اخت لأب (باپ شریک بہن) کے حصے
حالات:
1: محجوب :- فروع یا اصول میں سے کوئی بھی مذکر ہو، یا أخ شقیق ہو ، یا أخت شقیقہ عصبہ مع الغیر ہو یا ایک سے زائدأخت شقیقہ ثلثین پاچکی ہوں تو أخت لأب محجوب ہوجاتی ہے۔
2: باقی مال میں تعصیبا بالغیر﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾: - حاجب نہ ہو اورعاصب یعنی أخ لأب ہو ۔
3:سدس(1/6):-بالا صورتیں نہ ہوں(حاجب نہ ہو، عاصب نہ ہو) ، اور صاحبۃ النصف أخت شقیقہ ہو۔
4: باقی مال تعصیبا مع الغیر:- بالا صورتیں نہ ہوں (حاجب نہ ہو عاصب نہ ہو ، صاحب النصف أخت شقیقہ نہ ہو) فرع مؤنث موجود ہو ۔
5: ثلثین(2/3) :-بالا صورتیں نہ ہوں (حاجب نہ ہو ، عاصب نہ ہو، صاحبۃ النصف أخت شقیقہ نہ ہو ، عصبہ مع الغیر نہ بنے) اور خود متعدد ہوں ۔
6: نصف(1/2):-بالا صورتیں نہ ہوں (حاجب نہ ہو ، عاصب نہ ہو، صاحبۃ النصف أخت شقیقہ نہ ہو ، عصبہ مع الغیر نہ بنے)اورخود منفرد ہو۔
وضاحت :
أخت شقیقہ کے تحت اس کی جن پانچ حالتوں کی وضاحت کی گئی ہے عین وہی پانچ حالتیں أخت لأب کی بھی ہوتی ہے۔
اورأخت لأب کے ساتھ ایک مزیدحالت (تکلملہ ثلثین کے لئے سدس پانے) کا اضافہ ہوجاتا ہے ، دارصل دور کے أخت کے ساتھ یہ حالت تب پیش آتی ہے جب اس سے اوپر کسی أخت کو نصف مل گیا ہو ، چونکہ ایسی صورت میں أخوات کو ملنے والا مکمل فرض ثلثین صرف نہیں ہوپاتا بلکہ اس میں سے نصف نکلنے کے بعد سدس بچ جاتا ہے ، اس لئے دور کوئی صاحب فرض اخت موجود ہو تو یہ بچا ہوا فرض سدس اس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
لیکن یہ حالت أخت شقیقہ کی نہیں ہوتی یعنی أخت شقیقہ بچا ہوا فرض سدس نہیں پاسکتی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ أخت شقیقہ کے اوپر جس خاتون کو نصف مل سکتا ہے وہ بنت ہی ہوگی اور بنت کی موجوگی میں أخت شقیقہ صاحب فرض نہیں رہ جاتی بلکہ بنت کے ساتھ عصبہ بن کر فرض کے علاوہ بچے مال کی حقدار ہوتی نہ کہ فرض سدس کی ، اس لئے أخت شقیقہ بچا ہوا فرض سدس نہیں پاسکتی ۔
الغرض أخت لأب کی کل چھ حالتیں بنتی ہیں سب کی تفصیل ملاحظہ ہو:
✿ پہلی حالت: محجوب:
أخت لأب کو محجوب کرنے والے حاجبین دو طرح کے ہوتے ہیں:
1۔سرے سے استحقاق کو ختم کرنے والے۔2۔ محروم کرنے والے۔
اولا:
اصول یا فروع میں سے کوئی مذکر ہو یا أخ شقیق موجود ہو یا أخت شقیقہ عصبہ مع الغیر ہو تو أخت لأب کا استحقاق باقی ہی نہیں بچتا بلکہ وہ سرے سے محجوب ہوجاتی ہے۔
دلیل:
اصول وفروع میں مذکر کے حاجب ہونے کی دلیل آیات کلالہ کے تحت گذرچکی ہے۔
أخ شقیق کے حاجب ہونے کی دلیل کتاب وسنت سے مستنبط عام اصول ہیں جیساکہ حجب کی بحث میں بتایا جاچکا ہے۔
