• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دور جدید میں مصلحتِ خاموشی!

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

ایک مسئلے کی طرف گزشتہ چند روز سے توجہ دلانا چاہ رہی تھی کہ کیا فتنے کے دور میں اسلام کے احکامات پر عمل ہر جگہ اور ہمیشہ کرنا چاہیئے؟؟؟
اس صورت میں جب بظاہر اسباب سے فتنے پھیلنے کا خدشہ ہو۔۔۔۔اور
کیا دور جدید میں مصلحت کی خاطر بعض جگہ خاموش رہنے کی کوئی صورت موجود ہے؟ اس بارے میں قرآن و احادیث سے کیا حکم اخذ کیا گیا ہے؟؟؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
کوئی اہل علم بھائی توجہ فرمائیں! برائے مہربانی!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
ایک مسئلے کی طرف گزشتہ چند روز سے توجہ دلانا چاہ رہی تھی کہ کیا فتنے کے دور میں اسلام کے احکامات پر عمل ہر جگہ اور ہمیشہ کرنا چاہیئے؟؟؟
اس صورت میں جب بظاہر اسباب سے فتنے پھیلنے کا خدشہ ہو۔۔۔۔اور
کیا دور جدید میں مصلحت کی خاطر بعض جگہ خاموش رہنے کی کوئی صورت موجود ہے؟ اس بارے میں قرآن و احادیث سے کیا حکم اخذ کیا گیا ہے؟؟؟
ذرا واضح کرکے لکھیں ۔ شاید کچھ کہنے کے لیے ذہن میں آجائے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

ایک مسئلے کی طرف گزشتہ چند روز سے توجہ دلانا چاہ رہی تھی کہ کیا فتنے کے دور میں اسلام کے احکامات پر عمل ہر جگہ اور ہمیشہ کرنا چاہیئے؟؟؟
اس صورت میں جب بظاہر اسباب سے فتنے پھیلنے کا خدشہ ہو۔۔۔۔اور
کیا دور جدید میں مصلحت کی خاطر بعض جگہ خاموش رہنے کی کوئی صورت موجود ہے؟ اس بارے میں قرآن و احادیث سے کیا حکم اخذ کیا گیا ہے؟؟؟


آ پ کی بات واضح نہیں ہو سکی فتنہ کے خوف سے بعض اوقات خاموشی اختیار کی جاتی ہے قرآن میں رجل مومن کا ذکر ہے حدیث میں ابن عمر رضی الله عنہ کی خاموشی کا ذکر ہے جو انہوں نے مروان بن الحکم کی تقریر پر اختیار کی لیکن اس کی حدود ہیں ایک وقت اس خاموشی کا کھلم کھلا پردہ چاک کرنا بھی پڑتا ہے جیسا رجل المومن نے کیا

اس کا تعلق قوت اور اختیار سے ہے ابو سعید الخدری کی حدیث ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

من رأى منكم منكرا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه ، فإن لم يستطع فبقلبه ، وذلك أضعف
أيمان


تم میں سے کوئی منکر دیکھے تو باتھ سے اس کو بدلے اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اگر اس پر قادر نہ ہو تو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کاکمروز ہونا ہے


اس منکر میں وہ منکرات ہیں جو مسلمان اختیار کر لیتے ہیں اس میں شرک و کفر جسے منکرات نہیں کیونکہ وہ نص قرانی کے مطابق کسی صورت قبول نہیں البتہ فرد واحد کی صورت میں اس کو برداشت کرنا پڑتا ہے

