• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کا کردار (حقائق آمیز ڈاکومنٹری)

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
بہن یہ فوجی آپکو سچ نہیں بتائیں گے اس لیے کسی مجاہد سے آپ یہ بات پوچھیں
جی اور خاص طور پر ایسے مجاہدین سے پوچھیں جن کا جہاد خود مسلمانوں کے خلاف ہے۔
ویسے ابوبکر صاحب، کیا آپ دلوں کے حال سے بھی واقفیت کا دعویٰ رکھتے ہیں؟
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
جی اور خاص طور پر ایسے مجاہدین سے پوچھیں جن کا جہاد خود مسلمانوں کے خلاف ہے۔
ویسے ابوبکر صاحب، کیا آپ دلوں کے حال سے بھی واقفیت کا دعویٰ رکھتے ہیں؟
کونسے مسلمانوں کے خلاف اور کب کیا ؟
اور میں نے دلوں کا حال جاننے کا کب دعوی کیا ہے ؟
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
’مفاہمتی عمل کے لیے طالبان سے روابط بڑھانا اہم‘
‭BBC Urdu‬ - ‮آس پاس‬ - ‮’مفاہمتی عمل کے لیے طالبان سے روابط بڑھانا اہم‘‬

پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے وزرائے خارجہ پر مشتمل سہ فریقی کور گروپ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل میں تیزی لانے کے لیے طالبان سے مختلف ذرائع کی مدد سے روابط بڑھانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

یہ بات ٹوکیو میں اتوار کو افغانستان کی امداد کے لیے منعقدہ کانفرنس کے موقع پر تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہی گئی ہے۔

ملاقات میں امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن اور ان کے پاکستانی اور افغان ہم منصب حنا ربانی کھر اور زلمے رسول نے افغان حکومت کے مسلح مخالفین سے دوبارہ اپیل کی کہ وہ تشدد کی راہ ترک کر دیں اور مذاکرات کا آغاز کریں۔


مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مفاہمتی عمل کو ’مزید تیز کرنے کے لیے ہم نے مسلح مخالفین سے رابطے بڑھانے اور بات چیت کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرنے کی اہمیت کا اعادہ کیا ہے‘۔

بیان میں افغان حکومت اور اس کے مخالفین سے کہا گیا ہے کہ وہ ’اپنی قوتیں بات چیت کے اس خیال کو سمجھنے، اسی جذبے سے اس تجویز کا جواب دینے اور افغان سیاسی عمل کی حمایت کرنے میں صرف کریں کیونکہ اس کا نتیجہ افغانستان اور خطے میں دیرپا امن، استحکام اور خوشحالی کی صورت میں نکلے گا‘۔

وزرائے خارجہ کا کہنا ہے کہ اس کور گروپ کا مقصد افغانستان میں قیامِ امن اور مفاہمتی عمل کی حمایت کے لیے پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے درمیان تعاون میں اضافہ کرنا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان کو دوبارہ کبھی بھی القاعدہ یا کسی ایسے دہشتگرد گروہ کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیا جانا چاہیے جو عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو۔

بیان کے مطابق اس بات کا فیصلہ صرف افغان کر سکتے ہیں کہ انہیں کیسے اکٹھا رہنا ہے، ان کے ملک کا مستقبل کیسا ہونا چاہیے اور ان کے ملک کا خطے میں اور باقی دنیا میں کردار کیا ہونا چاہیے۔

تینوں ممالک کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں ایسے امن عمل کی حمایت کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے کے پرعزم ہیں جس میں افراد اور گروہ عالمی دہشتگردی سے ناتا توڑ دیں، تشدد ترک کر دیں اور افغان آئین کی پاسداری کرتے ہوئے افغان خواتین اور مردوں کے حقوق کی حفاظت کریں۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
ممبئی حملوں میں پاکستان کو ملوث کرنا ناقابل یقین ہے‘ سلمان بشیر
ممبئی حملوں میں پاکستان کو ملوث کرنا ناقابل یقین ہے‘ سلمان بشیر

