• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین میں تقلید کا مسئلہ

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آپ کا اہل حدیث پر اصرار کیوں ۔ کیا آپ کا قرآن سے کوئی واسطہ نہیں
اگر ہے تو اپنا نام اہل قرآن و حدیث رکھتے ۔
اور اگر اجماع اور قیاس بھی حجت ہے تو بھر آپ کا نام تو بہت لمبا ہوجائے گا
نہایت افسوس کی بات ہے آفتاب صاحب کہ آپ باتوں سے باتیں نکالتے چلے گئے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے یہ اقتباس جس کتاب سے شئیر کیا تھا تو میرا ارادہ تھا کہ اسی کتاب سے اور بھی اقتباس شئیر کروں گا لیکن اب میرے دوست نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔میں اپنے تھریڈ میں بحث نہیں چاہتا تھا لیکن اگر اہل علم حضرات گفتگو کر رہے ہیں تو میں روکنے کا کوئی حق اپنے پاس محفوظ نہیں رکھتا۔مجھے آپ کی اس پوسٹ سے بہت حیرانی ہوئی ہے آفتاب صاحب کہ پہلے تو آپ نے یہ کہا:
احناف نے کب واجب قرار دیا ۔ حوالہ دیں
اس کا جواب میں نے آپ کو پوسٹ نمبر 4 میں دیا۔
تقلید شخصی کے بارے میں محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں :
یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا بلکہ ایک انتظامی فتوی تھا۔(تقلید کی شرعی حیثیت ص65طبع ششم 1413ھ)
جب تقی عثمانی صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی شرعی حکم نہیں۔(اس کا مطلب ہے یہ چیز شریعت سے باہر ہے) اور پھر بھی اس پر کوئی اس قدر ڈھٹائی سے جما رہے کہ قرآن و حدیث کی بات کے آگے اپنے امام کی تقلید کو ترجیح دے تو واجب کے علاوہ اور کون سا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔علاوہ ازیں اگر واجب نہیں ہے تو پھر چھوڑ دو۔
پھر آپ نے اس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے دوسرا سوال کیا:
اپنی بات ثابت کریں کہ احناف کہاں قرآن و حدیث کے مقابلے میں اپنے امام کی تقلید کو ترجیح دیتے ہیں
جس کا جواب میں نے دیا (لیکن اس بات کا بہتر جواب طالب نور بھائی اور دیگر اہل علم حضرات جیسے ناصر بھائی کے پاس بمع دلیل موجود ہے)
دارالافتاء والارشاد ناظم آباد کراچی کے مفتی محمد(دیوبندی)لکھتے ہیں:
مقلد کے لیے اپنے امام کا قول ہی سب سے بڑی دلیل ہے۔(ضرب مومن جلد3شمارہ15ص6مطبوعہ9تا15۔ اپریل ١٩٩٩)
(دین میں تقلید کا مسئلہ صفحہ80)
آفتاب صاحب آپ نے اس جواب کو بھی نظر انداز کیا۔اور آپ کے دوسرے اعتراض کا بہترین جواب ناصر بھائی نے اپنی پوسٹ نمبر 11 میں دیا۔
ان کل ایتہ تخالف اصحابنا بانھا تحمل علی النسخ او علی التر جیح و الاو لٰی ان تحمل علی التایل من جھتہ التوفیٖق۔ اصول الکرخی ص ١١
"بیشک ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی احناف) کے مذہب کے خلاف ہوگی۔تو اس کو منسوخ تصور کیا جاے گا یا ترجیح دی جاے گی لیکن بہتر ہے کہ اس آیت کی کوئی تاویل کر لی جاے۔"
ان کل خبر یجیئ بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ او علی انہ معارض بمثلہ ثم صار الیٰ دلیل آخر او ترجیح فیہ بما یحتج بہ اصحابنا من وجوہ الترجیح او یحمل علی التوفیق و انما یفعل علی ذالک یعلی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالت النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالتہ علی غیرہ صرنا الیہ۔اصول الکرخی ص١١
بیشک ہر وہ حدیث جو عمارے مذہب کے خلاف ہو گی تو اس کو منسوخ سمجھا جائے گا یا پھر یہ سمجھا جائے گا کہ اس کے مقابلہ میں ( یعنی اسکے خلاف) کوئی اس جیسی اور حدیث ہے ( جو ہمارے مذیب کی موید ہے) پھر کوئی اور دلیل تلاش کی جائے گی یا ترجیح تصور کی جائے گی جس کی بنا پر ہمارے اصحاب (حنفی علماء) نے احتجاج کیا ہے یا اس میں تطبیق دی جائے گی ورنہ کوئی اور دلیل تلاش کی جائے گی"(لیکن اس حدیث پر عمل نہیں کیا جاے گا)"

اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: آفتاب پیغام دیکھیے
اپنی بات ثابت کریں کہ احناف کہاں قرآن و حدیث کے مقابلے میں اپنے امام کی تقلید کو ترجیح دیتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی عصر کی نماز کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پالے تو اپنی نماز پوری کرلے اور جب فجر کی نماز کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پا لے تو اپنی نماز پوری کر لے۔
بخاری رقم:٥٥٦
مگر احناف اس حدیث کے ایک حصے پر عمل اور ایک حصے کا انکار کرتے ہیں۔
امام زیلعی حنفی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں۔
(و ھذہ الا حادیث مشکلتہ عن مذھبنا فی القول ببطلان صلاتہ الصبح اذا طلعت علیھا الشمس)نصب الرایہ:ا/٢٢٩
"احادیث صحیحہ ہمارے مذہب کے اس قول میں اشکال پیدا کرہی ہیں کہ اگر صبح کی نماز کے دوران سورج طلوع ہو جائے تو ایسی صورت میں پڑھی جانے والی نماز باطل ہو جاتی ہے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو سات مرتبہ مرتبہ دھویا جائے گا۔صحیح مسلم

اور احناف
و سور الکلب نجس و یغسل الانا ء من ولو غہ ثلثا۔(ہدایہ ج١،ص٤٣، کتاب الطہارت،)
"یعنی کتے کے جھوٹے برتن کو تیں بار دھویا جائے گا۔"


مثالیں تو بہت ہیں مگر عقل والوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔
لیکن آپ نے اس کو بھی بڑی بے دردی سے نظر انداز کیا۔اور آپ نے اقتباس کر کے کچھ لکھا بھی سہی تو عمران ناصر بھائی کی پوسٹ پر ایک بلا وجہ تبصرہ پیش کیا۔جو کہ موضوع سے فی الحال تعلق نہیں رکھتا۔
میرا آپ سے ایک سوال ہے آفتاب صاحب اور یہ سوال بھی نہایت آسان ہے جس کا جواب بھی آپ نے آسان انداز سے دینا ہے نہ کہ لمبی چوڑی گفتگو کے ساتھ۔
سوال یہ ہے کہ جیسا کہ ناصر بھائی کی پوسٹ نمبر ١١ میں اصول کرخی کی عبارت کوٹ کی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں:
ان کل ایتہ تخالف اصحابنا بانھا تحمل علی النسخ او علی التر جیح و الاو لٰی ان تحمل علی التایل من جھتہ التوفیٖق۔ اصول الکرخی ص ١١
"بیشک ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی احناف) کے مذہب کے خلاف ہوگی۔تو اس کو منسوخ تصور کیا جاے گا یا ترجیح دی جاے گی لیکن بہتر ہے کہ اس آیت کی کوئی تاویل کر لی جاے۔"
آفتاب صاحب کیا آپ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کی جو بھی آیت آپ کے اصحاب حنفی کے مذہب کے خلاف ہو گی۔
آپ کیا کہتے ہیں۔
آپ آیت کو چھوڑ دیں گے؟
آپ اپنے اصحاب حنفی کی بات مانیں گے؟
آپ قرآن کی آیت کی تاویل کر لیں گے؟
بس اس بات کا مجھے آسان انداز میں جواب چاہیے۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جنرل باتیں تو بہت لمبی ہوجاتی ہیں لیکن کچھ حضرات نے خاص اعتراضات کیے ان کے جواب حاضر ہیں ۔