ہاروں علیہ السلام کے سامنے بیل کی پوجا ہوئی لیکن فرد واحد ہونے کی وجہ سے وہ اس کو روک نہ سکے لیکن منع کرتے رہے اس میں بھی مطلقا خاموشی نہیں تھی
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ذرا واضح کرکے لکھیں ۔ شاید کچھ کہنے کے لیے ذہن میں آجائے ۔
جیسے کہ کتنے ایسے مسائل یا باتیں ہیں ، جنھیں ہم جانتے ہیں ، لیکن بسا اوقات انھیں سامنے لے آنا شدید فتنے کا باعث بن جاتا ہے۔تو کیا ایسے مسائل یا باتیں اگرچہ وہ صداقت پر مبنی ہوں تب بھی ہمیں انھیں سامنے نہیں لانا چاہیئے ، کہ کہیں یہ عوام الناس کے لیے انتہائی فتنہ کا باعث نہ بن جائیں۔نیز میں نے علماء اکرام کی کچھ کتب سے اخذ کیا کہ بعض ایسے مسائل ہیں جن میں مصلحت کے پیش نظر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی، تاکہ مذکورہ حکم کہیں فتنہ کا سبب نہ بن جائے۔دوسری جانب صحیح بخاری میں آپ کی نظر سے شاید حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی گزرا ہو ،
" حدثو ا الناس بما یعرفون ، اتریدون ان یکذب اللہ و رسولہ؟!
اور
مصنف عبد الرزاق ۔۔۔عن ابن عباس رضی اللہ عنہما : انہ راءی رجلا انتقض لما سمع حدیثا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الصفات ، استنکاراََ لذلک ، فقال: ما فرق ھولاء ؟؟ یجدون رقۃََ عند محکمہ ، ویھلکون عند متشابہ۔۔۔۔انتھی !
اس متعلق کیا کیا جائے گا؟ کیا فقہ قرآن وسنت سے کچھ ایسے اصول بھی اخذ کیئے گئے ہیں ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جیسے کہ کتنے ایسے مسائل یا باتیں ہیں ، جنھیں ہم جانتے ہیں ، لیکن بسا اوقات انھیں سامنے لے آنا شدید فتنے کا باعث بن جاتا ہے۔تو کیا ایسے مسائل یا باتیں اگرچہ وہ صداقت پر مبنی ہوں تب بھی ہمیں انھیں سامنے نہیں لانا چاہیئے ، کہ کہیں یہ عوام الناس کے لیے انتہائی فتنہ کا باعث نہ بن جائیں۔نیز میں نے علماء اکرام کی کچھ کتب سے اخذ کیا کہ بعض ایسے مسائل ہیں جن میں مصلحت کے پیش نظر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی، تاکہ مذکورہ حکم کہیں فتنہ کا سبب نہ بن جائے۔دوسری جانب صحیح بخاری میں آپ کی نظر سے شاید حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی گزرا ہو ،
" حدثو ا الناس بما یعرفون ، اتریدون ان یکذب اللہ و رسولہ؟!
اور
مصنف عبد الرزاق ۔۔۔عن ابن عباس رضی اللہ عنہما : انہ راءی رجلا انتقض لما سمع حدیثا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الصفات ، استنکاراََ لذلک ، فقال: ما فرق ھولاء ؟؟ یجدون رقۃََ عند محکمہ ، ویھلکون عند متشابہ۔۔۔۔انتھی !
اس متعلق کیا کیا جائے گا؟ کیا فقہ قرآن وسنت سے کچھ ایسے اصول بھی اخذ کیئے گئے ہیں ؟

قال الشيخ محمد بن صالح العثيمين – رحمه الله – :
قوله في أثر علي رضي الله عنه : " حدِّثوا النَّاس " ، أي : كلِّموهم بالمواعظ وغير المواعظ .
قوله : " بما يعرفون " ، أي : بما يمكن أن يعرفوه ، وتبلغه عقولهم ؛ حتى لا يفتنوا ، ولهذا جاء عن ابن مسعود رضي الله عنه ، قال : " إنك لن تحدث قوما حديثا لا تبلغه عقولهم إلا كان لبعضهم فتنة " - رواه البخاري -
ولهذا كان من الحكمة في الدعوة ألا تباغت الناس بما لا يمكنهم إدراكه ، بل تدعوهم رويداً ، رويداً ، حتى تستقر عقولهم ، وليس معنى " بما يعرفون " ، أي : بما يعرفون من قبل ؛ لأن الذي يعرفونه من قبل يكون التحديث به من تحصيل الحاصل .ولهذا كان من الحكمة في الدعوة ألا تباغت الناس بما لا يمكنهم إدراكه ، بل تدعوهم رويداً ، رويداً ، حتى تستقر عقولهم ، وليس معنى " بما يعرفون " ، أي : بما يعرفون من قبل ؛ لأن الذي يعرفونه من قبل يكون التحديث به من تحصيل الحاصل
قوله : " أتريدون أن يكذب الله ورسوله ؟! " الاستفهام للإنكار ، أي : أتريدون إذا حدثتم الناس بما لا يعرفون أن يكذب الله ورسوله ، لأنك إذا قلت : قال الله ، وقال رسوله : كذا وكذا ، قالوا : هذا كذب ، إذا كانت عقولهم لا تبلغه ، وهم لا يكذِّبون الله ورسوله ، ولكن يكذبونك ، بحديث تنسبه إلى الله ، ورسوله ، فيكونون مكذِّبين لله ورسوله ، لا مباشرة ، ولكن بواسطة الناقل .
فإن قيل : هل ندع الحديث بما لا تبلغه عقول الناس وإن كانوا محتاجين لذلك ؟ .
أجيب : لا ندعه ، ولكن نحدثهم بطريقة تبلغه عقولهم ، وذلك بأن ننقلهم رويداً ، رويدا ، حتى يتقبلوا هذا الحديث ، ويطمئنوا إليه ، ولا ندع ما لا تبلغه عقولهم ، ونقول : هذا شي مستنكر لا نتكلم به

