• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دھنک رنگ

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
"عافیہ صدیقی کی سب سے بڑی آرزو دنیا بھر کے مسلمانوں کی مدد کرنا تھا. جب بوسنیا میں جنگ چھڑی تو وہ گھٹنے پر گھٹنا رکھے سکون سے نہیں بیٹھیں.
بلکہ عافیہ صدیقی نے فی الفور اس بات پر توجہ کی کہ ان کے اختیار میں ایسے کون سے ذرائع ہیں کہ وہ کچھ کر سکیں. وہ سارا دن خیالی پلاؤ نہیں بناتی کہ کاش وہ بوسنیا جا سکتیں اور امدادی کاموں میں حصہ لے سکتیں. وہ اٹھیں اور جو کچھ وہ کر سکتی تھیں، انہوں نے کیا: عافیہ نے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے ان سے بات چیت کی، وہ امدادی عطیات کے بارے میں لوگوں سے کہتیں، وہ ای میلز بھیجتیں، وہ سلائڈ شو پریزینٹیشن دیتیں - میں یہاں جو بات سمجھانا چاہ رھا ہوں وہ یہی ہے کہ کہ عافیہ صدیقی نے ثابت کر دیا کہ ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرنے کے لیے اپنی قابلیت کے مطابق کچھ بھی کر سکتے ہیں، سب سے ہلکی تو وہ کوشش ہے کہ ہم غافل لوگوں کے اندر شعور بیدار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جملہ ہی کہہ دیں. پیچھے بیٹھے رہ کر کچھ نہ کرنا، بھی کوئی انتخاب ہرگز نہیں ہے.

ایک بار عافیہ صدیقی نے بوسنیا کے یتیموں کے لیے عطیات کی اپیل کے لیے مقامی مسجد میں تقریر کی تھی اور جب سامعین بیٹھے بس عافیہ صدیقی کو دیکھ رھے تھے تو عافیہ نے پوچھا: "اس کمرے میں موجود کتنے لوگوں کے پاس جوتے کا ایک سے زیادہ جوڑا ہے؟" اور جب آدھے لوگوں نے ہاتھ کھڑا کیا تو عافیہ کے کہا، "ان جوتے کے جوڑوں کو بوسنین متاثرین کو دے دیجیئے کیوں کہ وہ بہت سخت سردی کا سامنا کر رھے ہیں!"

وہ اپنی حجت میں اتنی اثر آفریں تھیں کہ مسجد کے امام نے بھی اپنے جوتے امدادی عطیہ میں دے دئیے!

اسلام کی اس بہن کے جذبہ کے بارے میں بتانے کے لیے بہت کچھ ہے. تاہم، مذکورہ بالا واقعہ آپکو ایک فکر دینے کے لیے بیان کیا کہ کیسے پُر امید ہو کر ممکن الحصول ذرائع کے ساتھ اسلام کی خدمت کے لیے سرگرم ہونا چاہیے.

یاد رکھیں کہ عافیہ صدیقی نے ایک ماں اور پی ایچ ڈی کی طالبہ ہوتے ہوئے یہ سرگرمیاں سرانجام دیں اور ہم میں سے اکثریت فراغت ہوتے ہوئے بھی بہت ہی کم اسلام کی خدمت کرتے ہیں.


اقتباس :
The Aafia Siddiqui I Saw - by Tariq Mehanna (May Allah release them both)
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
یہ جو زندگی ہے پہاڑ سی، یہ جو روز و شب ہیں چٹان سے

انہیں لطف سے، انہیں ضبط سے، انہیں چشمِ نم سے تراشئیے

 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
سسٹر ولید، السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ جہاں بھی ہوں اللہ کی امان میں ہوں اور خوش و خرم رہیں آمین

میں کوشش کروں گی کہ آپ کا یہ زبردست تھریڈ ایکٹو رہے.
کچھ اپنا قلم ہو گا اور کچھ انتخاب. ان شاءاللہ.

