السلام علیکم ورحمتہ اللہ
مجھ سے کسی نے سوال کیا ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ثواب پہنچانے کی غرض سے عمرہ کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اہل اسلام کے ہر مقبول عمل کا ثواب ( ہبہ اور ھدیہ کئے بغیر ) امام الانبیاء ﷺ کو اللہ کے فضل سے ملتا ہے ،
کیونکہ
’’ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ»
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے“۔
(صحیح مسلم ۱۸۹۳ )
شيخ الإسلام ابن تيمية فرماتے ہیں
(في رسالة له عن إهداء الثواب إلى النبي صلى الله عليه وسلم (ص/125-126) :
" لم يكن من عمل السلف أنهم يصلُّون ويصومون ويقرؤون القرآن ويهدون للنبي صلى الله عليه وسلم ، كذلك لم يكونوا يتصدقون عنه ، ويعتقون عنه ؛ لأن كل ما يفعله المسلمون فله مثل أجر فعلهم من غير أن ينقص من أجورهم شيئاً" انتهى .
’’ یعنی امت کے سلف کا یہ عمل نہیں تھا کہ وہ نماز اور روزہ اور قراءۃ وغیرہ نیک اعمال کا ثواب نبی کریم ﷺ کو ہدیہ کریں ،
اور نہ وہ نبی اکرم ﷺ کی جانب سے صدقہ کرتے ،نہ ہی انکی طرف سے غلام آزاد کرتے تھے ،
(اس کی ضرورت اسلیئیے بھی نہیں تھی )کیونکہ :
اہل اسلام جو بھی نیک عمل کرتے ہیں ،تو اس کا اجر فاعل کے ساتھ ساتھ پیغمبر کریم ﷺ کو خود بخود مل جاتا ہے ،(کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نیک عمل کی تعلیم وتربیت کا ذریعہ و سبب تھے ) ‘‘
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
" بعض المحبِّين للرَّسُول عليه الصَّلاةُ والسَّلامُ يهدون إليه القُرَب ؛ كالختمة والفاتحة على روح محمَّد كما يقولون وما أشبه ذلك ، فنقول : هذا من البدع ومن الضلال .
أسألك أيُّها المُهْدي للرسول عبادة ، هل أنت أشدُّ حُبًّا للرسول عليه الصَّلاةُ والسَّلامُ من أبي بكر وعُمر وعُثمان وعليّ ؟
إن قال : نعم ، قلنا : كذبت ، ثم كذبت ، ثم كذبت ، ثم كذبت .
وإن قال : لا ، قلنا : لماذا لم يُهْدِ أبو بكر والخلفاء بعده للرسول صلى الله عليه وسلم ختمة ولا فاتحة ولا غيرها ؟ فهذا بدعة .
ثم إن عملك الآن وإن لم تُهْدِ ثوابه سيكون للرَّسول صلى الله عليه وسلم مثله ، فإذا أهديت الثَّوابَ ، فمعناه أنك حرمت نفسك من الثواب فقط ، وإلَّا فللرسول صلى الله عليه وسلم مثل عملك أهديت أم لم تُهْدِ " انتهى . ( الشرح الممتع على زاد المستقنع ) ج۳ ص ۱۵۳
بعض محب رسول ﷺ اپنی نیکیوں کا ثواب آپ کو بھیجتے ہیں جیسے ختم قرآن
اور قراءت فاتحہ ،
تو یاد رہے یہ کھلی بدعت اور گمراہی ہے ،
ہم ثواب ھدیہ کرنے والے سے پوچھتے ہیں کہ :کیا تجھے جناب رسول اللہ ﷺ سے
سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر کر محبت ہے ،
اگر جواب ہاں میں آئے ،
تو ہم کہیں گے یہ بہت بڑا جھوٹ ہے ،جھوٹ ہے ، جھوٹ ہے ،اوراگر وہ جواب میں کہے کہ نہیں مجھے ان مقدس حضرات جتنی محبت نہیں تو ہم کہیں گے کہ اتنی شدید محبت کے باوجود ان خلفاء راشدین نے نبی اکرم ﷺ کو ختم قرآن و فاتحہ کا ثواب کیوں نہ بھیجا ؟
(چونکہ ان پاکیزہ نفوس نے اس طرح نہیں کیا )اس لئے یہ طریقہ بدعت ہے
اور حقیقت تو یہ ہے کہ :
تیرے اچھے عمل کا ثواب نبی مکرم ﷺ کو بھی پہنچے گا ، خواہ تو انہیں یہ ثواب ھدیہ نہ بھی کرے ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا انفرادی طور پر تروایح پڑھتے وقت قرآن مجید دیکھ کر پڑھا جا سکتا ہے؟
اس صورت میں کہ قرآن حفظ نہ ہو!