أخت شقیقہ عصبہ مع الغیر کے حاجب ہونے کی دلیل حدیث ابن مسعود ہے کیونکہ اس حدیث کے مطابق أخت شقیقہ کے عصبہ مع الغیر ہونے کی صورت پورے باقی مال کی مستحق ہوجاتی ہے اس لئے اب دور کے کسی بھی وارث کے لئے کچھ بچنے کا سوال ہی نہیں ۔
ثانیا:
ایک سے زائد أخت شقیقہ ثلثین پانے والی ہوں تو اس صورت میں أخت لأب کا استحقاق تو ختم نہیں ہوتا لیکن اس کے لئے فرض میں سے کچھ بچتا ہی نہیں ،کیونکہ فروع وحواشی میں خواتین کے لئے بڑے سے بڑا فرض ثلثین ہے اور جب یہ مکمل صرف ہوچکا تو اب فرض میں سے کچھ بچا ہی نہیں جو دورکے کسی خاتون کو فرضا ملے ۔
دلیل:
اس صورت میں أخت لأب کے محروم ہونے کی دلیل یہی ہے کہ اس سے اوپر کی خواتین میں مکمل فرض ثلثین صرف ہوچکا ہے۔
چونکہ اس حالت میں دور کی کسی خاتون کو فرضا کچھ اور ملنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے اس لئے یہ حالت پیدا کرنے والے ورثاء کو حاجب کہاجاسکتا ہے۔ ہم نے ان پر حاجب ہی کا اطلاق کیا ہے۔
✿ دوسری حالت:باقی مال میں تعصیبا بالغیر﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾
میت کی أخت لأب (باپ شریک بہن) اپنے درجے کے بھائی (أخ لأب) کے ساتھ ہوگی تو أخ لأب اسے عصبہ بنادے گا اور یہ دونوں ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ کے تحت حصہ پائیں گے۔
اس حالت کی شروط یہ ہیں:
حاجب نہ ہو اور عاصب (أخ لأب) موجود ہو۔
دلیل:
﴿وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾
اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے [النساء: 176]
اس آیت کے عموم میں اخوہ لأب بھی شامل ہیں ۔
✿ تیسری حالت: باقی مال تعصیبا مع الغیر :
جب أخت لأب ، میت کی فرع مؤنث(بنت یا بنت الإبن) کے ساتھ ہو تو عصبہ مع الغیر بنتی ہے ، یعنی وہ فرع مؤنث کی معیت کے سبب عصبہ یعنی باقی مال کی حقدار ہوجاتی ہے ۔
اس حالت کی شروط یہ ہیں:
حاجب نہ ہو، عاصب نہ ہو ، صاحب النصف أخت شقیقہ نہ ہو،فروع میں سے کوئی مؤنث مو جود ہو مثلابنت ، یا بنت الإبن ، خواہ یہ ایک ہوں یا ایک سے زائد ۔
دلیل:
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری رقم6736)
اس کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سگی بہن کو فرع مؤنث کے ساتھ باقی کا حقدار قراردیا ہے
✿ چوتھی حالت: سدس(1/6):
قرآن نے أخوات لغیرأم(سگی اور باپ شریک بہنوں ) میں تعدد کی صورت میں ان کا فرض ثلثین متعین کیا ہے ، لہٰذا اگر أخت لأب کے اوپر کی أخت شقیقہ کو فرضا نصف مل جائے، تو ایک سے زائد أخوات کو ملنے والے ثلثین میں سے صرف نصف فرض دیا گیا اور سدس فرض باقی بچ گیا ،تو اسے دور کی أخت لأب کو دے دیا جائے گا تاکہ أخوات کا فرض ثلثین مکمل أخوات تک پہنچ جائے اسی لئے اس حالت میں أخت لأب کو سدس دینے کی وجہ تکملۃ الثلثین بتلائی گئی ہے۔
مثلا کسی میت کی أم ،ایک أخت شقیقہ، ایک أخت لأب ہو اور ایک أخ لأم ہو تو:
أم کو سدس دیں گے ، أخ لأم کو بھی سدس دیں گے ، أخت شقیقہ کو نصف دیں گے ۔دوسری بہن اخت لأب کو بھی سدس دے دیں گے اس طرح دونوں بہنوں کے حصوں کا مجموعہ (نصف +سدس) ثلثین ہوجائے گا۔
نوٹ:-
ثلثین میں کل چار سدس ہوتے ہیں اور نصف میں کل تین سدس ہوتے ہیں ۔ثلثین یعنی چار سدس میں سے نصف یعنی تین سدس نکال دیں تو باقی ایک سدس بچتا ہے ۔
مثال کے طور 60 کی عدد لے کر ہم اس کے سدس ، ثلث ، ثلثین اور نصف کی مقدار دیکھتے ہیں:
60 روپے کا ایک سدس 10 روپے ہیں ۔
60 روپے کا ایک ثلث 20 روپے ہے یعنی دو ثلث (ثلثین ) 40 روپے ہیں ۔
60 روپے کانصف 30 روپے ہیں ۔
یعنی 60 کے ثلثین 40 روپے ہیں کل چار سدس ہیں (10+10+10+10)
اور 60 کے نصف 30 روپے میں کل تین سدس ہیں ۔(10+10+10)
اگر ہم ثلثین 40 روپے (یعنی چار سدس) میں سے نصف 30 (یعنی تین سدس) نکال دیں تو باقی 10 روپے یعنی ایک سدس بچتا ہے۔
اس حالت کی شروط یہ ہیں:
حاجب نہ ہو ، عاصب نہ ہو ، صاحبۃ النصف اخت شقیقہ ہو۔
دلیل:
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ پرقیاس (صحیح بخاری رقم6736)
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مطابق فروع میں صاحبۃ النصف بنت کے ساتھ بنت الإبن کو تکلملہ ثلثین کے لئے سدس دیا گیا کیونکہ بنات کا مجموعی حصہ ثلثین بتایا گیا ہے۔
ٹھیک اسی طرح اخوات کا مجموعی حصہ بھی ثلثین بتلایا گیا ہے۔لہٰذا حواشی میں صاحبۃ النصف أخت شقیقہ کے ساتھ اخت لأب کو بھی تکملہ ثلثین کے لئے سدس دیا جائے گا ۔
✿ پانچویں حالت:ثلثین(2/3) :
مذکورہ حالتوں میں سے کوئی حالت نہ ہو یعنی ، حاجب نہ ہو ، عاصب نہ ہو، صاحبۃ النصف أخت شقیقہ نہ ہو ، عصبہ مع الغیر نہ بنے اور أخت لأب ایک سے زائد ہوں تو انہیں ثلثین ملے گا۔
دلیل:
﴿ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ﴾
پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔[النساء: 176]
اس آیت کے عموم میں أخت لأب بھی شامل ہیں ۔
✿ چھٹی حالت: نصف(1/2):
مذکورہ حالتوں میں سے کوئی حالت نہ ہو یعنی ، حاجب نہ ہو ، عاصب نہ ہو، صاحبۃ النصف أخت شقیقہ نہ ہو ، عصبہ مع الغیر نہ بنے اور اخت لأب ایک ہی ہو تو اسے نصف ملے گا۔
دلیل:
﴿قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ﴾
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے [النساء: 176]
اس آیت کے عموم میں اخت لاب بھی شامل ہیں ۔
مشق:
٭ أخ ش ، أخ لام
٭أخت ش ، أخت لاب ، عم ش
٭ أم ، بنت ، أخت ش
٭ زوجہ ، بنت ، أخت لأب
٭ أخ ش ، أخت ش ، أخت لأم
٭ ٢/أخ لام ، أخت ش ، أخت لاب
٭زوجہ ، بنت ، أخت ش ، أخت لاب
٭ أم ، ٢/اخت ش ، أخت لأب ، أخ لام
نوٹ:- اگلا حصہ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے : (
تیسرا حصہ {الف} : تاصیل):