• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندی عقیدہ: روضۂ رسولﷺ علی الاطلاق افضل ہے۔ عرش، کرسی اور کعبہ سے بھی افضل!

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
انس بھائی!
میں اپنی بات کی خود وضاحت کر رہا ہوں اور آپ اسے مان نہیں رہے۔ عجیب بات نہیں؟؟
بحث اس پر ہے کہ وہ مٹی جو نبی ﷺ کے جسد اطہر سے مس ہے (ابھی ہے) وہ افضل ہے یا کعبہ و عرش و کرسی۔ اور مراد نبی ﷺ کے جسم سے مس ہونے کی صورت میں ہے، بالذات مٹی نہیں۔
(بالذات مٹی کے افضل ہونے پر اخذ تراب سے دلیل پکڑی جا سکتی ہے لیکن اس کا رد بھی کیا گیا ہے اور یہ عقل میں آنے والی بات بھی نہیں ہے۔)
اب آپ نے اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے اور وہی بات کر رہے ہیں جو میں کر رہا ہوں۔ آپ اس مٹی کی فضیلت کی بات کر رہے ہیں جو نبی کریمﷺ کے جسدِ اطہر سے مس ہوئی، مٹی بمعہ جسدِ اطہر کی نہیں۔ آپ نے اپنی پچھلی پوسٹ میں کچھ اور کہا تھا وہ آپ کو یاد کرا دیتا ہوں:
اس مس کا مطلب ہی یہ ہے کہ جسد اطہر سمیت مٹی مراد ہے۔ ویسے بہتر تھا کہ آپ وضاحت مجھ سے پوچھ لیتے بجائے حکم لگانے کے۔
چلیں دیر آید درست آید! ہم دونوں نبی کریمﷺ کی ذات با برکات کی نہیں بلکہ صرف اس مٹی کی بات کر رہے ہیں جو نبی کریمﷺ کے جسدِ اطہر سے مس ہوئی۔

میں کہتا ہوں کہ آپ کے علماء کے نزدیک بھی اگر اکیلی اس مبارک مٹی کی بات ہو تو خانہ کعبہ اس سے افضل ہے۔ یہی بات امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ابن عقیل کے حوالہ سے لکھی۔ یہی بات میں کر رہا ہوں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے۔ وہ تو مزید صراحت فرماتے ہیں کہ صرف اس مبارک مٹی کی کعبہ پر افضیلت کی بات تو صرف اور صرف قاضی عیاض نے کی ہے اور کسی نے نہیں۔ اور اب سب سے عجیب بات یہ ہے کہ آپ اسے اجماع باور کرا رہے ہیں۔ آپ خود کہتے ہیں کہ یہ جمہور کا اجماع ہے، بعض اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ تو پھر یہ اجماع کیسے ہوا؟؟؟! ہم بار بار آپ سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اجماع سے تو آپ اپنی اس بات کو ثابت نہیں کر سکے۔ تو کسی اور دلیل سے ثابت کریں کہ وہ مبارک مٹی خانہ کعبہ سے، اللہ کے عرش سے اور کرسی سے افضل کیوں ہے؟؟؟
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
انس نضر بھائی نے لکھا ہے کہ"میرے بھائی! یہ کفر ہے یا نہیں! اسے بعد میں حل کر لیں گے پہلے غلط یا صحیح تو حل کر لیں! میں نے عام طور پر آپ کا انداز دیکھا ہے کہ نفس مسئلہ پر بات کرنے کی بجائے غیر متعلقہ بحث کفر وعدم کفر چھیڑ دیتے ہیں، کیا کفر یا عدمِ کفر کو چھوڑ کر کسی مسئلے کے صحیح غلط ہونے کی بحث نہیں ہوسکتی؟؟!

بھائی جان جانبداری کا مظاہرہ نہ کریں ؟ اس پوسٹ کو شروع کرتے وقت عامر بھائی نے کیا لکھا تھا اسے غور سے پڑھیں!


"اس عقیدے میں اﷲتعالیٰ کی عظمت و کبریائی کی تنقیص کرتے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو فوقیت دی گئی ہے ۔ عبد کو معبود سے ، مخلوق کو خالق سے بڑھاکر پیش کیا گیا ہے"
اگر اس عقیدہ میں یہ تمام باتیں موجود ہیں تو شاہ صاحب کا یہ پوچھنا کہ یہ عقیدہ کفر ہے یا نہیں غیر متعلق کیسے ہوگیا؟


اوپر دی گئی آیات و احادیث کی روشنی میں قبرنبوی کو اﷲ کے عرش و کرسی اور کعبہ سے افضل جاننے کا عقیدہ ،کیا عرش الٰہی اور کعبے کی تنقیص و توہین نہیں کرتا ؟ اللہ کے بیان کردہ کے مقابلے میں یہ عقیدہ رکھنا قرآن پر ایمان ہے یا اس کا انکار !

