• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درسِ قرآن۔ سورة الفاتحہ

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
صِرَاطَ ۔ الّذِیْنَ ۔ اَنْعَمْتَ ۔ عَلَیْ ۔ ھِمْ۔

راستہ ۔ اُن لوگوں کا ۔ تو نے انعام کیا۔ پر ۔ وہ ۔

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام کیا

اس سے پہلی آیہ میں ہم نے الله تعالی سے دُعا کی تھی ۔ کہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھلائے ۔ اب سیدھی راہ کی مزید تشریح اس آیہ مبارکہ میں کی گئی ہے ۔ مکمل تعلیم اور ہدایت کی ساری کی ساری باتیں قرآن مجید میں آ گئی ہیں ۔ الله تعالی نے اپنے فضل وکرم سے ہدایتوں کے عملی نمونے بھی انسانوں میں کثرت سے بھیج دئیے ۔ تاکہ ان کی پاکیزہ زندگی سامنے رکھ کر صراط مستقیم پر چلنا ہمارے لئے اور آسان ہو جائے ۔ چنانچہ ہمیں دُعا سکھائی ۔ کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلائے ۔ جن پر الله تعالی نے انعام نازل فرمائے ۔
ان انعام یافتہ لوگوں کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ نساء کی آیہ 69 میں موجود ہے ۔ اس آیہ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے

" اُن لوگوں کے ساتھ جن پر الله تعالی نے انعام کیا ۔ یعنی نبی ، صدیق ، شہید اور صالح اور ان کی رفاقت کیسی اچھی ہے "

نبی ۔۔۔ اس محترم شخصیت کو کہتے ہیں جسے الله تعالی نے اپنا پیغام بندوں تک پہنچانے کے لئے چُن لیا ہو ۔ نبی کی تعلیم میں کسی غلطی کا امکان نہیں ہوتا ۔ وہ ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ اور معصوم ہوتا ہے ۔ بے شمار انبیاء علیھم السلام کی زندگی کے واقعات قرآن مجید میں کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ نبیوں کی اس پاکیزہ جماعت کے سب سے بڑے سردار ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم ہیں ۔ آپ کی مبارک سیرت کی ایک ایک بات محفوظ ہے ۔ اور ہر بات کی پیروی ہماری زندگی میں کامیابی اورآخرت میں نجات کا باعث ہے ۔

صدیق ۔۔۔ انبیاء کے بعد دوسرے درجے پر ہیں ۔ یہ لوگ نبیوں کی تعلیمات کے ذریعے بڑے اُونچے مرتبہ پر پہنچتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ صدیق اکبر کہلائے ۔

شھداء ۔۔۔ وہ بزرگ کہلاتے ہیں جن پر نبیوں کی تعلیم کا ایک خاص اثر پڑتا ہے ۔ ان کو ثواب اور الله کے وعدوں کا پورا یقین ہوتا ہے ۔ اور وہ یہاں تک آمادہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی جان تک کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ ان لوگوں کو الله تعالی ہمیشہ کی زندگی عطا فرما دیتا ہے ۔

صالحین ۔۔۔ وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی پیروی ہر ممکن طریق سے کرتے ہیں ۔ یہ سبھی لوگ اپنے اپنے درجہ میں بعد میں آنے والوں کے لئے نمونہ کا کام دیتے ہیں ۔
الله تعالی نے اس آیہ مبارکہ میں فرمایا ۔ کہ سیدھی اور درست راہ وہی ہے ۔ جس پر یہ انعام یافتہ لوگ چلے ۔ انھی کے نقشِ قدم پر چل کر کامیابیاں حاصل ہوں گی ۔
ان شاء الله تعالی
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
غَیْرِ ۔ الْمَغْضُوبِ ۔ عَلْیْ ۔ ھِمْ ۔ وَ ۔ لاَ ۔ الضَّالِیْنَ ۔ (۷)

نہ ۔ غضب کیا گیا ۔ پر ۔ وہ ۔ اور ۔ نہ ۔ گمراہ۔

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّا لِیْنَ (۷)

