• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں کا جہاد

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
دیوبندیوں کا جہاد

اللہ اپنے دین کا کام فاجر اور فاسق سے بھی لے سکتا ہے۔اس لئے دیوبندیوں کا جہادکرنا ہر گز اس بات کی علامت یا دلیل نہیں کہ یہ لوگ حق پر ہیں۔کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے کی وجہ سے انکا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا انہیں ذرہ برابر فائدہ نہیں دے گا۔جہاد ہو یا کوئی دوسری نیکی، اللہ کی بارگاہ میں صرف صحیح العقیدہ لوگوں کی مقبول ہوتی ہے۔

بعض نادان لوگوں کا خیال ہے کہ چند دیوبندیوں کو چھوڑ کر باقی دیوبندی عقائد کی خرابی میں مبتلا نہیں۔ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ ان کی نری خوش فہمی ہے اور حقیقت اسکے برعکس ہے۔ دیوبندیوں کو باآسانی دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک ان علماء اور طلباء کا گروہ جو نہ صرف اپنے کفریہ مذہبی عقائد سے پوری طرح باخبر ہے اور ان عقائد باطلہ کو حق جانتاہے بلکہ عام عوام کو بھی ان غلط نظریات و عقائد کی طرف دعوت دیتا ہے۔ دوسرا وہ گروہ جسے ہم عوام کہہ سکتے ہیں جو عموماً کچھ عقائد سے بے خبر ہوتا ہے لیکن جب انکے خراب مذہبی عقائد کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وہ بغیر علم کے تاؤیل کرتا ہے حتی کہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجانے کے باوجود بھی اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے اکابرین سے براء ت اور بے زاری کا اظہار نہیں کرتابلکہ الٹا ان اکابرین کو حق پر جانتا اور انکی نجات کا عقیدہ رکھتا ہے۔اس گروہ کا حکم بھی پہلے گروہ والا ہے۔ کیونکہ جس طرح کفر اور شرک سے براء ت ضروری ہے اسی طرح کفر اور شرک کے حاملین سے بے زاری اور لاتعلقی بھی لازمی ہے۔

پس موجودہ کفریہ اور شرکیہ عقائد کے ساتھ ان دیوبندیو ں کی نمازبھی مردود ہے اور جہاد بھی۔بہت سے لوگ طالبان دیوبندیوں سے بہت ہمدردی رکھتے ہیں حالانکہ یہ لوگ بہت ظالم ، بدعقیدہ اور اہل حدیث سے شدید بغض رکھنے والے ہیں۔سید طیب الرحمن زیدی حفظہ اللہ کے طالبان کے بارے میں زاتی مشاہدات پیش خدمت ہیں جو ہمارے دعویٰ پر مضبوط دلیل ہے۔ملاحظہ ہو:

طالبان کا جہاد
راقم جہاد سے عرصہ 12 سال منسلک رہا ہے۔ قریب سے تمام افغانی تنظیموں کو دیکھا ہے۔کشمیر کی وادی میں کشمیریوں کی جہادی تنظیموں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔

وہ وقت کبھی نہیں بھولتا:
01۔ جب طالبان دیوبندیوں نے افغانستان میں عرب کے شہزادوں کو کنڑ میں چھری کے ساتھ ذبح کیا تھا۔
02۔ جب طالبان دیوبندیوں نے شیخ جمیل الرحمن رحمہ اللہ (امیر جماعت الدعوۃ والسنتہ افغانستان) کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔
03۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مال غنیمت سمجھ کر سلفیوں کا مال لوٹ لیا تھا۔
04۔ جب طالبان دیوبندیوں نے صوبہ کنڑ کی اسلامی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔
05۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مدارس و مساجد اور قرآن کو جلادیا تھا۔
06۔ جب طالبان دیوبندیوں نے بٹگرام میں اہل حدیث مسجد کو آگ لگا دی تھی۔
07۔ جب طالبان دیوبندیوں نے بٹگرام کی مسجد کے میڑیل کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا تھا۔
08۔ جب طالبان دیوبندیوں نے عبدالحکیم شہر موصوف کی مسجد کو آگ لگا دی تھی۔
09۔ جب طالبان دیوبندیوں نے عبدالحکیم شہر کو تین دن تک اہل حدیث کی دشمنی میں سیل رکھنے کی کوشش کی تھی۔
10۔ جب طالبان دیوبندیوں نے میلسی شہر میں مسجد توحید اہل حدیث پر حملہ آور ہونے کے لیے بریلویوں کے ساتھ اجتماعی جلوس کا اعلان کیا تھا۔
11۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مرکز اہل حدیث2 /G-11 اسلام آباد پر حملہ کردیا تھا۔
12۔ جب طالبان دیوبندیوں نے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
13۔ جب طالبان دیوبندیوں کے مفتی عبدالسلام نے کہا تھا افغانستان میں بھی تمہیں ماراتھا اب پاکستان میں بھی تمہیں ماریں گے۔
14۔ جب طالبان دیوبندیوں نے فجر کی نماز کے وقت دکتور سید طالب الرحمن حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کیاتھا۔
15۔ جب طالبان دیوبندیوں نے کراچی کی جامع مسجد اور مدرسہ جامعہ الدراسات پر قبضہ کر لیا تھا۔
16۔ جب طالبان دیوبندیوں نے ایبٹ آباد میں مسجد اہل حدیث کی تعمیر اپنے دور حکومت میں رکوائی تھی۔
17۔ جب طالبان دیوبندیوں نے ایبٹ آباد کی مسجد اہل حدیث پر تعمیر کے بعد قبضہ کر لیا تھا۔
18۔ جب پاکستانی طالبان دیوبندیوں نے افغانی طالبان کے ساتھ مل کر شاہ خالد کو قتل کیا تھا۔
19۔ جب پاکستانی طالبان نے شاہ خالد کے معسکر کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا تھا۔
20۔ جب طالبان دیوبندیوں نے شیخ عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کو کئی ماہ تک قید وبند کی مصیبت میں مبتلا کیا تھا۔
21۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مفتی عبدالرحمن رحمانی رحمہ اللہ کو اور ان کی بیوی محترمہ کو ذود کوب کیا تھا۔
22۔ جب طالبان دیوبندیوں نے افغانستان میں رفع الیدین کرنے پر ہاتھ اور انگلی شہادت حرکت دینے پر انگلی کاٹ دی تھی۔
23۔ طالبان کی حکومت میں جب سلفی علماء کا وفد ہوٹل کے کمرے میں بند نماز پڑھتا تھاکہ طالبان اس نماز کو پسند نہیں کرتے فتنہ کا ڈر ہے۔
24۔ طالبان حکومت کے قائم ہونے کے بعد پاکستان کے دیوبندیوں نے علی الاعلان کہنا شروع کردیاتھا ’’اب سلفیوں تمہاری باری ہے‘‘ کیا طالبان کی حکومت کا قیام سلفیت کے خاتمے کا پیغام ہے۔
(نماز میں امام کون؟ از سید طیب الرحمن زیدی، صفحہ 147)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
السلام علیکم !!! محترم عزیز برادر شاہد نذیر صاحب مزید رہنمائی فرمائے کیا افغان طالبان میں ہمارے سلفی برادران بھی کام کرتے ہے اور کیا ملّا عمر کا تعلق بھی دیوبندی مزہب سے ہے !!!!شکریہ جزاکم اللہ خیرا !!
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
طالبان کی قیادت میں جہاد کے واجب ہونے پر علمائے کرام کے فتاوی


