماع کو نادر الوجود قرار دیتے ہیں! اور یہ بات اسلاف سے بھی منقول ہے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کسی کے اعترض کی ضرورت نہیں آپ کے بقول- لیکن ١٥ روایات جو صحیح بخاری کی ہیں البانی رحم الله ان کو
سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة

میں ضعیف قرار دیتے ہیں گویا کہ ان صحیح بخاری کی ١٥ روایات کے (أثرها السيئ في الأمة) امت پر برے اثرات ہوئے
علامہ البانی نے صحیحین کی احادیث پر نقد کیا ہے یا نہیں ، اور اگر کیا ہے تو نقد کی نوعیت اور مقاصد کیا ہیں ، یہ خالص علمی اور تفصیل طلب موضوع ہے،
ایک عام اور سچے مومن کیلئے صحیحین کے متعلق جتنا جاننا ضروری اور مفید ہے وہ ہم نے اوپر بیان کردیا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کو اس موضوع پر واقعی علمی بحث مطلوب ہے تو ہمیں آپ کا تعارف ہونا ضروری ہے
آپ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں بلا تامل اس کی وضاحت کردیں ،جھجھکنے ،شرمانے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اسلئے ضروری ہے کہ
ہم وہی بات پیش کریں جو آپ کے نزدیک ’’ معتبر و معتمد ‘‘ ہو ۔ کیونکہ صحیحین پر تو آپ سوالیہ نشان لگاچکے ۔
دوسرا یہ کہ :
آپ کی علمی حیثیت کیا ہے (یعنی اصول و متون کو باقاعدہ پڑھا ،سیکھا ہے یا نہیں ) تاکہ معلوم ہو کہ ہر دو ’’ مصطلح ‘‘ کو سمجھ سکتے ہیں یا نہیں
کیونکہ ۔۔ رحم اللہ ۔۔ کسی اور چیز کی غمازی کررہا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top