• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دن اور رات میں 1000سے زیادہ سنتیں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مسجد میں جانے کی سنتیں

٭۔مسجد میں جانے کیلئے جلدی کرنا:
ارشاد نبویﷺ ہے :
’’ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور پہلی صف میں کتنا اجر ہے پھر اس کیلئے انھیں قرعہ اندازی کرنی پڑے تو وہ قرعہ اندازی کر گذریں۔ اور اگر انھیں پتہ چل جائے کہ نماز کیلئے جلدی جانے میں کتنا ثواب ہے تو وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ اور اگر انھیں خبر لگ جائے کہ عشاء اور فجر کی نمازوں میں کتنا اجر وثواب ہے تو وہ ہر حال میں ان نمازوں کو ادا کرنے کیلئے آئیں اگرچہ انھیں گھٹنوں کے بل کیوں نہ آنا پڑے۔‘‘ ( بخاری،مسلم )
٭۔مسجد کی طرف جانے کی دعا پڑھنا:
’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا،وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ لِیْ فِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا،وَاجْعَلْ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ مِنْ خَلْفِیْ نُوْرًا وَمِنْ أَمَامِیْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَمِنْ تَحْتِیْ نُوْرًا ، اَللّٰہُمَّ أَعْطِنِیْ نُوْرًا‘‘ ( مسلم )
’’ اے اللہ ! میرے دل میں ، میری زبان میں، میرے کانوں میں،میری نظر میں، میرے پیچھے، میرے آگے، میرے اوپراور میرے نیچے نور کردے اور مجھے نور عطا فرما ۔‘‘
٭۔سکون اور وقار کے ساتھ چلنا:
ارشاد نبوی ﷺہے :
’’ جب تم اقامت سن لو تو تم نماز کی طرف پُر سکو ن اور باوقار حالت میں جایا کرو۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
’سکون‘ سے مراد ہے حرکات میں ٹھہراؤ پیدا کرنا اور بے ہودگی سے بچنا۔اور ’وقار ‘سے مراد ہے نظر کو جھکانا، آواز کو پست رکھنا اور اِدھر اُدھر نہ دیکھنا۔
٭۔مسجد کی طرف چل کر جانا:
فقہاء نے لکھا ہے کہ مسجد کی طرف جاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اور قریب قریب قدم اٹھانے چاہییں اور جلدی نہیں کرنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل ہوں۔اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ کیا میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتا ہے ؟ صحابۂ کرام7 نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ ! توآپﷺ نے کئی چیزیں ذکر فرمائیں ، ان میں سے ایک یہ تھی : ’’مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اٹھانا۔‘‘( مسلم )
٭۔مسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا:
درود شریف پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھیں : ’’ اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ‘‘ ’’ اے اللہ ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔‘‘ ( نسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ اور ابن حبان )
٭۔مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندر رکھنا:
حضرت انس کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ ’’ جب تم مسجد میں داخل ہونے لگو تو پہلے دایاں پاؤں اندر رکھو اور باہر نکلنے لگو تو پہلے بایاں پاؤں باہر رکھو ۔‘‘( الحاکم : صحیح علی شرط مسلم ، ووافقہ الذہبی )
٭۔پہلی صف کیلئے آگے بڑھنا:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور پہلی صف میں کتنا اجر ہے ، پھر اس کیلئے انھیں قرعہ اندازی کرنی پڑے تو وہ قرعہ اندازی کر گذریں ۔‘‘ ( بخاری،مسلم )
٭۔تحیۃ المسجد پڑھنا :
ارشاد نبوی ﷺہے : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہو تو اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعات نماز ادا نہ کرلے۔‘‘ (بخاری،مسلم )