علمائے عرب جنہوں نے طالبان کی قیادت میں جہاد افغانستان کے وجوب کے فتاوی دیے فضیلۃ الشیخ طارق الطّواری نے ان کے نام یہ بیان کئے ہیں:
1:علامہ حمود بن عقلاء الشعیبی رحمہ اللہ
2:عبدالرحمن بن ناصر البراک حفظہ اللہ
3:ناصر بن حمد الفھد حفظہ اللہ،ڈین کلیہ اصول الدین جامعہ امام بن سعود
4:علامہ المحدث عبداللہ السعد حفظہ اللہ
5:علامہ المحدث سلیمان بن ناصر العلوان حفظہ اللہ
6:فضیلۃ الشیخ علی بن خضیر الخضیر حفظہ اللہ
7:ڈاکڑ ناصر العمر حفظہ اللہ
8:ڈاکڑ سفر الحوالی حفظہ اللہ
9:ڈاکڑ سلمان العودہ حفظہ اللہ
10:شیخ شریف الفعر حفظہ اللہ
11:شیخ عبداللہ بن محمد العثمان حفظہ اللہ
12:ڈاکڑ مھدی القاضی حفظہ اللہ
13:بشیر بن فھد آل بشر حفظہ اللہ
14:عبداللہ بن عمر الدمیجی حفظہ اللہ
15:ڈاکڑ ریاض المسیر میری حفظہ اللہ
16:شیخ عبدالرحمن الغریان حفظہ اللہ
17:علمائے سوڈان
18:علمائے لبنان
19:علمائے یمن

حق پر قائم ان علماء نے جہاد افغانستان کے وجوب کا فتوی دیا۔(صحیفۃ الرأی العام الکویتیہ:2011/11/15)
ان علماء میں ہم یہاں حمود بن عقلاء کے فتویٰ سے چند اقتباسات قارئین کی نظر کر رہے ہیں۔