ان باتوں کے بعد شاہ صاحب نے تقریبا ہر پوسٹ میں یہ پوچھا ہے کہ "یہ عقیدہ کیسا ہے اور یہ عقیدہ رکھنے والوں پر کیا حکم ہے؟ اب آپ کہتے ہیں کہ غیر متعلقہ بات نہ کرو ، شاہ صاحب شروع سے اسی کا مطالبہ کر رہے ہیں ،اُن کے اس مطالبہ پر آپ حضرات خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں کیوں؟؟؟
یہ عقیدہ صرف علماء دیوبند کا ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی تنقیص ہے ،عبد کو خالق سے بڑھانا ہے،قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے، لیکن جب یہی عقیدہ "محدثین " کا لکھا جائے تو زبانیں "گنگ" ہو جاتی ہیں "قلم " کی سیاہی ختم ہو جاتی ہے ،غیر متعلقہ کہ کر جان چھڑائی جاتی ہے؟ایسا کیوں ہے؟

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اب آپ نے اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے اور وہی بات کر رہے ہیں جو میں کر رہا ہوں۔ آپ اس مٹی کی فضیلت کی بات کر رہے ہیں جو نبی کریمﷺ کے جسدِ اطہر سے مس ہوئی، مٹی بمعہ جسدِ اطہر کی نہیں۔ آپ نے اپنی پچھلی پوسٹ میں کچھ اور کہا تھا وہ آپ کو یاد کرا دیتا ہوں:

چلیں دیر آید درست آید! ہم دونوں نبی کریمﷺ کی ذات با برکات کی نہیں بلکہ صرف اس مٹی کی بات کر رہے ہیں جو نبی کریمﷺ کے جسدِ اطہر سے مس ہوئی۔

میں کہتا ہوں کہ آپ کے علماء کے نزدیک بھی اگر اکیلی اس مبارک مٹی کی بات ہو تو خانہ کعبہ اس سے افضل ہے۔ یہی بات امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ابن عقیل کے حوالہ سے لکھی۔ یہی بات میں کر رہا ہوں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے۔ وہ تو مزید صراحت فرماتے ہیں کہ صرف اس مبارک مٹی کی کعبہ پر افضیلت کی بات تو صرف اور صرف قاضی عیاض نے کی ہے اور کسی نے نہیں۔ اور اب سب سے عجیب بات یہ ہے کہ آپ اسے اجماع باور کرا رہے ہیں۔ آپ خود کہتے ہیں کہ یہ جمہور کا اجماع ہے، بعض اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ تو پھر یہ اجماع کیسے ہوا؟؟؟! ہم بار بار آپ سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اجماع سے تو آپ اپنی اس بات کو ثابت نہیں کر سکے۔ تو کسی اور دلیل سے ثابت کریں کہ وہ مبارک مٹی خانہ کعبہ سے، اللہ کے عرش سے اور کرسی سے افضل کیوں ہے؟؟؟
انس آپ جان بوجھ کر بات کو گڈمڈ کرنا چاہ رہے ہیں یا کچھ اور؟
وہ مٹی جو جسد اطہر سے مس ہے اس وقت تک جب تک جسد اطہر سے مس ہو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب جسد اطہر کو اس کے ساتھ مراد لیا جائے۔ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ اگر وہ مٹی مس نہیں ہوگی تو فضیلت بھی نہیں ہوگی۔ کس سے مس نہیں ہوگی؟ جسد اطہر سے۔ یعنی اس کے بغیر وہ مٹی فضیلت نہیں رکھتی بلکہ کعبہ اس سے افضل ہے۔
میں تو یہ کہہ رہا ہوں اور آپ زبردستی میرا موقف کچھ اور ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عجیب بات ہے۔ اگر آپ جیتنا چاہتے ہیں بحث میں تو بھائی میں ہار مان لیتا ہوں۔

یہ جو میں نے ہائیلائٹ کیا ہے میں اس سے متفق ہوں۔


اب ایک بار پھر واضح اور غور سے پڑھ لیں۔
نبی ﷺ کی قبر مبارک کی وہ مٹی جو نبی ﷺ کے جسد اطہر سے مس ہے ابھی، اس وقت وہ آپ کے جسد اطہر سے مس ہونے کی وجہ سے مس ہونے کی حالت میں جسد اطہر کی خصوصیت کی بنا پر کعبہ، عرش و کرسی سے افضل ہے، یہ عقیدہ رکھنا کفر نہیں ہے۔
اور نبی ﷺ کے جسد اطہر سے غیر مس ہونے کی صورت میں اس پر کعبہ افضل ہے، یہ علماء کرام کا عقیدہ ہے۔