فی امان اللہ
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
بہت امید رکھنا اور پھر بے آس ہونا بھی
بشر کو مار دیتا ہے بہت حساس ہونا بھی

سنو اک کان سے اور دوسرے سے پھینک دو باہر
بہت نقصان دہ ہے صاحب احساس ہونا بھی

یونہی تو ابر رحمت کی طلب کرتا نہیں ہوں میں
ضروری ہے مقدر میں ذرا سی پیاس ہونا بھی

کئی چہرے لٹک جاتے ہیں خوشیوں کی خبر سن کر
ہمیں تو روپ دیتا ہے غموں کا راس ہونا بھی
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
حبِ رسول ﷺ کے تقاضے صرف مسلمان مردوں سے نہیں، ایمان والیوں سے بھی ہیں.
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
تیری محبت پانے کا وہ لمحہ مجھ پر آ شکار ہوگیا
جب ہر جانب سے قلب ہٹ کر تیری طرف متوجہ ہوا

تیری محبت کا اشتیاق بڑھ جاتا ہے جب تیرا ذکر مجھے اردگرد کی ہر چیز سے غافل کرتا ہے
یہی تو وہ محبت ہے جس کا حقدار صرف اور صرف تُو ہے!
جب تجھے محسوس کرنے کے تمام پردے ہٹتے جاتے ہیں!

تیرے لیے میری چاھت زمانی اور قربت کی چاہت ہے،
زمانی چاہت تیری طرف روانگی کا میلان پیدا کرتی ہے
اور
تیری پناہ و قربت کی چاہت سے میری زندگی کی روشنی تیرے نور میں زائل ہو گئی ہے.

❤ اللہ عزوجل ❤
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
ایاد، میں اس سے اللہ کے لیے محبت کرتی ہوں، وہ بھی، وہ کہہ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا بنا کر رہے گا..."

چہرے پر چاہے جانے کی کیسی بشاشت تھی... ایاد کو نجانے کیوں ترس آیا.

"ایاد، میں نے اپنی تصویر اسے دے دی ہے. اسے میں بہت پسند آئی ہوں. تم دیکھنا، اس کے ساتھ سے میرا دین بھی محفوظ ہو جائے گا." حیا خوش تھی.

"تمہیں یقین ہے کہ وہ آئے گا؟ کتنے عرصے سے اس یقین پر جھوم رہی ہو حیا؟"
ایاد کے کاٹ دار انداز سے حیا حیران ہوئی.

"کس سے پوچھ کر اپنی تصویر دی ہے؟ جذبات میں آکر اپنی عزت کو ایسا داغ مت لگانا، جو دھل کر بھی نشان چھوڑ جائے."

"ایاد، ہماری محبت پاک ہے. ہم اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں. مجھے یقین ہے..." حیا حیرت سے بولی.

"کیا یقین ہے؟ یقین کا یہ کون سا راستہ ہے جس میں اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے. کیا سمجھتی ہو تم دین کو؟ دین کے نام پر ہم سب سے زیادہ خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں.." ایاد نہایت خفگی سے بولی.

ضبط سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے. بہت کچھ اس کے ذہن سے گزر رہا تھا. بہت کچھ تلخ... بے بسی... خوش فہمی... امیدوں کے سراب....

"حیا! کاش کہ ماں باپ اپنی بچیوں کو نامحرم مردوں سے ایسے ڈرائیں جیسے نارِ جہنم سے ڈراتے ہیں."

"تقوی کا مفہوم سمجھتی ہو؟"

"ہم نماز پڑھ کر، پردہ کر کے، خوش اخلاقی کا دامن تھام کر سمجھتی ہیں کہ ہم نے تقوی اختیار کر لیا ہے. ہم سب کچھ اللہ کے لیے کر رہے ہیں...."

حیا سنجیدگی سے ایاد کی طرف دیکھنے لگی.

