• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیا میں رمضان آتا ہے پر پاکستان میں رمضان ٹرانسمیشن آتی ہے ""

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لچر پن کا انتہائی گھٹیا مظہر!


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

روزے کا ایک بڑا مقصد علماء کرام اپنی خواہشات پر کنٹرول بتاتے ہیں… ناجائزہی نہیں جائز خواہشات پر بھی… مگر پچھلے دس برسوں سے ایک گھٹیا تماشا رمضان ٹرانسمیشن کے نام سے ایسا شروع ہو گیا ہے کہ دن بھرعوام روزہ رکھ کر نفس پر کنٹرول کرنے کی مشق کرتے ہیں اور افطار کے بعد رمضان بازاری شو کے ذریعے اپنی سفلی خواہشات کو اتنا بے لگام کرتے ہیں کہ
اس کے لیے اپنی دینی اقدار ہی نہیں مشرقی روایات و اقدار کا جنازہ بھی دھوم سے ساری دنیا کے سامنے نکالتے ہیں۔
بیگمات لائیو اپنے خاوندوں کے منہ پر میک اپ کرتی ہیں…مرد لائیو گنجے ہوتے ہیں…شوہر و زن اپنی اپنی ساس امی یعنی ایک دوسرے کی والدہ کی شان میں ہنس ہنس کر گستاخی کرتے ہیں…اور یہ سب کن چیزوں کے لیے ہوتا ہے؟
ایک مائیکرو اوون، ایک موبائل اور ایک بائک لینے کے لیے…
ان مادی اشیاء کے لیے مرد و زن کی بےغیرتی کے ایسےحیا سوز مناظر نشر ہوتے ہیں کہ شریف آدمی دیکھ لے تو پسینے چھوٹ جائیں!
"عامر بھائی ایک مجھے بھی دو ناں، ایک ادھر پھینکو ناں پلیز…"
ایک سوٹڈ بوٹڈ نوجوان چہرے پر بھکاری کے سے تاثرات لاتے ہوئے بڑے مسکین سے لہجے میں التجا کرتا ہے اور اپنی خودداری کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیتا ہے!
حیا کی موت دیکھنی ہے تو وہ دیکھیے ایک لڑکی منہ میں انڈہ لیے اور اس کا شوہر بے حیائی سے منہ میں آم دبائےکھڑا ہوا ہے… کس لیے؟… دس پانچ ہزارکے گفٹ کے لیے!
ذلت کی انتہا دیکھنا چاہو تو ان عورتوں کو دیکھ لو جنہیں مرغے کی آواز ککڑوں کوں مسلسل نکالتے ہوئے اسٹیج کے گول دائرے میں تیز تیز سائیکل چلانا ہے… کس لیے؟
اس لیے کہ سونے کا وہ چمکتا زیور پا سکیں جو عورت کے ایسی تذلیل پر نوحہ کناں ہے!
اجتماعی وقار کا جنازہ دیکھنا ہو تو ادھر دیکھو: دور سے میزبان ہوا میں تحفے اچھال رہا ہے… اور ایک ایک چیز کے لیے پبلک ایسے بھوکے کتوں کی طرح جھپٹ رہی ہے، جنہیں کئی دنوں کے بعد ہڈی مل سکی ہے… مردوں کی قمیص کے بٹن ٹوٹ رہے اورعورتوں کی جائے شرم کھل رہی مگر کسے پروا ہے؟… کسی طرح کچھ تو حاصل ہو گا نا!… یہ سب دیکھ کر میزبان کے چہرے پر رعونت آمیز مسکراہٹ رینگنے لگتی ہے…
ادھر پروگرام کے مہمان خصوصی حضرات جو بے شک علم کے نام پر دھبہ ہیں، بڑی ادا سے ماحضر سے شوق فرما رہے ہوتے ہیں اور ان کے چہرے پر مطمئن مسکان اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ ان کی بھینٹ چڑھائے جانے والا، ان کے حصے کا راتب ان تک پہنچ چکا ہے!
ارے دین کی بات تو چھوڑئیے… کیا اس سب بازاری پن کا ہماری خودداری وقار اور شرافت کی مظہر مشرقی اقدارو روایات سے کچھ ذرا سا بھی تعلق ہے؟!