ان کل ایتہ تخالف اصحابنا بانھا تحمل علی النسخ او علی التر جیح و الاو لٰی ان تحمل علی التایل من جھتہ التوفیٖق۔ اصول الکرخی ص ١١
"بیشک ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی احناف) کے مذہب کے خلاف ہوگی۔تو اس کو منسوخ تصور کیا جاے گا یا ترجیح دی جاے گی لیکن بہتر ہے کہ اس آیت کی کوئی تاویل کر لی جاے۔"
ان کل خبر یجیئ بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ او علی انہ معارض بمثلہ ثم صار الیٰ دلیل آخر او ترجیح فیہ بما یحتج بہ اصحابنا من وجوہ الترجیح او یحمل علی التوفیق و انما یفعل علی ذالک یعلی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالت النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالتہ علی غیرہ صرنا الیہ۔اصول الکرخی ص١١
بیشک ہر وہ حدیث جو عمارے مذہب کے خلاف ہو گی تو اس کو منسوخ سمجھا جائے گا یا پھر یہ سمجھا جائے گا کہ اس کے مقابلہ میں ( یعنی اسکے خلاف) کوئی اس جیسی اور حدیث ہے ( جو ہمارے مذیب کی موید ہے) پھر کوئی اور دلیل تلاش کی جائے گی یا ترجیح تصور کی جائے گی جس کی بنا پر ہمارے اصحاب (حنفی علماء) نے احتجاج کیا ہے یا اس میں تطبیق دی جائے گی ورنہ کوئی اور دلیل تلاش کی جائے گی"(لیکن اس حدیث پر عمل نہیں کیا جاے گا)"
اس کی تشریح کئی دفعہ کی گئی اور ہر دفعہ یہی اعتراض کیا گیا ۔ میں اسی فورم سے اس کا کاپی پیسٹ کرکے جواب نقل رہا ہوں
جمشید بھائی نے کہا تھا
میں نے عموما دیکھاہے کہ بحث میں لوگ خواہ مخواہ امام کرخی کی اس عبارت کوضرور لاتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ یہ ان کی فتح کیلے کافی ہے۔ لیکن افسوس کہ لوگ اس کے ساتھ اس کی شرح جوایک معتبر حنفی فقیہ نے کی ہے اس کی جانب دھیان نہیں دیتے۔ کیونکہ اس سے ان کا اعتراض ہی ختم ہوجاے گا۔
دوسری بات یہ کہ ہے کہ یہ مجرد امام کرخی کا قول ہے۔کسی قول کو حنفیہ کی جانب منسوب کرنے کیلے ضروری ہے کہ دیگر فقہاے احناف نے بھی اس قول کی تائید کی ہو۔ ورنہ ایک شخص کے قول کو پوری جماعت پر تھوپیں گے تب توآپ کیلے بھی بڑی مصیبت ہوجاے گی۔
امام کرخی کے شاگرد مشہور محدث،اصولی اورفقیہ امام جصاص رازی ہیں۔ انہوں نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس میں اپنے استاد کی تائید کی ہے۔ اس کے بعد امام سرخسی نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس میں امام کرخی کی اس عبارت کی تائید کی ہے۔ امام ابوزید دبوسی نے بھی اصول فقہ پر کتاب لکھی ہے کیااس مین اس قسم کا کوئی جملہ موجود ہے۔اگرہے تودلیل دیں ورنہ صرف امام کرخی کی بات کوبغیراس میں غوروفکر کئے بغیر سبھی پر نہ تھوپیں۔
میں نے کہا تھا کہ
اگر آپ اس میں غورو فکر کرتے تو اس کا مطلب بھی پالیتے ۔
اصول کرخی کا مطلب ہے کہ اگر کوی ایسی حدیث نظر آجاے جو ہمارے اصحاب کے مسلہ کے خلاف ہو تو یہ بات یقینی ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ احناف کے مجتہدیں نے پہلے ہی تمام احادیث دیکھ کر فقہ مرتب کی ہے مسئلہ کے بارے میں کہ اگر فقہاء احناف کو دو احادیث ملیں جن میں سے ایک ناسخ اور ایک منسوخ ہے تو ناسخ انہوں نے پکڑ لی منسوخ چھوڑ دی ۔ اور جناب یہاں پر تاویل کا مطلب ہے یعنی دونوں حدیث کا مطلب بھی ایسا ہی نکالا جاے گا جو ناسخ منسوخ جیسا ہو یا پھر اسکے بارے میں یہ بتانا کہ یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے تاویل کرنا ہی کہلاے گا ۔ اور جناب اگر ہمارے اصحاب کا قول قرآن اور حدیث کے مطابق ہو گا تو ہم یہ کوشش کیوں نہ کریں کہ انکے قول کو فضیلت ہو ؟؟؟؟ اس بات کو تو ہم بھی مانتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول کا حکم آجاے تو انکے حکم کے خلاف کسی کا بھی حکم قابلِ قبول نہیں ہے اس بات سے کسی بھی حنفی کو انکار نہیں آپ اس بات کا شور مچا کر کچھ بھی ثابت نہیں کر سکتے ۔