یعنی یہ موقوف اثر ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والی آیت کے مطابق ہے جس کی شیخ عثیمین رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ نہ تو اس سے یہ مراد ہے کہ حق بات بتائی ہی نہ جائے اور نہ اس سے یہ مراد ہے کہ جو بات وہ پہلے جانتا ہے صرف وہی بتائی جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو بات وہ نہیں جانتا اس بات کو اسکے ذہن میں آہستہ آہستہ رکھا جائے
اصل میں ہر بات جو کسی کو بیان کی جاتی ہے اسکے درست ہونے کے کچھ خارجی دلائل ہوتے ہیں اب اگر وہ خٓرجی دلائل اس مخاطب پر پہلے واضح ہو چکے ہیں تو پھر اس بات کو ان دلائل کے مطابق پرکھ کر درست تسلیم کرنا آسان ہو جائے گا لیکن اگر وہ خارجی دلائل ہی اس پر واضح نہ ہوں تو معاملہ اس پر خلط ملط ہو جائے گا اور وہ اس بات کا انکار کر دے گا اور وہ بات جو آپ نے بتائی ہے وہ اللہ اور رسول کی ہی بات ہے تو حاصل یہ ہو گا کہ وہ اللہ اور رسول کو درپردہ جھٹلا رہا ہو گا
مثلا اگر کسی کو تقلید کی خرابیاں واضح کرنی ہیں تو پہلے سنت کی اہمیت اسکے اندر واضح کرنا پڑے گی اور احادیث اور اسناد کا تعارف اور اسکا دین میں سے ہونا اور بے سند بات کے غلط ہونا اور نیک لوگوں سے بھی غلطی ہونے کے امکان ہونا یہ سب کچھ اسکو بتانا پڑے گا ورنہ جب ڈائریکٹ اسکے سامنے کہیں گے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بات کو دیوار پر دے مارو تو وہ نہیں مانے گا
اسی طرح توحید کی دعوت میں مندرجہ ذیل تھریڈ میں میں نے اپنی کمزور سی کوشش کی ہے کہ ایک بریلوی کو کس طرح باقی چیزوں سے متعارف کروایا جائے جس سے وہ ہماری توحید والی دلیل کو پرکھنے کے قابل ہو جائے
مخلص بریلوی کے لئے حقائق
اسکی مثال ایک بچے سے بھی لی جا سکتی ہے کہ جس طرح ایک بچہ کوئی سوال کرتا ہے تو ہم جواب دیتے ہوئے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ اسکے بارے اسکی معلومات کیا ہے مثلا میرے بچے کو گھر کے ماحول کی وجہ سے مجاہد سے محبت ہے تو ایک دن کسی اور بڑے بچے سے اللہ کی بڑائی پر بات ہو رہی تھی تو ہو معصوم کہنے بھی اس بڑے بچے کو بتانے لگا کہ اللہ مجاہد سے بھی بڑا ہے یعنی اس وقت اس بچے کے پاس بڑائی کا سکیل مجاہد موجود تھا تو اسنے اسکے حوالے سے بتایا