***​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
’’دکان ٹرانسمیشن‘‘

(ہمت ہے تو ضرور پڑھیں)

::::::::::::::::::::
یہ مہینہ کبھی حفاظ کا مہینہ تھا۔اب یہ قوالوں کا مہینہ ہے۔ بے نیکر کے اینکر چغے اوڑھ لیتے ہیں۔ پارکوں میں ڈیٹ پکڑ نے والی ماسیاں مانگے تانگے کے دوپٹے کھینچ کے چونسٹھ پہ ڈھلکا دیتی ہیں۔ مارننگ شو کی آئٹم گرلزقمیص کی لمبائی نو انچ بڑھا کر لائن میں لگ جاتی ہیں۔ گوئیے شیرشاہ سوری کے خانساماؤں کے بچے ہوئے پجامے استری کر کے خدا جانے کیسے اس میں گھس جاتے ہیں۔جو پگڑیاں اب دولہوں نے بھی پہننا چھوڑ دی ہیں، وہ یہ لوگ سروں پہ کس دیتے ہیں۔ عجب یہ کہ قوال بھی بنارسی دوپٹے سر پہ باندھ کر رنگین مظاہرہ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔پاپ سنگرزاپنے ڈھول باجے ایک طرف رکھ کر باداب باملاحظہ قسم کی مسکراہٹوں کی خیرات بانٹنا شروع کردیتے ہیں۔ مذہب کی چڑھتی انڈسٹڑی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جن کیلئے عام حالات میں مذھب تباہی کا تنہا ذمہ دار ہے، وہ بھی اس ایک ماہ میں سرمہ لگا کر حلق کے نچلے پردوں سے صلی اللہ علیہ وسلم ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اب پیسے تو کمانے ہیں۔سو اس کیلئے ایک مہینے تک وہ جنس بھی بیچیں گے، جس کا نام عام دنوں میں سن کرانہیں مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔تیس دن اپنے ضمیر پہ چڑھ کرکھڑا ہونا، کوئی مہنگا سودا تو نہیں۔صرف تیسن دن۔

تیسویں شب پہ تو اللہ معاف کرے ایسے بھاگتے ہیں، جیسے ہسپانوی سانڈ کا مہرہ کھل گیا ہو۔ چاند دکھتے ہی یہ رسیاں توڑ کر باہر آتے ہیں۔ قبائیں نوچ کر دروازے پہ ہی پھینک دیتے ہیں۔ دوپٹے کسی غریب کو دیدیتے ہیں۔ آنکھوں سے سرمہ نوچ نوچ کر واش بیسن میں بہا دیتے ہیں۔ گلے میں لگا عربی ساؤنڈ کارڈ نکال کرکوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ کرتے والے بھائی بھی اپنی پرانی ریڑھی یہیںچھوڑ کر نئی ریڑھی لینے نکل جاتے ہیں۔نعت خواں اور قوال لفافے تھامے یوں اڑن چھو ہوتے ہیں کہ مڑکر ہی نہ دیکھتے۔ یہ سارے نابغے عید کی صبح اپنی اوقات میں رونگے ہوئے، کسی بھی ٹی وی چینل پہ نظر آرہے ہوتے ہیں۔