طالبان کے دور میں شیخ حمود بن عقلاء رحمہ اللہ کے الفاظ یہ تھے:
’’فھی دولۃ الوحیدۃ فی العالم التی لا یوجد فیھا محاکم قانونیۃ وانما حکمھا قائم شرح اللہ و رسولہ فی المحاکم القضائیۃ و فی الوزارات و فی المؤسات۔أما ما عداھا من الدول الا سلامیہ فمنھا من تحکم بالقوانین الوضعیۃ الصرفۃ ومنھا من تدعی تطبیق حکم اللہ و رسولہ مع ما یوجد فیھا من محاکم قانونیۃ صرفۃ،وحتی المحاکم الشرعیۃ فی مثل ھذہ الدول یکون معظم أحکامھا قائماً علی التنظیمات و التعلمیات التی من وضع البشر،فلا فرق بینھما و بین القوانین الو ضعیۃ الا بالاسم۔۔۔وحیث قد عُلم أن حکومۃ الطالبان حکومۃ شرعیۃ قد توفرت لھا مقومات الاسلامیہ۔۔۔فاذا کان الامر کذلک فانہ یجب دعم دولۃ طالبان و الجھاد معھا من باب نصرۃالاسلام۔۔۔(موقع حمود بن عقلا الشعیبی
’’یہ دنیا میں واحد حکومت ہےجہاں بشری قوانین نے فیصلہ کرنے والی عدالتیں نہیں پائی جاتی بلکہ اس مملکت کی عدالتوں،وزارتوں، اور کمپنیوں کا نظام اور قانون اللہ اوراسکے رسول کی شریعت کی بنیاد پر قائم ہیں۔امارت اسلامیہ کے علاوہ جتنے بھی مسلم ملک ہیں ان میں اکثر تو وضعی قوانین سے فیصلے کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو شریعت کو نافذ کرنے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر ان میں انسانی قوانین سے فیصلہ کرنے والی عدالتیں بھی پائی جاتی ہیں،حتیٰ کہ ان ممالک میں شرعی عدالتوں تک کے قوانین و دساتیر بشر کے وضع کردہ ہوتے ہیں۔ان شرعی عدالتوں اور غیر شرعی عدالتوں میں نام کے سوا اور کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔۔ ہم اس بات کو جان چکے ہیں کہ طالبان کی حکومت ایک شرعی حکومت ہے جو اسلامی بنیادوں پر قائم ہے،اس لیے اس کی مددونصرت کرنا واجب ہے اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا اسلام کی نصرت کرنا ہے‘‘
11/9کے بعد شیخ رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا:
’’انہ یجب علی الشعوب المسلمۃ نصرۃ دولۃ الطالبان فکذلک یجب علی الدول الاسلامیۃ خصوصاً الدول المجاورۃ لھا والقریبۃ منھا مساعدۃ طالبان و اعانتھا ضدالغرب الکافر۔ولیعلم أولئک أن خذلان ھذہ الدولۃ المسلمۃ المحاربۃ لأجل دینھا و نصرتھا للمجھا دین و نصرۃالکفار علیھا نوع من المولاۃ و التوالی و المظاھرۃ علی المسلمین‘‘(حکم ماجری فی امریکا من أحداث:۱)
’’مسلم عوام پر طالبان کی نصرت کرنا فرض ہے اسی طرح افغانستان کے اردگرد پائے جانے والے اسلامی ملک پر خاص کرکے کافر مغرب کے مقابلے میں طالبان کی مدد کرنا واجب ہے۔حکومتوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ اس مسلم ملک کے ساتھ غداری کرناکہ جودین کی بنیاد پرمصروف جنگ ہیں اور مجاہدین کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دینا کفار سے دوستی کی وہ صورت ہےکہ جو آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتی ہے‘‘
حاصل کلام یہ ہےکہ اسلام اورکفر کے مابین جاری اس معرکہ میں طالبان کی نصرت و اعانت کرنا فرض ہے،مجموعی طور پر طالبان کےاہل حق ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔یہ بات سب کومعلوم ہے کہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ نےاس جہاد کی قیادت کی،شیخ سلفی مجاہد تھے وہ جہاد کے ساتھ ساتھ عقیدہ کی اہمیت بھی بیان فرماتے تھے۔
عقیدہ توحید کو سیکھنے اور اللہ کے دین پر استقامت کے لیے شیخ اسامہ رحمہ اللہ نےجن تین کتابوں کے مطالعہ کی وصیت کی ان کے نام ملاحظہ فرمائیں۔
1:امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب’’الایمان‘‘
2:شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ کی کتاب’’فتح المجید‘‘جو امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب توحید کی شرح ہے۔
3:شیخ محمد قطبرحمہ اللہ مدرس جامعہ ام القری مکہ مکرمہ کی کتاب’’مفاھیم ینبغی ان تصحح‘‘
یقیناً یہ کتب سلفی عقیدہ کو سمجھنے کے لیےنہایت اساسی اور بنیادی کتب ہیں جن کی تعلیم و تعلم سے طالبان اور مجاہدین کے عقائد درست ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
البتہ اگر کوئی طالبان کو بدعتی سمجھتا ہوتو تب بھی اُس کے لیے کفر کے مقابلے میں مسلمانوں کا ساتھ دینا فرض ہے۔جہاد اہل بدعت کی قیادت میں کیا جائے گا جیسا کہ صحابہ اور تابعین بدعتی خلفا کی قیادت میں جنگیں لڑتے رہے ہیں۔
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعامل
ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ​
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
دیوبندیوں کا جہاد

اللہ اپنے دین کا کام فاجر اور فاسق سے بھی لے سکتا ہے۔اس لئے دیوبندیوں کا جہادکرنا ہر گز اس بات کی علامت یا دلیل نہیں کہ یہ لوگ حق پر ہیں۔کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے کی وجہ سے انکا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا انہیں ذرہ برابر فائدہ نہیں دے گا۔جہاد ہو یا کوئی دوسری نیکی، اللہ کی بارگاہ میں صرف صحیح العقیدہ لوگوں کی مقبول ہوتی ہے۔

بعض نادان لوگوں کا خیال ہے کہ چند دیوبندیوں کو چھوڑ کر باقی دیوبندی عقائد کی خرابی میں مبتلا نہیں۔ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ ان کی نری خوش فہمی ہے اور حقیقت اسکے برعکس ہے۔ دیوبندیوں کو باآسانی دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک ان علماء اور طلباء کا گروہ جو نہ صرف اپنے کفریہ مذہبی عقائد سے پوری طرح باخبر ہے اور ان عقائد باطلہ کو حق جانتاہے بلکہ عام عوام کو بھی ان غلط نظریات و عقائد کی طرف دعوت دیتا ہے۔ دوسرا وہ گروہ جسے ہم عوام کہہ سکتے ہیں جو عموماً کچھ عقائد سے بے خبر ہوتا ہے لیکن جب انکے خراب مذہبی عقائد کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وہ بغیر علم کے تاؤیل کرتا ہے حتی کہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجانے کے باوجود بھی اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے اکابرین سے براء ت اور بے زاری کا اظہار نہیں کرتابلکہ الٹا ان اکابرین کو حق پر جانتا اور انکی نجات کا عقیدہ رکھتا ہے۔اس گروہ کا حکم بھی پہلے گروہ والا ہے۔ کیونکہ جس طرح کفر اور شرک سے براء ت ضروری ہے اسی طرح کفر اور شرک کے حاملین سے بے زاری اور لاتعلقی بھی لازمی ہے۔