"عورت کی عزت، عفت، پاکیزگی بہت قیمتی اور نازک ہوتی ہے. صرف چھینٹ پڑنے سے ہی ایسی داغ دار ہو جاتی ہے کہ نشان ان مٹ ہوتا ہے.
چاہے کسی کو معلوم ہو نا ہو لیکن عورت خود ہی سلگتی رہتی ہے.

تم اللہ کے نام پر اس سے محبت کرتی ہو، اس پر بھروسہ کرتی ہو، اندھا بھروسہ.. تم خوابوں خیالوں میں اسے اپنے شوہر کی حیثیت سے لاتی ہوگی....کیا تمہیں اس کا خیال آیا ہے جس نے تمہارے محبوب کو تمہارا شوہر بنانا ہے؟ کیا تم نے اس کا کہا پورا کیا ہے جس نے تمہیں محبت کے ساتھ ساتھ عزت اور قدر بھی دینی ہے؟؟؟"

حیا حیرت سے منہ کھولے ایاد کا منہ دیکھنے لگی.

"تم سمجھتی ہو کہ تم گھر سے باہر نہیں جاتیں، باہر کا ماحول تمہیں پسند نہیں... تو کیا گھر میں رہ کر موبائل انٹرنیٹ پر غیر محرم محبوب سے باتیں جائز اور حلال ہیں؟"

حیا سانس نہیں لے سکی.
"ایاد، پلیز، وہ مجھے اپنا لگتا ہے، بس کچھ مجبور..."

"کیا مجبور؟" ایاد حیا پر چلائی.
"کیا مجبور حیا؟ جو اپنا ہوتا ہے وہ مجبور نہیں ہوتا. وہ تاویلیں پیش نہیں کرتا.."
جو اپنا ہوتا ہے وہ مجبور نہیں ہوتا.... ایاد کو اپنی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی. کرب کی لہر دوڑی تھی دل میں.

"پلیز ایاد، مجھے بے دینی سے ڈر لگتا ہے. یہ دیندار ہے، میرا دین بچا لے گا." حیا کی آواز بھرّا گئی.

"تمہیں یقین ہے کہ یہ تمہارے دین کی حفاظت کرے گا؟ سب ایک سے ہیں حیا، بے دینوں کی بے دینی نظر آتی ہے، دین داروں کا نفاق نظر نہیں آتا." ایاد کے اندر کچھ ٹوٹا تھا.
"ہماری کہیں جگہ نہیں حیا، دین دار لوگوں میں بھی نہیں ، تمہارا محبوب بھی مجبوری کی تاویلیں گھڑتا ہے، کچھ وقت کے بعد تمہیں انکار کر دے گا. یہ تمہاری سزا ہو گی، کیونکہ تم نے اللہ پر بھروسہ نہیں کیا... تم نے ایک غیر شرعی تعلق پر بھروسہ کیا فخر کیا. اور تمہیں پتہ ہے کہ اگر تمہاری کہیں اور شادی ہوتی ہے تو تم خائن ہوں گی، تم نے اپنے جذبات غیر مرد پر لگائے، اسے اپنا آپ دکھایا. تمہیں تائب ہونا پڑے گا.

ہمارا محافظ صرف اللہ ہے حیا، ہمارے دین کا محافظ بھی اللہ، ہماری عزتوں کا محافظ بھی اللہ. جس نے آج کل کی گمراہیوں میں تمہیں دین کی طرف رستہ دیا، سمجھ بوجھ دی، کیا وہ تمہیں اکیلا چھوڑ دے گا؟؟ بولو."

حیا سسک رہی تھی. ایاد سچ ہی تو کہہ رہی تھی. کیا فرق تھا ان لڑکیوں میں جو گھر سے باہر جاتی ہیں محبوب سے ملنے اور وہ گھر میں رہ کر، دین کے نام پر. اللہ کے لیے، من چاہے مرد سے. وہ یہی سمجھتی تھی کہ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی ہم خیال مل جائے گا اور ملا بھی، لیکن ایاد کے خدشات غلط نہیں تھے. اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی. بس باتیں، چیٹنگ...