بھانڈ مراثیوں کو کعبے کا غلاف سینے کیلئے کیسے دیا جاسکتاہے۔ آپ علم و تحقیق اور زہد و طاعت کو مسخروں، بانڈ میراثیوں اور مداریوں کی پٹاری بنا دیں۔ ؟ دانشکدے اور ڈرامہ تھیٹر میں کیا کوئی فرق نہیں ہوتا۔؟ گمان ہی نہیں، یہ آنکھوں دیکھا حال ہے کہ جو روزے نہیں رکھتے، وہ چھ گھنٹے ہمیں روزے کے فضائل بتاتے ہیں۔ کیا یہ مذھب کے ساتھ مذاق نہیں۔؟ کوئی روزہ نہ رکھے تو بھی میری بلا سے، مگر یہ کیسے گوارا کر لیا جائے کہ کیمرے کے پیچھے ماں بہن کرنے والے کیمرہ آن ہوتے ہی بایزید بسطامی کے خلفا بن جائیں۔ آپ ماں بہن بھی کریں، تو مجھے کیا،مگر تب کہ جب آپ لاہور کےتھیٹر پہ کھڑے ہوں۔ آپ فلم کی شوٹنگ میں یہ سب اناپ شناپ بکیں تو کون ہاتھ روک سکتا ہے۔ آپ کسی سیاسی ٹاک شو میں بھی کر لیں، تو کس نے مائنڈ کرنا ہے۔ مگر یہ کیا کہ آپ تھیٹر اور محراب کا فرق ہی مٹا کر رکھ دیں۔

مگرآپ کو پتہ ہے کہ ہم عرفات کے میدان میں بھی رقص کریں گے، تو نگاہیں متوجہ ضرور ہوں گیں۔ متوجہ نگاہوں سے ریٹنگ ضروربڑھتی ہے، مگریہ کیسے پتہ چلے کہ اس اٹھنے والی نگاہ میں آپ کیلئے تکریم ہے کہ تنقید۔آپ تو طوائف کی طرح ہراٹھتی نگاہ کو اپنی اداؤں کاصدقہ سمجھتے ہیں۔حقیقت مگراس کے برعکس ہے۔ مگرخیر، عزلت ذلت کی فلاسفی سے تو ویسے بھی آپ کا اینٹ کتے کا بیر ہے۔آپ سے کیا بحث۔ آپ تو ہوئے شہرت کے رسیا۔پائیدار شہرت ملے، عزت تو آنے جانے والی چیز ہے۔

