عبدالرحمان
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 10، 2012
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 28
- پوائنٹ
- 0
بارک میں کب اور کیا واقعہ ہوا ؟بارک نام ھے گاوں کا اور ایک گاوں کشتوز ہے نورستان میں اس کو طالبان نے جلا دیاتھا
کشتوز والا واقعہ کب ہوا ؟
بارک میں کب اور کیا واقعہ ہوا ؟بارک نام ھے گاوں کا اور ایک گاوں کشتوز ہے نورستان میں اس کو طالبان نے جلا دیاتھا
محترم ادھر ادھر کی ہانکنے کے بجائے اگر اصل موضوع کے متعلق بھی کچھ عرض کردیتے تو بہتر ہوتا۔
ہوسکتا ہے کہ کہیں یہی سوال درپیش ہو لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید بغض رکھنے والے اور کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین طالبان دیوبندیوں کا جہاد مقبول ہے یا مردود؟ باربروسا صاحب آپ اس سوال کے جواب میں اپنی توانائی خر چ کریں۔
اس بات کا شمار بھی اخلاقیات میں ہوتا ہے کہ کسی پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کی تحریر بغور پڑھ لی جائے۔ تحریر پڑھے اور سمجھے بغیر اندھا دھند اعتراض قائم کرنا موضوع سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ اس مختصر تمہید کے بعد مودبانہ عرض ہے کہ میں نے روس کے خلاف جہاد کی شرعی حیثیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی افغانستان میں امریکیوں کے خلاف جہاد پر انگلی اٹھائی ہے۔ میں نے تو صرف اس بات پر توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ دیوبندی جو کہ عقیدہ کی خرابی میں مبتلا ہیں انکے جہاد کی شرعی حیثیت کیا ہے آیا شریعت کی نگاہ میں کفر اور شرک میں مبتلا شخص یا افراد کی لڑائی جہاد ہے اور ان کی اس راہ میں موت شہادت ہے؟؟؟شاہد نذیر بھائی یہ بتائیے گا کہ روس کے خلاف جہاد مشرکین کی کافروں کے خلاف جنگ تھی یا شرعی جہاد تھا ؟
اسی طرح امریکہ کے خلاف جہاد جو ہو رہا ہے وہ بھی مشرکین کی کافروں کے خلاف جنگ ہے یا شرعی جہاد ہے ؟
درست جزاک اللہ خیرادیوبندیوں کو میری مخلصانہ نصیحت ہے کہ جہاد بعد میں کرنا پہلے قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے عقیدے درست کرلو تاکہ تہمارا جہاد بھی مقبول ہوجائے اور تمہاری دیگر نیکیاں بھی تمہیں فائدہ دیں۔
ا۔
انصاف یہ بھی ہے کہ کافر کو کافر اور مشرک کو مشرک سمجھا جائے اور انہیں مسلمانوں کے ساتھ گڈ مڈ نہ کیا جائے اور نہ ہی بلا وجہ ان کے کفر اور شرک کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ حق اور باطل میں امتیاز باقی رہے۔يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِوَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(المائدہ)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو ۔کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو ، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘
وکالت اللہ جانے اور کس شے کا نام ہے؟!آپ نے تو دیوبندیوں کے تحفظ اور وکالت میں یہ بھی نہیں دیکھا کہ آپ موضوع سے غیر متعلق پوسٹ کرکے بدعت مکفرہ کے مرتکبین کا ناجائز دفاع کررہے ہیں۔میرے پیش نظر’’دیوبندیوں‘‘کا تحفظ کرنا مقصود نہیں کیونکہ میں ان کا وکیل نہیں ہوں
تساہل بھی تشدد کی ایک قسم ہے۔ لہذا آپکا تعلق اس متشدد طبقہ سے ضرور ہے جو نہ تو مشرک کو مشرک سمجھتا ہے نہ کافر کو کافر کہتا ہے۔ بلکہ واضح کفر اورشرک میں مبتلا افراد کے ایمان کی گواہی دینے کو اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ یہ بھی گمراہی کی ایک خطرناک قسم ہے۔لیکن میرا تعلق اس متشدد اور متعصب طبقہ سے بھی نہیں جو کفریہ تحریرات کو معیار بنا کر’’تمام دیوبندیوں‘‘کو بدعتی اور مشرک کہتے ہیں،