اب اس میں مین میخ نہیں نکالیے گا۔ جو کہا ہے اس میں کوئی اور ابہام ہو تو پوچھ لیجیے گا۔
اور اگر اب آپ نے اپنی مرضی سے سوچا ہوا میرا کوئی موقف دہرایا تو وہ موقف یا اس پر رد مجھ سے متعلق نہیں ہوگا۔
جزاک اللہ خیرا۔



اور اس عبارت سے
قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟
فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل ،
وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة
لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح
اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ اصل فضیلت و وزن جسد اطہر کا ہے اور اس کی وجہ سے یہ (حجرہ یا قبر) کعبے سے افضل ہے تو بعینہ تسلیم ہے۔
اور اگر یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ "صرف" جسد کا وزن کرنا اس عبارت میں مراد ہے اور حجرہ یا قبر کا کوئی تعلق نہیں تو یہ اس عبارت سے ثابت نہیں ہو رہا۔
ابن عقیل کے الفاظ یہ ہیں:۔ اگر تم صرف حجرہ کو مراد لیتے ہو تو کعبہ افضل ہے۔ اور اگر تمہاری مراد اس حال میں ہے کہ وہ (نبی ﷺ) اس حجرہ میں ہیں تو (کعبہ افضل) نہیں۔
یہی عقیدہ علماء کرام کا ہے۔ الفاظ مختلف ہیں پر مراد مختلف نہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
انس بھائی کی اگر مراد یہ ہے کہ ابن عقیل و دیگر، سب کی مراد یہ ہے کہ "قبر مبارک کو کعبہ کے مقابلے میں نبی ﷺ سمیت وزن کیا جائے تو کعبہ پر فضیلت رکھتی ہے۔ اور اگر صرف قبر کی مٹی کا تقابل کعبہ سے کیا جائے درآنحالیکہ وہ مٹی جسد اطہر سے مس بھی ہو تب بھی کعبہ افضل ہے۔" تو یہ مراد تسلیم نہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کیوں؟

جتنے بھی علماء نے یہ تقابل کیا ہے اور یہ بات کی ہے ان میں سے اکثر نے مٹی یا قبر کی ہی بات کی ہے جسد اطہر کی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے جسد اطہر سے متعلق ہونے یا جسد اطہر کی موجودگی کو ضرور ذکر کیا ہے کیوں کہ بذات خود اس مٹی میں کوئی فضیلت نہیں۔
الفاظ دیکھیے:۔

ولا خلاف أن موضع قبره أفضل بقاع الأرض
الشفا 2۔91 ط دار الفکر


بل هي افضل من السماوات والعرش والكعبة كما نقله السبكي رحمه الله تعالى لشرفه وعلو قدره. وقال القرافي في القواعد: للتفضيل أسباب، فقد يكون للذات كتفضيل العلم، وقد يكون بكثرة العبادة له او لما وقع فيه.. وقد يكون بالمجاورة كتفضيل جلد المصحف، وقد يكون بالحلول كتفضيل قبره صلّى الله عليه وسلم على البقاع، ووافقه السبكي فقال: الاجماع على ان قبره صلّى الله عليه وسلم أفضل البقاع وهو مستثنى من تفضيل مكة على المدينة كما قيل:
جزم الجميع بأن خير الارض ما ... قد حاط ذات المصطفى وحواها
ونعم لقد صدقوا، بساكنها علت ... كالنفس حين زكت زكا مأواها
التعلیق علی الشفا 2۔213 ط دار الفیحاء


(ولا خلاف) أي بين علماء الامصار (أن موضع قبره أفضل بقاع الأرض) أي بشرف قدره وكرامه عند ربه
شرح الشفا 2۔164 ط العلمیۃ


مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة بل على العرش فيما صرح به ابن عقيل من الحنابلة.
ولا شك أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف مما سواها من الأرض والسماء والقبر الشريف أفضلها لما تتنزل عليه من الرحمة والرضوان والملائكة التي لا يعملها إلا مانحها ولساكنه عند الله من المحبة والاصطفاء ما تقصر العقول عن إدراكه
التحفۃ اللطیفۃ 1۔20 ط العلمیۃ


