ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکنبجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا ہے بدن
سلگ رہی ہیں نجانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دل فریب زدہ ، دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قدوگیسو ہیں کل کے دارورسن
غریبِ شہر کسی سایہ شجر میں نہ بیٹھ
کہ اپنی چھاؤں میں خود جل رہے ہیں سروسمن
بہارِ قرب سے پہلے اجاڑ دیتی ہیں
جدایوں کی ہوایں محبتوں کے چمن
وہ ایک رات گزر بھی گیی مگر اب تک
وصالِ یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن
پھر آج شب ترے قدموں کی چاپ کے ہمراہ
سنائی دی ہے دلِ نا مراد کی دھڑکن
یہ ظلم دیکھ کہ تُو جانِ شاعری ہے مگر
مری غزل میں ترا نام بھی ہے جرمِ سخن
امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہِ مذہب ، کبھی بنامِ وطن
ہوائے دہر سے دل کا چراغ کیا بجھتا
مگر فراز سلامت ہے یار کا دامن
احمد فراز کی کتاب درد آشوب سے انتخاب