پس موجودہ کفریہ اور شرکیہ عقائد کے ساتھ ان دیوبندیو ں کی نمازبھی مردود ہے اور جہاد بھی۔بہت سے لوگ طالبان دیوبندیوں سے بہت ہمدردی رکھتے ہیں حالانکہ یہ لوگ بہت ظالم ، بدعقیدہ اور اہل حدیث سے شدید بغض رکھنے والے ہیں۔سید طیب الرحمن زیدی حفظہ اللہ کے طالبان کے بارے میں زاتی مشاہدات پیش خدمت ہیں جو ہمارے دعویٰ پر مضبوط دلیل ہے۔ملاحظہ ہو:

طالبان کا جہاد
راقم جہاد سے عرصہ 12 سال منسلک رہا ہے۔ قریب سے تمام افغانی تنظیموں کو دیکھا ہے۔کشمیر کی وادی میں کشمیریوں کی جہادی تنظیموں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔

وہ وقت کبھی نہیں بھولتا:
01۔ جب طالبان دیوبندیوں نے افغانستان میں عرب کے شہزادوں کو کنڑ میں چھری کے ساتھ ذبح کیا تھا۔
02۔ جب طالبان دیوبندیوں نے شیخ جمیل الرحمن رحمہ اللہ (امیر جماعت الدعوۃ والسنتہ افغانستان) کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔
03۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مال غنیمت سمجھ کر سلفیوں کا مال لوٹ لیا تھا۔
04۔ جب طالبان دیوبندیوں نے صوبہ کنڑ کی اسلامی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔
05۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مدارس و مساجد اور قرآن کو جلادیا تھا۔
06۔ جب طالبان دیوبندیوں نے بٹگرام میں اہل حدیث مسجد کو آگ لگا دی تھی۔
07۔ جب طالبان دیوبندیوں نے بٹگرام کی مسجد کے میڑیل کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا تھا۔
08۔ جب طالبان دیوبندیوں نے عبدالحکیم شہر موصوف کی مسجد کو آگ لگا دی تھی۔
09۔ جب طالبان دیوبندیوں نے عبدالحکیم شہر کو تین دن تک اہل حدیث کی دشمنی میں سیل رکھنے کی کوشش کی تھی۔
10۔ جب طالبان دیوبندیوں نے میلسی شہر میں مسجد توحید اہل حدیث پر حملہ آور ہونے کے لیے بریلویوں کے ساتھ اجتماعی جلوس کا اعلان کیا تھا۔
11۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مرکز اہل حدیث2 /G-11 اسلام آباد پر حملہ کردیا تھا۔
12۔ جب طالبان دیوبندیوں نے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
13۔ جب طالبان دیوبندیوں کے مفتی عبدالسلام نے کہا تھا افغانستان میں بھی تمہیں ماراتھا اب پاکستان میں بھی تمہیں ماریں گے۔
14۔ جب طالبان دیوبندیوں نے فجر کی نماز کے وقت دکتور سید طالب الرحمن حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کیاتھا۔
15۔ جب طالبان دیوبندیوں نے کراچی کی جامع مسجد اور مدرسہ جامعہ الدراسات پر قبضہ کر لیا تھا۔
16۔ جب طالبان دیوبندیوں نے ایبٹ آباد میں مسجد اہل حدیث کی تعمیر اپنے دور حکومت میں رکوائی تھی۔
17۔ جب طالبان دیوبندیوں نے ایبٹ آباد کی مسجد اہل حدیث پر تعمیر کے بعد قبضہ کر لیا تھا۔
18۔ جب پاکستانی طالبان دیوبندیوں نے افغانی طالبان کے ساتھ مل کر شاہ خالد کو قتل کیا تھا۔
19۔ جب پاکستانی طالبان نے شاہ خالد کے معسکر کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا تھا۔
20۔ جب طالبان دیوبندیوں نے شیخ عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کو کئی ماہ تک قید وبند کی مصیبت میں مبتلا کیا تھا۔
21۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مفتی عبدالرحمن رحمانی رحمہ اللہ کو اور ان کی بیوی محترمہ کو ذود کوب کیا تھا۔
22۔ جب طالبان دیوبندیوں نے افغانستان میں رفع الیدین کرنے پر ہاتھ اور انگلی شہادت حرکت دینے پر انگلی کاٹ دی تھی۔
23۔ طالبان کی حکومت میں جب سلفی علماء کا وفد ہوٹل کے کمرے میں بند نماز پڑھتا تھاکہ طالبان اس نماز کو پسند نہیں کرتے فتنہ کا ڈر ہے۔
24۔ طالبان حکومت کے قائم ہونے کے بعد پاکستان کے دیوبندیوں نے علی الاعلان کہنا شروع کردیاتھا ’’اب سلفیوں تمہاری باری ہے‘‘ کیا طالبان کی حکومت کا قیام سلفیت کے خاتمے کا پیغام ہے۔
(نماز میں امام کون؟ از سید طیب الرحمن زیدی، صفحہ 147)
بات تو سچ ھے
مگر بات ھے رسوائی کی۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
طالبان کی قیادت میں جہاد کے واجب ہونے پر علمائے کرام کے فتاوی