-نئی دہلی(آن لائن/مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کے لیے پاکستان کے نئے ہائی کمشنر سلمان بشیر نے کہا ہے کہ یہ الزام ناقابل یقین اور ناقابل اعتماد ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے ممبئی حملوں میںملوث ہیں۔ بھارتی خبررساں ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل یقین اور ناقابل اعتمادہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے نئے راستے تلاش کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ممبئی حملوں کی صورتحال کو اپنے بہترین قومی مفادات میں دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کی قیاد ت ریاستی ادارے اور عوام نے محسوس کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات ان کے بہترین قومی مفاد میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات کے ماحول میں تبدیلی دیکھی جارہی ہے اور پاکستان کے تمام ادارے اس بات کو محسوس کررہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات دراصل پاکستان کے اپنے مفاد میں ہیں۔ دہشتگردی کے معاملے پر سلمان بشیر نے کہا کہ پاکستان ممبئی حملوں کی مشترکہ تحقیقات میں تعاون کرنے کاخواہاں ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی پیشکش کا بھارت کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی ایک وائرس ہے اور پاکستان اس کا خود شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ پاکستان دہشتگردی کامرکز ہے۔ پاکستان تعاون کو تیار ہے اور اس کو اپنی ذمہ داریوں کامکمل احساس ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حال ہی میں ہونے والے سیکرٹری خارجہ مذاکرات بہت اچھا رابطہ تھا۔ ابوجندل کے بارے میں بھی معاملہ زیربحث آیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے ابوجندل کے بارے میں پاکستان سے معلومات شیئرکرے۔ انہوں نے پاکستان میں ممبئی حملوں کے ملزمان کے ٹرائل کو جعلی قراردینے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہے۔سلمان بشیرکا کہنا تھا پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے‘ اس صورتحال میں ایسا کوئی بھی الزام مضحکہ خیز ہے۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
افغانستان میں کوئی گروہ پسندیدہ نہیں‘
‭BBC Urdu‬ - ‮پاکستان‬ - ‮’افغانستان میں کوئی گروہ پسندیدہ نہیں‘‬

وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی گروہ فیورٹ یا پسندیدہ نہیں ہے بلکہ تمام گروپوں سے برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں۔

یہ بات انہوں نے منگل کو قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کو افغانستان سے تعلقات اور وزیراعظم کے حالیہ دورے کے بارے میں بریفنگ کے بعد صحافیوں سے مختصر بات چیت کے دوران کہی۔

وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بتایا کہ برہان الدین ربانی کے صاحبزادے صلاح الدین ربانی جلد پاکستان کا دورہ کریں گے اور حکومت کی کوشش ہے کہ ان کے دورے کو مفید بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پرامن اور خوشحال افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے اور ان کی کوشش ہے کہ افغانستان میں استحکام آئے۔

وزیر خارجہ نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے حکومتی اور حزب مخالف کی تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل قومی سلامتی کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کو نیٹو سپلائی کھولنے اور امریکہ سے از سر نو تعلقات کی بحالی کے بارے میں پارلیمان کی سفارشات پر عملدرآمد کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ امریکہ سے از سر نو تعلقات کی بحالی کے لیے پارلیمان کی سفارشات حکومت کے لیے ’بائبل‘ کے برابر ہیں اور ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔


وزیر خارجہ کے بقول انہوں نے پارلیمانی سفارشات پر عملدرآمد اور پیش رفت کے بارے میں شق وار کمیٹی کو آگاہ کیا۔

پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ میاں رضا ربانی نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ کمیٹی نے نیٹو سپلائی کی بحالی اور امریکہ سے تعلقات کے بارے میں سفارشات پر غور کیا اور کچھ نکات پر پیش رفت کے متعلق تحفظات ظاہر کیے ہیں جبکہ کچھ نکات پر اطمینان ظاہر کیا ہے۔

اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار اعجاز مہر نے بتایا ہے کہ تقریباً چار گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں بظاہر لگتا ہے کہ کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ کیونکہ دو نکاتی ایجنڈے کے مطابق کمیٹی کو امریکہ سے تعلقات کے بارے میں سفارشات پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کو گائیڈ لائن دینا تھی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مختلف قوانین میں ترامیم کی سفارش کرنا تھی۔ لیکن زیادہ تر وقت افغانستان اور امریکہ کے متعلق بریفنگ میں صرف ہوگیا۔

میاں رضا ربانی نے بتایا کہ انہوں نے وزارت خزانہ کو امریکہ سے معاملات پارلیمانی سفارشات کی روشنی میں طے کرنے کے لیے ہدایات بھی دی ہیں۔ لیکن انہوں نے اس کی تفصیل بتانے سے انکار کیا۔