"حیا، کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ میں موبائل انٹرنیٹ کو آگ لگا دوں." ایاد بولی.
"میرا دل کرتا ہے کہ میں اس فتنہ کو آگ لگا دوں. تمہیں نہیں لگتا کہ انسانوں کے دو روپ ہو گئے ہیں. ایک سوشل میڈیا پر اور ایک حقیقی زندگی میں.. بے حیائی جو ہے اس کے کیا کہنے، اللہ کی پناہ... لیکن دین دار بھی... ہم میں سے کتنی ہی لڑکیاں سوشل میڈیا پر دین دار مردوں کی پروفائل سے متاثر ہو جاتی ہیں. خواہش کرتی ہیں، ذہن میں شوہر کا اک خاکہ بنا لیتی ہیں. من پسند شوہر کا. حقیقی زندگی سے بیزار ہونے لگتی ہیں نا؟
اور مرد حضرات بھی کیسے برقعہ والی عورت کی تصویر دیکھ کر، دین دار عورت کی تصاویر دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں، کھنچے چلے آتے ہیں....خیالی ہو جاتے ہیں.

کوئی ظاہراً اپنا نقصان کر رہا ہے، کوئی چھپ کر.

جبکہ حقیقت کیسی تلخ ہے"... ایاد نے گہرا سانس لیا.

" اگر ماں باپ، اپنے بچوں کو شفقت و محبت کے ساتھ ساتھ احساسِ تحفظ سے ڈھک لیں اور دین بھی سکھا دیں تو یقیناً ان کی اولادیں غیر شرعی رشتوں کی طرف قدم اٹھانے سے پہلے سوچ لیا کریں گے.

تمہارے گھر والے دین میں تمہارا ساتھ نہیں دیتے تو صبر کرو. دعا کرو کہ اللہ جی، جیسے ہارون کو موسی علیہ السلام کا مدد گار بنایا، میرے گھر والوں کو میرا مددگار بنا دے. اپنے دین پر ڈٹی رہو، تمہارے گھر والے آہستہ آہستہ تمہارے مؤقف کو قبول کرنے لگیں گے.

لیکن من چاہے شوہر کے خواب میں اپنی روح کو زخمی مت کرو.
اللہ پر پورے حق کے ساتھ یقین کرو، اسلام میں مکمل داخل ہو جاؤ، اخلاص کے ساتھ.
اپنے محبوب کو چھوڑ دو."

حیا تڑپ اٹھی.
"اِیاد میں مر جاؤں گی پلیز."

"کوئی نہیں مرتا حیا، زندگی موت کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے.
تم نے کبھی قربانی دی ہے؟ کبھی اللہ تعالٰی کے لیے اپنی محبوب چیز قربان کی ہے؟ ابراہیم علیہ السلام کی طرح؟

تم جب اپنا محبوب اللہ کے لیے قربان کرو گی نا، اللہ کی رضا کی خاطر تو تمہیں انعام میں وہ سکینہ دے گا اور اپنا قرب بھی.
جو تمہارا ہو گا، اللہ اس کے دل میں تمہاری محبت، عزت اور تحفظ ڈال دے گا، اس کے قدم تمہاری طرف موڑ دے گا.

اللہ کےنام پر من چاہے کے پیچھے مت بھاگو، یہ بڑا دھوکہ ہے جو انسان خود کو دیتا ہے.
موبائل انٹرنیٹ کی دنیا سے باہر آؤ، خود کو سنوارو، عملی زندگی کو ایمان سے مزین کرو،
ابلیسی دھوکہ میں مت پھنسو."

حیا بے بسی سے ایاد کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے ناممکنات کی باتیں کر رہی ہو.

ایاد کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی. "حیا، تمہیں ڈر ہے نا کہ تم اس سے دوری نہیں سہہ سکو گی؟ تمہیں تکلیف ہو گی...
اس کرب کا علاج ہے. یقیناً ہے.