کیا غیر مقلدین کا کیا یہ اصول نہیں ہے کہ انکی بات جسکی بنیاد کسی حدیث پر ہو اور اس قول کے خلاف کوی ایسی حدیث مل جاے جو منسوخ ہو تو کیا غیر مقلدین اس منسوخ حدیث کو ترجیح دیں گے یا اس قول کو جسکی بنیاد کسی آیت یا صحیح حدیث پر ہو ۔ اب یہ اصول کی تشریح ہے جو میں نے بیان کر دی نہ یہ قرآن کی کسی آیت کے خلاف ہے نہ ہی کسی صحیح حدیث کے تو کیا ضعیف حدیث کے خلاف ہے ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی عصر کی نماز کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پالے تو اپنی نماز پوری کرلے اور جب فجر کی نماز کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پا لے تو اپنی نماز پوری کر لے۔
بخاری رقم:٥٥٦


أخبرنا قتيبة بن سعيد عن مالك عن نافع عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا يتحر أحدكم فيصلي عند طلوع الشمس وعند غروبها (سنن النسائي)

وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا طلع حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى ترتفع، وإذا غاب حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تغيب"

عن عقبة بن عامر قال: "ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهانا أن نصلي فيهن أونقبر فيهن موتانا: حين تطلع الشمس بازغة حتى ترفع، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل الشمس، وحين تضيف للغروب حتى تغرب".


یہ تین اور اس جیسی احادیث ثابت کرتیں ہیں کہ طلوع کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔ تو یہ احادیث منسوخ ہو جاتی ہیں جو آپ نے ذکر کیں ۔ اگر ان کو منسوخ نہ مانا جائے تو دونوں حکموں میں ایک تطبیق کی یہ صورت ہے کہ اپ کی بیان کردہ احادیث کو حائضہ عورت کے پاک ہونے اور بلوغ اور نو مسلم پر محمول کیا جائے یعنی اگر کوئی عورت اتنی دیر میں پاک ہوتی کہ عصر کی رکعت پڑہ سکتی ہے تو وہ اس وقت تو نماز نہیں پڑھے گی کیوں کہ وقت ممنوع ہے لیکن اس پر یہ نماز فرض ہوگئی اور وہ اس کی قضاء پڑھے گی۔



آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اس کو سات مرتبہ مرتبہ دھویا جائے گا۔صحیح مسلم

اور احناف
و سور الکلب نجس و یغسل الانا ء من ولو غہ ثلثا۔(ہدایہ ج١،ص٤٣، کتاب الطہارت،)
"یعنی کتے کے جھوٹے برتن کو تیں بار دھویا جائے گا۔"
یہ حکم استحبابی ہے ۔
صحیح مسلم کے راوی ابو ہریرہ ہیں اور ان کا عمل تین دفعہ دھونے کا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سات دفعہ دھونے کا عمل استحبابی عمل ہے اور تین دفعہ دھونے واحب ہے اس کے بغیر برتن پاک نہیں ہو گا۔ یہی احناف کا موقف ہے