علمائے عرب جنہوں نے طالبان کی قیادت میں جہاد افغانستان کے وجوب کے فتاوی دیے فضیلۃ الشیخ طارق الطّواری نے ان کے نام یہ بیان کئے ہیں:
1:علامہ حمود بن عقلاء الشعیبی رحمہ اللہ
2:عبدالرحمن بن ناصر البراک حفظہ اللہ
3:ناصر بن حمد الفھد حفظہ اللہ،ڈین کلیہ اصول الدین جامعہ امام بن سعود
4:علامہ المحدث عبداللہ السعد حفظہ اللہ
5:علامہ المحدث سلیمان بن ناصر العلوان حفظہ اللہ
6:فضیلۃ الشیخ علی بن خضیر الخضیر حفظہ اللہ
7:ڈاکڑ ناصر العمر حفظہ اللہ
8:ڈاکڑ سفر الحوالی حفظہ اللہ
9:ڈاکڑ سلمان العودہ حفظہ اللہ
10:شیخ شریف الفعر حفظہ اللہ
11:شیخ عبداللہ بن محمد العثمان حفظہ اللہ
12:ڈاکڑ مھدی القاضی حفظہ اللہ
13:بشیر بن فھد آل بشر حفظہ اللہ
14:عبداللہ بن عمر الدمیجی حفظہ اللہ
15:ڈاکڑ ریاض المسیر میری حفظہ اللہ
16:شیخ عبدالرحمن الغریان حفظہ اللہ
17:علمائے سوڈان
18:علمائے لبنان
19:علمائے یمن

حق پر قائم ان علماء نے جہاد افغانستان کے وجوب کا فتوی دیا۔(صحیفۃ الرأی العام الکویتیہ:2011/11/15)
ان علماء میں ہم یہاں حمود بن عقلاء کے فتویٰ سے چند اقتباسات قارئین کی نظر کر رہے ہیں۔

طالبان کے دور میں شیخ حمود بن عقلاء رحمہ اللہ کے الفاظ یہ تھے:
’’فھی دولۃ الوحیدۃ فی العالم التی لا یوجد فیھا محاکم قانونیۃ وانما حکمھا قائم شرح اللہ و رسولہ فی المحاکم القضائیۃ و فی الوزارات و فی المؤسات۔أما ما عداھا من الدول الا سلامیہ فمنھا من تحکم بالقوانین الوضعیۃ الصرفۃ ومنھا من تدعی تطبیق حکم اللہ و رسولہ مع ما یوجد فیھا من محاکم قانونیۃ صرفۃ،وحتی المحاکم الشرعیۃ فی مثل ھذہ الدول یکون معظم أحکامھا قائماً علی التنظیمات و التعلمیات التی من وضع البشر،فلا فرق بینھما و بین القوانین الو ضعیۃ الا بالاسم۔۔۔وحیث قد عُلم أن حکومۃ الطالبان حکومۃ شرعیۃ قد توفرت لھا مقومات الاسلامیہ۔۔۔فاذا کان الامر کذلک فانہ یجب دعم دولۃ طالبان و الجھاد معھا من باب نصرۃالاسلام۔۔۔(موقع حمود بن عقلا الشعیبی

11/9کے بعد شیخ رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا:
’’انہ یجب علی الشعوب المسلمۃ نصرۃ دولۃ الطالبان فکذلک یجب علی الدول الاسلامیۃ خصوصاً الدول المجاورۃ لھا والقریبۃ منھا مساعدۃ طالبان و اعانتھا ضدالغرب الکافر۔ولیعلم أولئک أن خذلان ھذہ الدولۃ المسلمۃ المحاربۃ لأجل دینھا و نصرتھا للمجھا دین و نصرۃالکفار علیھا نوع من المولاۃ و التوالی و المظاھرۃ علی المسلمین‘‘(حکم ماجری فی امریکا من أحداث:۱)

حاصل کلام یہ ہےکہ اسلام اورکفر کے مابین جاری اس معرکہ میں طالبان کی نصرت و اعانت کرنا فرض ہے،مجموعی طور پر طالبان کےاہل حق ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔یہ بات سب کومعلوم ہے کہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ نےاس جہاد کی قیادت کی،شیخ سلفی مجاہد تھے وہ جہاد کے ساتھ ساتھ عقیدہ کی اہمیت بھی بیان فرماتے تھے۔
عقیدہ توحید کو سیکھنے اور اللہ کے دین پر استقامت کے لیے شیخ اسامہ رحمہ اللہ نےجن تین کتابوں کے مطالعہ کی وصیت کی ان کے نام ملاحظہ فرمائیں۔
1:امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب’’الایمان‘‘
2:شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ کی کتاب’’فتح المجید‘‘جو امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب توحید کی شرح ہے۔
3:شیخ محمد قطبرحمہ اللہ مدرس جامعہ ام القری مکہ مکرمہ کی کتاب’’مفاھیم ینبغی ان تصحح‘‘
یقیناً یہ کتب سلفی عقیدہ کو سمجھنے کے لیےنہایت اساسی اور بنیادی کتب ہیں جن کی تعلیم و تعلم سے طالبان اور مجاہدین کے عقائد درست ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعامل
ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ​
عکرمہ صاحب۔