تمہیں کبھی ان بہنو کا خیال آیا جو اسیری کاٹ رہی ہیں؟ جن کی عزت دن میں کئی بار پامال کی جاتی ہے.. جن کو چھڑوانے کے لیے کوئی محمد بن قاسم اور معتصم نہیں... وہ بھی تو اپنے گھروں کی شہزادیاں ہوں گی.
ان کی عزت پامال کی جاتی ہے اور ہم اپنی عزت کو خود پامال کرتی ہیں.

وہ مائیں جن کے بچے ان کے سامنے ذبح کئے جاتے ہیں؟
تمہیں فلسطین شام عراق برما افریقہ کے مسلمانوں کا بہتا خون، ان پر کیے جانے والے انسانیت سوز مظالم کا خیال آیا؟
کیا ان کا کوئی محافظ نہیں؟

اللہ کی قسم حیا! جب تم بے گھر بے بس مجبور شکست خوردہ مسلمان دیکھو گی نا تو تمہیں اپنا دکھ غم ہیچ لگے گا.
جب تم ان مظلوموں کی جگہ پر خود کو رکھو گی نا تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ تم نے تو کبھی تکلیف دیکھی ہی نہیں."

حیا، ایاد کو گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی. ایاد کس طرز پر جا کر سوچتی تھی. حیا کو ترس آیا اس شخص پر جو ایاد کو ٹھکراتا تھا، اور حیا کو رشک آیا اس شخص پر جس کی وہ ساتھی بنے گی، اور اسے یقین تھا کہ اللہ اس کے لیے بہترین مومن ہی چنے گا.

ایاد، حیا کو سمجھاتے سمجھاتے چپ ہو گئی. وہ کچھ عرصہ پیچھے چلی گئی تھی. 8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ، اس کی زندگی کا اک موڑ ہی تو بنا تھا جب اس نے موت کی ہیبت ناک شکل دیکھی تھی. ملبے تلے اچھے خوبصورت انسان، ٹکڑوں کی صورت میں نکلتے تھے. ان کے جسم کے اعضاء بوریوں میں بھرے جاتے تھے.
ایاد نے آنکھیں بند کر لیں. اسے یاد تھا کہ وہ ڈر گئی تھی، بہت بری طرح ڈری تھی. اس نے انسان کی بے بسی اور عاجزی کا مشاہدہ کر لیا تھا. اللہ کی تمام طاقت اور عظمت جان لی تھی. کچھ عرصہ تک اس کی آنکھوں میں نمی ٹھہر گئی تھی. وہ نظریں جھکا کر بات کیا کرتی تھی.

حیا نے ایاد کے کندھے پر ہاتھ رکھا. ایاد نے اپنی آنکھیں کھول دی تھیں. اس کے حلق میں آنسوؤں کا گولہ پھنسا ہوا تھا.
حیا! موت کی یاد ہمیں تقوی سکھاتی ہے، زندگی کی فانی لذتوں سے بیزار کرتی ہے.

حیا خاموش تھی. شاید اس کے پاس کچھ کہنے کو نہیں رہا تھا یا شاید وہ ایاد کوسننا چاہتی تھی.

"حیا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موبائل انٹرنیٹ سے ہم نے بہت کچھ سیکھا. بلکہ سیکھا ہی اس ذریعے سے. لیکن اب یہ ذرائع میرے لیے تکلیف دہ ہیں. تم بھی اپنی تکلیف کا علاج کرو. ہمارا بہترین معالج اللہ سبحانہ و تعالٰی ہے. "

ایاد پھر خاموش ہو گئی. آس اور بے آس کے بیچ کا رستہ سخت کٹھن تکلیف دہ تھا. لیکن
اللہ ہی نے تو سنبھالا تھا اسے قدم قدم پر. اپنی موجودگی کا پتہ دیا. اپنے ساتھ کا یقین دیا. اللہ مجبور نہیں ہوتا نا. وہ اپنا ہوتا ہے.