أخرجه الدارقطني بإسناد صحيح عن عطاء عن أبي هريرة { إذا ولغ الكلب في الإناء فأهرقه ثم اغسله ثلاث مرات } وأخرجه بهذا الإسناد عن أبي هريرة أنه قال { إذا ولغ الكلب في الإناء أهرقه وغسل ثلاث مرات } قال الشيخ تقي الدين في الإلمام هذا إسناد صحح الطريق الثاني أخرجه ابن عدي في الكامل عن الحسين بن علي الكرابيسي بسنده إلى عطاء عن أبي هريرة قال { قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليهرقه وليغسله ثلاث مرات }


اسی طرح کی مثال دیکھیں
وضوء بسم اللہ سے شروع کرنا آپ کے نذدیک بھی سنت ہے لازمی نہیں لیکن یہ حدیث اور عبد اللہ بن باز کا فتوی ملاحظہ فرمائیں

حدثنا زيد بن الحباب ومحمد بن عبد الله بن الزبير عن كثير بن زيد قال : حدثني ربيح بن عبد الرحمن بن أبي سعيد الخدري عن أبيه عن جده أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه .


فتوی ابن باز
فالتسمية عند الوضوء سنة عند الجمهور (جمهور العلماء) وذهب بعض أهل العلم إلى وجوبها مع الذكر، فينبغي للمؤمن أن لا يدعها، فإن نسي أو جهل فلا شيء عليه ووضوؤه صحيح

یہاں حدیث میں کہا جا رہا ہے کہ بسم اللہ کے بغیر وضوء نہیں ابن باز( اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے) جمہور علماء کے حوالہ سے کہ رہے ہیں یہ سنت ہے اس کے بغیر وضوء ہوجائے گا ۔
.
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
آپ نے بہت آسان سی بات میرے عقیدے کے مطابق پوچھی ۔
آفتاب صاحب کیا آپ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کی جو بھی آیت آپ کے اصحاب حنفی کے مذہب کے خلاف ہو گی۔
آپ کیا کہتے ہیں۔
آپ آیت کو چھوڑ دیں گے؟
آپ اپنے اصحاب حنفی کی بات مانیں گے؟
آپ قرآن کی آیت کی تاویل کر لیں گے؟
بس اس بات کا مجھے آسان انداز میں جواب چاہیے۔
میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو مانوں گا۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
آفتاب بھائی اس کی بھی تشریح کر دیں۔۔
فاذا استدلال ابو حنیبتہ بحدیث نعقتدانہ حکم بصحتہ و تو ثیق رجالہ ولا نلتفت الی من خالفہ خصوصا اذ کان من ھو دونہ فی العلم والفقہ و نحکم علی الرجال انھم موثقون مقبولون ولا نبالی بما قالہ ارباب الظواھر من الضعف والجرح و غیر ذالک من الوجوہ القادحت فی الثقاھتہ و ان صدر عن کبار المشاھیر کلبخاری و المسلم۔ (کتاب الآثار امام محمد، بحوالہ نتائج التقلید ص ز)

" اس عبارت کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جس حدیث سے امام ابو حنیفہ نے استدلال کیا ہے یا جو حدیث ہمارے مذہب کی موید ہے ہمارے حنفی علماء و فقہاء کا اصول و عقیدہ یہ ہے وہ حدیث با لکل صحیح اور اس کے راوی بالکل ثقہ و معتبر(اگرچہ ضیعف اور مو ضوع ہی کیوں نہ ہو؟) اور اس کے بر عکس اگر مشاہیر ائمہ حدیث اسی حدیث کو ضعیف و متروک اور اس کے راویوں کو غیر معتبر و ناقابل اعتبار قرار دیں تو ہم ان کے قول کو ٹھکرا دیں گے اگرچہ امام بخاری و مسلم ہی کیوں نہ ہو۔
اور


"تھانوی صاحب اپنے استاد جناب مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کو خط لکھتے ہیں اور تقلید شخصی اور مقلدین کے حالات لکھتے ہیں۔
اور مفاسد کا ترتب یہ کہ اکثر مقلددین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے دل میں انشراح و انبساط (خوشی) نہیں رہتا۔ بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے چاہے کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض(خلاف) ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز (سواے) قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تادیل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں اور دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڈ کرحدیث صحیح صریح پر عمل کر لیں۔
(بحوالہ تذکرتہ الرشید ج ١ ص ٢٣١)



آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.
عن ابی اسمح قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یغسل من بول الجاریتہ و یرش من بول الغلام.
"یعنی آنحضرت ”صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بچی کے پیشاب کو دھویا جائے گا اور بچے کے پیشاب پر پانی چھڑک دینا ہی کافی ہے"(یہ اس بچی بچے کے متعلق ہے جو ابھی کھانا نہ کھاتے ہوں)
(نسائی کتاب الطہارتہ ص1.....35،مسلم ص1/139،بخاری ص1/ا35،ابن ماجہ ص 39)
اور احناف
"یعنی امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے کہ چھوٹے بچے اور بچی کے پیشاب کی نجاست میں فرق نہیں کیا جاے گا بلکہ دونوں کے پیشاب کو دھونا ضروری ہے"عمدتہ القاری ص٣/١٣٠)
اور
"بے شک شراب ، جوا ،بت اور پانسے شیطانی اعمال میں سے ہیں اور پلید ہیں پھر فرمایا کیا تم شراب نوشی سے رکتے ہو۔" (المائدہ :٩٠-٩١)
اور احناف
جو شراب گندم ، جو شہد اور مکئی سے بنائی جاے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک حلال ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اسکے پینے والے کو حد نہیں لگائی جائے گی چاہے پینے والے کو نشہ آ جائے۔ (ھدایہ اٰخیرین ص:٤٩٣)
اور صاحب ہدایہ فرماتے ہیں۔
اسی طرح کجھور اور منکے کی نپیذ کو پکانے کے بعد اگر اس میں نشہ بھی پیدا ہو جائے تو بھی امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک وہ حلال ہے۔ (ھدایہ اٰخیرین ص:٤٩٣)
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مروجہ شراب کا ذکر کرتے ہوئے خمر کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں۔
"حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا شراب کی حرمت نازل ہوئی اور یہ پانچ چیزوں سے بنائی جاتی تھی ، انگور، کھجور، شہد، گندم اور جو اور شراب وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے ۔(بخاری ٨٨٧١)
اور میری اللہ سے دعا ہے اللہ ایسی تقلید سے بچائےاور ایسے فلسفہ و منتق سے بچائے جس سے دین کو نقصان ہو۔آمین
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میری ناقص رائے میں یہ ایک منفرد عالم کی تنہا غلطی ہے کہ وہ تقلید کی وجہ سے حق و انصاف کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسی غلطیاں ہر مسلک کے علمائے کرام سے ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ لیکن دیوبندی حضرات کا بحیثیت جماعت قصور یہ ہے کہ وہ اس طرح کی مثالوں میں عالم کی غلطی کو غلطی تک نہیں مانتے۔ اسی مثال میں دیکھ لیں کہ قائل کی مرضی کے خلاف تاویل کر کے محمود الحسن صاحب کے اس باطل عمل کو بھی درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یقیناً آفتاب بھائی کے الفاظ میں یہی اندھی تقلید ہے کہ جس کی خود حنفی علماء قولاً مخالفت کرتے ہیں اور عملاً اسی کے شدید حامی ہیں۔
بریں عقل ودانش بباید گریست
میرے لئے بھی آسان ہے کہ اسی طرح کے کچھ مجمل اورمبہم جملے استعمال کردوں۔
جاء في طبقات الحنابلة الجزء الاول صفحة 31 :
قال الإمام أحمد ومن زعم أنه لا يرى التقليد ولا يقلد دينه أحدا فهو قول فاسق عند الله وعند رسوله.

امام احمد کے اس ارشاد کاکیامطلب ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
آپ نے بہت آسان سی بات میرے عقیدے کے مطابق پوچھی ۔

میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو مانوں گا۔
صرف زبانی طور پر کیونکہ آپ کا عمل اس کے سو فیصد خلاف ہے۔ آپ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی صرف وہی بات مانتے ہیں جو آپ کے امام نے مانی ہو۔ اور جس قول رسول اور حکم ربی کی مخالفت امام صاحب نے کی ہو آپ بھی اس حکم کی مخالفت میں غلط تاویلات کرتے ہیں۔