نہ اُن کا راستہ جن پر غضب کیا گیا اور نہ ہی گمراہوں کا ۔

سوره فاتحہ میں ہمیں یہ دُعا بتائی گئی ہے۔ کہ " اے ہمارے رب ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔ اُن لوگوں کی راہ پر جو دُنیا اور آخرت میں تیرے انعام کے مستحق ہوئے ۔ جن پر ہمیشہ تیری برکتیں نازل ہوتی رہیں ۔" اس آیہ مبارکہ میں بتایا یہ بھی دُعا کرو ۔ کہ " اے الله کریم ہمیں ان لوگوں کی راہ سے بچا جو مغضوب اور گمراہ ہوئے ۔"

مَغْضُوبٌ ۔۔۔( غضب سے ہے ) یعنی وہ لوگ جو اللہ کے غضب کا شکار ہوئے ۔ جن پر الله تعالی کا غصہ اور عذاب نازل ہوا ۔ جنہوں نے الله تعالی کے حکموں کی نافرمانی کی ۔ نبیوں کو جھٹلایا ۔ حق کو پہچان لینے کے بعد بھی اُس کو مٹانے کی کوشش کی ۔ جنہوں نے تیرے ڈراوے کی کوئی پرواہ نہ کی ۔اور جان بوجھ کر اپنے کاموں اور حرکتوں کی وجہ سے تیرے غصہ اور غضب کا نشانہ بنے۔

الضَّالِّین۔۔۔۔ ( گمراہ) اس سے مراد ایسے لوگ ہیں ۔ جو غلط راہ پر پڑ گئے ۔ یہ گمراہی اس طرح ہوتی ہے کہ ہدایت کے اسباب تو موجود ہیں ۔ مگر جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کیا جائے ۔ یہ بات کبھی کبھی ذاتی خواہش کی وجہ سے اخلاق اور روحانیت کو چھوڑ دینے سے ۔ کبھی مال ودولت کے لالچ کی وجہ سے ۔ کبھی بُری رسموں اور بُری عادتوں میں پڑ جانے سے اور کبھی بُری صحبت سے پیدا ہوجاتی ہیں ۔

مفسرینِ کرام فرماتے ہیں اَلْمَغْضُوبٌ عَلَیْھِمْ کی پوری مثال یہودی ہیں جو الله کے غضب کا شکار ہوئے ۔ وہ دنیا کے ذلیل مفاد کی خاطر دین کو قربان کرتے اور انبیاء علیھم السلام کی توہین کرتے تھے ۔ اور اس ظلم میں اس قدر بڑھ گئے کہ انھیں قتل کرنے سے نہ ڈرتے تھے ۔ یوں یہ آیہ مبارکہ اُن سب کے حق میں عام ہے جو شرارت اور ذاتی بُرائی کی وجہ سے سچائی کی مخالفت جان بوجھ کر کرتے رہے ۔ اور اُن پر الله کا عذاب آیا ۔
اور اَلضَّالِّین کی ظاہری مثال عیسائیوں کی ہے ۔ جو نا واقفیت اور جہالت کی وجہ سے غلط راستے پر پڑ گئے ۔ اور انبیاء علیھم السلام کی تعظیم میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ انھیں خُدا ہی بنا لیا ۔ اور شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ ان کے علاوہ جو بھی قوم حق کی راہ سے بھٹکے گی ۔ گمراہ کہلائے گی ۔اور الضَّالّین کی فہرست میں شامل ہو گی
ہم الله جلّ شانُہٗ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسے تمام لوگوں سے بچائے جن پر اُس کا غصہ اور غضب ہوا ۔ جو عملی غلطیوں کا شکار ہؤے ۔ اور جو سیدھی راہ سے بھٹک گئے ۔ اور عقیدے کی خرابی اور عمل کی بُرائی کا شکار ہوئے ۔
آمین ثمَّ آمین ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ فاتحہ کا خلاصہ