امام شافعیؒ کا کہنا ہے کہ’’ تحیۃ المسجد تمام اوقات میں ، حتی کہ ممنوعہ اوقات میں بھی مشروع ہے ۔‘‘
اور حافظ ابن حجر ؒکہتے ہیں کہ :’’تمام اہلِ فتوی کا اجماع ہے کہ تحیۃ المسجد سنت ہے۔‘‘
٭۔مسجد سے نکلنے کی دعا پڑھنا:
درود شریف پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھیں :’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ‘‘( مسلم ، نسائی)
’’ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
٭۔مسجد سے نکلتے ہوئے پہلے بایاں پاؤں باہر رکھنا:
اس کی دلیل پہلے گذر چکی ہے ۔
یہ ہیں مسجد کی سنتیں ۔اور یہ بات توہر ایک کو معلوم ہے کہ دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اگر مسلمان ہر نماز کے وقت مسجد کی ان دس سنتوں پر عمل کرلے تو وہ اس طرح پچاس سنتوں پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کرسکتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اذان کی سنتیں

اذان کی سنتیں پانچ ہیں ۔ جیسا کہ امام ابن القیمؒ نے زاد المعاد میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں:
٭۔اذان کا جواب دینا:
چنانچہ سننے والا وہی الفاظ کہے جو مؤذن کہے ، سوائے حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے جس کے جواب میں لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کہنا ہوگا۔(بخاری ومسلم )
اور اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس سے پڑھنے والے کیلئے جنت واجب ہو جاتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں موجود ہے۔
٭۔اذان کے بعداس دعا کا پڑھنا :
’’ وَأَنَا أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ،رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا،وَبِالْإِسْلاَمِ دِیْنًا،وَبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلًا ‘‘
اس دعا کی فضیلت حدیث میں یہ ہے کہ پڑھنے والے کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (مسلم)
٭۔اذان کے بعد درود شریف پڑھنا:
یاد رہے کہ سب سے افضل درود، درودِ ابراہیمی ہے جو کہ نماز میں پڑھا جاتا ہے ۔ارشاد نبویﷺ ہے :
’’ جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے ۔ پھر مجھ پر درود پڑھو ، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے۔‘‘ ( یا دس مرتبہ اس کی فرشتوں میںتعریف کرتا ہے) (مسلم)
٭۔درود شریف پڑھنے کے بعد درج ذیل دعا کا پڑھنا :
’’ اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدَا نِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَا نِ الَّذِیْ وَعَدْتَّہُ‘‘
اس دعا کے پڑھنے کا فائدہ حدیث میں یہ ہے کہ پڑھنے والے کیلئے نبی کریم ﷺ کی شفاعت واجب ہو جاتی ہے ۔ ( بخاری)
٭۔اذان کے بعددعا پڑھنا:
اذان کے بعد کی درج بالادعائیں پڑھنے کے بعد اپنے لئے دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرنا،کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے :
’’ مؤذن جس طرح کہے اسی طرح کہا کرو ، پھر اللہ سے سوال کیا کرو وہ تمھیں عطا کرے گا۔‘‘ ( ابو داؤد ، ابن حبان نے اسے صحیح اور حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے)
درج بالا پانچوں سنتوں پر اگر ہر اذان کے وقت عمل کیا جائے تو یوں دن اور رات میں اذان کی پچیس سنتوں پر عمل ہو سکتا ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اقامت کی سنتیں

اذان کی پہلی چار سنتیں اقامت کی سنتیں بھی ہیں ، جیسا کہ سعودیہ کی دائمی فتوی کونسل کا فتوی ہے۔بنا بریں دن اور رات میں اگرہر اقامت کے وقت ان سنتوں پر بھی عمل کر لیا جائے تو یوں اقامت کی بیس سنتوں پر عمل کرکے اجر عظیم حاصل کیا جا سکتا ہے۔
فائدہ :
