• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دن اور رات میں 1000سے زیادہ سنتیں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بیک وقت ایک سے زیادہ عبادات
بیک وقت ایک سے زیادہ عبادات کرنے کا طریقہ صرف ان لوگوں کو آتا ہے جو اپنے قیمتی اوقات کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔اور اس کے کئی طریقے ہیں :
1
۔انسان کا مسجد کی طرف جانا عبادت ہے ، چاہے پیدل چل کر جائے یا سواری پرسوار ہو کر، لیکن اس دوران وہ کئی اور عبادات بھی کرسکتا ہے مثلاً اللہ کا ذکر اور تلاوتِ قرآن وغیرہ۔
2۔کسی دعوتی تقریب میں حاضر ہونا عبادت ہے بشرطیکہ اس تقریب میں منکرات نہ ہوں۔ اور اس دوران اگر وہ تقریب کے حاضرین کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دے اور انھیں پندو نصائح کرے یا اللہ کے ذکر میں مشغول رہے تو یوں ایک وقت میں وہ کئی عبادات کا ثواب حاصل کر سکتا ہے۔
3۔عورت کا گھریلو کام کاج سرانجام دینا عبادت ہے اگر اسکی نیت اللہ کا تقرب حاصل کرنا اور خاوند کو راضی کرنا ہو۔ اور اسی دوران اگر وہ اپنی زبان سے اللہ کا ذکر کرتی رہے یا کوئی دینی کیسٹ سنتی رہے تو اسے ایک وقت میں متعدد عبادتوں کا ثواب حاصل ہو سکتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں رسول اکرمﷺکی زبان مبارک سے یہ دعا سو مرتبہ سنا کرتے تھے :
’’ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَتُبْ عَلَیَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ‘‘
’’ اے میرے رب ! مجھے معاف فرما اور میری توبہ قبول کر ، بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘( ابو داؤد ، ترمذی : صحیح )
غور کریں کہ آپﷺ ایک ہی وقت میں دو عبادتیں کیا کرتے تھے۔ ایک صحابۂ کرام کے ساتھ مجلس اور انھیں دین کی تعلیم دینا اور دوسری اللہ کا ذکر اور استغفار اور توبہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ہر حال میں اللہ کا ذکر
٭۔اللہ کا ذکر اللہ کی بندگی کی بنیاد ہے کیونکہ ذکر سے تمام اوقات واحوال میںبندے کا اس کے خالق سے تعلق ظاہر ہوتاہے۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ’’ رسول اللہﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘(مسلم )
ذکر اللہ کے ساتھ ایک رابطہ ہے اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے میں زندگی ہے ۔ اور اس کی پناہ میں نجات ہے اور اس کے قرب میں کامیابی اور اس کی رضا ہے ۔ اور اس سے دوری اختیار کرنے میں گمراہی اور گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔
٭۔اللہ کا ذکر مومنوں اور منافقوں میں فرق کرتا ہے،کیونکہ منافق بہت کم اللہ کا ذکر کرتے ہیں ۔
٭۔شیطان صرف اس وقت انسان پر غالب آسکتا ہے جب وہ اللہ کے ذکر سے غافل ہو۔ سو اللہ کا ذکر ایک مضبوط قلعہ ہے جو انسان کو شیطان کی چالوں سے بچا لیتا ہے اور شیطان کو یہ بات پسند ہوتی ہے کہ انسان اللہ کے ذکر سے غافل رہے تاکہ وہ اسے بآسانی شکار کر سکے۔
٭۔ذکر سعادتمندی کا راستہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
’’ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘ ( الرعد : ۲۸)
’’ جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو ! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہو تی ہے ۔‘‘
٭۔ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا انسان کیلئے ضروری ہے کیونکہ اہل جنت صرف اس گھڑی پر حسرت کریں گے جس میں انھوں نے اللہ کا ذکر نہیں کیا ہوگا۔
٭۔ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا ہمیشہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی دلیل ہے۔
امام نوویؒ کہتے ہیں : ’’ علما کااتفاق ہے کہ بے وضو اور جنبی شخص اور حیض ونفاس والی عورت کیلئے دل اور زبان کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا جائز ہے ، جیسے سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر ، لا إلہ إلا اللہ اور درود شریف پڑھنا اور دعا کرنا ، ہاں قراء ت کرنا جائز نہیں۔‘‘
٭۔جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اللہ اس کا ذکر کرتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
’’ فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ ‘‘’’ پس تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا۔اور تم میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو ۔‘‘( البقرۃ : ۱۵۲)
کسی انسان کو اگر اس بات کا پتہ چل جائے کہ اسے فلاں بادشاہ نے یاد کیا ہے اور اس نے اپنی مجلس میں اس کی تعریف کی ہے تو اسے انتہائی خوشی ہوتی ہے ۔ اسی طرح اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اسے بادشاہوں کے بادشاہ نے فرشتوں کے سامنے یاد کیا ہے تو اس کی خوشی کا عالم کیا ہو گا !
