بنتِ تسنيم
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2017
- پیغامات
- 269
- ری ایکشن اسکور
- 36
- پوائنٹ
- 66
"عافیہ صدیقی کی سب سے بڑی آرزو دنیا بھر کے مسلمانوں کی مدد کرنا تھا. جب بوسنیا میں جنگ چھڑی تو وہ گھٹنے پر گھٹنا رکھے سکون سے نہیں بیٹھیں.
بلکہ عافیہ صدیقی نے فی الفور اس بات پر توجہ کی کہ ان کے اختیار میں ایسے کون سے ذرائع ہیں کہ وہ کچھ کر سکیں. وہ سارا دن خیالی پلاؤ نہیں بناتی کہ کاش وہ بوسنیا جا سکتیں اور امدادی کاموں میں حصہ لے سکتیں. وہ اٹھیں اور جو کچھ وہ کر سکتی تھیں، انہوں نے کیا: عافیہ نے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے ان سے بات چیت کی، وہ امدادی عطیات کے بارے میں لوگوں سے کہتیں، وہ ای میلز بھیجتیں، وہ سلائڈ شو پریزینٹیشن دیتیں - میں یہاں جو بات سمجھانا چاہ رھا ہوں وہ یہی ہے کہ کہ عافیہ صدیقی نے ثابت کر دیا کہ ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرنے کے لیے اپنی قابلیت کے مطابق کچھ بھی کر سکتے ہیں، سب سے ہلکی تو وہ کوشش ہے کہ ہم غافل لوگوں کے اندر شعور بیدار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جملہ ہی کہہ دیں. پیچھے بیٹھے رہ کر کچھ نہ کرنا، بھی کوئی انتخاب ہرگز نہیں ہے.
ایک بار عافیہ صدیقی نے بوسنیا کے یتیموں کے لیے عطیات کی اپیل کے لیے مقامی مسجد میں تقریر کی تھی اور جب سامعین بیٹھے بس عافیہ صدیقی کو دیکھ رھے تھے تو عافیہ نے پوچھا: "اس کمرے میں موجود کتنے لوگوں کے پاس جوتے کا ایک سے زیادہ جوڑا ہے؟" اور جب آدھے لوگوں نے ہاتھ کھڑا کیا تو عافیہ کے کہا، "ان جوتے کے جوڑوں کو بوسنین متاثرین کو دے دیجیئے کیوں کہ وہ بہت سخت سردی کا سامنا کر رھے ہیں!"
وہ اپنی حجت میں اتنی اثر آفریں تھیں کہ مسجد کے امام نے بھی اپنے جوتے امدادی عطیہ میں دے دئیے!
اسلام کی اس بہن کے جذبہ کے بارے میں بتانے کے لیے بہت کچھ ہے. تاہم، مذکورہ بالا واقعہ آپکو ایک فکر دینے کے لیے بیان کیا کہ کیسے پُر امید ہو کر ممکن الحصول ذرائع کے ساتھ اسلام کی خدمت کے لیے سرگرم ہونا چاہیے.
یاد رکھیں کہ عافیہ صدیقی نے ایک ماں اور پی ایچ ڈی کی طالبہ ہوتے ہوئے یہ سرگرمیاں سرانجام دیں اور ہم میں سے اکثریت فراغت ہوتے ہوئے بھی بہت ہی کم اسلام کی خدمت کرتے ہیں.
اقتباس :
The Aafia Siddiqui I Saw - by Tariq Mehanna (May Allah release them both)
بلکہ عافیہ صدیقی نے فی الفور اس بات پر توجہ کی کہ ان کے اختیار میں ایسے کون سے ذرائع ہیں کہ وہ کچھ کر سکیں. وہ سارا دن خیالی پلاؤ نہیں بناتی کہ کاش وہ بوسنیا جا سکتیں اور امدادی کاموں میں حصہ لے سکتیں. وہ اٹھیں اور جو کچھ وہ کر سکتی تھیں، انہوں نے کیا: عافیہ نے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے ان سے بات چیت کی، وہ امدادی عطیات کے بارے میں لوگوں سے کہتیں، وہ ای میلز بھیجتیں، وہ سلائڈ شو پریزینٹیشن دیتیں - میں یہاں جو بات سمجھانا چاہ رھا ہوں وہ یہی ہے کہ کہ عافیہ صدیقی نے ثابت کر دیا کہ ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرنے کے لیے اپنی قابلیت کے مطابق کچھ بھی کر سکتے ہیں، سب سے ہلکی تو وہ کوشش ہے کہ ہم غافل لوگوں کے اندر شعور بیدار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جملہ ہی کہہ دیں. پیچھے بیٹھے رہ کر کچھ نہ کرنا، بھی کوئی انتخاب ہرگز نہیں ہے.
ایک بار عافیہ صدیقی نے بوسنیا کے یتیموں کے لیے عطیات کی اپیل کے لیے مقامی مسجد میں تقریر کی تھی اور جب سامعین بیٹھے بس عافیہ صدیقی کو دیکھ رھے تھے تو عافیہ نے پوچھا: "اس کمرے میں موجود کتنے لوگوں کے پاس جوتے کا ایک سے زیادہ جوڑا ہے؟" اور جب آدھے لوگوں نے ہاتھ کھڑا کیا تو عافیہ کے کہا، "ان جوتے کے جوڑوں کو بوسنین متاثرین کو دے دیجیئے کیوں کہ وہ بہت سخت سردی کا سامنا کر رھے ہیں!"
وہ اپنی حجت میں اتنی اثر آفریں تھیں کہ مسجد کے امام نے بھی اپنے جوتے امدادی عطیہ میں دے دئیے!
اسلام کی اس بہن کے جذبہ کے بارے میں بتانے کے لیے بہت کچھ ہے. تاہم، مذکورہ بالا واقعہ آپکو ایک فکر دینے کے لیے بیان کیا کہ کیسے پُر امید ہو کر ممکن الحصول ذرائع کے ساتھ اسلام کی خدمت کے لیے سرگرم ہونا چاہیے.
یاد رکھیں کہ عافیہ صدیقی نے ایک ماں اور پی ایچ ڈی کی طالبہ ہوتے ہوئے یہ سرگرمیاں سرانجام دیں اور ہم میں سے اکثریت فراغت ہوتے ہوئے بھی بہت ہی کم اسلام کی خدمت کرتے ہیں.
اقتباس :
The Aafia Siddiqui I Saw - by Tariq Mehanna (May Allah release them both)