آپ کا عقیدہ وہ نہیں جو آپ بیان فرمارہے ہیں بلکہ آپ کا عملی عقیدہ وہ ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے لہذا اپنے عقیدے کی تصحیح کر لیں۔ شکریہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
آفتاب بھائی مجھے سخت افسوس ہے کہ یہ اکابر پرستی ہے جس میں ہر حق بات کی اس لئے تاویل کی جاتی ہے کہ وہ اکابر کے فرمان کے خلاف ہوتی ہے اب اسی تاؤیل کو ہی لیجئے جو آپ اپنے امام کرخی کے اصولوں کے دفاع میں کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ تاؤیل انتہائی غلط ہے۔

میں نے بہت عرصہ پہلے ایک مضمون لکھا تھا جس کا نام تھا ’’حنفی مذہب کے دو شیطانی اصول‘‘ جو امام کرخی کے قرآن و حدیث کے لئے بنائے گئے اصولوں کے رد پر تھا۔ اسے ایک بریلوی فورم پر پیش کیا تھا جہاں بریلویوں نے بعینہ انہی تاویلات کے ذریعہ حنفی مذہب کے داغ دھونے کی کوشش کی تھی جس کا سہارا آپ نے لیا ہے۔ الحمداللہ ان تاؤیلات کا احسن طریقے سے رد وہیں پیش کردیا ہے جس میں آپ کا بھی جواب شامل ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ زرا اس مضمون کا مطالعہ کرلیں اور اس کے بعد اگر کوئی نئی تاویل آپ کے پاس ہو تو پیش فرمائیں تاکہ اس کا جواب دیا جاسکے۔

حنفی مذہب کے دو شیطانی اصول​


تنبیہہ: نامناسب الفاظ حذف۔۔انتظامیہ
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
فاذا استدلال ابو حنیبتہ بحدیث نعقتدانہ حکم بصحتہ و تو ثیق رجالہ ولا نلتفت الی من خالفہ خصوصا اذ کان من ھو دونہ فی العلم والفقہ و نحکم علی الرجال انھم موثقون مقبولون ولا نبالی بما قالہ ارباب الظواھر من الضعف والجرح و غیر ذالک من الوجوہ القادحت فی الثقاھتہ و ان صدر عن کبار المشاھیر کلبخاری و المسلم۔ (کتاب الآثار امام محمد، بحوالہ نتائج التقلید ص ز)
یہ عبارت کس کی ہے اس کی تو وضاحت کردیتے ورنہ مصنف نتائج التقلید کی طرح کہیں آپ بھی یہ مغالطہ دینے کی کوشش تونہیں کررہے ہیں کہ یہ عبارت امام محمد کی ہے۔ پہلے یہ تو معلوم کرلیں کہ یہ عبارت امام محمد کی نہیں ہے۔امام محمد کے دور میں نہ تو امام بخاری پیداہوئے تھے اورنہ امام مسلم ۔پتہ نہیں اس کابھی علم آنجناب کو ہے یانہیں ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
یہی وجہ ہے کہ فورمز پر تقلید وعدم تقلید اوردیگر اختلافی مسائل پر بحث کرنے کی اب طبعیت نہیں کرتی ۔ایک فورم پر بہت بحث کرلیا اوراس کے نتائج بھی دیکھ لئے۔
اگر جمشید صاحب وہ نتائج بھی بتادیتے تو بات سمجھنےمیں آسانی ہوجاتی اور مجھے بلاوجہ زحمت نہ کرنا پڑتی۔ بہرحال قارئین کرام وہ نتائج یہ ہیں کہ اہل الحدیث، ممتاز مجتہد شیخ رفیق طاہر، سلمان ملک، سلفی ایٹ اور ابن داود بھائی نے جمشید بھائی کے تمام مغالطوں کا ازالہ کیا حتی کہ جمشید بھائی کی تاویلات ختم ہوئیں۔ ملاحظہ فرمائیںِ

فقہ ، اجماع ، تقلید حافظ ذہبی کی نگاہ میں - URDU MAJLIS FORUM
یہ مضمون بھی دیکھ لیں۔
کیا ہمیں تقلید نہیں کرنی چاہیے ؟ - URDU MAJLIS FORUM

 
Top