ہر حال میں اللہ کا ذکر
٭۔اللہ کا ذکر اللہ کی بندگی کی بنیاد ہے کیونکہ ذکر سے تمام اوقات واحوال میںبندے کا اس کے خالق سے تعلق ظاہر ہوتاہے۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ’’ رسول اللہﷺ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘(مسلم )
ذکر اللہ کے ساتھ ایک رابطہ ہے اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے میں زندگی ہے ۔ اور اس کی پناہ میں نجات ہے اور اس کے قرب میں کامیابی اور اس کی رضا ہے ۔ اور اس سے دوری اختیار کرنے میں گمراہی اور گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔
٭۔اللہ کا ذکر مومنوں اور منافقوں میں فرق کرتا ہے،کیونکہ منافق بہت کم اللہ کا ذکر کرتے ہیں ۔
٭۔شیطان صرف اس وقت انسان پر غالب آسکتا ہے جب وہ اللہ کے ذکر سے غافل ہو۔ سو اللہ کا ذکر ایک مضبوط قلعہ ہے جو انسان کو شیطان کی چالوں سے بچا لیتا ہے اور شیطان کو یہ بات پسند ہوتی ہے کہ انسان اللہ کے ذکر سے غافل رہے تاکہ وہ اسے بآسانی شکار کر سکے۔
٭۔ذکر سعادتمندی کا راستہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
’’ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘ ( الرعد : ۲۸)
’’ جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو ! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہو تی ہے ۔‘‘
٭۔ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا انسان کیلئے ضروری ہے کیونکہ اہل جنت صرف اس گھڑی پر حسرت کریں گے جس میں انھوں نے اللہ کا ذکر نہیں کیا ہوگا۔
٭۔ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا ہمیشہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی دلیل ہے۔
امام نوویؒ کہتے ہیں : ’’ علما کااتفاق ہے کہ بے وضو اور جنبی شخص اور حیض ونفاس والی عورت کیلئے دل اور زبان کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا جائز ہے ، جیسے
سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر ، لا إلہ إلا اللہ اور درود شریف پڑھنا اور دعا کرنا ، ہاں قراء ت کرنا جائز نہیں۔‘‘
٭۔جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اللہ اس کا ذکر کرتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
’’ فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ ‘‘’’ پس تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا۔اور تم میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو ۔‘‘( البقرۃ : ۱۵۲)
کسی انسان کو اگر اس بات کا پتہ چل جائے کہ اسے فلاں بادشاہ نے یاد کیا ہے اور اس نے اپنی مجلس میں اس کی تعریف کی ہے تو اسے انتہائی خوشی ہوتی ہے ۔ اسی طرح اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اسے بادشاہوں کے بادشاہ نے فرشتوں کے سامنے یاد کیا ہے تو اس کی خوشی کا عالم کیا ہو گا !
٭۔ذکر سے مقصود یہ نہیں کہ صرف زبان چلتی رہے اور دل اللہ کی عظمت اور اس کی اطاعت سے غافل رہے ، بلکہ زبان کے ذکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی سوچوں کا مرکز اللہ رب العزت ہو اور وہ ذکر کے معانی میں تدبر کر رہا ہو۔
فرمان الٰہی ہے :
’’ وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ‘‘ ( الا عراف : ۲۰۵)
’’ اور صبح وشام اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کیا کر ، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ ۔ اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔‘‘
لہذا ذکر کرنے والے کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کس عظیم ذات کا ذکر کر رہا ہے ! تاکہ ظاہری اور باطنی طور پر اللہ سے اس کا تعلق قائم رہے۔
اللہ کی نعمتوں میں غور وفکر
ارشاد نبویؐ ہے :
’’ تَفَکَّرُوْا فِیْ آلَائِ اللّٰہِ وَ لَاتَفَکَّرُوْا فِیْ اللّٰہِ ‘‘( الطبرانی فی الاوسط ،البیہقی فی شعب الایمان ۔ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے )
’’ اللہ کی نعمتوں میں غور وفکر کیا کرو اور خوداللہ میں غوروفکر نہ کیا کرو۔‘‘
وہ امور جو دن اور رات میں بار بارکئے جا سکتے ہیں ان میں سے ایک ہے اللہ کی نعمتوں کا احساس اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا۔ چوبیس گھنٹوں میں کتنے مواقع ایسے آتے ہیں جن میں انسان اگر اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرے تو بے ساختہ طور پر اس کی زبان سے’ الحمد للہ ‘ کے الفاظ جاری ہو جائیں !
