یہ دیوبندی ہیں جنھیں ریال کا لالچ اپنے عقائد چھپانے پر مجبور کرتا ہے۔ اللہ جزائے خیر دے توصیف الرحمن شاہ راشدی اور طالب الرحمن حفظہ اللہ کو جنھوں نے بالترتیب ’’کیا دیوبندی اہل سنت ہیں؟‘‘ اور ’’الدیوبندیہ‘‘ لکھ کر عالم عرب میں دیوبندیوں کا اصلی چہرہ بے نقاب کردیا۔ اب علمائے عرب کی رائے دیوبندیوں کے بارے میں وہ نہیں جو ماضی میں تھی بلکہ اب عرب کے علماء دیوبندیوں کو بدعتی اور مشرک جانتے ہیں۔ ۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِوَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(المائدہ)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو ۔کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو ، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘
میرے پیش نظر’’دیوبندیوں‘‘کا تحفظ کرنا مقصود نہیں کیونکہ میں ان کا وکیل نہیں ہوں لیکن میرا تعلق اس متشدد اور متعصب طبقہ سے بھی نہیں جو کفریہ تحریرات کو معیار بنا کر’’تمام دیوبندیوں‘‘کو بدعتی اور مشرک کہتے ہیں،خاص وعام میں تقسیم روا رکھنے کے قائل نہیں،میں الحمدللہ سلفی العقیدہ،منہج سلف سے وابستہ علماء کے فتاوی ہی سے رہنمائی لیتا ہوں،نا کہ ان ’’علماء‘‘ سے جو فتوی دینے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے اور منہج سلف کی ابجد سے بھی واقف نہیں(فتوی کون دے سکتا ہے،اس کے قواعد و ضوابط اور شروط کیا ہیں،اس کے لیے آپ ’’حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ کی فتاوی اصحاب الحدیث کا مطالعہ کریں)۔
شیخ تو صیف الرحمن کی کتاب’’کیا دیو بندی اہل سنت ہیں‘‘کی تو ثیق کس کس عالم باعمل نے کی ہے؟مجھے اس حوالے سے معلومات درکار ہیں۔شاہد نذیر آپ اسی سوال کو کیا دیوبندی اہل سنت ہیں؟کیا دیوبندی اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں؟ان علماء کے سامنے رکھے ان کا جو جواب آئے گا میں اپنے موقف سے رجوع کر لوں گا،کہ وہ علماء صراحت کے ساتھ یہ کہہ دیں کہ دیوبندی بدعتی اور مشرک ہیں،ان کے تمام اعمال مردود ہیں(خاص و عام کا لحاظ کیے بغیر)
میں ان علماء کے نام درج کر دیتا ہوں جن کے فتوے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں،جو منہج سلف سے گہری وابستگی کے حامل ہیں۔
1:مفسر القرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
2:شیخ الحدیث حافظ محمد شریف حفظہ اللہ
3:شیخ الحدیث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ۔
اگر ہمارے ان بزرگوں نے اس حوالے سے کوئی فتوی دیا ہےتوبراہ کرم اس کو من و عن پوسٹ کر دیں۔
’’ریال کا لالچ‘‘دیو بندیت کے نامہ اعمال میں لکھا جائے تو نا انصافی ہو گی،اس گنگا میں تو کچھ ان پردہ نشینوں کے نام ہیں جو اپنے آپ کو ’’اہل حدیث‘‘ کہلواتے ہیں۔شعبہ بنام مساجد کے سلسلے میں کیا کچھ ہو رہا ہے،وہ ضبط تحریر میں لانا ہی جوئےشیر کے مترداف ہے۔
آپ نے لکھا کہ عرب علماء دیو بندیوں کو مشرک اور بدعتی جانتے ہیں۔آپ پر لازم تھا کہ اس عبارت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ان کے فتوے اپنی تحریر کی زینت بناتےلیکن محض آپ نے دعوی سے کام لیا جو دلیل کی قوت سے عاری ہے۔
دیوبندیت(ماتریدیت) کے متعلق میرا موقف (الا اس کے خلاف دلیل مل جائے)