آپ کا سوال
جہاں تک ہمارے کسی بارے خآموش رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ ہے تو اگر یہ سوال صرف دعوت کے میدان تک کا ہے تو یاد رکھیں اوپر شیخ عثیمین رحمہ اللہ کی وضاحت کے مطابق ہم ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ کے تحت حق دعوت نہیں روکیں گےکہ حق بات کو اس تک پہنچانا لازمی ہے لیکن دھیرے دھیرے اور زیادہ اہم چیز کو پہلے اور کم اہم چیز کو بعد میں پہنچانا جیسا کہ صحیح بخآری والی معاذ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے کہ فلیکن اول ما تدعوھم الیہ -----
اور اگر دعوت سے ہٹ کر اور معاملات کا ہے تو ہمیں اس میں مصلحت اور مفسدہ کو دیکھ کر چلنا ہو گا کہ اس کام میں دین کا فائدہ کتنا ہے اور نقصان کتنا ہے اس سلسلے میں کہ یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر کوئی مفسدہ اور مصلحت کو ایک جیسا نہیں جانتا بلکہ جس قسم کا مسئلہ ہوتا ہے اس سے متعلقہ بندہ اور دوسرا دین کا زیادہ علم رکھنے والا انسان زیادہ اچھا جج کر سکتا ہے جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتوی بھی اس سلسلے میں کہیں پڑھا تھا تو ہم پھر کسی معتبر عالم اور اس کیس سے متعلقہ عالم کی اتباع بھی کر سکتے ہیں واللہ اعلم
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
فتنوں کے دور میں اسلام پر سختی سے عمل کرنا چاہئے بلکہ اپنے ایمان کو بچانے کیلئے پہاڑ کی چوٹیوں پر جانا پڑے تو وہاں چلا جاے لیکن ایمان پر اثر نہ آنے دے کیونکہ فتنوںکا دور ایمان کی آزمائش کا دور ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ کی حدیث میں اسکی طرف اشارہ کیا ہے۔۔۔۔۔ اسی طرح بعض مواقع پر خاموش رہنے پراگر اسلام کایا کسی مسلمان کا فایدہ ہورہا ہے ۔تو خاموش رہنا بہتر ہے واللہ اعلم بالصواب ۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
1۔نبی علیہ السلام نے جب ایک نو مسلم کو دوران نماز باتیں کرتے سنا تو بعد میں نہایت شفقت ومحبت سے سمجھایا کہ ایسا نہیں کرتے ۔
2۔ دوسرے واقعہ میں جب ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے سونے کی انگوٹھی ہاتھ سے زبردستی اور زور سے نکال کر پیھنکی ۔
3۔ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالت نماز کے سامنے سے ایک شخص گزرے (دوتین مرتبہ منع کے باوجود) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بددعا کی ۔

حالت واقعات کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئیے ، جن کا جتنی طاقت ہے اس کے مطابق ۔
کبھی پیارسے سمجھانا کبھی طاقت کا استعمال، کبھی ان کے لیے بددعا کرنا ۔
یا پھر جس چیز کو وہ نہ سمجھتا ہو تو وہاں پر خاموشی ۔ بالخصوص اگر اسلام اور مسلمانوں کو اس سے فائدہ بھی ہو تو۔

{فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} [التغابن: 16].


رہی بات موجودہ صورت حال کے بارے میں ۔
جب بات چل پڑتی ہے تو صرف مجاہدین کے خلاف ۔سب مخالفت میں صفحات سیاہ کرجاتے ہیں ۔
اور جب کوئی ان جمہوریت ، سیکولراور لادینیت کے خلاف میں بات کریں تو سب کہتے کہ یہ شدت پسند ہے
حالانکہ قرآن وحدیث کا علم رکھتے ہوئے ان سب کو پتہ ہے اور ہونا چاہیئے کہ
جو کتاب اللہ کے بغیر فیصلہ کرتا ہو اسے طاغوت کہا گیا ہے۔
جو لوگ کہے کہ سود کے بغیر ہمارا ملک چل نہیں سکتا کیا وہ نظام ،اسلامی نظام ماننا جاسکتا ہے ۔؟
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَن بِہِ اﷲُ۔(شوریٰ:۲۱)
کیا ان کے پاس ایسے (اللہ کے )شریک ہیں جو ان کے لیے دین کے وہ قوانین بناتے ہیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟

اگر مقلدین حضرات کے تقلید غلطی پر ہے اس وجہ سے کہ اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ۔(توبہ:31)
کہ انہوں نے اپنے علما ء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا۔
تو جمہوری سیاست دانوں نے بھی لارڈ میکالے اور اوباما وغیرہ کو رب بنالیا ہے ۔ ان کو کھلی چھوٹ کیوں دی گئ ہے ؟

الغرض کبھی ہماری اس جمہوری نظام میں ان ساٹھ پینسٹھ سالوں میں کوئی اسلامی نظام قائم ہوا ہے ۔؟
جواب نہیں اور یقیناً نہیں میں ہے ، تو کیوں اس کے خلاف خاموشی کو مصلحت جاننا جائے ۔

لا يغير الله ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم۔ رعد 11
 
Last edited:
Top