وهي كبقية الحرم أفضل الأرض عندنا وعند جمهور العلماء للأخبار الصحيحة المصرحة بذلك وما عارضها بعضه ضعيف وبعضه موضوع كما بينته في الحاشية ومنه خبر «إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى» فهو موضوع اتفاقا، وإنما صح ذلك من غير نزاع فيه في مكة إلا التربة التي ضمت أعضاءه الكريمة - صلى الله عليه وسلم - فهي أفضل إجماعا حتى من العرش
تحفۃ المحتاج 4۔64 ط مکتبۃ تجاریۃ

ومحل الخلاف في غير الموضع الذي ضمه - صلى الله عليه وسلم - فإنه أفضل من الكعبة والسماء والعرش والكرسي واللوح والقلم والبيت المعمور
منح الجلیل 3۔133 ط دار الفکر

قال في اللباب: والخلاف فيما عدا موضع القبر المقدس، فما ضم أعضاءه الشريفة فهو أفضل بقاع الأرض بالإجماع.
رد المحتار 2۔626 ط دار الفکر

قال ابن عبد السلام: والتفضيل مبني على كثرة الثواب المترتب على العمل فيهما، والخلاف المذكور بين الأئمة في غير قبر المصطفى - صلى الله عليه وسلم - لقيام الإجماع على أفضليته على سائر بقاع الأرض والسموات وعلى الكعبة وعلى العرش كما نقله السبكي لضمه أجزاء المصطفى الذي هو أفضل الخلق على الإطلاق
الفواکہ الدوانی 1۔422 ط دار الفکر

والخلاف فيما عدا الكعبة فهي أفضل من المدينة اتفاقا خلا البقعة التي ضمت أعضاء الرسول صلى الله عليه وسلم فهي أفضل حتى من الكعبة كما حكى عياض الإجماع عليه
فیض القدیر 6۔264 ط المکتبۃ التجاریۃ

الثالث: قال القاضي عياض بعد حكاية الخلاف: ولا خلاف أن موضع قبره- صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض انتهى.
ولا ريب أن نبينا- صلى الله عليه وسلم- أفضل المخلوقات، فليس في المخلوقات على الله تعالى أكرم منه، لا في العالم العلويّ ولا في العالم السفليّ كما تقدم في الباب الأول من الخصائص قال بعضهم: كيف يمكن انفكاك المؤمن المعظّم للنبي- صلى الله عليه وسلم- المعتقد شرف تلك البقعة أن يشدّ الرّحال إليها ويدخل المسجد ويصلي فيه ولا يصلي إلى الروضة الشريفة التي في الحجرة؟
سبل الہدی و الرشاد 12۔353 ط العلمیۃ


ان حوالہ جات میں دو چیزیں واضح دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے قاضی عیاض کے اجماع کے دعوی کو قبول کیا ہے۔ اور دوسرا یہ انہوں نے نبی ﷺ کی قبر کا یا مٹی کا ذکر کیا ہے لیکن آپ کے ذکر کے ساتھ۔

ابن عقیل اور امام بہوتی حنبلی نے حجرہ اور کعبہ میں تقابل کیا ہے اور یہ تقابل انہوں نے وزنا کیا ہے:۔
الكعبة أفضل من مجرد الحجرة فأما والنبي صلى الله عليه وسلم فيها فلا والله ولا العرش وحملته والجنة ; لأن بالحجرة جسدا لو وزن به لرجح
شرح منتہی الارادات 1۔ 568 ط عالم الکتب


یہی بات ابن عقیل نے بھی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تو ہر ذی ہوش جانتا ہے کہ نبی ﷺ افضل المخلوقات ہیں اور کعبہ کے مقابلے میں آپ زیادہ افضل ہیں۔ آپ کے صرف جسد کو وزن کیا جائے تو کعبہ سے افضل ہوگا۔ تو جسد سمیت حجرہ کا افضل ہونا تو ظاہر ہے ہی۔ تو جب یہ ایک عام بات ہے تو اسے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن عقیل اور بہوتی نے بھی تمام علماء کی طرح تقابل حجرہ اور کعبہ میں ہی کیا ہے اور نبی ﷺ کی موجودگی کا ذکر کر کے آپ سے حجرہ کا تعلق ذکر کیا ہے۔ یعنی اگر نبیﷺ کو ہٹا دیا جائے تو کعبہ افضل ہے اور اگر نبی ﷺ موجود ہوں تو حجرہ افضل ہے۔ کیوں افضل ہے؟ آپ کے اس میں حلول یا وجود کی وجہ سے۔
اسی بات کو دیگر نے یوں کہا ہے: وہ قبر افضل ہے جو ملی ہوئی ہے آپ کے اعضاء سے۔
یہاں بھی آپ سمیت فضیلت نہیں دی جا رہی بلکہ آپ کی موجودگی میں فضیلت دی جا رہی ہے۔ فرق دونوں میں باریک سا ہے فلیتدبر۔
(اور اگر بالفرض کوئی بضد ہی ہو کہ نہیں ابن عقیل نے نبی ﷺ سمیت وزن کی ہی بات کی ہے تو پھر میں یہ کہوں گا کہ ابن عقیل نے بات کی بھی مکمل حجرہ کی ہے اور ہماری بات قبر، بقعہ، تراب کے بارے میں چل رہی ہے اور دونوں میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ لہذا موضوع مختلف ہونے سے اس بات کو زیادہ سے زیادہ باہر نکالا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ (اصل بات وہی ہے جو میں نے پہلے کہہ دی))

