بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہلحدیث(محدثین اور ان کے عوام)کا آل تقلید(مثلا دیوبندی،بریلوی اور ان جیسے دوسرے لوگ)کے ساتھ ایمان و عقائد اور اصول کے بعد ایک بنیادی اختلاف مسئلہ تقلید شخصی پر ہے۔تقلیدی حضرات اس بنیادی اختلافی موضوع سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اور چالاکی سے تقلید مطلق پر بحث و مباحثہ اور مناظرے جاری رکھتے ہیں مگر تقلید شخصی پر کبھی بحث و مباحثہ اور تحقیق کے لئے تیار نہیں ہوتے۔اشرف علی تھانوی صاحب جن کے پاوں دھو کر پینا (دیوبندیوں کے نزدیک)نجات اخروی کا سبب ہے۔(دیکھئے تذکرہ الرشید ج1ص113)فرماتے ہیں:
مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔(تذکرہ الرشید ج1ص131)
تقلید شخصی کے بارے میں محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں :
یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا بلکہ ایک انتظامی فتوی تھا۔(تقلید کی شرعی حیثیت ص65طبع ششم 1413ھ)
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اس غیر شرعی حکم کو ان لوگوں نے اپنے آپ پر واجب قرار دیا اور کتاب و سنت سے دور ہوتے گئے ۔
احمد یار نعیمی (بریلوی) لکھتے ہیں:
شریعت و طریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی حنفی،شافعی،مالکی ،حنبلی اسی طرح قادری،چشتی،نقشبندی،سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں۔(جاء الحق ج1ص222طبع قدیم ،بدعت کی قسموں کی پہچانیں اور علامتیں)
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ اپنے بدعتی ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود ،بدعات کی تقسیم کر کے بعض بدعات کو اپنے سینوں پر سجائے بیٹھے ہیں۔
(دین میں تقلید کا مسئلہ ،صفحہ4-5)