حیا، اللہ کے ساتھ سے اپنی دنیا خود بنانی ہے. دیکھو تو اقبال نے کیسے بتا دیا

کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو اللہ صاحبِ بصیرت بنا دیتا ہے.

حیا، تمہیں یاد ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیا دعا کی تھی جب انہیں آگ میں پھینکا جا رہا تھا؟ یعقوب علیہ السلام نے فراقِ یوسف میں وہ الفاظ کہے تھے؟ جب عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تھی انہوں نے بھی وہی کہا تھا؟؟
حسبنا اللہ و نعم الوكيل
یہ مومنین کا کلمہ ہے." ایاد مسکرائی. کبھی کبھی وہ مسکرا کر مسکراہٹ پر احسان کر دیتی تھی.

"کیا میں تمہیں دعا سکھاؤں؟" ایاد کو جیسے کچھ یاد آیا.

حیا نے اثبات میں سر ہلایا. وہ ٹوٹی پھوٹی لگ رہی تھی. لیکن آس تھی اس کے پاس.

دونوں ہاتھ اٹھا کر ایک ساتھ بیٹھ گئیں. ایاد نے آنکھیں بند کر لیں. وہ کچھ یاد کر رہی تھی. تمام تر ہمتیں سمیٹ کر ایاد بولی:

یا اللہ، یا اللہ

حیا نے زیرِ لب ایاد کے الفاظ دہرائے.

اگر وہ میرا نصیب ہے،

"اگر وہ میرا نصیب ہے،" حیا کی سسکی ابھری.

تو اسے اور مجھے حلال اور پاکیزہ رشتے میں جلد از جلد جوڑ دے.
ہمارے ملنے پر کن کہہ دے.

اور اگر وہ میری تقدیر میں نہیں، تو اسے میرے دل سے نکال دے، مجھے اس کے پیچھے ہلکان ہونے سے بچا لے. مجھے بچا لے. مجھ پر رحم کر

یا اللہ، میں تجھ سے مانگتی ہوں ایسا شریک حیات،
جو تیری نظر میں بہترین مومن مردِ صالح ہو،
جو تعلیم القرآن میں میرا معلم بنے،
جو میرے دین کا محافظ بنے،
جو جنت الفردوس میں اعلی مقام پر لے جانے کا سبب بنے،
اور
میں تیری پناہ مانگتی ہوں ایسی اولاد سے جو تجھ سے دور کرے اور وبال ہو....
آمين اللهم آمين


آنکھیں کھول کر ایاد نے حیا کو گلے سے لگا لیا. حیا سسک رہی تھی، تڑپ رہی تھی. لیکن یہ تکلیف، دائمی دکھ سے بہت بہتر تھی.

ایاد کا دل اب مسرور تھا. اس وقت اللہ اس کے سب سے قریب تھا اور وہ آنکھیں بند کر کے اس نہ نظر آنے والے، لیکن سب سے زیادہ محسوس ہونے والے اللہ کو محسوس کر رہی تھی.

بھلا ایسی محبت اور کس کی تھی!!!


........................
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگى
ہے 'الم' کا سورہ بھى جزو کتاب زندگى

ديدہ بينا ميں داغ غم چراغ سينہ ہے
روح کو سامان زينت آہ کا آئينہ ہے

حادثات غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئينہء دل کے ليے گرد ملال

طائر دل کے ليے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے

غم نہيں غم، روح کا اک نغمہء خاموش ہے
جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے

شام جس کی آشنائے نالہء 'يا رب' نہيں
جلوہ پيرا جس کی شب ميں اشک کے کوکب نہيں

اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کيوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے


--- اقبال
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
‏"إذا صَدَق العَزْم وضح السّبيل.."

"عزم کی صداقت، راستے کو واضح کرتی ہے"
IMG_20190119_193544_026.jpg

 
Top