دیوبندی تو خود ایک خاص نام ہے جس میں خاص و عام کی بحث فضول اور بے معنی ہے کیونکہ دیوبندی کہتے ہی اس کو ہیں جو دیوبندی مذہب کے اصول و عقائد کو صحیح جانتا اور مانتا ہے۔ اس کی مفصل وضاحت میں کرچکا ہوں۔ دیکھئے:جو کفریہ تحریرات کو معیار بنا کر’’تمام دیوبندیوں‘‘کو بدعتی اور مشرک کہتے ہیں،خاص وعام میں تقسیم روا رکھنے کے قائل نہیں،
اسکے علاوہ اسی مضمون میں بھی میں نے خاص و عام کے مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے شاید آپ نے میرا مضمون بغور نہیں پڑھا بہرحال پھر دیکھ لیں:کچھ گزارشات دیوبندی کے متعلق بھی کردوں تاکہ ہر شخص کو بحث سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔
دیوبندی اصل میں وہ شخص ہے جو دیوبندیوں کے مسلمہ عقائد و اصول کو مانتا ہو۔ دیوبندیوں کے لسٹ سے وہ شخص خارج ہے جو ان کے مسلمہ عقائد میں سے کسی ایک عقیدہ کا بھی منکر ہو۔ جیسے دیوبندیوں کے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلمہ عقیدے سے جب کچھ دیوبندیوں نے انحراف کیا تو دیوبندیوں نے انہیں اپنی جماعت سے خارج کرکے دیوبندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور انہیں مماتی فتنہ قرار دیا۔ حتی کے اپنی اس معاملے کو اہل حدیث کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے مماتیوں کو غیرمقلدین کا ذیلی فرقہ قراردے دیا۔
١۔ مفتی محمد وجیہ دیوبندی رسالہ ’’عقائد علماء دیوبند‘‘ پر بطور تصدیق لکھتے ہیں: حال میں پیدا ہونے والی تلبیس کا ازالہ فرما کر امت پر احسان فرمایا اور واقعی اور غیر واقعی دیوبندی میں امتیاز فرمایا۔ (عقائد علماء دیوبند، صفحہ ١٤٤)
معلوم ہوا جو شخص المہند علی المفند میں درج شدہ عقائد کو نہیں مانتا وہ دیوبندی نہیں ہے۔
٢۔ مولانا سید صادق حسین دیوبندی صاحب فرماتے ہیں: جو واقعی اہل سنت والجماعت کےعقائد ہیں۔ احقر ان تمام عقائد میں اپنے اسلاف کی اتباع کرنا ہی عین نجات سمجھتا ہے۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١٤٥)
٣۔ عبدالکریم دیوبندی رقم طراز ہیں: مولف مدظلہ کو افسوس ہے کہ علماء دیوبند کے ان اجماعی عقائد کی کھلی مخالفت کرنے والے اپنے آپ کو دیوبند ہی کہلانے پر اصرار کرتے ہیں۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١٥٣)
٤۔ عبدالشکور ترمذی نے ایک رسالہ عقائد علماء دیوبند کے نام سے لکھا ہے جو خلیل احمد سہانپوری کی کتاب المہند علی المفند سے ماخوذ اور اسی کے ساتھ مطبوع ہے۔ اس رسالے کے مقدمے میں عبدالشکور دیوبندی لکھتے ہیں: اسی طرح یہ بھی واضح ہوگا کہ اصلی دیوبندیت کیا ہے اور اس زمانہ میں بعض مقررین جن عقائد کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کو اصلی دیوبندیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١١٠)
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو شخص علمائے دیوبند کے مسلمہ اصولوں یا کسی ایک بھی اصول کو نہیں مانتا وہ دیوبندی کہلانے کا حق دار نہیں ہے چاہے وہ لاکھ خود کو دیوبندی کہتا ہو۔
مسلمانوں میں جتنے بھی فرقے ہوئے انکے متعلق علمائے حق نے جو بھی فتویٰ یا حکم لگایا لیکن کسی نے بھی خاص و عام کی بحث نہیں کی۔ کسی نے یہ نہیں لکھا کہ خاص خارجیوں کا یہ حکم ہے اور عام خارجیوں کا یہ حکم ہے۔ رافضیوں میں بھی تو خاص و عام ہوتے ہیں لیکن کتنے علماء ہیں (جو عکرمہ صاحب کے نزدیک علم کے معیار پر پورے اترتے ہوں) جنھوں نے خاص اور عام رافضیوں کا الگ الگ حکم بیان کیا ہے؟ قادیانیوں میں بھی تو علماء اور عوام دونوں ہوتے ہیں لیکن کیا خود عکرمہ صاحب اور ان علماء اور مفتیوں نے جن کو یہ عالم اور مفتی سمجھتے ہیں قادیانی عوام اور قادیانی علماء میں خاص و عام کی کوئی تقسیم رکھی ہے؟؟؟