٭۔ذکر سے مقصود یہ نہیں کہ صرف زبان چلتی رہے اور دل اللہ کی عظمت اور اس کی اطاعت سے غافل رہے ، بلکہ زبان کے ذکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی سوچوں کا مرکز اللہ رب العزت ہو اور وہ ذکر کے معانی میں تدبر کر رہا ہو۔
فرمان الٰہی ہے :’’ وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ‘‘ ( الا عراف : ۲۰۵)
’’ اور صبح وشام اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کیا کر ، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ ۔ اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔‘‘
لہذا ذکر کرنے والے کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کس عظیم ذات کا ذکر کر رہا ہے ! تاکہ ظاہری اور باطنی طور پر اللہ سے اس کا تعلق قائم رہے۔
اللہ کی نعمتوں میں غور وفکر
ارشاد نبویؐ ہے :’’ تَفَکَّرُوْا فِیْ آلَائِ اللّٰہِ وَ لَاتَفَکَّرُوْا فِیْ اللّٰہِ ‘‘( الطبرانی فی الاوسط ،البیہقی فی شعب الایمان ۔ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے )
’’ اللہ کی نعمتوں میں غور وفکر کیا کرو اور خوداللہ میں غوروفکر نہ کیا کرو۔‘‘
وہ امور جو دن اور رات میں بار بارکئے جا سکتے ہیں ان میں سے ایک ہے اللہ کی نعمتوں کا احساس اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا۔ چوبیس گھنٹوں میں کتنے مواقع ایسے آتے ہیں جن میں انسان اگر اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرے تو بے ساختہ طور پر اس کی زبان سے’ الحمد للہ ‘ کے الفاظ جاری ہو جائیں !
مثال کے طور پر : آپ جب مسجد کی طرف جا رہے ہوں، خصوصاً فجر کے وقت اور آپ دیکھیں کہ آپ کے آس پاس کے لوگ مسجد کا رخ نہیں کر رہے اور صبح ہونے کے باوجود مُردوں کی طرح گہری نیند سو رہے ہیں تو کیا آپ نے کبھی اس بات کا احساس کیا کہ اللہ نے آپ کو ہدایت دے کر آپ پر کتنا بڑا احسان فرمایا ہے !
٭۔آپ جب اپنی گاڑی میں بیٹھے راستے پر رواں دواں ہوتے ہیں تو آپ کو کئی مناظر دکھائی دیتے ہیں،اِدھر کسی گاڑی کا حادثہ ہو گیا ہے اور اُدھر کسی گاڑی سے گانوں کی آواز آرہی ہے ! تو کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتنا بڑا انعام فرمایا اور آپ کو حادثات سے محفوظ رکھا اور اپنی نافرمانی سے بچائے رکھا !
٭۔ آپ جب خبریں سن رہے یا پڑھ رہے یا دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کو قحط سالی،سیلاب، وبا، حادثات ، زلزلوں ، جنگوں اور قوموں پر مظالم کی خبروں کا بھیعلم ہوتا ہے۔ تو کیا آپ نے کبھی اس بات کا احساس کیا کہ اللہ نے آپ کو ان سے محفوظ فرما کر آپ پر کتنا انعام کیا ہے !