مثال کے طور پر : آپ جب مسجد کی طرف جا رہے ہوں، خصوصاً فجر کے وقت اور آپ دیکھیں کہ آپ کے آس پاس کے لوگ مسجد کا رخ نہیں کر رہے اور صبح ہونے کے باوجود مُردوں کی طرح گہری نیند سو رہے ہیں تو کیا آپ نے کبھی اس بات کا احساس کیا کہ اللہ نے آپ کو ہدایت دے کر آپ پر کتنا بڑا احسان فرمایا ہے !
٭۔آپ جب اپنی گاڑی میں بیٹھے راستے پر رواں دواں ہوتے ہیں تو آپ کو کئی مناظر دکھائی دیتے ہیں،اِدھر کسی گاڑی کا حادثہ ہو گیا ہے اور اُدھر کسی گاڑی سے گانوں کی آواز آرہی ہے ! تو کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتنا بڑا انعام فرمایا اور آپ کو حادثات سے محفوظ رکھا اور اپنی نافرمانی سے بچائے رکھا !
٭۔ آپ جب خبریں سن رہے یا پڑھ رہے یا دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کو قحط سالی،سیلاب، وبا، حادثات ، زلزلوں ، جنگوں اور قوموں پر مظالم کی خبروں کا بھیعلم ہوتا ہے۔ تو کیا آپ نے کبھی اس بات کا احساس کیا کہ اللہ نے آپ کو ان سے محفوظ فرما کر آپ پر کتنا انعام کیا ہے !
سو نیک بخت ہے وہ انسان جو ہر دم اللہ رب العزت کی نعمتوں کو یاد رکھتا ہے اور ہر موقعہ پر اللہ کے ان احسانات کا احساس کرتا ہے جن سے اللہ نے اسے نوازرکھا ہے۔ مثلاً صحت وتندرستی ، خوشحالی ، دین پر استقامت ، آفتوں اور مصیبتوں سے امن اور ان کے علاوہ دیگر بے شمار نعمتیں ۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا ضروری ہے۔
رسول اللہﷺ کا ارشا د گرامی ہے : ’’ جو شخص کسی مصیبت زدہ آدمی کو دیکھ کر درج ذیل دعا پڑھے تو وہ اس آزمائش سے محفوظ رہتا ہے :
’’ اَلْحَمْدُلِلّٰہ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّاابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً ‘‘ ’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے اس چیز سے عافیت دی جس میں تجھے مبتلا کیااور اس نے اپنے پیدا کئے ہوئے بہت سے لوگوں پر مجھے فضیلت بخشی۔‘‘( ترمذی : حسن )
اورارشاد باری ہے :
’’ فَاذْکُرُوْا آلَائَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘( الاعراف : ۶۹) ’’ پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کیا کرو تاکہ تم کامیابی پا جاؤ ۔‘‘
ہر ماہ میں ختم ِقرآن مجید
نبی کریم ﷺ نے عبد اللہ بن عمرو کو فرمایا تھا :
’’ اِقْرَأِ الْقُرْآنَ فِیْ شَہْرٍ ‘‘ (ابو داؤد ) ’’ مہینے میں مکمل قرآن پڑھا کر ۔‘‘
ہر ماہ میں پورا قرآن مجید ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز سے پہلے یا اس کے بعدکم از کم چار صفحات کی تلاوت کریں ، یوں دن اور رات میں بیس صفحات یعنی ایک پارے کی تلاوت ہو گی۔ اور اگر ہر روز اسی طرح کیا جائے تو تیس دنوں میں پوراقرآن مجید ختم ہو سکتا ہے۔