بعض نادان لوگوں کا خیال ہے کہ چند دیوبندیوں کو چھوڑ کر باقی دیوبندی عقائد کی خرابی میں مبتلا نہیں۔ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ ان کی نری خوش فہمی ہے اور حقیقت اسکے برعکس ہے۔ دیوبندیوں کو باآسانی دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک ان علماء اور طلباء کا گروہ جو نہ صرف اپنے کفریہ مذہبی عقائد سے پوری طرح باخبر ہے اور ان عقائد باطلہ کو حق جانتاہے بلکہ عام عوام کو بھی ان غلط نظریات و عقائد کی طرف دعوت دیتا ہے۔ دوسرا وہ گروہ جسے ہم عوام کہہ سکتے ہیں جو عموماً کچھ عقائد سے بے خبر ہوتا ہے لیکن جب انکے خراب مذہبی عقائد کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وہ بغیر علم کے تاؤیل کرتا ہے حتی کہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجانے کے باوجود بھی اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے اکابرین سے براء ت اور بے زاری کا اظہار نہیں کرتابلکہ الٹا ان اکابرین کو حق پر جانتا اور انکی نجات کا عقیدہ رکھتا ہے۔اس گروہ کا حکم بھی پہلے گروہ والا ہے۔ کیونکہ جس طرح کفر اور شرک سے براء ت ضروری ہے اسی طرح کفر اور شرک کے حاملین سے بے زاری اور لاتعلقی بھی لازمی ہے۔
میں بھی الحمداللہ سلفی العقیدہ،منہج سلف سے وابستہ علماء کے فتاوی ہی سے رہنمائی لیتا ہوں، لیکن میں ان علماء کے فتوؤں پر اندھا ہو کر نہیں گر پڑتا۔ کیونکہ نبی کے علاوہ کوئی بھی امتی معصوم نہیں ہر ایک سے غلطی ہونے کا امکان ہے۔ اس لئے میں علمائے سلف یا موجودہ دور کے علماء کے صرف انہیں فتوؤں پر یقین رکھتا ہوں جو غلطی سے پاک اور قرآن و حدیث کے مطابق ہوتے ہیں۔میں الحمدللہ سلفی العقیدہ،منہج سلف سے وابستہ علماء کے فتاوی ہی سے رہنمائی لیتا ہوں،
فتویٰ دینے کے قوائد و ضوابط آپ ان علماء کو پڑھائیے جو سرفراز خان صفدر دیوبندی جیسے سنت کی مخالفتوں پر کمر بستہ، کذب بیانیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے، کفر اور شرک میں مبتلا اکابرین کا دفاع کرنے والے اور خود بدعت مکفرہ کے حامل فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ دیوبندیوں کے مسلمہ عقائد میں کھلا کفر اور شرک پایا جاتا ہے دیوبندیوں کو اہل سنت والجماعت میں شامل سمجھتے ہیں انکے کفر اور شرک کی تاؤیل کرتے ہیں اور انکے پیچھے نماز اور ان سے شادی بیاہ کو درست سمجھتے ہیں۔ دیوبندیوں کے بارے میں انکا فتویٰ کچھ اور ہوتا ہے اور انہیں جیسے عقائد رکھنے والے بریلویوں کے لئے انکا فتویٰ علیحدہ ہوتا ہے۔نا کہ ان ’’علماء‘‘ سے جو فتوی دینے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے اور منہج سلف کی ابجد سے بھی واقف نہیں(فتوی کون دے سکتا ہے،اس کے قواعد و ضوابط اور شروط کیا ہیں،اس کے لیے آپ ’’حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ کی فتاوی اصحاب الحدیث کا مطالعہ کریں)۔
ایک ایک عالم کا نام اور اس کی توثیق لکھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ جن علماء نے اس کتاب سے اختلاف نہیں کیا وہ تمام اس کتاب اور اسکے موضوع کی توثیق کرنے والے سمجھے جائیں گے۔ ہمارے علم کے مطابق کسی عالم نے دلیل کے ساتھ اس کتاب اور اس کے موضوع سے اختلاف نہیں کیا۔ اگر کسی نے اختلاف کیا ہے تو آپ اسکا نام بتادیں اور یہ بھی بتادیں کہ بغیر دلیل کے اختلاف کی کوئی حیثیت ہے یا نہیں؟ اور اگر دلیل کے ساتھ اختلاف کیا ہے تو آپ وہ دلیل ذکر کردیں۔شیخ تو صیف الرحمن کی کتاب’’کیا دیو بندی اہل سنت ہیں‘‘کی تو ثیق کس کس عالم باعمل نے کی ہے؟مجھے اس حوالے سے معلومات درکار ہیں۔