سو نیک بخت ہے وہ انسان جو ہر دم اللہ رب العزت کی نعمتوں کو یاد رکھتا ہے اور ہر موقعہ پر اللہ کے ان احسانات کا احساس کرتا ہے جن سے اللہ نے اسے نوازرکھا ہے۔ مثلاً صحت وتندرستی ، خوشحالی ، دین پر استقامت ، آفتوں اور مصیبتوں سے امن اور ان کے علاوہ دیگر بے شمار نعمتیں ۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا ضروری ہے۔
رسول اللہﷺ کا ارشا د گرامی ہے : ’’ جو شخص کسی مصیبت زدہ آدمی کو دیکھ کر درج ذیل دعا پڑھے تو وہ اس آزمائش سے محفوظ رہتا ہے :
’’ اَلْحَمْدُلِلّٰہ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّاابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً ‘‘ ’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے اس چیز سے عافیت دی جس میں تجھے مبتلا کیااور اس نے اپنے پیدا کئے ہوئے بہت سے لوگوں پر مجھے فضیلت بخشی۔‘‘( ترمذی : حسن )
اورارشاد باری ہے : ’’ فَاذْکُرُوْا آلَائَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘( الاعراف : ۶۹) ’’ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کیا کرو تاکہ تم کامیابی پا جاؤ ۔‘‘
ہر ماہ میں ختم ِقرآن مجید
نبی کریم ﷺ نے عبد اللہ بن عمرو کو فرمایا تھا :’’ اِقْرَأِ الْقُرْآنَ فِیْ شَہْرٍ ‘‘ (ابو داؤد ) ’’ مہینے میں مکمل قرآن پڑھا کر ۔‘‘
ہر ماہ میں پورا قرآن مجید ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز سے پہلے یا اس کے بعدکم از کم چار صفحات کی تلاوت کریں ، یوں دن اور رات میں بیس صفحات یعنی ایک پارے کی تلاوت ہو گی۔ اور اگر ہر روز اسی طرح کیا جائے تو تیس دنوں میں پوراقرآن مجید ختم ہو سکتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سونے سے پہلے کی سنتیں
سونے سے پہلے درج ذیل دعاؤں کا پڑھنا مسنون ہے
٭۔’’ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ أَمُوْتُ وَأَحْیَا‘‘ ( بخاری )
’’ اے اللہ ! میں تیرے نام کے ساتھ مرتا اور زندہ ہوتا ہوں۔‘‘
٭۔دونوں ہتھیلیوں کو اکٹھا کرکے ان میں پھونک ماریں اور پھر آخری تین سورتیں پڑھیں ، اس کے بعد جہاں تک ہو سکے اپنی ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر پھیریں۔ اپنے سر اور چہرے سے شروع کریں اور جسم کے سامنے والے حصے پر ہتھیلیوں کو پھیریں ۔اور ایسا تین بار کریں۔ (بخاری )
٭۔ آیۃ الکرسی پڑھیں جس کی فضیلت حدیث میں یوں ہے :
’’جو آدمی اسے پڑھ لے ساری رات اللہ کی طرف سے ایک محافظ اس کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور شیطان اس کے قریب نہیں آتا۔‘‘( بخاری )
٭۔’’ بِاسْمِکَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِیْ وَبِکَ أَرْفَعُہُ إِنْ أَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْہَا وَإِنْ أَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ‘‘ ( بخاری،مسلم )
’’ اے میرے رب ! تیرے نام کے ساتھ میں نے اپنا پہلو ( بستر پر ) رکھا ہے اور تیرے (فضل کے ساتھ ہی ) اسے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری روح کو قبض کرلیا تو اس پر رحم کرنااور اگر تو نے اسے واپس لوٹا دیا تو اس کی اسی چیز کے ساتھ حفاظت کرنا جس کے ساتھ تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ خَلَقْتَ نَفْسِیْ وَأَنْتَ تَوَفَّاہَا لَکَ مَمَاتُہَا وَمَحْیَاہَا إِنْ أَحْیَیْتَہَا فَاحْفَظْہَا وَإِنْ أَمَتَّہَا فَاغْفِرْ لَہَا اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ ‘‘ ( مسلم )
’’ اے اللہ ! بے شک تو نے میری جان کو پیدا کیااور تو ہی اسے فوت کرے گا ، تیرے لئے ہے اس کی موت اور اس کی زندگی۔ اگر تو نے اسے زندہ رکھا تو اس کی حفاظت کرنااور اگر تو نے اسے مار دیا تو اس کی مغفرت کرنا۔اے اللہ ! میں تجھ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
٭۔ اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ کر تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں۔’’ اَللّٰہُمَّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَک ‘‘
’’ اے اللہ ! مجھے اس دن اپنے عذاب سے بچانا جب تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔‘‘ (ابو داؤد ، ترمذی )
٭۔۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا۔ ( بخاری ،مسلم )
نوٹ :
ان تسبیحات کے فوائد نماز کے بعد کی سنتوں میں درج کئے جا چکے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان تسبیحات کا سو مرتبہ پڑھنا (۱۰۰) صدقوں کے برابر ہے ۔ ( مسلم ) اور دوسری یہ ہے کہ ان تسبیحات کا سو مرتبہ پڑھنا جنت میں(۱۰۰) درخت لگانے کے برابر ہے ۔ (ابن ماجہ )
٭۔’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَآوَانَا فَکَمْ مِمَّنْ لَا کَافِیَ لَہُ وَلاَ مُؤْوِی ‘‘ (مسلم)
’’ تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے ہمیں کھلایااور ہمیں پلایا اور ہمیں کافی ہو گیااور ہمیں جگہ دی۔پس کتنے لوگ ہیں جنھیں کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ کوئی جگہ دینے والا۔‘‘