یہی بات المہند لکھنے والے نے تحریر کی ہے (اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے رد المحتار سے لی ہے۔) چناں چہ اب جس جانب جی چاہیں اس بات کو موڑتے لے جائیں۔ یہ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ جو اعتراض صاحب مہند پر ہوگا وہی باقی سب پر بھی ہوگا۔

یہاں ایک اعتراض یہ ہے کہ کیا یہ اجماع ہے یا فقط دعوی اجماع؟
محترم انس بھائی فرماتے ہیں:۔

ثانیا: اشماریہ صاحب کی تمام پوسٹس دیکھیں۔ روضہ رسولﷺ کے کعبہ، عرش وکرسی سے افضل ہونے کی ان کی کل دلیل ’اجماع‘ ہے۔ صرف اسی ’اجماع‘ کی بنا پر وہ دوسروں پر گرج برس رہے ہیں۔ انہیں خود بھی تسلیم ہے کہ کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ وغیرہ سے اس کی تائید بھی نہیں ہوتی۔

ان سے سوال ہے کہ کیا صرف ’دعوائے اجماع‘ اجماع ہوتا ہے؟؟؟

بحث ومباحثہ کے دوران ایک عام انداز ہے بعض حضرات اپنی بات میں زور پیدا کرنے کیلئے ’اجماع‘ کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی مراد بھی وہاں اجماع نہیں، کثرت رائے ہوتی ہے۔ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کثرت قلت دلیل نہیں ہے۔ فرمان باری ہے:
قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ

جن علماء نے یہاں اجماع کی بات کہی ہے ہم یہی کہیں گے کہ ان کی اس سے مراد اصطلاحی اجماع نہیں بلکہ جمہور کی رائے ہے۔ کیونکہ اجماع اسے کہتے ہیں جس کی مخالف ایک دو علماء نے بھی نہ کی ہو۔ یہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے بریلوی حضرات اپنی بہت سی بدعات کی دلیل اجماع پیش کرتے ہیں۔ حنفی حضرات تقلید شخصی، طلاق ثلاثہ اور بیس تراویح کو - اللہ معاف فرمائیں - اجماعِ امت باور کراتے ہیں حالانکہ یہ نام نہاد اجماع قرآن کریم، صحیح بخاری ومسلم کی احادیث سے ٹکراتے ہیں۔
نمبر ایک یہ کہ اجماع کے اس دعوے کو علماء امت نے قبول کیا ہے اور اجماع قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسے یہ نہیں کہا کہ یہ زور بیان میں اجماع قرار دیا گیا ہے۔ نہ ہی انہوں نے اسے جمہور کا اجماع قرار دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب ابن صلاح بخاری کے "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" ہونے پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں جب کہ ان سے پہلے کسی ایک شخص سے بھی یہ اجماع بلکہ دعوائے اجماع بھی ثابت نہیں ہوتا تو اہل حدیث حضرات کو یہ ابن صلاح کا دعوی قبو کیوں ہوتا ہے؟ وہاں وہ یہ مین میخیں کیوں نہیں نکالتے جو محترم راجا بھائی نے یہاں نکالی ہیں:۔