ایک اہل حدیث کے لئے مشعل راہ قرآن و حدیث ہوتی ہے ناکہ تین عدد علماء کے فتاوے۔ علماء کے فتاوے انکی تحریریں انکے وعظ قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے ہوتے ہیں اگر قرآن و حدیث کے مطابق ہوں تو مشعل راہ ہوتے ہیں وگرنہ قابل رد اور مردود جن پر عمل کرنا گمراہی کے راستے پر چلناہوتا ہے۔ آپکے یہ بزرگ ہمارے بھی بزرگ ہیں لیکن ہمارے بزرگ انکے علاوہ بھی بہت ہیں۔ نیز ہم ان بزرگوں کی غلطیوں کو مشعل راہ نہیں بناتے۔میں ان علماء کے نام درج کر دیتا ہوں جن کے فتوے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں،جو منہج سلف سے گہری وابستگی کے حامل ہیں۔
1:مفسر القرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
2:شیخ الحدیث حافظ محمد شریف حفظہ اللہ
3:شیخ الحدیث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ۔
اگر ہمارے ان بزرگوں نے اس حوالے سے کوئی فتوی دیا ہےتوبراہ کرم اس کو من و عن پوسٹ کر دیں۔
میں نے یہ تو نہیں کہا کہ اہل حدیث ریال کے لالچ کا شکار نہیں ہوسکتا۔ میرا کہنا تو یہ ہے کہ دیوبندی ریال کے لالچ میں اپنے اصل عقائد چھپا لیتا ہے اور خود کو موحد ظاہر کرتا ہے کیا اہل حدیث بھی اپنے اصل عقائد کے معاملے میں تقیہ کرتا ہے؟؟؟’’ریال کا لالچ‘‘دیو بندیت کے نامہ اعمال میں لکھا جائے تو نا انصافی ہو گی،اس گنگا میں تو کچھ ان پردہ نشینوں کے نام ہیں جو اپنے آپ کو ’’اہل حدیث‘‘ کہلواتے ہیں۔شعبہ بنام مساجد کے سلسلے میں کیا کچھ ہو رہا ہے،وہ ضبط تحریر میں لانا ہی جوئےشیر کے مترداف ہے۔
میں اس پر پہلے بھی دلائل ذکر کر چکا ہوں جو میری سابقہ پوسٹس میں موجود ہیں آپ تلاش کرسکتے ہیں۔ علمائے عرب کی کتابیں جو انہوں نے دیوبندی تبلیغی جماعت کے خلاف لکھی ہیں ان کا مطالعہ کرلیں شاید کوئی ایک آدھ کتاب محدث لائبریری میں بھی موجود ہو۔آپ نے لکھا کہ عرب علماء دیو بندیوں کو مشرک اور بدعتی جانتے ہیں۔آپ پر لازم تھا کہ اس عبارت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ان کے فتوے اپنی تحریر کی زینت بناتےلیکن محض آپ نے دعوی سے کام لیا جو دلیل کی قوت سے عاری ہے۔
آپکی غیر متعلقہ باتوں کو میں نے ادھر ادھر کی ہانکنا کہا ہے۔میرے بھائی یہاں کرامات پر بحث نہیں ہورہی جو آپ کرامات سے متعلق ابن باز رحمہ اللہ کے فتوے نقل کررہے ہیں۔کرامات کا ظہور کے حوالے سے یہ میرے نہیں ابن باز رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں جنہیں اپ ادھر ادھر کی ہانکنا قرار دے رہے ہیں !
میری واضح تصریحات کے باوجود بھی آپ مسلسل غیر متعلقہ باتیں کرکے اپنا اور ہمارا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ یہاں افغانستان میں امریکیوں کے خلاف جنگ کے جہاد ہونے یا نہ ہونے پر کوئی مباحثہ نہیں ہورہا۔ آپ دوبارہ مضمون اور میری پوسٹس کو پڑھیں اور پھر موضوع سے متعلق کوئی بات کریں۔ شکریہشیخ ابن باز کی تصریحات کے ساتھ ہی بہرحال بات واضح ہو چکی ہے کہ علمائے امت کل بھی اس جہاد کے ساتھ اور آج بھی پوری بصیرت کے ساتھ اسے جہاد قرار دیتے ہیں . کہتے ہیں تو مزید بھی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں .
میں اور کچھ نہیں کہوں گا صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اللہ ہمارے ابوبکر بھائی کو ہدایت عطا فرمائے امیناگر کوئی شرائط ہوتیں تو علماء کرام اس فتوے میں خود ہی بیان کر دیتےاقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: ضحاک پیغام دیکھیے
یہ جو کہا گیا ہے کیا یہ حکم بغیر کسی شرط کے ہی لگ جائے گا یا کہ کچھ شروط بھی ہیں اگر کچھ شروط ہیں تو براہ کرم مطلع کیا جائے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے! امین۔