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیْکَہُ أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْئً ا أَوْ أَجُرَّہُ إِلٰی مُسْلِم ‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی )
نوٹ :
یہ دعا اور اس کا ترجمہ صبح وشام کے اذکار میں گذر چکا ہے۔
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِیْ إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِیْ إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِیْ إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَّرَہْبَۃً إِلَیْکَ لَا مَلْجَا وَلَا مَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ أَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ أَرْسَلْتَ ‘‘(بخاری ،مسلم)
’’ اے اللہ ! میں نے اپنے نفس کو تیرے حوالے کردیااور اپنا معاملہ تیرے سپرد کردیااور اپنی پشت کو تیری پناہ میں دے دیا۔ تیری طرف رغبت کرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے اور تیری ہی طرف پناہ پانے اور نجات حاصل کرنے کی جگہ ہے۔میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو تو نے اتاری اور تیرے نبی پر بھی جسے تو نے بھیجا۔‘‘
٭۔’’ اَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ اَللّٰہُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ اِقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ ‘‘ ( مسلم )
’’ اے اللہ ! اے سات آسمانوں کے رب ! اے عرشِ عظیم کے رب ! اے ہمارے اور ہر چیز کے رب ! اے دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے ! اے تورات ، انجیل اور قرآن کو اتارنے والے ! میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کی پیشانی کو تو نے پکڑ رکھا ہے۔ اے اللہ ! تو ہی اول ہے ، پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں۔ اور تو ہی آخر ہے،پس تیرے بعد کوئی چیز نہیں ۔اور تو ہی ظاہر ہے، تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں ۔ اور تو ہی باطن ہے تیرے ورے کوئی چیز نہیں۔ ہماری طرف سے قرضہ ادا کردے اور ہمیں فقیری سے نکال کر غنی کردے ۔‘‘
٭۔سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات کا پڑھنا۔ جن کی فضیلت کے بارے میں رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے : ’’ جو شخص انھیں رات میں پڑھ لے اسے یہ کافی ہو جاتی ہیں۔‘‘ ( بخاری ،مسلم )
’ کافی ہو جانے سے ‘مراد کیا ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ قیام اللیل سے کافی ہو جاتی ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ہر برائی اور شر سے کافی ہوجاتی ہیں اور بعض نے مذکورہ دونوں معانی مراد لئے ہیں۔ ( الاذکار۔ النووی ؒ)
٭۔سورۃ الکافرون کا پڑھنا جس کی فضیلت حدیث میں یوں ہے : ’’ یہ سورت شرک سے براء ت ہے۔‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی ، احمد ، ابن حبان ، حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اورالذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ اور ابن حجر اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے )
٭۔سونے کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ بھی ہے کہ باوضو سوئے۔ ایک حدیث میں ہے کہ
’’ جب تم بستر پر آنے کا ارادہ کرو تو وضو کرلیا کرو۔‘‘ (بخاری ،مسلم )
٭۔اسی طرح ایک سنت یہ بھی ہے کہ دائیں پہلو پر سوئے۔
ارشاد نبویﷺ ہے : ’’ …پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جانا۔‘‘ ( بخاری ومسلم )
٭۔ایک سنت یہ ہے کہ اپنا دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھے۔
رسول اللہﷺ جب سوتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے۔ ( ابو داؤد )
٭۔اور سونے سے پہلے اپنا بستر جھاڑ لے: ارشاد نبویؐ ہے :
’’ تم میں سے کوئی شخص جب اپنے بستر پر سونا چاہے تو اسے جھاڑ لے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے جانے کے بعد اس پر کیا آیا ! ‘‘ ( بخاری،مسلم )
مذکورہ بالا دعاؤں کے متعلق امام نوویؒ کا کہنا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ انسان ان تمام دعاؤں کو پڑھے ، اگر ایسا نہ ہو سکے تو اپنی طاقت کے مطابق ان میں سے جو اہم دعائیں پڑھ سکتا ہے پڑھ لے۔
یاد رہے کہ یہ دعائیں صرف رات کی نیند کی ہی نہیں بلکہ دن کی نیند کی بھی ہیں ، کیونکہ ان کے متعلق جو احادیث ذکر کی گئی ہیں وہ ہر نیند کے بارے میں ہیں چاہے دن کو ہو یا رات کو۔ اور اگر انسان دن اور رات میں دو مرتبہ سوتا ہو جیسا کہ اکثر لوگوں کا معمول ہے تو مذکورہ سنتوں پر دو مرتبہ عمل ہو سکتا ہے۔
ان دعاؤں کے پڑھنے سے مزید دو فوائد حاصل ہوتے ہیں :
1۔انسان اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے اور اسی بناء پر وہ رات کی تمام آفتوں اور شیطان کے شر سے بچ جاتا ہے۔
2۔انسان کے دن کا اختتام اللہ کے ذکر،اس کی اطاعت، اس پر توکل اور اس کی توحید پر ہوتا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top