سنت یہ ہے کہ اقامت سننے والا بھی اسی طرح کہے جس طرح اقامت کہنے والا کہتا ہے ، سوائے حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِاور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کے کہ ان میں لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰه کہے گا۔اور قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ کے جواب میں بھی قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ ہی کہے گا نہ کہ أَقَامَہَا اللّٰہُ وَأَدَامَہَا ، کیونکہ اس بارے میں جو حدیث ذکر کی جاتی ہے وہ ضعیف ہے۔ ( فتوی کونسل:سعودی عرب)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نماز سترہ کی طرف پڑھنا

ارشاد نبوی ﷺ ہے :
’’ تم میں سے کوئی شخص جب نماز پڑھنا چاہے تو سترہ کی طرف پڑھے اور اس کے قریب ہو جائے اور اپنے اور اس کے درمیان کسی کو گذرنے نہ دے۔‘‘( ابو داؤد ، ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ )
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ہر نماز سترہ رکھ کر پڑھی جائے ، خواہ نمازی مسجد میں ہو یا گھر میں ، مرد ہو یا عورت ۔ جبکہ کئی نمازی اس سنت پر عمل نہ کرکے اپنے آپ کو اس کے اجر سے محروم کرلیتے ہیں ، حالانکہ یہ سنت بھی ان سنتوں میں سے ہے جن پر دن اور رات میں کئی مرتبہ عمل ہو سکتاہے۔چنانچہ فرائض سے پہلے اور بعد کی سنتیں ، تحیۃ المسجد ، نمازِ وتر ، نمازِ چاشت، اور فرض نمازیں سترہ کے سامنے پڑھ کر انسان ایک ہی سنت پر بار بار عمل کرکے بہت زیادہ اجروثواب کما سکتا ہے۔عورت بھی جب اکیلی گھر میں فرض نمازیں یا دیگر نفل نمازیں ادا کرے تو وہ ہر مرتبہ اِس سنت پر عمل کرکے اجر ِ عظیم حاصل کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہبا جماعت نماز میں امام کا سترہ مقتدیوں کیلئے بھی کافی ہوتا ہے۔
سترہ کے چند مسائل
  1. سترہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے نمازی قبلہ کی سمت اپنے سامنے کر لے۔مثلاً دیوار، ستون ، عصا اور کرسی وغیرہ۔
  2. سترہ کی چوڑائی کی کوئی حد مقرر نہیں البتہ لمبائی(اونچائی ) کم از کم ایک بالشت ضرور ہونی چاہیے۔
  3. نمازی کے قدموں اور سترہ کے درمیان تقریبا تین ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہیے۔
  4. سترہ امام اور منفرد (اکیلا نماز پڑھنے والا) دونوں کیلئے مشروع ہے ، نماز خواہ فرض ہو یا نفل۔
  5. امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ بھی ہوتا ہے ، لہذا ضرورت کے وقت مقتدیوں کے سامنے سے گذرنا جائز ہے۔
سترہ کے فوائد
٭۔اگر نمازی کے سامنے سترہ نہ ہواور اس کے سامنے سے کسی عورت یا گدھے یا کالے کتے کا گذر ہو تو اس سے اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے ، لیکن اگر سترہ موجود ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔
٭۔اگر سترہ موجود ہو تو نمازی کی نظر ایک جگہ پر ٹکی رہتی ہے اور اس سے نماز میں خشوع پیدا ہوتا ہے ۔اور اگر سترہ نہ ہو تو نظر اِدھر اُدھر جاتی ہے اور نمازی کی سوچ انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔
٭۔اگر سترہ موجود ہو تو گذرنے والوں کیلئے آسانی ہو جاتی ہے ورنہ اگر سترہ نہ ہوتو نمازی ان کیلئے رکاوٹ بنا رہتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دن اور رات کی نفل نمازیں
٭۔فرائض سے پہلے اور بعد کی سنتیں
ارشاد نبویﷺ ہے :’’ کوئی بھی مسلمان بندہ جو ہر دن بارہ رکعات نمازِ نفل اللہ کی رضا کیلئے پڑھتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔‘‘(مسلم )
اور یہ بارہ رکعات درج ذیل ہیں :
چار ظہر سے پہلے اور دو اس کے بعد ، دو مغرب کے بعد ، دو عشاء کے بعداور دو فجر سے پہلے۔
میرے مسلمان بھائی !