اگر آپ کو ایسا ہی اجماع ثابت کرنے کا شوق ہے تو فرمائیے گا کہ:
  • یہ اجماع کس صدی ہجری میں منعقد ہوا؟
  • جس صدی میں بھی منعقد ہوا، اس صدی کے کتنے علماء کے نام آپ دعویٰ اجماع کی تصدیق کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں؟
  • اجماع کے لئے کوئی کانفرنس بلائی گئی تھی یا مشرق و مغرب کے علماء کے پاس کوئی تحریر بھیجی گئی تھی جس پر سب نے تصدیقی مہر ثبت کی ہو؟
  • اجماع کے انعقاد کی وجہ کیا تھی؟ اچانک کوئی مسئلہ درپیش آ گیا تھا یا ویسے ہی شوقیہ کاوش تھی؟
  • اجماع کے لئے سب سے پہلے کس نے آواز بلند کی؟ یا تحریر لکھی؟
  • جس نے بھی پہل کی ، اسے بنا وحی کے معلوم کیسے ہوا کہ قبر کی مٹی عرش و کعبہ سے افضل ہے؟کیا فقط قیاس سے؟
  • جن علماء کو "لاخلاف" کہہ کر اجماع سکوتی میں شامل کیا جا رہا ہے، کیا کوئی ایسا ثبوت ہے کہ بلاد اسلامیہ میں ہر ثقہ عالم تک یہ من گھڑت عقیدہ پہنچایا گیا تھا؟ اور اس کے بعد بھی انہوں نے سکوت اختیار کیا؟
  • کسی عالم کا کسی بھی مسئلے پر اجماع کا دعویٰ کرنا اور دیگر چند علماء کا اس کی تصدیق کر دینا، ثبوت اجماع کے لئے کافی ہے؟ یہ سوال ضروری اس لئے ہے تاکہ دیگر مسائل میں بھی آپ کو آئینہ دکھایا جا سکے۔

ہم نے آپ سے فرمایا تھا کہ اجماع قیاسی یا اجتہادی چیزوں پر ہو سکتا ہے۔ قبر کی مٹی عرش و کعبہ سے افضل ہے ، یہ بات نہ اجتہاد ی ہے نہ قیاسی۔ یہ کسی بھی شخص کو تب ہی معلوم ہو سکتا ہے جب کہ خود اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتائیں؟ بتائیے آپ متفق ہیں یا نہیں؟
آخر وہاں اس دعوی کو قبول کیوں کر لیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اس اجماع کے دعوی سے پہلے ایسے علماء نظر آتے ہیں جو مسلم کو بخاری پر ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔
یہاں ایسا کوئی عالم نظر نہیں آتا جو اس کے خلاف کہے اور ایک بڑا عالم اس پر اجماع کا دعوی کرتا ہے۔ پھر علماء اس کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں پھر بھی یہ اہل حدیث حضرات کو قبول نہیں۔
علماء امت نے اس دعوائے اجماع کو قبول کیا اور اسے نقل بھی کیا۔ اس سے اختلاف بھی نہیں کیا۔ آپ کے ابن صلاح کے دعوی کو ماننے والے اصول کے مطابق تو یہ اجماع قبول ہونا چاہیے۔

نمبر دو اور بنیادی بات یہ کہ میں نے شروع سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ عقیدہ کفر و ضلال نہیں ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ یہ عقیدہ رکھیں۔ پھر انس بھائی کس بات پر مجھ پر گرجنے برسنے کی بات کر رہے ہیں؟
مجھے تو یہ بتائیے کہ جمہور امت کا اجماع بھی اگر اسے مان لیں تو کیا یہ اس صورت میں بھی کفر تسلیم ہو سکتا ہے؟ کیا آپ لوگوں کے سوا باقی سب کافر ہو گئے؟ اگر نہیں تو پھر یہ عقیدہ جب علماء دیوبند تک پہنچا تو وہ کافر کیوں ہو گئے؟ یہ عقیدہ مخلوق کو خالق سے بڑھانے والا کیوں بن گیا؟؟؟
الیس منکم رجل رشید؟؟؟

محترم انس بھائی کا میں شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے مجھ سے بات چیت اور میری اصلاح کے لیے وقت نکالا لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ وقت تھوڑا اور نکال کر اس تھریڈ کی پوسٹ نمبر دو پر نظر ڈال کر اپنے ہم مسلک حضرات کو بتا دیتے کہ وہ کہاں تک درست اور کہاں غلط ہیں۔