اداکاروں فن کاروں مراثیوں قوالوں پہ زیادہ دیر حرف گیر ہوا بھی نہیں جا سکتا۔ ان کا کیا، انہیں تو پیسے دو پیسے کمانے ہیں۔ انہیں تو سکھایا ہی یہ گیا کہ اداکار پانی کی طرح ہوتا ہے۔ کسی بھی سانچے میں وہ ڈھل جاتا ہے۔ سو اس کو شب زندہ دار زاھد بھی بننا پڑے، وہ دو پیسوں کیلئے بن جائے گا۔ اس کے کیرئیر میں تو یہ ایک خوشگوار اضافہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ علی گڑھ کا فاضل بھی بن گیا۔
۔
سوال بنیادی ان وظیفہ خوار مولویوں پہ ہے، جو شملہ ہلائے ان میراثیوں کے پیچھے پیچھے چلے آتے ہیں۔گھنٹوں ان کا دامن اٹھائے کھڑے رہتے ہیں۔ میں علما کی بات ہر گز نہیں کر رہا ۔ میں بات کر رہا ہوں ان ٹیوشن برانڈ مولویوں اور تعویذ مارکہ صوفیوں کی ، جو مذھب کے نمائندے کہلاتے ہیں۔ کیا انہیں زیب دیتا ہے کہ وہ اخفش کے بکرے کی طرح ان ٹٹ پنجیوں کے سامنے بیٹھیں۔ اپنی کمپنی کی مشہوری کیلئے، وہ سفارشات کروائیں اور عمامہ سیدھا کر کے پروگرام میں جا بیٹھیں۔ سوال اٹھایئے ، تو کہتے ہیں یہ تو ہم دعوت دے رہے ہیں۔؟ کاہے کی دعوت بھائی صاحب۔ آپ کے سامنے جو سرکس لگایا جاتا ہے، کیا آپکی خاموشی اس کی تائید نہیں کرتی؟ اور پھر اس سرکس پہ آپ کی کھلی ہوئی بانچھیں آخری مہربن کر نہیں پڑتی۔ بس اینکر صاحبان جو کہتے جاتے ہیں آپ کسی مرعوب بلی کی طرح بیٹھ کر سر ہلاتے ہیں۔ استاد کا جملہ مستعار لوں تو کسی ببوے کی طرح آپ بیٹھے سرہلاتے رہتے ہیں۔میراثیوں کی شان میں جو قصیدہ آپ پڑھتے ہیں وہ تو مغل اعظم کے درباریوں نے بھی کبھی نہیں پڑے تھے۔ان مسخروں اور لفنگوں کو جواز کی جو سند آپ عطا کرتے ہیں، تو وہ تو اتنبول کے قاضی نے کبھی سلطان سلیمان کو بھی عطا نہیں کی۔ آپ میڈیا کو دعوت کی انڈسٹڑی بنایئے۔ ضرور بنا یئے۔ مگرلاھورکاوہ تسبیح بردارقطب تو نہ بنیے جسے محترم پروفیسر احمد رفیق اختر نے راندہ درگاہ کیا، تو مذھب کی چھابڑی لیئے میڈیاکے مینابازار میں آگیا۔ آیا بھی ایسا کہ نمک کی کان میں نمک ہوگیا۔ مزید حیرت یہ ہے کہ سرسوں کے تیل میںلتڑے ہوئے ان جبوں اور دستاروں کو کوئی کنٹرول بھی نہیں کرتا۔ جو اصحاب علم اپنی ایک سنجیدہ شناخت رکھتے ہیں، خود تو وہ حجرے سے باہر نہ آنے کی قسم کھائے ہوئے ہیں، پھر اشرفی آٹے کے وزنی پیڑے اگر ان کے نمائندے بن کر بیٹھ جائیں، تو انہیں روکتے ٹوکتے بھی نہیں۔ کیا یہ تسبیح کے دانوں سے سراٹھاکر سوچیں گے کہ قصور کس کا ہے؟
۔
ایسا نہیں کہ اس وقت رمضان ٹرانسمیشن کے نام پہ چلنے والی رنگا رنگ دکانوں میں کوئی مردِ رشید نہیں ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اسی ٹرانسمینشن میں ڈاکٹر انیق احمد جیسے صاحب علم اور محقق لوگ بھی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔انیق احمداور ان جیسوں کی میزبانی میں کوئی دھوم دھڑکا کوئی الہڑبازی نہیں ہے۔ کوئی بھی میڈیا ہاؤس انہیں اچھلنے کودنے پہ مجبور نہیں کر سکتا۔ میڈیا انہیں نظر انداز بھی نہیں کر سکتا۔ نظر انداز اس لیئے نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی ایک پہچان بنا چکے۔ اچھلنے کودنے پہ مجبور یوں نہیں کر سکتا، کہ ان کے کندھوں پہ فلسفہ، ادب، تاریخ، الہیات،سیاسیات اور سماجیات جیسے بھاری برکم موضوعات کا وزن پڑا ہواہے۔ اس وزن کے ساتھ کون ناچ سکتا ہے صاحب۔ اڑے گی تو وہی تھیلی، جو خالی ہو۔ شور وہی برتن کرے گا، جس کے اندرون میں کچھ نہ ہو۔ کندھے اچکا کر وہی چلتے ہیں، جن کے کندھوں پہ علم کا بارِ گراں نہ ہو۔ جن کندھوں پہ بارپڑا ہو، وہ وزن سے جھک جاتے ہیں۔اچھلنا پھدکنا اور پھدک کراچھلناان کے بس میں نہیں ہوتا۔جس کے پاس علم نہیں وہ قوم کو فردوس کی لان اور کیو موبائل بانٹے گا۔ جس کے پاس علم ہوگا، وہ جب تک علم نہ بانٹ لے اس کی آنکھ نہیں لگ سکتی۔آپ کیوموبائل اچھالیں،مگرکیا اس دھندے کیلئے سحروفطارکے علاوہ کوئی آئیڈیانہیں ہے؟


