السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دو باتیں ہیں
اول : عورت بخیر محرم کے سفر کرنا ممنوع ہے، اور سفر اسے کہا جائے گا، جس میں سفر کے احکام لاگو ہوتے ہیں، جیسے نماز کا قصر کرنا وغیرہ! سفر کے لئے لازم ہے کہ شہر سے باہر جایا جائے!
لہٰذا شہر کے اندر ہی عورت کے اکیلے سفر میں ایسی کوئی پابندی تو قرآن و سنت میں نہیں، کم از کم میرے علم میں نہیں!
دوم: کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی نماز کو گھر میں افضل قرار دیا ہے، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مین اس افضیلت کو جس طرح اختیار کیا گیا اسی طرح آپ بھی اختیار کیا جائے، یعنی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابیہ مسجد میں آتی تھیں، اور نماز بھی پڑھتی تھیں،
اب کوئی منچلا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ دین پر عمل کرنے کروانے والا سمجھتا ہے، تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں، سوائے اس کے کہ اللہ اسے ہدایت دے!
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی عورتوں کو مسجد جانے سے نہیں روکا بلکہ اس وقت کے کچھ افعال جو خواتین میں تھے اس پر سخت تنبیہ کی ہے!
اب جو چاہے وہ دین محمدی پر عمل کرے ، اور جو چاہے وہ بنی اسرائیل کی شریعت پر عمل کرے،
وہ کہتے ہیں نا کہ :
نصیب اپنا اپنا!
لیکن یہ باتیں اسے سمجھ آئیں گی جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے دین و شریعت پر ایمان ہوگا!
جسے کوفہ میں گھڑی گئی شریعت سازی پر اعتماد ہے وہ تو اس مکہ و مدینہ میں نازل شدہ دین میں ہزار حجت بازیاں پیش کر سکتا ہے!