کیا آپ کو جنت کا گھر پسند نہیں ؟ اگر ہے تو نبی اکرمﷺ کی مذکورہ وصیت پر عمل کریں اور دن اور رات میں بارہ رکعات نماز نفل پڑھا کریں۔
٭۔چاشت کی نماز:
اِس نماز کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ( ۳۶۰) صدقوں کے برابر ہوتی ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرمﷺ کا ارشادگرامی ہے کہ ’’ تم میں سے ہر شخص کے ہر جوڑ پر ہر دن صدقہ کرنا ضروری ہے ، لہذا ہرسبحان اللہ صدقہ ہے ، ہر الحمد للہ صدقہ ہے ، ہر لا إلہ إلا اللہ صدقہ ہے ، ہراللہ اکبر صدقہ ہے ، نیکی کا ہرحکم صدقہ ہوتا ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ اور اس سب سے چاشت کی دو رکعات کافی ہو جاتی ہیں۔‘‘ ( مسلم )
یہ بات معلوم ہے کہ انسان کے جسم میں ۳۶۰ جوڑ ہوتے ہیں تو ہر جوڑ کی طرف سے ہر روز کم از کم ایک صدقہ شکرانہ کے طور پرکرنا ضروری ہوتا ہے اور مذکورہ حدیث کے مطابق اگر چاشت کی دو رکعات ادا کر لی جائیں تو ۳۶۰ جوڑوں کی طرف سے صدقہ ادا ہوجاتا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ’’ مجھے میرے خلیلﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی :ایک یہ کہ میں ہر ماہ میں تین روزے رکھوں اور دوسری یہ کہ چاشت کی دو رکعات پڑھوں اور تیسری یہ کہ وترسونے سے پہلے پڑھا کروں۔‘‘ ( بخاری ومسلم )
چاشت کا وقت طلوعِ شمس کے پندرہ منٹ بعد شروع ہوتا ہے اور اذانِ ظہر سے تقریبا پندرہ منٹ پہلے تک جاری رہتا ہے۔اور اس کا افضل وقت وہ ہے جب سورج کی حرارت تیز ہو ۔ اور اس کی کم از کم رکعات دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ ہیں۔
٭۔عصر سے پہلے چار رکعات:
ارشاد نبویﷺ ہے : ’’اس شخص پر اللہ کی رحمت ہو جو عصر سے پہلے چار رکعات پڑھے۔‘‘( ابو داؤد ، ترمذی )
٭۔مغرب سے پہلے دو رکعات:
ارشاد نبویﷺ ہے :’’مغرب سے پہلے نماز پڑھا کرو ۔ ‘‘ آپﷺ نے تین بار فرمایا اور تیسری بار اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا:’’جس کا جی چاہے۔‘‘( بخاری )
٭۔عشاء سے پہلے دو رکعات:
ارشاد نبویﷺ ہے : ’’ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہوتی ہے ۔‘‘آپ ﷺ نے تین بار فرمایااور تیسری مرتبہ اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا : ’’جس کا جی چاہے۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
امام نوویؒ کا کہنا ہے کہ دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہے۔
نوافل کی ادائیگی گھر میں

٭۔ارشاد نبویﷺ ہے :
’’بندے کی بہترین نماز وہ ہے جسے وہ گھر میں ادا کرے ، سوائے فرض نماز کے ۔‘‘ ( بخاری،مسلم )
٭۔نیز فرمایا :
’’ کسی شخص کی ایک ایسی نفل نماز جسے وہ اُس جگہ پر ادا کرے جہاں اسے لوگ نہ دیکھ سکتے ہوں اُن ۲۵ نمازوں کے برابر ہوتی ہے جنھیں وہ لوگوں کے سامنے ادا کرے۔‘‘ ( ابو یعلی ۔ البانی نے اسے صحیح کہاہے )
٭۔اسی طرح آپﷺ کا فرمان ہے :
’’انسان جو نماز گھر میں ادا کرے اس کی فضیلت لوگوں کے سامنے پڑھی گئی نماز پر ایسے ہوتی ہے جیسے فرض نماز کو نفل پر۔‘‘(طبرانی ۔ البانی نے اسے حسن کہا ہے )
مذکورہ بالا احادیث کی بنا پر نفل نمازوں کو گھر میں پڑھنا چاہیے ، چاہے وہ فرائض کی سنتیں ہوںیاچاشت کی نماز ہویا نمازِ وتر ہویا کوئی اور نفل نماز ہو ، تاکہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل ہو سکے۔
گھر میں نوافل کی ادائیگی سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں
٭۔اس سے نماز میں خشوع زیادہ ہوتا ہے اور انسان ریا کاری سے دور رہتا ہے۔
٭۔گھر میں نماز پڑھنے سے گھر سے شیطان نکل جاتا ہے اور اس میں اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے۔
٭۔نوافل کو گھر میں ادا کرنے سے ان کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے ، جیسا کہ فرض نماز کا ثواب مسجد میں ادا کرنے سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قیام اللیل کی سنتیں

ارشاد نبویﷺ ہے :’’رمضان کے بعد ماہ ِمحرم کے روزے سب سے افضل روزے ہیںجو کہ اللہ کا مہینہ ہے۔اور فرض نماز کے بعد رات کی نفل نمازسب سے افضل نماز ہے۔‘‘( مسلم )
٭۔رات کی نفل نماز کی سب سے افضل تعداد گیارہ یا تیرہ رکعات ہے بشرطیکہ ان میں قیام لمبا ہو۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرمﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے ۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ تیرہ رکعات پڑھتے تھے۔( یہ دونوں حدیثیں بخاری میں ہیں )