اس دوسرے سوال کا جواب یہ ہے :
ما حكم القراءة من المصحف في صلاة التراويح ؟.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب ::
الحمد لله
لا بأس بالقراءة من المصحف في الصلاة ، فقد كان لعائشة رضي الله عنها غلام يؤمها من المصحف في رمضان . رواه البخاري معلقاً (1/245) .
وقال ابن وهب: قال ابن شهاب : كان خيارنا يقرءون في المصاحف في رمضان . "المدونة" (1/224) .
وقال النووي: "لو قرأ القرآن من المصحف لم تبطل صلاته سواء كان يحفظه أم لا ، بل يجب عليه ذلك إذا لم يحفظ الفاتحة, ولو قلَّب أوراقه أحيانا في صلاته لم تبطل ...... هذا مذهبنا ومذهب مالك وأبي يوسف ومحمد وأحمد " انتهى من "المجموع" (4/27) بتصرف.
وقال سحنون: وقال مالك : لا بأس بأن يؤم الإمام بالناس في المصحف في رمضان وفي النافلة . قال ابن القاسم : وكره ذلك في الفريضة . "المدونة" (1/224) .
وأما اعتراض من اعترض على ذلك بأن حمل المصحف وتقليب أوراقه في الصلاة حركة كثيرة فهو اعتراض غير صحيح ، لأنه قد ثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بالناس وهو حامل أمامة بنت ابنته . رواه البخاري (494) ومسلم (543) ، فحمل المصحف في الصلاة ليس أعظم من حمل طفلة في الصلاة .
وقد سبق ذكر فتوى الشيخ ابن باز بجواز ذلك في جواب السؤال (1255) .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
نماز تراویح میں مصحف پکڑ کے تلاوت کرنا
سوال: نماز تراویح کے دوران قرآن مجید کھول کر تلاوت کرنے کا حکم
Published Date: 2015-06-07
الحمد للہ:
نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر انکی امامت کرواتا تھا، امام بخاری (1/245) نے اس واقعہ کو معلق ذکر کیا ہے۔
ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن شہاب رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: ہمارے بہترین ساتھی رمضان میں قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھا کرتے تھے""المدونۃ" (1/224)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرے تو اسکی نماز باطل نہیں ہوگی، چاہے اسے قرآن مجید یاد ہو یا نہ یاد ہو، بلکہ ایسے شخص کیلئے دیکھ کر تلاوت کرنا واجب ہوگا جسے سورہ فاتحہ یاد نہیں ہے، اس کیلئے اگر اسے بسا اوقات صفحات تبدیل کرنے پڑیں تو اس سے بھی نماز باطل نہیں ہوگی۔۔۔ یہ ہمارا [شافعی] مالک، ابو یوسف، محمد، اور امام احمد کا موقف ہے" انتہی مختصراً
"المجموع" (4/27)
سحنون [امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد] کہتے ہیں:
"امام مالک کہتے تھے: رمضان اور نفلی عبادات میں لوگوں کی قرآن مجید سے دیکھ کر امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے"
اور امام امالک کے شاگرد ابن قاسم مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"امام مالک فرائض میں ایسے کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے" "المدونۃ" (1/224)
تاہم کسی اعتراض کرنے والے کا یہ کہنا کہ قرآن مجید کو نماز میں اٹھانا، اور صفحات تبدیل کرنا فضول حرکت ہے، تو یہ اعتراض ہی غلط ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی امامت کرواتے ہوئے اپنی نواسی امامہ کو اٹھایا ہوا تھا، اس واقعہ کو بخاری: (494) اور مسلم: (543) نے نقل کیا ہے، اور یہ بات عیاں ہے کہ قرآن مجید کو نماز میں اٹھانا بچی کو نماز میں اٹھانے سے گراں نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی اس عمل کے جواز میں پہلے بیان ہو چکا ہے، جو کہ سوال نمبر: (1255) کے جواب میں موجود ہے۔
واللہ اعلم.