سورۃ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے ۔ جن میں سے پہلی تین آیتوں میں الله تعالی کی حمد وثناء ہے ۔ اور آخری تین آیتوں میں انسان کی طرف سے دُعا اور درخواست ہے ۔ جو الله رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے ۔ اور درمیان والی ایک آیہ میں دونوں باتیں ہیں ۔ کچھ حمد وثناء ہے اور کچھ درخواست اور دُعا
صحیح مسلم میں ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ۔
حق تعالی نے فرمایا کہ نماز یعنی سورۃ فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے ۔ آدھی میرے لئے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے ۔ اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا ۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ جب کہتاہے۔ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ
تو الله سبحانہُ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد کی ہے ۔ اور جب بندہ کہتا ہے ۔
اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیم ۔ تو الله جل شانہ فرماتے ہیں ۔میرے بندے نے میری تعریف اور ثناء بیان کی ہے ۔ ۔ اور جب بندہ کہتا ہے
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ تو الله کریم فرماتے ہیں ۔ یہ آیۃ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا ۔ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی ۔
پھر جب بندہ کہتا ہے ۔ اِھدِناَ الصِّرَاطَ الْمُستَقِیمَ ( آخر تک ) تو حق تعالی جل شانہ فرماتے ہیں یہ سب میرے بندے کے لئے ہے اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی ۔ (

در حقیقت سورۃ فاتحہ قرآن مجید کا خلاصہ یا دیباچہ ہے ۔ اس سورہ مبارکہ میں مختصر طور پر ان مضامین کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جن کا تفصیل سے ذکر قرآن مجید میں آئے گا ۔
جب ہم سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تو سب سے پہلے اس بات کا اقرار کرتے ہیں ۔ کہ تمام خوبیاں الله تعالی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ اس لئے ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے ۔ کہ جب وہ ہماری تمام ضرورتوں کا ضامن ہے تو ہمیں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے سیدھی راہ سے کبھی بھی ادھر اُدھر نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمیں چاہیے کہ دھوکہ ، فریب ، جھوٹ اور نا جائز ذرائع ہرگز استعمال نہ کریں ۔ جب ہماری ضرورتوں کا پورا ہونا یقینی اور اٹل ہے ۔ تو انہیں غلط طریقہ سے کیوں پورا کیا جائے ۔
وہ رحمن ورحیم اپنی بے حساب رحمت سے اس کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑی سے بڑی ہستی پر اپنی رحمتوں کی بارش برساتا ہے ۔ ہر بُرے بھلے مومن وکافر کی ضرورتوں کو پورا فرماتا ہے ۔ اس کی رحمت کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ ہمیں اس بات کا یقین اپنے اندر اُتارنا ہے ۔
وہ حساب و کتاب کے دن کا مالک ہے ۔
قیامت کے دن جب تمام انسان اپنے نامہ اعمال اپنے ہاتھوں میں لئے عاجزی سے کھڑے ہوں گے ۔ اور اپنےاپنے کاموں کا بدلہ پائیں گے ۔ ہمیں اس دن کی ہولناکیوں سے ڈرنا چاہئے ۔ اور آخرت کی تیاری کرنی چاہئے ۔
جس طرح سورۃ فاتحہ پورے قرآن مجید کا خلاصہ ہے اسی طرح اِیّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ سورۃ فاتحہ کا خلاصہ یا راز ہے
جس میں ہم اقرار کرتے ہیں ۔ کہ ہم صرف ایک الله کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور ہر کام میں اسی کی مدد مانگتے ہیں ۔ زندگی کی ہر مصیبت اور ہر مشکل منزل پر اسی کی طرف لوٹتے ہیں ۔ تاکہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے ۔ جس پر چل کر ہم اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ جائیں ۔ یہ راہ اس کے کامیاب اور انعام یافتہ لوگوں کی راہ ہو ۔ اور ان لوگوں کی پیروی سے بچائے جن پر اس کا غصہ اور عذاب نازل ہوا ۔ اور ہمیں اس راہ سے بھی محفوظ رکھے جس پر چل کر قومیں گمراہی میں گرفتار ہوئیں ۔ اور تباہ و برباد ہوئیں ۔
آمین
 
Top