انہوں نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کا آئندہ اجلاس چھ اگست کو ہوگا جس میں صرف لاپتہ افراد پر بات ہوگی۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0

حنا ربانی کھر نے کہا کہ امریکہ سے از سر نو تعلقات کی بحالی کے لیے پارلیمان کی سفارشات حکومت کے لیے ’بائبل‘ کے برابر ہیں اور ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
سبحان اللہ ! مثال بھی قرآن کی بجائے بائبل کی دی ہے !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

لیکن اب بھی !!!!!!!!!!!!!!
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
نیٹو سپلائی کے بعد انٹیلیجنس تعاون پر معاہدہ متوقع
‭BBC Urdu‬ - ‮پاکستان‬ - ‮نیٹو سپلائی کے بعد انٹیلیجنس تعاون پر معاہدہ متوقع‬

پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو سامان کی ترسیل پر معاہدے کے بعد پاکستانی انٹیلیجنس سربراہ کے مجوزہ دورۂ امریکہ کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان انٹیلی جنس تعاون بڑھانے اور ’تصادم‘ کم کرنے کے معاہدے کے امکانات بہت روشن ہیں۔

پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل ظہیرالاسلام عباسی یکم اگست کو تین روزہ دورے پر امریکہ روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ اپنے امریکی ہم منصب کے علاوہ بعض دیگر حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

اس دورے کے دوران دیگر معاملات کے علاوہ دونوں انٹیلی جنس سربراہان آپس کی کشیدگی کم کرنے کے لیے بعض اقدامات بھی کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں انٹیلی جنس ایجنسیز کے درمیان ایک اہم تنازعہ پاکستان میں امدادی کارکنوں کے بھیس میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی تعیناتی ہے۔

پاکستانی انٹیلی جنس حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ امریکہ نے امریکی امدادی اداروں کے کارکنوں کے بھیس میں بڑی تعداد میں انٹیلی جنس اہلکار پاکستان میں تعینات کر رکھے ہیں۔

دوسری جانب امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس اہلکار امریکی امدادی ادارے (یو ایس ایڈ) کے اہلکاروں کو حراساں کرتے ہیں۔

امریکی سفارتخانے کے ترجمان مارک سٹروہ کے مطابق اس تنازعے پر دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ دنوں میں رابطے ہوئے ہیں جو خاصے کامیاب رہے ہیں۔

امریکی ترجمان نے بی بی سی کے استفسار پر تصدیق کی کہ ان کی حکومت نے خاص طور پر یو ایس ایڈ کے اہلکاروں کو حراساں کرنے کے واقعات کے بارے میں پاکستانی حکومت کے ساتھ بات کی تھی۔

’یہ گفتگو مختلف سطحوں پر جاری ہے جس میں ہم نے اپنے سفارتی عملے کو حراساں کرنے کے بارے میں حکومت پاکستان سے تعمیری مذاکرات کیے ہیں۔‘

مارک سٹروہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان اس تنازعہ پر خاصی پیشرفت ہوئی ہے اور یہ مذاکرات کامیاب رہے ہیں۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان گزشتہ برس نومبر میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے میں ہلاکتوں کے بعد سے کشیدگی آئی تھی۔

اس کشیدگی کے اثرات دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں پر بھی واضح طور پر نظر آئے تھے۔ پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے پاکستان میں امریکی انٹیلی جنس کے غیر اعلانیہ اہلکاروں کے خلاف ایک غیر اعلانیہ کریک ڈاؤن شروع کیا تھا جس کی سب سے بڑا ہدف امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کے کارکن بنے تھے۔

انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس امریکی امدادی ادارے کے نام پر بڑی تعداد میں امریکی انٹیلی جنس اہلکار پاکستان میں کام کر رہے تھے۔

ان مبینہ انٹیلی جنس اہلکاروں اور ان کے پاکستان میں قائم ’نیٹ ورک‘ کو توڑنے کے لیے پاکستانی انٹیلی جنس نے متعدد کارروائیاں کیں اور یو ایس ایڈ کے مقامی شراکت داروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے سلالہ حملے پر معافی کے بعد سیاسی اور سفارتی سطح کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان انٹیلی جنس تعاون بھی بحال ہو رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی سربراہ کے دورہ پاکستان کے دوران امریکی حکام دونوں ملکوں کے درمیان تربیتی پروگرام کو بحال کرنے پر بھی بات کریں گے۔


دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اہلکاروں کی مشترکہ تربیت کا یہ پروگرام پچھلے سال لاھور میں امریکی انٹیلی جنس اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد سے معطل ہے۔

انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی حکام اس تربیتی پروگرام کی فوری بحالی کے خواہاں ہیں تاہم پاکستانی انٹیلی جنس سربراہ کم از کم اس دورے کے دوران اس معاملے پر کوئی معاہدہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھے:چین
پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھے:چین | روزنامہ پاکستان

07 جولائی, 2012 (07:00am)

اسلام آباد(اے پی اے)چین نے ایک بار پھر پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی پر کسی بھی آنچ کے خلاف پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کے موقف کااعادہ کیاہے اور کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں ہیں، دنیا کو چاہیے کہ پاکستان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے، یہ باتیں چینی سفیر لیوجیان نے وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف سے خصوصی ملاقات میںکہیں،ملاقات میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پاکستان کی علاقائی سالمیت، خود مختاری اور آزادی کے بارے میں چینی حکومت کے پائیدار موقف کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاک چین تعلقات کی گہرائی اور وسعت کو الفاظ میں نہیں بیان کیا جاسکتا، پاک چین دوطرفہ گہرے تعلقات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مزید مستحکم ہوں گے، پاکستان ایسٹرن ترکستان اسلامی موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کے انسداد کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا، پاکستان میں کام کرنے والے چینی ماہرین کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی، وہ جمعہ کو پاکستان میں چین کے سفیر لیوجیان سے وزیراعظم ہاﺅس میں گفتگوکررہے تھے جنہوں نے وزیراعظم کوچین کی حکومت اور عوام کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی، اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین تعلقات کی گہرائی اوروسعت کو الفاظ میں نہیں بیان کیا جاسکتا جبکہ یہ تعلقات دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام سے غیر معمولی طور پرفروغ پارہے ہیں، وزیراعظم نے چینی سفیرسے کہاکہ سفیر آپ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں آپ کو چین اور اس کے عوام کے لئے محبت اور شفقت کی لہریں موجزن ملیں گی، وزیراعظم نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو دونوں ممالک کے درمیان دوستی استوار کرنے کے بانی تھے اور شہید بینظیر بھٹو ان تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے کر گئیں، وزیراعظم نے پی پی پی اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا بھی حوالہ دیا، انہوں نے پاکستان میں قدرتی آفات کے دوران چین کی بروقت اورفراخدلانہ امداد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دوطرفہ تعلقات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مزید فروغ پائیں گے اور باہمی تعاون اور سٹرٹیجک پارٹنر شپ کو نئی جہتیں ملیں گی، وزیراعظم نے سفیر کو یقین دلایا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی ماہرین کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی، دریں اثناپاکستان میں چینی سفیر لیوجیان نے وزیراعظم ہاﺅس میں ان سے ملاقات کی چینی سفیر نے وزیراعظم کو رواں سال چین کے دورے کی دعوت دی جو وزیراعظم نے قبول کرلی باہمی طور پر متفقہ تاریخ پر کیا جائے گا، وزیراعظم نے سفیر کے توسط سے چین کے صدر اوروزیراعظم کے لئے نیک تماﺅں کا اظہارکیا
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
چین کا دشمن ہمارا دشمن
Najeem Shah, Latest Najeem Shah Columns, Urdu Columns Of Najeem Shah, Famus Articles چین کا دشمن ہمارا دشمن

اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران چین کے وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اپنے قبائلی علاقے میں مبینہ طور پر موجود شدت پسند تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے خلاف کارروائی کے لیئے مؤثر اقدامات کرے۔ یہ مطالبہ کوئی پہلی بار نہیں کیا گیا بلکہ اس سے پہلے بھی چین کئی بار ایسا ہی مطالبہ کر چکا ہے لیکن ساتھ ہی وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ترکستان اسلامک موومنٹ کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کی تعریف بھی کر چکا ہے۔ چین جب بھی ایسا کوئی مطالبہ کرتا ہے تو اسکے ساتھ ہی ہمارے پڑوسی ملک کا میڈیا یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے کہ بھارت اور امریکا کے بعد اب چین بھی پاکستان سے نالاں نظر آتا ہے اور چین کے صوبہ سنکیانگ میں ہونے والے نسلی فسادات میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے ملوث ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔
اس بار بھی پڑوسی ملک بھارت میں میڈیا کے ذریعے پاک چین دوستی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن چین نے اپنے حالیہ مطالبے کے صرف تین دن بعد ہی پاکستان کو جنوبی ایشیائی خطے کا سب سے اہم اور قابل اعتماد دوست قرار دیتے ہوئے یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان کی خود مختاری اور معاشی ترقی کے لیئے ہر ممکن تعاون اور امداد فراہم کی جائے گی۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک اپنے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو مزید فروغ دینے کے علاوہ اپنی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیئے ایک دوسرے کی مدد کریں۔بیجنگ کی جانب سے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ بارے اپنے حالیہ مطالبے کے فوری بعد پاکستان کے حق میں ایسا بیان جاری کرنا یقیناًاس پروپیگنڈے کا توڑ ہے کہ جس کی آڑ میں چین کو پاکستان سے متنفر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان اور چین مل کر گوادر بندرگاہ کے ذریعے عالمی منڈی تک رسائی حاصل کر رہے ہیں جس کا ہندوستان اور امریکا کو بہت دُکھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک پاک چین دوستی میں بدگمانیاں پیدا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور چین کی طرف سے ایسے کسی بھی مطالبے کو اتنا اُچھالتے ہیں کہ جیسے اب ان دونوں ملکوں کی دوستی قصہ پارینہ بن گئی ہو۔ گزشتہ سال اگست کے شروع میں سنکیانگ میں جو پُرتشدد واقعات رونما ہوئے شاید یہ پہلا موقع تھا کہ چین نے ابتدائی تحقیق کے بعد اپنے قریبی حلیف پاکستان پر اُنگلی اٹھائی۔پاکستان پر اُنگلی اُٹھنے کی دیر تھی کہ پڑوسی ملک کا میڈیا اور حکمران پھٹ پڑے اور یہاں تک کہہ ڈالا کہ اس خطے میں تمام برائیوں کی جڑ پاکستان ہے لیکن یہ پروپیگنڈہ اُس وقت ناکام ہو گیا جب سنکیانگ واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد چین کی طرف سے یہ بیان دیا گیا کہ ان حملوں میں ملوث ملزمان کی پاکستان سے تربیت کے کوئی ثبوت نہیں ملے اور ان حملوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور دہشت گرد دونوں مقامی ہیں۔
چین اور پاکستان یہ سمجھتے ہیں کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ دونوں ملکوں کے لیئے مساوی خطرہ ہے۔اس لیئے ہر بار پاکستان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایسٹ ترکمان اسلامک موومنٹ سمیت کسی بھی شدت پسند تنظیم کو اپنی سرزمین چین کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ ایک علیحدگی پسند جماعت ہے جو چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے لیئے خود مختار ملک کی خواہاں ہے ۔ چین کا مؤقف ہے کہ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کا ملٹری ہیڈ کوارٹر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے جہاں وہ کئی برسوں سے چین کے خلاف مبینہ طور پر حملوں کی خفیہ منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ چین اس تشویش میں بھی مبتلا ہے کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے شدت پسند القاعدہ اور طالبان سے تربیت حاصل کرکے چین کے مسلمانوں کے اکثریت والے صوبے سنکیانگ میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔ اس وقت چین کو جو تشویش لاحق ہے ایسی ہی تشویش میں ایران پہلے ہی مبتلا ہے کہ ایرانی بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث جنداللہ نامی گروہ کو پاکستان سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔
چین جہاں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کو اپنی سلامتی کے لیئے خطرہ سمجھتا ہے وہاں ماضی میں پاکستان کی سیاسی مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کی طرف سے سنکیانگ کے اوغر مسلمان باشندوں کی مدد پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کر چکا ہے لیکن اسکے بعد چین کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی نے جماعت اسلامی کے وفد کو ایک ہفتہ کے لیئے چین کے دورے پر مدعو کیا ۔ اس دورے کے دوران اُس وقت کے جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے نہ صرف زبانی چینی مسلمانوں کی حمایت سے عملاً دستبردار ہونے کا یقین دلایا بلکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ عدم مداخلت کے ایک تحریری معاہدے پر دستخط بھی کیئے جبکہ چین روانگی سے قبل لاہور ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قاضی حسین احمد نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم چین کی قیادت کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم اُن کی سالمیت چاہتے ہیں اور کسی علیحدگی پسند تحریک کی حمایت نہیں کرتے جبکہ تبت اور تائیوان پر بھی چین کا حق تسلیم کرتے ہیں اور اُن کے مؤقف کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں چین سے دوستی چاہتی ہیں اور کوئی بھی جماعت اسکی مخالفت اور دوطرفہ تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہے جبکہ حال ہی میں بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ چین کا استحکام اور امن پاکستان کے لیئے انتہائی اہم ہے اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے سلسلے میں دونوں ممالک خفیہ معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔
حالیہ چند برسوں کے دوران صوبہ سنکیانگ میں جو کچھ ہوا وہ قابل افسوس ہے لیکن اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ ان فسادات سے قبل پاکستان نے بعض ایسے اقدامات کئے ہیں جو ان غلط فہمیوں کو رفع کرنے میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں جو پاکستان میں چینی شدت پسندوں کی موجودگی کے حوالے سے چینی قیادت کے ذہنوں میں عرصے سے موجود تھے۔ پاکستان کی فوج نے 2003ء میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے سربراہ اور بانی حسن معصوم کو فاٹا میں ہلاک کیا۔ اس ہلاکت کے بعد عبدالحق ترکستانی مشرقی ترکستان تحریک کا لیڈر بن گیا لیکن اُسے بھی پاکستانی فورسز نے فروری 2011ء میں ہلاک کر دیا جبکہ دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کے خلاف آپریشن اور انٹیلی جنس کے شعبہ میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بھی جاری ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان چینی مطالبے پر درجن بھر شدت پسندوں کو گرفتار کرکے بھی اُس کے حوالے کر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عبدالحق ترکستانی کی ہلاکت کے بعد عبدالشکور ترکستانی کو ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے اور یہی وہ شخص ہے جسے القاعدہ نے پاکستان میں اپنا آپریشنز چیف بھی بنا رکھا ہے۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
حقانی گروپ کیخلاف کارروائی کی صورت میں امریکہ افغان سرحد بند کر دے : پاکستان
حقانی گروپ کیخلاف کارروائی کی صورت میں امریکہ افغان سرحد بند کر دے : پاکستان | NAWAIWAQT

