پہلے میں نے منتظمِ اعلٰی کی خواہش پر پانچ قرآنی آیات پر مبنی دستخط مختصر کیے صرف اس لیے کہ انکو قرآنی آیات سے وہم ہوا کہ میں انکار ِ حدیث کی ترغیب دے رہا ہوں اس وہم کا تو کوئی علاج نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے مجبوراً میں نے ہی دستخط مختصر کر دیے مگر پھر کچھ مہینوں بعد میرے دستخط ہٹادیے گئے اور اب بھی یہی سلسلہ چلا جا رہا ہے۔
اگر آپ لوگوں کو قرآن سے اتنا ہی عناد ہے اور روایات سے اتنا ہی عشق ہے تو اس میں بھلا میں کیا کر سکتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ میرے قرآنی آیات پر مبنی دستخط ہٹائے ہی اس لیے گئے ہیں کہ کہیں کوئی شخص قرآن میں غور و فکر نہ کرنے لگ جائے اور اس طرح روایات کے دھندے کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ کیونکہ حق و باطل میں امتیاز کرنے والی اگر کوئی کتاب ہے تو صرف اور صرف قرآن ہے۔ لیکن جب قرآن کو منافقینِ عجم نہ مٹا سکے تو بھلا اب لوگ کیونکر مٹا سکتے ہیں ؟یہی وجہ ہے جو اس قرآن کی حفاظت کا ذمہ کسی انسان نے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے لیا ہے۔اور یہ وہی قرآن ہے جو آج ہم پڑھ رہے ہیں جو حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو دیا تھا۔
امام شعبہؒ نے بالکل صحیح کہا تھا کہ جتنا لوگ ”احادیث“ میں منہمک ہو ں گے اتنا ہی قرآن سےدور ہوں گے ۔ روایت پرستوں اور مسلک پرستوں پر تو یہ قول شائد بجلی بن کر برس پڑے لیکن ان کی یہ کمال بصیرت کو اس وقت لوگوں نے دیکھا اور آج بھی ہم اسکا نظارہ کر دہے ہیں۔
مجھے اس رویے سے انتہائی افسوس ہوا !
اللہ تعالٰی نے قرآن میں کفار کا طرزِ عمل بتلایا ہے:-
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ﴿٢٦﴾
یہ منکرین حق کہتے ہیں ”اِس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اس طرح تم غالب آ جاؤ“۔
قرآن ، سورت فصلت، آیت نمبر 26