٭۔کوئی انسان جب رات کی نفل نماز کیلئے بیدار ہو تو اس کیلئے مسواک کرنا اور سورۂ آل عمران کی آیات’’ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَاب‘‘ سے لیکر سورت کے آخر تک پڑھنا مسنون ہے۔
٭۔اسی طرح درج ذیل دعا پڑھنا بھی رسول اکرمﷺ سے ثابت ہے :’’ اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنَّ،وَلَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیْہِنََّ،وَلَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ مَلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ، وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ ،وَوَعْدُکَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ،وَالْجَنةُ حَقٌّ،وَالنَّارُ حَقٌّ،وَالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ‘‘
’’ اے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ تو ہی آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کو قائم رکھنے والا ہے اور تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ تو ہی آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نور ہے اور تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں ۔تو ہی آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے اور تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں ۔ تو برحق ہے اور تیراو عدہ ، تیری ملاقات ، تیرا فرمان ، جنت ودوزخ سب برحق ہیں اور تمام نبی برحق ہیں۔‘‘
٭۔رات کی نفل نماز کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ بھی ہے کہ اس کا آغازدو ہلکی پھلکی رکعات سے کیا جائے تاکہ انسان بعد کی لمبی نماز کیلئے تیار ہو جائے۔ارشاد نبویﷺ ہے :’’ تم میں سے کوئی شخص جب رات کے قیام کیلئے کھڑا ہو تو دو ہلکی پھلکی رکعات سے نماز کا آغاز کرے ۔‘‘ ( مسلم )
٭۔رات کی نفل نماز کا آغاز درج ذیل دعا سے کرنا رسول اللہﷺ سے ثابت ہے :
’’ اَللّٰہُمَّ رَبَّ جِبْرِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَإِسْرَافِیْلَ ،فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ، أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ إِہْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ ،إِنَّکَ تَہْدِیْ مَنْ تَشَائُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم‘‘ (مسلم )
’’ اے اللہ ! اے جبریل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب ! اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے ! اے غیب اور حاضر کو جاننے والے ! تو اپنے بندوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف میں فیصلہ کرتا ہے۔ مجھے اپنے حکم سے ان اختلافی باتوں میں حق کی طرف ہدایت دے ، بے شک تو ہی جس کو چاہے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے ۔‘‘
٭۔رات کی نفل نماز کو لمبا کرنا سنت ہے ۔ رسول اکرمﷺ سے سوال کیا گیا کہ کونسی نماز افضل ہے ؟ تو آپﷺنے فرمایا : ’’ جس میں لمبا قیام کیا جائے۔‘‘ ( مسلم )
٭۔نفل نماز میں قراء تِ قرآن کے دوران آیاتِ عذاب کو پڑھتے ہوئے اللہ کی پناہ طلب کرنا ( مثلاً یوں کہنا : اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِکَ) اور آیاتِ رحمت کو پڑھتے ہوئے اللہ کی رحمت کا سوال کرنا (مثلاً یوں کہنا : اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ) اور جن آیات میں اللہ کی پاکیزگی بیان کی گئی ہو ان کو پڑھتے ہوئے (سبحان اللہ ) کہنا سنت ہے۔
ایک حدیث میں ہے : ’’نبی کریم ﷺ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہوتی وہاں تسبیح پڑھتے اور جس میں اللہ سے سوال کرنے کا ذکر ہوتاوہاں اس سے سوال کرتے اور جس میں عذاب کا ذکر آتاوہاں اللہ کی پناہ طلب کرتے ۔‘‘ ( مسلم )
٭۔قیام اللیل کیلئے معاون اسباب
دعا کرنا ، رات کو جلدی سونا ، دوپہر کو قیلولہ کرنا ،گناہوں سے پرہیز کرنا اور نفس کے خلاف جہاد کرنا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
وتر کی سنتیں

٭۔تین وتر پڑھنے والے شخص کیلئے پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ الاعلیٰ ،دوسری میں الکافرون اور تیسری میں الاخلاص پڑھنا مسنون ہے۔( ترمذی ، أبو داؤد ، ابن ماجہ)