محترم انس بھائی نے قاضی عیاض اور ابن تیمیہ کے عقیدے میں فرق کیا ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ابن تیمیہ کے بجائے قاضی عیاض کے عقیدے کو علماء نے کثرت سے قبول کیا ہے۔ کیا قاضی عیاض کا عقیدہ کفریہ ہے؟؟؟؟ یہ ایک سوال ہے اور اس کا جواب میں چاہتا ہوں۔
اگر یہ عقیدہ کفریہ نہیں ہے اور اس کا رکھنا نہ رکھنا جائز ہے آپ حضرات کے نزدیک تو پھر یہ بحث میری جانب سے ختم سمجھیے کیوں کہ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں۔
اور اگر یہ عقیدہ کفریہ ہے تو پھر بتائیے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ابھی معاملہ ” عرش و کرسی و کعبہ “ بمقابلہ ” روضہء رسولﷺ کی مٹی “ تک ہی محدود ہے مگر شائد کل یہ معاملہ ” اللہ “ بمقابلہ ” رسولﷺ “ تک پہنچ جائے۔ کیونکہ ” قیاسی گھوڑے “ کو لگام دینا ” طبقہء خاص “ کےلیے ناممکن ہے وہ تمام معاملات صرف ” قیاس “ کے ہی بل بوتے حل کرنا چاہتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ فقط ” قیاسی جادو “ کی بدولت وہ ” اللہ “ بمقابلہ ” رسولﷺ “ والا معاملہ بھی حل کر لیں گے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
انس آپ جان بوجھ کر بات کو گڈمڈ کرنا چاہ رہے ہیں یا کچھ اور؟
اشماریہ بھائی بار بار مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں بات کو گڈ مڈ کر رہا ہوں حالانکہ حقیقت میں وہ خلطِ مبحث کر رہے ہیں۔ (ابتسامہ!)

چلیں میں بات کو مزید نکھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

تین موضوعات الگ الگ ہیں:

1. کسی بھی عام قبر کی مٹی کی فضیلت، خانہ کعبہ، اللہ کے عرش اور کرسی پر ...
یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے کیونکہ عام مٹی یا قبر کی فضیلت کی بات کوئی سر پھرا شخص ہی کر سکتا ہے۔

2. روضۂ رسولﷺ کی مٹی -جو نبی کریمﷺ کے جسدِ اطہر سے مس ہوئی - کی فضیلت، خانہ کعبہ، اللہ کے عرش وکرسی پر --- یعنی اکیلی اس مبارک مٹی کی فضیلت، جسد اطہر کے علاوہ ...
یہی مسئلہ اختلافی ہے۔ یہی تھریڈ کا موضوع ہے۔ اسی کے متعلق بات چیت جاری ہے۔ ابن عقیل کی حجرہ سے مراد بھی یہی ہے۔ (وگرنہ کسی عام حجرہ کی کعبہ پر فضیلت کی بات کون بے وقوف کرے گا؟) اسی کی بات امام ابن تیمیہ کر رہے ہیں۔ ہم اسی پر اشماریہ صاحب سے بار بار دلیل مانگ رہے ہیں جو ابھی تک انہوں نے پیش نہیں کی۔

3. روضۂ رسولﷺ کی مٹی -جو نبی کریمﷺ کے جسدِ اطہر سے مس ہوئی - کی جسدِ اطہر سمیت فضیلت ...
یہ بھی ہمارا موضوع نہیں اور نہ ہی یہ اس تھریڈ کا موضوع ہے، کیونکہ یہاں اکیلی اس مبارک مٹی کی نہیں بلکہ نبی کریمﷺ سمیت فضیلت کی بات ہو رہی ہے، تو نبی کریمﷺ کی ذات بابرکات کی فضیلت میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ اور اگر اس میں سے نبی کریمﷺ کے جسدِ اطہر کو الگ کر دیا جائے تو پھر یہ تیسرا موضوع نہیں بلکہ اس سے اوپر والا یعنی دوسرا موضوع بنتا ہے۔
واضح رہے کہ جن علماء نے مٹی کے ساتھ ’ضم‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، مثلا:
الموضع الذي ضمه - صلى الله عليه وسلم -
البقعة التي ضمت أعضاء الرسول
التربة التي ضمت أعضاءه الكريمة

تو ان کی مراد یہ تیسرا موضوع ہے۔ کیونکہ ضم سے مراد صرف مس کرنا نہیں ہے بلکہ جسدِ اطہر سے سمیت مٹی مراد ہے۔

اب مشکل یہ ہے کہ ہماری بات چیت دوسرے موضوع پر ہو رہی ہے لیکن اشماریہ بھائی دلائل بار بار تیسرے موضوع کے پیش کر رہے ہیں۔ اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ اجماع کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ جمہور کا اجماع ہے اور اس کے مخالفین بھی موجود ہیں۔ گویا یہ جمہور کی رائے ہوئی۔ کیا اشماریہ صاحب کے نزدیک جمہور کی رائے حجت ہوتی ہے؟؟!