(اقتباس) - فیس بک
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا واقعی ھم مسلمان ہیں ؟؟؟


گانے اور میوزک کے لئے معذرت


فوٹو


ویڈیو


لنک

https://www.facebook.com/MSKF2015/videos/vb.638953922813766/1186180118091141/?type=2&theater
افسوس تو ان لوگوں پر ہیں جو ان پروگرام میں جاتے ہیں

اوہ.. میرے اللہ.. یہ بدبخت جانوروں سے بھی بدتر بنتا جارہا ہے.. عامر لیاقت تو نے اس مقدس ماہ کا تقدس پامال کیا ہے.. اللہ رب العزت تجھے عبرت کا نشان بنا ئے آ مین یارب العالمین
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اسلام میں دعوت و تبلیغ کی اساس ’ اخلاص ‘ ہے ، جبکہ میڈیائی دعوت و تبلیغ کی عمارت کی بنیادیں اس کے بالکل برعکس ’ ایکٹنگ ‘ اور ’ دکھاوے ‘ پر کھڑی ہیں ۔
رمضان ٹرانسمیشن کی سمت درست نہیں ، اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے لیے ’ مخلص عالم دین ‘ کی بجائے ’ تصنع اور ریاکاری کا ماہر ایکٹر ’ تلاش کیا جاتا ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عامر لیاقت اور جیو کو پیمرا نے شو کاز نوٹس جاری کر دیا

13407276_1039039322855812_2556969963847489456_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بلوچ کی بجهی قندیل..ملتان کا گرما گرم مفتری...رمضان ٹرانمشن نهین رمضان میله...داڑهی ' ٹوپی کا ٹهٹه ..پس پرده دین کا استهزا...ختم نبوت کے قانون پر اٹهتے سوال...دین کے نام پر پروگرام بنا کسی اداکاره اور ماڈل کے ناممکن....کنٹریکٹ میرج مولوی کی بے جا تشهیر...غیرت کے قتل کو دین سے بهانے بهانے جوڑنا ...بے حیثیت اور کم علم مارویون کو بنا اهلیت چینلز پر مسلسل لانا اور مشتعل کر دینے والے موضوعات پر ٹاکرے کروانا......
....یه سب بنا کسی پلاننگ کے هے.....؟؟؟؟
هم کتنے ساده هین......

..ابوبکرقدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
رمضان ٹرانسمیشن اور دیگر پروگراموں میں جو ’ عالم دین ’ تشریف لے جاتے ہیں ، انہیں چاہیے کہ ’’ میں میں ’’ ، ’’ ہیں ہیں ’’ یعنی ’ معذرت خواہانہ ’ رویہ اپنانے اور میڈیائی ( منافقانہ ) رنگ میں رنگنے کی بجائے کھل کر اپنا موقف پیش کیا کریں .
آسکر ایوارڈز جیتے والوں کی مدح سرائی یا گویوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اور بڑی دنیا ہے .
یہ وہ میڈیا ہے ، جو علماء کے احترام میں اپنی ترتیب و تنظیم میں رتی برابر فرق نہیں کرتا ،( مثلا : کبھی کسی کے احترام میں بے پردگی ختم کی گئی ہو ؟ کبھی ساز و موسیقی پر کنٹرول کیا گیا ہو ؟ ) علماء کو بھی چاہیے کہ جانے سے پہلے اپنا لائحہ عمل اور اصول و ضوابط کے متعلق پر عزم ہو کر جائیں ۔
 
Top