٭۔نماز وتر سے سلام پھیرنے کے بعدتین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس پڑھنا اور تیسری مرتبہ اس دعا کے ساتھ رَبِّ الْمَلاَئِکَۃِ وَالرُّوْحِ کا اونچی آواز میں پڑھنا بھی سنت ہے۔ ( ابو داؤد ، نسائی ، دار قطنی ۔ الأرناؤط نے اسے صحیح کہا ہے )
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سنت ِفجر کی سنتیں

٭۔ فجر کی سنتوں کو ہلکا پھلکا ( مختصر ) پڑھنا ۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں: ’’ رسول اللہﷺ فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان دو مختصر رکعات پڑھا کرتے تھے۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ البقرہ کی آیت (۱۳۶) اور دوسری میں سورۃ آل عمران کی آیت (۶۴) کا پڑھنا مسنون ہے۔ ( مسلم )
ایک روایت میں پہلی رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون اور دوسری میں سورۃ الاخلاص کا ذکر کیا گیا ہے۔ ( مسلم )
٭۔سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کیلئے دائیں پہلو پر لیٹنا:
ایک حدیث میں ہے کہ’’ رسول اللہﷺ فجر کی دو سنتیں پڑھنے کے بعد اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جایا کرتے تھے۔‘‘ (بخاری )
لہذاجو شخص گھر میں فجر کی سنتیں ادا کرے وہ اس سنت کے اجرو ثواب کو حاصل کرنے کی خاطر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے ، پھر تھوڑی دیر کے بعد مسجد میں چلا جائے۔
٭۔نماز فجر کے بعد مسجد میں بیٹھے رہنا:
رسول اللہﷺ نماز فجر کے بعد اس وقت تک اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے جب تک سورج طلوع ہو کر بلند نہ ہو جاتا۔ (مسلم )
صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو نماز سے پہلے یا نماز کے بعدمسجد میں بیٹھے رہنے والے شخص کیلئے دعا اوراستغفار کرنے کا پابند بنا دیا ہے جو یوں کہتے ہیں :(اللہم اغفر لہ ، اللہم ارحمہ ) ’’ اے اللہ ! اس کی مغفرت کردے اور اس پر رحم فرما ۔ ‘‘ (بخاری )
میرے مسلمان بھائی ! ذرا غور کریں کہ یہ اللہ تعالی کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اگر آپ اس کی اطاعت کریں تو اس نے اپنے مقرب فرشتوں کو آپ کیلئے دعا کرنے کا پابند بنا دیا ہے !
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نماز کی قولی ( زبانی ) سنتیں

٭۔تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا :
’’ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ،وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ،وَلاَ إِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘ ’’ اے اللہ ! تو پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے اور تیرا نام بابرکت ہے اور تیری بزرگی بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
دوسری دعا :
’’ اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰہُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ،اَللّٰہُمَّ اغْسِلْنِیْ مِنْ خَطَایَایَ بِالثَّلْجِ وَالْمَائِ وَالْبَرَدِ‘‘ (بخاری ،مسلم )
’’ اے اللہ ! میرے اور میری غلطیوں کے درمیان اتنی دوری کردے جتنی دوری تو نے مشرق ومغرب کے درمیان کردی ہے۔ اے اللہ ! مجھے میرے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح سفید کپڑا مَیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ ! مجھ سے میری کوتاہیوں کو برف ، پانی اور اولوں کے ساتھ دھو دے۔‘‘
یاد رہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد استفتاح کی کچھ اور دعائیں بھی رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں ، ان میں سے جو دعا بھی آپ پڑھناچاہیں پڑھ سکتے ہیں۔
٭۔قراء ت سے پہلے أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ پڑھنا۔
٭۔پھر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیْمِ پڑھنا۔
٭۔فاتحہ کے بعد آمین کہنا۔
٭۔ آمین کہنے کے بعد ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں اور فجر ، جمعہ اور ہر نفل نماز کی دونوں رکعتوں میں کسی اور سورت کی قراء ت کرنا۔ مقتدی صرف سرّی نمازوں (ظہر ، عصر )میں فاتحہ کے بعد کسی دوسری سورت کی قراء ت کرسکتا ہے، جہری نمازوں (مغرب ، عشاء ، فجراور جمعہ )میں نہیں۔
٭۔رکوع وسجود میں تسبیحات یعنی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ اورسُبْحَانَ رَبِّیَ الْأعلٰی کا ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھنا۔