اوپر کئی جگہ وہ نہایت صراحت سے کہہ چکے ہیں کہ وہ جسدِ اطہر سمیت مٹی (تیسرے موضوع) کی بات کر رہے ہیں، دیکھئے:
اس مس کا مطلب ہی یہ ہے کہ جسد اطہر سمیت مٹی مراد ہے۔ ویسے بہتر تھا کہ آپ وضاحت مجھ سے پوچھ لیتے بجائے حکم لگانے کے۔
میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ اس میں مجھے اختلاف ہی نہیں ہے، لیکن اشماریہ صاحب کو اصل موضوع (دوسرے موضوع) کی دلیل پیش کرنا چاہئے، جو وہ پیش نہیں کر رہے!!!

یہ جو میں نے ہائیلائٹ کیا ہے میں اس سے متفق ہوں۔اب ایک بار پھر واضح اور غور سے پڑھ لیں۔
نبی ﷺ کی قبر مبارک کی وہ مٹی جو نبی ﷺ کے جسد اطہر سے مس ہے ابھی، اس وقت وہ آپ کے جسد اطہر سے مس ہونے کی وجہ سے مس ہونے کی حالت میں جسد اطہر کی خصوصیت کی بنا پر کعبہ، عرش و کرسی سے افضل ہے، یہ عقیدہ رکھنا کفر نہیں ہے۔
اور نبی ﷺ کے جسد اطہر سے غیر مس ہونے کی صورت میں اس پر کعبہ افضل ہے، یہ علماء کرام کا عقیدہ ہے۔
اب اس میں مین میخ نہیں نکالیے گا۔ جو کہا ہے اس میں کوئی اور ابہام ہو تو پوچھ لیجیے گا۔
اور اگر اب آپ نے اپنی مرضی سے سوچا ہوا میرا کوئی موقف دہرایا تو وہ موقف یا اس پر رد مجھ سے متعلق نہیں ہوگا۔
جزاک اللہ خیرا۔
اشماریہ بھائی کے درج بالا اقتباس میں جس پہلی عبارت کو میں نے ہائی لائٹ کیا ہے وہ تیسرے موضوع سے متعلق ہے۔ جو ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
دوسری عبارت جسے میں نے ہائی لائٹ کیا وہ دوسرے موضوع سے متعلق ہے۔ (یہ پہلا موضوع کسی طور نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی عام مٹی یا حجرہ کی وجۂ فضیلت کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟؟) یہی اس تھریڈ کا موضوع ہے۔ یہی میرا موقف ہے اور یہاں اشماریہ صاحب اسی موقف کی تائید کر رہے ہیں۔

اس پورے تھریڈ میں اشماریہ صاحب اس کی مخالفت کرتے رہے اور یہاں تائید کر رہے ہیں اب بتائیے خلطِ مبحث کون کر رہا ہے؟؟!

انس بھائی کی اگر مراد یہ ہے کہ ابن عقیل و دیگر، سب کی مراد یہ ہے کہ "قبر مبارک کو کعبہ کے مقابلے میں نبی ﷺ سمیت وزن کیا جائے تو کعبہ پر فضیلت رکھتی ہے۔ اور اگر صرف قبر کی مٹی کا تقابل کعبہ سے کیا جائے درآنحالیکہ وہ مٹی جسد اطہر سے مس بھی ہو تب بھی کعبہ افضل ہے۔" تو یہ مراد تسلیم نہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کیوں؟
جی بالکل! یہ دوسرا موضوع ہے اور میں اسی موضوع کی بات کر رہا ہوں۔ یہی اس تھریڈ کا موضوع ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کیوں؟
جتنے بھی علماء نے یہ تقابل کیا ہے اور یہ بات کی ہے ان میں سے اکثر نے مٹی یا قبر کی ہی بات کی ہے جسد اطہر کی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے جسد اطہر سے متعلق ہونے یا جسد اطہر کی موجودگی کو ضرور ذکر کیا ہے کیوں کہ بذات خود اس مٹی میں کوئی فضیلت نہیں۔

مجھے آپ کی اس بات سے اختلاف ہے۔ انہوں نے ’ضم‘ کی بات ہے، جس سے مراد جسدِ اطہر سمیت مٹی مراد ہے کیونکہ ضم کا معنیٰ یہی ہے۔ اور کئی علماء نے تو ’ضم‘ کا لفظ استعمال کرنے کے ساتھ باقاعدہ انبیاء کرام کی ارواح یا جسدِ اطہر سمیت فضیلت کی صراحت بھی کی ہے۔ جس کے اقتباس میں اپنی پچھلی پوسٹس میں پیش کر چکا ہوں۔

ربنا اشرح لنا صدورنا ويسر لنا أمورنا واحلل عقدة من ألسنتنا يفقهوا أقوالنا
 
Top