’’المھند علی المفند‘‘ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس پر ماضی اور حال کے بہت سےجید علماء دیوبند کے دستخط ہیں۔یہ علماء اس کتاب کو اپنے عقائد کی کتاب قرار دیتے ہیں،اس میں اپنی جماعت کا تعارف یو ں کرواتے ہیں:
’’ہماری جماعت فروع میں امام ابو حنیفہ،عقائد اور اصول میں امام ابو الحسن اشعری اور امام ابو جعفر منصور ماتریدی کی پیروی کرتی ہے اور صوفیہ کے طریقوں میں نقشبندیہ،چشتیہ،سہروردیہ اور قادریہ کی طرف نسبت کرتی ہے‘‘(المھند علی المفند)
علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کی نظر میں ماتریدیہ کی درجہ بندی:
علامہ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ ان کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ باب اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہے کہ اس کتاب میں کن کا رد مقصود ہے؟اور میری تنقید کا نشانہ کون ہے؟
علم کلام کی بدعت میں شدت اور اس میں لت پت ہونے کی نسبت سے ماتریدیہ کی تین اقسام ہیں:
پہلی قسم:انتہائی غالی اور معطلہ محض،اپنی بدعت میں انتہائی ڈوبے ہوئے جہمیہ کی فکری پود اور شبیہ،خلق قرآن کے قائل،رحمن کے علو کے منکر،اللہ کی کثیر صفات کا انکار کرنے والے اور اس باب میں وارد نصوص اور کلمات کی تحریف کرنے والے۔عقیدہ سلفیہ اورائمہ اہل سنت پر طعن کرنے والے۔یہ لوگ ہیں تو ایک چھوٹا گروہ لیکن وہی ہمارا مقصود مذمت ہیں،انہیں پر میرے تیروں کی بوچھاڑ ہے اور میری کاٹ کر دینے والی تلوار سے یہی مضروب ہیں۔تو مجھے ان پر رد کرتے ہوئے ایک مجاھد،بہادر اور لڑاکا شیر پائے گا۔۔۔۔۔
دوسری قسم:انصاف والے لوگ جیسا کی ان(ماتریدیہ)کے اکثر اہل علم اورطالب علم ہیں۔یہ وہ مخلص لوگ ہیں جو علم کلام سے متاثر اور ان کے مقلد ہیں اور وہ ماتریدیہ کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔یہ امت کے سلف سے محبت رکھنے والے ہیں اگرچہ خود ماتریدیہ کی بعض بدعات میں ملوث ہیں جس کا سبب ان کا ماتریدی علماء سے علم حاصل کرنا اور ان کی شاگردی اختیار کرنا اور ان کی کتابیں پڑھنا ہے۔ان لوگوں کو اگر نصیحت کی جائے تو غور کرتے ہیں اور تائب ہوتے ہیں،ان کے معاملے میں آپ مجھے مصالحانہ،مسالمانہ انداز اختیار کرنے والا اور نرمی کرنے والا پائیں گے۔آپ دیکھیں گے کہ میں انتہائی ٹھنڈے انداز میں ان کو نصیحت کرتا ہوں اور بہت ہی نرمی سے درگزر کرنے والا طریقہ اختیار کرتا ہوں۔
تیسری قسم:یہ احناف کے عوام ہیں،جو صرف نام کے اعتبار سے ماتریدیہ کی طرف منسوب ہیں۔جیسے بہت سارے طلبا،علماء اوراحناف کی ساری عوام مرد ہو یا عورت۔یہ ایسے ہیں کہ ان کے دل میں کبھی جہمیہ یا ان کی پود ماتریدیہ کی کفریات کا تصور بھی نہیں آتا۔یہ لوگ ماتریدیہ کی گمراہی کے حامل نہیں ہیں خواہ وہ اپنے آپ کو حنفیہ کی طرف منسوب کریں۔ہاں ان کو جہمیہ اور ماتریدیہ کی گمراہی سے ڈرانا اور نرمی سے نصیحت کرنا ضروری ہےاسی طرح انہیں ماتریدیہ کی طرف نسبت کرنے سے بھی ڈرانا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔(عداء الماتریدیہ للعقیدہ السلفیہ،ج۱ص۲۰،۲۱،۲۲للشمس الحق فغانی)
شیخ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ نے بڑے انداز میں بات کو سمجھایا ہے جو کہ ان کے وسیع تر مطالعہ کا نچوڑ ہے۔
اللہ حق بات کو سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین