سوال یہ ہے کہ نظام سے کیا مراد ہے؟؟اگر تو کسی بھی شعبے کی تمام تر جزئیات اور تفصیلات کا نام ہی نظام ہے تو بے شبہ اسلام میں تمام جزئیات الفاظ کی صورت میں موجود نہیں البتہ بالقوہ وہ بھی موجود ہیں لیکن انھیں اجتہاد و استنباط سے معلوم کیا جاتا ہے اسی لیے ان میں ارباب علم و فقہ کا اختلاف بھی ہو جاتا ہے۔لیکن اساسی و اصولی تعلیمات اسلام نے بہ صراحت دی ہیں جن سے پورا نظام تشکیل پاتا ہے؛بنا بریں یہ قول علی الاطلاق درست نہیں کہ اسلام نے نظام نہیں دیا بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام نے نظام کی بعض تفصیلات اجتہاد و تفقہ اور حکمت و مصلحت پر چھوڑ دی ہیں۔عصر حاضر کے ارباب علم و فکر کے عرف میں بھی اسی کی جھلک ملتی ہے مثلا اسلام کا سیاسی نظام؛اسلام کا اقتصادی نظام؛اسلام کا اخلاقی نظام؛اسلام کا نظام عفت و عصمت وغیرہ عناوین سے علماے اسلام کی کتابیں موجود ہیں؛کیا انھیں یہ نکتہ معلوم نہ تھا کہ اسلام نے تو کوئی (اجتماعی)نظام دیا ہی نہیں؟؟پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اجتماعی مسائل سے متعلق اسلام کے نظاموں کی نفی کا اسلوب سیکولر طبقوں کا شعار ہے فلہذا تعبیر میں محتاط رہنا چاہیے کہ اہل بدعت کی مشابہت سے گریز ہی بہتر ہے مبادا باطل پسندوں کو اپنے غلظ نظریات کی ترویج کا موقع مل جائے۔واللہ اعلم