نمازی کو صرف انہی تسبیحات پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے ان کے علاوہ دوسری دعائیں بھی پڑھنی چاہییں جو کہ رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں۔خاص طور پر سجدہ میں ۔کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
’’ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے ، لہذا تم کثرت سے دعا کیا کرو ۔‘‘ ( مسلم )
٭۔رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہنا ، پھر درج ذیل دعا کا پڑھنا :
’’ اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمٰوٰتِ وَمِلْئَ الْأرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ،اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ،وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ،وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ‘‘ (مسلم)
’’ اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ اتنی تعریفیں جن سے آسمان، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے ، سب بھر جائے۔ اے تعریف اور بزرگی کے لائق!سب سے سچی بات جو بندے نے کہی اورہم سب تیرے بندے ہیں، وہ یہ ہے کہ اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں۔اور کسی بزرگی والے کو اس کی بزرگی تیرے ہاں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔‘‘
٭۔دو سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْ لِیْ ، رَبِّ اغْفِرْ لیْ پڑھنا۔
٭۔ آخری تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے یہ دعا پڑھنا :
’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ ‘‘ (بخاری ومسلم )
’’ اے اللہ ! میں عذاب جہنم ، عذاب قبر ، زندگی اور موت کے فتنے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘
نوٹ :
نماز کی مذکورہ قولی سنتوں میں سے بیشتر سنتیں ایسی ہیں جن پر ہر رکعت میں عمل کیا جا سکتا ہے، چاہے فرض نمازہو یا نفل ۔اور اگر فرض اور نفل نمازوں کی ہر رکعت کی مذکورہ سنتوں کو جمع کرلیا جائے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دن اور رات میں کتنی زیادہ سنتوں کا ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اِن قولی سنتوں میں سے آٹھ سنتیں ایسی ہیں جن پر ہر رکعت میں عمل ہو سکتا ہے ۔ اور پانچوں فرض نمازوں کی سترہ رکعات میں ان پر عمل کیا جائے تو یہ مجموعی طور پر (۱۳۶) سنتیں ہو جائیں گی ۔ اور دن اور رات کی نفل نماز کی کل رکعات (۲۵) ہوں اور ہر رکعت میں ان آٹھ سنتوں پر عمل کیا جائے تو یہ مجموعی طور پر (۱۷۵) سنتیں ہو جائیں گی ۔ اگر رات کی نفل نماز میں اضافہ کر لیا جائے اور نمازِ چاشت بھی پڑھی جائے تو ان سنتوں کی تعداد اور زیادہ ہو جائے گی ۔
جو قولی سنتیں ہر رکعت میں بار بار نہیں ہوتیں وہ ہیں : دعائے استفتاح اور آخری تشہد کی دعا ۔ اور پانچ فرض نمازوں میں ان کی تعداد (۱۰) ہو جائے گی ۔ اور دن اور رات کی نفل نمازوں میں بھی ان پر عمل کیا جائے تو مجموعی طور پران کی تعداد (۲۴) ہو جائے گی ۔ اور اگر نماز تہجد کی رکعات میں اضافہ کر لیا جائے اور نماز چاشت اور تحیۃ المسجد وغیرہ میں بھی ان پر عمل کیا جائے تو یقینا ان کی تعداد بڑھ جائے گی اور اجروثواب میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نماز کی عملی سنتیں

٭۔تکبیر تحریمہ کہتے وقت رفع الیدین کرنا۔
٭۔رکوع میں جاتے ہوئے رفع الیدین کرنا۔
٭۔رکوع سے اٹھ کر رفع الیدین کرنا۔
٭۔دو تشہد والی نماز میں تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہو کر رفع الیدین کرنا۔
٭۔رفع الیدین کرتے ہوئے انگلیوں کو ملا کر رکھنا۔
٭۔رفع الیدین کرتے ہوئے انگلیوں اورہتھیلیوں کو قبلہ کی سمت سیدھا رکھنا۔
٭۔رفع الیدین کرتے ہوئے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر یا کانوں کی لو تک اٹھانا۔
٭۔دونوں ہاتھوں کو سینے پر اس طرح رکھنا کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہو ، یا دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی کلائی کو پکڑا ہوا ہو۔
٭۔دورانِ قیام جائے سجدہ پر دیکھتے رہنا۔
٭۔حالت قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا۔
٭۔قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنا اور دورانِ قراء ت اس میں تدبر کرنا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top