اسلام آباد (اے ایف پی+ ایجنسیاں) پاکستان نے امریکہ سے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں موجود القاعدہ کے حامی حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستانی فورسز کی طرف سے ممکنہ عسکری کارروائی کی صورت میں افغان سرحد کو بند کر دیا جائے۔ ایک سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر پاکستانی فورسز شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہیں تو اس صورت میں افغانستان میں تعینات امریکی اتحادی افواج کو پاکستان سے ملحق افغان سرحد کو موثر طریقے سے بند کرنا ہو گا تاکہ شدت پسند افغانستان میں پناہ حاصل نہ کر سکیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس اہلکار نے کہاکہ پیچیدہ اور پہاڑی سرحدی علاقے کو مناسب طریقے سے بند نہ کیا گیا تو شدت پسند افغانستان داخل ہو جائیں گے جہاں پاکستان کی کوئی رٹ نہیں، اہلکار نے کہاکہ ماضی میں شمالی وزیرستان میں جب دو مرتبہ آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا تو امریکہ افغان سرحد بند کرنے میں ناکام رہا۔ تین اگست کو امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا تھا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن ، افغانستان اور پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف مشترکہ آپریشن پر غور کر رہے ہیں تاہم پاکستانی حکام نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں معمول کی کارروائیوں کو مشترکہ آپریشن قرار دینا غلطی ہو گا۔ سکیورٹی اہلکار نے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے دورہ امریکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، امریکیوں کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ کسی بھی عسکری کارروائی کے لیے امریکی فوجیوں کو پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو وہ ہم خود کریں گے۔ واشنگٹن حکومت کو بتا دیا گیا کہ شمالی وزیرستان میں فی الوقت کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ اس دوران ظہیر الاسلام نے امریکہ کو دو واضح پیغامات دئیے، ایک یہ کہ پاکستانی سر زمین پر امریکی فوجی بوٹ برداشت نہیں کئے جائیں گے، دوسرا یہ کہ ڈرون حملے پاکستانی خود مختاری کے خلاف ہیں۔
 
Top