کچھ انھیں بھی تو سمجھائیں یا بتائیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
طالبان کی قیادت میں جہاد کے واجب ہونے پر علمائے کرام کے فتاوی


علمائے عرب جنہوں نے طالبان کی قیادت میں جہاد افغانستان کے وجوب کے فتاوی دیے فضیلۃ الشیخ طارق الطّواری نے ان کے نام یہ بیان کئے ہیں:

حق پر قائم ان علماء نے جہاد افغانستان کے وجوب کا فتوی دیا۔(صحیفۃ الرأی العام الکویتیہ:2011/11/15)
محترم عکرمہ صاحب اندھی تقلید چاہے کسی اہل حدیث کی ہو یا غیر اہل حدیث کی قابل مذمت شے ہے۔ شفیق الرحمنٰ صاحب کی کتاب سے نقل کرنے سے پہلے کم ازکم یہ تو غور کر لیا ہوتا کہ آپ کا نقل کردہ اقتباس ہمارے مضمون سے متابقت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ عکرمہ صاحب آپکی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ ہم دیوبندیوں کے عقیدوں میں خلل اور خرابی کی بنا پر ان کے جہاد اور نماز اور کسی بھی نیک عمل کے مردود ہونے کی بات کر رہے ہیں کیونکہ اللہ رب العالمین نے مشرکین کے اعمال کو برباد قرار دیا ہے۔ جبکہ آپ جہاد افغانستان کے واجب ہونے اور طالبان کی قیادت میں مسلمانوں پر جہاد کے وجوب کی بات کررہے ہیں۔ اول تو اہل حدیثوں کی قیادت میں بھی افغانستان میں جہاد لڑا گیا ہے۔دوم طالبان دیوبندیوں کی قیادت میں جہاد کرنے والوں میں ضروری تو نہیں کہ ہر شخص دیوبندی ہی ہوگا۔ ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مذکورہ بالا علمائے عرب کے فتوؤں سے دیوبندیوں کا حق پر ہونا اور انکے جہاد کا مقبول ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟! یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ اگر کسی مسلمان ملک پر کفار حملہ آور ہوجائیں تو وہاں کے رہنے والوں پر جہاد واجب ہوجاتا ہے اور دور دراز کے مسلمانوں پر ہر ممکن طریقے سے ان کی نصرت کرنا ضروری ہوتا ہے اسی تناظر میں علمائے عرب نے بھی جہاد افغانستان کے واجب ہونے کا فتوی دیا تھا۔ اس میں آخر وہ کون سی بات ہے جو ہمارے اس مضمون کے رد میں ہے؟؟؟

’’یہ دنیا میں واحد حکومت ہےجہاں بشری قوانین نے فیصلہ کرنے والی عدالتیں نہیں پائی جاتی بلکہ اس مملکت کی عدالتوں،وزارتوں، اور کمپنیوں کا نظام اور قانون اللہ اوراسکے رسول کی شریعت کی بنیاد پر قائم ہیں۔امارت اسلامیہ کے علاوہ جتنے بھی مسلم ملک ہیں ان میں اکثر تو وضعی قوانین سے فیصلے کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو شریعت کو نافذ کرنے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر ان میں انسانی قوانین سے فیصلہ کرنے والی عدالتیں بھی پائی جاتی ہیں،حتیٰ کہ ان ممالک میں شرعی عدالتوں تک کے قوانین و دساتیر بشر کے وضع کردہ ہوتے ہیں۔ان شرعی عدالتوں اور غیر شرعی عدالتوں میں نام کے سوا اور کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔۔ ہم اس بات کو جان چکے ہیں کہ طالبان کی حکومت ایک شرعی حکومت ہے جو اسلامی بنیادوں پر قائم ہے،اس لیے اس کی مددونصرت کرنا واجب ہے اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا اسلام کی نصرت کرنا ہے‘‘
یہ حقیقت ہے کہ علمائے عرب دیوبندیوں کو موحد سمجھتے تھے کیونکہ یہ لوگ وہاں جاکر تقیہ کرتے ہوئے اپنے اصلی عقائد چھپا کر خود کو توحید پرست ظاہر کرتے ہیں۔ تقیہ کی ایجاد سے اگر شیعوں کے بعد کسی نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے تو یہ دیوبندی ہیں جنھیں ریال کا لالچ اپنے عقائد چھپانے پر مجبور کرتا ہے۔ اللہ جزائے خیر دے توصیف الرحمن شاہ راشدی اور طالب الرحمن حفظہ اللہ کو جنھوں نے بالترتیب ’’کیا دیوبندی اہل سنت ہیں؟‘‘ اور ’’الدیوبندیہ‘‘ لکھ کر عالم عرب میں دیوبندیوں کا اصلی چہرہ بے نقاب کردیا۔ اب علمائے عرب کی رائے دیوبندیوں کے بارے میں وہ نہیں جو ماضی میں تھی بلکہ اب عرب کے علماء دیوبندیوں کو بدعتی اور مشرک جانتے ہیں۔ عکرمہ صاحب نے شفیق الرحمن کی کتاب سے جتنے بھی علمائے عرب کے نام لکھے ہیں جو طالبان دیوبندیوں کی اقتداء میں جہاد کو فرض سمجھتے ہیں ان فتوؤں کا سبب صرف اور صرف یہ تھا کہ وہ علمائے عرب دیوبندیوں کے اصل عقائد سے واقف نہیں تھے اگر انہیں دیوبندیوں کے شرکیہ عقائد کا علم ہوتا تو وہ ہرگز یہ فتوے نہ دیتے۔کیونکہ عرب کے علماء تو حید سے محبت کرنے والے ہیں وہ مشرکوں کی حمایت نہیں کرتے۔اگر عکرمہ صاحب کو ہماری باتوں کا یقین نہیں تو موجودہ عرب کے علماء کے سامنے دیوبندیوں کے کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھیں اور پھر ان سے پوچھیں کہ ان کے جہاد کا کیا حکم ہے اور جہاد میں عام مسلمانوں پر انکی اقتدا فرض ہے یا نہیں۔ پھر اسکا جو جواب آئےگا اس سے آپ کو خوب اندازہ ہوجائے گا کہ دیوبندی حق پر ہیں یا نہیں۔

حاصل کلام یہ ہےکہ اسلام اورکفر کے مابین جاری اس معرکہ میں طالبان کی نصرت و اعانت کرنا فرض ہے
بتایا جاچکا ہے کہ یہ ماضی کے وہ فتوے ہیں جب عرب کے علماء دیوبندیوں کے عقائد کے بارے میں لاعلم تھے۔ آج علمائے عرب سے طالبان کی نصرت فرض ہونے کا فتویٰ لے کر دکھاؤ تو جانیں۔ اگر بالفرض ایسا فتویٰ مل بھی گیا تو اس سے دیوبندی نہ تو حق پر ہوجائینگے اور نہ ہی شرعا ان کا جہاد مقبول ودرست ہوگا۔

مجموعی طور پر طالبان کےاہل حق ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
انااللہ وانا الیہ راجعون! اہل باطل کی محبت انسان کو اندھا کردے تو وہ اسی طرح اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے۔ طالبان دیوبندیوں کے عقائد کی خرابی سے قطع نظر ان کی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی سخت اور شدید نفرت کہ رفع الیدین پر متبعین سنت کے ہاتھ کاٹ دینا اور رفع سبابہ پر انگلیاں کاٹ دینا ظاہر کرتا ہے کہ یہ گمراہ، بے دین اور باطل پرست گروہ ہے۔ ورنہ اہل حق گروہ سنت سے نفرت کرنے والا ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا۔
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
دیوبندیوں کا جہاد

اللہ اپنے دین کا کام فاجر اور فاسق سے بھی لے سکتا ہے۔اس لئے دیوبندیوں کا جہادکرنا ہر گز اس بات کی علامت یا دلیل نہیں کہ یہ لوگ حق پر ہیں۔کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے کی وجہ سے انکا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا انہیں ذرہ برابر فائدہ نہیں دے گا۔جہاد ہو یا کوئی دوسری نیکی، اللہ کی بارگاہ میں صرف صحیح العقیدہ لوگوں کی مقبول ہوتی ہے۔

بعض نادان لوگوں کا خیال ہے کہ چند دیوبندیوں کو چھوڑ کر باقی دیوبندی عقائد کی خرابی میں مبتلا نہیں۔ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ ان کی نری خوش فہمی ہے اور حقیقت اسکے برعکس ہے۔ دیوبندیوں کو باآسانی دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک ان علماء اور طلباء کا گروہ جو نہ صرف اپنے کفریہ مذہبی عقائد سے پوری طرح باخبر ہے اور ان عقائد باطلہ کو حق جانتاہے بلکہ عام عوام کو بھی ان غلط نظریات و عقائد کی طرف دعوت دیتا ہے۔ دوسرا وہ گروہ جسے ہم عوام کہہ سکتے ہیں جو عموماً کچھ عقائد سے بے خبر ہوتا ہے لیکن جب انکے خراب مذہبی عقائد کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وہ بغیر علم کے تاؤیل کرتا ہے حتی کہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجانے کے باوجود بھی اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے اکابرین سے براء ت اور بے زاری کا اظہار نہیں کرتابلکہ الٹا ان اکابرین کو حق پر جانتا اور انکی نجات کا عقیدہ رکھتا ہے۔اس گروہ کا حکم بھی پہلے گروہ والا ہے۔ کیونکہ جس طرح کفر اور شرک سے براء ت ضروری ہے اسی طرح کفر اور شرک کے حاملین سے بے زاری اور لاتعلقی بھی لازمی ہے۔

پس موجودہ کفریہ اور شرکیہ عقائد کے ساتھ ان دیوبندیو ں کی نمازبھی مردود ہے اور جہاد بھی۔بہت سے لوگ طالبان دیوبندیوں سے بہت ہمدردی رکھتے ہیں حالانکہ یہ لوگ بہت ظالم ، بدعقیدہ اور اہل حدیث سے شدید بغض رکھنے والے ہیں۔سید طیب الرحمن زیدی حفظہ اللہ کے طالبان کے بارے میں زاتی مشاہدات پیش خدمت ہیں جو ہمارے دعویٰ پر مضبوط دلیل ہے۔ملاحظہ ہو:

طالبان کا جہاد
راقم جہاد سے عرصہ 12 سال منسلک رہا ہے۔ قریب سے تمام افغانی تنظیموں کو دیکھا ہے۔کشمیر کی وادی میں کشمیریوں کی جہادی تنظیموں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔

وہ وقت کبھی نہیں بھولتا:
01۔ جب طالبان دیوبندیوں نے افغانستان میں عرب کے شہزادوں کو کنڑ میں چھری کے ساتھ ذبح کیا تھا۔
02۔ جب طالبان دیوبندیوں نے شیخ جمیل الرحمن رحمہ اللہ (امیر جماعت الدعوۃ والسنتہ افغانستان) کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔
03۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مال غنیمت سمجھ کر سلفیوں کا مال لوٹ لیا تھا۔
04۔ جب طالبان دیوبندیوں نے صوبہ کنڑ کی اسلامی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔
05۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مدارس و مساجد اور قرآن کو جلادیا تھا۔
06۔ جب طالبان دیوبندیوں نے بٹگرام میں اہل حدیث مسجد کو آگ لگا دی تھی۔
07۔ جب طالبان دیوبندیوں نے بٹگرام کی مسجد کے میڑیل کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا تھا۔
08۔ جب طالبان دیوبندیوں نے عبدالحکیم شہر موصوف کی مسجد کو آگ لگا دی تھی۔
09۔ جب طالبان دیوبندیوں نے عبدالحکیم شہر کو تین دن تک اہل حدیث کی دشمنی میں سیل رکھنے کی کوشش کی تھی۔
10۔ جب طالبان دیوبندیوں نے میلسی شہر میں مسجد توحید اہل حدیث پر حملہ آور ہونے کے لیے بریلویوں کے ساتھ اجتماعی جلوس کا اعلان کیا تھا۔
11۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مرکز اہل حدیث2 /G-11 اسلام آباد پر حملہ کردیا تھا۔
12۔ جب طالبان دیوبندیوں نے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
13۔ جب طالبان دیوبندیوں کے مفتی عبدالسلام نے کہا تھا افغانستان میں بھی تمہیں ماراتھا اب پاکستان میں بھی تمہیں ماریں گے۔
14۔ جب طالبان دیوبندیوں نے فجر کی نماز کے وقت دکتور سید طالب الرحمن حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کیاتھا۔
15۔ جب طالبان دیوبندیوں نے کراچی کی جامع مسجد اور مدرسہ جامعہ الدراسات پر قبضہ کر لیا تھا۔
16۔ جب طالبان دیوبندیوں نے ایبٹ آباد میں مسجد اہل حدیث کی تعمیر اپنے دور حکومت میں رکوائی تھی۔
17۔ جب طالبان دیوبندیوں نے ایبٹ آباد کی مسجد اہل حدیث پر تعمیر کے بعد قبضہ کر لیا تھا۔
18۔ جب پاکستانی طالبان دیوبندیوں نے افغانی طالبان کے ساتھ مل کر شاہ خالد کو قتل کیا تھا۔
19۔ جب پاکستانی طالبان نے شاہ خالد کے معسکر کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا تھا۔
20۔ جب طالبان دیوبندیوں نے شیخ عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کو کئی ماہ تک قید وبند کی مصیبت میں مبتلا کیا تھا۔
21۔ جب طالبان دیوبندیوں نے مفتی عبدالرحمن رحمانی رحمہ اللہ کو اور ان کی بیوی محترمہ کو ذود کوب کیا تھا۔
22۔ جب طالبان دیوبندیوں نے افغانستان میں رفع الیدین کرنے پر ہاتھ اور انگلی شہادت حرکت دینے پر انگلی کاٹ دی تھی۔
23۔ طالبان کی حکومت میں جب سلفی علماء کا وفد ہوٹل کے کمرے میں بند نماز پڑھتا تھاکہ طالبان اس نماز کو پسند نہیں کرتے فتنہ کا ڈر ہے۔
24۔ طالبان حکومت کے قائم ہونے کے بعد پاکستان کے دیوبندیوں نے علی الاعلان کہنا شروع کردیاتھا ’’اب سلفیوں تمہاری باری ہے‘‘ کیا طالبان کی حکومت کا قیام سلفیت کے خاتمے کا پیغام ہے۔
(نماز میں امام کون؟ از سید طیب الرحمن زیدی، صفحہ 147)
اللہ سے دعا ہے کے وہ اہل حق کو حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے امین
 

ضحاک

مبتدی
شمولیت
فروری 06، 2012
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
23
11/9کے بعد شیخ رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا:
’’انہ یجب علی الشعوب المسلمۃ نصرۃ دولۃ الطالبان فکذلک یجب علی الدول الاسلامیۃ خصوصاً الدول المجاورۃ لھا والقریبۃ منھا مساعدۃ طالبان و اعانتھا ضدالغرب الکافر۔ ولیعلم أولئک أن خذلان ھذہ الدولۃ المسلمۃ المحاربۃ لأجل دینھا و نصرتھا للمجھادین و نصرۃالکفار علیھا نوع من المولاۃ و التوالی و المظاھرۃ علی المسلمین‘‘(حکم ماجری فی امریکا من أحداث:۱)

’’مسلم عوام پر طالبان کی نصرت کرنا فرض ہے اسی طرح افغانستان کے اردگرد پائے جانے والے اسلامی ملک پر خاص کرکے کافر مغرب کے مقابلے میں طالبان کی مدد کرنا واجب ہے۔حکومتوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ اس مسلم ملک کے ساتھ غداری کرناکہ جودین کی بنیاد پرمصروف جنگ ہیں اور مجاہدین کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دینا کفار سے دوستی کی وہ صورت ہےکہ جو آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتی ہے‘‘
یہ جو کہا گیا ہے کیا یہ حکم بغیر کسی شرط کے ہی لگ جائے گا یا کہ کچھ شروط بھی ہیں اگر کچھ شروط ہیں تو براہ کرم مطلع کیا جائے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے! امین۔
 
Top